حضرت شیخ نظام الدین خالدی معروف بہ شیخ نظام الدین اولیاء

حضرت شیخ نظام الدین خالدی معروف بہ شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمۃ

          آپ ہندوستان کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں۔آپ علوم دینی کی تحصیل و تکمیل کے بعد رات کو دہلی کی جامع مسجد میں رہتے تھے۔صبح کے وقت موذن کے منارہ پر چڑھ کر یہ آیت پڑھی،الم بات للذین تخشع قلوبھم لذکر اللہ یعنی کیا ایمانداروں کا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے ڈر جائیں۔جب یہ آیت آپ نے سنی تو آپ کا حال بدل گیااور ہر طرف ان ہر انوار برسنے شروع ہوئے۔جب صبح ہوئی تو بغیر سفر خرش وغیرہ کے شیخ فرید الدین شکر گنج کی خدمت میں جانے کو روانہ ہوگئے۔وہاں جا کر ان کے مرید ہوئےاور مرتبہ کمال تک پہنچے۔شیخ نے ان کو اوروں کی تکمیل کی اجازت دے کر دہلی کو واپس کردیا۔وہاں پر طالب علموں اور مریدوں کی تربیت میں مشغول ہوئے۔حسن و خسرو دہلوی ہر دو آپ کے مرید ہیں۔شیخ فرید الدین ؒ نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے خرقہ لیا اور انہوں نے خواجہ معین الدین حسن سنجریؒ سے اور انہوں نے خواجہ عثمان بارونیؒ اور انہوں نے حاجی شریف زندانی سے اور انہوں نےشیخ الاسلام قطب الدین مودود چشتی رحہم اللہ سے خرقہ حاصل کیا ۔کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک کاغذ جس پر بہت سا روپیہ لکھا ہوا تھا،کھو دیا۔وہ حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں آیااوراس کاغذ کے گم ہونے کا قصہ عرض کیا۔اس میں وہ بہت حیران مضطرب تھا۔شیخ نے ایک درم اس کو دیا اور اس کا حلوا خرید اور شیخ فرید الدینؒ کو بخش کر درویشوں کو کھلا دے۔جب اس شخص نے وہ درم حلوائی کو دیا اور حلوائی نے تھوڑا حلوا کاغذ میں لپیٹ کر اس کو دیا۔تب اس نے جو غور سے دیکھا تو اس کا وہی کاغذ گمشدہ تھا۔یہ قصہ اسی کے قریب ہے کہ ایک شخص نے سودینار کسی کے پاس رکھے تھے۔اس بارہ میں اس سے جھگڑا ہو گیا تھا۔جب مطالبہ کیا تو اس کے پاسوہ تمسک نہیں تھا۔وہ شخص شیخ بنان جمال کی خدمت میں آیا اور دعا التماس کی۔شیخ نےکہا"میں ایک بوڑھا مرد ہوں اور شیرینی کو دوست رکھتا ہوں جا اور ایک رطل(ادھ سیر) حلوا خرید لا کہ پھر دا کروں گا۔وہ مرد حلوا خرید لایا اور کاغذمیں لپیٹ کر شیخ کے پاس لایا۔شیخ نے کہا"کاغذ کھولو۔جب کھولا تو اس کا وہی تمسک تھا۔پھر شیخ نے کہا تمسک کو لےلے اور حلوا بھی لے جا۔خود کھا اور اپنے بچوں کو کھلا وہ دونوں کو لے گیا۔کہتے ہیں"ایک ملتانی سوداگر کو چوروں نےراہ میں لوٹ لیا۔اس کا مال لے گئے۔وہ شخص شیخ صدر الدین شیخ بہاؤ الدین زکریا کی خدمت میں جو سجادہ نشین تھے۔حاضر ہوا اور کہا کہ میں دہلی کا ارادہ رکھتا ہوں۔آپ شیخ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں سفارش لکھ دیں کہ آپ توجہ کریں کہ جس سے تجارت کا سامان ہوجائے۔شیخ صدر الدین نے اسکی التماس قبول کرکے ایک رقعہ دے دیا۔جب وہ دہلی پہنچا اور وہ رقعہ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کو دیا۔شیخ نے خادم کو آواز دی اور فرمایا کہ کل صبح سے لےکرچاشت کے وقت (۱۰بجے) تک جس قدر فتوح آمد ہو۔ہم نے اس مہمان عزیز کو دے دی"اس کے سپرد کردینا۔خادم نے دوسرے دن ان کو ایک جگہ بیٹھادیا او ر جو نظر آتی تھی"اس کو دیتا گیا۔دس بجے تک بارہ ہزار تنکہ حساب میں آیا۔وہ اٹھا کرلے گیا۔ایک دفعہ سلطان علاؤالدین محمد شاہ خلجی نے زروجواہر کی تھیلی بھری ہوئی شیخ کی نذر بھیجی۔ایک قلندر شیخ کے برابر بیٹھاتھا۔وہ آگے بڑھا اور کہا"اے ایہا الشیخ اللہ ھدایا مشترک یعنی اے شیخ ہدیہ مشترک ہواکرتاہے۔شیخ نے فرمایا"لیکن تنہا خوشترک قلندر پھر پیچھے ہٹ گیا۔شیخ نے فرمایا کہ آگے آؤ۔مقصود یہ تھا کہ تم  کو تنہا اچھا معلوم ہوتا ہے۔جب قلندر نے چاہا کہ تھیلی کو اٹھائے تو اس کو اٹھانے کی ہمت نہ پڑی۔شیخ کے خادم  کی مدد کا محتاج ہوا۔ایک دفعہ نیا وضو کیا تھا۔چاہا کہ ڈاڑھی میں کنگھا کریں۔کنگھی طاق میں تھی اور کوئی پاس نہ تھا کہ اس کنگھی کو شیخ کے ہاتھ میں دے۔کنگھی خود طاق سے کوری اور شیخ کے ہاتھ میں جا پہنچی۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء