حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار
حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار علیہ الرحمۃ العزیز
آپ کا نام محمد بن محمد البخاری ہے ۔ ٓپ حضرت خواجہ رحمتہ اللی علیہ کے بڑے خلیفہ ہیں ۔حضرت خواجہ نے اپنی زندگی میں بہت سے طالبین کی تربیت سپرد کی تھی اور فرماتے تھے کہ علاؤ الدین نے ہمارا بوجھ بہت کم کردیا ہے۔اس لیے ولایت کے انوار اور آثار پورے کاہل طور پر ان پر ظاہر ہوئے ہیںاور ان کی اسی صحبت وحسن تربیت سےطالبین دوری و نقصان کے مرتبہ سے قریب و کمال کی درگاہ تک پہنچ گئے۔تکمیل اور اکمال کا درجہ حاصل کیا۔اس فقیر نے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ پیشوائے علماء محققین اور کبریٰ مدققین کے مقتدا بڑے بڑے تصانیف و تحقیقات کے صاحب سید شریف جرجانی ؒ جنہوں نے آپ کہ اصحاب کے رشتہ میں داخل ہونے کی توفیق پائی تھی اور حضرت کے خادموں اور ملازموں سے بہت سانیاز و اخلاص رکھتے تھے۔بارہا کہا کرتے تھےکہ جب تک میں شیخ زین الدین علی کلالؒ کی صحبت میں نہیں پہنچا تھا۔رفض سے خلاصی نہ پائی تھی۔اور جب تک خواجہ عطار علیہ الرحمۃ سے نہ ملا تھاخدا تک نہ پہنچا تھا۔بعض پاک کلمات کے مجلس میں صحبت فرماتے تھے۔حضرت خواجہ محمد پارسا نے لکھے ہیں۔کچھ ان میں سے تبرک اور ہدایت کے طور پر لکھے جاتے ہیں۔خدا کی پہلی مہربانی کو دیکھنا چاہیے اور اس بے وجہ مہربانی کی امیدواری اور اس عنایت کی طلب سے ایک لحظہ غافل نہ رہنا چاہیے ۔استغنا سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔حق سبحانہ توالی کو بزرگ سمجھنا چاہیے۔ڈرتا اور کانپتا رہے۔استغنا حقیقی کے ظہور سے خاموش رہنا چاہیے۔تین صفت سے خالی نہ رہنا چاہیے ہا خطرات کی نگہداشت کرے یا ذکروں کا مطالعہ کہ گویا کشتہ ہوجائےیا ان کے حالات کا مشاہدہ جو دل پر گزریں۔جو خطرات کا مانع نہ ہو۔ان سے احتراز مشکل ہے۔اختیر طبعی کے جس کی نفی میں ہم بیس سال تک لگے رہے۔اتفاقاً خطرہ کی نسبت گزرالیکن اسکو قرار نہ ہوا۔خطروں کو روکنا بڑا کام ہے۔بعض یہ کہتے ہیں کہ خطروں کا کچھ اعتبار نہیںلیکن ان کو چھوڑنا چاہیے کہ کہین جم نہ جائیں کیونکہ ان کے جم جانے سے فیض کی راہوں میں سدھ پڑھ جائے گا۔اس لیے ہمیشہ باطن کے حالات کا متلاشی رہےاور مرشد کے امر سے اپنے آپ کو سانس لینے سے روکنا ظاہر اس لیے ہے کہ حضور یا غائب میں ان خطرات کی نفی ہوجائےجو باطن میں قرار پا چکے ہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ہر معنی صورت کے لباس میں ہوا کرتا ہے تو ہر وقت اپنے آپ کو سانس لینے کے ساتھ ان خطرات سے کہ جوروکنے والے ہیں اورقرار پا چکے ہیں خالی کرنا چاہیے۔اپنے میں جانا اور اپنے سے جاناہے۔معتبر قاعدہ اس راہ میں یہی ہے اور اس بات کی علامت کہ اپنے میں جانا اور اپنے سے جانا یہ ہے کہ اپنے آپ سے غائب ہوجائے۔حق سحانہ کی حضوری عشق کے اندازہ پر ہوتی ہے ۔عشق کا نتیجہ کثرت سے محبت ہے جس کا عشق زیادہ ہےاس کا اپنے سے غائب ہونا بہت ہوگااور معشوق سے حضوری زیادہ ہوگی۔جم ملک اور ملکوت طامب پر پوشیدہ ہوجائیں اور بھول جائیں تب فانا ہوتا ہےاور جب سالک کی ھستی بھی سالک پر پوشیدہ ہوجائےتو فنا بر فنا ہوجائے گا۔ہر نماز کے پانچ دفعہ اور بعد علم کے ذکر کے بیس دفعہ کلمہ استغفار کہنا سعی و توجہ میں مدد ہے کہ کی جاتی ہےصیقل آئینہ پر چاہیے نہ یہ کہ آئینہ کے دستہ پر یا اس کے پہلو یا پشت پر کیونکہ اس میں فائدہ نہیں۔اس زمانہ میں جو لوگ خفیہ ذکر میں مشغول ہیں۔یہ معدہ سے کہتے ہیںنہ دل سے۔بہت ذکر کرنا مقصود نہیں ہے۔ایک سانس میں تین دفعہ لا الہ الا اللہ دائیں طرف سے شروع کریں اوردل میں اتارےاور محمد رسولؑ اللہ بائیں طرف نکالےاور صبح سے پہلے اور شام کے بعد مخلوق سے خلوت میں فارغ ہوکر مجاہدہ کے بغیر نہ رہے۔شیخ عطار فرماتے ہیں:
صد ہزاراں قطرہ خوں از دل چکید تانشان خطرہ زاں نم یا فتم
یا تو ایک ہی سانس میں نو دفعہ کہے یا اٹھارہ دفعہ ۔اگر نتیجہ نہ دے تو پھر نئے سرے سے کہے اور مشائخ کبار روح اللہ اروا حھم کی زیارت کرے۔اسی قدر اسی بزرگ سے فائدہ لے سکتا ہے کہ جس قدر اس کو پہچانا ہوا ہے ۔ اسی طرح توجہ کرکے اور اسی صفت میں ہوکر کے زیارت کرے۔اگرچہ ظاہری قرب کو مشاہدہ مقدسہ کی زیارت میں بڑے آثار ہوتے ہیں لیکن در حقیقت روح مقدسہ کی توجہ کو ظاہری دوری مانع نہیں۔حدیث نبویؑ میں جو یہ وارد ہے صلو اعلی حیثما کنتم یعنی مج پر درود بھیجو جہاں کہیں تم ہو۔اس بات کی کھلی دلیل ہے ۔اہل قبور کی مثالیہ صورتوں کا مشاہدہ بمقابلہ ان کی صفات کے پہچانے کہ جو توجہ زیارت کی حالت میں ہوتی ہے۔کم معتبر ہے۔باوجود اس کے خواجہ بزرگ علیہ الرحمۃفرماتے تھے۔حق سبحانہ کا مجادر ہونا خلفت کی مجاوری سے زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے ۔یہ بیت اکثر آپکی زبان مبارک پر گزرتا تھا۔
اکابر دینؓ کے مشاہدہ کے کی زیارت سے یہ مقصود چاہیے کہ حق سبحانہ کی طرف توجہ ہواور اس برگزیدہ خدا کی روح کو خدا کی طرف پہنچنے کا کامل وسیلہ بنانا ہے۔چنانچہ لوگوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کی حالت میں گو کہ بظاہرمخلوق کی تواضع ہوتی ہے لیکن در حقیقت خدائے تعالی کی ہوتی ہےکیونکہ لوگوں کے ساتھ تواضع اس وقت اچھی ہوا کرتی ہے کہ خاص خدا کے لیے ہو۔اس لحاظ سے کہ ان کو خدا کے آثار قدرت حکمت کا مظاہرہ سمجھے ورنہ یہ بناوٹ ہوئی نہ تو اضع مراقب ہکا طریق نفی و اثبات کا طریقہ سے اعلیٰ و اقرب ہے۔مراقبہ کے طریق میں کوشش کرنے سے وزارت اور ملک ملکوت کے تصرف کرنے کے مرتبی تک پہنچ سکتے ہیں اور دلوں پر جھانکنا،مہربانی کی نگاہ سے دیکھنا باطن کو روشن کردینا ۔ہمیشہ کے مراقبہ کا کام ہے۔ہمیشہ مراقبہ کرنے سے تسلی خاطر اور دلوں کا ہمیشہ قبول کرنا حاصل ہوا کرتا ہے۔اس مطلب کو جمع قبول کہتے ہیں۔ہمارے بزرگوں رحمتہ اللہ علیہم سے علانیہ ذکر کی بابت پوچھا جاتا تھاتو فرماتے تھے کہ باتفاق ولما آخیر سانس میں بلند کہنا اور تلقین کرنا جائز ہے۔اور درویش کا ہر سانس آخری سانس ہے۔حضرت خواجہ علاؤ الدین علیہ الرحمۃ کی وفات بعد نماز عشا دبھ کی شب ۲۰رجب ۸۰۲ھ میں ہوئی۔
(نفحاتُ الاُنس)