حضرت مولانا خواجہ فیض شاہ جمالی چشتی نظامی

حضرت مولانا خواجہ فیض شاہ جمالی چشتی نظامی رحمتہ اللہ علیہ

تعارت:عالم باعمل،فا ضل بے بدل،غوث یگانہ،مرشد زمانہ،پیکر علم و عرفان،محد ث وجدو پیمان،حضرت مولانا خواجہ فیض بخش شاہ جمالی چشتی نظامی رحمتہ اللہ علیہ قدرۃ الا خیا ر ہیں۔

آپ کی ولادت با سعادت 16ذیقعدہ1290ھ بمطابق1873ءبروز جمعرات اپنے وقت کے ممتاز عالم دین وعارف کا مل حضرت مولانا نور الدین علیہ الرحمتہ کے گھر قصبہ شاہ جمال شہر جام پو ر ڈیرہ غازی خان  میں ہوئی۔

آپ نے ابتدائی دینی تعلیم قر آن پاک اور ابتدائی درسی کتب اپنے والد گرامی سے حاصل کی،اسکے بعد علوم متد اولہ کی کتب حضرت مولانا نصیر بخش سے پڑھیں بعدازاں مولانا خلیل احمد نزد روہیلا انوالی ضلع مظفر گڑھ اور حضرت حافظ صاحب سیلا نوالی ضلع میا نوالی سے دیگر کتب متداولہ اور درس حدیث شریف تحصیل و تکمیل کی۔

بیعت و خلا فت:آپ حضرت خواجہ عبد الرحمن ملتانی چشتی نظامی علیہ الرحمتہ کے دست حق پر بیعت سے سر فراز ہو ئے اور انہیں سے خرقہ خلافت حاصل کرکے صاحب مجاز وصاحب ارشاد ہو ئے۔

حضرت خواجہ عبد الرحمان ملتانی مرید و خلیفہ تھے حضرت خواجہ خدا بخش خیر پوری کے وہ مرید تھے حضرت حافظ محمد جمال ملتانی کے وہ مرید تھے حضرت خواجہ نو ر محمد مہا روی کے وہ مرید و خلیفہ حضرت خواجہ فخرِ جہا ں مولانا  فخر الدین چشتی نظامی دہلوی علیہم الرحمتہ کے۔

درس وتدریس:قصبہ شاہ جما ل شروع ہی سے علم وعرفان کا گہوارہ تھا کم و بیش ڈیڑھ سو طلبا ء اکثر یہا ں زیر تعلیم رہا کرتے تھے ،جہاں صبح و شام اسباق علوم دینیہ کا تکرار رہا تھا۔

جب آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو دور دراز سے بے شمار طلباء پر  وانوں کی طرح علم وعرفان کی اس شمع کے پاس جمع ہو گئے آپ کی مسلسل شبانہ روز کی جدوجہد کی بد ولت ہزار ہاتشگان علوم دینیہ نے اس چشمہ ء فیض سے اپنی پیاس بجھا ئی۔

درس کا اندازہ یہ تھا کہ طلبہ ء کی کثرت کی بناء پر تمام دن درس اور سبق جاری رہتا، حتیٰ کے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نماز عشاء کے بعد  تک اسباق پرھائے جاتے رہے بزات خود آپ کا یہ حال تھا کہ درسی کتا بیں پڑھاتے پڑھا تے تما م کتب زبانی یا د ہو گئیں تھیں۔

توکل و قنا عت:ایک مرتبہ کیمیا گری جاننے والا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا حضرت میرے پاس سونا بنا نے والا نسخہ ہے، میں آپ کے مدرسہ میں طلباء کی کثیر تعداد اور خا نقاہ میں مر یدین کا انبوہ کثیر اور مہمان نوازی دیکھ کر حاضر ہوا ہو ں کہ آپ مجھ سے نسخہ لے لیں تا کہ لنگر خانے کا نظام آسانی سے چلتا رہے۔

آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں قبول تو کرلیتا مگر میرے توکل میں فرق آجا ئے گا، ابھی تک میرا نظام خداکے توکل پر چل رہا ہے،اگر یہ حاصل کرلوں تو پھر مجھے اس پر کچھ بھر وسہ ہو جائے گا اور یہ تمام توکل کے منافی ہے، وہ آدمی آپ کے اس جواب سے مایوس ہو کر چلا گیابظاہر فقرو تنگدستی کے باوجود آپ ہر سال عید میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر میلاد شریف کے پروگرام پر بے بہارو پیہ خرچ کرتے تھے،تنگدستی کا یہ عالم کہ تمام نظام کو چلانے کیلئے اکثر قرض بھی لیتے رہے، جب تنگدستی زیادہ بڑھ گئی تو قرض خو اہوں نے تنگ کرنا شروع کردیا ،حتیٰ کہ ریجو رام ہند و نو ٹس دینے کو تیا ر ہو گیا تھا۔مگر اس کے باوجود بھی آپ نے جلسہ عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی احسن انداز سے منعقد کرایا۔

علاقہ بھر کے بزرگان دین کے عر سوں میں بھی آپ خصو صیت سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔

آپ کے مشہور شا گردان عزیز:یو ں تو شا گر دوں کی ایک طویل فہرست ہے مگر جن شا گرد وں نے ملکی سطع پر شہرت حاصل کی ان میں حضرت مولانا خو رشید احمد ظاہر پیر والے حضرت علامہ مولانا خدا بخش اظہر شجاع آبادی، حضرت مولانا منظور احمد، احمد پور شرقیہ اور آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ مولانا پیر  صاحبز ادہ خواجہ غلام یا سین علیہ الرحمتہ قابل ذکر ہیں۔

وصال با کمال:آپ کا وصال با کمال 8رجب المرجب1364 ہجر ی بمطابق 1944بروز پیر کو ہوا، مزار پر انوار بستی سند یلہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں مرجع خاص وعام ہے جہاں اہل عقیدت و محبت حاضری دے  کر اپنے قلوب و اذہان کو نور ایمان سے منور کرتے ہیں۔

آپ کے دربار کے سجا دہ نشین کا مقام :آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبز ادے غلام یا سین صاحب سجا دہ نشین مقرر ہو ئے جو کہ اپنے وقت کے جید علما ئے دین اور شیو خ جن  میں حضرت علامہ مولانا نو ردین، حضرت مولانا نصیر بخش چا چڑ وی، اور حضرت خواجہ فیض محمد شاہ جمال کی شا گردی کا شرف رکھتے ہیں۔

ان کے بارے میں مشہور ہے اور ان چشم دید گو اہوں میں سے بعض اہل علم و عرفان آج بھی زندہ ہیں کہ جنہوں نے حضرت صاحبزادہ خواجہ غلام یا سین شاہ جمال کو بید اری کی حالت میں  مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام پیش کرتے اور مکہ مکرمہ میں طواف بیت اللہ شریف کرتے دیکھا ہے،جبکہ بظاہر اپنے آستانے پر موجود تھے۔

 حضرت صاحبزادہ خواجہ غلام یا سین شاہ جمالی چشتی نظامی علیہ الرحمتہ کا وصال باکمال 2رجب المرجب شریف۱۳۶۴ ہجری بمطابق 1991ءکو ہوا مزار پر انوار اپنے والد گرامی کے پہلو میں مرجع خلا ئق ہے۔

 آج کل حضرت خواجہ غلام یسینٰ شاہ جمال کے فرزندار جمند صاحبز ادہ عبد الحییٔ چشتی نظامی مد ظلہ العالی ہیں جوکہ آستانہ عالیہ کے نظامی کو چلانے میں مصروف عمل ہیں وہی اپنے والد گرامی اور دادا بز رگوار کے سجادہ نشین مقر ر ہوئے۔

رہے آستاں سلامت،رہے برقرار شاہی

 

 


متعلقہ

تجویزوآراء