حضرت خواجہ ابو احمدابدال چشتی
حضرت خواجہ ابو احمدابدال چشتی علیہ الرحمۃ
آپ سلطان مرسناعہ کےصاحبزادہ ہیں۔ جو کہ چشت کےشریف اور اس ولایت کے امیر تھے۔آپ کی ایک ہمشیرہ نہایت نیک بخت تھی۔شیخ ابو اسحٰق سامی ان کے گھر میں آیا کرتے اور ان کا کھانا کھایا کرتے۔ایک دن آپ نے ان سے کہا کہ تمہارے بھائی کے لڑکا ہوگا۔جس کی بڑی شان ہوگی۔تم کو چاہیئے کہ اپنی بھاوج کی ،محافظت کرو کہ حمل کے ایام میں کوئی چیز جس میں حرام یا اس کا شبہ ہو نہ کھائے وہ ضعیفہ صالح شیخ ابو اسحٰق کے فرمان کے مطابق اپنے ہاتھ سے چرخہ کا ٹتی اور سوت کو بیچ کر اپنی بھاوج کے لیے ضروریات خرید لیتی۔یہاں تک کہ بتاریخ ۲۶۰ہجری میں و زمانہ خلیفہ مقصم باللہ کا تھا ۔ خواجہ ابو احمد پیدا ہوئے اور وہی نیک بخت پھوپھی ان کو اپنے گھر میں بوجہ حلال پرورش کر تی۔ کبھی کبھی شیخ ابو اسحٰق ان کے گھر میں آتے اور بچپنے میں خواجہ ابو احمد کو دیکھتے۔کہا کرتے کہ اس لڑکے سے ایسی خوشبو آتی ہے کہ جس سے بڑا خاندانی ظاہر ہوگا۔ عجیب حالات اور غریب آثار دیکھنے میں آئیں گے۔ جس وقت کہ خواجہ ابو احمدبیس سال کی عمر کے ہوگئے اور اپنے والد سلطان فرسنامہ کے ساتھ شکار کے قصد سے پہاڑ کی طرف گئے۔شکار کی حالت میں اپنے باپ اور ان کے نوکر چاکروں سے علیحدہ ہو گئے۔ایک پہاڑپہنچےدیکھا کہ چالیس شیخ اہل اللہ میں سے ایک پتھر پر کھڑے ہیں اور شیخ ابواسحٰق شامی ان میں موجود ہیں۔ آپ کا حال متعیز ہوگیا۔گھوڑے پر سے اترے اور شیخ کے پاوُں پر گر پڑے۔ گھوڑا اور ہتھیار جو کچھ تھا سب کچھ چھوڑ دیااور پشمینہ پہن لیا،ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ہر چند ان کے باپ اور متعلقین نے ان کو طلب مگر نہ پایا۔بعد چند روز کے خبر آئی کہ شیخ ابو اسحٰق کے ساتھ پہاڑ کے فلاں موقع پر رپتے ہیں۔ان کے باپ نے ایک جماعت کو بھیجا کہ اس کو لے آ ئیں وہ لے آئے۔ہر چند نصیحت کی اور قید بھی کیا لیکن جس دھن میں آپ پڑ گئے تھے۔بھلا اس سے کہیں نکال سکتے تھےکہتے ہیں کہ ان کہ باپ کو اطلاع دی۔اس نے چھت پر چڑ کر نہایت غصہ سے ایک بڑا پتھراٹھایا کہ روزن میں سے ان کو مارے وہ روزن (کھڑکی)بند ہوگئی اوراس نے پتھر کو پکڑ لیایا یو کہتے ہیں کہ پتھر کو ہوا نے روک لیا اور وہ معلق کھڑا رہا۔آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی جب باپ نے یہ حال دیکھا تو اپنے بیٹے کے ہاتھ پر توبہ کی ۔ان سے اس قسم کی بہت سی کرامات اس قدر نہیں ہوئیں کہ ان کوتفسیل وار بیان کیا جا سکے۔آ۳۵۵ہجری میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)