حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی
حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی علیہ الرحمۃ العزیز
آپ کی روش طریقہ میں ایک حجت اور سب فرقوں میں مقبولیت ہے۔ہمیشہ صدق و صفائی کی راہ میں شرع و سنت مصطفٰیﷺ اور بدعت و ہوی سے علیحیدہ رہنے اس کی مخالفت میں سعی کرتے رہے ہیں"اور اپنے پاک طریق کو غیروں کی نگاہ سے چھپا رکھتے تھے۔ان کو جوانی میں ذکر دل کا سبق حضرت خضر علیہ السلام سے حاصل ہوا تھا۔اس سبق پر مداومت کیا کرتے تھے۔خواجہ خضر نے ان کو اپنی فرزندی میں قبول کیا تھا اور فرمایا"پانی کے حوض میں آ"اور غوطہ لگا۔دل سے کہو لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔یہی سبق پکا لیا اور کام میں مشغول ہوئے۔ان پر بہت کچھ کشف ہو گیا۔اول حال سے آخر تک ان کا زمانہ تمام لوگوں میں مقبول اور محمودرہا۔اس کے بعدشیخ الثیوخ عالم عارف ربانی خواجہ امام یعقوب یوسف ہمدانی قدس اللہ تعالٰی روحہ بخارا میں آئے اور خواجہ عبد الخالق ان کی صحبت میں حاضر ہوئے۔معلوم کیا کہ ان کو دلی ذکرہے۔جب تک وہ بخارا میں رہے۔ان کی صحبت میں رہےکہتے ہیں کہ خواجہ خضر علیہ السلام ان کے سبق کے پیر ہیں اور خواجہ یوسف پیر صحبت و خرقہ ہیں۔خواجہ یوسف کے بعد خواجہ عبد الخالق غجدوانی ریاضت میں مشغول ہوئے اور اپنے حالات کو چھپائے رکھتے تھے۔ان کی ولایت ایسی تھی کہ ایک ہی وقت میں کعبہ میں نماز پڑھتےتھے اور پھر آجایا کرتے تھے۔شام میں ان کے بہت مرید ہوگئے۔خانقاہ آستانہ بن گیا۔
عاشورہ کے دنوں میں آپ کی خدمت میں ایک بڑی جماعت بیٹھی ہوئی تھی اور یہ لوگ معرفت میں باتیں کرتے تھے۔اتفاقاً ایک جوان آیا۔زاہدوں کی صورت میں بغل میں خرقہ اور کندھےپر مصلے گوشہ میں آکر بیٹھ گیا۔خواجہ نے اس کی طرف نظر کی۔ایک گھڑی کے بعد وہ جوان اٹھا اور کہنے لگا۔حضرت رسالت پناہ ﷺ نے فرمایاہے"اتقوافراسۃ المومن فائہ ینظر بنور اللہ عزوجلیعنی مومن کی عقل سے ڈرتے رہو۔کیونکر وہ خدائےعزوجل کے نور سے دیکھتا ہے۔اس حدیث کی حکمت کیا ہے؟ خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاہے کہاس حدیث کا بھید یہ ہے کہ تم زنار کو کاٹ ڈالو اور ایمان لاؤ۔اس جوان نے کہا" تعوذ باللہ کی میرے پاس زنار ہو۔خواجہ نے خادم سے اشارہ کیا۔خادم اٹھااور اس جوان کے سر پرسے خرقہ کو اتار کیا"تو خرقہ کے نیچے زنار تھا۔اس جوان نے فی الفور کاٹ ڈالا اور ایمان لایا۔حضرت خواجہ نے فرمایا"کہ اے یارو آؤ کہ ہم بھی اس نوجوان کی متابعت میں اپنے زناروں کو قطع کریں اور ایمان لائیں۔جس طرح اس نے اپنے ظاہری زنار کو توڑا ہے۔ہم بھی باطنی زنار کو جسے عجب و غرور کہتے ہیں کاٹ دیں۔تاکہ اس کی طرح ہم بھی بخشے جائیں۔یاروں پر ایک عجیب حالت پیدا ہوئی ہے اور خواجہ کے قدموں پر سب کے سب گڑ پڑے اور نئے سرے سے توبہ کی۔ایک دن ایک درویش خواجہ کے سامنے کہتاتھا کہ اگر خدائے تعالٰی مجھے جنت دوزخ میں اختیار دے تو میں دوزخ اختیار کروں۔کیونکہ میں تمام عمر میں اپنے نفس کی مراد کے موافق نہیں چلاہوں اور اس حالت میں بہشت میری مراد کے مطابق ہوگی اور دوزخ خدا کی مرضی کے مطابق ۔خواجہ نے اس با ت کو رد کردیااور فرمایا کہ بندہ کو اپنے اختیار سے کیا مطلب جہاں کہے گا وہاں ہم جائیں گے اور جہاں کمیگار ہو وہاں ہم رہیں گے۔بندگی یہ ہے نہ یہ کہ تم کہتے ہو اس درویش نے کہا شیطان کوراہ چلنے والوں پر کچھ قابو ہے۔خواجہ نے فرمایا کہ وہ چلنے والا کہ فنائے نفس کی حد تک نہ پہنچا ہو۔جب غصہ میں آتا ہے ۔شیطان اس پر قابو پاتا ہے لیکن وہ چلنے والا کہ جو فنائے نفس تک پہنچ چکا ہوں۔اس کو غصہ نہیں ہوتا"بلکہ غیرت ہوا کرتی ہے۔پھر جہاں غیرت ہوتی ہے وہاں سے شیطان بھاگتا ہے اورایسی صفت اس شخص کو مسلم ہے کہ جو خدا کی طرف توجہ کرتا ہے۔خدا تعالٰی کی کتاب دائیں ہاتھ میں لیتا ہےاور رسول ﷺکی سنت کو بائیں ہاتھ میں اور ان دونوں روشنائیوں میں راہ چلتا ہے۔ایک دن ایک مسافر دور سےحضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔اتفاقاً ایک خوبصورت جوان حضرت خواجہ کی خدمت میں آیا اور دعا کا طالب ہوا۔خواجہ نے دعا فرمائی پھر وہ جوان گم ہوگیا۔اس مسافر نے پوچھاکہ یہ جوان کون تھا؟ خواجہ نے فرمایا کہ فرشتہ تھا۔اس کا مقام چوتھے مقام پر تھا۔کسی تفصیر کے سبب اپنے مقام سے دور پڑا تھا۔دنیا کہ آسمان پر آگیا تھا" اور فرشتوں سے کہا کہ میں کیا کروں؟جس سے اللہ تعالٰی مجھ کو اس مقام پر پہنچائے۔فرشتوں نے اس کو میرانشان بتلایا۔اس لیے آیا تھا ہم نے دعا مانگی۔خدا نے قبول فرمائی اور پھر اپنے مقام پر پہنچ گیا۔
اس مسافر نے کہا" ہم کو ایمان کی دعا سے مدد کریں۔شاید کہ اس شیطان کے حال سے سلامتی سے چلے جائیں۔خواجہ نے فرمایا"وعدہ یہ ہے کہ ادائے فرض کے بعد ہر شخص دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے تو اپنا کام کراور ہم کودعائے خیر سے فرائض کے بعد یاد کیا کر۔ہم تم کو اور تم ہم کو یاد کریں گے۔شاید کہ اس اثناء میں دعا ظاہر ہوجائے۔تیرے حق میں بھی اور ہمارے حق میں بھی۔
(نفحاتُ الاُنس)