حضرت خواجہ یوسف ہمدانی
حضرت خواجہ یوسف ہمدانی علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو یعقوب ہے۔امام عالم ، عارف رہانی ، ڈاحب احوال اور بڑی خدا کی مہربانیوں کرامات و مقامات جلیلہ والے تھے۔ابتدا میں بغداد میں گئے اور شیخ ابو اسحٰق شیرازی کی خدمت میں جا کر رہے۔ان کا کام ترقی پکڑ گیا۔اپنے ہمعصروں پر علم فقہ وغیرہ خصوصاً علم منطق میں بڑھ گئے۔شیخ ابو اسحٰق باوجوز چھوٹی عمر ہونے کے اپنے بہت سے شاگردوں پر اول نمبر پر بٹھایا کرتے،اور بغداد اصفہان سمر قند میں ایک جماعت مشائخ سے حدیث کا سماع کیا ۔بعد ازاں سب کچھ ترک کردیااور عبادت،زیارت،مجاہدہ کا طریق اختیار کیا۔مشہور یہ ہے کہ ان کے تصوف کی نسبت شیخ ابو علی فارمدی سے ہے۔کہت ہیں کہ شیخ ابو عبداللہ جوینی اور شیخ حسن سمنانی کی صحبت میں بھی رہے ۔مرد میں مقیم تھے اور وہاں سے ہرات میں آئے۔کچھ مدت وہاں اقامت کی۔ بعد ازاں اہل مرد نے ان سے واپس ہونے کی التماس کی۔تب مرد میں آئے،اور پھر ہرات میں گئے۔اس کے بعد مرد کو لوٹنے کا قصد کیا۔لیکن راستہ میں انتقال ہوگیا۔۵۳۵ھ میں وہیں فوت ہوئے اور تھوڑی دیر بعد مرد میں چلے گئے۔ان کا مزار مرد میں ظاہر و مشہور ہے۔شیخ محی الدین العربی اپنی بعض تصانیف میں فرماتے ہیں کہ ۶۰۲ھ اوحد الدین کرمانی شہر قونیہ میں میرے مکان میں تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خواجہ یوسف ہمدانی جو کہ ساٹھ سال سے اوپر شیخت کے سجادہ اور ارشاد پر بیٹھے ہوئے تھے۔ایک دن اپنے گوشہ میں بیٹھے تھے کہ باہر نکلنے کو جی چاہا۔ان کی عادت نہ تھی کہ جمعہ کے سوا کسی اور دن باہر نکلیں۔اس لیے یہ بات ان پر گراں گزری۔ان کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا چا ہیے۔گھوڑے پر سوار ہوئے اور اس کی باگ چھوڑدی کہ جہاں خدا چاہے وہاں لے جائے۔وہ گھوڑا ان کو شہر سے باہر جنگل میں لے گیا۔یہاں تک ایک ویران مسجد میں ان کو پہنچا کر کھڑا ہوگیا۔شیخ نیچے اتر آئے اور مسجد میں گئے۔دیکھا کہ ایک شخص نے سے نیچا کیا ہوا ہے۔ایک گھڑی کے بعد اس نے سر اٹھایا تو وہ ایک جوان بارعب تھا۔کہنے لگا، اے یوسف مجھے ایک مشکل مسئلہ پیش آیا ہے ۔اس کو ذکر کیا ۔شیخ نے وہ بیان کردیا۔اس کے بعد کہا اے فرزند جب تک مو کوئی مشکل پیش آئے تو شہر میں آیا کرواور مجھ سے پوچھ لیا کرو۔لیکن مجھے رنج نہ دیا کرو۔چیخ نے کہا اس جوان نے میری طرف دیکھااور کہا کہ جب مجھے کوئی مشکل پیش آئے گی تو میرے لیے ہر ایک پتھر تم جیسا یوسف بن جائے گا ۔شیخ ابن العربی کہتے ہیں کہ میں نے وہاں سے جان لیا کہ سچا مرید اپنی سچائی سے شیخ کی تحریک اپنی طرف کرسکتا ہے۔شیخ نجیب الدین برغش شیرازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ چند جز جسم میں مشائخ کے حالات تھے۔میرے ہاتھ لگے ۔ میں نے ان کا مطالعہ کیااور میرا وقت خوش ہوا۔میں اس کا طالب تھا کہ یہ معلوم کروں ،کس کی تصنیف ہے؟کہ اس کے کلام میں سے کچھ حاصل کروں۔ایک رات میں نے خواب میں دیکھا،ایک بوڑھا با رعب و وقار سفید ریش،نہایت نورانی چہرہ خانقاہ میں آیااور وضو خانہ میں گیا کہ وضو کرے۔کپڑے بہت عمدہ سفید پہنے ہوئے تھے۔اس کی جامہ پر بڑے موٹےخط سے سنہری حرفوں میں آیتہ الکرسی لکھی ہوئی تھی۔وہ جامہ بھی مجھے دیا اور کہااس کو سنبھال کر رکھناتاکہ میں وضو کرلوں۔جب وضو کرلیا تو کہا کہ اس جامہ میں سے تم کو ایک دیتا ہوں۔تم کس کو چاہتے ہو۔میں نے خود اختیار نہ کیا اور کہا کہ جو آپ پسند فرمائیں۔وہ دیں انہوں نے مجھے سبز جامہ پہنا دیا۔اور سفید کو خود پہن لیا۔پھر کہا تم مجھے پہچانتے ہو،میں اس جزو کا مصنف ہوں کہ جس کے تم طالب ہو۔مجھے ابو یوسف ہمدانی کہتے ہیں اور اس کا نام زبدۃ الحیوۃ ہے۔میری اور تصانیف بھی ہیں کہ وہ اس سے بہتر ہیںجیسے"منازلالسائرین"اور"منازل السالکین"۔
جب میں خواب سے بیدار ہوا تو میں بہت خوش ہوا۔یوں کہتے ہیں کہ وہ ایک زمانہ میں نظامیہ بغداد میں وعظ کہتے تھے۔ایک فقیہ جس کو ابن السقا کہا کرتے تھے۔مجلس میں کھڑا ہوگیااور مسئلہ پوچھا۔آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاکیونکہ تیرے کلام میں کفر کی بدبو آتی ہے۔اور شاید کہ تیری موت اسلام پر نہ ہو۔اس بعد ایک نصرانی سفیر بن کرروم کے بادشاہ کی طرف سے خلیفہ کی طرف آیا۔ابن سقا اس کے پاس گیااور اس سے مصاحبت کی درخواست کی اورکہامیں چاہتا ہوں کہ دین اسلام کو چھوڑ دوںاور تمہارے دیں میں آجاؤں۔نصرانی نے اس کو قبول کیا اور اس کے ساتھ قسطنطنیہ میں چلا گیا۔روم کے بادشاہ سے جا ملا ۔نصرانی ہوگیا اور نصرانیت کی حالت میں مر گیا۔کہتے ہیں کہ ابن السقا حافظ قرآن تھا۔مرد عورت میں اس سے پوچھا گیا کہ قرآن مین سے تمہیں کچھ یاد ہے۔کہا کچھ یاد نہیں مگر یہ آیت ربما یوت الذین کفر والو کانو مسلمینیعنی اکثر کافر اس بات کو چاہیں گےاور پسند کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔بعض لوگ ابن السقا کے قصہ کو اور اس طرح بیان کرتے ہیں۔چنانچہ شیخ محی الدین عبدالقادر گیلانی علیہ الرحمۃ کے حالات میں انشاءاللہ آئے گا۔خواجہ یوسف ہمدانی قدس اللہ تعالی سرہ کے چار خلیفہ ہیں۔خواجہ عبداللہ برقی،خواجہ حسن اندقی ،خواجہ احمد بسوی۔خواجہ عبدالخالق عجدوانی قدس اللہ تعالی اسرار ہم اور خواجہ یوسف کے بعد ان چاروں میں سے ہر ایک مقام دعوت میں تھے۔دوسرے خلفاء ادب کے طریق پر ان کی خدمت میں رہےہیں اور جب خواجہ احمد بسوی نے ترکستان کی طرف جانے کا ارادہ کیاتو سب یاروں کو خواجہ عبدالخالق کی متابعت کا اشارہ کیا۔ایسا ہی اس خاندان کے متاخرین مشائخ رحمھم اللہ کے بعض رسالوں میں لکھا ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)