حضرت اشرف الاولیاء مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی
حضرت اشرف الاولیاء مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ خطۂ ہندوستان کے عظیم اولیاء اور نہایت متقی بزرگ تھے۔ آپ علاء الدین بنگالی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ تھے آپ کو چارون سلسلوں سے فیض ملا تھا۔ کیونکہ آپ کو دقت کے تمام پیران عظام کی صحبت میسر ہوئی تھی اور آپ نے ہر ایک سے روحانی تربیت پائی تھی۔ آپ کے والد ماجد سلطان ابراہیم سمنان کے بادشاہ تھے۔ ان کی وفات کے بعد سید پیر جہانگیر سمنانی تخت نشین ہوئے چند سال حکومت کی پھر تارکِ تاج و تخت ہوگئے اور فقراء کے حلقہ میں داخل ہوگئے۔
معارج الولایت کے مولّف نے لطائفِ اشرفی کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیّد اشرف جہانگیر مادرزاد ولی اللہ تھے۔ سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور ساتوں قرأت میں ماہر ہوگئے تھے چودہ سال کی عمر میں عقلی اور نقلی علوم سے فارغ ہوگئے اسی سال آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوا۔ اگرچہ آپ طبعاً اقتدارِ ملک کی طرف متوجہ نہ تھے۔ مگر امراء دربار کے اصرار پر آپ تخت شاہی پر جلوہ فرما ہوئے آپ امور سلطنت سے فارغ ہوکر حضرت شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی قدس سرہ اور دوسرے مشائخ کی صحبت میں رہتے تھے۔ ایک دن حضرت خضر علیہ السلام آئے اور فرمایا اگرچہ آپ کو امور سلطنت سے فراغت نہیں۔ مگر نقش اسم اللہ کے اجمالی معانی ذہن نشین کرلیں۔ اور اسم ذات کو دل کی زبان سے ادا کرتے رہا کریں اور انفاس سے واقف ہونا چاہیے آپ حضرت خضر علیہ السلام کے کہنے پر گامزن رہے تو آپ کو بے پناہ روحانی فوائد حاصل ہوئے پھر حضرت خواجہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ خواب میں تشریف لائے اور آپ کو اذکار اویسیہ سے واقف کردیا۔ آپ سات سال تک ان اذکار و وظائف میں مشغول رہے اور رمضان المبارک کی ستائیویں رات آپ نوافل ادا کر رہے تھے۔ اور ذکر میں بھی مشغول تھے۔ خضر علیہ السلام پھر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا۔
ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں
دین خیال ست وصال ست جنوں
(آپ خدا بھی چاہتے ہیں اور دنیائے دوں بھی یہ خیال مشکل ہے اور ایک جنوں ہے) بیٹا یاد رکھو طلب خدا وندی اور دنیاوی معاملات یکجا نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کو محبوب کی طلب ہے تو امور سلطنت کو چھوڑنا ہوگا اور جلدی سفر کر کےہندوستان میں جاکر علاء الدین بنگالی کی خدمت میں حاضری دیں۔ تاکہ ان کی وساطت سے خدا تک پہنچ سکو۔ حضرت خضر علیہ السلام کے ارشاد پر حضرت سیّد میر اشرف جہانگیر نے فوراً تاج و تخت کو چھوڑدیا۔ اور سلطان محمود کو اپنا جانشین مقرر کر کے اپنی والدہ ماجدہ بی بی خدیجہ بیگم سے ہندوستان جانے کی اجازت لی آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا۔ بیٹا! ابھی تم پیدا نہیں ہوئے تھے۔ تو مجھے حضرت احمد یسوی قدس سرہ نے بشارت دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک ایسا بیٹا دے گا جس سے تمام دنیا روشن ہو جائے گی۔ الحمدُ للہ اب اس بشارت کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ میں اپنے حقوق تمہیں بخشتی ہوں۔
حضرت میر جہانگیر تئیس (۲۳) سال کی عمر میں سمنان سے ہندوستان روانہ ہوئے برصغیر میں سب سے پہلے آپ اوچ شریف (پاکستان) میں پہنچے اور حضرت مخدوم سید جہانیاں جہاں گشت جلال الدین سے ملاقات کی بڑی روحانی نعمتیں حاصل ہوئیں وہاں سے روانہ ہوئے اور دہلی پہنچے یہاں بزرگانِ چشت کی زیارتوں سے فیض حاصل کیا۔ دہلی سے مشرق کو روانہ ہوکر حضرت علاء الدین بنگالی قدس سرہ کی خدمت میں پہنچے حضرت علاء الدین کو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت میر جہانگیر سمنانی کی آمد کی اطلاع دے دی تھی آپ اپنے اصحاب کو لیے استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ ملاقات کے بعد نہایت شفقت اور محبت سے اپنی بہیلی میں سوار کیا۔ اور اپنے ساتھ خانقاہ میں لے آئے اسی دن آپ کو بیعت فرمایا اور اپنا لباس پہننے کو دیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے تکمیل سلوک کر لی اور آپ کو جہانگیر کے لقب سے ملقب کیا گیا۔ خرقۂ خلافت دے کر جونپور کی ولایت پر مامور فرمایا گیا۔ آپ نے عرض کی حضور جونپور میں تو ایک شیر ببّر کی فرمانروائی ہے۔ میری وہاں کیا مجال ہوگی۔ شیر ببّر سے مراد حاجی چراغ ہند سہروردی خلیفہ حضرت رکن الدین ابوالفتح بنیرہ شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ نے جواب دیا۔ فکر نہ کرو تمہیں بھی ایک شیر کا بچہ دیں گے۔ جس سے پہلا شیر چلا جائے گا۔ پہلے جاکر ظفر آباد میں قیام کرنا۔
میر جہانگیر سمنانی اپنے پیر و مرشد کے ارشاد کے مطابق جونپور کو روانہ ہوئے۔ پہلے قصبہ محمد پور میں قیام فرمایا۔ آپ کے پاس اس علاقہ کے علماء و فضلا کی ایک جماعت ملنے آئی دوران گفتگو حضور سید الانبیاء کے چار صحابہ کبار کا ذکر چل پڑا حضرت میر جہانگیر نے چاروں صحابہ کی شان میں ایک رسالہ لکھا تھا۔ آپ نے ان علماء کرام کے سامنے یہ رسالہ پڑھا۔ اس رسالہ میں تینوں صحابہ کی نسبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب اور محامد قدرے زیادہ لکھے گئے تھے۔ حضرات علماء کرام نے اعتراض کیا اور حضرت کو رافضی کہا گیا اگرچہ میر جہانگیر نے انہیں قائل کرنے کے لیے بڑی بحث کی اور بڑے دلائل دیے مگر ان علماء کی رائے تبدیل نہ کرسکے۔ دوسرے دن اور زیادہ علماء کرام جمع ہوئے تو یہ سلسلہ باقاعدہ مناظرہ اور مباحث کی صورت اختیار کر گیا اور محضر نامہ لکھا حضرت میر جہانگیر کو مجمع عام میں مناظرہ کرنے پر آمادہ کیا گیا ان دنوں ایک شخص سید خان زبر دست عالم دین تھا جو جونپور کے تمام علاقہ میں علماء کرام کا سربراہ مانا جاتا تھا۔ اس نے جمعرات کو سرکار دوجہاں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ نے فرمایا۔ جہانگیر اشرف میرا جگر گوشہ ہے وہ ایسا نہیں ہے جیسا تم لوگ خیال کرتے ہو۔ اس کے مقابلہ میں نہ بحث و تمحیص کام آئے گی نہ دلائل۔ اگر خیریت چاہتے ہو۔ تو معذرت کر کے تائب ہوکر صاف دلی سے ان کے پاس حاضری دو۔ سید خان علی علی الصباح آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قدم بوسی کی اور عرض کی حضور! علماء کے استفسار کا جواب میں دونگا آپ کو جواب دینے کی ضرورت نہیں نماز جمعہ کے بعد علماء کرام نے وہ محضر نامہ پیش کیا جس میں تینوں صحابہ کرام کو حضرت علی پر فضیلت ثابت کرنے کے لیے دلائل تھے۔ ابھی حضرت میر جہانگیر اشرف نے زبان نہ کھولی تھی کہ سیّد خان نے علماء کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کا اعتراض میر جہانگیر پر صرف اتنا ہی ہے کہ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت میں مبالغہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں! سید خان نے کہا۔ یہ اعتراض اس شخص پر کیا جاسکتا ہے جو سیّد نہ ہو۔ یہ اعتراض سیّد پر نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے ماں باپ کی عزّت اور مراتب بیان نہیں کرتا تو اسے اسلام میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ اسے اپنے والدین کے اوصاف اور مناقب بیان کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے علماء کرام نے فرمایا۔ کہ اس نکتہ پر ہمیں کسی مجتہد کا قول چاہیے یا کسی معتبر کتاب سے سند چاہیے۔ سید خان نے جامع العلوم کی یہ عبارت پیش کی۔ اِلناس اَنَبا الدَّنَیا لا یَلَام الرجَل عَلیٰ ابوَیَہ ربمدھما (لوگ دنیا کے بیٹے ہیں کسی شخص کی اس بات پر ملامت نہ کرو کہ وہ اپنے والدین کی تعریف کرتا ہے) یہ روایت سن کر معترض خاموش ہوگئے۔ اور بحث و تکرار کو ختم کر کے مطمئن ہوگئے۔
حضرت میر اشرف جہانگیر نے جب دیکھا کہ علماء مطمئن ہوگئے ہیں تو تمام مخلصین کے لیے دعا خیر کی سید خان جو ابھی تک بے اولاد تھا۔ چار بیٹوں کی بشارت دی جو عالم فاضل اور کامل فی العلم ہوں گے۔ اس کے باوجود جن معترفین نے دل میں کدورت رکھی وہ اپنی زندگی میں کئی مصائب میں مبتلا ہوئے۔
پروانہ ازاں سوخت کہ با شمع با فتاد
با بد سوختگاں ہر کہ در افتاد بر افتاد
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ جن دنوں آپ ظفر آباد میں قیام فرما تھے چند بھانڈوں نے بعض معاندین اور حاسدین کے اکسانے پر ایک زندہ شخص کو کفن پہنا کر آپ کے پاس جنازے کی شکل میں اٹھایا۔ اور حضرت کے پاس لے گئے اور کہا۔ حضرت اس مردے کا جنازہ پڑھادیں۔ آپ ان کے کہنے پر اپنے احباب سمیت اٹھے اور جنازہ گاہ میں پہنچ کر نماز جنازہ کی جماعت کرائی۔ بھانڈوں کا ارادہ تھا۔ کہ جب آپ جنازہ پڑھائیں گے تو مردہ اُٹھ کر بھاگ کھڑا ہوگا اور ہم حضرت کا مذاق اڑائیں گے۔ حضرت میر جہانگیر سمنانی کو نور باطن سے یہ ساری صورت حال معلوم تھی۔ آپ نے بار بار لوگوں کو کہا کہ یہ جنازہ کسی اور سے پڑھوائیں۔ مگر انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں آپ ہی پڑھائیں۔ آپ نے جنازہ کی قیادت فرمائی۔ ابھی آپ نے پہلی تکبیر کہی تھی کہ ملک الموت نے اس شریر جعلی مردے کی روح قبض کرلی وہ نماز جنازہ مکمل ہونے تک نہ اٹھا۔ بھانڈ اور دوسرے لوگ اس کے سرہانے پر پہنچے دیکھا تو واقعی وہ مرا پڑا ہے۔ رونا دھونا شروع کیا اگرچہ انہوں نے بڑی معافی مانگی۔ معذرت کی مگر آپ نے کہا اب کوئی فائدہ نہیں اس کرامت کی شہرت نے تمام علاقہ کے لوگوں کو آپ کا عقیدت مند بنا دیا۔
حضرت حاجی شیخ چراغ ہند قدس سرہ اس ولایت کے مالک تھے۔ پہلے پہلے تو آپ کو حضرت میر جہانگیر سمنانی کی یہ مقبولیت اور شہرت پسند نہ آئی لیکن آپ کو اتنی ہمت نہ تھی کہ آپ کے خلاف اُٹھ کر کوئی ایسا کام کرسکیں حضرت کو تکلیف پہنچا سکیں اسی اثنا میں ایک شخص کبیر سر ہر پوری جو دربار کا بہت بڑا امیر تھا۔ ظاہری علوم کے حصول کے بعد سوچنے لگا۔ کہ میں کسی کا مرید نہ ہوں اور باطنی کمالات حاصل کروں ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک سرخ رنگ بزرگ نے اسے اپنا مرید بنالیا ہے اس نے اپنے دل میں سوچا کہ اس شہر کا بزرگ تو حاجی شیخ ہیں۔ میں انہی کے پاس جاؤں۔ میں حاضر ہوا۔ مگر میں نے آپ کو دیکھا جو شکل و صورت مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی وہ نہیں ہے۔ بہر حال میں کچھ دن آپ کی خدمت میں رہا۔ مگر انہوں نے مجھے بیعت نہ کیا کچھ دنوں بعد میں میر سید اشرف جہانگیر کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھتے ہی پہنچان لیا کہ یہ وہی شکل و صورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں دکھائی تھی۔ میں اسی وقت آگے بڑھا اور بیعت ہوگیا۔
میرے بیعت ہونے کے بعد آپ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کبیر وہی شیر کا بچہ ہے جس کی طرف شیخ علاء الدین نے اشارہ فرمایا تھا۔ کبیر جیسے امیر و رئیس کی بیعت کی خبر سنی تو حضرت شیخ حاجی بڑے غضبناک ہوئے۔ جلال میں آ کر کہا کبیر جوانی میں ہی مرجائے گا۔ یہ بات سن کر حضرت میر اشرف جہانگیر نے فرمایا غم نہ کرو۔ تم پیر کبیر بنو گے۔ اور بوڑھے ہوکر وفات پاؤ گے۔ تم اپنا کام کرو اور کسی کی پرواہ نہ کرو۔ پیر کبیر نے کہا۔ پہلے حاجی شیخ مرجائے پھر شیخ کبیر کو موت آئے۔ چونکہ یہ تینوں ارشادات اولیاء اللہ کی زبان سے نکلے تھے۔ اللہ نے پورے کر دیے۔ شیخ کبیر پچیس سال کی عمر میں بوڑھے دکھائی دینے لگے۔ آپ کے بال سفید ہوگئے۔ شیخ حاجی چراغ شیخ کبیر کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے ان کے پانچ سال بعد شیخ کبیر بھی فوت ہوگئے۔
شجرۂ چشتیہ میں لکھا ہے کہ حضرت سید اشرف جہانگیر جونپور کی سیر کرنے کے بعد کھچھو چھ شریف تشریف لے گئے ان دنوں وہاں ایک کامل جوگی رہتا تھا۔ اس جوگی کے پانچ سو چیلے ہر وقت فضا میں پرواز کرتے رہتے تھے۔ حضرت کو اس جوگی سے واسطہ پڑا۔ جوگی نے کئی قسم کے استدراجی شعبدے اور حملے کیے مگر حضرت پیر میر جہانگیر اشرف ہروار سے بچ جاتے آخر تنگ آکر جوگی نے اپنی شکست مان لی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور تمام چیلوں کو لے کر آپ کا مرید ہوگیا حضرت جہانگیر نے جوگی کی قیام گاہ پر ایک خانقاہ تعمیر کرائی۔ خاص حجرہ بنوایا اور ایک فرحت بخش باغ کی بنیاد رکھی۔ جسے روح آباد کے نام سے مشہور کیا۔ وہاں سے شیخ بدیع الدین مدار کو ساتھ لے کر حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے۔ حرمین الشریفین کی زیارت سے فارغ ہوئے تو شیخ بدیع الدین تو واپس ہندوستان آگئے مگر میر اشرف جہانگیر مدینہ منورہ سے نجف اشرف کو روانہ ہوئے اور وہاں سے بغداد شریف اور کربلا معلّی پہنچے۔ وہاں سے روم پہنچے جہاں حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین اور بیٹے سلطان دارا اور دوسرے مشائخ وقت کی زیارت کرتے ہوئے شام کو چلے آئے دمشق میں حضرت فخرالدین عراقی کی زیارت کی دوبارہ مکہ مکرمہ پہنچے اور حج ادا کر کے بغداد آئے حضرت غوث الاعظم امام ابو حنیفہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم کی زیارات پر حاضری دے کر کاشان جا پہنچے۔ شیخ عبدالرزاق کاشانی رضی اللہ علیہ کی زیارت کی وہاں سے سمنان آئے۔ ان دنوں آپ کی ہمشیرہ ابھی زندہ تھیں۔ ان کے پاس کچھ عرصہ رہ کر اس کی دلدہی کی پھر وہاں سے اجازت لے کر مشہد مقدس پہنچے۔ امام علی رضا کے کاشانہ پر معتکف ہوئے انہی دنوں امیر تیمور گورگانی بھی حضرت امام علی رضا کے مزار پُر انوار کی زیارت کو آیا ہوا تھا وہ حضرت میر جہانگیر اشرف کا معتقد تھا۔ خدمت میں حاضر ہوکر قدم بوس ہوا۔
آپ مشہد سے روانہ ہوکر ہرات آئے اور ماورالنہر سے ہوتے ہوئے بخارا کے پاس حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی زیارت گاہ پر حاضری دی ایک عرصہ تک وہاں قیام پذیر رہے وہاں سے بھی خرقۂ خلافت حاصل کیا اور سلوک نقشبندیہ کے مناصب حاصل کیے وہاں سے چل کر ترکستان پہنچے اور حضرت خواجہ احمد یسوی کے بیٹوں کی زیارت کی وہاں سے قند ہار۔ غزنین۔ کابل اور بخارا سے ہوتے ہوئے ملتان پہنچے ملتان سے چل کر پاک پتن آئے حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر کے مزار کی زیارت کی وہاں سے دہلی پہنچے دہلی سے اجمیر شریف پہنچے اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے روضہ پر انوار سے ایک عرصہ تک فیضان حاصل کیے۔
اجمیر شریف سے روانہ ہوکر دکن میں حضرت سید گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری دی وہاں سے سرانیدیب (سری لنکا) جانکلے۔ اور کچھ عرصہ کے بعد گجرات کاٹھیا واڑ کے راستہ سے ہندوستان آئے اور ارادہ کرلیا کہ اب عالم اسلام کے بزرگان دین کی زیارت کے بعد سارے بر صغیر کے مشائخ کی زیارت سے مستفیض ہونا چاہیے۔ کچھ عرصہ آرام کرنے کے بعد کبیر اور سیّد علی ہمدانی قدس سرہ کے ساتھ دنیا کی سیر کو روانہ ہوئے۔ اپنے پیر و مرشد علاء الدین منور رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بنگال میں حاضر مجالس رہے حضرات چشت کے تبرکات حاصل کیے۔ حضرت میر علی ہمدانی کے ساتھ سفر طی الارض کے انداز میں کیا گیا۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ نے اس سفر میں ایک سو نو پیران عظام سے باطنی فیضان حاصل کیا تھا تیسری بار اوچ شریف پہنچے تو مخدوم سید جلال الدین مخدوم جہانیاں قدس سرہ سے بڑا فیض پایا۔ حضرت مخدوم جہانیاں آج تک چار سو سے زیادہ مشائخ سے فیض پا چکے تھے۔ اس فیض سے حضرت میر جہانگیر اشرف کو پورا پورا حصہ دیا گیا۔ اس روحانی سیر کے بعد آپ اپنے مسکن پر آکر قیام فرما ہوئے۔
ایک دن حضرت پیر میر جہانگیر اشرف قدس سرہ روح آباد میں تشریف فرما تھے۔ بہت سے بزرگان وقت بھی مجلس میں موجود تھے۔ ایک قلندر علی نامی اپنے پانچ سو قلندر ساتھیوں کو لیے ہوئے آیا اور آپ کی مجلس میں آپہنچا اور لاطائل اور بے معنی گفتگو شروع کردی۔ پوچھنے لگا۔ آپ نے جہانگیر کا خطاب کہاں سے پایا ہے؟ فرمایا اپنے پیر و مرشد قلندر سے پوچھا۔ آپ کی جہانگیری کی تصدیق کیا ہے اور مجھے کس طرح یقین آئے کہ آپ جہانگیر پیر ہیں قلندر کی یہ بات سنتے ہی آپ کے چہرے پر جلال کے آثار نمایاں ہوئے فرمایا میں صرف جہانگیر ہی نہیں جان گیر (جان لینے والا) بھی ہوں یہ بات سنتے ہی قلندر لڑکھڑایا۔ اور وہیں ڈھیر ہوگیا مجلس میں شور مچ گیا قلندر کے تمام مرید اور ہمرا ہی آپ کے قدموں پر گر پڑے اور مرید ہوگئے۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ ایک دن حضرت جہانگیر اشرف قدس سرہ کو جوگیوں کے ایک بت خانے میں اسلام کی حقانیت پر مناظرہ کرنا پڑا ان لوگوں نے آپ کی ولایت کی پکی دلیل (برہان قاطع) طلب کی۔ آپ نے بتوں میں سے ایک پتھر کی مورتی کو اشارہ کر کے اپنی طرف بلایا وہ اسی وقت آپ کے قدموں میں آگری اور حضرت کی ولایت کی تصدیق کا اعلان کرنے لگی اس کرامت کو دیکھ کر کئی ہزار ہندو مسلمان ہوگئے۔
معارج الولایت میں ایک اور واقع لکھا ہے کہ حضرت جہانگیر اشرف کی زندگی سے لے کر آخر تک آپ کے باغ میں کوئی جانور پیٹھ نہیں کرتا۔ آپ کے کے روضے سے متصل حوض کا پانی آج تک مکدّر (گدلا) نہیں ہوا۔ آسیب زدہ مرید آپ کے روضہ پر نظر پڑتے ہی صحت یاب ہوجاتا ہے آپ کا اسم گرامی پڑھ کر آسیب زدہ پر دم کریں تو آسیب بھاگ جاتا ہے۔
آپ کے وصال کا واقعہ کتابوں میں یوں درج ہے کہ حضرت سید جہانگیر اشرف سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے محرم الحرام کی ستائیسویں تاریخ کو اپنے وقت کے چیدہ چیدہ مشائخ کو جمع کیا۔ ان سے ملاقات کی اور ایک ایک کو الوداع کہا۔ اپنے دینی بیٹے عبدالرزاق کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور اپنا جانشین قرار دیا نماز ظہر کے بعد قوالوں کو بلا کر مجلس سماع منعقد کرائی۔ قوال سعدی شیرازی کا یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
گر بدست تو آمدست احلم
قَدْر رَضیْنا بَمَا جَریٰ قلمٌ
(اگر آپ کے ہاتھ سے میری موت آئی ہے تو ہم نونشتہ قلم پر راضی ہیں) یہ شعر سن کر آپ پر وجد طاری ہوگیا اور بے ہوشی طاری ہوگئی آپ اس قدر تڑپے کہ حد و حساب سے باہر تھا۔ ایک لمحہ تسکین ملی تو قوالوں نے یہ شعر شروع کیا۔
خوب ترزیں دگرچہ باشد کار
یار خنداں آمد بجانب یار
(اس سے بڑھ کر اچھا کام کیا ہوگا۔ کہ یار ہنستے ہوئے یار کے قدموں میں جاگرے)
سیر ہنیند جمال جاناں را
جاں سپارونگار خنداں را
(اپنے محبوب کے حسن و جمال کو جی بھر کر دیکھ لے۔ پھر مسکراتے ہوئے محبوب کو جان قربان کردے۔)
ہ اشعار سنتے ہی آپ کے دل میں آگ لگ گئی۔ سینہ دھڑکنے لگا مستی و شوق سے مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ ماہی بے آب کی طرح زمین پر لوٹنے لگے آخر ایک آہ نکالی اور جان جان ستاں کے سپرد کردی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت میر جہانگیر اشرف قدس سرہ کی وفات ستائیسویں ماہ محرم الحرام ۸۰۸ھ کو ہوئی اس وقت آپ کی عمر ایک سو بیس (۱۲۰) سال تھی۔ روح آباد میں جو باغ آپ نے تعمیر کیا تھا۔ اس میں دفن کیے گئے۔ حضرت نے بہت سی قابلِ قدر تصانیف یاد گار زمانہ چھوڑیں۔ بشارت المریدین اور مکتوبات بہت مشہور ہیں آپ کے حالات پر لطائف اشرفی ایک مشہور و معروف کتاب ہے۔
چور رفت از عالم دنیا بجنت
جناب میر اشرف شیخ حق پیر
بسال انتقال آں شہِ دین
عیاں شد راہ برقطب جہانگیر
امام مومناں میر جہانگیر (۸۰۸ھ) مکمل عارف والا جہانگیر (بہ تکرار) (۸۰۸ھ)
واصل کامل شریف (۸۰۸ھ) ولی ہند میر جنت (۸۰۸ھ) سید شریف سعید (۸۰۸ھ)
واحد اشرف مقبول( ۸۰۸ھ) سید محمود ولی شریف( ۸۰۸ھ)
تاج ابرار (۸۰۸ھ) رہبر کشاف( ۸۰۸ھ)
حضرت میرسیداشرف جہانگیرسمنانی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت میرسیداشرف جہاں گیرسمنانی قدوۃ الاخیارہیں۔
خاندانی حالات:
آپ سمنان کےشاہی خاندان سےتھے۔
والد:
آپ کےوالدسلطان ابراہیم سمنان کےبادشاہ تھے۔
والدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ کانام خدیجہ بیگم تھا۔
بہن:
آپ کی ایک بہن تھیں۔
ولادت کی پیشین گوئی:
آپ کی ولادت سےقبل حضرت خواجہ احمدبسوی کی روح پاک نےآپ کی والدہ ماجدہ کومطلع کیاتھاکہ ان کےگھرایک لڑکاپیداہوگا،جواپنےنورولایت سےدنیاکوروشن کرےگا۔
ولادت مبارک:
آپ نے ۶۸۸ھ میں اس عالم کو روشنی بخشی۔
نام:
آپ کانام سیداشرف ہے۔
لقب:
آپ اپنےپیرومرشدکےعطاکردہ لقب"جہانگیر"سےپکارےجاتےہیں۔۱؎
تعلیم و تربیت:
آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کےوالدماجدکےسایہ عاطفت میں ہوئی۔آپ نےسات سال کی عمرمیں قرآن شریف حفظ کیااورساتھ ہی ساتھ قرأت بھی سیکھی۔پھرعلوم ظاہری کی طرف توجہ فرمائی۔چودہ سال کی عمرمیں تحصیل علوم ظاہری سےفراغت پائی۔
والدکاوصال:
ابھی آپ علوم ظاہری سےفارغ ہی ہوئےتھےکہ آپ کے والد ماجدنےداعی اجل کو لبیک کہا۔
تخت نشینی:
والدکےانتقال کےبعدآپ تخت پربیٹھےاورعنان حکومت سنبھالی۔
بشارت:
آپ حضرت اویس کرخی کی زیارت سےخواب میں مشرف ہوئے۔انہوں نےذکراویسیہ آپ کو تعلیم فرمایا۔آپ اس ذکرمیں مشغول ہوئے۔ایک دن حضرت خضر علیہ السلام نےتشریف لاکرآپ سےفرمایاکہ"اگرخداکی طلب ہےتودنیاکوچھوڑ،ہندوستان جااورشیخ علاؤالدین بنگالی سے اپنا حصہ لے"۔
تخت سےدست برداری:
حضرت خضرعلیہ السلام کی نصیحت آپ کی زندگی میں کایاپلٹ کاباعث ہوئی۔آپ تاج وتخت سے دست بردارہوئے۔عنان حکومت سلطان محمودکےسپردفرمائی اوراپنی والدہ ماجدہ سےاجازت لے کرہندوستان روانہ ہوئے۔
ہندوستان میں آمد:
اوچ پہنچ کرحضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کےروحانی فیوض وبرکات سے مستفیدومستفیض ہوئے،پھردہلی سے بنگال روانہ ہوئے۔
بیعت وخلافت:
حضرت شیخ علاؤالدین بنگالی نےآپ کا شان داراستقبال کیا۔آپ کی آمدپرخوشی کااظہارکیا۔اپنے حلقہ ارادت میں آپ کوداخل کیا۔۲؎"جہاں گیر"کےلقب سےآپ کوممتازکیااورخرقہ خلافت سے سرفراز کیا۔
پیرومرشدکی ہدایت:
آپ کےپیرومرشدحضرت علاؤالدین بنگالی بن اسعدی لاہوری نےآپ کوجونپورجانےکی ہدایت فرمائی۔آپ نےاپنےپیرومرشدسےعرض کیاکہ جونپور میں توشیخ حاجی چراغ ہندسہروردی مقیم ہیں۔ وہ اس شیروقت سےکیسےمقابلےکی تاب لاسکیں گے،آپ کےپیرومرشدنےآپ کی ہمت بندھائی اورفرمایاکہ ڈرنےکی کوئی بات نہیں۔ان کوایک شیرکابچہ ملےگاجواس شیرسے خودسمجھ لے گا۔
جونپورمیں آمد:
بحکم پیرومرشدآپ جونپورروانہ ہوئے۔راستےمیں محمدپورمیں قیام فرمایا۔ایک دن وہاں کےعلماء سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے متعلق گفتگوہوئی۔آپ نےخلفائےراشدین رضی اللہ عنہم پرایک کتاب لکھی تھی،وہ کتاب علماءکودکھائ۔اس کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اورخلفاء پرفضیلت دیکھ کرعلماء برہم ہوئے۔علماء نےآپ کوپریشان کرناچاہا۔وہاں کےایک سربرآوردہ عالم اورمفتی شہرمولوی سیدخاں نےعلماء سے کہا کہ اس کی مخالفت بےبنیاداوراعتراض غلط ہے۔وہ
(حضرت اشرف)سیدہیں۔اگرکوئی شخص اپنےآباؤاجدادکی تعریف کرےتواعتراض کی کیابات ہے۔علماءنےسندمانگی۔مولوی سیدخان نےسندپیش کی۔علماء خاموش ہوگئے۔
محمدپورسےآپ ظفرآبادتشریف لائے۔شیخ کبیرآپ سے بیعت ہوئے۔یہ بات شیخ حاجی چراغ ہند سہروردی(رحمتہ اللہ علیہ)کوناگوارہوئی۔انہوں نےشیخ کبیرکوبددعادی،لیکن آپ کی دعاشیخ کبیر کے شامل تھی۔شیخ چراغ ہندکی بددعاکاکوئی اثرنہیں ہوااورشیخ کبیرجوان ہوکرنہیں مرے،بلکہ کافی ضعیف ہوکرمرے۔
جونپورپہنچ کرآپ نے کچھوچھ میں جوجونپور کےعلاقےمیں ایک قصبہ ہے،سکونت اختیارفرمائی۔ کچھوچھ میں ایک خانقاہ تعمیرکروائی اورایک باغ لگایااوراس کانام روح آبادرکھا۔
سیروسیاحت:
جونپورسےآپ حرمین شریفین کی زیارت کےلئےروانہ ہوئے۔اس سفرمیں حضرت بدیع الدین قطب مداربھی آپ کےہمراہ تھے۔وہ توواپس ہندوستان آگئےاورآپ نجف اشرف،کربلائےمعلیٰ اوردمشق ہوتےہوئےپھرمکہ معظمہ آئے اورحج کرکےبغدادکاشان ہوتےہوئےاپنےوطن سمنان پہنچے۔اپنی بہن سے ملے۔سمنان میں کچھ دن قیام کرکےآپ مشہدروانہ ہوئے۔مشہدمیں آپ کی ملاقات امیرتیمورسےہوئی۔مشہدسےہرات،ماورالہند،ترکستان،بخارا،غزنی،کابل،ملتان،اجودہن،دہلی، اجمیر،گلرگہ،سراندیپ،گجرات ہوتےہوئے کچھوچھ واپس آئے اوراپنی خانقاہ میں قیام فرمایا۔
دوبارہ سفر:
کچھ دن خانقاہ میں قیام فرماکرآپ نےپھررخت سفرباندھا۔اس مرتبہ میرسیدعلی ہمدانی بھی ہمراہ تھے۔آپ نے دوردرازممالک کی سیروسیاحت فرمائی۔بہت سےدرویشوں سے ملےاوران سے فیوض برکات حاصل کیں۔پھرکچھوچھ آکرخانقاہ میں رہنےلگے۔
وصال:
آپ نے۲۷محرم ۸۰۸ھ کواس جہان فانی سے سفردارآخرت فرمایا۔۳؎آپ کامزارپرانوارکچھوچھ میں مرجع خاص وعام ہے۔
خلیفہ:
حاجی عبدالرزاق آپ کے سجادہ نشین ہیں۔
سیرت مبارک:
آپ جامع علوم ظاہری و باطنی ہیں۔آپ نے چارخانوادوں سے فیض حاصل کیا۔آپ علم،عبادت، ریاضت،مجاہدہ،زہدوتقویٰ،حلم،جودوسخا،تحمل اوربردباری میں بے نظیرتھے۔آپ صاحب کشف و کرامات ہیں۔آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ آپ کاایک رسال اور"بشارت المریدین"آپ کی مشہورتصانیف ہیں۔ آپ کے مکتوبات تصوف وعرفان کابیش بہاخزانہ ہیں۔آپ شاعربھی تھے۔آپ کاتخلص "اشرف"ہے۔آپ کی مشہورغزل ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔۴؎
وصل توچوں دست دادملک جہاں گومباش |
لعل توں چوں حاصل است جوہرجاں گومباش |
آیت حسن تراحاجت تفسیرنیست |
صورت خورشیدراشرح وبیاں گومباش |
صف شکن عاشقاں فتنہ آخررماں |
غمزہ ابروئےتست تیروکماں گومباش |
عاشق روئےتونیست طالب دنیاودیں |
آرزوئےجاں توئی کون ومکاں گومباش |
گردش گردوں اگرقطع شودگوبشو |
حاصل فطرت توئی دورزماں گومباش |
آتش عشق ازبسوخت خرمن ماگوبسوز |
اشرف شوریدہ رانام ونشاں گومباش |
تعلیمات:
آپ کی تعلیمات کی افادیت اوراہمیت میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
توحید:
آپ فرماتےہیں۔۵؎
"توحید"یعنی خداکوایک جاننایہ ہے کہ عاشق معشوق کی صفات میں فناہوجائے۔
محفل توحید:
آپ فرماتےہیں۔
"جب سالک عقائدواصطلاح صوفیہ سے واقف ہوگیاتواس کےلئےضروری ہےکہ زیادہ وقت محفل توحیدمیں صرف کرےاورمثل بگلےکےبیٹھارہے"آپ سےپوچھاگیاکہ بگلےکی طرح بیٹھنےسےکیا مطلب ہے۔
آپ نےجواب دیا۔
"بغیرتلاش کےپانا،بغیردیکھےہوئےدیدارہوجانا"۔
ولایت:
آپ فرماتےہیں۔۶؎
"ولایت وہ ہے کہ بندہ فناکےبعدقاسم اورباقی رہےاورتمکین وصفاسےموصوف ہو"۔
خدمت خلق:
آپ فرماتےہیں۔۷؎
بعض لوگوں کایہ خیال ہےکہ نوافل پڑھناخدمت خلق سےبہترہےان کایہ خیال غلط ہے۔کیوں کہ خدمت کاجواثرقلب پرپڑتاہے،وہ ظاہرہے۔دونوں کےنتیجےپرنظرکرتےہوئے یہ تسلیم کرناپڑتا
ہے،کہ خدمت خلق نوافل پڑھنےسےبہترہے"۔
اقوال:
۔ گروۂ صوفیاکےلئےعلم توحیدکاجانناضروری ہے،کیوں کہ طریقت وحقیقت کاانحصاراسی علم شریف پر ہے۔
۔ ارباب ذوق کےنزدیک اگرایک سانس بھی نسبت شریفہ سےخالی ہوتی ہےتواہل دل اسےمردہ تصورکرتےہیں۔
۔ ولی کےلئےایک شرط یہ بھی ہےکہ عالم ہو،جاہل نہ ہو،متفصل ہو،متصل نہ ہو،کسی کو چشم حقارت سےنہیں دیکھناچاہیے،کیوں کہ اکثراس میں خداکےدوست چھپےرہتےہیں۔
اورادووظائف:
آپ کےبتائےہوئےچنداورادووظائف پیش کئےجاتےہیں۔
حاجت پوری ہونےکےواسطے:
سورۂ اخلاص ہزارباریاسومرتبہ پڑھیں۔۸؎
ہرمقصدکےپوراہونےکےواسطے:
سورۂ یٰسین جس کام کےلئےپڑھے،وہ کام پوراہو۔
کشف وکرامات:
محمدپورمیں جب آپ پہنچےتومولوی سیدخاں کوآپ نے یہ مژدہ سنایاکہ ان کے چارلڑکےہوں گے، جوعلوم فضل وکمال سےآراستہ ہوں گے،ایساہی ہوا۔
ظفرآبادمیں آپ کامذاق اڑانےکی غرض سےکچھ لوگ ایک زندہ شخص کوکفن پہناکراورپلنگ پرلٹا کرآپ کےپاس لائےاورآپ سےدرخواست کی کہ نمازجنازہ پڑھائیں۔آپ نےاول توانکارکیا۔
لیکن جب وہ لوگ نہ مانےتوآپ نمازہ جنازہ پڑھانےکےلئےکھڑےہوئے۔تکبیرپرجیساکہ طے ہوا تھاکہ وہ شخص اٹھ بیٹھےگا،وہ نہیں اٹھا،تولوگوں نےپاس جاکردیکھا،اس شخص کومردہ پایا۔۹؎ ایک قلندرجس کانام علی تھا۔بہت سےقلندروں کوہمراہ لےکرآپ کےپاس آیااورآپ سے دریافت کیاکہ جہانگیری کہاں سےپائی؟آپ نےجواب دیاکہ اپنےپیرومرشدسے،اس نےکہاکہ اس کاکیاثبوت ہے؟یہ سن کرآپ کوغصہ آیااوروہ قلندرجس کانام علی تھا،زمین پرگرااورمرگیا۔
آج بھی آپ کامزارآسیب کودورکرنےکےلئےمشہورہے،جن لوگوں پرآسیب کااثرہوتاہے، وہ آپ کےمزارمبارک کی برکت سےاچھےہوجاتےہیں۔یہ بھی کہاجاتاہےکہ آپ کانام نامی اسم گرامی پڑھ کردم کرنےسےآسیب زدہ کااثرجاتارہتاہے۔
حواشی
۱؎لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی(فارسی)ص۹۹۰
۲؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۴۴۶
۳؎تذکرۃ العابدین ص۲۶۲
۴؎لطائف اشرفی،حصہ اول،اردوترجمہ،ص۶۷
۵؎لطائف اشرفی،حصہ اول،اردوترجمہ،ص۱۷
۶؎لطائف اشرفی،حصہ اول،اردوترجمہ،ص۲۱
۷؎لطائف اشرفی ص۶۷
۸؎لطائف اشرفی فی بیان طوائف صوفی
۹؎معارج الولایت
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)