حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر

حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ

سندھ کے مرجع خلائق عظیم صوفی بزرگ عثمان مروندی جو لعل شہباز قلندر کے نام سے مشہورہیں،حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے ہیں، آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے، عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین، بن سید نور شاہ بن سید محمود شاہ بن سید احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن امام محمد بن جعفر صادق رحمہ اللہ۔(لب تاریخ سندھ، مخط مملوکہ سندھی ادبی بورڈ،ص۹)

آپ ہرات(افغانستان کے قریہ مروند کے رہنے والے تھے مروند کو مہمند بھی کہتے ہیں، آپ کی پیدائش ۵۷۳ھ میں ہوئی مروند ہی میں تعلیم پائی، آپ نے ایک طویل عرصہ شیخ منصور کے صحبت اختیار کی اور حضرت بابا ابراہیم قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک سال کی ریاضتوں کے بعد شیخ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا کیا، متعددصوفیاء کرام سے کسب فیض کیا جن میں سر فہرست حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت مخدوم جہانیاں، حضرت جلال الدین بخاری اور شیخ صدر الدین عارف رحمہم اللہ۔(لب تاریخ سندھ، مخط۔۔۔۔ص۹)

آپ سیرو سیاحت کرتے ہوئے شیخ بو علی قلندر کی خدمت میں پہنچے انہوں نے فرمایا کہ ہندو میں تین سو قلند ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ سندھ جائیں، ان کےمشورہ پر آپ سیوستان تشریف لائے۔

چھ سال تک شیخ عثمان نے سیوستان اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں اسلام کا بول بالا کیا، بہت سے کافر ومشرک نور ایمان سے منور ہوئے اور بے شمار عصیاں شعار نیکو کار بن گئے، شیخ پر عمر کے آخری حصہ میں جذب و وجد کی کیفیت طاری ہوگئی تھی آپ نحود صرف اور علوم مروجہ کے ماہر تھے، شعر و سخن کامشغلہ تھا ، عثمان تخلص کرتے تھے، آپ کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔

زعشق دوست ہر ساعت درون نارمے رقصم
گہے رخاک مے غلطم گہے برخارمی رقصم
(مقالات الشعراء ص۴۳۸، طہ،سندھی ادبی بورڈ)

۲۱/شعبان المعظم/ ۶۷۳ھ مطابق ۱۲۷۴ء کو آپ واصل باللہ ہوئے، سیوستان میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔

فیروز شاہ کی حکومت کےزمانے میں ملک رکن الدین عرف اختیار الدین والی سیوستان نے آپ کا روضہ مبارک تعمیر کروایا، اس کے بعد ۹۹۳ھ میں ترخانی خاندان کے آخری بادشاہ مرزا جانی بیگ ترخان نے آپ کے روضہ کی توسیع و ترمیم کرائی پھر ۱۰۰۹ھ میں مرزا جانی بیگ ترخان کے بیٹے مرزا غازی بیگ نے اپنی صوبہ دار ی کے زمانے میں اس میں دوبارہ ترمیم کرائی۔

صاحب حدیقۃ نے آپ کے مناقب میں ایک نظم لکھی جس کا آخری شعر یہ ہے۔

ومبدم رحمت خداوندی
باد بر روح شاہ مروندی
(حدیقۃ الاولیاء ص ۴۱)

حدیقۃ الاولیاء میں ہے کہ جہاں اب شیخ کا مزار ہے، فاحشہ عورتوں کا اڈا تھا ، شیخ کو اسی مقام پر قیام کا حکم ہوا ، جس رات آپ یہاں تشریف لائے تو آپ کی کرامت سے بدکار مرد فاحشہ عورتوں سے جنسی تعلق قائم کرنے پر قادر نہ ہو سکے گویا ان کی مردانگی سلب ہوگئی، جب صبح ہوئی تو ہر ایک نے اپنے اپنے دوست سے رات کا ماجرا بیان کیا، بالآخر وہ سمجھ گئے ہو نہ ہو یہ اسی درویش کی کرامت ہے جو آج رات اس محلہ میں آیا ہے فوراً مردوزن آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر تائب ہوئے، (حدیقۃ ،۴۲) حقیقت یہ ہے کہ بندگان خدا کے وجود سے زمان و مکان روحانیت کا مرکز بنجاتے ہیں، اور لوگوں کے دل اللہ کی طرف کھنچتے ہیں۔

(تذکرہ اولیاءِ سندھ)


متعلقہ

تجویزوآراء