خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
آپ مشائخ چشت کے اعلیٰ مشائخ اور اولیاء میں مانے جاتے ہیں، ریاضت اور کرامت میں شہرۂ آفاق ہوئے اور ولایت کے اوصاف میں موصوف تھے عظیم الشان اور رفیع المقام تھے۔ صحیح النسب سادات میں سے تھے ۔ آپ کو حضرت خواجہ عثمانی ہارونی قدس سرہ سے خرقہ خلافت ملا تھا اور سلسلۂ چشتیہ کو برصغیر پاک و ہند میں امام الطریقت کی حیثیت سے رائج کیا، آپ کی تشریف آوری سے اس ملک میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بعض مفکرین اسلام نے ہند النبی اور ہند الولی کے خطابات سے یاد کیا تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کیا کرتے تھے، چنانچہ ساٹھ سال تک یہی معلوم رہا۔ آپ کی جس پر نگاہ لطف پڑتی خدا رسیدہ بنادیتی تھی۔ سات دن بعد خشک روٹی کوپانی میں بھگو کو افطار فرمایا کرتے تھے اور اپنا لباس ددہرا نجیہ شدہ پہنا کرتے تھے۔ اگر پھٹ جاتا تو پیوند لگالیتے تھے۔
آپ کا اصلی وطن سجستان تھا۔ اور آپ کا سلسلہ نسب پدری یوں ہے خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن سید الکونین امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آپ کے والد گرامی سید غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ عراق میں فوت ہوئے تھے اور ان کا مزار وہاں ہی ہے۔ آپ کی والدہ کا اسم گرامی خاص المکہ تھا، جو اصفہان کی رہنے والی تھیں۔ مگر آپ نے خراسان میں پرورش پائی۔ جب آپ کی عمر گیارہ سال ہوئی تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔
سیّد غیاث الدین قدس سرہ کے تین بیٹے تھے تینوں کو والد کا ورثہ ملا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہ کو ورثہ میں ایک وسیع باغ ملا تھا، آپ باغ میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس قلندر ابراہیم نامی مجذوب آپہنچا، حضرت خواجہ نے اس کی بڑی تعظیم کی اور اُٹھ کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ اور ایک درخت کے سایہ میں بٹھایا انگور کا ایک خوشہ پیش کیا قلندر نے انگور کی طرف تو رغبت نہیں کی مگر اس نے اپنے تھیلے سے تھوڑا کنجارہ نکال کر اپنے ہاتھ پر رکھا اور دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ کے منہ میں رکھا، حضرت خواجہ نے اسے چکھا ہی تھا کہ آپ کے دل میں انوار الہیہ اترنے لگے اور دنیا کی خواہشات دل سے ختم ہونے لگیں تھوڑے دنوں میں باغ کو بیچا، اور رقم غریبوں میں تقسیم کردی اور طلب خداوندی کے لیے اپنے شہر کو چھوڑ کر سفر کر روانہ ہوئے اور سمر قند جا پہنچے وہاں قرآن پاک حفظ کیا ظاہری علوم حاصل کیے۔ فراغت علوم کے لیے عراق کو روانہ ہوئے اور قصبۂ ہارون میں جا پہنچے۔ یہ قصبہ نیشاپور کے قریب تھا، ان دنوں وہاں خواجہ عثمان قدس سرہ روحانی تربیت میں مشغول تھے آپ مرید ہوئے اور کئی سال تک آپ کی خدمت میں رہے۔ اور خدمت روحانی سر انجام دیتے رہے۔ باطنی امور کی تکمیل کے بعد خرقہ خلافت حاصل کیا اور پھر بغداد کو روانہ ہوئے۔ راستہ میں قصبۂ سنجان آتا ہے۔ ان دنوں وہاں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہ تشریف فرما تھے۔ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوکر کوۂ جودی (جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی) پر گئے۔ کوہ جودی سے بغداد جاتے ہوئے جیلان کا قصبہ آتا ہے ان دنوں جیلان میں حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانی جلوہ فرما تھے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کچھ دن حضرت غوث الاعظم کی مجالس میں رہے۔ پھر آپ کے ہمرکاب بغداد پہنچے ان دنوں بغداد میں حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے پیر و مرشد شیخ ضیاء الدین قدس سرہ موجود تھے۔ حضرت خواجہ نے ان کی مجالس میں کچھ وقت گزارا۔ اسی مقام پر شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے ملاقات ہوئی اسی سفر میں حضرت خواجہ محبوب سبحانی خواجہ اوحدالدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات ہوا۔ پھر خرقۂ خلافت بھی ملا۔ وہاں سے رخصت ہوکر ہمدان آئے۔ ہمدان میں حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی قدس سرہ سے استفادہ کیا۔
ہمدان سے نکل کر آپ نے تبریز کا رخ کیا، تبریز میں ان دنوں حضرت ابوسعید تبریزی رحمۃ اللہ علیہ جو شیخ جلال الدین تبریزی کے پیر و مرشد تھے، جلوہ فرما تھے، حضرت خواجہ نے ان کی صحبت سے فائدہ حاصل کیا، وہاں سے اصفہان پہنچے کچھ عرصہ حضرت محمود اصفہانی قدس سرہ کی صحبت سے استفادہ کرتے رہے، اس روحانی سفر اور نورانی بزرگوں کی ملاقات کے بعد آپ کو ہندوستان کی طرف جانے کا خیال آیا، راستہ میں آپ کی ملاقات خواجہ ابوسعید مہمندی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی، وہاں سے استرآباد آکر حضرت خواجہ ناصرالدین استر آبادی کی مجالس میں قیام فرماتے رہے۔ خواجہ ناصرالدین اپنے وقت کے عظیم القدر شیخ اور کامل الولایت بزرگ تھے۔ آپ خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ ان دنوں آپ کی عمر ایک سو ستائیس سال ہوچکی تھی یہ وہ بزرگ تھے۔ جن کی صحبت میں حضرت ابوسعید ابوالخیر اور شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہما جیسے نامدار بزرگ بھی استفادہ کرتے رہے تھے وہاں سے چل کر غزنین میں تشریف لائے، وہاں شیخ العارفین شیخ عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس سے استفادہ کیا۔ شیخ عبدالواحد غزنوی پیر شیخ نظام الدین ابوالموید کی صحبت سے مستفیض ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین ان سفروں میں مختلف اولیاء وقت سے استفادہ کرتےرہے۔ ان ممالک کے اولیائے کبار کی مجالس سے مستفیض ہونے کے بعد آپ نے ہندوستان کا رُخ کیا۔
حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر اجودہنی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جن دنوں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اصفہان میں تشریف لائے، تو خواجہ محمود اصفہانی کو ملے۔ انہی دنوں قطب الاقطاب بختیار اوشی رحمۃ اللہ علیہ وہاں پہنچے ہوئے تھے، حضرت قطب الاقطاب کی خواہش تھی کہ خواجہ محمود اصفہانی سے بیعت ہوں، مگر جب خواجہ معین الدین کو دیکھا، تو بیعت کے لیے استدعا کی اور مرید بن گئے، وہاں سے دونوں بزرگ ہرات پہنچے، ہرات میں ان دنوں یادگار نامی حاکم حکومت کر رہا تھا وہ اعتقادی طور پر امامیہ شیعہ تھا وہ نہایت اہتمام کے ساتھ صحابۂ رسول کو گالیاں دیا کرتا تھا، وہ یہاں تک سخت شیعہ تھا کہ اس کی رعایا میں اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام ابوبکر یا عثمان یا عمر رکھ لیتا تو وہ اُسے قتل کردیتا تھا، حضرت خواجہ وہاں پہنچے تو اتفاق سے محمد یادگار کے خاص باغ میں قیام پذیر ہوئے اندر ایک حوض تھا، آپ اس حوض کے کنارے رہنے لگے۔ ایک دن محمد یادگار اپنی سیر کو آیا، تو حضرت خواجہ کو حوض کے کنارے دیکھ کر غضب ناک ہوگیا، ابھی وہ آپ کو وہاں سے نکالنا ہی چاہتا تھا کہ حضرت خواجہ کی نگاہیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ فوراً ہی آپ کے پاؤں پر آگرا اور بے ہوش ہوکر تڑپنے لگا، حضرت خواجہ نے اُسے اِس حالت میں دیکھا تو حوض سے پانی لے کر اس کے چہرے پر چھینٹیں ماریں تو وہ ہوش میں آگیا، حضرت خواجہ کی نگاہ اور پانی کی چھینٹوں کا یہ اثر ہوا کہ اُس کے دل سے صحابۂ کرام کے بغض دھل گئے اور مذہب شیعہ کے عقیدے سے تائب ہوگیا اور اپنے دربار کے امراء اور اراکین کو لے کر حضرت خواجہ کا مرید بن گیا اپنا تمام مال اور خزانہ حضرت خواجہ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے فرمایا یہ سارا مال تمہارا ہے بلکہ ان لوگوں کا ہے جن سے تم نے ظلم و ستم کرکے چھینا ہے۔ بہتر یہی ہے یہ سارا مال ان کو واپس کردیا جائے اپنے ملک غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کردو، تاکہ تمہیں خدا شناسی کا موقع ملے وہ کچھ دنوں حضرت خواجہ کے زیر تربیت رہا اور خرقہ خلافت حاسل کیا آپ نے اسے ہرات کی ظاہری اور باطنی خلافت پر مامور فرمادیا۔
ہرات سے چل کر حضرت خواجہ بلخ پہنچے چند دن شیخ احمد خضرویہ کے پاس ٹھہرے وہاں ایک ضیاء الدین نامی حکیم تھا جو بڑا ہی مغرور اور حکمت میں مشہور تھا۔ وہ اولیاء اللہ اور دریشوں کا منکر تھا ایک دن حضرت خواجہ دامنِ کوہ کی اک وادی میں جا پہنچےا ور ایک کلنک کو اپنے تیر کا نشانہ بناکر آگ میں کباب بنا رہے تھے کہ حکیم ضیاء الدین بھی اتفاقاً ادھر آنکلا وہ حضرت خواجہ کے پاس بیٹھ گیا، حضرت خواجہ نے بھنے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا حکیم کو بھی دیا وہ کھاتے ہی زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد نہایت اخلاص کے ساتھ مرید ہوگیا اور حکمت کی ساری کتابیں دریا میں پھینک دیں بلخ سے دو بار غزنین آئے۔ ہم اس سے پہلے شمس العارفین کی شہرت کا ذکر کرچکے ہیں۔ آپ وہاں سے چلے تو لاہور پہنچے لاہو میں دس ماہ دس ماہ تک مخدوم علی ہجویری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر اعتکاف فرمایا آپ کے مزار سے آپ نے بے پناہ باطنی فوائد حاصل کیے ۔ لاہور سے روانہ ہوکر دہلی پہنچے کچھ دن دہلی قیام فرماکر دسویں محرم پانچسو اکسٹھ ہجری کو درالخیر اجمیر میں رونق افزاء ہوئے۔
اجمیر میں سب سے پہلے جس شخص نے شرفِ ارادت حاصل کیا وہ میر سید حسین خنگ سوار تھے آپ پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے لیکن بعد میں تائب ہوکر آپ کے مرید ہوگئے اور اعلیٰ مراتب پر پہنچے۔ میر سید حسین کے مرید ہونے کے بعد ہزاروں چھوٹے بڑے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہونے لگے۔ ان میں سے اکثر لوگ غیر مسلم تھے جو اسلام سے مشرف ہوکر حضور کے مرید بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ سر زمین ہندوستان میں اسلام کی شمع اسی خاندانِ عالی شان کے طفیل روشن ہوئی۔
اجمیر میں ایک شخص حضرت خواجہ معین الدین کی خدمت میں رہتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اس علاقے کے ظالم حاکم نے میرے بیٹے کو بغیر کسی گناہ اور جرم کے قتل کردیا ہے میں آپ سے امداد کا خواستگار ہوں اور انصاف کا امیدوار ہوں حضڑت خواجہ نے جب یہ بات سنی تو اپ نی جگہ سے اُٹھے مقتول کی لاش کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اے نوجوان اگر ظالم حاکم نے تجھے ناحق قتل کردیا ہے تو اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاؤ۔ مقتول نے اُسی وقت حرکت کی اور زندہ ہوکر اُٹھ بیٹھا۔
حضرت خواجہ معین الدین پہلی بار اجمیر پہنچے تو شہر کے باہر ایک ایسے درخت کے نیچے قیام فرما ہوئے جہاں اجمیر کے راجے کے اونٹ بیٹھا کرتے تھے، رات کو اجمیر کے راجہ کے اونٹ آئے سار بانوں نے حضرت خواجہ کو بتایا کہ یہ جگہ راجہ کے سرکاری اونٹوں کے لیے مقرر ہے۔ آپ کہیں اور تشریف لے جائیں آپ نے فرمایا ہم تو چلے جاتے ہیں تم لوگ اونٹوں کو بٹھالو، آپ وہاں سے اُٹھ کر انا ساگر کے حوض کے کنارے جا بیٹھے، اس حوض کے اردگرد کئی بت خانے بنائے گئے تھے۔ رات گزر گئی، صبح سار بانوں نے کوشش کی کہ اونٹوں کو اٹھائیں، مگر کوئی اونٹ اُٹھنے کا نام نہ لیتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُ ن کے سینے زمین کے ساتھ پیوست ہوچکے تھے سارا بانوں نے جان لیا کہ یہ اُس فقیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے جسے ہم نے اٹھا دیا ہے وہ تمام حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اب اللہ تعالیٰ نے اونٹوں کا حکم دے دیا ہے۔ساربان جب واپس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سارے اونٹ اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ اسلام کے دشمن جمع ہوئے اور اجمیر کے راجے کے پاس شکایت کی اور کہا یہ ایک بیگانہ آدمی ہمارے بت خانے کے پاس سکونت بنائے بیٹھا ہے چونکہ اس کا مذہب غیر مذہب ہے ہم وہاں نہیں جا سکتے اُس کو وہاں سے جانے کا حکم صادر فرمائیں اجمیر کے راجہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس فقیر کو تالاب کے کنارے سے اُٹھ کر ملک سے باہر کردیا جائے راجہ کے سپاہی خاصی تعداد میں پہنچے۔ حضرت خواجہ کے ساتھ جھگڑنا شروع کردیا۔ حضرت خواجہ نے مٹی کی مٹھی اٹھائی اور آیت الکرسی پڑھ کر ان کی طرف پھینکی، اُن لوگوں کے جسم خشک ہوگئے اور جہاں جہاں وہ تھے وہاں ہی پتھر بن گئے جو دور تھے وہ دیکھ کر بھاگ گئے۔
دوسرے دن اجمیر کے ہندو اپنے بت خانے کی پوجا کے لیے تالاب کے کنارے پر پہنچے ان کا مہنت رام دیو بڑی تعداد لے کر وہاں پہنچا اور حضرت خواجہ کی طرف آگے بڑھا یونہی وہ نزدیک آیا کا پنے لگا، اس کے دل میں اتنی دہشت پھیلی کہ وہ اپنی زبان سے کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے آپ کا مرید ہوگیا۔ اُس کے ہاتھ میں جو لکڑی یا پتھر آیا اُسے اپٹھا کر ہندوؤں کی طرف پھینکا اور انہیں پریشان کرکے بھگادیا حضرت خواجہ نے رام دیو کی یہ خدمت دیکھی تو پانی کا ایک پیالہ بھر کر اُسے پینے کو کہا۔ پانی پیتے ہی اُس کے دل کا شیشہ صاف ہوگیا اور اس کا چہرہ چمکنے لگا اور صدقِ دل سے آپ کا مرید بن گیا۔ حضرت خواجہ نے اُس کا نام شادی دیو رکھا اور اپنی تربیت میں لے لیا۔ شادی دیو ہندی زبان میں مسرت بخش کو کہتے ہیں۔ اس کرامت کے واقعہ ہونے کے بعد اجمیر کے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ شخص بہت بڑا جادو گر ہے اور اس کے مقابلے میں کسی بڑے جادوگر کو بلانا چاہیے راجہ اجمیر نے جوگی جے پال کو جو جادوگری کے فن میں سارے ہندوستان میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا بلا اور حکم دیا کہ اپنے جادو کے زور سے اس شخص کو شکست دی جائے۔
جے پال ایک ہزار پانچ سو جادوگروں کو لے کر اجمیر پہنچا۔ اور راجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ اب ہم اُس سے مقابلہ کریں گے جے پال کی قیادت میں اتنے جادوگر حضرت خواجہ معین الدین کے پاس پہنچے آپ اٹھے۔ تازہ وضو کیا اپنی لاٹھی کے ساتھ اپنے تمام ساتھیوں کے اردگرد ایک لکری کھینچی اور اعلان کیا کہ ان شاء اللہ اس لکیر کے اندر ہمارے کسی دشمن کو آنے کی جرأت نہ ہوگی۔ چنانچہ جونہی کسی نے اُس لکیر سے آگے بڑھنے کی جرأت کی وہ منہ کے بل گر پڑا ناچار وہ لوگ واپس ہوگئے اور آنا ساگر کے حوض کے کنارے پر بیٹھ گئے اُن کی اس حرکت کا مطلب یہ تھا کہ حضرت خواجہ کا کوئی ساتھی حوض سے پانی نہ لے سکے۔ چنانچہ پانی کو بند کردیا گیا حضرت خواجہ نے شادی دیو نو مسلم کو حکم دیا کہ وہ آگے جاکر کسی طرح حوض کے پانی سے ایک پیالہ بھر لائے۔ وہ اٹھا اور حوض کے پانی سے ایک پیالہ بھر لایا اس پانی کے پیالے میں سارے حوض کا پا نی سمٹ گیا اور حوض خالی ہوگیا یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس حوض میں کبھی پانی تھا ہی نہیں حضرت خواجہ کے تمام مرید اسی پیالے سے پانی پیتے وضو کرتے لیکن پانی کم نہ ہوتا۔ دوسری طرف حوض کو پانی سے خالی پاکر تمام جادو گر تنگ آگئے۔ بعض تو پیاس کی وجہ سے ہلکان ہوگئے جے پال خود اٹھا اور اس لکیر کے کنارے پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہنے لگا کہ اللہ کی مخلوق پیاس سے مر رہی ہے تم اپنے آپ کو فقیر کہتے ہو، فقیر تو رحم دل اور سخی ہوتا ہے۔ اب داد رسی کا تقاضا ہے کہ بندوں کے لیے پانی کھول دیا جائے۔ حضرت خواجہ نے جے پال کی یہ بات سنی اور شادی دیو کو حکم دیا کہ یہ پانی کا پیالہ تالاب میں انڈیل دیا جائے۔ جونہی پیالہ تالاب میں ڈالا زمین میں جوش آیا اور تالاب لبالب بھر گیا۔
اب جادوگروں نے اکٹھے ہوکر جادو گری کا آغاز کردیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھیوں کو یوں دکھائی دیتا تھا کہ پہاڑ کی چوٹیوں سے ہزاروں اور لاکھوں سانپ اُس لکیر کی طرف بڑھ رہے ہیں جونہی کوئی سناپ لکیر تک پہنچتا تو اپنا سر لکیر پر رکھ دیتا جے پال یہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوا۔ اب اُس نے جادوگروں کو کہا کہ آسمانوں سے آگ برسادو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اتنی آگ برسی کہ سارا جنگل انگاروں اور شعلوں سے بھر گیا ہزاروں درخت آگ میں جلنے لگے لیکن اللہ کی مہربانی سے اس دائرے کے اندر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جادوگروں نے جب یہ بات دیکھی کہ اُن کے اردگرد کا سارا علاقہ جل گیا ہے مگر حضرت خواجہ کے دوستوں کو آنچ تک نہیں آئی تو جے پال کو کہنے لگے کوئی اور کام کرنا چاہیے ۔ جے پال کے سر پر ہرن کے چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ ہوا میں پھینکا اور چھلانگ لگا کر اُس میں سوار ہوگیا اور آسمان کی طرف پرواز کرتا نظر آنے لگا وہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا۔ حضرت خواجہ نے جے پال کو اس طرح اُڑتے ہوئے دیکھا تو فوراً اپنے جوتوں کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ جاؤ اور جے پال کو بدترین حالت میں واپس لاؤ، دونوں جوتے ہوا میں اُڑے اور جے پال کے سر پر کھڑکنے لگے۔ جے پال کو مجبوراً واپس آنا پڑا۔ نڈھال ہوکر رونے لگا اور اپنا سر حضرت خواجہ کے قدموں میں رکھ دیا اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اور مرید ہوگیا۔ اس نے التجا کی کہ میں قیامت تک زندہ رہنا چاہتا ہوں، آپ نے دعا کی اور فرمایا جاؤ تمہیں دائمی زندگی مل گئی ہے لیکن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہو گے۔ یہ بات مشہور ہے کہ جے پال ابھی تک اجمیر کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے جو ہر جمعرات حضرت خواجہ کے روضے کی زیارت کو آتا ہے۔
اجمیر کے راجہ نے جے پال کو شکست خوردہ دیکھ کر شادی دیو کی طرح اس سے بھی مایوس ہوگیا تو شہر میں واپس چلا آیا اور دل میں عہد کرلیا کہ اب حضرت خواجہ کی مخالفت نہیں کروں گا ، کچھ دنوں بعد حضرت خواجہ بھی اجمیر شہر کے اندر تشریف لے آئے اور ایک مکان میں رہنے لگے یہ مکان اسی جگہ واقع تھا جہاں ان دنوں آپ کا مزار ہے ایک دن خواجہ اجمیری نے اجمی رکے راجہ کو پند و نصایح کی اور ترغیب دی کہ راجہ اسلام قبول کرلے مگر اس نے انکار کردیا اس کے اسلام لانےسے مایوس ہوکر فرمایا ؎
کلیم بخت کسے را کہ با فتند سیاہ
بہ آب کوثر ہرگز سفید نتواں کرد
آپ نے اعلان کیا کہ تم نے اسلام قبول نہیں کیا، اب لشکر اسلام آئے گا اور اجمیر پر حملہ کرے گا کچھ دن گزرے ہی تھے کہ سلطان شہاب الدین غوری مختصر سا لشکر لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا، اس نے اجمیر پر زبردست یلغار کی اور اس جنگ میں راجہ اجمیر کو قتول کردیا گیا۔ مگر راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرلیا۔ راجہ پتھورا ان دنوں دہلی کا حکمران تھا اور راجہ اجمیر اس کے ماتحت اجمیر کا حکمران تھا۔
یہ بات عام مشہور ہے کہ جن دنوں لشکر اسلام کی ہندوستان میں آمد ہوئی تو ان دنوں رائے پتھورا اجمیر میں آیا ہوا تھا رائے پتھورا کے ملازموں نے ایک مسلمان کو تنگ کیا۔ یہ مسلمان حضرت معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مرید خاص تھاوہ فریادی بن کر حضرت خواجہ کے حضور آیا حضرت خواجہ نے راجہ پتھورا کو سفارش کی اس غریب کی داد رسی کی جائے۔ مگر راجہ نے کوئی پرواہ نہ کی۔ حضرت خواجہ اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ہم نے راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرادیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
سلطان قطب الدین بیگ ۶۰۲ھ میں دہلی کے تخت پر بیٹھا تھا۔ اور اسی سال راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ایک دن حضرت خواجہ اجمیر کے نواح میں جا رہے تھے۔ شیخ علی نامی مرید آپ کے ہمرکاب تھا وہاں ایک شخص آیا، اس نے آے ہی شیخ علی کو پکڑ لیا اور کہا کہ میرا قرضہ ادا کرو، ورنہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا یہ صورتِ حال دیکھی تو حضرت خواجہ نے بڑی انکساری اور نرمی سے قرض خواہ کو کہا کہ تم اسے تھوڑی سی مہلت دے دو۔ یہ قرض ادا کردے گا حضرت خواجہ کی اس نرمی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ شخص نہایت بے ادبی سے بولا اگر اس کی سفارش اتنی ہی اچھی لگتی ہے تو مجھے اپنی جیب سے قرض دے دو اس کی یہ بات سن کر حضرت خواجہ کو غصہ آگیا اور اپنی چاد رزمین پر بچھا دی دیکھتے ہی دیکھتے اس چادر پر درہم و دینار برسنے لگے۔ آپ نے اس بے ادب قرض خواہ کو کہا تم اپنا قرضہ اٹھالو، مگر اپنے حق سے زیادہ نہ لینا، وہ شخص آگے بڑھا اور لالچ کرتے ہوئے اپنے حق سے مزید رقم اٹھانے لگا مگر اس کا ہاتھ اسی وقت خشک ہوگیا اب چلانے لگا توبہ کرکے حضرت خواجہ کے قدموں میں گر پڑا۔ حضرت نے دست شفقت پھیرتے ہوئے اسے معاف کردیا ور اس کا ہاتھ تندرست ہوگیا۔
یہ بات ازروئے تحقیق درست قرار دی گئی ہے کہ حضرت خواجہ کی دو اہلیہ تھیں۔ ایک تو سید وجیہہ الدین جو حضرت خنگ سوار کے ماموں تھے کی بیٹی تھیں ان کے والد بزرگوار نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے باطنی حکم سے آپ سے نکاح کردیا تھا۔ اس بی بی کا اسم گرامی بی بی عصمت تھا۔ ان کے بطن سے تین بیٹے ہوئے تھے۔ خواجہ ابوسعید خواجہ فخرالدین خواجہ حسام الدین قدس سرہم، جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت لاولد تھے۔ ان کی بات قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ حضرت سلطان التارکین شیخ حمیدالدین صوفی ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے شیخ فرید قدس سرہ اپنے دادا کی زبانی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ نے اس غلام کو مخاطب کرکے فرمایا حمیدالدین جن دنوں میں جوان اور توانا تھا اور ابھی میری اولاد نہیں تھی، میں اپنے اللہ سے جو کچھ طلب کیا کرتا تھا بلا تکلف مل جایا کرتا تھا اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور مجھے اللہ نے اولاد (فرزند) بھی عطا فرمائے ہیں میرا مقصد دعاؤں اور نداؤں سے حاصل ہوجاتا ہے حمیدالدین نے عرض کیا، حضور آپ پر یہ بات تو واضح ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہا السلام حضرت مریم کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تھے آپ کو بے موسم میوے میسر آیا کرتے تھے۔ یہ میوے بے تکلف اور بلا استدعا ملا کرتے تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت مریم رزق کا انتظار فرمایا کرتی تھیں اورحکم ہوتا تھا کہ ان کھجوروں کی شاخوں کو ہلائیں تاکہ تازہ کھجوریں گریں، تو آپ شاخوں کو ہلاتیں تو تازہ کھجوریں گرتی تھیں آپ کے ساتھ بھی سابقہ ایام زندگی اور آج کے حالات میں اتنا فرق ہے حضرت خواجہ معین الدین نے یہ جواب سن کر بڑی مسرت کا اظہار فرمایا۔
تذکروں میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے بیٹے ابوسعید کی عمر پچاس سال ہوئی تھی کہ اللہ نے انہیں دو بیٹے عنایت فرمائے آپ کے دوسرے بیٹے فخرالدین بڑے بزرگ اور صاحب نعمت بزرگ تھے وہ حضرت خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے بیس سال بعد تک زندہ رہے اور ستر سال کی عمر میں انتقال فرمایا ان کے پانچ بیٹے تھے وہ قصبہ سروار جو اجمیر سے سولہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ فوت ہوئے تھے۔ آپ کا مزار بھی وہاں ہی ہے۔
خواجہ حسام الدین حضرت خواجہ کے بیٹے کہیں گم ہوگئے تھے۔ وہ ابدالوں کی مجالس میں مل گئے تھے اس وقت آپ کی عمر پنتالیس سال تھی، ان کے سات بیٹے تھے ان میں سے خواجہ حسام الدین سوختہ بڑے صاحب کرامت بزرگ ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا بدایونی آپ کے احباب میں سے تھے۔ آپ کی قبر اجمیر سے مغرب کی طرف قصبۂ سائرہ میں ہے۔
حضرت خواجہ کی دوسری بیوی ہندوستان کے راجاؤں میں سے ایک راجہ کی بیٹی تھی قلعہ پٹیلی کا حاکم جس کا نام ملک خطاب تھانے ہندوؤں کے ایک علاقہ پر حملہ کیا، بہت سے ہندو مارے گئے اور راجہ کی بیٹی کو گرفتار کرلیا او رحضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کی، آپ نے اسے قبول فرماتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا اور اس کا اسلامی نام امۃ اللہ رکھا۔ اس غفلت ماٰب بی بی کے بطن سے ایک بیٹی پید اہوئی جس کا نام حافظہ جمال تھا یہ بڑی عابدہ زاہدہ اور پارسا تھی آپ کو اپنے والد سے بڑی ارادت تھی آپ نے اسے روحانی تربیت دی اور خرقہ خلافت سے بھی نوازا اور اسے مستورات کی ہدایت اور تبلیغ کے لیے وقف کردیا چنانچہ ہندوستان میں ہزاروں عورتیں آپ کی کوششوں سے قرب الٰہی کے درجہ کو پہنچیں۔ حافظہ جمال کے خاوند کا اسم گرامی شیخ نقی الدین تھا۔ بی بی حافظہ جمال کا مزار حضرت خواجہ کے مزار کے پہلو میں ہے۔ اس بیٹی کے علاوہ آپ کی اس بیوی امۃ اللہ کے دو بیٹے بھی پیدا ہوئے مگر دونوں شیر خوارگی کی حالت میں فوت ہوگئے۔
یاد رہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بے شمار خلفاء تھے اور لاکھوں لوگ فیض یاب ہوئے ہم تبرکاً چند خلفائے معروف کے اسمائے گرمی لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اول قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ۔ دوم خواجہ فخرالدین (حضرت بیٹے) تیسرے شیخ حمیدالدین ناگوری صوفی، چہارم شیخ وجیہ الدین پنجم شیخ حمیدالدین صوفی (آپ کا لقب سعد بن ز ید تھا اور آپ کا نسب عشر مبشرا سے جا ملتا ہے) ششم خواجہ برہان الدین عرف بدو ہفتم شیخ احمد ہشتم شیخ محسن نہم خواجہ سلیمان غازی۔ دہم شیخ شمس الدین یاز دہم خواجہ حسن خیاط دواز دہم جے پال جوگی المعروف عبیداللہ (آپ کو حضرت خواجہ کی دعا سے جاودانی زندگی ملی تھی) سیر دہم شیخ صدرالدین کرمانی چہار دہم بی بی حافظہ جمال (حضرت کی خواجہ کی بیٹی) پانزدہم شیخ محمد ترک نارسومی شانزدہم شیخ علی سنجری ہفتد ہم خواجہ یادگار سبزواری، ہثردہم خواجہ عبداللہ بیابانی نور دہم شیخ متا (حضرت خواجہ نے آپ کے لیے دعا فرمائی تو آپ لوگوں کے لیے ہر دلعزیز بن گئے۔ عام لوگ آپ کا بول و بزار بطور تبرک لے جایا کرتے تھے ان سے عطر اور عنبر کی خوشبو آیا کرتی تھی) بستم شیخ وحید برادر شیخ احمد بست ویکم سلطان مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین یاد رہے کہ یہ سلطان مسعود غازی سلطان سالاور مسعود غازی شہید کو آپ کے خلفاء میں لکھا ہے انہیں غلطی ہوئی ہے۔ حضرت خواجہ کی وفات اور سالار شہید کی وفات میں دو سو سال کا فاصلہ ہے۔
سیرالاقطاب کے مولف لکھتے ہیں کہ جس دن حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا آپ نے نماز عشاء کے بعد اپنے حجرے کا دروازہ بند کردیا اور اپنے خاص احباب کو بھی اندر آنے سے روک دیا، حجرے کے دروازے پر بیٹھنے والے محربان راز ساری رات آنے جانے والوں کے قدموں کی آوازیں سنتے رہے۔ انہوں نے سوچا حضرت خواجہ وجد میں ہیں۔ مگر علی الصبح آوازیں رک گئیں، نماز کا وقت ہوا دروازے پر دستک دی گئی، آوازیں دیں، مگر کوئی جواب نہیں آیا، دروازہ کھولا گیا، دیکھا کہ حضرت خواجہ فوت ہوچکے ہیں، آپ کی پیشانی پر نور کی روشنائی سے لکھا ہوا دکھائی دیتا تھا حبیب اللہ مات فی حب اللہ (یہ اللہ کے حبیب تھے، وہ اللہ کی محبت میں فوت ہوئے)۔
حضرت خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کی ولادت ۵۳۷ھ میں ہوئی تھی۔ اور تمام تذکرہ نگاروں کا اس پر اتفاق ہے آپ کا وصال پیر ششم ماہ رجب المرجب ۶۳۳ھ میں ہوا۔ یہ سلطان شمس الدین التمش کا عہد حکومت تھا۔ آپ کا روضہ منورہ دارالخیر اجمیر شریف میں ہے پہلے آپ کا مزار سادہ اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد پتھروں سے عمارت بنائی گئی، آپ کا مزار ایک عرصہ تک عام قبروں کی طرح رہا، سب سے پہلے خواجہ حسین ناگوری نے مزار کی تعمیر کی تھی اس کے بعد بادشاہان ہندوستان آتے رہے۔ سب سے پہلے خواجہ حسین ناگوری نے مزار کی تعمیر کی تھی اس کے بعد بادشاہان ہندوستان آتے رہے اور آپ کے مزار کو شاندار عمارت کی صورت میں تعمیر کراتے رہے خصوصاً شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ غازی نے آپ کے روضہ کی عمارت کو بنای اور ساتھ ہی ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی، اس مزار پر انوار کے فیض و برکت کے آثار آج تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت اور حاجات براری کے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیں۔
اجمیر شہر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے جسے اخبارالاخبار کے مصنف نے لکھا ہے کہ پرانے زمانہ میں ہندوستان پر ایک راجہ حکمران تھا۔ جس کی سلطنت برہما سے لے کر غزنی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس راجہ کا نام آجاتا تھا جسے ہندی زبان میں آفتاب کہا جاتا ہے میر کو پہاڑ کے معنوں میں لکھا جاتا ہے۔ اس طرح اس شہر کا نام اجامیر رکھا گیا، چنانچہ ہندی میں اس شہر کا نام آج میریا آجا میر رکھا گیا مگر مرو ر زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان میں تبدیلی آئی تو اسے اجمیر مشہور کردیا گیا لاہور کا پرانا نام لوہو پور تھا پھر ایک وقت آیا تو مسلمانوں نے اسے لوہاور اور لہانور کہنا شروع کردیا، آہستہ آہستہ یہ نام لاہور کے نام سے مشہور ہوگیا۔ حضرت کی وفات پر سب سے پہلے کہی جانے والی تاریخ وفات یہ ہے[۱]۔
خواجہ والا معین الدین کہ ازانواراو
گشت روشن در دو عالم ماہتاب ملک ہند
محو شد در نور حق چوں آں مہِ چرخ نشیں
شد ندا از چرخ چارم آفتاب ملک ہند
۶۳۳ھ
[۱۔ فاضل مولف مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ نے ان الفاظ میں تاریخ ہائے ولادت و وصال کہی ہیں: امام مجتبی (۵۳۷ھ) نیر اکبر معلی (۶۳۳ھ) بدرالمنیر (۵۳۷) عارف صوفی (۵۳۷ھ) عمدۂ دین زندہ دل بدرالدجیٰ (۵۳۷ھ) قطب الواصلین (۵۳۷ھ) قطب الاصفیا میر جہاں (۶۳۳ھ) میر مکرم زیب دل (۶۳۳ھ)]
-----------------------
خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
(ذوقِ نعت)
آپ برصغیر ہندوپاک میں بڑے بڑے بزرگوں کے سر حلقہ اور سلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں، بیس سال تک سفر و حضر میں خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں رہے اور آپ کے سونے کے لباس کی نگرانی فرماتے تھے، خواجہ عثمان نے اس کے بعد نعمت خلافت سے آپ کو نوازا۔
آپ پتھورارائے کے دورِ حکومت میں اجمیر (ہندوستان) تشریف لائے اور عبادت الٰہی میں مشغول ہوگئے، پتھورا رائے اس زمانہ میں اجمیر میں ہی مقیم تھا، ایک روز اس نے آپ کے ایک مسلمان عقیدت مند کو کسی وجہ سے ستایا، وہ بیچارا آپ کے پاس فریاد لے کر پہنچا، آپ نے اس کی سفارش میں پتھورا رائے کے پاس ایک پیغام بھیجا، لیکن اس نے آپ کی سفارش قبول نہ کی اور کہنے لگا کہ یہ شخص یہاں آکر بیٹھ گیا ہے اور غیب کی باتیں کرتا ہے، جب خواجہ اجمیری کو یہ بات معلوم ہوئی، تو ارشاد فرمایا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کرکے حوالہ کردیا، اسی زمانہ میں سلطان معزالدین سام عرف شہاب الدین غورف کی فوج غزنی سے پہنچی، پتھورا لشکر اسلام سے مقابلہ کے لیے آیا اور سلطان معزالدین کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، اسی تاریخ سے اس ملک میں اسلام پھیلا اور کفر کی جڑیں کٹ گئیں، مشہور ہے کہ خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی پر یہ نقش ظاہر ہوا کہ حبیب اللہ مات فی حب اللہ (یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں دنیا سے گیا)۔
روایت: بعض کے نزدیک حضرت خواجہ کی وفات 6؍رجب633ہجری اور بعض کے نزدیک ماہ ذی الحجہ میں ہوئی لیکن پہلا قول صحیح ہے، اور اجمیر میں جہاں آپ کی رہائش تھی وہیں مزار شریف بنایا گیا آپ کا مزار مبارک ابتداً انیٹوں سے بنایا گیا، پھر اس کو علی حالہ باقی رکھ کر پتھرکا ایک صندوق اس کے اوپر بنایا، اسی وجہ سے آپ کے مزار میں بلندی پیدا ہوگئی، سب سے پہلے آپ کے مزار کی عبارت خواجہ حسین ناگوری نے بنوائی، اس کے بعد دروازہ اور خانقاہ مندر کے کسی بادشاہ نے تعمیر کرائے۔
ملفوظات خواجہ غریبِ نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کے کلام و ملفوظات دلیل العارفین میں حضرت خواجہ بختیار کاکی اوشی نے جمع کردیے ہیں اس میں تحریر ہے کہ آپ نے فرمایا:
عاشق کا دل محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے، لہٰذا جو کچھ بھی اس دل میں آئے گا جل جائے گا اور نابود ہوجائے گا کیونکہ آتش محبت سے زیادہ تیزی کسی آگ میں نہیں ارشاد فرمایا بہتی ندیوں کا شور سنو، کس طرح شور کرتی ہیں، لیکن جب سمندر میں پہنچتی ہیں، بالکل خاموش ہوجاتی ہیں۔ ارشاد فرمایا میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبان سے خود سنا ہے فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے اولیاء بھی ہیں کہ اگر اس دنیا میں ایک لمحہ بھی اس سے حجاب میں آجائیں تو نیست و نابود ہوجائیں۔ ارشاد فرمایا ’’میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زَبان سے سنا ہے، فرماتے تھے کہ جس شخص میں تین باتیں ہوں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے، اول سمندروں جیسی سخاوت، دوم آفتاب جیسی شفقت، سوم زمین جیسی تواضع۔
ارشاد فرمایا نیک لوگوں کی صحبت نیکی کرنے سے بہتر اور برے لوگوں کی صحبت بدی کرنے سے بدتر ہے ارشاد فرمایا مُرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائے گا جب کہ اس کی بائیں طرف والے فرشتہ نے بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھا ہو۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ بات اکابر متقدمین سے بھی منقول ہے، اور بعض متاخرین صوفیاء نے اس بات کی حقیقت اس طرح بیان فرمائی ہے کہ مرید کے لیے ہر وقت توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے، اور توبہ و استغفار کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں لکھا جاتا، یہ مطلب نہیں کہ گناہ اس سے بالکل سرزد ہی نہ ہو، اسی وجہ سے مشائخ کرام اپنے مریدوں کو سوتے وقت استغفار کی تاکید کرتے ہیں تاکہ دن بھر کے وہ گناہ جو ابھی تک رحمتِ الٰہی کی وجہ سے نہیں لکھے گئے ہیں، کتابت و ظہور میں نہ آئیں۔
ارشاد فرمایا میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبانی سنا، فرماتے تھے کہ انسان مستحقِ فقرا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس عالم فانی میں اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے، محبت کی علامت یہ ہے کہ فرمانبردار رہتے ہوئے اس بات سے ڈرتے رہو کہ محبوب تمہیں دوستی سے جدا نہ کردے۔
ارشاد فرمایا عارفوں کا بڑا بلند مقام ہے، جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام دنیاومافیہا کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔
ارشاد فرمایا عارف وہ ہے کہ جو کچھ چاہے وہ فوراً اس کے سامنے آجائے، اور جو کچھ بات کرے تو فوراً اس کی جانب سے اس کا جواب سن لیے۔
ارشاد فرمایا محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ صفات حق اس کے اندر پیدا ہوجائیں، اور محبت میں عارف کا درجہ کامل یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلہ پر دعویٰ کرکے آئے تو وہ اپنی قوت کرامت سے اسے گرفتار کرلے۔
ارشاد فرمایا ہم برسوں یہ کام کرتے رہے لیکن آخر میں ہیبت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا، فرمایا کہ تمہارا کوئی گناہ اتنا نقصان نہیں پہنچائے گا جتنا کسی مسلمان کی بے عزتی کرنے سے پہنچے گا۔
ارشاد فرمایا پاس انفاس اہل معرفت کی عبادت ہے، اور معرفت خدا وندی کی علامت یہ ہے کہ مخلوق سے بھاگے اور معرفت میں خاموش رہے۔
ارشاد فرمایا ولی کو ولایت اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ معارف کو یاد نہ کرے، اور ولی وہ ہے جو اپنے دل سے غیر اللہ کو نکال باہر کرے تاکہ وہ بھی اسی طرح اکیلا ہوجائے جیسے اس کا محبوب یکتا ہے۔
ارشاد فرمایا بدبختی کی علامت یہ ہے کہ گناہ کرتا رہے پھر اس کے باجود اللہ عزوجل کی بارگاہ میں خود کو مقبول سمجھے اور ولی کی علامت یہ ہے کہ خاموش اور غمگین ہو ارشاد فرمایا جس نے بھی نعمت پائی وہ سخاوت کی وجہ سے پائی۔
ارشاد فرمایا درویش وہ ہے کہ جس کے پاس جو بھی حاجت لے کر آئے تو اسے خالی ہاتھ اور معدوم واپس نہ کرے، اور ولی محبت میں ایسا شخص ہے جو دوعالم سے دل ہٹالے۔
ارشاد فرمایا اس دنیا میں درویشوں کا درویشوں کے ساتھ بیٹھنا عزیز ترین چیز ہے، اور درویشوں کا درویشوں سے جدا ہونا بدترین چیز ہے، کیونکہ یہ جدائی علت سے خالی نہیں۔
ارشاد فرمایا در حقیقت صبر کرنے والا وہ ہے جس کو مخلوق سے تکلیف و اذیت پہنچے لیکن نہ وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے ذکر کرے، اور سب سے بڑا ولی وہ ہے جو سب سے زیادہ حیران ہو۔
ارشاد فرمایا ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے، عیش و راحت کو چھوڑ دے اور اللہ عزوجل کی یاد سے محبت رکھے۔
ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ اپنے محبت کرنے والوں کو اپنے انوار سے زندہ فرمائیں، تو یہی رویت ہے۔
ارشاد فرمایا اہلِ محبت وہ ہیں جو استاد کے بغیر دوست کی باتیں سنیں، ارشاد فرمایا ولی وہ ہے جو صبح اٹھے تو رات کی یاد اسے نہ آئے، ارشاد فرمایا سب سے بہتر وقت وہ ہے جب دل وسوسوں سے پاک ہو۔
ارشاد فرمایا علم ایک بے پناہ سمندر ہے اور معرفت اس کی ایک نالی، سو کہاں اللہ، کہاں بندہ، علم اللہ کے لیے ہے اور معرفت بندہ کے لیے۔
ارشاد فرمایا اہل معرفت ایسے آفتاب ہیں جو تمام عالم پر درخشاں ہیں، اور تمام عالم ان کے نور سے روشن ہے۔ ارشاد فرمایا لوگ اللہ عزوجل کا قرب صرف اس وقت جاسکتے ہیں جب نماز خشوع خضوع کے ساتھ اداکریں، کیونکہ نماز مومن کی معراج ہے۔
مشہور ہے کہ ’’اجمیر‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک ہندو راجہ کا نام جس کی حکومت حد غزنیں تک تھی ’’آجا‘‘ ہندی میں آفتاب کو بھی کہتے ہیں اور ’’میر‘‘ ہندی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں، ہندوؤں کی تاریخ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں پہاڑوں پر تعمیر ہونے والی دیواروں میں سب سے پہلے یہی دیوار تعمیر ہوئی، جو اجمیر کے پہاڑ کے اوپر ہے اسی طرح سرزمین ہند میں جو سب سے پہلا حوض بنایا گیا وہ ’’پھکر‘‘ کا حوض ہے جو اجمیر سے آٹھ میل ہے اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں اور ہر سال چھ روز کے لیے ’’تحویل عقرب‘‘ کے وقت وہاں جمع ہوکر غسل کرتے ہیں، اپنی عمر عزیز اور اولاد کو ایک باطل مذہب کی بدولت برباد کرتے ہیں، ان میں سے جو قیامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قیامت بھی اسی حوض سے شروع ہوگی، اور ’’آجا‘‘ نام جو اس ملک میں ہندو تھے پہلے سے رکھتے تھے، پتھورا سب سے آخری راجہ ہے جس سے مسلمانوں نے ملک ہند حاصل کیا، ’’ناگور‘‘ کا اکثر حصہ پتھورا کا آباد کردہ ہے جس کا قصہ یہ ہے کہ پتھورا نے اپنے ایک افسر سے جو جانوروں کے گھاس دانہ کی نگرانی کرتا تھا، کہا کہ گھوڑوں کے طویلہ کے لیے کوئی مناسب اور اچھا مقام تلاش کرو، وہاں شہر میں آباد کروں گا، وہ افسر بہت گھوما پھرا، جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں اب شہر ناگور ہے تو اس نےایک دبنی کو دیکھا کہ اس کے بچہ پیدا ہوا ہے اور ایک بھیڑیا اس بچہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو دبنی نے اپنے بچہ کو پیچھے کرکے اس بھیڑیے پر حملہ کی تیاری شروع کی، اس نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا یہ مردانہ جگہ ہے اور اس جنگل کا آب و گیاہ گھوڑوں کے لیے مفید ہے، چنانچہ وہاں ایک شہر آباد کرکے اس کا نام ’’نوانگر‘‘ یعنی نیا شہر رکھا، سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب یہاں پہنچے اور پتھورا مارا گیا تو ان کی ترک فوجوں کے زمانہ میں یہ لفظ ’’ناگور‘‘ بن گیا، واللہ اعلم بالصواب۔
اخبار الاخیار
---------------------------
آپ مشائخ چشت کے اعلیٰ مشائخ اور اولیاء میں مانے جاتے ہیں، ریاضت اور کرامت میں شہرۂ آفاق ہوئے اور ولایت کے اوصاف میں موصوف تھے عظیم الشان اور رفیع المقام تھے۔ صحیح النسب سادات میں سے تھے ۔ آپ کو حضرت خواجہ عثمانی ہارونی قدس سرہ سے خرقہ خلافت ملا تھا اور سلسلۂ چشتیہ کو برصغیر پاک و ہند میں امام الطریقت کی حیثیت سے رائج کیا، آپ کی تشریف آوری سے اس ملک میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بعض مفکرین اسلام نے ہند النبی اور ہند الولی کے خطابات سے یاد کیا تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کیا کرتے تھے، چنانچہ ساٹھ سال تک یہی معلوم رہا۔ آپ کی جس پر نگاہ لطف پڑتی خدا رسیدہ بنادیتی تھی۔ سات دن بعد خشک روٹی کوپانی میں بھگو کو افطار فرمایا کرتے تھے اور اپنا لباس ددہرا نجیہ شدہ پہنا کرتے تھے۔ اگر پھٹ جاتا تو پیوند لگالیتے تھے۔
آپ کا اصلی وطن سجستان تھا۔ اور آپ کا سلسلہ نسب پدری یوں ہے خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن سید الکونین امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
آپ کے والد گرامی سید غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ عراق میں فوت ہوئے تھے اور ان کا مزار وہاں ہی ہے۔ آپ کی والدہ کا اسم گرامی خاص المکہ تھا، جو اصفہان کی رہنے والی تھیں۔ مگر آپ نے خراسان میں پرورش پائی۔ جب آپ کی عمر گیارہ سال ہوئی تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔
سیّد غیاث الدین قدس سرہ کے تین بیٹے تھے تینوں کو والد کا ورثہ ملا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہ کو ورثہ میں ایک وسیع باغ ملا تھا، آپ باغ میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس قلندر ابراہیم نامی مجذوب آپہنچا، حضرت خواجہ نے اس کی بڑی تعظیم کی اور اُٹھ کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ اور ایک درخت کے سایہ میں بٹھایا انگور کا ایک خوشہ پیش کیا قلندر نے انگور کی طرف تو رغبت نہیں کی مگر اس نے اپنے تھیلے سے تھوڑا کنجارہ نکال کر اپنے ہاتھ پر رکھا اور دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ کے منہ میں رکھا، حضرت خواجہ نے اسے چکھا ہی تھا کہ آپ کے دل میں انوار الہیہ اترنے لگے اور دنیا کی خواہشات دل سے ختم ہونے لگیں تھوڑے دنوں میں باغ کو بیچا، اور رقم غریبوں میں تقسیم کردی اور طلب خداوندی کے لیے اپنے شہر کو چھوڑ کر سفر کر روانہ ہوئے اور سمر قند جا پہنچے وہاں قرآن پاک حفظ کیا ظاہری علوم حاصل کیے۔ فراغت علوم کے لیے عراق کو روانہ ہوئے اور قصبۂ ہارون میں جا پہنچے۔ یہ قصبہ نیشاپور کے قریب تھا، ان دنوں وہاں خواجہ عثمان قدس سرہ روحانی تربیت میں مشغول تھے آپ مرید ہوئے اور کئی سال تک آپ کی خدمت میں رہے۔ اور خدمت روحانی سر انجام دیتے رہے۔ باطنی امور کی تکمیل کے بعد خرقہ خلافت حاصل کیا اور پھر بغداد کو روانہ ہوئے۔ راستہ میں قصبۂ سنجان آتا ہے۔ ان دنوں وہاں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہ تشریف فرما تھے۔ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوکر کوۂ جودی (جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی) پر گئے۔ کوہ جودی سے بغداد جاتے ہوئے جیلان کا قصبہ آتا ہے ان دنوں جیلان میں حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانی جلوہ فرما تھے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کچھ دن حضرت غوث الاعظم کی مجالس میں رہے۔ پھر آپ کے ہمرکاب بغداد پہنچے ان دنوں بغداد میں حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے پیر و مرشد شیخ ضیاء الدین قدس سرہ موجود تھے۔ حضرت خواجہ نے ان کی مجالس میں کچھ وقت گزارا۔ اسی مقام پر شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے ملاقات ہوئی اسی سفر میں حضرت خواجہ محبوب سبحانی خواجہ اوحدالدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات ہوا۔ پھر خرقۂ خلافت بھی ملا۔ وہاں سے رخصت ہوکر ہمدان آئے۔ ہمدان میں حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی قدس سرہ سے استفادہ کیا۔
ہمدان سے نکل کر آپ نے تبریز کا رخ کیا، تبریز میں ان دنوں حضرت ابوسعید تبریزی رحمۃ اللہ علیہ جو شیخ جلال الدین تبریزی کے پیر و مرشد تھے، جلوہ فرما تھے، حضرت خواجہ نے ان کی صحبت سے فائدہ حاصل کیا، وہاں سے اصفہان پہنچے کچھ عرصہ حضرت محمود اصفہانی قدس سرہ کی صحبت سے استفادہ کرتے رہے، اس روحانی سفر اور نورانی بزرگوں کی ملاقات کے بعد آپ کو ہندوستان کی طرف جانے کا خیال آیا، راستہ میں آپ کی ملاقات خواجہ ابوسعید مہمندی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی، وہاں سے استرآباد آکر حضرت خواجہ ناصرالدین استر آبادی کی مجالس میں قیام فرماتے رہے۔ خواجہ ناصرالدین اپنے وقت کے عظیم القدر شیخ اور کامل الولایت بزرگ تھے۔ آپ خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ ان دنوں آپ کی عمر ایک سو ستائیس سال ہوچکی تھی یہ وہ بزرگ تھے۔ جن کی صحبت میں حضرت ابوسعید ابوالخیر اور شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہما جیسے نامدار بزرگ بھی استفادہ کرتے رہے تھے وہاں سے چل کر غزنین میں تشریف لائے، وہاں شیخ العارفین شیخ عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس سے استفادہ کیا۔ شیخ عبدالواحد غزنوی پیر شیخ نظام الدین ابوالموید کی صحبت سے مستفیض ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین ان سفروں میں مختلف اولیاء وقت سے استفادہ کرتےرہے۔ ان ممالک کے اولیائے کبار کی مجالس سے مستفیض ہونے کے بعد آپ نے ہندوستان کا رُخ کیا۔
حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر اجودہنی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جن دنوں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اصفہان میں تشریف لائے، تو خواجہ محمود اصفہانی کو ملے۔ انہی دنوں قطب الاقطاب بختیار اوشی رحمۃ اللہ علیہ وہاں پہنچے ہوئے تھے، حضرت قطب الاقطاب کی خواہش تھی کہ خواجہ محمود اصفہانی سے بیعت ہوں، مگر جب خواجہ معین الدین کو دیکھا، تو بیعت کے لیے استدعا کی اور مرید بن گئے، وہاں سے دونوں بزرگ ہرات پہنچے، ہرات میں ان دنوں یادگار نامی حاکم حکومت کر رہا تھا وہ اعتقادی طور پر امامیہ شیعہ تھا وہ نہایت اہتمام کے ساتھ صحابۂ رسول کو گالیاں دیا کرتا تھا، وہ یہاں تک سخت شیعہ تھا کہ اس کی رعایا میں اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام ابوبکر یا عثمان یا عمر رکھ لیتا تو وہ اُسے قتل کردیتا تھا، حضرت خواجہ وہاں پہنچے تو اتفاق سے محمد یادگار کے خاص باغ میں قیام پذیر ہوئے اندر ایک حوض تھا، آپ اس حوض کے کنارے رہنے لگے۔ ایک دن محمد یادگار اپنی سیر کو آیا، تو حضرت خواجہ کو حوض کے کنارے دیکھ کر غضب ناک ہوگیا، ابھی وہ آپ کو وہاں سے نکالنا ہی چاہتا تھا کہ حضرت خواجہ کی نگاہیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ فوراً ہی آپ کے پاؤں پر آگرا اور بے ہوش ہوکر تڑپنے لگا، حضرت خواجہ نے اُسے اِس حالت میں دیکھا تو حوض سے پانی لے کر اس کے چہرے پر چھینٹیں ماریں تو وہ ہوش میں آگیا، حضرت خواجہ کی نگاہ اور پانی کی چھینٹوں کا یہ اثر ہوا کہ اُس کے دل سے صحابۂ کرام کے بغض دھل گئے اور مذہب شیعہ کے عقیدے سے تائب ہوگیا اور اپنے دربار کے امراء اور اراکین کو لے کر حضرت خواجہ کا مرید بن گیا اپنا تمام مال اور خزانہ حضرت خواجہ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے فرمایا یہ سارا مال تمہارا ہے بلکہ ان لوگوں کا ہے جن سے تم نے ظلم و ستم کرکے چھینا ہے۔ بہتر یہی ہے یہ سارا مال ان کو واپس کردیا جائے اپنے ملک غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کردو، تاکہ تمہیں خدا شناسی کا موقع ملے وہ کچھ دنوں حضرت خواجہ کے زیر تربیت رہا اور خرقہ خلافت حاسل کیا آپ نے اسے ہرات کی ظاہری اور باطنی خلافت پر مامور فرمادیا۔
ہرات سے چل کر حضرت خواجہ بلخ پہنچے چند دن شیخ احمد خضرویہ کے پاس ٹھہرے وہاں ایک ضیاء الدین نامی حکیم تھا جو بڑا ہی مغرور اور حکمت میں مشہور تھا۔ وہ اولیاء اللہ اور دریشوں کا منکر تھا ایک دن حضرت خواجہ دامنِ کوہ کی اک وادی میں جا پہنچےا ور ایک کلنک کو اپنے تیر کا نشانہ بناکر آگ میں کباب بنا رہے تھے کہ حکیم ضیاء الدین بھی اتفاقاً ادھر آنکلا وہ حضرت خواجہ کے پاس بیٹھ گیا، حضرت خواجہ نے بھنے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا حکیم کو بھی دیا وہ کھاتے ہی زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد نہایت اخلاص کے ساتھ مرید ہوگیا اور حکمت کی ساری کتابیں دریا میں پھینک دیں بلخ سے دو بار غزنین آئے۔ ہم اس سے پہلے شمس العارفین کی شہرت کا ذکر کرچکے ہیں۔ آپ وہاں سے چلے تو لاہور پہنچے لاہو میں دس ماہ دس ماہ تک مخدوم علی ہجویری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر اعتکاف فرمایا آپ کے مزار سے آپ نے بے پناہ باطنی فوائد حاصل کیے ۔ لاہور سے روانہ ہوکر دہلی پہنچے کچھ دن دہلی قیام فرماکر دسویں محرم پانچسو اکسٹھ ہجری کو درالخیر اجمیر میں رونق افزاء ہوئے۔
اجمیر میں سب سے پہلے جس شخص نے شرفِ ارادت حاصل کیا وہ میر سید حسین خنگ سوار تھے آپ پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے لیکن بعد میں تائب ہوکر آپ کے مرید ہوگئے اور اعلیٰ مراتب پر پہنچے۔ میر سید حسین کے مرید ہونے کے بعد ہزاروں چھوٹے بڑے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہونے لگے۔ ان میں سے اکثر لوگ غیر مسلم تھے جو اسلام سے مشرف ہوکر حضور کے مرید بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ سر زمین ہندوستان میں اسلام کی شمع اسی خاندانِ عالی شان کے طفیل روشن ہوئی۔
اجمیر میں ایک شخص حضرت خواجہ معین الدین کی خدمت میں رہتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اس علاقے کے ظالم حاکم نے میرے بیٹے کو بغیر کسی گناہ اور جرم کے قتل کردیا ہے میں آپ سے امداد کا خواستگار ہوں اور انصاف کا امیدوار ہوں حضڑت خواجہ نے جب یہ بات سنی تو اپ نی جگہ سے اُٹھے مقتول کی لاش کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اے نوجوان اگر ظالم حاکم نے تجھے ناحق قتل کردیا ہے تو اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاؤ۔ مقتول نے اُسی وقت حرکت کی اور زندہ ہوکر اُٹھ بیٹھا۔
حضرت خواجہ معین الدین پہلی بار اجمیر پہنچے تو شہر کے باہر ایک ایسے درخت کے نیچے قیام فرما ہوئے جہاں اجمیر کے راجے کے اونٹ بیٹھا کرتے تھے، رات کو اجمیر کے راجہ کے اونٹ آئے سار بانوں نے حضرت خواجہ کو بتایا کہ یہ جگہ راجہ کے سرکاری اونٹوں کے لیے مقرر ہے۔ آپ کہیں اور تشریف لے جائیں آپ نے فرمایا ہم تو چلے جاتے ہیں تم لوگ اونٹوں کو بٹھالو، آپ وہاں سے اُٹھ کر انا ساگر کے حوض کے کنارے جا بیٹھے، اس حوض کے اردگرد کئی بت خانے بنائے گئے تھے۔ رات گزر گئی، صبح سار بانوں نے کوشش کی کہ اونٹوں کو اٹھائیں، مگر کوئی اونٹ اُٹھنے کا نام نہ لیتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُ ن کے سینے زمین کے ساتھ پیوست ہوچکے تھے سارا بانوں نے جان لیا کہ یہ اُس فقیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے جسے ہم نے اٹھا دیا ہے وہ تمام حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اب اللہ تعالیٰ نے اونٹوں کا حکم دے دیا ہے۔ساربان جب واپس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سارے اونٹ اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ اسلام کے دشمن جمع ہوئے اور اجمیر کے راجے کے پاس شکایت کی اور کہا یہ ایک بیگانہ آدمی ہمارے بت خانے کے پاس سکونت بنائے بیٹھا ہے چونکہ اس کا مذہب غیر مذہب ہے ہم وہاں نہیں جا سکتے اُس کو وہاں سے جانے کا حکم صادر فرمائیں اجمیر کے راجہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس فقیر کو تالاب کے کنارے سے اُٹھ کر ملک سے باہر کردیا جائے راجہ کے سپاہی خاصی تعداد میں پہنچے۔ حضرت خواجہ کے ساتھ جھگڑنا شروع کردیا۔ حضرت خواجہ نے مٹی کی مٹھی اٹھائی اور آیت الکرسی پڑھ کر ان کی طرف پھینکی، اُن لوگوں کے جسم خشک ہوگئے اور جہاں جہاں وہ تھے وہاں ہی پتھر بن گئے جو دور تھے وہ دیکھ کر بھاگ گئے۔
دوسرے دن اجمیر کے ہندو اپنے بت خانے کی پوجا کے لیے تالاب کے کنارے پر پہنچے ان کا مہنت رام دیو بڑی تعداد لے کر وہاں پہنچا اور حضرت خواجہ کی طرف آگے بڑھا یونہی وہ نزدیک آیا کا پنے لگا، اس کے دل میں اتنی دہشت پھیلی کہ وہ اپنی زبان سے کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے آپ کا مرید ہوگیا۔ اُس کے ہاتھ میں جو لکڑی یا پتھر آیا اُسے اپٹھا کر ہندوؤں کی طرف پھینکا اور انہیں پریشان کرکے بھگادیا حضرت خواجہ نے رام دیو کی یہ خدمت دیکھی تو پانی کا ایک پیالہ بھر کر اُسے پینے کو کہا۔ پانی پیتے ہی اُس کے دل کا شیشہ صاف ہوگیا اور اس کا چہرہ چمکنے لگا اور صدقِ دل سے آپ کا مرید بن گیا۔ حضرت خواجہ نے اُس کا نام شادی دیو رکھا اور اپنی تربیت میں لے لیا۔ شادی دیو ہندی زبان میں مسرت بخش کو کہتے ہیں۔ اس کرامت کے واقعہ ہونے کے بعد اجمیر کے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ شخص بہت بڑا جادو گر ہے اور اس کے مقابلے میں کسی بڑے جادوگر کو بلانا چاہیے راجہ اجمیر نے جوگی جے پال کو جو جادوگری کے فن میں سارے ہندوستان میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا بلا اور حکم دیا کہ اپنے جادو کے زور سے اس شخص کو شکست دی جائے۔
جے پال ایک ہزار پانچ سو جادوگروں کو لے کر اجمیر پہنچا۔ اور راجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ اب ہم اُس سے مقابلہ کریں گے جے پال کی قیادت میں اتنے جادوگر حضرت خواجہ معین الدین کے پاس پہنچے آپ اٹھے۔ تازہ وضو کیا اپنی لاٹھی کے ساتھ اپنے تمام ساتھیوں کے اردگرد ایک لکری کھینچی اور اعلان کیا کہ ان شاء اللہ اس لکیر کے اندر ہمارے کسی دشمن کو آنے کی جرأت نہ ہوگی۔ چنانچہ جونہی کسی نے اُس لکیر سے آگے بڑھنے کی جرأت کی وہ منہ کے بل گر پڑا ناچار وہ لوگ واپس ہوگئے اور آنا ساگر کے حوض کے کنارے پر بیٹھ گئے اُن کی اس حرکت کا مطلب یہ تھا کہ حضرت خواجہ کا کوئی ساتھی حوض سے پانی نہ لے سکے۔ چنانچہ پانی کو بند کردیا گیا حضرت خواجہ نے شادی دیو نو مسلم کو حکم دیا کہ وہ آگے جاکر کسی طرح حوض کے پانی سے ایک پیالہ بھر لائے۔ وہ اٹھا اور حوض کے پانی سے ایک پیالہ بھر لایا اس پانی کے پیالے میں سارے حوض کا پا نی سمٹ گیا اور حوض خالی ہوگیا یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس حوض میں کبھی پانی تھا ہی نہیں حضرت خواجہ کے تمام مرید اسی پیالے سے پانی پیتے وضو کرتے لیکن پانی کم نہ ہوتا۔ دوسری طرف حوض کو پانی سے خالی پاکر تمام جادو گر تنگ آگئے۔ بعض تو پیاس کی وجہ سے ہلکان ہوگئے جے پال خود اٹھا اور اس لکیر کے کنارے پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہنے لگا کہ اللہ کی مخلوق پیاس سے مر رہی ہے تم اپنے آپ کو فقیر کہتے ہو، فقیر تو رحم دل اور سخی ہوتا ہے۔ اب داد رسی کا تقاضا ہے کہ بندوں کے لیے پانی کھول دیا جائے۔ حضرت خواجہ نے جے پال کی یہ بات سنی اور شادی دیو کو حکم دیا کہ یہ پانی کا پیالہ تالاب میں انڈیل دیا جائے۔ جونہی پیالہ تالاب میں ڈالا زمین میں جوش آیا اور تالاب لبالب بھر گیا۔
اب جادوگروں نے اکٹھے ہوکر جادو گری کا آغاز کردیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھیوں کو یوں دکھائی دیتا تھا کہ پہاڑ کی چوٹیوں سے ہزاروں اور لاکھوں سانپ اُس لکیر کی طرف بڑھ رہے ہیں جونہی کوئی سناپ لکیر تک پہنچتا تو اپنا سر لکیر پر رکھ دیتا جے پال یہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوا۔ اب اُس نے جادوگروں کو کہا کہ آسمانوں سے آگ برسادو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اتنی آگ برسی کہ سارا جنگل انگاروں اور شعلوں سے بھر گیا ہزاروں درخت آگ میں جلنے لگے لیکن اللہ کی مہربانی سے اس دائرے کے اندر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جادوگروں نے جب یہ بات دیکھی کہ اُن کے اردگرد کا سارا علاقہ جل گیا ہے مگر حضرت خواجہ کے دوستوں کو آنچ تک نہیں آئی تو جے پال کو کہنے لگے کوئی اور کام کرنا چاہیے ۔ جے پال کے سر پر ہرن کے چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ ہوا میں پھینکا اور چھلانگ لگا کر اُس میں سوار ہوگیا اور آسمان کی طرف پرواز کرتا نظر آنے لگا وہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا۔ حضرت خواجہ نے جے پال کو اس طرح اُڑتے ہوئے دیکھا تو فوراً اپنے جوتوں کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ جاؤ اور جے پال کو بدترین حالت میں واپس لاؤ، دونوں جوتے ہوا میں اُڑے اور جے پال کے سر پر کھڑکنے لگے۔ جے پال کو مجبوراً واپس آنا پڑا۔ نڈھال ہوکر رونے لگا اور اپنا سر حضرت خواجہ کے قدموں میں رکھ دیا اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اور مرید ہوگیا۔ اس نے التجا کی کہ میں قیامت تک زندہ رہنا چاہتا ہوں، آپ نے دعا کی اور فرمایا جاؤ تمہیں دائمی زندگی مل گئی ہے لیکن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہو گے۔ یہ بات مشہور ہے کہ جے پال ابھی تک اجمیر کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے جو ہر جمعرات حضرت خواجہ کے روضے کی زیارت کو آتا ہے۔
اجمیر کے راجہ نے جے پال کو شکست خوردہ دیکھ کر شادی دیو کی طرح اس سے بھی مایوس ہوگیا تو شہر میں واپس چلا آیا اور دل میں عہد کرلیا کہ اب حضرت خواجہ کی مخالفت نہیں کروں گا ، کچھ دنوں بعد حضرت خواجہ بھی اجمیر شہر کے اندر تشریف لے آئے اور ایک مکان میں رہنے لگے یہ مکان اسی جگہ واقع تھا جہاں ان دنوں آپ کا مزار ہے ایک دن خواجہ اجمیری نے اجمی رکے راجہ کو پند و نصایح کی اور ترغیب دی کہ راجہ اسلام قبول کرلے مگر اس نے انکار کردیا اس کے اسلام لانےسے مایوس ہوکر فرمایا ؎
کلیم بخت کسے را کہ با فتند سیاہ
بہ آب کوثر ہرگز سفید نتواں کرد
آپ نے اعلان کیا کہ تم نے اسلام قبول نہیں کیا، اب لشکر اسلام آئے گا اور اجمیر پر حملہ کرے گا کچھ دن گزرے ہی تھے کہ سلطان شہاب الدین غوری مختصر سا لشکر لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا، اس نے اجمیر پر زبردست یلغار کی اور اس جنگ میں راجہ اجمیر کو قتول کردیا گیا۔ مگر راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرلیا۔ راجہ پتھورا ان دنوں دہلی کا حکمران تھا اور راجہ اجمیر اس کے ماتحت اجمیر کا حکمران تھا۔
یہ بات عام مشہور ہے کہ جن دنوں لشکر اسلام کی ہندوستان میں آمد ہوئی تو ان دنوں رائے پتھورا اجمیر میں آیا ہوا تھا رائے پتھورا کے ملازموں نے ایک مسلمان کو تنگ کیا۔ یہ مسلمان حضرت معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مرید خاص تھاوہ فریادی بن کر حضرت خواجہ کے حضور آیا حضرت خواجہ نے راجہ پتھورا کو سفارش کی اس غریب کی داد رسی کی جائے۔ مگر راجہ نے کوئی پرواہ نہ کی۔ حضرت خواجہ اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ہم نے راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرادیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
سلطان قطب الدین بیگ ۶۰۲ھ میں دہلی کے تخت پر بیٹھا تھا۔ اور اسی سال راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ایک دن حضرت خواجہ اجمیر کے نواح میں جا رہے تھے۔ شیخ علی نامی مرید آپ کے ہمرکاب تھا وہاں ایک شخص آیا، اس نے آے ہی شیخ علی کو پکڑ لیا اور کہا کہ میرا قرضہ ادا کرو، ورنہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا یہ صورتِ حال دیکھی تو حضرت خواجہ نے بڑی انکساری اور نرمی سے قرض خواہ کو کہا کہ تم اسے تھوڑی سی مہلت دے دو۔ یہ قرض ادا کردے گا حضرت خواجہ کی اس نرمی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ شخص نہایت بے ادبی سے بولا اگر اس کی سفارش اتنی ہی اچھی لگتی ہے تو مجھے اپنی جیب سے قرض دے دو اس کی یہ بات سن کر حضرت خواجہ کو غصہ آگیا اور اپنی چاد رزمین پر بچھا دی دیکھتے ہی دیکھتے اس چادر پر درہم و دینار برسنے لگے۔ آپ نے اس بے ادب قرض خواہ کو کہا تم اپنا قرضہ اٹھالو، مگر اپنے حق سے زیادہ نہ لینا، وہ شخص آگے بڑھا اور لالچ کرتے ہوئے اپنے حق سے مزید رقم اٹھانے لگا مگر اس کا ہاتھ اسی وقت خشک ہوگیا اب چلانے لگا توبہ کرکے حضرت خواجہ کے قدموں میں گر پڑا۔ حضرت نے دست شفقت پھیرتے ہوئے اسے معاف کردیا ور اس کا ہاتھ تندرست ہوگیا۔
یہ بات ازروئے تحقیق درست قرار دی گئی ہے کہ حضرت خواجہ کی دو اہلیہ تھیں۔ ایک تو سید وجیہہ الدین جو حضرت خنگ سوار کے ماموں تھے کی بیٹی تھیں ان کے والد بزرگوار نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے باطنی حکم سے آپ سے نکاح کردیا تھا۔ اس بی بی کا اسم گرامی بی بی عصمت تھا۔ ان کے بطن سے تین بیٹے ہوئے تھے۔ خواجہ ابوسعید خواجہ فخرالدین خواجہ حسام الدین قدس سرہم، جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت لاولد تھے۔ ان کی بات قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ حضرت سلطان التارکین شیخ حمیدالدین صوفی ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے شیخ فرید قدس سرہ اپنے دادا کی زبانی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ نے اس غلام کو مخاطب کرکے فرمایا حمیدالدین جن دنوں میں جوان اور توانا تھا اور ابھی میری اولاد نہیں تھی، میں اپنے اللہ سے جو کچھ طلب کیا کرتا تھا بلا تکلف مل جایا کرتا تھا اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور مجھے اللہ نے اولاد (فرزند) بھی عطا فرمائے ہیں میرا مقصد دعاؤں اور نداؤں سے حاصل ہوجاتا ہے حمیدالدین نے عرض کیا، حضور آپ پر یہ بات تو واضح ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہا السلام حضرت مریم کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تھے آپ کو بے موسم میوے میسر آیا کرتے تھے۔ یہ میوے بے تکلف اور بلا استدعا ملا کرتے تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت مریم رزق کا انتظار فرمایا کرتی تھیں اورحکم ہوتا تھا کہ ان کھجوروں کی شاخوں کو ہلائیں تاکہ تازہ کھجوریں گریں، تو آپ شاخوں کو ہلاتیں تو تازہ کھجوریں گرتی تھیں آپ کے ساتھ بھی سابقہ ایام زندگی اور آج کے حالات میں اتنا فرق ہے حضرت خواجہ معین الدین نے یہ جواب سن کر بڑی مسرت کا اظہار فرمایا۔
تذکروں میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے بیٹے ابوسعید کی عمر پچاس سال ہوئی تھی کہ اللہ نے انہیں دو بیٹے عنایت فرمائے آپ کے دوسرے بیٹے فخرالدین بڑے بزرگ اور صاحب نعمت بزرگ تھے وہ حضرت خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے بیس سال بعد تک زندہ رہے اور ستر سال کی عمر میں انتقال فرمایا ان کے پانچ بیٹے تھے وہ قصبہ سروار جو اجمیر سے سولہ میل کے فاصلہ پر ہے۔ فوت ہوئے تھے۔ آپ کا مزار بھی وہاں ہی ہے۔
خواجہ حسام الدین حضرت خواجہ کے بیٹے کہیں گم ہوگئے تھے۔ وہ ابدالوں کی مجالس میں مل گئے تھے اس وقت آپ کی عمر پنتالیس سال تھی، ان کے سات بیٹے تھے ان میں سے خواجہ حسام الدین سوختہ بڑے صاحب کرامت بزرگ ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا بدایونی آپ کے احباب میں سے تھے۔ آپ کی قبر اجمیر سے مغرب کی طرف قصبۂ سائرہ میں ہے۔
حضرت خواجہ کی دوسری بیوی ہندوستان کے راجاؤں میں سے ایک راجہ کی بیٹی تھی قلعہ پٹیلی کا حاکم جس کا نام ملک خطاب تھانے ہندوؤں کے ایک علاقہ پر حملہ کیا، بہت سے ہندو مارے گئے اور راجہ کی بیٹی کو گرفتار کرلیا او رحضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کی، آپ نے اسے قبول فرماتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا اور اس کا اسلامی نام امۃ اللہ رکھا۔ اس غفلت ماٰب بی بی کے بطن سے ایک بیٹی پید اہوئی جس کا نام حافظہ جمال تھا یہ بڑی عابدہ زاہدہ اور پارسا تھی آپ کو اپنے والد سے بڑی ارادت تھی آپ نے اسے روحانی تربیت دی اور خرقہ خلافت سے بھی نوازا اور اسے مستورات کی ہدایت اور تبلیغ کے لیے وقف کردیا چنانچہ ہندوستان میں ہزاروں عورتیں آپ کی کوششوں سے قرب الٰہی کے درجہ کو پہنچیں۔ حافظہ جمال کے خاوند کا اسم گرامی شیخ نقی الدین تھا۔ بی بی حافظہ جمال کا مزار حضرت خواجہ کے مزار کے پہلو میں ہے۔ اس بیٹی کے علاوہ آپ کی اس بیوی امۃ اللہ کے دو بیٹے بھی پیدا ہوئے مگر دونوں شیر خوارگی کی حالت میں فوت ہوگئے۔
یاد رہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بے شمار خلفاء تھے اور لاکھوں لوگ فیض یاب ہوئے ہم تبرکاً چند خلفائے معروف کے اسمائے گرمی لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اول قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ۔ دوم خواجہ فخرالدین (حضرت بیٹے) تیسرے شیخ حمیدالدین ناگوری صوفی، چہارم شیخ وجیہ الدین پنجم شیخ حمیدالدین صوفی (آپ کا لقب سعد بن ز ید تھا اور آپ کا نسب عشر مبشرا سے جا ملتا ہے) ششم خواجہ برہان الدین عرف بدو ہفتم شیخ احمد ہشتم شیخ محسن نہم خواجہ سلیمان غازی۔ دہم شیخ شمس الدین یاز دہم خواجہ حسن خیاط دواز دہم جے پال جوگی المعروف عبیداللہ (آپ کو حضرت خواجہ کی دعا سے جاودانی زندگی ملی تھی) سیر دہم شیخ صدرالدین کرمانی چہار دہم بی بی حافظہ جمال (حضرت کی خواجہ کی بیٹی) پانزدہم شیخ محمد ترک نارسومی شانزدہم شیخ علی سنجری ہفتد ہم خواجہ یادگار سبزواری، ہثردہم خواجہ عبداللہ بیابانی نور دہم شیخ متا (حضرت خواجہ نے آپ کے لیے دعا فرمائی تو آپ لوگوں کے لیے ہر دلعزیز بن گئے۔ عام لوگ آپ کا بول و بزار بطور تبرک لے جایا کرتے تھے ان سے عطر اور عنبر کی خوشبو آیا کرتی تھی) بستم شیخ وحید برادر شیخ احمد بست ویکم سلطان مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین یاد رہے کہ یہ سلطان مسعود غازی سلطان سالاور مسعود غازی شہید کو آپ کے خلفاء میں لکھا ہے انہیں غلطی ہوئی ہے۔ حضرت خواجہ کی وفات اور سالار شہید کی وفات میں دو سو سال کا فاصلہ ہے۔
سیرالاقطاب کے مولف لکھتے ہیں کہ جس دن حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا آپ نے نماز عشاء کے بعد اپنے حجرے کا دروازہ بند کردیا اور اپنے خاص احباب کو بھی اندر آنے سے روک دیا، حجرے کے دروازے پر بیٹھنے والے محربان راز ساری رات آنے جانے والوں کے قدموں کی آوازیں سنتے رہے۔ انہوں نے سوچا حضرت خواجہ وجد میں ہیں۔ مگر علی الصبح آوازیں رک گئیں، نماز کا وقت ہوا دروازے پر دستک دی گئی، آوازیں دیں، مگر کوئی جواب نہیں آیا، دروازہ کھولا گیا، دیکھا کہ حضرت خواجہ فوت ہوچکے ہیں، آپ کی پیشانی پر نور کی روشنائی سے لکھا ہوا دکھائی دیتا تھا حبیب اللہ مات فی حب اللہ (یہ اللہ کے حبیب تھے، وہ اللہ کی محبت میں فوت ہوئے)۔
حضرت خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کی ولادت ۵۳۷ھ میں ہوئی تھی۔ اور تمام تذکرہ نگاروں کا اس پر اتفاق ہے آپ کا وصال پیر ششم ماہ رجب المرجب ۶۳۳ھ میں ہوا۔ یہ سلطان شمس الدین التمش کا عہد حکومت تھا۔ آپ کا روضہ منورہ دارالخیر اجمیر شریف میں ہے پہلے آپ کا مزار سادہ اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد پتھروں سے عمارت بنائی گئی، آپ کا مزار ایک عرصہ تک عام قبروں کی طرح رہا، سب سے پہلے خواجہ حسین ناگوری نے مزار کی تعمیر کی تھی اس کے بعد بادشاہان ہندوستان آتے رہے۔ سب سے پہلے خواجہ حسین ناگوری نے مزار کی تعمیر کی تھی اس کے بعد بادشاہان ہندوستان آتے رہے اور آپ کے مزار کو شاندار عمارت کی صورت میں تعمیر کراتے رہے خصوصاً شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ غازی نے آپ کے روضہ کی عمارت کو بنای اور ساتھ ہی ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی، اس مزار پر انوار کے فیض و برکت کے آثار آج تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت اور حاجات براری کے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیں۔
اجمیر شہر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے جسے اخبارالاخبار کے مصنف نے لکھا ہے کہ پرانے زمانہ میں ہندوستان پر ایک راجہ حکمران تھا۔ جس کی سلطنت برہما سے لے کر غزنی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس راجہ کا نام آجاتا تھا جسے ہندی زبان میں آفتاب کہا جاتا ہے میر کو پہاڑ کے معنوں میں لکھا جاتا ہے۔ اس طرح اس شہر کا نام اجامیر رکھا گیا، چنانچہ ہندی میں اس شہر کا نام آج میریا آجا میر رکھا گیا مگر مرو ر زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان میں تبدیلی آئی تو اسے اجمیر مشہور کردیا گیا لاہور کا پرانا نام لوہو پور تھا پھر ایک وقت آیا تو مسلمانوں نے اسے لوہاور اور لہانور کہنا شروع کردیا، آہستہ آہستہ یہ نام لاہور کے نام سے مشہور ہوگیا۔ حضرت کی وفات پر سب سے پہلے کہی جانے والی تاریخ وفات یہ ہے[۱]۔
خواجہ والا معین الدین کہ ازانواراو
گشت روشن در دو عالم ماہتاب ملک ہند
محو شد در نور حق چوں آں مہِ چرخ نشیں
شد ندا از چرخ چارم آفتاب ملک ہند
۶۳۳ھ
[۱۔ فاضل مولف مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ نے ان الفاظ میں تاریخ ہائے ولادت و وصال کہی ہیں: امام مجتبی (۵۳۷ھ) نیر اکبر معلی (۶۳۳ھ) بدرالمنیر (۵۳۷) عارف صوفی (۵۳۷ھ) عمدۂ دین زندہ دل بدرالدجیٰ (۵۳۷ھ) قطب الواصلین (۵۳۷ھ) قطب الاصفیا میر جہاں (۶۳۳ھ) میر مکرم زیب دل (۶۳۳ھ)]
------------------------
شیوخ طریقت کے شیخ، حقیقت کے اصل الاصول، اسرار الٰہی کے حامل، اوصاف صحو کے ساتھ صاحی، انبیاء مرسلین کے وارث، رسول خدا کے ہند میں نائب حضرت معین الحق والدین خواجہ معین الدین حسن سنجری قدس سرہ العزیز ہیں جو تمام اوصاف مشائخ کو جامع اور انواع کرامات اور علو درجات میں پہلے درجہ کی شہرت رکھتے تھے۔ یہ بادشاہ اہل اسلام خواجہ عثمان ہارونی کے ممتاز و معزز خلیفہ تھے۔ منقول ہے کہ شیخ اہل اسلام معین الدین قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ جب میں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں پہنچا اور اس مقدس نفس بزرگ کی شرف ارادت سے مشرف و ممتاز ہوا تو کامل بیس سال تک خدمت اقدس میں ملازم رہا اور اس درجہ خدمت کی کہ ایک دم نفس کو آپ کی خدمت سے راحت نہ دی۔ حالت سفر میں تو حضرمین تو خواجہ کا بستر اور اوڑھنا بچھونا اپنے سر پر رکھتا تھا جب میری خدمت کا رسوخ جو کمال عقیدت مندی اور اعتقاد پر مبنی تھا خواجہ نے ملاحظہ فرمایا تو اس وقت وہ نعمت جو خواجہ کے کمال کو مقتضی تھی مجھے بخشش فرمادی خواجہ معین الدین فرمایا کرتے تھے کہ حق تعالیٰ کے پہچاننے کی علامت یہ ہے کہ بندہ مخلوق سے ہمیشہ بھاگتا رہے اور معرفت میں سدا خاموش رہے۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جب ان جسمانی تعلقات سے باہر قدم رکھ کر نگاہ کرتے ہیں تو عاشق اور معشوق اور عشق کو ایک چیز پاتے ہیں یعنی عالم توحید میں یہ تینوں باتیں ایک ہیں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ حاجی لوگ قالب اور جسم سے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں لیکن عارف لوگ دل سے عرش و حجاز کے گرد گھومتے اور لقاء الٰہی چاہتے ہیں۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک مدت تک تو خانہ کعبہ کا طواف کیا لیکن اب خود خانۂ کعبہ میرا طواف کرتا ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا حکیمانہ قول ہے کہ مرید فقر کے نام کا اس وقت مستحق ہوتا ہے جب کہ عالم فانی میں بقا کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ مرید کب ثبات و استقلال کے ساتھ موصوف ہوتا ہے فرمایا جب کہ فرشتہ کامل بیس سال تک اس کے دفتر اعمال میں کوئی گناہ نہ لکھ سکے آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ اہل محبت کا نشان ہمیشہ خدا کی اطاعت و بندگی پر سر تسلیم خم کرنا اور اس بات سے درتے رہنا ہے کہ مباداہم دربار خدا وندی سے ذلت کے ساتھ نہ نکال دئیے جائیں۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ بدبختی اور شقاوت کی علامت معصیت میں آلودہ رہنا اور اسبات کا امید وار ہونا ہے کہ میں خداوندی دربار میں نظر قبول سے دیکھا جاؤں گا۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تے کہ قیامت کے دن حق تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ دوزخ کو سلگاؤ جب وہ سلگانا شروع کردیں گے تو دوزخ ایک ایسا سانس لے گا جس سے تمام میدان محشر غبار آلود اور دھواں دہار ہوجائے گا لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا اور سخت مصیبت کا سامانا کرنا پڑے گا۔ جو شخص اس روز کی مصیبت سے محفوظ رہنا چاہے وہ خدا کی ایسی بندگی بجالائے جو اس کے نزدیک تمام طاعتوں سے بہتر و افضل ہو حاضرین نے دریافت کیا کہ حضرت! وہ کونسی طاعت ہے فرمایا مظلوموں اور عاجزوں کی فریاد کو پوچھنا ضعیفوں اور بیچاروں کی حاجت روائی کرنا۔ بھوکوں کا پیٹ بھرنا اور فرماتے تھے جس شخص میں ذیل کی تین خصلتیں جمع ہوجائیں گی تو یوں سمجھنا چاہیے کہ حقیقت میں خدا اسے دوست رکھتا ہے۔ ایک دریا جیسی سخاوت دوسرے آفتاب کی سی شفقت تیسرے زمین کی مانند تواضع۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ جس نے جو نعمت پائی سخاوت کی وجہ سے پائی اور گذشتہ لوگوں نے جو عزت و کرامت حاصل کی باطن کی صفائی سے حاصل کی۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ حقیقت میں متوکل وہ ہے جو اپنے رنج و محنت کو خلق سے وابستہ نہ جانے اور فرماتے تھے اس راہ میں دو چیزوں کی بدولت انسان کو قرار و استقامت نصیب ہوسکتی ہے۔ ادب عبودیت کی وجہ سے حق تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کے باعث سے۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں حضرت شیخ معین الدین اجمیر میں تشریف لائے تو اس وقت رائے پتھورا ہندوستان کی حکومت کرتا تھا اور اجمیر میں اس کا تسلط خاص تھا۔ جب شیخ نے اجمیر میں سکونت اختیار کی تو خود پتھورا اور اس کے مقربوں کو آپ کا وہاں رہنا نہایت شاق و ناگوار گذرا اور جوں جوں آپ کا وہاں استحکام ہوتا جاتا تھا وہ دشواری اور مشکل میں پڑتا جاتا تھا لیکن چونکہ رات دن شیخ کی عظمت و کرامات آنکھوں سے دیکھتے تھے اس لیے دم مارنے کی گنجائش نہ تھی۔ غرضیکہ ایک مسلمان شریف جو شیخ معین الدین قدس سرہ کا دلی معتقد تھا پتھورا کے مقربوں کے سلسلہ میں داخل تھا پتھورا کا شیخ پر کچھ بس نہ چلا اس غریب مسلمان کو سخت مضرتیں اور تکلیفیں پہنچانے لگا اس نے مجبور ہوکر شیخ کی خدمت میں التجا کی آپ نے اس کے بارے میں رائے پتھورا سے نہایت نرمی کے لہجہ میں سفارش کی مگر مغرور پتھورا نے شیخ کے فرمان کی طرف ذرا التفات نہ کیا اور نخوت خیز لہجہ میں بولا کہ یہ شخص یہاں آیا ہے اور غیب کی شستہ باتیں بیان کرتا ہے۔ جب پتھورا کی یہ بیہودا باتیں شاہ اسلام خواجہ کے مبارک کان میں پہنچیں تو ایک بے اختیارانہ جوش کے ساتھ آپ کی زبان سے نکلا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ پکڑ کر لشکر اسلام کے حوالہ کردیا اسی زمانہ میں سلطان معز الدین فاتح ہند کا خونخوار لشکر غزنی سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ پتھورا نے لشکر اسلام کا مقابلہ کیا اور آخر کار سلطان فاتح ہند کے ہاتھوں زندہ گرفتار ہوگیا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے وہ کون سی کرامتیں اور بلند درجے ہیں جو اس سے زیادہ درجہ رکھتی ہیں کہ جس قدر بزرگ اس بادشاہ دین کی خدمت میں حاضر ہوئے بادشاہی کا مرتبہ پاکر اٹھے جنہوں نے ہزار ہا بندگانِ خدا کی دستگیری کی اور انہیں دنیا کے غرور اور فریب سے باہر نکالا اور آخرت کی خوشی و شاد مانی سے بھری ہوئی منزل میں جگہ دی۔ قیامت تک ان شاہانِ دین کی عظمت و جبروت کے غلغلہ کا نقارہ فلک و ملک کے گوش ہوش میں بچے گا اور تمام کثیر التعداد مخلوق ان کی محبت و الفت کی وجہ سے مقعدِ صدق میں جگہ پائے گی۔ حضرت شیخ معین الدین حسن سنجری کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ ہندوستان کے تمام مشرق حصوں میں کفر و کافری کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور بت پرستی کی طوفا ن خیز آندھی مغرب سے لے کر مشرق تک کے تمام ملکوں پر بڑے زور و شور سے چل رہی تھی ہندوستان کے متمر دوسر کشوں میں سے ایک ایک ناہنجار ’’انا ربکم الاعلی‘‘ کا مدعی تھا اور شرک و بت پرستی کے ڈنکے ہر طرف بج رہے تھے۔ خداے واحد یکتا کے ساتھ کھلم کھلا شرک کیا جاتا تھا۔ اور پتھر مٹی کے ڈھیلوں، گہر، درخت، گائے، بیل، گوبر، کو برابر تعظیمی سجدے ہو رہے تھے۔ کفر کی تاریکی کے مضبوط مستحکم قفل دلوں پر جڑے ہوئے تھے تمام لوگ جہل و کفر کے تاریک گڑھوں میں گرے ہوئے تھے۔
ھمہ غافل از حکم دین و شریعت |
|
ھمہ بے خبرا ز خدا و پیمبر |
|
(سب کے سب دین شریعت کے حکم سے غافل اور خدا اور پیغمبر کے حکم سے بے خبر تھے۔ کسی آنکھ نے کبھی قبلہ کو نہ دیکھا اور نہ اللہ اکبر کی آواز کسی کان نے سنی تھی)
یہ اسی آفتاب اہل یقین کا چمکارہ تھا جو حقیقت میں دین و مذہب کا مدگار و معاون تھا کہ ہندوستانی بلاد نورِ اسلام سے منور اور روشن ہوگئے۔
از تیغ او بجاے صلیب و کلیسا |
|
دردارِ کفر مسجدو محراب و ممبر است |
|
(اس کی تیغ اسلام سے صلیب و گرجا کی جگہ بلاد کفر میں مسجد اور محراب اور منبر نے جگہ پائی۔اور جہاں مشرکوں کے نعرہ و فریاد کا شور تھا اب اللہ اکبر نے غلغلہ پیدا کیا)
جو شخص ان شہروں میں اسلام کے شرف سے ممتاز و معزز ہوا ان کی اولاد بھی نسلاً بعد نسل قیامت کے زمانہ تک مسلمان رہے گی اور جن لوگوں کو تیغِ اسلام کی بدولت دارِ حرب سے نکال کر دیارِ اسلام میں لایا جائے گا ان سب کے ثواب قیامت تک شیخ الاسلام کے دفترِ اعمال میں درج ہوں گے اور جو لوگ آپ کی متابعت کریں گے وہ اس متابعت کی وجہ سے آپ کے باجاہ و جلال دربار میں ہمیشہ آپ سے واصل متوصل رہیں گے۔ منقول ہے کہ جس شب کو شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری قدس سرہ انتقال کرنے کو تھے اس رات کو چند بزرگوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فر ما رہے ہیں۔ خدا کا دوست معین الدین سنجری آنے کو ہے اس لیے ہم اس کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔ جب خواجہ نے انتقال کیا تو آپ کی پیشانی مبارک پر لوگوں نے یہ الفاظ لکھے دیکھے حبیب اللہ مات فی حب اللہ۔ یعنی خدا کے دوست نے خدا کی محبت میں انتقال کیا۔ خواجہ کا انتقال اجمیر میں ہی ہوا اور وہیں آپ کا روضہ مبارک ہے۔ اس بزرگ کے مزار کی خاک پاک درد مندوں کے دلوں کی دوا ہے خدا تعالیٰ تمام لوگوں کو اس کی سعادتِ زیارت سے بہرہ مند کرے آمین۔
(سیر الاولیاء)
--------------------------------------
آں ماحی،[1] ظلمات شرک خفی وجلی، مالک تصرفات ممالک رَبِّ ھَبْ لِیْ [2] کا سترا[3] ضام غیر و غیریت، ناصب[4] خیام وحدت واحدیت، دائرہ پر کار وجود، محیط تکلیات معین الدین چشتی، ابن حضرت سید غیاث الدین سنجری، کاشمار اکابر ارباب تصوف اورعظیم مشائخ طریقت میں ہوتا ہے۔ آپ صاحب کرامات بے شمار اور خوارق لا تعداد ہیں۔ نکات توحید کے بیان میں آپ کا مقام بہت بلند ہے۔ فقرو فاقہ میں آپ یگانہ روزگار تھے اور علوم ظاہری وباطنی میں بے نظیر تھے۔ آپ کا شان بہت بلند اور حال نہایت ہی قوی تھا۔ جس شخص کی نظر آپ کے جمال حال پر پڑتی تھی وہ فوراً وحدانیت حق اور رسالت مصطفیٰﷺ کا قائل ہوجاتا تھا۔ ہندوستان جیسے کفر وشرک کے گہوارے میں جہاں جگہ جگہ بت پرستی ہورہی تھی۔آپ نے سب لوگوں کی مقید سے مطلب تک راہنمائی فرمائی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپکو نائب الرسول اور سلطان الہند کا خطاب ملا ہوا تھا آپ کےکمالات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے زمانے تک ہندوستان میں کوئی بھی نہیں آیا تھا[5]۔ جب کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک سے لیکر پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ تک کسی ولی اللہ کو ویاس تصرف عطا نہ ہوا کہ اس مہتمم بالشان کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور سارے ملک کو جو کفرو شرک میں صدیوں سے ڈوبا ہوا تھا۔ اپنی قوت ولدیت سے نور وحدانیت سے منور کرے جیسا کہ آپ نے کر دکھایا کسی بزرگ نے خوب کہا ہے؎
sاز فیض او بجائے صلیب وکلیسا! |
|
در دار کفر مسجد و محراب و منبراست |
آنجاکہ بود نعرہ فریاد مشرکان |
|
اکنوں خروشِ نغمہ اللہ اکبر است |
ترجمہ:۔ اس کے فیض سے ہندوستان جیسے کفر و شرک کے گھر میں آج بت خانوں کی پر مسجد محراب و منبر ہیں۔ اور جس جگہ مشرکوں کا فرانہ رسوم جاری تھیں۔ وہاں آج اللہ اکبر کےنعرے لگ رہے۔
ولادت، ارادت، خلافت
حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہٗ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کے مرید و خلیفہ تھے، آپ نے تمام مشائخ وقت کی صحبت پائی ہے۔ آپ کی ولادت قصبہ سنجر میں ہوئی جو سنجستان میں واقع ہے اس علاقے کو سیستان بھی کہتےہیں۔آپ کا سَنِّ ولادت ۵۳۷ھ ہے۔ آپ کی ابتدائی تربیت علاقہ خراسان میں ہوئی۔
حسب و نسب
سیر الاقطاب میں آیا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین حسن سجری قدس سرہٗ صحیح نسب سادات میں سے ہیں اور آپ کا سلسلۂ نسب بارہ واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ شجرۂ نسب یہ ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین ابن سید غیاث الدین حسن سنجری ابن سید کمال الدین احمد حسن ابن سید طاہر ابن سید عبدالعزیز ابن سید ابراہیم ابن امام علی رضا ابن امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق ابن امام محمد باقر ابن امام زین العابدین ابن امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ابن امیر المومنین وامام المتقین اسداللہ الغالب حضرت علی ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ، کتاب مراۃ الاسرار کے مصنف کا بیان ہے کہ جب میں دوسری بار اجمیر شریف پہنچا تو اس وقت شیخ علاؤ الدین سجادہ نشین تھے، انہوں نے مجھے خواجۂ بزرگ کا سلسلہ نسب دکھایا جو چند واسطوں سے حضرت امام موسیٰ کاظم سے جا ملتا ہے۔رسالہ مونس ارواح میں بھی یہی لکھا ہے۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت کواجہ بزرگ کے والد ماجد خواجہ غیاث الدین من جن کا مزار عراق میں ہے۔ نہایت صالح اور پرہیز گار تھے۔ آپ کے والدہ شریفہ کا اسم گرامی خاص الملکہ تھا۔ آپ تین بھائی تھے۔ مراۃ الاسرار میں سر العارفین سے نقل درج ہے کہ جب خواجہ بزرگ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والد ماجد کا وصال ہوگیا۔ آپ کو ورثہ میں ایک باغ اور ایک پن چلی ملی۔ جس سے آپ گذر اوقات فرماتے تھے۔ آپ اُسی باغ میں عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ ایک دن ابراہیم نامی ایک مجذوب کا اس باغ میں گذر ہوا۔ حضرت اقدس نے اس مجذوب کی تعظیم کی اور اد ب سے ایک درخت کے نیچے بٹھاکر انگوروں کا خوشہ پیش کیا۔ اور خود ادب سے اُن کے پاس بیٹھ گئے۔ مجذوب نے اپنے تھیلے میں سے ایک کھلی کا ٹکڑا نکالا اور منہ میں چباکر باہر نکالا اور حضرت خواجہ بزرگ کے منہ میں دیدیا۔ اس کے کھاتے ہی آپ کےسینہ میں نور معرفت موجزن ہوااس کا نتیجہ یہ ہوا کہآپ کا دل اپنے املاک اور گھرسے سرد ہوگیا۔ اور دو تین دن میں سب کچھ فروخت کر کے فقراء میں تقسیم کردیا۔ اُسی وقت سے آپ نے تجرید میں قدم رکھا اور سفر اختیار کیا۔ ایک مدت تک آپ سمر قند اور بخارا میں رہے۔ قرآن مجید حفظ کیا اور ظاہری علم حاصل کیا۔
تلاش شیخ اور حضرت خواجہ عثمان سے بیعت
جب آپ نے دیکھا کہ اس سے مدعا حاصل نہیں ہوا تو آپ نے تلاش شیخ میں عراق عرب کا سفر اختیار کیا۔ جب آپ قصبۂ ہارون میں پہنچے جو نیشا پور کے نواح میں ہے تو حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کی زیارت نصیب ہوئی اور ڈھائی سال حضرت شیخ کی خدمت میں رہ کر شدید ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے۔ جب مرتبہ تکمیل کو پہنچے تو حضرت شیخ نے خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور رخصت کردیا۔ لیکن حضرت خواجۂ بزرگ انیس الارواح میں لکھتے ہیں کہ میں بغداد حضرت خواجہ عثمان کی خدمت میں پہنچا۔ مشائخ کبار آپ کی خدمت میں حاضر تھے۔ اس فقیر نے زمین بوسی کی تو حضرت خواجہ علیہ رحمۃ نے فرمایا کہ دوگانہ نماز ادا کرو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد فرمایا کہ قبلہ رو ہوکر بیٹھو۔ میں نے تعمیل کی۔ آپ نے فرمایا سورۂ بقر پوری پڑھو۔ میں نے سورۂ بقر پڑھی۔ آپ نے فرمایا۔ بیس دفعہ کلمہ سبحان اللہ پڑھو۔ جب میں نے پڑھ لیا تو آپ کھڑے ہوگئے اور آسمان کی طرف منہ کر کے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ میں نے تجھے خدا تک پہنچادیا۔ یہ کہہ کر آپ نے قینچی اٹھاکر میرے سر پر پھیری اور کلاہ چار تر کی اس درویش کے سر پر رکھی۔ اس کے بعد گلیم خاص عطا فرمائی اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب میں بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک ہزار بار سورہ اخلاص پڑھو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے سلسلہ میں یہی ایک شبانہ روز کا جاہدہ ہے۔ جاؤ آج کا دن اور آج کی رات مشغول رہو۔ چنانچہ اس فقیر نے حکم کی تعمیل میں ایک شبانہ روز عبادت اور شغل باطن میں بسر کیا۔ جب دوسرے دن حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا اوپر دیکھو۔ جب میں نے آسمان کی طرف نظر کی تو فرمایا کہ کہاں تک نظر کام کر رہی ہے۔ عرض کیا کہ عرش تک آپ نے فرمایا زمین کی طرف دیکھو۔ میں نے زمین کی طرف دیکھا تو فرمایا کہ کہاں تی دیکھ رہے ہو۔ عرض کیا تحت الثریٰ تک۔ اس کے بعد فرمایا کہ ایک ہزار بار سورہ اخلاص پڑھو۔ میں نے تعمیل کی۔ آپ نےفرمایا کہ میری دو انگلیوں کے درمیان دیکھو میں نے تعمیل کی تو فرمایا کہ کیا دیکھ رہے ہو۔ میں نے عرض کیا اتھارہ ہزار جہان دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے یہ کہا تو فرمایا کہ جاؤ تمہارا کام ہوگیا۔ وہاں ایک اینٹ پڑی تھی۔ آپ نے فرمایا اسے اٹھالو۔ جب میں نے اسے اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مٹھی بھر دینار پڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ہے جاؤ اور درویشوں میں خیرات کرو۔ جب میں خیرات دے کر واپس آیا تو فرمایا کہ چند روز میرے پاس رہو میں نے عرض کی۔ کہ غلام حاضر ہے۔ اس کے بعد آپ نے کعبۃ اللہ کا سفر اختیار فرمایاجب ہم کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو وہاں بھی حضرت شیخ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خدا تعالیٰ کے سپرد کیا۔ اور پر نالۂ رحمت کے نیچے کھڑے ہوکر میرے حق میں دعا کی۔ غیب سے آواز آئی۔ کہ ہم نے معین الدین حسن کو قبول کیا ۔ وہاں سے ہم مدینہ منورہ پہنچے۔ روضۂ اقدس پر پہنچے تو حضرت شیخ نے فرمایا کہ سلام کرو۔ جب فقیر نے سلام عرض کیا تو اندر سے آواز آئی کہ ’’علیکم السلام یا قطب المشائخ‘‘ جونہی یہ آواز آئی حضرت شیخ نے فرمایا کہ جاؤ تم کمالات کو پہنچ گئے۔ وہاں سے سیر کرتے ہوئے ہم بدخشان پہنچے۔ وہاں حضرت خواجہ جنید بغدادی قدس سرہٗ کی اولاد میں سے ایک بزرگ رہتے تھے۔ جن کی عمر ایک سو چالیس سال ت ھی۔ میں اُن کی خدمت میں بھی حاضر ہوا اور عجیب و غریب حالت میسر آئی۔ وہاں سے ہم بخارا پہنچے اور وہاں کے مشائخ کی صحبت حاصل ہوئی۔ اُن میں سے ہر ایک ایسے کمالات کا مالک تھا کہ دائرہ تحریر سے باہر ہے۔
اسی طرح دس سال تک میں حضرت شیخ کی خدمت میں رہا۔ اس کے بعد حضرت شیخ بغداد واپس آئے اور معتکف ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد پھر سفر اختیار کیا اور دس سال میں حضرت شیخ کا بستر اور پار چات سر پر اٹھائے ہوئے ہمراہ سفر رہا۔ حتیٰ کہ جب بیس سال پورے ہوئے تو حضرت شیخ نے عزت (گوشہ نشی) اختیار کی اور اس درویش کو فرمان ہوا کہ کچھ دن میں باہر نہیں آؤن گا۔ میرے پاس خلوق میں آجایا کرو۔ تاکہ میں تجھے فقر کی تربیت دوں اور وہ یادگار رہ جائے چنانچہ اس درویش نے حکم کی تعمیل کی اور اٹھائیس مجالس میں حضرت شیخ کے تمام ملفوظات جمع کر کے اُسے انیس الارواح کا نام دیا[6]۔ جس کی اس مختصر کتاب میں گنجائش نہیں ہے۔
حضرت غوث الاعظم کی صحبت میں
غرضیکہ جب حضرت خواجہ بزرگ اپنے شیخ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے خلافت حاصل کر کے قصبہ سنجار میں آئے تو اس زمانے میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہٗ وہاں قیام پذیر تے۔ خواجۂ بزرگ نے ڈھائی مہینے ان کی خدمت میں بسر کیے۔ وہاں سے آپ قصبۂ جیال میں پہنچے جو بغداد سے سات دن کی مسافت پر جودی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ حضرت شیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی وہاں قیام پذیر تھے۔ خواجہ بزرگ پانچ ماہ اور سات روز ان کی خدمت میں رہے۔ اور دونوں حضرات کے مابین گرما گرم صحبتوں اور راز و نیاز کا سلسلہ جاری رہا۔ صاحب مراۃ الاسرار نے ان کی صحبتوں کا یہی کچھ ذکر کیا ہے۔
لیکن کتاب تحفہ الراغبین میں بعض رسائل سے نقل درج کی گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ نے شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں رہ کر کئی چلّے کیے۔ اور ہندوستان آتے وقت اُن سے حرز ِ یمانی کی اجازت حاصل کی اسکا نام دعائے سیفی ہے۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہٗ نے حضرت شیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر سے دو مرتبہ ملاقات کی۔ ایک شروع میں جب حضرت غوث اعظم نے خواجہ بزرگ کو دیکھ کر اُن کے حق میں دعا کی اور فرمایا کہ یہ مرد ایک دن مقتدائے مشائخ زمانہ ہوگا۔ اور بہت لوگ ان کے ذریعے منزل کمالات تک پہنچ گے۔ اور دوسری مرتبہ جب خواجہ بزرگ تشریفگ لائے تو حضرت غوث اعظم قصبہ جیال میں تھے۔ اس اس قصبہ کو آپ نے اپنے مال حلال سے آباد فرمایا تھا۔ اور اپنی اولاد کے لیے جائے سکونت مقرر فرمایا ہے۔ جب حضرت خواجہ بزرگ وہاں پہنچے تو حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ سے ملاقات ہوئی اور اسرار ورموز کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد خواجہ بزرگ نے کہا کہ ذات حق کے متعلق کچھ بیان فرمایا جاوے حضرت غوث الاعظم نے فرمایا کہ اس کیلئے خلوت درکار ہے حضرت خواجہ بزرگ نے کہا کہ خلوت میں سے دو امر مانع ہیں ایک یہ کہ مبادایہ خبر میرے پیر دستگیر تک جا پہنچے اور وہ ازروئے غیرت مجھ سے رنجیدہ خاطر ہوجائیں۔ جس سے میرے حال میں خرابی واقع ہو۔ اس وجہ سے کہ میں اپنے شیخ سے زیادہ باکمال کسی کو نہیں سمجھتا ہوں اور نہ ان کی ذات بابرکات میں کوئی کمی دیکھتا ہوں بلکہ ان کی ذات با برکات کو ذات حق کا غیر بھی نہیں سمجھتا۔ اور ان کو اکمل الاکملین زمانہ سمجھتا ہوں۔ پس یہ مجھ سے کب ہو سکتا ہے خلوت میں نہ جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جو یہاں موجود ہیں دو حالتوں سے خالی نہیں ہیں۔ یا وہ محرم ہیں یا غیر محرم۔ اگر محرم ہیں تو کلمہ حق سے انکو باز رکھنے کی کیا ضرورت ہے اگر نا محرم ہیں تو انکو ک یا معلوم کہ آپ کیا فرمارہے ہیں۔ یہ بات سنکر حضرت غوث اعظم قدس سرہٗ خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ اسکے بعد حضرت خواجہ بزرگ نے آپ سے رخصت ہوکر قصبہ جیال میں قیام فرمایا اور اُسے جائے خوش جان کر وہاں ایک حجرہ تعمیر کیا اور اس میں اعتکاف فرمایا اور چلہ کیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ وہ حجرہ خاص آج تک موجود ہے۔ صاحب سیر العارفین کہتے ہیں کہ یہ میں نے اس حجرہ کی زیادت کی ہے۔
دونوں حضرات میں رشتہ داری کی روایت
سیر الاقطاب میں یہ بھی کہا ہے۔ کہ حضرت خواجۂ بزرگ حضرت غوث الاعظم کے رشتہ میں ماموں ہوتے ہیں اور حضرت غوث الاعظم اُن کے ہمشیرہ زادہ ہیں۔ لیکن حضرت خواجہ بزرگ سادات حسینی میں سے ہیں اور حضرت غوث الاعظم اپنے والد بزرگوار کی جانب سے حسنی اور والدہ ماجدہکی جانب سے حسینی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا چکا ہے۔ یہ فقیر راقم الحروف کہتا ہے کہ حضرت غوث الاعظم کے حضرت خواجہ بزرگ کے کواہر زادہ ہونے کی روایت سیر الاقطاب کے سوا کسی کتاب میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ معلوم نہیں صاحب سیر الاقطاب نے یہ روایت کہاں سے نقل کی ہے۔
دونوں حضرات کے مابین اشغال کالین دین
باقی رہا۔ ان دونوں حضرات کی باہمی ملاقات کا قصہ اس درویش راقم الحروف نے بعض ثقات (معتبر حضرات) سے یوں سنا ہے کہ جب حضرت خواجہ بزرگ قصبۂ جیال پہنچے اور حضرت غوث الاعطم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے خواجہ بزرگ کی خاطر قوالوں کو طلب فرمایا اور مجلس سماع منعقد فرمائی جس میں حضرت خواجہ بزرگ پر وجد طباری ہوگیا۔ اُس وقت حضرت غوث الاعظم عصا ہاتھ میں لیے کھڑے تھے۔ اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ اچناک عصا میں جنبش شروع ہوئی۔ خادم نے عرض کیا کہ عصا میں جنبش کس وجہ سے ہے اپ نے فرمایا تم نہیں دیکتے کہ عارف کامل سوماع اور رقص میں ہے اور عرش سے تحت الثریٰ تک ہر چیز ان کی متابعت میں رقص کر رہی ہے۔ اور میں نے اپنی قوت ولایت سے ساری کائنات کو تھام رکھا ہے ورنہ کائنات کا شیراز بکھر جائے۔ اور ہر چیزحضرت خواجہ کے ساتھ رقس کر کے زیر و زبر ہوجائے۔ اور غوغائے عظیم وقوع پذیر ہوجائے۔ جب مجلس سماع ختم ہوئی۔ تو دونوں بزرگ حضرت غوث الاعظم کے حجرہ خاص میں تین دن اور تین رات خلوقت گزیں ہوگئے۔ اور صحبت محرمانہ میں مشغول رہے۔ اس دوران میں حضرت غوث الاعظم نے حضرت خواجہ بزرگ کو وہ شغل تعلیم فرمایا۔ جس سے نسبت محبوبیت حاسل ہوتی ہے اور حضرت خواجہ بزرگ نے حضرت غوث الاعظم کو شغل سیروجود، ہفت علم، اور شغل سہ پایا چشتیہ شغل حضرت غوث الاعظم کو تعلیم فرمائے بعض کہتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ نے حضرت خواجہ بزرگ کو اسم اعظم کی خاص ترتیب تلقین فرمائی جو آپ کو سینہ بسینی آنحضرتﷺ سے پہنچی تھی۔ اور اسم اعظم کی تعلیم جو مشائخ سے سینہ بسینہ عطا ہوئی تھی۔ حضرت غوث الاعظم کو انہوں نے بتائی بعض حضرات کہتے ہیں کہ اشغال لطائف باطنہ، شغل سجود، قلب اور ہر دو اشغال سہ پایہ اور شغل سر گوشی اور ترتیب خاص نگاہ داشت برزخ صغری وکبریٰ حضرت غوث الاعطم سے حضرت خواجہ بزرگ کو پہنچے۔ نیز زبدۃ الحقائق یعنی حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ کے ملفوظات جو حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین اوشی قدس سرہٗ نے جمع کیے ہیں۔ میں لکھا ہے کہ سید کائناتﷺ کی اجازت سے حضرت خواجہ بزرگ نے خرقہ خلافت اپنے ماموں حضرت غوث الاعظم سے حاصل کیا۔ اُس وقت حضرت خواجۂ بزرگ کی عمر پچاس سال اور حضرت غوث الاعظم کی عمر نوے سال تھی۔
اور دونوں حضرات کی ملاقات کا قصبہ جو کتب معتبرہ اور ثقات سے ماخوذ ہے اور جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہے یہ ہے کہ حضرت خواجۂ بزرگ رسول خداﷺ کے فرمان اور اپنے شیخ حضرت خواجہ عچمان ہارونی قدس سرہٗ کے فرمان کے مطابق حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے اور تربیت وفیوض حاصل کیے۔ جیسا کہ م رید اپنے پیر صحبت سے اخذ فیض کرتا ہے۔ اس کے بعد وہاں سے رخصت ہوکر اجمیر شریف آئے اور وہاں سکونت اختیار کر کے کفر اور شرک کی بنیاد نکال ڈالی اور نور اسلام سے منور فرمایا۔ اس کے سوا جو کچھ اس بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ یر معتبر ہے۔ اور زبدۃ الحقائق م یںاس روایت کا ہونا اور نیز حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ کا ان ملفوظات کا جمع کرنا بھی احتمال سے خالی نہیں ہے۔ ممکن ہے کسی شخص نے ان بزرگوں سے نام کے ساتھ اس کتاب کو منسوب کرلیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب القصہ اس کے بعد حضرت خواجہ بزرگ بغداد شریف لچے گئے اور شیخ ضیاء الدین ابو النجیب سہروردی قدس سرہٗ کی صحبت میں رہ کر بہت محفوظ ہوئے اور کافی عرصہ تک اُن کے ساتھ رہے۔ اس زمانے میں شیخ اوحد الدین کرمانی بھی بغداد میں ابتدائے سلوک میں تھے۔ حضرت خواجہ بزرگ نے ان پر توجہ فرمائی اور خرقۂ خلافت عطا فرمایا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی بھی ابتدائے حال میں حضرت خواجہ بزرگ کی خدمت میں رہے ہیں۔
آتش پرستوں کا ولی کامل ہونا
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جس وقت حضرت خواجہ بزرگ بغداد میں قیام پذیر تھے۔ وہاں سات آتش پرست شدید ریاضت و مجاہدہ میں مصروف تھے۔ ایک دن وہ سات آدمی حضرت خواجہ بزرگ کی ملاقات کے لیے آئے۔ جب حضرت اقدس نے ان پر نگاہ ڈالی ان کے چہرے ہیبت سے زرد ہوگئے اور ہاتھ پاؤں میں لرزہ ہ طاری ہوگیا۔ اس حالت میں وہ حضرت خواجہ بزرگ کے قدموں میں آکر گر گئے۔ حضرت خواجہ بزرگ نے فرمایا۔ اے بے دینو تمہیں شرم نہیںآتی۔ کہ خدا تعالیٰ کے غیر کی پرستش کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم آگ کی اس لیے پوجا کرتے ہیں۔ کہ کل قیامت میں ہمیں نہ جلائے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک خدا تعالیٰ کی پرستش نہیں کرو گے آتش دوزخ سے خلاصی نصیب نہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو آگ نہ جلائے تو ہم مسلمان ہوجائیں گے۔ آپ نے فرمایا اللہ ! اللہ آگ معین الدین کا جوتا بھی نہیں جلاسکتی۔ آگ موجود تھی۔ آپ نے اپنا جوتا آگ میں ڈال دیا۔ اور فرمایا کہ اے آگ معین الدین کے جوتے کو مت جلانا۔ یہ کہنا تھا کہ آگ ٹنڈی ہوگئی۔ اسی وقت غیب سے آواز آئی۔ اور سب حاضرین نے سنی۔ کہ آتش کی کیا مجال کہ میرے دوست کا جوتا جلا سکتے۔ آتش پرستوں نے جب یہ حال دیکھا تو فوراً اسلام سے مشرف ہوگئے۔ اور حضرت اقدس کی خدمت میں رہ کر اولیاء کامل ہوئے۔
صاحب مراہ الاسرار نے ان سات آتش پرستوں کے اسلام لانے کی حکایت حضرت اقدس کے دہلی میں وارد ہونے کے بعد بیان کی ہے۔ اور یہ لکھا ہے۔ کہ ایک دن حضرت خواجہ بزرگ کا گذر دہلی کے ایک بت خانہ کے قریب ہوا۔ وہاں سات بت پرست عبادت میں مصروف تھے۔ لیکن حضرت اقدس کو دیکھتے ہی لاغر ہوگئے دوڑ کر آپ کے قدموں میں گر گئے۔ اور مسلمان ہوگئے۔ آپ نے ہر ایک کو حمیدکا لقب عطا فرمایا۔ شیخ حمید الدین دہلوی اُن سات آدمیوں میں سے زیادہ مشہور ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں مقامات ر سات سات کافر حضرت اقدس کی توجہ سے مسلمان ہوئے ہوں۔
بہر حال حضرت خواجۂ بزرگ کی یہ کیفیت تھی جو شخص آپ کی صورت دیکھتا تھا۔ کفر کی میل اس کے دل سے صاف ہوجاتی تھی۔ اور اس فقیر کاتب حروف نے بعض ثقات (معتبر راوی) سے سنا ہے کہ جو کافر بھی محبوب عالم حضرت شیخ محمدصادق بن شیخ فتح اللہ الحنفی گنگنوہی قدس سرہٗ کا چہرۂ مبارک دیکھتا تھا۔ فوراً کفر کا زنگ اس کے قلب سے دھل جاتا تھا۔ اور اس کی جگہ نور ایمان آجاتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے۔ آپ حضرت خواجۂ بزرگ قدس سرہٗ کے مظہر اتم ہو چکے تھے۔ چنانچہ اپ کے حالات اپنے مقام پر آرہے ہیں۔
غرضیکہ خواجہ بزرگ بغداد سے روانہ ہوکر ہمدان پہنچے۔ وہاں شیخ یوسف ہمدانی سے جو بزرگان زمانہ میں سے تھے۔ ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد آپ تبریز تشریف لائے۔ اور شیخ ابو سعید تبریزی سے جو بہت بڑے بزرگ عالی ہمت اور صاحب تجرید و تفریس اور متوکل تھے۔ ملاقات ہوئی۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتےہیں کہ شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کے شیخ جلال تبریزی کی طرح ستر مرید صاحب کمال تھے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہے فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ بزرگ کے ریاضت و مجاہدہ کا یہ عالم تھا۔ کہ آپ سات دن کے بعد ایک روٹی سے افطار فرماتےتھے۔ جس کی مقدار پانچ مثقال (تولہ) سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ اس روتی کو پانی میں تر کر کے تناول فرماتے تھے۔ آپ کا لبا سایک دوتائی تھی۔ جس میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ بج کسی جگہ سے پھٹ جاتی تھ ی تو آپ کوئی چتھیڑ اٹھاکر اُسے پاک کرتے تھے۔ اور پیوند لگاتے تھے۔ ستر سال تک آپ ہمیشہ باوضو رہے۔ آپ جس شخص پر نظر کرتے تھے۔ وہ فسق و فجور سے توبہ کرلیتا تھا۔ اور ولی کامل بن جاتا تھا۔ اور جو شخص کہ تین دن حضرت اقدس کی خدمت میں رہتا تھا۔ صاحب کشف و کرامات ہوجاتا تھا۔ حضرت اقدس حافظ کلام اللہ شریف تھے۔ اور ہر روزایک ختم اور ہر شب ایک ختم قرآن کرتے تھے ہر ہر بار ختم کرنے پر غیب سے آواز آتی تھی کہ اے معین الدین میں نے تمہارا ختم قبول کیا۔ آپ صاقم الدہر اور قائم خلیل تھے۔ (یعنی دن میں ہمیشہ روزہ رکھتے تھ ے اور ساری رات جاگتے تھے۔) آپ ہمیشہ صبح کی نماز عشاء کے وضو سے ادا کرتے تھے۔ اکثر سماع سنتےتھے ار علماء وفقہہ میں سے کسی شخص کو آپ کے سماع پر انکار کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ اور زمانے کے اکثر علمائے متبحر اور مشائخ کبار آپ کی مجلس سماع میں حاضر ہوتے تھے۔ اور حضرت اقدس سے فیض و نعمت بے انتہا حاصل کرتے تھے۔ یہ تمام حضرات حضرت اقدس سے فیض یافتہ اور حلقہ بگوش تھے۔
حضرت خواجہ قطب الدین کا بیعت ہونا
جب حضرت خواجہ بزرگ اصفہان تشریف لائے تو شیخ محمود اصفہانی سے جو مشائخ کبار میں سے تھے۔ ملاقات ہوئی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بن احمد بن احمد بن موسیٰ اوشی نے شیخ محمود اصفہانی سے بیعت ہونے کا ارادہ کیا لیکن جب انہوں نے حضرت خواجہ بزرگ کے جمال ولایت کا مشاہدہ کیا تو بے اختیار آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا۔ حضرت خواجۂ بزرگ کےلیے بھی اُن سے بہتر مرید مصاحب اور محرم راز کوئی نہ تھا۔ جس طرح کہ حضرت حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کے لیے حضرت خواجہ بزرگ جیسا کوئی مرید نہ تھا۔
آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا معین الدین محبوب اللہ ہے اور مجھےاس کی مریدی پر فخر ہے اسی طرح خواجہ بزرگ، خواجہ قطب الدین کے حق میں مہربانی فرماتے تھے۔ اور وہ پیوند زدہ دوتائی جو حضرت خواجہ بزرگ زیب تن فرماتے تھے ۔ آخر خواجہ قطب الدین کو ملی۔ اور آپ سے حضرت خواجہ گنج شکر کو ملی۔ حضرت سلطان المشائخ فوائد الفواد[7] میں فرماتے ہیں کہ میں نے اس مرقع دوتائی کو دیکھا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ وہ دوتائی بالآخر حضرت سلطان المشائخ کے حصہ میں آئی۔
خلفائے خلافت و تبرکات
حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہٗ نے بادون سال اور دوسری روایت کے مطابق پچپن سال کی عمر میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ سے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ اور مثال و زجازت نامہ عطا ہوا۔ خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو عصا، مصلیٰ اور خرقہ عطا فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ ہمارے خواجگان کی یادگار ہے۔ یہ لو لو اور اس کے بعد جو جو ان مرد ملے۔ یہ امانت اسکے حوالہ کرنا۔
مہنہ میں ورود
خواجہ بزرگ عظیم مشغولی رکھتے تھے۔ اور آزاوانہ سفر کرتے تھے۔ آپ جہاں جاتے قبرستان میں قیام فرماتے تھے۔ جب آپ کی کچھ شہرت ہوتی تو وہاں سے چلے جاتے تھے۔ تبریس سے روانہ ہوکر آپ مہنہ پہنچے اور شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس سرہٗ کے مزار پر حاضر دی۔ ایک روایت یہ ہے کہ اُس وقت حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر زندہ تھے۔ اور حضرت خواجہ بزرگ کو ان کی صحبت ملی تھی۔
وہاں سے آپ خرقان پہنچے لیکن شیخ ابو الحسن خرقانی اُسی سال وصال پاچکے تھے۔ آپ نے اُن کے مزار پر حاضری دے۔ آپ دو سال تک اس علاقے میں رہے وہاں سے آپ اُشتر آباد پہنچے اور شیخ ناصر الدین اُشتر آبادی جن کی عمر ایک سو سات سال تھی۔ اور بڑے بزرگ تھے۔ سے ملاقات ہوئی۔ شیخ ناصر الدین قدس سرہٗ کا سلسلہ دوتین واسطوں سے سلطان العارفین حضرت خواجہ بایزید بسطامی قدس سرہٗ سے جا ملتا ہے۔ اور شیخ ابو الحسن خرقانی قدس سرہٗ اور شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس سرہٗ کو انہوں نے دیکھا تھا۔ حضرت خواجہ ان کی صحبت میں رہے اور پھر اُشتر آباد سے ہرات کی طرف چلے گئے۔ اپ کافی عرصہ اس علاقے میں رہے۔ دن کے وت آپ مشائخ کے مزارات کی زیارت کرتے تھے۔ اور رات حضرت شیخ عبداللہ انصاری قدس سرہٗ کی خانقاہ میں بسر فرماتے تھے۔ جب ہرات میں آپ کی شہرت ہوئی اور لوگ آپکی خدمت میں جمع ہونے لگے تو آپ وہاں سے سبزوار چلے گئے۔ وہاں ایک حاکم تھا۔ جس کا نام محمد یادگار تھا۔ وہ بہت ہی سخت مزاج، کج طبع اور بدکار تھا۔ اور بد اعتقادی میں مشہور تھا۔ لیکن حضرت اقدس کا چہرہ انور دیکھتے ہی درست ہوگیا اور اپنے تمام احباب کے ساتھ مرید ہوگیا۔ حضرت اقدس نے محمدﷺ یادگار کی اس خوبی سے تربیت فرمائی کہ تھوڑے عرصے میں عارف کامل اور صاحب ارشاد ہوگیا۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ کتب سیر میں بیان کیا گیا ہے۔
خواجہ محمد یادگار کی بیعت
اس کے بعد آپ حصار شادمان پہنچے جہاں آپ نے محمد یادگار کو مسند نشین کر کے ہدایت خلق پر مامور فرمایا۔ وہاں ایک عالم نے ان کا مقابلہ کیا لیکن بعد میں صحیح راہ پر آگیا۔ سیر العارفین کے مصنف کا بیان ہےکہ میں نے حصار شدمان میں خواجہ محمد یادگار کے مزار کی زیارت کی ہے۔ بہت ہی فیض بخش مقام ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ
مولانا ضیاء الدین کا بیعت ہونا
اس کے بعد حضرت خواجہ بزرگ بلخ تشریف لے گئے اور وہاں کےمشائخ سے ملاقت کے بعد آپ حضرت شیخ احمد خضرویہ قدس سرہٗ کی خانقاہ میں پہنچے اور آپ کی روحانیت سے محبت کے بعد آپ کچھ عرصہ وہاں رہے۔ مولانا ضیاء الدین حامد کلیم بلخی بھی وہاں موجود تھے وہ علم تصوف اور ارباب طریقت سے متنفر تھے اور اُن سے بڑی شدت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ جب انہیں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی نظر نے ایسا کام کیا کہ تمام اعتراضات اور الزامات ان کے سینہ سے صاف ہوگئے اور نور معرفت و توحید کی جھلک سے ایسے متاثر ہوئے کہ حضرت اقدس کے قدموں میں گر کر مرید ہوگئے۔ دوسرے دن انہوں نے اپنے سارے کتب خانہ کو پانی میں پھینک دیا اور اسباب دنیا سے فارغ ہوکر راہ سلوک اختیار کیا۔ اُن کے ساتھ ان کے شاگرد بھی تائب ہوئے اور حضرت خواجہ بزرگ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اس واقعہ کی تفصیل کتاب مراۃ الاسرار میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت اقدس نے مولانا ضیاء الدین کو بعد تربیت اسی جگہ ہدایت خلق پر مامور فرمایا۔
غزنی میں ورود
اور خود غزنی تشریف لے گئے۔ شمس العارفین شیخ عبدالواحد قدس سرہٗ جو شیخ نظام الدین ابو الموید کے پیر ہیں وہاں رہتے تھے ان کا ذکر مشائخ چشت کے ضمن میں اکثر آتا ہے۔ آپ نے اُن سے بھی ملاقات کی۔
لاہور میں آمد
غزنی سے آپ لاہور پہنچے۔ اور حضرت مخدوم علی ہجویری داتا گنج بخش قدس سرہٗ [8]کے مزار پر حاضری دی۔ اور فیض حاصل کیا۔ اس وقت شیخ حسین زنجانی قدس سرہٗ موجود تھے۔ خواجہ بزرگ اور ان کے مابین بے حد محبت ہوگی۔
دہلی میں ورود
چند یوم لاہور میں قیام کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اس زمانے میں دہلی راجہ پر تھی راج چوہان چو رائے ہتھورا کے نام سے مشہور ہے کا صدر مقام تھا۔ وہ لوگ مسلمانوں سے اس قدر نفرت کرتے تھے۔ کہ ان کا منھ دیکھنا بھی ان کے نزدیک گناہ تھا۔ خواجہ بزرگ اپنی ولایت کی قوت سے اپنے اصحاب سمیت دہلی میں داخل ہوئے۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب حضرت خواجہ معین الدین حسن قدس سرہٗ اپنے شیخ سے باون سال کی عمر میں رخصت ہوکر سیر کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے اور روضۂ اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے اور کچھ عرصہ قیام کیا تو ایک دن روضہ اطہر سے آواز ائی کہ معینالدین کو بلاؤ۔ خادم نے آواز دی تو جواب ملا کہ کس معین کو طلب کرتے ہو کیونکہ اس وقت یہاں کئی معین الدین موجود ہیں۔ خادم نے روضہ اقدس پر جاکر عرض کیا تو جواب م لا کہ معین الدین چشتی کو بلاؤ۔ چنانچہ خادم نے باہر آکر معین اڈین چشتی کو آواز دی۔ حضرت اقدس نے جب یہ آواز سنی تو آپ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ آپ اہ وزاری کرتے ہوئے اشک بہاتے ہوئے اور درود وصلواۃ پڑھتے ہوئے روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے۔ اندر سے آواز آئی کہ اندر آؤ اے قطب المشائخ۔ یہ سنکر آپ بیخود ومدہوش ہوگئے اور اندر جاکر سرور کونینﷺ کے جمال جہاں آراء سے مشرف ہوئے۔ خواجۂ عالمﷺ نے فرمایا۔ اے معین الدین تم ہندوستان جاؤ اور وہاں سے کفر والحاد کی بنیاد نکال دو۔ اور اسلام کو ظاہر کرو۔ اس وقت آنحضرتﷺ نے خواجہ بزرگ کے ہاتھ میں ایک انار دے کر فرمایا کہ اس انار کو دیکھو تاکہ تجھے معلوم ہوجائے کہ تجھے کہاں جانا ہے۔ آپ نے جب انار کو دیکھا تو شرق سے غرب تک سب کچھ نظر آنے لگا۔ شہر اجمیر اور کوہ پہاڑ اچھی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ سے ہمت اور قو ت کی دعا کر کے ہندوستان کی طرف روانہوہئے۔ چالیس صوفیان باصفا آپ کے ہمراہ تھے۔ غرضیکہ مسافت طے کرتے ہوئے آپ دہلی پہنچے۔ اور جس جگہ اب شیخ رشید مکی کی قبر ہے۔ وہاں آپ نے قیام فرمایا۔ کفر کے اس گھر میں حضرت اقدس کے ہمرا ہیان پانچ وقت اذان دیتے تھے۔ اور نماز ادا کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر کفار جلتے تھے۔ ان ہوں نے حضرت خواجۂ بزرگ پر حملہ کرنے کے کئی منصوبے بنائے لیکن جب یہ ناپاک عزائم لے کر باہر نکلتے تھے تو لرزہ بر اندام ہوجاتے تھے۔ آپ کی آمد سے قبل راجہ پر تھی راج کو اپنے نجومیوں کے ذریعے حضرت اقدس کی تشریف آوری کی اطلاع مل چکی تھی۔ اس لیے اس نے جابجا پروانے جاری کردیئے تھے۔ کہ اس حلیہ کا کوئی شخص جہاں بھین ظر آئے اُسے قتل کردینا چاہئے۔ حضرت اقدس نے چالیس ہمراہیان کے ساتھ علانیہ تشریف لائے اور دہلی کے اندر داخل ہوگئے لیکن کسی کو مزاحمت کی ہمت نہ ہوئی۔
ایک ہندو کانیت بد سے آنا
ایک دن ایک ہندو خنجر بغل میں چھپاکر حضرت اقدس کی خدمت میں نیت بد سے آیا۔ آپ نے روشن ضمیری سے معلوم کرلیا اور فرمایا کہ اے فلاں کیوں دیر کر رہے ہو۔ اپنا کام کرو۔ میں حاضر ہوں۔ اس سے اس کے جسم پر ایسا لرزہ طاری ہو ہوا کہ اس نے خنجر بغل سے نکال کر ایک طرف پھینک د یا اور حضرت اقدس کے قدموں میں گر کر مسلمان ہوگیا۔ اُسی روز سے خلق خدا کثرت سے اپ کی خدمت میں ھاضر ہوکر دارئۃ اسلام میں دخل ہونے لگی جب دہلی میں خلق خدا کا ہجوم پڑھ گیا تو آپ وہاں سے ترک سکونت کر کے
اجمیر میں آمد
اجمیر شریف کی طرف روانہ ہوے۔ اس زمانے میں رائے پتھورا سارے ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ اور م ہاراجہ کے لقب سے ملقب تھا۔ وہ اکثر اجمیر میں رہائش رکھتا تھا۔ اجمیر پہنچ کر آپ ن ے ایک درخت کے نیچے سکونت اختیار کی۔ وہاں ایک میدان تھےا۔ جس میں راجہ کے اونٹ بیٹھاکرتے تھے۔ جب ساربان آئے اور حضرت اقدس کو وہاں بیٹھے دیکھا تو کہنے لگے کہ ہیاں سے اٹھو۔ یہاں راجہ کے اونٹ بیٹھاکرتے ہیں۔ لیکن اس کی بات کی طرف کسی نے توج ہ نہ کی۔ جب اس نے شدت اختیار کی تو حضرت اقدس نے فرمایا۔ اچھا ہم جاتے ہیں۔ تمہارے اونٹ یہاں بیٹھیں۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے اٹھے اور جھیل اناساگر کے کنارے پر آکر قیام فرمایا۔
یہ بہت ہی صاف ستھرا اور خوبصورت منظر تھا جو حضرت اقدس کو بہت پسند آیا۔ آپ وہاں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہوگئے۔ جب راجہ کے اونٹ وہاں جاکر بیٹھے تو حضرت اقدس کی کرامت سے وہ ایسے بیٹھے کہ اتھ نہیں سکتے تھے۔ سارہانوں نے یہ ماجرا جاکر راجہ کے سامنے بیان کیا۔ راجہ نے کہا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ تم اس درویش کےپاس جاکر معافی مانگو۔ سار بانوں نے جب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی طلب کی تو آپ نے فرمایا جاؤ۔ تمہارے اونٹ اٹھ کھڑے ہیں۔ جب ساربان وہاں گئے۔ تو دیکھا کہ اونٹ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے راجہ کے پاس جاکر واقعہ بیان کیا تو وہ خوف زدہ اور حیرت زدہ بھی ہوا۔
غرضیکہ حضرت اقدس نے اناساگر پر سکونت اختیار فرمائی تو اس کے گرد اگرد بے شمار بت خانے تھے۔ آپ بُت خانوں کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ تباہ ہوجائیں۔ کہتے ہیں کہ ان بُت خانوں میں ایک ایسا بُت خانہ تھا۔ جہاں راجہ اور اس کے مصاحب بڑے غلو کے ساتھ پوجا کیا کرتے تھے۔ اور اس میں گُل روغن جلانےکے لیے نواح میں کئی مواضعات منسلک تھے۔ جب سے حضرت خواجہ بزرگ نے وہاں رہائش اختیار کی اپ کے خادم ہر روز ایک گائے خرید کر اُسے ذبح کرتے اور کھاتے تھے۔ یہ دیکھ کر کفار کے دلوں میں آتش غیض و غضب بھڑک اٹھی۔ اور ہتھیارات سنبھال کر حملہ آور ہوئے اس وقت حضرت اقدس نماز میں مشغول تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد جب خادموں نے اطلاع دی تو آپ اُٹھے اور مٹی اٹھاکر اس پر آیتہ الکرسی دم کی اور کفار کی طرف پھینک دی۔ وہ مٹی جس شخص پر پڑی اس کا جسم خشک ہوگیا۔ اور بے حِس ہوکر رہ گیا۔ یہ دیکھ کر سب لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کی ولایت محمدی تھی[9]۔ غرضیکہ جب کافروں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ بزرگ کا مقابلہ ممکن نہیں تو انہوں نے لڑائی ترک کردی اور بت خانہ میں جاکر بڑے برہمن کے سامنے فریاد کی، سارا ماجرا بیان کیا اور امداد کی درخواست کی۔ پہلے تو وہ برہمن خاموش رہا۔ اس کے بعد کہنے کہ اے دوستو یہ درویش جو آیا ہے۔ اپنے مزہب میں بہت بڑا بزرگ اور صاحب کمالات ہے۔ میں اس کے مقابلہ میں سحر اور جادو کے سوا کوئی چارہ کار نہیں جانتا۔ چنانچہ اس نے سب کو جادو سکھایا اور کہا کہ اسے پڑھتے رہو۔ شاید کہ یہ درویش یہاں نہ رہ سکے۔ کفار نے وہ جدو پڑھنا شروع کیا اور برہمن اُن کے آگے ہولیا۔ جب حضرت اقدس کے قریب پہنچے سب کفار اپنے پیشوا کی پناہ لے کر پیچھے کھڑےہوگئے۔ اور جادو پڑھنے لگے۔ اس اثنا میں آپ کو اطلاع دیدی۔ آپ نےفرمایا ان کا جادو ہم پر کوئی اثر نہیں کر سکتا۔ ان کا جادو گر برہمن خود بخود سیدھا ہوجائے گا۔ آپ یہ کہہ کر نماز میں مشغول ہوگئے۔ جب کفار حضرت اقدس کے قریب پہنچے اور آپ کے جمال باکمال کا مشاہدہ کیا تو ان کی زبانیں بولنے سے اور پاؤں چلنے سے معذور ہوگئے۔ جس جگہ کھڑے تھے۔ وہیں کھڑے رہ گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو کفار کی طرف مڑک کر دیکھا۔ اُن کے پیشوا نے حضرت اقدس کا چہرہ انور دیکھتے ہی اسلام قبول کرلیا۔ کفار نے اسے بہت نصیحت کی لیکن سود مند ثابت نہ ہوئی۔ بلکہ وہ ان کی نصیحت سے غصے ہوا اور ڈنڈا ہاتھ میں لے کر ان کو مارنے لگا۔ اور بہتوں کا صفایا کردیا۔ باقی پرشیان ہوکر بھاگ نکلے۔ حضرت خواجہ بزرگ نے اس پیشوا کی بہت دلجوئی فرمائی اور خود پانی کا پیالہ بھر کر اُسے اور ناور عرفان سے اس کا قلب منور ہوگیا۔ چنانچہ اس نے حضرت اقدس کے قدموں پر سر رکھ کر عرض کیا کہ حجور کی شانِ جمال دیکھ کر مجھے بے حد شادی و خوشی حاصل ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے بھی تمہارا نام شادی رکھا ہے۔ جب یہ خبر راجہ تک پہنچ تو وہ زیادہ حیران ہوا۔ اجمیر کے قریب ایک جادو گر رہتا تھا۔ جس کا نام اجیپال تھا۔وہ سارے ہندوستان میں جادو گری میں بے نظیر تھا۔ اور راجہ اس کا بڑا سخت معتقد تھا۔ اس کے ایک ہزار پانچ سو چیلے تھے۔ ان میں سے سات سو چیلے جادو گر تھے۔ باقی اپنے فن میں بڑے عیار تھے۔ راجہ نے اس جوگی کے سامنے سارا ماجرا بیان کیا۔ اس نے اپنے تمام چیلوں اور گردو نواح کے لوگوں کو جمع کیا اور بادشاہ سمیت حضرت خواجہ بزرگ کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس کی کیفیت یہ تھی کہ اس نے ایک ہرن کی کھال پر پھونک مار کر اُسے ہوا میں متعلق کردیا اور خود اس پر سوار ہوکر اپنے لاؤ لشکر اونٹ گھوڑے ہاتھی لے کر خواجۂ بزرگ کے مقابلہ کے لیے آگے بڑھنے لگا۔ اس لشکر کی آمد سے زمین وآسمان شور مچ گیا۔
حضرت خواجہ بزرگ پر زبردست حمہ
جب حضرت اقدس کو ان کے آنے کی خبر ہوئی تو آپ نے اٹھ کر وضوکیا اور پانے گرد ایک دائرہ کھینچ لیا اور ساتھیوں سے فرمایا کہ ہمت کرو۔ جب کفار نزدیک پہنچے تو آپ نے ان کو مخاطر کر کے فرمای کہ تم لوگ ہمارے ساتھ کیوں چھیڑ چھاڑ کر رہے ہو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ سب نیسب و نابود ہوجاؤ۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ آپ لوگ جھیل اناساگر سے وضو اور غسل نہ کریں۔ کیونکہ اس سے پانی خراب ہوجاتا ہےہے۔ اور استعمال کے قابل نہیں رہتا بلکہ ہمارا اسلی مقصد یہ ہے کہ تم لوگ یہاں سے خود بخود چلے جاؤ اور تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ ورنہ ہم جادو کی طاقت سے تمہیں یہاں نکال دیں گے۔ حضرت اقدس نے جب یہ بات سنی تو غضب میں آکر فرمایا شادی دیو کو بلاؤ۔ جب وہ آیا تو آپ نے اُسے لوٹادے کر فرمایا کہ اسے انا ساگر سے بھر کے لے آؤ۔ اور پانی بھرتے وقت اسم اعظم یا بدوح زبان پر جاری رکھو۔ شادی دیونے یا بدوح کہتے ہوئے جونہی پانی کا لوٹا بھرا۔ قدرت الٰہی سے ساری جھیل کا پانی سمٹ کرلوٹے میں آگیا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا جھیل میں مدت سے پانی تھاہی نہیں۔ شادی دیو بوٹا بھر کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضرہوا۔ اُدھر جھیل میں جتنے جانور تھے سب مرنے لگے بلکہ اکثر مر گئے۔ یہ دیکھ کر اجیپال نے کہا کہ یہ کون فقیر ہے۔ جو اتنے جانداروں کی جان لے رہا ہ۔ حضرت اقدس نے فرمایا اگر طاقت ہے تو آؤ۔ اور اس لوٹے کو اٹھاکر جھیلمیں واپس ڈال دو۔ اجیپال نے جس قدر کوشش کی لوٹانہ اٹھا سکا۔ بلکہ اُسے اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں نہ سکا۔ اور شرمندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا تیرا جادو۔ یہاں کچھ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ آپ نے لوٹا اٹھاکر پانی جھیل میں ڈال دیا۔ اور جھ یل پہلے کی طرح پانی سے بھر گئی۔ جب کفار نے یہ کرامت دیکھی تو اپنے جادو اور سحر گری کو بروئے کار لائے حتیٰ کہ ہر طرف سے ہزاروں سانپ دوڑتے ہوے اور پھن لہراتے ہوئے نکل آئے۔ لیکن جب دائرہ تک پہنچے تو سردارئرہ پر رکھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت اقدس نے اپنے اصحاب سے فرمای کہ ان سانپوں کو اٹھاکر پہاڑ میں پھینک دو۔ چنانچہ انہوںنے سب سانپوں کو اٹاکر دور پھینک دیا۔ جس مقام پر سانپ گرتا تھا وہاں ایک چتراول کا پودا نکل آتا تھا۔ اور سایہ دار درخت بن جاتا تھا۔ اس کے بعد کفار نے چاروں طرف سے آگ برسانی شروع کی لیکن دارئہ کے اندر ایک انگار بھی نہ آسکا۔ اس طرح جو جادو ان لوگوں نے کیا۔ سب ان کی اپنی گردنوں پر واپس آیا۔ اور انہیں تباہ کردیا اس سے اجیپال اور تمام کفار عاجز آگئے۔
اجیپال کا آسمان کی طرف اُڑنا
آخر اجیپال راجہ سے شرمندہ ہونے کے خوف سے آگے بڑھا اور حضرت اقدس کیے پاس آکر کہنے لگا کہ اے مرد خدا اگر چہ تم نے ہمیں عاجز کردیا ہے۔ لیکن تمہارا کامیاب ہونا محال ہے۔ لہذا تم دیدہ دانستہ اپنے آپ کو آفت میں نہ ڈالو۔ ورنہ میں آسمان کی طرف پرواز کر کے تم لوگوں پر ایسی بلا برساؤنگا کہ یاد رکھوگے۔ حضرت اقدس نے اس کی بات سن کر تبسم فرمایا اور یہ شعر پڑھا؎
تو کار زمین رانکو ساختی! |
|
کہ با آسمان نیز پر داختی! |
گویند خدا بچشم سر نتواں دید |
|
آں ایشانند من چنینم ھردم |
ترجمہ:۔ تم نے زمین پر کیا کرلیا ہے۔ کہ آسمان پر اڑنے کی خواہش کر رہے۔
یہ سنکر اجیپال پہلے سے زیادہ شرمندہ ہوا۔ لیکن پھر بھی ہرن کی کھال کو ہوا میں اڑا کر اس پر سوار ہوگیا اور آسمان کی طرف اڑنےلگا۔ حتیٰ کہ لوگوں کین ظروں سے غیب ہوگیا۔ اس پر آپ نے اپنے جوتے کو حکم دیا کہاوپر جاؤ اور اس کافر کو مار مار کر زمین پر گرادو۔ یہ کہنا تھا کہ جوتا اورپر اڑا اور اجیپال کے پاس جاکر اسکے م نہ پر اور سر پر ضربیں لگا لگا کر نیچے لے آیا۔ زمین پر آتےہی اجیپال شرمندگی کے مارے جاکر حضرت اقدس کے قدموں میں گر گیا۔ آپ نے گھوڑا سا پانی پیالے میں ڈال کر اُسے عنایت فرمایا۔ جونہی اسن ے پانی پیا کفو شرک ی تمام زنگ اس کے قلب سے صاف ہوگئی۔ اور صدق دل سے مشرف ک بہ اسلام ہوا۔ حضرت خواجہ بزرگ نے فرمایا جو کچھ مانگتے ہو مانگو۔ اس نے عرض کیا کہ حجور جو مراتب سالکین کو طویل مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں۔ مجھے عنایت فرمادیں۔ حضرت اقدس نے جب اس کی آہ وزاری دیکھی تو اُس کی رخواست قبول فرمائی اور سرنگون ہوکر مراقب ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد سر اٹھا کر اجیپال کی طرف نگاہ فرمائی۔ اور باطنی توجہ سے نوازا۔ جس کی وجہ سے اجیپال کے سامنے ظاہری دنیا گم ہوگئی اور اس نے علام باطن میں اپنے آپ کو خواجہ بزرگ کے ساتھ پایا۔ اور یہ دیکھا کہ حضرت اقدس آسمان کی طرف پرواز کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی پیچھے جارہا ہے۔ جس آسمان سے حضرت اقدس گذرتے تھے۔ غیب سے آواز آتی تھی۔ کہ اے فرشتو! اجیپال کو بھی معین الدین کی دوستی کی وجہ سے اندر جانے دو۔ حتیٰ کہ ایسے مقام پر پہنچے جہاں اجیپال پر حیرت طاری ہوگئی۔ اور وہاں لطافت کا یہ عالم تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ اس کے بعد فرشتے جوق در جوق آتے تھے، حضرت خواجہ بزرگ کا اد ب واحترام کرتے تھے۔ اور یہ کہتے تھے۔ کہ خدا کا دوست معین الدین آگیا ہے۔ خوش بخت ہے وہ شخص جسے اس کی صحبت حاصل ہو اور اس کی خدمت کرے۔ اس کے بعد حضرت اقدس نےاجیپال سے فرمایا کہ اس سے آگے کا راستہ نہایت ہی لطیف اور نازک ہے مجھے تو آگے جانے کی اجازت ملجائے گی۔ لیکن تجھے کوئی نہیں جانے دیا۔ اس وجہ سے کہ ابھی تمہارے اندر یہ استعداد پیدا نہیں ہوئی کہ تجھے اس سے آگے رسائی ہو۔ بہتر یہ ہے کہ تم یہاں سے واپس چلے جاؤ۔ اس نے عرض کیا جو فرمان ہو۔ آپ نے فرمایا آنکھیں بند کرو۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ آپ نے فرمایا اب آنکھیں کھولو۔ جب آنکھیں کھولیں تو پہلے کی طرح اپنے آپ کو حضرت اقدس کے سامنے بیٹھا ہوا پایا۔ اس کے بعد آپ ن ے اجیپال کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہاں اجیپال جو کچھ تیرا دل چاہتا تھا تم نے دیکھ لیا ہے۔ اس نے عرض کیا۔ کہ حضرت خواجہ کی توجہ سے میں نے اس سے بھی بہتر دیکھ لیا ہے۔ جس کی مجھے خواہش تھی۔ آپ نے فرمایا اور کیا چاہتو ہو۔ اس نے عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہمیشہ زندہ ہوں۔ یہ سن کر حضرت نے تامل فرمایا اور مراقبہ میں چلے گئے۔ فرمان الٰہی وارد ہوا کہ اے معین الدین اس کے حق م یں جو کچھ طلب کرنا چاہتے طلب کرو۔ تمہاری دعا پوری ہوگی۔ حضرت اقدس نے آنکھیں کھولیں اور دوگانہ ادا کیا۔ اور اس کے ھق میں درازی عمر کی دعا کی جو فوراً قبول ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے اجیپال کو طلب کر کے فرمایا کہ تم قیامت تک زندہ رہو گے۔ لیکن لوگوں کی نظروں سے غیب رہو گے چنانچہ یہی ہوا کہتے ہی وہ اجمیر شریف کے پہاڑوں میں رہتے ہیں۔ اور بعض لوگوں سےان کی ملاقات ایک لکڑہا رے سے ہوگئی۔ اور اُسے انہوں نے دودھ اور حلوا کھلایا۔
غرضیکہ اجیپال حضرت خواجہ غریب نواز کے فیض صحبت سے کمال کو پہنچے اور تمام چیزوں سے بے ن یاز ہوکر خرقۂ خلافت حاسل کیا۔ ک ہتے ہیں کہ اب وہ ہر شب جمعہ حضرت خواجہ غریب نواز کے روضہ اقدس کی زیارت کے لیے آتے ہیں جب رائے پتھور شادی اور اجیپال سے نا امید ہوگیا تو مایوس ہوکر اس نے خیال کیا کہ کسی طرح حضر خواجہ غریب نواز کے خادموں کو نقصان پہنچائے۔ لیکن ج ونہی دل میں آتا تھا وہ یکا یک نابینا ہوجا جاتا تھا اور جب توبہ کرتا تھا تو بینا ہوجاتا تھا۔ لیکن یہ کرامات دیکھ کر بھی کفر کی ظلمت س کے دل سے دور نہیں ہوتی تھی۔
رائے پتھورا کا زندہ گرفتار ہونا
العرض جب کفر خوار و پیشمان ہوکر اپنے گھروں کو چلے گئے تو شادی دیو اور اجیپال حضرت خواجۂ بزرگ کو عرض کر کے شہر اجمیر کے اندر لے آئے اور آپ نے اپنی رہائش کےلیے شادی دیو کا مکان پسند فرمایا۔ یہی وہ جگہ ہے۔ جہاں اب روضہ اقدس ہے۔ سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز کا ایک مرید رائے پتھورا کا ملازم تھا۔ جسے اس نے تنگ کرنا شروع کردیا جب اس نے اس بات کی شکایت حضرت خواجہ بزرگ سے کی تو آپ نے راجہ کے پاس ایک اڈمی بھیج کر کہلا بھیجا کہ اس پر ظلم مت کرو۔ لیکن راجہ نے غرور سے جواب دیا کہ یہ کون آدمی ہے۔ کہ یہاں بیٹھ کر بزرگی کی باتیں کرتا ہے۔ جب قاصد نے جاکر یہ بات حضرت اقدس کو بتائی تو آپ نے فرمایا کہ رائے پتھورا کو ہم نے زندہ گرفتار کر کے لشکر اسلام کے حوالہ کیا ہے۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد سلطان معز الدین محمد غوری نے غزنوی کی طرف سے ہندوستان پر حملہ کردیا۔ رائے پتھورا نے اس کا مقابلہ کیا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت سے زندہ گرفتار ہوکر سلطان معزالدین کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے اُسے قتل کردیا۔ اور اُسی دن سےہندوستان میں اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں اور کفر اور فساد کی بنیاد ختم ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت خواجۂ بزرگ کی برکت سے ہندوستان پر کسی ہندو کی حکومت قائم نہ ہوسکی۔
[1] ۔ماحئ بمعنی مٹانے والے۔
[2] ۔رَبِّ ھَبْ لِیْ آیۂ قرآن ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے میرے رب مجھے عطا فرما۔ مالک ممالک رَبّ ھَبْ لِیْ سے مراد یہ ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز کا تصرف وسیع ہے۔
[3] ۔کاسر بمعنی توڑنے والا۔
[4] ۔ناصب بمعنی نصب کرنے والا۔
[5] ۔قرآن مجید میں جہاں چھوٹے چھوٹے شہروں اور بستیوں میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کا زکر آیا ہندوستان جیسے بڑے ملک میں کسی نبی کے آنے کی خبر موصول نہیں ہوئی۔ صرف اس قدر مجمل ذکر آیا ہے کہ لِکُلِّ قومٍ ھَادٍ، مصنف نے یہ بھی فرمایا ہے۔ کہ احادیث میں بھی کوئی ایسی خبر نہیں آئی۔
[6] ۔انیس الارواح کا اردو ترجمہ پاکستان میں عام ملتا ہے۔
[7] ۔فوائد الفواد حضرت محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کے اُن ملفوظات کا مجمودہ ہے جو امیر خسرو کے دوت اور حجرت سلطان المشائخ کے مرید حضرت خواجہ حسن علا رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیے ہیں۔
[8] ۔فوائد الفواد حضرت محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کے اُن ملفوظات کا مجمودہ ہے جو امیر خسرو کے دوت اور حجرت سلطان المشائخ کے مرید حضرت خواجہ حسن علا رحمۃ اللہ علیہ نے جمع کیے ہیں۔
[9] ۔کیونکہ آنحضرتﷺ نے بھی جنگ بدر اور حنین میں کفار پر مٹی پھینک کر انہیں منہدم فرمایا تھا۔ اس واقعہ کو قرآن حکیم میں یوں یاد فرمایا گیا ہے۔ مارَمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ۔
(اقتباس الانوار)
----------------------
خواجہ معین الحق والدین حسن حسنی سنجری چشتی اجمیری: اپنے وقت کے قطب الاقطاب امام طریقت صاحب ریاضت و مجامدہ حنفی المذہب شیخ عثمان ہارونی کے مرید خلیفہ تھے،ہندوستان میں دین اسلام آپ ہی کے طفیل سے مشہور و منتشر ہوا۔شیخ نجم الدین کبریٰ اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور شیخ شہاب الدین سہروردی قدس اسرارہم کے مصاحب رہے،چند مرتبہ دہلی میں تشریف لائے مگر اقامت دار الخیر اجمیر اختیار فرمائی۔ہزار ہاکفار آپ کی برکت سے مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہند میں آج تک آپ کا سلسلہ اور فیض جاری ہے۔آپ کے خاندان میں بڑے بڑے اولیائے کرام و مشائخ کبار مثل خواجہ قطب الدین بختیاراوشی اور شیخ فرید الدین شکر گنج نظام الدین اولیاء و خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی و مولانا فخرالدین رحمہم اللہ تعالیٰ جن کی کرامات و ریاضات اظہر من الشمس و ابین من الامس ہیں،ہوئے ہیں۔وفات آپ کی ۶۳۳ھ یا ۵۶۳ھ یا ۶۳۱ھ میں ہوئی اور اجمیر میں دفن کیے گئے۔مزار آپ کا زیارت گاہ اہل جہاں ہے۔تاریخ وفات آپ کی’’زبدۃ الصالحین‘‘ ہے۔
(حدائق الحنفیہ)
----------------------
شیوخ طریقت کے شیخ، حقیقت کے اصل الاصول، اسرار الٰہی کے حامل، اوصاف صحو کے ساتھ صاحی، انبیاء مرسلین کے وارث، رسول خدا کے ہند میں نائب حضرت معین الحق والدین خواجہ معین الدین حسن سنجری قدس سرہ العزیز ہیں جو تمام اوصاف مشائخ کو جامع اور انواع کرامات اور علو درجات میں پہلے درجہ کی شہرت رکھتے تھے۔ یہ بادشاہ اہل اسلام خواجہ عثمان ہارونی کے ممتاز و معزز خلیفہ تھے۔ منقول ہے کہ شیخ اہل اسلام معین الدین قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ جب میں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں پہنچا اور اس مقدس نفس بزرگ کی شرف ارادت سے مشرف و ممتاز ہوا تو کامل بیس سال تک خدمت اقدس میں ملازم رہا اور اس درجہ خدمت کی کہ ایک دم نفس کو آپ کی خدمت سے راحت نہ دی۔ حالت سفر میں تو حضرمین تو خواجہ کا بستر اور اوڑھنا بچھونا اپنے سر پر رکھتا تھا جب میری خدمت کا رسوخ جو کمال عقیدت مندی اور اعتقاد پر مبنی تھا خواجہ نے ملاحظہ فرمایا تو اس وقت وہ نعمت جو خواجہ کے کمال کو مقتضی تھی مجھے بخشش فرمادی خواجہ معین الدین فرمایا کرتے تھے کہ حق تعالیٰ کے پہچاننے کی علامت یہ ہے کہ بندہ مخلوق سے ہمیشہ بھاگتا رہے اور معرفت میں سدا خاموش رہے۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جب ان جسمانی تعلقات سے باہر قدم رکھ کر نگاہ کرتے ہیں تو عاشق اور معشوق اور عشق کو ایک چیز پاتے ہیں یعنی عالم توحید میں یہ تینوں باتیں ایک ہیں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ حاجی لوگ قالب اور جسم سے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں لیکن عارف لوگ دل سے عرش و حجاز کے گرد گھومتے اور لقاء الٰہی چاہتے ہیں۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک مدت تک تو خانہ کعبہ کا طواف کیا لیکن اب خود خانۂ کعبہ میرا طواف کرتا ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا حکیمانہ قول ہے کہ مرید فقر کے نام کا اس وقت مستحق ہوتا ہے جب کہ عالم فانی میں بقا کی دولت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ مرید کب ثبات و استقلال کے ساتھ موصوف ہوتا ہے فرمایا جب کہ فرشتہ کامل بیس سال تک اس کے دفتر اعمال میں کوئی گناہ نہ لکھ سکے آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ اہل محبت کا نشان ہمیشہ خدا کی اطاعت و بندگی پر سر تسلیم خم کرنا اور اس بات سے درتے رہنا ہے کہ مباداہم دربار خدا وندی سے ذلت کے ساتھ نہ نکال دئیے جائیں۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ بدبختی اور شقاوت کی علامت معصیت میں آلودہ رہنا اور اسبات کا امید وار ہونا ہے کہ میں خداوندی دربار میں نظر قبول سے دیکھا جاؤں گا۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تے کہ قیامت کے دن حق تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ دوزخ کو سلگاؤ جب وہ سلگانا شروع کردیں گے تو دوزخ ایک ایسا سانس لے گا جس سے تمام میدان محشر غبار آلود اور دھواں دہار ہوجائے گا لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا اور سخت مصیبت کا سامانا کرنا پڑے گا۔ جو شخص اس روز کی مصیبت سے محفوظ رہنا چاہے وہ خدا کی ایسی بندگی بجالائے جو اس کے نزدیک تمام طاعتوں سے بہتر و افضل ہو حاضرین نے دریافت کیا کہ حضرت! وہ کونسی طاعت ہے فرمایا مظلوموں اور عاجزوں کی فریاد کو پوچھنا ضعیفوں اور بیچاروں کی حاجت روائی کرنا۔ بھوکوں کا پیٹ بھرنا اور فرماتے تھے جس شخص میں ذیل کی تین خصلتیں جمع ہوجائیں گی تو یوں سمجھنا چاہیے کہ حقیقت میں خدا اسے دوست رکھتا ہے۔ ایک دریا جیسی سخاوت دوسرے آفتاب کی سی شفقت تیسرے زمین کی مانند تواضع۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ جس نے جو نعمت پائی سخاوت کی وجہ سے پائی اور گذشتہ لوگوں نے جو عزت و کرامت حاصل کی باطن کی صفائی سے حاصل کی۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ حقیقت میں متوکل وہ ہے جو اپنے رنج و محنت کو خلق سے وابستہ نہ جانے اور فرماتے تھے اس راہ میں دو چیزوں کی بدولت انسان کو قرار و استقامت نصیب ہوسکتی ہے۔ ادب عبودیت کی وجہ سے حق تعالیٰ کی تعظیم و توقیر کے باعث سے۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں حضرت شیخ معین الدین اجمیر میں تشریف لائے تو اس وقت رائے پتھورا ہندوستان کی حکومت کرتا تھا اور اجمیر میں اس کا تسلط خاص تھا۔ جب شیخ نے اجمیر میں سکونت اختیار کی تو خود پتھورا اور اس کے مقربوں کو آپ کا وہاں رہنا نہایت شاق و ناگوار گذرا اور جوں جوں آپ کا وہاں استحکام ہوتا جاتا تھا وہ دشواری اور مشکل میں پڑتا جاتا تھا لیکن چونکہ رات دن شیخ کی عظمت و کرامات آنکھوں سے دیکھتے تھے اس لیے دم مارنے کی گنجائش نہ تھی۔ غرضیکہ ایک مسلمان شریف جو شیخ معین الدین قدس سرہ کا دلی معتقد تھا پتھورا کے مقربوں کے سلسلہ میں داخل تھا پتھورا کا شیخ پر کچھ بس نہ چلا اس غریب مسلمان کو سخت مضرتیں اور تکلیفیں پہنچانے لگا اس نے مجبور ہوکر شیخ کی خدمت میں التجا کی آپ نے اس کے بارے میں رائے پتھورا سے نہایت نرمی کے لہجہ میں سفارش کی مگر مغرور پتھورا نے شیخ کے فرمان کی طرف ذرا التفات نہ کیا اور نخوت خیز لہجہ میں بولا کہ یہ شخص یہاں آیا ہے اور غیب کی شستہ باتیں بیان کرتا ہے۔ جب پتھورا کی یہ بیہودا باتیں شاہ اسلام خواجہ کے مبارک کان میں پہنچیں تو ایک بے اختیارانہ جوش کے ساتھ آپ کی زبان سے نکلا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ پکڑ کر لشکر اسلام کے حوالہ کردیا اسی زمانہ میں سلطان معز الدین فاتح ہند کا خونخوار لشکر غزنی سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ پتھورا نے لشکر اسلام کا مقابلہ کیا اور آخر کار سلطان فاتح ہند کے ہاتھوں زندہ گرفتار ہوگیا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے وہ کون سی کرامتیں اور بلند درجے ہیں جو اس سے زیادہ درجہ رکھتی ہیں کہ جس قدر بزرگ اس بادشاہ دین کی خدمت میں حاضر ہوئے بادشاہی کا مرتبہ پاکر اٹھے جنہوں نے ہزار ہا بندگانِ خدا کی دستگیری کی اور انہیں دنیا کے غرور اور فریب سے باہر نکالا اور آخرت کی خوشی و شاد مانی سے بھری ہوئی منزل میں جگہ دی۔ قیامت تک ان شاہانِ دین کی عظمت و جبروت کے غلغلہ کا نقارہ فلک و ملک کے گوش ہوش میں بچے گا اور تمام کثیر التعداد مخلوق ان کی محبت و الفت کی وجہ سے مقعدِ صدق میں جگہ پائے گی۔ حضرت شیخ معین الدین حسن سنجری کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ ہندوستان کے تمام مشرق حصوں میں کفر و کافری کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور بت پرستی کی طوفا ن خیز آندھی مغرب سے لے کر مشرق تک کے تمام ملکوں پر بڑے زور و شور سے چل رہی تھی ہندوستان کے متمر دوسر کشوں میں سے ایک ایک ناہنجار ’’انا ربکم الاعلی‘‘ کا مدعی تھا اور شرک و بت پرستی کے ڈنکے ہر طرف بج رہے تھے۔ خداے واحد یکتا کے ساتھ کھلم کھلا شرک کیا جاتا تھا۔ اور پتھر مٹی کے ڈھیلوں، گہر، درخت، گائے، بیل، گوبر، کو برابر تعظیمی سجدے ہو رہے تھے۔ کفر کی تاریکی کے مضبوط مستحکم قفل دلوں پر جڑے ہوئے تھے تمام لوگ جہل و کفر کے تاریک گڑھوں میں گرے ہوئے تھے۔
ھمہ غافل از حکم دین و شریعت |
|
ھمہ بے خبرا ز خدا و پیمبر |
|
(سب کے سب دین شریعت کے حکم سے غافل اور خدا اور پیغمبر کے حکم سے بے خبر تھے۔ کسی آنکھ نے کبھی قبلہ کو نہ دیکھا اور نہ اللہ اکبر کی آواز کسی کان نے سنی تھی)
یہ اسی آفتاب اہل یقین کا چمکارہ تھا جو حقیقت میں دین و مذہب کا مدگار و معاون تھا کہ ہندوستانی بلاد نورِ اسلام سے منور اور روشن ہوگئے۔
از تیغ او بجاے صلیب و کلیسا |
|
دردارِ کفر مسجدو محراب و ممبر است |
|
(اس کی تیغ اسلام سے صلیب و گرجا کی جگہ بلاد کفر میں مسجد اور محراب اور منبر نے جگہ پائی۔اور جہاں مشرکوں کے نعرہ و فریاد کا شور تھا اب اللہ اکبر نے غلغلہ پیدا کیا)
جو شخص ان شہروں میں اسلام کے شرف سے ممتاز و معزز ہوا ان کی اولاد بھی نسلاً بعد نسل قیامت کے زمانہ تک مسلمان رہے گی اور جن لوگوں کو تیغِ اسلام کی بدولت دارِ حرب سے نکال کر دیارِ اسلام میں لایا جائے گا ان سب کے ثواب قیامت تک شیخ الاسلام کے دفترِ اعمال میں درج ہوں گے اور جو لوگ آپ کی متابعت کریں گے وہ اس متابعت کی وجہ سے آپ کے باجاہ و جلال دربار میں ہمیشہ آپ سے واصل متوصل رہیں گے۔ منقول ہے کہ جس شب کو شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری قدس سرہ انتقال کرنے کو تھے اس رات کو چند بزرگوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فر ما رہے ہیں۔ خدا کا دوست معین الدین سنجری آنے کو ہے اس لیے ہم اس کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔ جب خواجہ نے انتقال کیا تو آپ کی پیشانی مبارک پر لوگوں نے یہ الفاظ لکھے دیکھے حبیب اللہ مات فی حب اللہ۔ یعنی خدا کے دوست نے خدا کی محبت میں انتقال کیا۔ خواجہ کا انتقال اجمیر میں ہی ہوا اور وہیں آپ کا روضہ مبارک ہے۔ اس بزرگ کے مزار کی خاک پاک درد مندوں کے دلوں کی دوا ہے خدا تعالیٰ تمام لوگوں کو اس کی سعادتِ زیارت سے بہرہ مند کرے آمین۔