حضرت جلال خاں عرف شیخ جمالی

حضرت جلال خاں عرف شیخ جمالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ مولانا سماءالدین کے مرید اور یکتائے زمانہ جامع اخلاق تھے آپ کا اصلی نام جلال خاں ہے شروع میں جلالی تخلص رکھا تھا لیکن بعد میں اپنے مرشد کے حکم سے جمالی تخلص رکھا، بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا لیکن اپنی قابلیت اور محنت کی بدولت کمال حاصل کرکے شاعر ہوگئے۔ شاعری کے اقسام منجملہ مثنوی، غزل اور قصیدہ کہتے تھے، آپ کے اشعار سے اہل سخن واقف ہیں، آپ مثنوی اور غزل کی بہ نسبت قصیدہ زیادہ اچھا کہا کرتے تھے۔

خوب سیرو سیاحت کی اور حرمین شریفین کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے، مولانا عبدالرحمٰن جامی قدس سرۂ اور جلال الدین دوانی سے بھی آپ نے ملاقات کی ہے آپ ظاہری اور باطنی طورپر عظمت رکھتے تھے، جلسوں میں شرکت فرماتے تھے اور اپنے عزائم میں بڑے دلیر اور پکے تھے مجلس میں بڑے بڑے لوگوں کو آپ کے سامنے گفتگو کی مجال نہ ہوتی، آپ کی زندگی کا بتدائی دور سلطان سکندر بن بہلول کے زمانے سے ہے، سلطان بابر کے نزدیک بھی آپ معزز تھے، آپ نے اس کے لیے بھی ایک قصیدہ لکھا ہے جس کا ایک شعر یہ ہے  

شاہ دشمن کش ظہیرالدین محمد بابر آنکہ
کشور بنگالہ را ازلغار کابل بشکند

اسی طرح ہمایوں بادشاہ کی شان میں بھی قصائدلکھے ہیں، آپ کو اپنے مرشد سے بے حد عقیدت تھی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں آپ کا یہ شعر مشہور ہے بعض بزرگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب میں اس شعر کی قبولیت کی بِشارت بھی پائی ہے۔

موسیٰ زہوش رفت بیک پر توصفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی

قطب صاحب میں آپ نے اپنی زندگی میں اپنا مقبرہ بنایا تھا یہاں زندگی میں رہاکرتے تھے اور وہیں مدفون ہیں۔ آپ نے 10؍ذی القعدہ 942ھ میں وفات پائی، یہ وہ سال ہے جبکہ آپ ہمایوں بادشاہ کے ہمرا گجرات تشریف لے گئے تھے اور وہیں آپ کی روح پرواز ہوئی تھی۔

شیخ جمالی کے دوبیٹے تھے، ایک شیخ عبدالحی جن کا تخلص میاتی تھا، مکارم اخلاق کا مجموعہ اور بڑے خوبیوں کے بزرگ تھے، اپنے زمانہ میں جامع فاضائل اور مرجع شرفاءتھے، شیخ جمال ان سے بڑی محبت کرتے اور دل سے چاہتے تھے۔

فی البدیہہ شعر کہتے اور بکثرت کہتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ اگر شعر گوئی کی قوت کو وہ فکر صحیح اور زمانہ شناسی میں صرف کرتے تو بہت کچھ انوکھی باتیں ان سے ظاہر ہوتیں، سادہ زندگی بسر کرتے اور عجیب و غریب واقعات سناتے تھے، ہمیشہ دوستوں کی دلجوئی میں لگے رہتے، چونکہ ہر ایک جماعت کے رازدار تھے اسی لیے مزید شہرت کے مالک ہوئے، عزت اور بزرگی کے باوجود ہر ایک سے بلاتکلف تھے، معمولی سی آمدنی میں بڑے ہی خوش اور مگن رہا کرتے تھے، کسی کو آپ کی کُلفت و محنت زرہ برابر معلوم نہ ہوتی تھی روزانہ سیروسیاحت اور شوق و ذوق میں رہتے تھے۔ افغانوں کے زمانہ حکومت میں جو کوئی طالب علم، شاعر یا قلندر وغیرہ افغانستان کی سمت سے دہلی آتا تو آپ کے گھر میں قیام کرتا تھا۔ حسن سلوک اور خدمت خلق کی عادت تھی جو آپ کو والد کے ترکہ سے ملی تھی۔ خوب دولت پائی اور تھوڑےہی دنوں میں اپنے دوستوں پر خرچ کردی۔ اور جوانی ہی میں جاں بحق ہوئے پیدائش 923ھ میں اور وفات 959ھ میں ہوئی آپ، کی قبر آپ کے والد کے مقبرے کے چبوترے کے باہر ہے۔ (یعنی صرف 36 برس عالم فانی میں گزارے)

سید شاہ میرک جو کہ سید شریف جرجانی کے فرزند تھے عالی نسب سید ہونے کے ساتھ تمام فنون اور نوادرات میں بے مثل تھے انہوں نے بھی شیخ عبدالحی حیاتی کی تاریخ وفات یوں کہی ہے۔

نادر العصر شیخ عبدالحی
کہ بو سفش مرا زبان نہ بود
وقت نزعش بسر رسیدم من
گفتم اے چوں تو درزماں نہ بود
سال تاریخ خویش خود فرما
کہ جزا و درد ایں زباں نہ بود
گفت تاریخ من بود نامم
بندہ وقتے کہ درمیاں نہ بود

اس میں شیخ عبدالحی کے لفظ میں سے لفظ بندہ کا استخراج کیا ہے۔

شیخ جمالی کے بڑے بیٹے شیخ گدائی تھے، بزرگی اور مرتبہ میں اپنے والد کے دوش بدوش تھے، اول و آخر میں ہمیشہ بزرگی و شوکت کے حصول کے دلدادہ رہے، دولت و عزت دنیاوی کے باوجود بڑے برگزیدہ و بزرگ تھے۔

ابتدائی جوانی میں آپ نصیرالدین محمد ہمایوں بادشاہ کے مقرب اور اس کے مصاحبوں کے زمرہ میں ملازم تھے، اس کے بعد جب شیر شاہ حملہ کرکے تخت شاہی پر قابض ہوگیا تو آپ چونکہ ہمایوں بادشاہ سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس شہر کو چھوڑ کر گجرات روانہ ہوئے۔ وہاں سے مع بال بچوں کے ساتھ زیارت حرمین شریفین کا قصد کیا، پھر شہنشاہ وقت جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کے دور میں وطن واپس ہوئے خانِ خاناں محمد بیرم خاں سے چونکہ آپ کے تعلقات تھے اس لیے پھر حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، اس کے بعد بعض خفیہ حالات اور عشق الٰہی کی وجہ سے تارکُ الدنیا ہوکر خان خاناں کے مشورہ سے حرمین شریفین روانہ ہوئے، یہ 968ھ کا واقعہ ہے ابھی آپ راستہ ہی میں تھے کہ بعض دشمنوں نے حملہ کرکے آپ کو سخت تکلیف پہنچائی جہاں سے لوٹ کر کوہ جیسلمیر میں قیام پذیر ہوگئے لیکن کچھ عرصہ بعد دہلی واپس آگئے، اور حکومت کی جانب سے جو پنشن آپ کو ملتی تھی اسی پر قناعت کرتے رہے، اور یہیں دہلی میں مقیم رہے اگرچہ اس وقت آپ بوڑھے تھے لیکن زندگی کے باقی دن ماہر و ناز نینوں کے ساتھ باغوں میں بسر کیے اور پھر جب 976ھ میں موت کا پیام آیا تو سب کچھ چھوڑکر عالم جاودانی کی جانب کوچ کیا۔

اخبار الاخیار

حضرت مولاناشیخ جمالی(رحمتہ اللہ علیہ)

حضرت مولاناشیخ جمالی برہان ملت ہیں،گنج عزلت ہیں،بادشاہ عالم رازہیں،رازدارجہاں نوازہیں۔

نام اورتخلص:

پہلےآپ کانام حامدبن فضل اللہ تھا،آپ کےپیرومرشدحضرت مخدوم سماء الدین سہروردی نے آپ کاجمالی رکھا،۱؎یہ بھی کہاجاتاہےکہ پہلےآپ کانام جلال خاں تھا،لیکن اپنےپیرومرشدکےحکم سےآپ نےاپنانام جمال خاں رکھا،۲؎پہلےآپ کاتخلص جلالی تھا،پھرپیرومرشدکےحکم سے آپ نے اپناتخلص جمالی رکھا۔

تعلیم وتربیت:

صغرسنی میں آپ کےسرسےوالد کاسایہ اٹھ گیا۔اپنی خداداداستعداد اورقابلیت فطری کےسبب عمدہ تعلیم و تربیت سےبہرہ مندہوئے،آپ نےعلوم رسمی میں فضیلت حاصل کی۔

بیعت وخلافت:

علوم ظاہری کی تکمیل کےبعدآپ نے شمع عقیدت قلبی کوقندیل مرشدسےروشن ومنورکیا۔ حضرت مخدوم سماءالدین سہروردی کےحلقہ ارادت میں داخل ہوئےاورخلاف طریقت سے سرفراز ہوئے۔پیرروشن ضمیرکی خدمت میں رہ کرعبادات،ریاضات اورمجاہدات کئےاورآخرکار درجہ کمال کوپہنچے۔پیرومرشدکووضوکرانےکی خدمت آپ کے سپردتھی۔رومال،طشت اورلوٹا، آپ اپنےپاس رکھتےتھے،آپ شہرسےباہرجاکرپیرومرشدکےواسطےاستنجےکےڈھیلےٹوکری میں بھرکراورٹوکری کوسرپررکھ کرلاتے تھے۔

پیرومرشدکی آپ سے محبت:

آپ کےپیرومرشدکوآپ سےبےحدانس تھا،آپ خودفرماتےتھے۔

"حضرت مخدوم کوفقیرکےساتھ ازمحبت تھی،جب میں بیت اللہ کوگیا،ہمیشہ میرےحق میں تہجد کےوقت یہ دعافرماتےتھے"۔

اللّٰھم ارجع الجمالی الیناسالماً ومانماورزقنامشاھدۃ جمالہ نورینی بنور لقائہ برحمتک یاارحم الراحمین۔

ترجمہ:اےخدا!پہنچادےجمالی کومیرےپاس صحیح وسالم اورروزی کرمجھ کواس کےجمال کادیکھنااور روشن کرمیری آنکھیں اس کےنوردیدارکےساتھ رحمت اپنی کے۔اےسب رحم والوں سے زیادہ رحم والے۔آپ فرماتے ہیں کہ۔

"جب زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوکرشرف اندوزملازمت ہوابغل گیرہوئے،پیارکیااور فرمایا۔میری برسوں کی دعاجوتہجدکےوقت کیاکرتاتھا۔فضل الٰہی سےمقرون باجابت ہوئی"۔

سیروسیاحات:

آپ نےبحکم سیروفی الارض دنیاکی خوب سیرکی اورخداوندتعالیٰ کی کاریگری اور اس کی صفات کودیدہ حق میں سے خوب دیکھا۔حرمین شریف کی زیارت سےمشرف ہوئے،مدینہ منورہ پہنچ کر فیضان نبوی سےمستفید ہوئے۔ملتان،یمن،مصر،بغداد،بیت المقدس،روم ،شام،عراق،عرب و عجم،آذربائی جان،گیلان،مازندران،خراسان بہت سےممالک کی سیرکی اوربہت سےاولیائے کرام وپیران عظام وشعرءنامدارسےملاقات کی۔۲؎

ملتان میں آپ حضرت بہاءالدین زکریاملتانی رحمتہ اللہ علیہ کےمزارپرانوار پرحاضرہوئےاور شیخ صدرالدین سےملاقات کی۔ہرات میں آپ حضرت شیخ صوفی،حضرت شیخ عبدالعزیزجامی، مولانا نورالدین جامی،حضرت مولانامسعود شروانی اورمولاناحسین سے ملے۔بغدادمیں آپ نےغوث الاعظم پیران پیراورحضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کےمزارات پرحاضر ہوکردولت سرمدی

حاصل کی۔

ہرات کا ایک واقعہ:

جب آپ ہرات پہنچے،پریشان حال تھے۔آپ کےجسم مبارک پرصرف ایک تہ بندتھا۔کوئی دوسرا کپڑانہیں تھا۔آپ حضرت جامی سے اسی حال میں ملنےگئے،اسلام علیکم کرکےحضرت جامی کےبرابر جابیٹھے،یہ بات حضرت جامی کو ناگوارکزری،انہوں نےآپ سے کہا۔

"میان خروتوچہ فراق است"             (گدھےمیں اورتجھ میں کیافرق ہے)

یہ سن کرآپ نےبالشت بیچ میں رکھ دی۔حضرت جامی حیران ہوئےکہ یہ کون شخص ہے،آپ نے پوچھا۔"کیستی"(تم کون ہو؟)آپ کاکلام آپ کی زندگی میں وہاں مشہورہوچکاتھا۔

حضرت جامی نےپوچھا۔

"ازسخنان جمالی چیزے داری"            (کیاجمالی کی کوئی چیزیادہے)

آپ نےحضرت جامی کوکچھ اشعارسنائے،پھرحضرت جامی نےآپ سے دریافت کیا۔

"طبع شعردار"(تم بھی شعرکہتےہو) آپ نے حست حال شعرکہا۔

مارازخاک کویت پیراہن است برتن

آنہم زآب دیدہ صدچاک تابدامن

آپ نے یہ شعرپڑھااورآپ کی آنکھوں سےایک سیلاب اشک رواں ہوگیا۔حضرت جامی سمجھ گئے، یہی جمالی ہیں،وہ اٹھ کرآپ سےبغل گیرہوئے اورتعظیم و تکریم کی۔۴؎

حضرت جامی نےنہایت عزت کےساتھ اپنامہمان رکھا۔

بادشاہوں سے تعلقات:

سلطان سکندرلودھی آپ کامعتقد تھااورآپ سے انتہادرجےانس رکھتاتھا۔وہ خود شاعرتھا۔اس کا تخلص "گلرخی"تھا،وہ آپ سےاصلاح لیاکرتاتھا،جب آپ عراق،شام اورعرب سے واپس دہلی تشریف لائےتواس وقت سکندرلودھی سنبھل میں تھا،جب اس کوآپ کےآنےکاعلم ہوا،اس نے

ایک خط نظم میں لکھ کرآپ کی خدمت میں روانہ کیا،وہ خط حسب ذیل ہے۔

رقعہ منظومہ سلطان سکندربن بہلول بنام آب و رنگ لال بےمثال

شیخ جمالی دہلوی

آن مخزن گنج لایزالی

وےسالک راہ دین جمالی

درگردجہاں بسےزدہ سیر

درمنزل خودرسیدہ بالخیر

بودی تومسافرزمانہ

الحمدکہ آمدی بخانہ

درمکہ و مدینہ گشتی

گوہربودی خزینہ گشتی

اے شیخ جابرس بزودی

بسیار مسافرت نمودی

بکشائےبسوئےدرگہم گام

تادریابی زگل رخی کام

چشم بکمال توطپاں است

دل مرغ مثال درفغاں است

من اکسندرتوخضر مائی

آں بہ کہ بسوےمابیائی

درشیخ زدوستاں نشدسیر

تشریف نمودنش کشد دیر

ازمہرکشددودیدہ رانور

آں مہ نشوزدیدہ ام دور

بابراورہمایوں کوبھی آپ سےبےحدعقیدت تھی،وہ دونوں بادشاہ بھی آپ کا بڑااعزازواکرام کرتےتھےاورکئی بارگلہائےعقیدت پیش کرنےآپ کےدردولت پرحاضرہوئے۔۵؎

اولادامجاد:

آپ کےدولڑکےتھے،شیخ عبدالحی اورعبدالصمدعرف شیخ گدائی۔

وفات شریف:

آپ نے۱۰ذیقعد۹۴۲ھ کووصال فرمایا،آپ کامزارمبارک مہرولی میں واقع ہے۔آپ کامقبرہ عالی

شان ہے۔آپ کی تاریخ وفات"خسروہندبودہ"ہے۔اس کےعلاوہ"طالب اہل جمال معرفت" اور "ماہ خلدبریں"بھی آپ کی وفات کی تاریخیں ہیں۔۶؎

سیرت پاک:

آپ قطب وقت تھے۔بڑےعابدوزاہدتھے۔ذکروفکرمیں ہمہ تن مشغول رہتےتھے۔بہت متقی پرہیزگارتھے۔نہایت منکسرالمزاج تھے،ایک باوقار بزرگ تھے،اپنےپیرومرشدسے انتہائی محبت اور عقیدت تھی،اپنےپیرومرشدکی خدمت کواپنےلئے باعث فخراورسعادت سمجھتے تھے۔سعادت اور ارادت سےسرفرازاورمریدوں میں ممتازتھے۔جمال صوری اورکمال معنوی سےآراستہ تھے، آپ کے متعلق یہ کہاگیاہےکہ۔۷؎

"شیخ جمال دہلوی،جمال باکمال اورزبان خوش مقال رکھتےتھے"۔

صوفیوں کی بزم میں آپ عارف گرامی تھے،علماء کی مجلس میں آپ ممتازدرجہ رکھتےتھے۔

علمی ذوق:

آپ کی مشہورتصانیف حسب ذیل ہیں۔

سیرۃ العارفین،مراۃ المعافی۔

شعروسخن:

آپ ایک نامی شاعرتھے،جیساکہ کہاگیاہےکہ۔

"شیخ جمالی،سکندرلودھی کےعہدمیں شعرائے باکمال میں شمارہوتےتھے۔۸؎ آپ نے ایک فارسی کا دیوان چھوڑاہے،جس میں آٹھ نوہزاراشعارہیں۔مثنوی"مہروماہ"بھی آپ کی یادگارہے،آپ کی نعت کا یہ شعربارگاہ خداوندی میں مقبول ہواہے۔؂

موسیٰ زہوش رفت بیک پرتوصفات

توعین ذات می نگری درتبسمی

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتےہیں کہ حضرت سرورکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بعض صلحاء کواس شعرکےمقبول ہونےکی بشارت دی۔۹؎آپ نےخوشی خوشی فرمایا۔

"ہذاالمدحی"

کرامات:

آپ فرماتےہیں کہ کچھ لوگوں نےسلطان ابراہیم لودھی کو آپ سے مکدرکردیا۔آپ کوبھی انقباض پیداہوا،اگرچہ بعدمیں وہ کدورت محبت سے بدل گئی،لیکن سلطان ابراہیم لودھی کونہ صرت تخت و تاج سے محروم ہوناپڑابلکہ بابرکےمقابلے میں پانی پت کےمیدان میں وہ ماراگیا۔

ہرات کاواقعہ ہےکہ آپ حضرت جامی کے یہاں تھے،ان کےحجرہ خاص میں"لمعات"شیخ فخرالدین عراقی رکھی تھی۔حضرت مولانانےشیخ صدرالدین تونوی کی تعریف نےمبالغہ کیااورکہا "لمعات"جوفخرالدین عراقی نےلکھی ہے،وہ شیخ موصوف کی برکت کانتیجہ ہے،آپ کویہ بات پسند نہ آئی۔رات کوحضرت جامی رحمتہ اللہ علیہ نے خواب دیکھا۔صبح کوحضرت جامی نےخواب کاذکرکیا اورحضرت شیخ کی روح مبارک کوثواب پہنچایا۔

حواشی

۱؎المشاہیرصفحہ ۲۰۴

۲؎روضتہ الاقطاب صفحہ ۹۲

۳؎المشاہیرصفحہ ۲۰۹

۴؎درباراکبری

۵؎منتخب التواریخ،تاریخ فرشتہ

۶؎المشاہیرصفحہ ۲۱۵

۷؎خزینتہ الاصفیا

۸؎خزانہ عامری

۹؎درباراکبری

۱۰؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۴۵۲

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)


متعلقہ

تجویزوآراء