حضرت ابو المکارم رکن الدین علاؤو الدولہ

حضرت ابو المکارم رکن الدین علاؤو الدولہ  احمدؑ بن محمد البیا بانکی السمنانی علیہ الرحمۃ

        آپ دراصل سمنان کے بادشاہوں میں سے ہے۔پندرہ سال کے بعد سلطان وقت کی خدمت میں مشغول ہوئے۔ایک لڑائی میں جبکہ سلطان کو دشمن سے مقابلہ پڑا۔ان کو جذبہ ہوگیااس کے بعد۶۸۷ہجری میں بغداد جا کر شیخ نور الدین عبدالرحمٰن کسرقی کی خدمت میں پہنچے ۔جبکہ وہ عرب سے واپس تشریف لائے تھے۔اور ۶۸۹ھ میں ارشاد کی اجازت مل گئی۔اور ۷۲۰ھ کے بعد سکا کیہ خانقاہ میں سولہ سال میں ایک سو چالیس چلے نکالے۔کہتے ہیں کہ باقی عمر میں ایک سو تیس چلہ اور نکالے،اور آپ کی عمر ۷۷ سال کو پہنچی تو شب جمعہ دوسری  رجب۷۳۶ھ میں برج احرار صوفی آباد میں خدا کی رحمت میں ملے،اور قطب زمان عماد الدین عبدالوہاب کی خانقاہ میں دفن ہوئے۔ایک چوہان بادشاہ نے شیخ کے پاس ہرن بھیجا اور سلام کہلا بھیجا۔عاجزی کی کہ گوشت شکار کا ہے تناول فرمائیے۔حلال ہے۔شیخ کہتے ہیں کہ مجھ کو اس وقت امیر نوروز کی حکایت یاد آئی جبکہ وہ خراساں میں تھااور مشہد طوس کی زیارت کو گیا تھا۔اس نے سنا اور پنجاہ سوار کے ساتھ میرے پیچھے آیا اور کہا میں چاہتا ہوں کہ جب تک آپ خراسا ن میں رہیں۔میں آپ کے ساتھرہوں۔چند دن تک اسکی مصاحبت کا اتفاق پڑا۔ایک دن آیا اور دو خرگوش لایا۔کہا کہ میں نے تو کھایا ہے تم بھی کھاؤ۔میں نے کہا، یہ خرگوش کا گوشت ہے۔خواہ کسی نے مارا ہے۔میں نہ کھاؤں گا۔ کہا کیوں؟ میں نے کہا امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق حرام ہے"اور جب بزرگوں میں سے ایک نے اس کو حرام جانا ہےتو نہ کھانا اس کا بہتر ہے۔چلاگیا۔دوسرے دن ہرن لایا او یہ کہا کہ اس ہرن کو میں نے شکار کیا ہے۔ایسے تیر کے ساتھ کہ جس کو میں نے خود تراشاہے۔میں اس گھوڑےپر  بیٹھا ہوا تھا کہ جو بشت غارت سے پہلے ہم کو ملاہے۔میں نےکہا کہ یہ وہی حکایت مولانا جلال الدین درکرینی کی ہے کہ ایک مغلی سردار جو ہمدان کے اطراف میں رہتا تھااور ان کے ساتھ عقیدت کا دعوٰی رکھتا تھا۔ایک دن ان کی خدمت میں آیا،دو مرغابیاں لایا"اور ان کے سامنے رکھ دیں اور کہا کہ ان کو میرے باز نے پکڑا ہے"اور حلال ہے۔مولانا کھائیں۔مولانا نے فرمایا "کہ مرغابی میں کلام نہیں ہے۔ اس میں کلام ہے کہ تیرے باز نے کل تک کسی  بڑھیا عورت کی مرغی کھائی ہے۔کہ آج اس کو اس مرغی کے پکڑنے کی طاقت آگئی ہے۔اٹھا اور لی جا یہ تمہارے لائق ہے۔تمہارے گھوڑے نےکل تک کسی مظلوم کے جو کہائے ہیں کہ اس کو دوڑنے کی قوت آگئی کہ تو اس کی پیٹھ پر ہرن ما رسکتا ہے مجھ کو اس کا کھاناجائزنہیں۔

القصہ ہر چند  کہا"مگر اس کا گوشت میں نے نہ کھایا"لیکن میں نے درویشوں سے کہا کہ تم کھالو شاید کہ عجزو نیاز سے لایاہےتو اس کی نیاز مندی کی وجہ سے اس کا کام نکل آئے۔ایک درویش نے شیخ سے سوال کیا کہ جب اس بدن کو خاک میں سمجھ نہیں اورجو بدن  کہ روح سے فائدہ حاصل کرتا تھا اس سے جدا ہوگیا ہے اور عالم  ارواح میں تو کوئی ہردہ نہیں پھر کیا ضرورت ہے کہ قبر پر جایا جاوے"کیونکہ جہاں کسی بزرگ کی روح سے توجہ کی جائے گی۔تو ویسی ہی ہو گی جو اس کے مزار پر ہوگی۔شیخ نے فرمایا کہ وہاں جانے میں بہت سے فائدے ہیں۔ایک تو یہ کہ جب کسی بزرگ  کی زیارت کو جاتاہے۔جس قدر کہ چلے گااسی قدر  اس کی توجہ  زیادہ ہوگی"اور جب اس کی قبر پر پہنچے گا"اور اس کو اپنی آنکھوں سےدیکھے گا"تو اس کی حس بھی اس کی طرف مشغول اور پورے  طور پر متوجہ  ہو جا ئے گی اور بڑا فائدہ ہوتا"دوم یہ کہ ہر چند ارواح کو حجاب نہیں ہے اور ان کو تمام جہان یکساں ہے۔لیکن جس  بدن میں کہ ستر سال تک اس سے ملی رہے اور اس کا بدن  جو کہ حشر کے بعد ابدالاباو تک رہے گا۔وہیں ہوتا ہے۔اس لیے اس جگہ پر یہ نسبت اور جگہ کے اس کی نظر اور اس کا تعلق  بڑھ کر ہو گا۔اس کے بعد حکایت کی کہ ایک دفعہ میں حضرت جنید علیہ الرحمۃ کی خلوت میں تھا۔ان کی خلوت میں بڑا مزہ آتا تھا۔کیونکہ کہ وہ جنید علیہ الرحمۃ کی خلوت تھی۔باہر نکلا اور ان کے مزار پر گیا۔تو وہاں مجھے وہ مزا نہ آیا۔اس مطلب کو میں نے شیخ علیہ الرحمۃ  کی خدمت میں عرض کیا۔فرمایا" کہ وہ ذوق تم نے جنیدؒ کے سبب پایا تھا یا نہیں۔میں نے کہا"بیشک۔پھر کہا"ظاہر  ہے کہ وہ اپنی عمر  میں چند دفعہ  وہاں رہے تھے۔جبکہ یہاں ذوق حاصل ہوتا ہے تو چاہیے کہ  ایسے بدن میں جو کئی سال تک اس کے ساتھ وہ رہے ہیں۔زیادہ مزا حاصل ہو۔لیکن ایسا نہ چاہیے کہ قبر کی طرف دیکھنے میں مشغول رہےاور توجہ میں قصور ہوجائے۔آخر جس فرقہ  مین اہل دل پوشیدہ ہوتے ہیں۔اس کا ذوق مشاہد کر سکتے ہیں۔بدن تو خرقہ سے زیادہ نزدیک ہے۔زیارت کے بڑے فائدے ہیں۔جو شخص یہاں پر توجہ کرے۔وہ رسول اللہ ﷺ کی روحانیت اس کے سرف اور رنج راہ سے باخبر ہوتی ہے اور جب وہاں جاتا ہےاور اپنی آنکھوں سے آنحضرتﷺ کے پاک روضہ کو دیکھتا ہے اور پورے طور پر متوجہ  ہوتا ہے"تو اس فائدہ سے کیا نسبت اہل مشاہد کو یہ مطلب ثابت ہے۔

آپ نے فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام اس لیے آئے ہیں کہ وہ آنکھیں کھولیں اپنے عیب اور خدا کے کمال پر اپنے عجز اور خدا کی قدرت پر"اپنے ظلم اور خدا کے عدل پر"اپنے جہل اور خدا کے علم پر" اپنی ذات اور خدا کی عزتپر" اپنی بندگی اور خدا کی مالکی پر"اپنے فقر خدا کے غنا پر"اپنی تقصیر اور خدا کی نعمتوں پر"اپنے فنا اور خدا کے بقا پر علے ہذا القیاس۔شیخ اس لیے بھی ہے کہ مریدوں کی آنکھیں  اس مطلب کے لیے کھولے۔پس جس قدر مرید اپنے اثبات و کمال میں زیادہ سعی کرے یا عمل کرے۔تاکہ اس کا کمال ظاہر ہو۔شیخ اس سے زیادہ رنجیدہ ہوتا ہے۔کیونکہ شیخ یہ سب اسی کےلیے  کھینچتاہے۔تا کہ اس کے کمال دیکھنے والے نفس کی آنکھ کو سی دےاور جو آنکھ کو خدا کا کمال دیکھے کھولے اور وہ ہر لحظہ اپنے کمال  میں دوسری آنکھ کھولے۔پھر شیخ کے رنج کے ضائع ہونے میں سعی کرتا ہے۔اپنے حق میں درویش کو چاہیئے کہ نفس کے گھات میں لگا رہے۔تاکہ جو آنکھ کہ اپنے کمال میں کھولے اسی وقت اس کو بند کر دے۔اگر ایسا نہ کرے گا تواس کو معلوم ہو جائے گا کہ نفس ہر بال کے سرے سے اپنے کمال کے دیکھنے کی آنکھ کھولے گااور خدا کے دیکھنے سے اندھی کردے گا"کیونکہ نفس کی خاصیت یہی ہے۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ عجیب قسم کے اعتقاد رکھتے ہیں۔ضرور کہتے ہیں درویش کو چاہیئے کہ گداو محتاج ہو۔یہ نہیں جانتے کہ خدا تعالٰی نے بھی کسی مرشد کو مخلوق کا محتاج نہیں رکھااور ایسا کیوں ہو کہ خدا کے بندے خدا کے سوا کسی کے محتاج رہیں۔آخر اس دنیا کو باوجود اس نعمت  کے انہیں کی برکت سے قائم رکھتا ہے۔بلکہ پیدائش سے مقصود ہی  یہی لوگ ہیں۔ کیاشیخ مجدالدین بغدادی قدس اللہ روحہ کی خانقاہ کا ایک سالانہ خرچ خوراک ۲ لاکھ دینار زر سرخ نہ تھا"اور میں حساب کرتاکہ پانچ لاکھ دینار کی جائداد خرید کر کے ان صوفیوں پر میں نے وقف کی ہے۔جو ہمارے طریقہ  پر ہوں۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حق تعالٰی نے اس زمین اور مزارعہ کو حکمت سے پیدا کیا ہے وہ چاہتا ہے کہ آباد ہو اور ولوگوں کو فائدہ پہنچے۔اگر لوگ جانیں  کہ دنیا کہ آبادی سے کہ فائدہ اور آمدنی کے لیے کریں۔اس میں اسراف نہ ہو۔کسی قدر ثواب ہے تو ہر گز آبادی کو ترک نہ کریں،اور جان لیں کہ آبادی کے ترک کرنے اور زمین کو بیکار چھوڑنے میں کس قدر گناہ ہے۔تو کبھی نہ چھوڑیں کہ اس کا اسباب خراب ہوجائے۔ہر شخص اس قدر زمین رکھتا ہے کہ اس سے ہر سال ہزار من غلہ حاصل ہو سکتا ہے۔اگر قصور اور سستی سے ۹۰۰من حاصل کرے،اور اس کے سبب سے سو من غلہ لوگوں کے حلق سے دور رہے۔تو اس سے اس قدر نقصان کی بابت گرفت ہوگی۔ہاں اگر کسی کا یہ حال ہو کہ دنیا اور اس کی آبادی کی طرف مشغول ہی نہ ہو۔تو اس کا وقت خوش رہے گا۔اور اگر سستی کی وجہ سے زمین کی آبادی کو چھوڑ دے،اور اس کا نام ترک دنیا اور زاہد رکھے تو شیطان کی مطالبعت کے سوااور کچھ نہیں۔کوئی شخص نکمّے آدمی سے بڑھ کر دنیا اور آخرت میں کم درجہ کا نہیں۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو شخص ولایت کے مرتبہ تک پہنچے ۔ممکن نہیں۔کہ خدائے تعالی اس کے سر پر پرہ نہ ڈالے۔اس کو لوگوں کی آنکھوں سے نہ چھپائے ۔اس عبارت کا یہی معنی ہےاولیائی تحت قبائی یعنی میرے اولیا ء میرے قبا کے نیچے ہیں۔یہ قبا بشریت کی صفت ہے نہ کپڑے وغیرہ کا پردہ اور صفات یہ ہیں۔کہ اس میں عیب ظاہر کرےیا اس کے ہنر کو لوگوں کی آنکھوں میں عیب دکھائیں۔اور لا یعر فھم غیریکا یہ معنی ہے کہ جب تک ارادت کے نور کے ساتھ کسی کی آنکھیں روشن نہ کریں۔تب تک اس ولی کو نہ پہچانتا۔پس وہ نور اس کو پہچانتا ہے،نہ وہ شخص۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو درویش لوگ کام میں مشغول ہیں۔ان کا چاہیے کہ بیکاری ان میں نہ آنے پائے۔کیونکہ ایک بیکار شخص سو کام کرنے والے مردوں کو کام سے باز رکھتا ہے۔

                   عدوی علبلید الی الجلید سریعۃ        والجمر یوضع فی الرماد فیخمد

    کند ذہن کا غلبہ تیز رو میں جلدی ہوتا ہے ۔دیکھو آگ راہ میں رکھی جائےتو بجھ جایا کرتی ہے۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں۔چاہیے کہ درویش سعی کریں کہ کھانا کھانے کے وقت  اچھی طرح حاضر رہیں۔کیونکہ اعمال کا تخم انسانی قلب کی زمین میں ایک لقمہ ہے۔جب غفلت سے بیچ ڈالیں گےتو ممکن نہیں۔جمعیت خاطر حاصل ہو سکے۔اگرچہ لقمہ حلال کیوں نہ ہو ۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ حکیم ترمذی اور مغربیوں کی ایک جماعت یہ کہتی ہے: بدایہ الا ولیاء نھا یۃ الا نبیایعنی انبیاء کی نہایت اولیاء کی ابتدا ہوتی ہے ۔میں ایک روز بغداد میں شیخ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں تھا۔آپ نے فرمایا،جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک عذر ہے ان لوگوں کا اس مقولہ سے یہ مطلب ہے بدایۃ الاولیاء نھایۃ الانبیاء فی الشریعۃونھایۃ الاولیاء بدایۃ الانبیاء فی الطریقۃ۔یعنی شریعت میں اولیاء کی ابتداء اور انبیا ء کی انتہا ہوتی ہے اور طریقت میں اولیا ء کی نہایت انبیاء کی ابتداء ہوتی ہے کیونکہ جب شریعت کا کمال نبی کے آخر کام میں تمام ہوچکا الیوم اکملت لکم دینکم ۔یعنی آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور ولی جب تک شریعت کو پورے طور پر نہ پکڑے ولایت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔پس جو کچھ کہ نبی کو احکام شرع میں انتہاء میں کام ہوتا ہے۔وہ ولی کو ابتداء میں پڑتا ہے۔اس لیے کہ جو شخص ان  احکام پر چلے جو کہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئےتھے۔اور ان احکام کی آخر عمر میں مدینہ منورہ میں داخل ہوئےپروانہ کرے۔تو ہر گز ولی نہیں ہو سکتا۔بلکہ اگر انکار کرے تو کافر ہوجائے گا۔پس ابتدائے ولایت یہ ہے کہ تمام احکام شرع کو پورے طور پر قبول کرے،اور ان کی اتباع کرے۔لیکن طریقت یہ ہے کہ ہر چند ولی سعی کرے اور اس کا مرتبہ عالی ہو۔اس کے روح کو وہ معراج جو نبیؑ کو سے مشابہت کرلی تھی۔تو اب طریقت میں نہایت اولیاء بدایت انبیاء ہوئی۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہ الاسلام عمداً گناہ ہونے سے معصوم ہیں،اور اولیا ء گناہ کی ذلت سے محفوظ ۔آنحضرت مصطفیؑ سے مروی ہے :ان تغفر اللھم فا غفر جماوای عبدلک لا الما۔یعنی اے پروردگار اگر بخشتے ہو تو سب کو بخشو ۔کیونکہ تیرا کونسا بندہ ہے ۔جو گناہگار نہ ہو۔اس عاجز کے نزدیک اس بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں کہ بندہ اپنے آپ کو مجرم اور قصور وار نہ جانے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء