حضرت خواجہ غلام حسن پیر سواگ
حضرت خواجہ غلام حسن پیر سواگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
تعارف:
سیّد الاولیاء المتاخرین، سند العلماء الراسخین، حجۃ الکاملین، حامی دین متین، جلیس مسند حق الیقین، قطب اقلیم، پیشوائے جمیع اہل کمال، قیم مقام رجال مرآۃ جمال بے مثال، فارغ از مستقبل و حال، پیکر شوکت وجمال صاحب کشف و کرامات و کمال، آئینۂ جلال و جمال حضرت خواجہ غلام حسنا لمعروف پیر سواگ نقشبندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تعالٰی علیہ آسمان طہارت و پاکیزگی ہیں۔
آپ کی ولادت با سعادت تقریباً 1267ہجری بمطابق 1850ء کو موجع ڈگر سواگ لعل عیسن کروڑ چاہ گاڑہ ضلع لیہ میں جناب ملک لعل بن احمد یار بن یار محمد قوم سواگ کے گھر ہوئی۔
آپ کی ولادت کے چند روز بعد آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے انتقال کے بعد آپ کے والد گرامی آپ کے بارے میں سخت متفکر ہوئے اور بھکر سے نوکری چھوڑ کر گھر آگئے۔ مگر قدرت نے غیب سے اس طرح دستگیری کی کہ آپ ہی کے خاندان کی ایک پاکباز خاتون مسماۃ فاطمہ نے آپ کو گود لے لیا۔ مسماۃ فاطمہ کی گود میں اس سے قبل ایک بچہ احمد ایر نامی موجود تھا۔ گویا ملک احمد یار سواگ کو آپ کے رضاعی بھائی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
ابھی بچپن کا عالم تھا کہ آپ کے والد گرامی کا بھی وصال ہوگیا۔ آپ کی رضاعی والدہ نے ایک مکان اور کچھ قطعہ اراضی آپ کو دے دیا۔
جب آپ کی عمر عزیزوں بارہ برس کی ہوئی تو آپ اپنے رضاعی بھائی ملک احمد یار کے ہمراہ بستی والوں کے مویشی چرانے لگ گئے۔ اور ایک مدت تک یہ شغل جاری رہا۔ مگر تائید خداوندی نا معلوم ذریعے سے آپ کی راہنمائی کر رہی تھی۔ اور رب العالمین کو آپ سے مویشی چروانا مقصود نہ تھا۔ بلکہ آپ کو مخلوق کی پیشوائی کے لیے منتخب کرنا منظور تھا۔
تعلیم دین متین:
ایک دفعہ آپ جمعہ کی نماز کے لیے کروڑ تشریف لائے تو اپنے رضاعی بھائی ملک احمد یار سے فرمایا کہ میرا ارادہ علم حاصل کرنے کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان جانے کا ہے۔ میں ڈیرہ جا رہا ہوں اور تم گھر چلے جاؤ۔
چنانچہ آپ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ کر حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مولوی غالم حسن پونگر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابتدائی تعلیم ان سے حاصل کی۔ اور صرف مولانا محمد علی شہاب نوالہ ضلع جھنگ سے پڑھی اور کروڑ کے ایک خدا سیّدہ بزرگ مولانا جان محمد کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد سیواں مضافات کندیاں ضلع میانوالی تشریف لا کر مولانا غلام محمد کی خدامت میں رہ کر اکتساب علم کرنے لگے۔
آپ ایک طرف ظاہری علم کی تکمیل میں مصروف مگر دوسری طرف طبیعت علم باطنی کی طرف بھی مائل تھی۔
چنانچہ آپ سیواں سے رخصت ہو کر چکڑالہ میں حضرت مولانا نور خان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا نور خان حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی علیہ الرحمۃ کے خلفاء میں سے تھے۔ آپ نے بقیہ تمام تعلیم مولانا نور خان سے حاصل کی اور ظاہری علوم میں تحصیل و تکمیل کی۔
بیعت وخلافت:
آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی نقشبندی علیہ الرحمۃ کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور نہی سے خرقۂ خلافت پا کر سرفراز و ممتاز ہوئے۔
نوٹ:
آپ اپنے استاد محترم حضرت مولانا نور خان نقشبندی کے ہمراہ حضرت خواجہ عثمان دامانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔
اور بیعت کے بعد اپنے استاد محترم کے ساتھ ہی واپس چکڑالہ تشریف لے آءے وہاں علم ظاہری کے ساتھ ساتھ باطنی علوم میں بھی ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ اور ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد گھر واپس سواگ شریف تشریف لے آئے۔
مرشد کامل سے والہانہ عشق و محبت:
آپ مسلسل چالیس برس تک اپنے شیخ کامل حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔ جب مرشد کامل کا وصال باکمال ہوا تو اس کے بعد اپنے شیخ کے صاجزادے حضرت خواجہ محمد سراج الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضری دیتے رہے اور انتہائی اخلاص سے مرشد کے لنگر شریف کی خدمت کی۔
چالیس چالیس اونٹ غلہ کے بہ نفیس نفیس لے جا کر موسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش فرماتے رہے۔ اس طرح آپ حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی علیہ الرحمۃ کے تمام خلفاء میں سبقت لے گئے۔ بالخصوص جب حضرت خواجہ محمد سراج الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ نے دریا خان ضلع بھکر میں ایک کنواں اور بنگلے کی تعمیر کا حکم دیا تو آپ نے شب و روز مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کیا اور جب بنگلہ تعمیر ہو گیا تو حضرت خواجہ سراج الدین علیہ الرحمۃ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اور آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ مولوی صاحب میں دعا کرتا ہوں اور دادی صاحبہ بھی دعا فرماتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دین و دنیا کا بادشاہ بنائے۔ حضرت قطب العالم اور دادی صاحبہ کی دعا نے بارگاہ الولہیت میں وہ قبولیت حاصل کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو روز روشن کی طرح مقتدائے زماں اور پیشوائے دوران بنا دیا۔
خانقاہ سراجیہ کا قیام:
آپ نے اپنے عقید تمندوں کے بار بار اصرار پر ’’ڈپہی مکوڑی‘‘ کے مقام پر خانقاہ سراجیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کے ایک مرید محمد خان ذیلدار نے ایک کنواں تعمیر کرادیا۔ فتح محمد زمیندار نے مسجد تعمیر کرادی۔ بکھر خان نمبردار نے خانقاہ کی جگہ کا انتقال آپ کے نام کروا کر دو تین مسافر خانے بنوا دیئے۔ اور آپ کی تمام زرعی اراضی کا تمام معاملہ، موضع پر تقسیم کردیا گیا تا کہ آپ کو معاملہ کی ادائیگی کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔
آپ نے اس مقام کا نام ’’خانقاہ عالیہ سراجیہ حسن آباد‘‘ رکھا۔ اور اس مقام پر کئ سایہ دار درخت لگائے اور بہت ہی عمدہ باغ بنوایا۔
موضع ڈگر سواگ کی آباد کاری:
آپ کی ذاتی اراضی واقع موضع ڈگر سواگ ایک عرصہ سے غیر آباد چلی آرہی تھی۔ آپ نے اسے آباد کرنے کے لیے اس میں کنویں کی تعمیر کے کام کا آغاز کیا۔ تو آپ کے رشتہ دار مخالفت پر اتر آئے۔ اس لیے کہ اس زمین کی ملکیت مشترکہ تھی۔ انہوں نے مقدمہ بازی تک نوبت پہنچائی۔ مگر وہ پھر بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر کامیابی نے آپ کے قدم چومے اور کنویں کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے درویشوں کے لیے حجرہ جات تعمیر کروا کر اس ویران جگہ کو آباد کیا۔
خواجہ فقیر محمد کے وصال پر صبر و شکر:
آپ کے صاجزادے قدوۃ الفضلا، زبدۃ العلماء، واقف اسرار یزداں مخدوم زادہ حضرت خواجہ مولانا فقیر محمد نقشبندی علیہ الرحمۃ کا عین شباب میں جب وصال ہو اتو آپ صبر و شکر اور رضائے خداوندی کے پیکر بن گئے۔
اپنے صاجزادے حضرت خواجہ فقیر محمد علیہ الرحمۃ کے بارے میں آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ یہ مادر زاد ولی اللہ ہے۔ آپ نے ان کو چاہ تھل میں اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں دفن فرمایا۔
چوں کہ اس خطۂ مقدس اور مبارک زمین کو تا قیام قیامت مرکز فیض بنانا تھا۔ اس لیے اپنے جگر پاروں سے اس کی ابتداء کی۔ بعد ازاں آپ کے وصال کے بعد اسی جگہ آپ کا مزار پر انوار تعمیر ہوا۔ جس کی وجہ سے یہ مقام ابدالآ باد تک بقہ نور بن گیا۔
سیرت و کردار:
آپ کی تمام عمر دین اسلام اور شریعت مصطفیٰ ﷺ کے احکام کی اشاعت فرمانے میں گذری۔ وقت صبح کا ہو، یا شام کا، آپ دین متین کی سر بلندی میں سرگرم عمل نظر آتے۔ التعداد ہندو سیکھ عیسائی صرف آپ کے روئے تاباں کی زیارت سے مشرف ہو کر داخل اسلام ہوئے۔
آپ کا معمول تھا کہ اگر کوئی ہندو یا غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوتا تو آپ حسب ضرورت اس کی مالی معاونت و امداد کرنے کے لیے اپنا مال، جان، اولان تک قربان کرنے سے دریغ نہ فرماتے۔ اکثر نو مسلم شیخ صاحبان کے مقدمات کی پیروی کرنے میں سخت تکالیف برداشت فرماتے اور اس سلسلہ میں خدا کے فضل و کرم سے ہمیشہ کامیاب و بامرادر ہے۔
آپ کا معمول تھا کہ جہاں کہیں بھی وعظ کے لیے تشریف لے جاتے تو لوگوں کو گیر شرعی رسومات چھوڑنے اور احکام شریعت پر عمل کرنے کی ترغیب فرماتے۔ آپ کلمہ حق کہنے میں بھی بڑی دلیری اور بے باکی سے کام لیتے اور اس سلسلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی بھی پروانہ کرتے۔
خداوند کریم نے آپ کے چہرے پر اس قدر رعب و جلال رکھا تھا کہ بڑے بڑے رئیس اور نواب و ڈیرے آپ کے سامنے کلام کرنے سے گھبراتے تھے۔
آپ کی تعلیمات:
۱) آپ فرماتے ہیں کہ مبتدی کو ابتداء میں ’’سیر آفاقی‘‘ بہت دکھائی دیتی ہے۔ اس کے حاصل ہونے سے خوش نہ ہونا چاہیے اور حاصل نہ ہو تو غم نہ کرنا چاہیے۔
۲) آپ فرماتے ہیں کہ شیخ کے تصور سے وکئ لمحہ کوئ وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر نماز میں یہ تصور نہ کریں، ہاں اگر نماز میں بے اختیار یہ تصور قائم ہو جائے تو نعمت عظمیٰ ہے۔ جب یہ تصور شیخ کمال کو پہنچتا ہے تو سالک کی نظر جہاں پڑتی ہے اسے شیخ کی صورت ہی نظر آتی ہے۔
۳) ایک روز سیّد راجن شاہ پا پیادہ سفر کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ قیوم زماں حضرت خواجہ حاجی دوست محمد قندھاری علیہ الرحمۃ ہمیشہ قندھار سے پاپیادہ چل کر دہلی شریف میں آپ پیر و مرشد حضرت شاہ غلام علی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔
۴) آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مرشک کی مخالفت کرے خواہ وہ امور دین میں ہو یا دنای میں ایسا شخص مردود طریقت ہے۔
۵) آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کامل درویش وصال کے وقت کسی ناقص کو اپنا جانشین قائم مقام بنادے تو وہ ناقص بھی کامل ہوجاتا ہے۔ اور کامل کے تمام فیوض اور اس کی نسبت اسے حاصل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس فقیر کے نزدیک اگرچہ اس ناقص کو نسبت حاصل ہو جاتی ہے مگر وہ اس شخص کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا۔ جس نے کامل سے سلوک کی منازل طے کی ہیں۔
۶) آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ مبتدی طالب سلوک کو ذکر اور مراقبہ بہت زیادہ کرنا چاہیے فرائض اور سنتیں بلا ناغہ ادا کرے، باقی نوافل و اوراد کی کثرت مناسب نہیں۔ گویا مبتدی بیماری کی مانند ہے جسے زیادہ دوا استعمال کرنی چاہیے۔ نہ کہ خوراک، بلکہ خوراک کم استعمال کرنی چاہیے۔
۷) آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ مرید جب پیر کی خدمت میں حاضر ہو، بالکل چپ رہے اور فیض کا انتطار کرے، کیوں کہ ابھی وہ خانقاہ کی چار دیواری سے باہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیر کو مرید کے تمام حالات سے القا فرما دیتا ہے۔ اور پیر کو توفیق دیتا ہے کہ مریدوں کی حاجت کو پورا کر سکے۔
۸) آپ فرماتے ہیں کہ سب پیر ان عظام اور بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کا بر گزیدہ اور مقبول ماننا چاہیے لیکن اپنے پیر کا درجہ بلند سمجھنا چاہیے اور اس کے برابر کسی کو نہ سمجھے۔
۹) آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ مقدسہ رسول کریم ﷺ کر کے واپس آتے ہیں۔ تو یہ مقامات کسوٹی کی مانند ہیں یا تو حاجی اس جگہ سے ایمان کامل لے کر آتا ہے یا ایمان سے خالی ہو کر آتا ہے۔
چنانچہ تجربہ شاہد کہ بعض لوگ جب حج بیت اللہ سے واپس آتے ہیں تو پہلے سے زیادہ نیک ہو جاتے ہیں اور بعض کی حالت بہت زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔
۱۰) آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ کامل اور طاقتور بزرگ اپنے تصرف سے اپنی ساتھ پشتوں تک ولایت خضریٰ کا سلوک طے کرا دیتا ہے۔
۱۱) آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ طریقہ کے مطابق بچہ نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں رہتا ہے۔ اور معیاد پوری ہونے کے بعد مکمل ہو کر باہر آتا ہے۔
آں حضرت ﷺ کو بھی چالیس برس پورے ہونے پر اظہار نبوت کی اجازت ملی۔ اس فقیر نے پورے چالیس سال پیر ان کبار کی خدمت کی۔ چالیس سال کے بعد پیر ان کبار سے فیض ملا۔ اور آج کل لوگ یہاں خانقاہ میں آتے ہیں۔ اور ایک رات رہ کر چلے جاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم کامل بن جائیں۔ حالاں کہ روز بروز اہل زمانہ کی حالت خراب ہو رہی ہے۔
۱۲) آپ اپنے مریدین و مخلصین کو نماز کی تاکید فرماتے تھے، بالخصوص نماز با جماعت ادا کرنے کی تلقین فرماتے۔
ایک دن ارشاد فرمایا کہ میں نے سات سال تک نماز با جماعت فوت نہیں ہونے دی۔ اب اگر جنگل میں بھی جاؤں تو نماز جماعت سے حاصل ہو جاتی ہے۔ اور بارہ سال تک کسی سے سوال نہیں کیا۔ اس کی برکت یہ ہے کہ جنگل میں بھی جاؤں تو اللہ تعالیٰ لنگر کا سامان اسی جگہ عطا کر دیتا ہے اور ہوائی رزق آجاتا ہے۔
۱۳) آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب انسان نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو سجدہ کے مقام پر نظر رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں نے اس زمین میں دفن ہونا ہے۔ اور رکوع میں جائے تو اپنے دونوں پاؤں کو دیکھے اور یہ خیال کرے کہ میری روح اس جگہ سے نکلنا شروع ہوگی، جب سجدہ میں جائے تو اپنی ناک کی طرف دیکھے اور خیال کرے کہ میری روح اس جگہ سے بھی نکلے گی، جب التحیات میں بیٹھے تو اپنے سینے کو دیکھے اور یہ خیال کرے کہ روح سینے سے بھی نکلے گی۔ جو شخص اس طریقہ پر کار بند ہو کر نماز پڑھے گا، وہ نماز میں وساوس خطرات سے محفوظ رہے گا۔
۱۴) ایک دن آپ نے یہ بیت اپنی زبان فیض ترجمان سے ارشاد فرمائے
پیر سکھائی ایہاریت |
بہہ وچ حجرے یا مسیت |
پھٹا پرانا کپڑا پا |
بیا پروتھا ٹکڑا کھا |
غیر دے در تے مول نہ جا
۱۵) آپ کبھی کبھی سرائیکی کے یہ اشعار بھی بڑے ہی ذوق سے پڑھتے تھے
دین تے دنیا ڈوہیں سکیاں بھیناں تینوں عقل نہیں سمجھیندا
ڈو بھیناں وچ ہک نکاح دے تینکوں شرح نہیں فرمیندا
بھاتے پالی وچ ہکے تھاں دے بیا تھاں انیسیں کہندا
ڈوہیں جہان جت گئے اوہے جِنَھا دعوی سٹیا میں دا
کشف و کرامات:
حضرت خواجہ غلام حسن نقشبندی المعروف پیر سواگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ علیہ کے دست حق پرست پر نور پور تھل کا ایک سکھ مسلمان ہوا۔ جس کا نام آپ نے شیخ فضل الدین رکھا۔ ایک دن وہ خانقاہ معلیٰ سواگ شریف میں حاضر ہوا اور آکر کہنے لگا کہ حضور دعا فرمائیں کہ میرا لڑکا بھی مسلمان ہو جائیں۔
ابھی وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اس ک ابیٹا بھی خانقاہ شریف میں اپنے والد کو ملنے کے لیے آگیا۔ شیخ فضل الدین نے اپنے بیٹے کو دعوت اسلام دی اور کہا کہ تو بھی حضرت کے سامنے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جا۔ مگر بیٹے کا رویہ پہلے سے بھی سخت نکلا اور اس نے دوٹوک لفظوں میں اپنے والد سے انکار کر دیا۔ اور خانقاہ شریف سے واپس اپنے گھر جانے کے لیے والد سے اجازت مانگی تو اس کے والد نے اسے اجازت نہیں دی۔ اس کو وہیں بٹھا کر حضرت پیر سواگ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں نے اپنے لڑکے کو دعوت دی ہے مگر وہ پہلے سے بھی سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور اب وہ خانقاہ شریف سے اپنے گھر واپس جانے کی مجھ سے اجازت مانگ رہا ہے۔ حضرت پیر سواگ نے اس لڑکے کو طلب فرمایا اور اس کے ساتھ چند قدم چل کر اسے اپنے تسبیح خانے میں لے گئے۔ وہ لڑکا بھی پیچھے پیچھے تسبیح خانے میں داخل ہوا۔ اور آتے ہی عرض کرنے لگا حضور مجھے بھی کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیجئے۔ اور اپنا جوڑا جو سکھوں کی طرح سر پر تھاخود اپنے ہاتھوں سے کاٹ ڈالا۔
حضرت پیر سواگ نے اسے مسلمان کرنے کے بعد اس کا نام شیخ غلام یٰسین رکھا۔
کرامت نمبر ۲:
آپ کے ایک مرید فقیر محمد بخش سندھی جو کہ دریا خان ضلع بھکر کے رہنے والے ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے علاقے کا ایک شخص جس کا نام محمد بخش بلوچ تھا وہ حضرت پیر سواگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور بیعت کی درخواست کی اور حضرت کے دستِ مبارک پر بیعت سے مشرف ہو کر واپس اپنے گھر چلا گیا۔ اور اس دوران اپنے علاقے میں کسی پرائی عورت سے اس کی آشنائی تھی اس نے زنا کیا۔ جب وہ دوبارہ خانقاہ معلیٰ سواگ شریف پہنچا تو حضرت قبلہ پیر سواگ نے اس کو سخت انداز میں ملامت کی اور حکم دیا کہ مجھ سے دور ہو جاؤ۔ میرے قریب بھی نہ بیٹھو۔
وہ شخص کچھ دور جا کر بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ حضرت پیر سواگ قبلہ نے اسے شفقت کریمانہ فرماتے ہوئے اسے بلایا اور فرمایا کہ مرید کا فرض ہے کہ پیر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیر کا فرض ہے کہ اس کو برے کام سے روکے۔ یہ فرما کر محمد بخش بلوچ کی کمر پر تھپکی دے کر فرمایا کہ اب دیکھیں گے کہ تو کس طرح گناہ کرتا ہے۔ وہ شخص اسی وقت نا مرد ہو گیا اس کے بعد کسی عورت پر بھی قادر نہ ہوسکا۔
کچھ عرصہ کے بعد اس نے مجھے کہا کہ حضرت قبلہ کی خدمت میں عرض کریں کے میں اپنی منکوحہ عورت پر تو قادر ہو جاؤں۔ فقیر محمد بخش سندھی کے عرض کرنے پر حضرت پیر سواگ نے محمد بخش بلوچ کے لئے دعا فرمائی تو اس کے بعد وہ فقط اپنی منکوحہ بیوی پر ہی قادر رہ سکا دوسری جگہ پر گناہ کرنے پر قادر نہ رہ سکا۔
کرامت نمبر ۳:
ایک مرتبہ آپ بستی چاون ضلع ملتان کی مسجد میں وعظ فرما رہے تھے کہ عین مجلس وعظ میں کسی شخص نے آپ سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور نبی کریم ﷺ جب معراج شریف پر تشریف لے گئے تھے تو آسمانوں سے کس طرح گزرے تھے۔
یہ سن کر آپ کو وجد آگیا اور جذب کے عالم میں حاضرین کے سامنے مسجد کی سامنے والی دیوار سے پار غائب ہو گئے اور پھر کچھ لمحوں کے بعد واپس منبر پر تشریف لا کر ارشاد فرمایا کہ میرے آقا کریم شب اسرا کے دولہا ﷺ اس طرح تشریف لے گئے تھے اور واپس آئے تھے۔ اس واقعہ کے چشم دید ہزاروں افراد آپ کا س طرح سب کے سامنے دیوار سے پار غائب ہونا اور پھر واپس آنا دیکھ کر حیران و ششدرہ رہ گئے۔
کرامت نمبر ۴:
آپ کا ایک مرید جس کا نام سردارو حجام تھا۔ آپ کی غلامی میں آنے سے پہلے وہ چوری ڈاکے کا کاروبار کُھلے عام کرتا تھا۔
سردار مذکور کے خلاف بوجہ نامی گرامی چور اور ڈاکو ہونے کے حکومت نے وارنٹ گرفتاری نکالے ہوئے تھے۔ سردار کہتا ہے کہ ایک دن دو سپاہی میری گرفتاری کے لیے شام کے وقت خانقاہ معلیٰ سواگ شریف میں آئے۔ چوں کہ نمازِ مغرب کا وقت قریب تھا اذان ہوئی اس کے بعد حضرت پیر سواگ نے نماز پڑھانا شروع کی تو وہ پولیس والے بھی نماز میں شامل ہو گئے میں بھی ان دونوں کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ باجود یہ کہ وہ دونوں پولیس ملازم میرے اچھے جاننے والے تھے۔ وہ اچھی طرح مجھ سے واقف اور میں بھی ان کو جانتا تھا۔
مگر وہ حضرت پیر سواگ کی برکت اور توجہ سے مجھے بالکل نہ پہچان سکے۔ نماز کے بعد وہ دونوں سپاہی حضرت پیر سواگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سردار کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔ اگر سرادر آپ کے پاس موجود ہو تو بتادیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ لنگر خانے میں تلاش کرو۔ کہیں تم کو مل جاوے تو پکڑلو۔ انہوں نے بہت تلاش کیا اور بار بار آکر مجھے دیکھا مگر مجھے پہچان نہ سکے اور چلے گئے۔
دوسرے دن پھر آئے میں لنگر خانے میں بیٹھا تھا وہ تین دفعہ میرے پاس آئے اور میرے سر کو پکڑ کر پوچھا کہ تم سردار ہو۔ میں نے کہا ہاں مگر انہوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ تمہاری شکل سردار کی نہیں۔ آخر دونوں سپاہی نا امید ہو کر چلے گئے۔
کرامت نمبر ۵:
آپ کی خدمت اقدس میں گہنہ خان ذیلدار ساکن جھنگ نے حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کی۔
آپ نے بیعت فرما کر معمول کے مطابق گہنہ خان کو گناہوں سے پرہیز کرنے کی ہدایت فرمائی۔ گہنہ خان نے عرض کیا حضرت تمام گناہوں سے توبہ کر کے چھوڑ سکتا ہوں مگر زنا کو نہیں چھوڑ سکتا۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ گہنہ خان اس مقام پر جہاں تم گناہ کرنے کا ارادہ کرو۔ اگر فقیر کو وہاں موجود پاؤ تو کیا فقیر کی موجودگی میں زنا کرو گے۔ گہنہ خان نے وعدہ کر لیا کہ حضرت کے روبرو ہر گز یہ فعل بد نہ کروں گا۔
حضرت پیر سواگ نے فرمایا جاؤ گھر چلے جاؤ۔ جب گہنہ خان گھر پہنچا تو عادت کے موافق ایک دن اس نے زنا کا ارادہ کیا۔ مکان خالی تھا۔ عورت بھی موجود تھی۔ جب کمرے کے دروازے بند کر کے اس عورت کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو اپنے اور اس عورت کے درمیان آپ کو کھڑے دیکھا۔ اور فرماتے ہیں گہنہ خان اپنا وعدہ یاد کرو۔ یہ دیکھ کر گہنہ خان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ کانپنے لگا۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس فعل بد سے توبہ کرلی۔
اس واقعہ کے بعد آپ نے اپنی خانقاہ شریف میں حافظ غلام محمد جھنگوی سے فرمایا کہ گہنہ خان پر مجھے اتنی توجہ صرف کرنا پڑی کہ میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔
کرامت نمبر ۶:
آپ ایک مرتبہ کسی کی دعوت پر قادر والی ضلع بھکر میں واعظ کے لیے تشریف لے گئے۔
وہاں ایک شخص مسمی سونا لک جو کہ مسلکاً شیعہ ہونے کے علاوہ اس علاقے کا مشہور و معروف چور اور ڈاکو تھا۔ اپنے ہم خیال چند دوستوں کے ساتھ اعتراض اور شرارت کی غرض سے آکر مجلس واعظ میں بیٹھ گیا۔
حضرت پیر سواگ کے چند مخلص ساتھیوں نے آپ کو اس کی آمد اور ارادے سے باخبر کر دیا۔ جب آپ نے واعظ شروع کیا تو دوران وعظ آپ نے جوش میں آکر سونا لک کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سونا اٹھ اور کھڑا ہو کر یہ بتا کہ حضرت سیّد فاطمۃ الزہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کھجوروں کے درخت مانگنے کے لیے حضرت امیر المومنین سیّدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں گئیں تھیں۔
سونا لک آپ کے حکم پر فوراً کھڑا ہوا اور تھر تھر کانپنے لگا اور اس کی زبان سے کوئی لفظ اس کے جواب میں منہ سے نہ نکلا اور کانپتے کانپتے گر پڑا۔ اور تھوڑی دیر کے بعد آپ کے قدموں میں گر کر اظہار بے خبری کرنے لگا اور چپ ہو کر محفل میں بیٹھ گیا۔
جب آپ واعظ سے فارغ ہوئے تو سونا لک نہایت عاجزی سے بیعت کے لیے درخواست گزار ہوا۔ مگر آپ نے فرمایا میں تجھے بیعت نہ کروں گا۔ مگر سونا لک نے آپ کے دامن مضبوطی سے پکڑ لیا۔
آپ کے خادمین اور مریدین نے عرض کی حضور اس کو اپنی غلامی سے محروم نہ فرمایئے۔ یہ اپنے خیال فاسدہ سے تائب ہو رہا ہے تو بندہ پروری فرما دیں۔ اس کے بعد آپ نے اس شخص کو اپنے دستِ مبارک پر بیعت سے مشرف فرما کر اپنی غلامی میں قبول کر کے اس ناقص سونے کو خالص سونا بنا دیا۔
کرامت نمبر ۷:
آپ کے ایک دیرینہ خادم محمد اعظم خان رئیس و ذیلدار موضع سوکڑ علاقہ تونسہ شریف بیان فرماتے ہیں کہ 1933ء میں مجھ پر قتل کا ناحق مقدمہ بن گیا۔
میں حضرت پیر سواگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی حضور میرے لیے دعا فرمائیں کہ ایمان اور جان بچ جائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس سلسلہ میں آجاتا ہے اس کے ایمان کی ضمانت ہو جاتی ہے اور چوں کہ تمہارے خلاف مقدمہ ناحق ہے اس لیے تمہارے طفیل اس مقدمے میں ملوث آٹھ آدمی بھی بچ جائیں گے۔
محمد اعظم خان ذیلدار کا بیان ہے کہ ڈپٹی کمشز اور کپتان دونوں ہمارے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے جرگہ دار ایسے لوگوں کو مقرر کیا جو کہ اس کی منشاء اور خواہش کے مطابق سخت سے سخت سزا تجویز کریں۔
لیکن چوں کہ حضرت پیر سواگ میرے حق میں دعا فرما چکے تھے ان کی دعا کی برکت سے جرگہ داروں نے مجھے اور میرے علاوہ دو ملزموں کو بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا اور باقی چھ آدمیوں کو مجرم قرار دے کر سزا کی رپورٹ تیار کر دی۔ وہ رپورٹ جب ڈپٹی کمشز کے پاس گئی تو اس نے ان سے پوچھا کہ جب شہادت تمام ملزموں کے لیے یکساں ہے تو پھر تین ملزموں کو کیوں بری الذمہ قرار دیا گیا اور چھ کو کیوں سزا دی گئی۔ لہٰذا مجھے اس رپورٹ سے اتفاق نہیں ہے۔
اس نے ایک اور جرگہ مقرر کر دیا۔ اس نے سماعت کے بعد رپورٹ کی کہ مقدمہ میں ملوث تمام لوگ بے گناہ ہیں۔ لہٰذا ان کو بری کیا جائے۔ اس پر ڈپٹی کمشز نے سب کو بری کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ اس طرح ہم سب حضرت کی دعا اور نگاہ کی برکت سے باعزت بری ہوگئے۔
کرامت نمبر ۸:
آپ کے دست حق پرست پر جلال خان (۲) غلام حیدر بارڈر پولیس والا (۳) اللہ بخش خان مٹہ والے۔ ڈیرہ اسماعیل کی جامع مسجد اخوند والی میں بیعت سے مشرف ہوئے۔
آپ نے ان تینوں حضرات مریدین سے فرمایا کہ آج میں لوگوں کے سامنے وعظ کروں گا مگر کسی پر میرے واعظ کا اثر نہ ہوگا۔ اس لیے کہ آج کی محفل میں ایک ایسا شخص موجود ہوگا۔ جو اپنی خالہ سے زنا کر کے آئے گا۔ اور میں اس کے متعلق اپنے وعظ میں ذکر کروں گا۔ یہ ذکر سن کر جب وہ اٹھ کر مجلس وعظ سے باہر جانے لگے تو تم تینوں حضرات بھی اٹھ کر اس کے ساتھ مجلس سے ماہر چلے جانا تا کہ اس کا راز فاش نہ ہونے پائے۔
چنانچہ جب آپ نے وعظ شروع کیا اور اپنے وعظ میں اس شخص کے متعلق بڑے ہی غصے کی حالت میں بیان فرمایا تو وہ شخص سمجھ گیا کہ میرے متعلق بات ہو رہی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ اس واقعہ کو دہرایا تو وہ شخص سمجھ گیا کہ میرے ہی متعلق بات ہو رہی تو مجلس سے اٹھ کر باہر جانے لگا تو اس کے ہمراہ ہم تینوں بھی آپ کی ہدایت و فرمان کے مطابق اٹھ کر باہر چلے گئے۔ جس سے ہمارے علاوہ کسی کو بھی اس حقیقت کا علم نہ ہوسکا کہ ان چاروں میں سے کون اس فعل کا مرتکب ہوا ہے۔
اولاد امجاد:
اللہ کریم نے اپنے فضل سے آپ کوتین صاجزادے عطا فرمائے جن میں سب سے بڑے حضرت خواجہ فقیر محمد نقشبندی علیہ الرحمۃ جو آپ کے مرید و خلیفہ اور بہت بڑے ولی اللہ ہوئے ہیں۔ دوسرے صاجزادے حضرت خواجہ غلام محمد نقشبندی علی الرحمۃ بھی آپ کے مرید و خلیفہ اور بہت بڑے عارف کامل ہوئے ہیں۔ تیسرے صاجزادے حضرت خواجہ محمد ابراہیم نقشبندی علیہ الرحمۃ ہیں۔
آپ کے خلفاء نامدار:
یوں تو آپ کے خلفاء کی تعداد پچاس سے زائد بنتی ہے۔ جن میں چند بڑے اور نامور خلفائے کرام کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔ حضرت خواجہ گل حسن نقشبندی مرشد آبادی ڈیرہ اسماعیل خان، حضرت خواجہ محمد عبداللہ المعروف حضرت پیر بار و شریف فتح پور ضلع لیہ، حضرت خواجہ حافظ محمد عبدالغفور نقشبندی المعروف بابا جی صاحب دریائے رحمت شریف تحصیل حضرو ضلع اٹک، حضرت خواجہ غلام قاسم کمبوہ شریف، حضرت خواجہ پیر محمد اسد خان ترین نقشبندی علیہ الرحمۃ بستی آڑی لعل خان نزد قصبہ گجرات تحصیل کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ، حضرت خواجہ فقیر سلطان علی نقشبندی علیہ الرحمۃ شاہ والا شریف، حضرت مولانا عبدالکریم بلوچ احمدانی جام پوری نقشبندی جام پور ڈیرہ غازی خان کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
وصال باکمال:
آپ کا وصال باکمال 13 جمادی الآخر 1358 ہجری بمطابق 1939ء بوقت نمازِ عشاء ہوا۔ مزار پر انوار سواگ شریف تحصیل کروڑ ضلع لیہ میں مرجع خاص و عام ہے۔ جہاں اہلِ عقیدت و محبت حاضری دے کر اپنے قلوب و اذبانکو نور ایمان سے منور کرتے ہیں۔
دربار شریف کے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاجزادہ محمد حسن نقشبندی مدظلہ العالیٰ ہیں جو اپنے بزرگوں کی تعلیمات کی عملی تصویرو تفسیر ہیں۔ جب کہ موجودہ سجادہ نشین کے دوسرے بھائی حضرت صاجزادہ فیض الحسن نقشبندی مدظلہ العالی اس درویشی میں بڑے بڑے جاگیرداروں سے ٹکر لے کر کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر قومی خدمت کا فریضہ سر انجام دے چکے ہیں۔
فقیر راقم الحروف سے اچھی یاد اللہ اور تعلق ہے۔ فقیر پر خصوصی شفقت اور توجہ فرماتے ہیں۔ فقیر راقم الحروف کو بارہا دربار میں شریف کی سعادت حاصل ہے۔ آپ کے دربار میں روحانی طور پر سکون میسر آتا ہے۔
دربار عالیہ سواگ شریف کی آخری مرتبہ حاضری کے وقت بردرِ طریقت محبوب قمر المشائخ جناب شیخ فواد رشید صابؔری اور میں حاضری برادرم شیخ محمد اختر کاشف لیہ والے بھی ہمراہ تھے۔
جناب حضرت صاجزادہ فیض الحسن سواگ سابق ایم این اے نے اس موقع پر خصوصی شفقت و محبت فرمائی اور آپ کی سوانح حیات پر مشتمل ایک کتاب فیوضات حسینہ عنایت فرمائی۔
رہے آستاں سلامت، رہے برقرار شاہی
ماخذومراجع:
.1انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام۔ج۔دوم،
.2تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ