حضرت خواجہ علی رامتینی ملقب بہ عزیزاں علی
حضرت خواجہ علی رامتینی ملقب بہ عزیزاں علی رحمۃ اللہ علیہ
رامتین نزد بخارا (۵۹۱ھ/ ۱۱۹۵ء۔۔۔۷۲۱ھ/ ۱۳۲۱ء) خوارزم
قطعۂ تاریخِ وصال
دین کی تبلیغ فرمائی جہاں |
|
نور سے معمور تھی وہ انجمن
|
(صاؔبر براری، کراچی)
آپ حضرت خواجہ محمود فغنوی قدس سرہ کے خلفاء میں سے ہیں۔ سلسلۂ خواجگان میں آپ کا لقب عزیزاں ہے اور حضرت عزیزاں علی کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ آپ کے مقاماتِ عالیہ اور کراماتِ عجیبہ بہت ہیں۔ آپ صنعتِ بافندگی میں مشغول و مصروف رہا کرتے تھے۔ عارفِ جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرتِ عام اور بقائے دوام کی حامل کتاب ’’نفحات الانس‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’میں نے بعض اکابر سے یوں سنا ہے کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ کے شعرِ ذیل میں آپ (خواجہ عزیزاں علی) ہی کی طرف اشارہ ہے ؎
گرنہ علمِ حال فوقِ قال بودے کے شُدے
علمِ حال اگر قال سے بہتر نہ ہوتا تو سرداران
بندہ اعیانِ بخارا خواجۂ نساج را
بخارا خواجہ نساج (بافندہ) کے کب غلام بنتے
آپ کی پیدائش موضع رامتین (بخارا شہر سے چھ میل دور) ۵۹۱ھ میں ہوئی۔ اتفاقاتِ زمانہ سے آپ رامتین سے باورد میں تشریف لائے اور ایک مدت تک یہاں کے لوگوں کو راہ خدا بتاتے رہے بعد ازاں خوارزم شہر میں مقیم ہوگئے اور حسبِ معمول ہدایتِ خلق اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے۔ خوارزم میں بہت سے لوگ آپ کے سلسلہ میں داخل ہوئے۔
آپ حضرت خواجہ محمود الخیر فغنوی قدس سرہ کے خلفاء کبار میں سے ہیں جب حضرت خواجہ محمود الخیر کا وقتِ آخر قریب پہنچا تو انہوں نے اپنی خلافت اور جمیع اصحاب آپ کے سپرد کردیے۔ آپ حضرت خضر علیہ السلام کے صحبت دار تھے اور انہی کے اشارہ سے ہی حضرت خواجہ محمود فغنوی کے مرید ہوئے تھے۔
کرامات:
۱۔ حضرت سیّد انا رحمۃ اللہ علیہ اور آپ (حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ) ہمعصر تھے اور کبھی کبھی ایک دوسرے سے ملاقات بھی کرلیا کرتے تھے۔ شروع شروع میں سید انا کا دل آپ کے متعلق صاف نہیں تھا چنانچہ ایک روز سید اتا کی طرف سے آپ کی شان میں کوئی بے ادبی اور گستاخی وقوع پذیر ہوگئی۔ اتفاق سے ایسا ہوا کہ انہیں دنوں ایک جماعت دشتِ قبچاق کی طرف سے حملہ آور ہوئی اور سید اتا رحمہ اللہ کے لڑکے کو پکڑ کر لے گئی۔ سید اتا رحمۃ اللہ علیہ کو خیال آیا کہ یہ حادثہ اُس بے ادبی کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوا ہے فوراً آکر معذرت کی اور آپ کی اپنے ہاں دعوت کی جسے آپ نے قبول فرمالیا۔ آپ اُن کی دعوت میں تشریف لے گئے۔ دعوت میں بڑے بڑے علماء اور مشاہیرِ مدعو تھے۔ آپ اُس روز نہایت خوش وقت اور عالمِ کیفیت میں تھے۔ جب خادم نے دستر خوان بچھایا اور نمکدان لایا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ علی (حضرت نے اپنے آپ کو مخاطب کیا) اس وقت تک اپنی انگلی نمک پر نہ رکھے گا اور نہ ہاتھ کھانے کی طرف بڑھائے گا جب تک کہ سیّد اتا کا لڑکا دستر خوان پر حاضر نہ ہوجائے۔ یہ کہہ کر آپ نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا تو اچانک لڑکا دروازے سے اندر داخل ہوا۔ مجلس میں یکبارگی شور بلند ہوا اور سب کے سب حیران رہ گئے۔ لڑکے سے اُس کے آنے کی کیفیت دریافت کی گئی تو اس نے بتایا کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ ابھی ابھی ترکوں کی قید میں تھا اور وہ مجھے اپنے ملک میں لے جا رہے تھے لیکن اب دیکھ رہا ہوں کہ آپ سب کے سامنے حاضر ہوں۔ اہل مجلس کو یقین ہوگیا کہ یہ آپ (حضرت عزیزاں) کا تصرف ہے۔ سب آپ کے پاؤں پر گر پڑے اور مرید ہوگئے۔
۲۔ ایک روز آپ کے ہاں ایک عزیز مہمان آگیا۔ گھر میں کھانے کے لیے کوئی چیز نہ تھی۔ آپ پریشان ہوکر گھر سے نکلے۔ اچانک آپ کا ایک معتقد طعام فروش لڑکا کھانے کی بھری ہوئی دیگ سر پر اٹھائے ہوئے آپہنچا، اُس نے عرض کی کہ میں نے یہ کھانا آپ کے خادموں کے لیے تیار کیا ہے، اُمیدوارِ شرفِ قبولیت ہوں۔ آپ کو اُس لڑکے کی یہ خدمت بہت پسند آئی۔ جب مہمان کھانا کھاچکے تو اُس لڑکے کو بلاکر فرمایا ہم تیری اس خدمت سے بہت خوش ہیں،اب تیری جو مراد ہے ہم سے بلادھڑک مانگ،ان شاء اللہ تعالیٰ پوری ہوجائے گی۔ لڑکا بہت زیرک اور دانا تھا، بولا کہ میں چاہتا ہوں کہ خواجہ عزیزاں بن جاؤں۔ آپ نے فرمایا یہ تو نہایت مشکل ہے، اس قدر بھاری بوجھ اٹھان کی تجھ میں ہمت اور طاقت نہیں ہے لڑکے نے عرض کیا کہ میری مراد تو پھر یہی ہے اس کے سوا کوئی آرزو نہیں ہے۔
سب کچھ مانگ لیا تجھ کو تجھی سے مانگ کر
اب اٹھتے نہیں ہیں میرے ہاتھ اس دعا کے بعد
آپ نے ارشاد فرمایا کہ بالکل اسی طرح ہوجائے گا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر جلوت سے خلوتِ خاص میں لے گئے اُس پر توجہ ڈالی اور وہ لڑکا تھوڑی سی دیر میں صورت و سیرت میں آپ کی طرح کابن گیا اس کے بعد وہ تقریباً چالیس روز زندہ رہا اور پھر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گیا۔
۳۔ کہتے ہیں کہ جب آپ نے باشارۂ غیبی بخارا سے خوارزم کا قصد کیا تو شہر کے دروازے پر پہنچ کر ٹھہر گئے، اپنے دو درویشوں کو بادشاہ کی خدمت میں بھیجا کہ ایک بافندہ فقیر آپ کے شہر کے دروازے پر کھڑا ہے اور اقامت کا ارادہ رکھتا ہے اگر اجازت ہو تو داخل شہر ہوجائے ورنہ واپس چلا جائے اور درویشوں کا تاکید کی کہ اگر بادشاہ اجازت دے دے تو اجازت نامہ پر مہر و دستخط کرواکر لانا۔ جب درویشوں نے باداہ کے پاس اپنا مدعا بیان کیا تو بادشاہ اور ارکانِ سلطنت ہنس پڑے اور کہنے لگے آپ کے پیر بہت سادہ اور نادان آدمی ہیں اور ازراہِ مذاق اجازت نامہ دے دیا۔ درویش اجازت نامہ لے کر آپ یعنی حضرت عزیزاں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے قدم مبارک شہر میں رکھا اور گوشہ نشیں ہوکر حضرات خواجگان کے طریقے کے مطابق اپنے اوراد و اذکار میں مشغول ہوگئے۔
آپ ہر روز صبح کے وقت مزدورگاہ میں تشریف لے جاتے اور ایک دو مزدوروں کو اپنے مکان پر لے جاکر فرماتے کہ پورا وضو کرو اور نمازِ عصر تک باوضو ہمارے پاس رہو اور ذکر کرو۔ بعد ازاں اپنی مزدوری لے کر چلے جاؤ، مزدور بخوشی ایسا کرتے اور نمازِ عصر تک آپ کی خدمتِ بابرکت میں رہتے۔ جو مزدور ایک دن اس طرح آپ کے پاس رہتے آپ کی صحبت کی برکت اور تاثیر و تصرف باطن سے اُن میں یہ وصف پیدا ہوجاتا کہ آپ کی خدمت سے جدائی گوارا نہ کرتے اس طرح کچھ مدت کے بعد وہاں کے لوگ آپ کے مرید بن گئے اور آپ کے گرد طالبانِ خدا کا ہجوم بخوم ہوگیا۔ رفتہ رفتہ بادشاہ تک یہ خبر پہنچی کہ اس شہر میں ایک شخص آیا ہے جس نے شہر کے اکثر و بیشتر لوگوں کو مرید کرلیا ہے اور ہر وقت اُس کے گرد جمگٹھا رہتا ہے ۔ اندیشہ ہے کہ کہیں ملک میں کوئی فتنہ و فساد پیدا نہ ہوجائے جس کا انسداد ممکن نہ ہوسکے۔ بادشاہ نے بلا سوچے سمجھے آپ کے اخراج کا حکم دے دیا۔ آپ نے انہی دو درویشوں کے ہاتھ اجازت نامہ بادشاہ کی خدمت میں بھیج دیا کہ ہم تمہارے شہر میں تمہاری ہی اجازت سے آئے ہیں، اب اگر تم اپنے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔ اس پر بادشاہ اور تمام ارکانِ سلطنت نادم و شرمسار ہوئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کے محبین و مخلصین میں سے ہوگئے۔
۴۔ آپ کے دو بیٹے تھے۔ ایک خواجہ محمد جو خواجہ خورد رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے اصحاب آپ (حضرت عزیزاں علی) کو خواجۂ بزرگ کہا کرتے تھے اور خواجہ محمد کو خواجہ خورد۔ دوسرے خواجہ ابراہیم تھے جو خواجہ محمد سے چھوٹے تھے۔ جب آپ کا زمانۂ وفات قریب آیا تو آپ نے خواجہ ابراہیم کو اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ بعض مریدوں کے دل میں خیال آیا کہ بڑے صاحبزادے کی موجودگی میں (جو عالم و عارف ہیں) چھوٹے کو کیوں خلیفہ بنایا گیا ہے۔ آپ نے اُن کے خطرے پر آگاہ ہوکر فرمایا کہ خواجہ خورد رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے بلکہ جلدی ہمارے پاس پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع و ظہور ہوا۔ آپ کی رحلت کے انیس روز بعد خواجہ خورد رحمۃ اللہ علیہ نے وفات پائی۔ جبکہ خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے ۷۹۳ھ میں انتقال فرمایا۔ آپ کا وصال ۲۸؍ذی قعد ۷۲۱ھ/ ۱۳۲۱ء کو خوارزم میں ہوا اور وہیں آخری آرامگاہ بنی۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی رحمۃ اللہ علیہ (جو آپ کے ہم عصر تھے) نے ایک درویش کو آپ کی خدمت میں بھیج کر تین مسئلے پوچھے اور ہر ایک کا جواب پایا۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ ہم اور تم آنے جانے والوں کی خدمت کرتے ہیں۔ تم کھانے میں تکلف نہیں کرے جبکہ ہم کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ آپ کے ہاں حاضر ہونے کی آرزو کرتے ہیں ا ور ہماری شکایت؟ آپ نے جواب دیا کہ احسان جتاکر خدمت کرنے والے بہت ہیں اور احسان مند ہوکر خدمت کرنے والے کم ہیں۔ کوشش کرو کہ تم دوسری قسم سے بنو تاکہ تمہاری کوئی شکایت نہ کرے۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے سنا ہے تمہاری تربیت خواجہ خضر علیہ السلام سے ہوئی ہے، یہ کس طرح ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عاشق ہوتے ہیں، حضرت خضر علیہ السلام اُن کے عاشق ہوتے ہیں تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے سنا ہے آپ ذکر جہر کرتے ہیں، یہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا: میں نے بھی سنا ہے کہ تم ذکر خفیہ کرتے ہو، پس تمہارا ذکر بھی جہر ہے۔
۲۔ مولانا سیف الدین رحمہ اللہ (جو اُس زمانے کے اکابر علماء میں سے تھے) نے آپ سے سوال کیا کہ تم ذکر اعلانیہ کس نیت سے کرتے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ آخیر دم میں ذکر بلند کرنا اور تلقین کرنا جائز ہے۔ بحکم حدیث شریف:
لقنوا مونا مکر بشھادۃ ان لا الہ الا اللہ
’’تم اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی شہادت کی تلقین کرو‘‘۔
درویشوں کا ہر دَم، دَمِ آخیر ہے۔
۳۔ حضرت شیخ بدرالدین رحمۃ اللہ علیہ (جو شیخ حسن بلغاری رحمۃ اللہ علیہ کے اصحابِ کبار میں سے تھے۔) نے آپ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو ارشاد فرماتا ہے:
یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوْ اللہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا (احزاب)
’’اے ایمان والو! خدا کو بہت یاد کیا کرو‘‘۔
ذکر کثیر سے ذکرِ زبان مراد ہے یا ذکرِ دل؟ آپ نے فرمایا کہ مبتدی کے لیے ذکرِ زبان اور منتہی کے لیے ذکرِ دل۔
مبتدی ہمیشہ تکلف و تعمل سے کام لیتا ہے جبکہ منتہی کے ذکر کا اثر دل تک پہنچتا ہے اور ا ُس کے تمام اعضاء، رگیں اور جوڑ ذکر کرنے لگتے ہیں، اُس وقت سالک ذکرِ کثیر سے متصف ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کا ایک دن کا کام دوسروں کے سال بھر کے کام کے برابر ہوتا ہے۔
۴۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ ہر شب و روز میں بندۂ مومن کے دل پر تین سو ساٹھ بار نظر رحمت کرتا ہے۔ اس طرح ہے کہ دل تمام اعضاء کی طرف تین سو ساٹھ دریچے رکھتا ہے اور دل کے متصل تین سو ساٹھ رگیں جہندہ (کودنے والی) اور غیر جہندہ (نہ کودنے والی) ہیں۔ جب دل ذکر سے متاثر ہوتا ہے اور اُس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظرِ خاص کا مستحق ہوجائے تو اس نظر کے آثار دل سے تمام اعضاء کی طرف منشعب (منتشر) ہوتے ہیں پس ہر ایک عضو اپنے اپنے حال کی مناسبت سے طاعت میں مشغول ہوجاتا اور ہر عضو کی طاعت کے نور سے ایک فیض جس سے مراد نظرِ رحمت ہے دل کو پہنچتا ہے۔
۵۔ آپ سے پوچھا گیا کیا ایمان کیا ہے؟ آپ نے اپنی صنعت (بافندگی) کی مناسبت سے جواب دیا کہ توڑنا اور جوڑنا یعنی ماسواء (غیراللہ) سے توڑنا اور اللہ تعالیٰ سے جوڑنا۔
۶۔ آیہ تُوبُوآ اِلَی اللہِ (تحریم) میں اشارت بھی ہے اور بشارت بھی، اشارت ہے توبہ کرنے کی اور بشارت ہے اُس کے قبول ہونے کی کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ توبہ قبول نہ کرتا تو پھر توبہ کا امر بھی نہ کرتا۔ امر دلیل ہے قبول کی مگر دیدِ قصور کے ساتھ۔
۷۔ عمل کرنا چاہیے مگر ناکردہ خیا ل کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو ہمیشہ قصوروار سمجھنا چاہیے اور بصورت نقصان عمل کو از سرِ نو کرنا چاہیے۔
۸۔ دو وقتوں پر اپنے آپ پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے۔ بات کرنے کے وقت اور کوئی چیز کھانے کے وقت۔
۹۔ ایک روز حضرت خضر علیہ السلام، حضرت خواجہ عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے جَو کی دو روٹیاں گھر سے لاکر پیش کیں مگر حضرت خضر علیہ السلام نے تناول نہ کیں۔ خواجہ نے عرض کیا کہ تناول فرمائیے لقمہ حلال ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا درست ہے لیکن خمیر کرنے والا بے وضو تھا۔ ہمارے لیے اس کا کھانا روانہیں ہے۔
۱۰۔ جو شخص مسندِ ارشاد پر بیٹھے اور لوگوں کو راہِ خدا بتائے۔ اُسے پرندے پالنے والے کی طرح ہونا چاہیے جو ہر ایک پرندہ کے پوٹے سے واقف ہوتا ہے اور ہر ایک کو اُس کے لیے مناسب خوراک دیتا ہے اسی طرح مرشد کو بھی چاہیے کہ اپنے مریدوں میں سے ہر ایک کی تربیت اُس کی استعداد و قابلیت کے مطابق کرے۔
۱۱۔ اگر تمام روئے زمین میں حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندوں میں سے ایک بھی ہوتا تو منصور کبھی سُولی پر نہ چڑھتا۔ یعنی اگر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے معنوی فرزندوں میں سے ایک بھی زندہ ہوتا تو وہ حسین منصور کی تربیت کرکے اُس مقام سے اُوپر لے جاتا۔
۱۲۔ سالکانِ طریقت کو ریاضت و مجاہدہ کثرت سے کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی مقام و مرتبہ پر پہنچ سکیں لیکن مقصود کو جلد پہنچنے کا سب سے نزدیکی راستہ یہ ہے کہ سالک خلق اور خدمت کے ذریعے کسی صاحبِ دل کے دل میں گھر کرلے۔ چونکہ گروہِ صاحب دِلاں کا دل نظرِ حق کا مورد (ٹھہرنے کی جگہ) ہے لہٰذا سالک کو اُس نظر سے حصہ مل جائے گا۔
۱۳۔ ایسی زبان سے دعا کرو کہ جس سے گناہ نہ کیا ہو تاکہ وہ دعا درجہ قبولیت پائے۔ یعنی خدا کے دوستوں کے آگے تواضع اور التجا کرو تاکہ وہ تمہارے واسطے دعا کریں۔
۱۴۔ ایک روز کسی نے آپ کے سامنے یہ مصرع پڑھا ع
عاشقاں درد مے دو عید کنند
آپ نے فرمایا کہ عاشق ایک دم میں دو کیا تین عید کرتے ہیں۔ اُس نے عرض کیا کہ اس کی تشریح فرمادیجیے، حضرت نے فرمایا کہ بندے کی ایک یاد خدا تعالیٰ کی دو یادوں کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ پہلے بندے کو توفیق دیتا ہے کہ اُس کی یاد کرے، پھر جب بندہ اُسے یاد کرتا ہے تو اُسے شرفِ قبولیت سے مشرف فرماتا ہے پس توفیق، یاد اور قبولیت تین عیدیں ہوئیں۔
۱۵۔ ایک روز شیخ فخرالدین نوری رحمۃ اللہ علیہ (جو اکابر وقت سے تھے) نے آپ سے سوال کیا کہ روز اول میں جب اَلسْتُ بِرَبِّکُمْ کے ساتھ سوال ہوا تو ایک گروہ نے لفظ بلٰی کے ساتھ جواب دیا مگر روزِ ابد میں جب اللہ تعالیٰ لمن الملک الیوم کہے گا تو کوئی جواب نہ دے گا۔ اس کا سبب کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ روزِ ازل تکالیفِ شرعیہ کی وضع کا دن تھا۔ اور شرع میں گفت ہوتی ہے مگر روزِ ابد تکالیفِ شرعیہ کے اُٹھادینے اور ابتدائے عالمِ حقیقت کا دن ہے اور حقیقت میں گفت نہیں ہوتی۔ اس لیے اُس روز اللہ تعالیٰ خود اپنے سوا لکا جواب یوں دے گا للہ الواحد القہار۔
۱۶۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحبت رکھو، اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایسے شخص کے ساتھ صحبت رکھو جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحبت رکھتا ہو کیونکہ خدا کے مصاحب کا مصاحب، مصاحبِ خدا ہے۔
۱۷۔ اگر کسی کے پاس بیٹھو اور خدا تعالیٰ کو بھول جاؤ تو اُس آدمی کو شیطان سمجھو کیونکہ ایسا آدمی نما ابلیس بدرجہا بدتر ہے، ابلیسِ لعین سے کہ ابلیس تو پوشیدہ طور پر وسوسہ ڈالتا ہے مگر یہ آدمی نما ابلیس ظاہری طور پر۔
۱۸۔ نیک کام سے نیک دوست بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ نیک کام سے تجھ میں تکبر و غرور پیدا ہوجائے مگر نیک دوست تو تجھے نیک کام ہی کا مشورہ دے گا۔
۱۹۔ بعض دور والے مجھ سے نزدیک ہیں اور نزدیک والے دور، دور والے نزدیک اس طرح ہیں کہ وہ ظاہری لحاظ سے تو دور ہیں مگر دل و جان سے نزدیک ہیں اور نزدیک والے دور اس طرح ہیں کہ وہ اگرچہ ظاہراً میرے پاس ہیں مگر دل و جان سے میرے ساتھ نہیں ہیں یعنی وہ دل سے کاروبارِ دنیا اور ہواؤ ہوس میں مشغول و مصروف ہیں لہٰذا مجھے دور والے نزدیک بہتر ہیں نزدیکانِ دور سے کیونکہ ان تو نہ جان و دل کی نزدیکی کا اعتبار ہے نہ آب و گل کی ؎
اگر در یمنے کہ بامنی پیش منی |
|
در پیش منی کہ بے منی در یمنی |
۲۰۔ کسی درویش نے آپ سے دریافت کیا کہ بالغِ شریعت کس کو کہتے ہیں اور بالغِ طریقت کون ہے؟ آپ نے فرمایا، بالغِ شریعت وہ ہے کہ جس سے منی (غرور ، تکبر، خودی، خودبینی، نخوت) نکلے اور بالغ طریقت وہ ہے کہ جو منی سے باہر آئے۔ یعنی اس کی خودی جاتی رہے اس درویش نے یہ سُن کر اپنا سرزمین پر رکھ دیا۔ آپ نے ارشاد کیا، سرکے زمین پر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے لکہ جو کچھ سر مین (غرور و تکبر) ہے وہ زمین پر رکھو۔
۲۱۔ آپ کے فرزندِارجمند اور جانشین حضرت خواجہ ابراہیم قدس سرہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں اَلْفَقِیْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلی اللہ (یعنی فقیر نہیں حاجت رکھتا طرف اللہ کی) آپ نے ارشاد فرمایا: لَا یُحْتَاجُ بِالسؤَال اللہ یعنی فقیر سوال نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اعلم الغیوب ہے لہٰذا اُس سے سوال کرنے کی کیا حاجت اور ضرورت ہے وہ تو سب کی حاجتیں جانتا ہے اور پوری کرتا ہے۔
۲۲۔ غناء بے پروائی کو کہتے ہیں اور یہ اگرچہ بصورتِ تونگری معلوم ہوتی ہے مگر فقیری کے وصف سے ہے۔
۲۳۔ اگر فقیر کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور دل میں بھی کوئی خواہش نہ رکھتا ہو تو وہ فقیر محمود الصفات ہے پھر اگر وہ الفقر فخری کا نعرہ بلند کرے تو درست ہے۔ لیکن اگر فقیر ہاتھ مین کچھ نہ رکھے مگر دل میں خواہاں ہو تو وہ گدائے محلہ ہے نہ کہ حضور سید عالم صلی ا للہ علیہ وسلم کا تابع اور فرمانبردار، اور اگر فقیر ہاتھ میں کچھ رکھے اور دل میں بھی خواہاں ہو تو وہ فقیر مذموم الصفات ہے اور سواد الوجہ وکاد الفقر ان یکون کفرا اس پر صادق آتا ہے۔
۲۴۔ کسی نے سوال کیا کہ حدیث الفقر سواد الوجہ اور کاد الفقر ان یکون کفرا متناقضِ حدیثِ الفقر فخری ہیں، آپ نے فرمایا کہ اول الذکر دونوں حدیثیں اُن فقیروں کے حق میں ہیں جو اپنا فقر لوگوں پر ظاہر کرتے ہیں اور اس کو ذریعۂ گدائی ٹھہراکر منفعت حاصل کرتے ہیں۔
۲۵۔ اگر بندہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے کہ اے میرے بندے! ہم سے کچھ مانگ، حاجت طلب کر، تو اُس مقام پر شرطِ بندگی یہ ہے کہ بندہ خدا سے خدا کے سوا کچھ نہ مانگے۔
۲۶۔ آپ کے صاحبزادہ خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ منصور رحمۃ اللہ علیہ نے انا الحق کہا اور بایزید نے لیس جنتی سوای دونوں قول خلافِ شرح ہیں مگر منصور کو سولی چڑھا دیا گیا اور بایزید کو کچھ نہ کہا گیا، آپ نے ارشاد فرمایا دونوں قولوں میں بہت فرق ہے، منصور رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اپنی ہستی پیش کی کہ ’’انا‘‘ کہا اور بایزید رحمۃ اللہ علیہ نیستی پیش کی اور لَیس کہا۔
۲۷۔ اگر کسی شخص کے پاس کچھ نہ ہو مگر اُس کے دل میں خواہش ہو تو اس کو تجریدِ معنوی نہیں ہے اور اگر کسی شخص کے پاس سب کچھ ہو مگر اُس کے دل میں مال و دولت کی محبت نہ ہو تو اُس کو تجریدِ معنوی حاصل ہے حضرت ابراہیم کے پاس اتنی بکریاں تھیں کہ ستر کتے اُن کی حفاظت کرتے تھے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ باقی سامان کتنا ہوگا۔ جو آپ نے سب اللہ کی راہ میں خرچ کردیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس کتنا وسیع و عریض ملک تھا مگر آپ زنبیل بافی کرکے بسرِ اوقات کرتے تھے حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ نہایت مالدار تھے اور بڑی کروفر اور شان و شوکتِ ظاہری کے ساتھ رہتے تھے اسی طرح بہت سے انبیاء اور اولیاء گزرے ہیں کہ جن کے پاس مال و متاع بکثرت تھا مگر اُن کے دل میں اس کی ذرہ برابر محبت اور پرکاہ جتنی حیثیت نہ تھی، کیونکہ انہیں تجرید معنوی (باطنی طور پر مال و دولت سے علیحدگی) حاصل تھی۔
۲۸۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ کو بھول نہ جائیے گا، آپ نے فرمایا کہ بازار جاکر ایک کوزہ خرید کر ہمیں بطور تحفہ لاکر دیدے۔ اُس نے ایسا ہی کیا، فرمایا کہ اب جب بھی کوزے کو دیکھا کروں گا تجھ کو یاد کیا کروں گا۔
۲۹۔ ایک مرتبہ علماء کا ایک گروپ آپ سے ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوا۔ دورانِ گفتگو ایک عالم نے کہا علماء، پوست (جلد، کھال) ہیں اور فقراء مغز (گری، گودا وغیرہ) آپ نے فرمایا: ہاں مغز پوست کی حمایت (مدد، طرفداری، حفاظت) میں رہتا ہے۔
۳۰۔ ایک شخص جو آپ کا منکر تھا، کہنے لگا کہ آپ تو بازاری آدمی ہیں (آپ سوت کی خرید و فروخت کے لیے بازار جایا کرتے تھے) آپ نے سن کر فرمایا کہ ہم تو زاری (رونا، عاجزی) چاہتے ہیں پھر ہم کیوں نہ بازاری (رونے والا، عاجز، انکساری کرنے والا) ہوں یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری درد و سوز اور عجز و انکساری ہی کرنا چاہیے۔
حکیم الامت حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر کیا خوب فرمایا ہے ؎
متاعِ بے بہا ہے دَرد و سوزِ آرزو مندی |
|
مقام بندگی دے کر بھی نہ لوں شانِ خداوندی |
(قصوری)
ارشاداتِ قدسیہ مذکورہ بالا کے علاوہ آپ کی تصنیف سے ایک رسالہ بھی ہے۔ اُس رسالہ میں آپ نے فرمایا ہے کہ سالکِ راہ کو دس شرطیں ہر وقت نگاہ میں رکھنی چاہییں۔ طہارت، خاموشی، خلوت، روزہ، ذکر، نگہداشتِ خاطر، رضا بحکمِ خدا، صحبتِ صالحاں، شبِ بیداری اور نگہداشتِ لقمہ۔ تفصیل کے لیے اس رسالہ کا مطالعہ ضروری ہے۔
آپ کے اشعار میں یہ رُباعی بہت مشہور ہے ؎
باہر کہ نشستی ونشد جمع دِلت |
|
وز تو زمید زحمتِ آب و گلت |
’’تو جس شخص کے پاس بیٹھا اور تیری دلجمعی نہ ہوئی اور تیری آب و گل کی کُدرت تجھ سے دور نہ ہوئی۔ اگر تو اس کی صحبت سے بیزار نہ ہوگا تو پھر عزؔیزاں کی روح تجھے کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ علی رامیتنی قدس سرہ
مقام و مرتبہ:
آپ خواجہ محمود قدس سرہ کے خلفاء میں سے ہیں۔ سلسلہ خواجگان میں آپ کا لقب حضرت عزیزاں ہے۔ آپ کے مقامات عالیہ اور کرامات عجیبہ بہت ہیں۔ آپ صنعت بافندگی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ مولانا جامی نے نفحات الانس میں لکھا ہے کہ میں نے بعض اکابر سے یوں سنا ہے کہ مولانا جلال الدین رومی کے شعر ذیل میں ان ہی کی طرف اشارہ ہے۔
گر نہ علم حال فوق بودے کہ شدے
بندہ اعیان بخارا خواجۂ نساج را
علم حال اگر قال سے بہتر نہ ہوتا تو سرداران بخارا خواجہ نساج (بافندہ) کے کب غلام بنتے۔
ولادت با سعادت:
آپ کی پیدائش موضع رامیقن میں ہوئی۔ جو ولایت بخارا میں ایک بڑا قصبہ شہر سے دو فرسنگ کے فاصلہ پر ہے۔ اتفاقات زمانہ سے آپ باورد میں تشریف لائے۔ اور ایک مدت تک یہاں کے لوگوں کو راہِ خدا بتاتے رہے۔ بعد ازاں شہر خوارزم میں مقیم ہوئے۔ اور حسب معمول ہدایت خلق اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے۔ خوارزم میں بہت سے لوگ آپ کے سلسلہ میں داخل ہوئے۔
کرامات
قید سے رہائی دلادی:
حضرت سیداتا اور حضرت عزیزان ہمعصر تھے۔ اور کبھی کبھی ایک دوسرے سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ اوائل میں سیداتا کو حضرت عزیزان سے صفائی نہ تھی۔ ایک روز سیداتا سے آپ کی جناب میں بے ادبی ہوگئی۔ اتفاقاً ان ہی ایام میں ترکوں کی ایک جماعت دشت قبچاق کی طرف سے حملہ آور ہوئی اور سیداتا کے ایک لڑکے کو پکڑ کر لے گئی۔ سیداتا کو معلوم ہوا کہ یہ حادثہ اس بے ادبی کے سبب سے وقوع میں آیا ہے۔ اس لیے حضرت عزیزان سے معافی مانگی۔ اور بطور ضیافت آپ کی دعوت کی۔ آپ نے قبول کیا اور سیداتا کے ہاں تشریف لائے۔ اس دعوت میں بڑے بڑے علماء اور مشاہیر وقت حاضر ہوئے۔ اس روز حضرت عزیزاں نہایت خوش وقت اور بڑی کیفیت کے عالم میں تھے۔ جب خادم نمکدان لایا اور دسترخوان بچھایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ علی اپنی انگلی نمک پر نہ رکھئے گا اور ہاتھ کھانے کی طرف نہ بڑھائیے گا جب تک کہ سیداتا کا لڑکا دسترخوان پر حاضر نہ ہوجائے۔ یہ کہہ کر آپ نے کچھ دیر سکوت فرمایا۔ تمام حاضرین اس کے منتظر تھے۔ اچانک سیداتا کا لڑکا اس گھر کے دروازے سے آ حاضر ہوا۔ یکبارگی مجلس میں شور برپا ہوگیا۔ لوگ حیران رہ گئے اور اس لڑکے کے آنے کی کیفیت لڑکے ہی سے دریافت کی۔ اس نے کہا۔ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ ابھی میں ترکوں کے ہاتھوں قید میں تھا اور مجھ کو اپنے ملک میں لے جا رہے تھے۔ اب دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سامنے حاضر ہوں۔ اہل مجلس کو یقین ہوگیا کہ یہ حضرت عزیزاں کا تصرف ہے۔ سب آپ کے پاؤں پر گر پڑے اور آپ کے مرید ہوگئے۔
مثل عزیزاں:
ایک روز حضرت عزیزاں کے ہاں ایک عزیز مہمان آیا۔ گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ آپ بہت دلگیر ہوئے اور گھر سے نکلے۔ اچانک ایک طعام فروش لڑکا جو آپ کے معتقدین میں سے تھا ایک دیگ طعام سے بھری ہوئے سر پر اٹھائے ہوئے آپہنچا۔ اس نے التجا کی کہ میں نے یہ کھانا آپ کے خادموں کے لیے تیار کیا ہے۔ امیدوار ہوں کہ آپ قبول فرمائیں گے۔ حضرت عزیزاں کو اس لڑکے کی یہ خدمت بہت پسند آئی۔ جب آپ مہمان کو کھانا کھلا چکے تو لڑکے کو بلا کر کہا ہم تیری اس خدمت سے بہت خوش ہیں۔ اب تیری جو مراد ہے ہم سے مانگ۔ ان شاء اللہ پوری ہوجائے گی۔ لڑکا نہایت عقلمند اور ہوشیار تھا۔ بولا کہ میں چاہتا ہوں کہ خواجہ عزیزاں بن جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو نہایت مشکل ہے۔ اس بھاری بوجھ کے اٹھانے کی تجھ میں طاقت نہیں ہے۔ لڑکے نے عرض کیا کہ میری مراد تو یہی ہے۔ اس کے سوا کوئی آرزو نہیں۔ تب حضرت نے فرمایا کہ اسی طرح ہوجائے گا۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر خلوت خاص میں لے گئے۔ اور اس پر توجہ ڈالی۔وہ لڑکا تھوڑی سی دیر میں صورت و سیرت میں بعینہ مثل عزیزاں بن گیا۔ اس کے بعد وہ کم و بیش چالیس روز زندہ رہا پھر انتقال کرگیا۔
تصرف باطنی کی برکت:
کہتے ہیں کہ جب حضرت عزیزاں نے باشارہ غیبی ولایت بخارا سے خوارزم کا قصد کیا اور اس شہر کے دروازے پر پہنچ گئے تو وہاں ٹھہر گئے۔ اور دو درویشوں کو بادشاہ کی خدمت میں بھیجا کہ ایک بافندہ فقیر تمہارے شہر کے دروازے پر آیا ہے اور اقامت کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگر تمہاری مصلحت ہوتو داخل ہوجائے ورنہ واپس چلا جائے۔ اور ان درویشوں سے آپ نے کہہ دیا کہ اگر بادشاہ اجازت دے دے تو اجازت نامہ مہری و دستخطی اس کا لیتے آنا۔ جب وہ درویش بادشاہ کے پاس گئے اور مدعا عرض کیا تو بادشاہ اور اس کے ارکانِ دولت ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ وہ سادہ اور نادان آدمی ہیں۔ پھر بطور مذاق بادشاہ کا مہری و دستخطی اجازت نامہ ان کے حوالہ کیا گیا۔ وہ یہ اجازت نامہ حضرت عزیزاں کے پاس لائے۔ پس آپ نے قدم مبارک شہر میں رکھا اور گوشہ نشین ہوکر بطریق خواجگان اپنے اور اد و اذکار میں مشغول ہوگئے۔ آپ ہر روز صبح کے وقت مزدور گاہ میں آتے اورایک دو مزدوروں کو اپنے مکان پر لے جا کر فرماتے کہ پورا وضو کرو۔ اور نماز عصر تک باضو ہمارے پاس رہو اور ذکر کرو۔ بعد ازاں اپنی مزدوری لے کر چلے جاؤ۔ مزدور بہت خوشی سے ایسا کرتے اور نماز عصر تک آپ کی صحبت میں رہتے۔ مگر جو مزدور ایک دن اس طرح آپ کے پاس رہتے آپ کی صحبت کی برکت اور آپ کی تاثیر و تصرف باطنی سے ان میں یہ وصف پیدا ہوجاتا کہ آپ کی خدمت سے جدائی گوارا نہ کرتے۔ اس طرح کچھ مدت کے بعد وہاں کے لوگ آپ کے مرید بن گئے۔ اور آپ کے گرد طالبوں کا بڑا مجمع ہوگیا۔ رفتہ رفتہ کسی نے بادشاہ کو خبر کردی کہ اس شہر میں ایک شخص آیا ہے۔ اکثر لوگ اس کے مرید ہوگئے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ اس کے سبب سے ملک میں کوئی فتنہ و فساد پیدا ہوجائے کہ جس کا انسداد ممکن نہ ہو۔ بادشاہ نے اس وہم میں پڑ کر حضرت عزیزاں کے اخراج کا حکم دیا۔ آپ نے ان ہی دو درویشوں کے ہاتھ اجازت نامہ بادشاہ کی خدمت میں بھیج دیا۔ کہ ہم تمہارے شہر میں تمہاری ہی اجازت و مصلحت سے آئے ہیں۔ اگر تم اپنے حکم کے خلاف کرتے ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔ اس پر بادشاہ اور ارکانِ دولت بہت شرمندہ ہوئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر محبین و مخلصین میں سے ہوگئے۔
مستقبل سے آگاہی:
حضرت عزیزاں کے دو فرزند تھے۔ ایک خواجہ محمد جو خواجہ خرد کے نام سے مشہور تھے۔ کیونکہ حضرت عزیزاں کے اصحاب حضرت عزیزاں کو خواجہ بزرگ کہا کرتے تھے اور خواجہ محمد کو خواجہ خرد۔ دوسرے خواجہ ابراہیم تھے جو خواجہ محمد سے چھوٹے تھے۔ جب حضرت کا زمانہ وفات نزدیک آیا تو آپ نے خواجہ ابراہیم کو اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ بعض یاروں کے دل میں آیا کہ بڑے صاحبزادے کی موجودگی میں جو عالم و عارف ہیں چھوٹے کو کیوں خلیفہ بنایا گیا۔ حضرت نے ان کے خطرے پر آگاہ ہوکر فرمایا کہ خواجہ خرد ہمارے بعد زیادہ نہ ٹھہریں گے۔ بلکہ جلدی ہمارے پاس پہنچیں گے۔ چنانچہ ویسا ہی وقوع میں آیا۔ حضرت کی وفات کے انیس روز بعد خواجہ خرد نے بروز دوشنبہ وقت چاشت ۱۷ ماہ ذی حجہ ۷۱۵ھ میں وفات پائی اور خواجہ ابراہیم نے ۷۹۳ھ میں انتقال فرمایا۔
وصال مُبارک:
حضرت عزیزاں نے بتاریخ ۲۸ ذیقعدہ ۷۱۵ھ میں وفات پائی۔ آپ کا مزار مبارک خوارزم میں مشہور و معروف اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی نے جو حضرت عزیزاں کے ہمعصر تھے ایک درویش کو آپ کی خدمت میں بھیج کر تین مسئلے پوچھے اور ہر ایک کا جواب پایا۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ ہم اور تم آنے جانے والوں کی خدمت کرتے ہیں۔ تم کھانے میں تکلف نہیں کرتے اور ہم کرتے ہیں۔ مگر لوگ تمہاری آرزو اور ہماری شکایت کرتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے؟ حضرت عزیزاں نے جواب دیا کہ احسان جتا کر خدمت کرنے والے بہت ہیں اور احسان مند ہوکر خدمت کرنے والے کم ہیں۔ کوشش کرو کہ تم دوسری قسم سے بنو تاکہ کوئی تمہاری شکایت نہ کرے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ تمہاری تربیت خواجہ خضر علیہ السلام سے ہے۔ یہ کس طرح ہے؟ حضرت نے جواب دیا کہ حق سبحانہ کے بندے اس ذات کے عاشق ہیں جس کے حضرت عاشق ہیں۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہم سنتے ہیں کہ تم ذکر جہر کرتے ہو۔ یہ کس طرح ہے؟ فرمایا کہ ہم بھی سنتے ہیں کہ تم ذکر خفیہ کرتے ہو۔ پس تمہارا ذکر بھی جہر ہوا۔
۲۔مولانا سیف الدین نے جو اس زمانے کے اکابر علماء سے تھے حضرت عزیزاں سے سوال کیا کہ تم ذکر علانیہ کس نیت سے کرتے ہو؟ فرمایا کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اخیر دم میں ذکر بلند کرنا اور تلقین کرنا جائز ہے۔ بحکم حدیث: لقنوا موتا کم بشھادۃ ان لا الہ الا اللہ۔ تم اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ کی شہادت کی تلقین کرو۔ درویشوں کا ہر دم دم اخیر ہے۔
۳۔شیخ بدر الدین نے جو شیخ حسن بلغاری کے اصحاب کبار سے تھے۔ حضرت عزیزاں سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ جو ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا‘‘ (احزاب)۔ اے ایمان والو! خدا کو بہت یاد کیا کرو۔
ذکر کثیر سے مراد ذکر زبان ہے یا ذکر دل۔ حضرت نے فرمایا کہ مبتدی کے لیے ذکر زبان اور منتہی کے لیے ذکر دل۔ مبتدی ہمیشہ تکلف و تعمل سے کام لیتا ہے۔ چونکہ منتہی کے ذکر کا اثر دل تک پہنچتا ہے اس کے تمام اعضا اور رگیں اور جوڑ ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت سالک ذکر کثیر سے متصف ہوتا ہے اور اس حالت میں اس کا ایک دن کا کام دوسروں کے سال بھر کے کام کے برابر ہوتا ہے۔
۴۔فرمایا کہ یہ بات کہ حق سبحانہ ہر شب و روز میں بندہ مومن کے دل پر تین سو ساٹھ نظر رحمت کرتا ہے اس طرح ہے کہ دل تمام اعضا کی طرف تین سو ساٹھ دریچہ رکھتا ہے۔ اور وہ دل کے متصل تین سو ساٹھ رگیں جہندہ (جن کا تعلق دل کے ساتھ ہے)وغیر جہندہ ہیں۔ جب دل ذکر سے متاثر ہوتا ہے اور اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے کہ حق سبحانہ کی نظر خاص کا منظور ہوجائے تو اس نظر کے آثار دل سے تمام اعضا کی طرف منشعب (کھلتے ہیں)ہوتے ہیں۔ پس ہر ایک عضو اپنے اپنے حال کے مناسب طاعت میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اور ہر عضو کی طاعت کے نور سے ایک فیض جس سے مراد نظرِ رحمت ہے دل کو پہنچتا ہے۔
۵۔حضرت عزیزاں سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے۔ آپ نے اپنی صنعت (بافندگی) کے مناسب جواب دیا کہ توڑنا اور جوڑنا۔ یعنی ما سوا سے توڑنا اور حق تعالیٰ سے جوڑنا۔
۶۔آیہ تُوْبُوْا اِلَی اللہِ (تحریم) میں ارشارت بھی ہے اور بشارت بھی۔ اشارت ہے توبہ کرنے کی اور بشارت ہے اس کے قبول کی۔ کیونکہ اگر قبول نہ کرتا تو توبہ کا امر نہ کرتا۔ امر دلیل ہے قبول کی دید قصور کے ساتھ۔
۷۔عمل کرنا چاہیے اور نا کردہ خیال کرنا چاہیے۔ اور اپنےآپکو قصور وار سمجھنا چاہیے۔ اور (بصورت نقصان) عمل کو ازسرِ نو کرنا چاہیے۔
۸۔دو وقت اپنےآپ پر خوب نگاہ رکھنا چاہیے۔ بات کرنے کے وقت اور کوئی چیز کھانے کے وقت۔
۹۔ایک روز حضرت خضر علیہ السلام خواجہ عبدالخالق کے پاس آئے۔ خواجہ نے دو جو کی روٹیاں گھر سے لاکر پیش کیں۔ مگر حضرت خضر علیہ السلام نے نہ کھائیں۔ خواجہ نے عرض کیا کہ تناول فرمائیے۔ لقمہ حلال ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ درست ہے لیکن خمیر کرنے والا بے وضو تھا۔ ہمارے واسطے اس کا کھانا روا نہیں۔
۱۰۔جو شخص مسند ارشاد پر بیٹھے اور لوگوں کو راہِ خدا بتائے اسے پرندے پالنے والے کی طرح ہونا چاہیے۔ جوہر ایک پرندہ کے پوٹے سے واقف ہوتا ہے اور ہر ایک کو اس کے مناسب خوراک دیتا ہے۔ اسی طرح مرشد کو بھی چاہیے کہ اپنے مریدوں میں سے ہر ایک کی تربیت اس کی استعداد و قابلیت کے مطابق کرے۔
۱۱۔اگر تمام روئے زمین میں خواجہ عبدالخالق کے فرزندوں میں سے ایک بھی ہوتا۔ تو منصور کبھی سولی پر نہ چڑھتا۔ یعنی اگر خواجہ کے فرزندان معنوی میں سے ایک بھی زندہ ہوتا وہ حسین منصور کی تربیت کر کے اسے اس مقام سے اوپر لے جاتا۔
۱۲۔سالکان طریقت کو ریاضت و مجاہدہ بہت کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی مرتبہ و مقام پر پہنچ جائیں۔ لیکن ایک راستہ ان سب سے نزدیک ہے کہ جس سے مقصود کو بہت جلدی پہنچ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ سالک خُلق (اخلاق)و خدمت کے ذریعے کسی صاحب دل کے دل میں جگہ پائے۔ چونکہ اس گروہ کا دل نظر حق کا مورد ہے اس لیے سالک کو اس نظر سے حصہ مل جائے گا۔
۱۳۔ایسی زبان سے دعا کرو جس سے گناہ نہ کیا ہو تاکہ وہ دعادرجہ قبولیت پائے یعنی دوستانِ خدا کے آگے تواضع اور التجا کرو کہ وہ تمہارے واسطے دعا کریں۔
۱۴۔ایک روز کسی نے حضرت عزیزاں کے سامنے یہ مصرع پڑھا ؎
عاشقاں در دمے دو عید کنند
آپ نے فرمایا کہ عاشق ایک دم میں دو کیا تین عید کرتے ہیں۔ اس نے عرض کیا! کہ اس کی تشریح فرما دیجیے۔ حضرت نے فرمایا کہ بندے کی ایک یاد خدا تعالیٰ کی دو یاد کے درمیان ہے۔ پہلے وہ بندے کو توفیق دیتا ہے کہ اس کی یاد کرے۔ پھر جب بندہ اسے یاد کرتا ہے تو اسے شرفِ قبولیت سے مشرف فرماتا ہے۔ پس توفیق اور یاد اور قبولیت تین عیدیں ہوئیں۔
۱۵۔ایک روز شیخ فخر الدین نوری نے جو اس وقت کے اکابر میں سے تھے حضرت عزیزاں سے سوال کیا کہ روز ازل میں جب اَلَسْتُ بِرَبَّکُمْ کے سوال کے ساتھ سوال ہوا تو ایک گروہ نے لفظ ’’ بلیٰ ’’ کے ساتھ جواب دیا۔ مگر روز ابد میں جب حق سبحانہ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ کہے گا تو کوئی جواب نہ دے گا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ روز ازل تکالیف شرعیہ کی وضع کا دن تھا اور شرع میں گفت ہوتی ہے۔ مگر روزِ ابد تکالیف شرعیہ کے اٹھا دینے اور ابتدائے عالم حقیقت کا دن ہے اور حقیقت میں گفت نہیں ہوتی۔ اس لیے اس روز حق سبحانہ خود اپنے سوال کا جواب یوں دے گا۔ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ۔ علاوہ کلمات مذکورہ بالا کے حضرت عزیزاں کی تصنیف سے ایک رسالہ بھی ہے۔ اس رسالہ میں آپ نے فرمایا ہے کہ سالک راہ کو دس شرطیں نگاہ رکھنی چاہئیں۔ طہارت۔ خاموشی۔ خلوت۔ روزہ۔ ذکر۔ نگہداشت خاطر۔ رضا بحکم خدا۔ صحبت صالحاں۔ شب بیداری۔ نگہداشت لقمہ۔ تفصیل کے لیے اس رسالہ کا مطالعہ ضروری ہے۔
شاعری:
حضرت عزیزاں کے اشعار میں سے یہ رباعی مشہور ہے۔ ؎
با ہر کہ نشسثی و نشد جمع دلت
وز تو نرمید زحمت آب و گلت
از صحبت دے اگر تبرا نکنی
ہرگز نکند روح عزیزاں بحلت
جس شخص کے پاس تو بیٹھا اور تیری دلجمعی نہ ہوئی اور تیری آب و گل کی کدورت تجھ سے دور نہ ہوئی اگر تو اس کی صحبت سے بیزار نہ ہوگا تو عزیزاں کی روح تجھے کبھی معاف نہ کرے گی۔ (رشحات)
(مشائخِ نقشبندیہ)