مرزا مظہر جانجاناں

مرزا مظہر جانجاناں قدس سرہ

سلسلہ نسب:

حضرت میرزا سادات علوی سے ہیں۔ آپ کا نسب نامہ یوں ہے۔ میرزا جانجاناں بن میرزا جان بن میرزا عبد السبحان بن میرزا محمد امان بن شاہ بابا سلطان بن بابا خان بن امیر غلام محمد بن امیر محمد بن خواجہ رستم شاہ بن امیر کمال الدین۔ امیر کمال الدین کا نسب اُنیس واسطہ سے حضرت محمد بن حنیفہ کی وساطت سے حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔

نسبت و تعلق:

امیر کمال الدین ۸۰۰ھ میں کسی ضرورت کے سبب سے شہر طائف سے ملک ترکستان میں آئے اور ان حدود کے ایک حاکم کی لڑکی سے نکاح کرلیا۔ حاکم مذکور کے پاں اولاد نرینہ نہ تھی اس لیے اس علاقہ کی حکومت امیر موصوف سے متعلق ہوئی جس وقت ہمایوں بادشاہ نے ملک ہندوستان کو خاندان سور کے افغانوں سے چھڑایا وہ اس خاندان میں دو بھائیں محبوب خان اور بابا خان کو اپنے ساتھ لے آیا۔ حضرت میرزا کے جد بزرگوار میر عبد السبحان جو دو واسطہ سے اکبر بادشاہ کے نواسے تھے باوجود جاہ و شوکت ظاہری کے خاندان چشتیہ میں مرید کیا کرتے تھے آپ کی جدہ بزرگوار جو اسد خاں وزیر کی دختر تھیں آپ کے جد بزرگوار کی صحبت کی برکت سے مذہب اہلِ سنت وجماعت سے مشرف ہوگئی تھیں۔ اُن کے باطن کی صفائی کا یہ عالم تھا کہ جمادات کی تسبیح سن لیا کرتی تھیں اور مستورات کو مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتی تھیں آپ کی والدہ ماجدہ عفیفہ و خدا ترس اور پارسا تھیں اور جو دوسخا میں بے نظیر تھیں بیجاپور کے رئیس شیخ زادوں کے خاندان عالی سے تھیں۔

ولادت باسعادت:

آپ کے والد میرزا جان سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے ہاں صاحب منصب تھے اور سلسلہ قادریہ میں حضرت شاہ عبد الرحمٰن قادری کے مرید تھے جس وقت سلطان موصوف نے ممالک دکن کے انتظام میں مشغول تھا میرزا جان منصب و روزگار کو چھوڑ کر دار الخلافہ اکبر آبادی کی طرف روانہ ہوئے راستے میں مقام کالا باغ میں جو حدود مالوہ میں واقع ہے جمعہ کے دن فجر کے وقت ۱۱ ماہ رمضان ۱۱۱۱ھ یا ۱۱۱۳ھ میں یہ آفتاب دین مطلع سعادت سے نمودار ہوا جب یہ خبر عالمگیر کو پہنچی تو فرمایا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے چونکہ باپ کا نام میرزا جان ہے ہم نے اُن کے بیٹے کا ناما جانِ جان رکھا لیکن عوام میں جانجاناں کے کرے مشہور اور متخلص بہ مظہر اور ملقب بہ شمس الدین حبیب اللہ ہیں حضرت میرزا فرماتے تھے کہ ہمارے والد ماجد کہاں کرتے تھےکہ ہمارے واسطے تمہاری آمد مبارک ہوئی کیوں کہ تمہاری ولادت کے سال میں ہم نے دنیا کے تعلقات سے ہاتھ اُٹھالیا اور فقر و قناعت کی دولت اختیار کی۔

تعلیم و تربیت:

حضرت میرزا کے والد بزرگوار نے آپ کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت اہتمام فرمایا اور تمام اوقات منضبط فرمادیئے اور تاکید کردی کہ وقت عزیز اور عمر شریف ضائع نہ ہوجائے۔ رسائل محاورہ فارسی تو آپ نے اپنے والد ماجد سے پڑھے اور کلام اللہ شریف مع تجوید و قرأت قاری الرسول شاگردِ شیخ القراء شیخ عبد الخالق شوقی سے پڑھا اور مختصرات علم معقول و منقول علمائے وقت سے پڑھے اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد علوم کی کتب مبسوط اور علم حدیث و تفسیر حاجی محمد افضل سیالکوٹی شاگرد شیخ المحدثین شیخ عبد اللہ بن سالم مکی سے حاصل کیے۔

دیگر فنون میں مہارت:

علم مذکورہ کے علاوہ حضرت میرزا کو دیگر فنون میں بھی مہارت کامل حاصل تھی چنانچہ تقطیع سراءیل آپ کو پچاس طرح سے آتی تھی اور فن سپاہ گری میں آپ کو اِس قدر مہارت تھی کہ فرماتے تھے کہ اگر بیس آدمی تلوار کھینچ کر مجھ پر حملہ کریں اور میرے ہاتھ میں صرف ایک لاٹھی ہو ایک آدمی بھی مجھے زخم نہیں پہنچا سکتا۔ ایک دفعہ نماز مغرم میں سلام پھیرنے کے وقت ایک شخص نے بادل کی تاریکی میں مجھ پر خنجر مارا بجلی کی چمک میں میں میں نے خنجر اُس کے ہاتھ سے لے لیا اور پھر اُسی کو دے دیا اُس نے دوبارہ حملہ کیا میں نے دوسری بار چھین کر پھر دے دیا اِسی طرح اُس نے سات بار کیا آخر اُس نے معذرت کی اور پاؤں پر گر پڑا نیز فرماتے ہیں کہ ایک بار مست ہاتھی راہ میں آرہا تھا میں گھوڑے پر سوار سامنے سے آگیا فیلبان نے شور مچایا کہ ہٹ جاؤ دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک بے جگر حیوان کے مقابلہ سے ہٹ جاؤں چنانچہ ہاتھی نے نہایت غضب کی حالت میں مجھے سونڈ میں لپیٹ لیا میں نے خنجر نکال کر اُس کی سونڈ میں مارا اُس نے چیخ کر مجھے دور پھینک دیا اور میں بفضلِ الٰہی سلامت رہا ایک دفعہ جہاد با شرائط پیش آیا میں اور ایک سردار دونوں ہاتھی پر سوار تھے عین شدت حرب میں میرے ردیف کو میری نسبت گمان ہوا کہ یہ ڈر گیا ہے۔ اُس وقت میں نے ایک تازہ غزل موزوں کی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔

آثارِ رُشد و ہدایت:

حضرت میرزا فرماتے تھے کہ شور عشق ع محبت اور رغبت اتباعِ سنت میری طینت کے خمیر میں تھے مجھے یاد ہے کہ میری چھ مہینے کی تھی کہ ایک خوبصورت عورت نے مجھے دایہ کی گود سے اپنی جمال کے جلوہ نے میرے دل کو بے قرار کردیا اور مجھے اُس کے ساتھ اُنس پیدا ہوگیا اُس کے دیدار کے بغیر آرام نہ آتا تھا اور میں اُس کے فراق میں رویا کرتا تھا میں پانچ سال کا تھا کہ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ لڑکا عاشق مزاج ہے یہ جاذبہ محبت طریق سلوک میں بہت مفید ثابت ہوا میں نو سال کا تھا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ بکمال عنایت پیش آئے۔ اِن ہی ایام میں جب کبھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آتا تو ان کی صورت مبارک میرے سامنے آجاتی میں نے بار ہا ان کو چشمِ ظاہر سے دیکھا اور اپنے حال پر بہت مہربان پایا۔

ایک روز ایک شخص نے میرے والد ماجد کے سامنے ذکر کیا کہ قدمائے صوفیہ وحدت وجود کے قائل ہیں اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اُن کے خلاف وحدت شہود کو ترجیح دیتے ہیں اِسی اثنا میں میں نے دیکھا کہ ایک نور افتاب کی طرح چمکا اس میں حضرت مجدد صاحب ظاہر ہوئے اور میری طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہاں سے اُٹھ جاؤ۔ میں نے یہ واقعہ اپنے والد بزرگوار سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ غالب گمان یہ ہے کہ تم کو ان کے طریقہ سے فیض حاصل ہوگا ایک روز خرد سالی میں میرے والد مجھے اپنے پیر حضرت شاہ عبد الرحمٰن رحمہ اللہ کی خدمت میں لے گئے۔ شاہ صاحب سے کرامتیں ظاہر ہوتی تھیں۔ مگر نماز میں تساہل فرمایا کرتے تھے اس لیے مجھے ڈر تھا کہ مبادا میرے والد مجھے ان سے بیعت کرادیں کیوں کہ تارک سنت قابل اقتدا نہیں ایک دن میں نے پوچھا کہ حضرت عبد الرحمٰن نماز میں تساہل کس واسطے کرتے ہیں۔ والد ماجد نے فرمایا کہ اُن پر سُکر غالب ہے وہ معذور ہیں میں نے عرض کیا کہ ادائے نماز میں سُکر غالب ہوجاتا ہے مگر دوسرے امور میں ہشیار رہتے ہیں۔ اس سے میرے والد خفا ہوگئے اور فرمایا کہ خدا تعالےٰ نے تم کو فہم و ذکا اِس واسطے دیا ہے کہ میرے پیر پر اعتراض کرو۔ یہ سُن کر میرے دل سے بیعت کرنے کا کھٹکا نکل گیا۔

والد ماجد کی وصیت:

حضرت میرزا فرماتے ہیں کہ جب میری عمر سولہ سال کی ہوئی تو میرے والد بزرگوار نے اس جہان سے انتقال کیا اور مرتے وقت وصیت کی کہ کسب کمالات کے لیے اوقات کو بدستور منضبط رکھنا اور عمر کو لا طائل اشغال میں صرف نہ کرنا۔ چنانچہ حسبِ وصیت میں نے اوقات کو علم و عمل اور صحبت احباب پر تقسیم کیا ہوا ہے۔

درویشوں کی زیارت کا شوق:

والد ماجد کے انتقال کے بعد ایک روز میرے احباب منصب موروثی شاہی کے حصول کے لیے مُجھے فرخ سیر بادشاہ کی ملاقات کو لے گئے اتفاقاً بادشاہ کو عارضہ زکام تھا۔ وہ دربار میں نہ آیا اُسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک درویش نے اپنے مزار سے نکل کر اپنی کلاہ میرے سر پر رکھ دی شاید وہ بزرگ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اس خواب سے منصب و جاہ کی رغبت دل میں بالکل نہ رہی اور درویشوں کی زیارت کا شوق غالب ہوا۔ جہاں کہیں میں کسی صاحبِ کمال کا نام سنتا اس کی زیارت کو جاتا۔ چنانچہ شیخ کلیم اللہ چشتی اور شاہ مظفر قادری اور شاہ غلام محمد موحد اور میر ہاشم جالیسری وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر مورد عنایات ہوا۔

بیعت و خلافت:

فرماتے ہیں کہ میں اٹھارہ سال کا تھا کہ ایک روز غریب خانہ میں احباب کا مجمع تھا کسی نے مجھ سے حضرت سید نور مُحمد بایونی قدس سرہ کے کمالات کا ذکر کیا ان کے اوصاف حمیدہ سنتے ہی میرا دل بے اختیار ان کی قدم بوسی کا مشتاق ہوگیا اور حاضرین مجلس کی ممانعت کے باوجود زیارت سے مشرف ہوا۔ مگر احباب کے انتظار کے خیال سے جلدی اُٹھنے کا قصد کیا اور عرض کیا کہ پھر حاضر خدمت ہوں گا اگرچہ حضرت سید کی عادت تھی کہ بغیر استخارہ مسنونہ کے کسی کو تلقین طریقہ نہ فرماتے تھے مگر اُس وقت بغیر درخواست کے مجھ سے فرمایا کہ آنکھ بند کرکے قلب کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور ایک ہی توجہ میں میرے لطائف خمسہ کو ذاکر بنا کر رخصت کردیا۔ آپ کی توجہ کی تاثیر نے باطن کو ایسا متاثر کردیا کہ دوسرے روز صبح کو جو میں نے حضرت سید کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا اور حسبِ عادت آتے وقت اپنی صورت دیکھی تو بعینہٖ حضرت سید کی صورت پائی اس سے محبت و عقیدت زیادہ ہوگئی۔ بالجملہ چار سال میں آپ نے معاملہ کو ولایت علیا تک پہنچا دیا اور مجھے اجازت مع خرقہ عطا فرمائی اور وصیت فرمائی کہ عقیدہ اہلِ سنت وجماعت پر قائم رہنا اور سنت پر عمل اور بدعت سے پرہیز کرنا اس کے بعد حضرت میرزا چھ سال تک حضرت سید کے مزار پر جاتے رہے اور تجلیات مسمیٰ اسم الباطن تک ترقی کرگئے لیکن حضرت سید نے آپ کو بار بار واقعہ میں فرمایا کہ کمالات الٰہی بے نہایت ہیں۔ اپنی عمر متناہی کو طلب میں صرف کرنا چاہیے قبور سے استفادہ معمول نہیں۔ کسی زندہ بزرگ سے مقامات قرب کی تحصیل کرنی چاہیے۔

مقامات قرب کی تحصیل:

چنانچہ اِس ارشاد کی تعمیل میں حضرت میرزا نے بزرگانِ وقت کی خدمت کی طرف رجوع کیا پہلے شاہ گلشن رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جو شیخ محمد عبدالاحد وحدت کے خلیفہ تھے۔ شاہ موصوف نے فرمایا کہ تمہیں شیخ زمانہ بننا ہے فقیر آداب طریقہ کا چنداں پابند نہیں۔ کبھی کبھی سماع بھی سنتا ہے اور کبھی نماز بے جماعت پڑھتا ہے تم کسی اور جگہ جاؤ اس لیے آپ حضرت خواجہ محمد زبیر قیوم رابع کی خدمت میں پہنچے خواجہ موصوف نے آپ کے حال پر بہت توجہ فرمائی اور اپنے لڑکے سے فرمایا کہ ایسے بزرگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو آداب ظاہر و انوار باطن سے آراستہ ہیں۔ حضرت میرزا ان سے قدم بوس ہوئے تو فرمایا کہ تم ہمارے ہی ہو اس طریقہ میں صحبت شرط ہے تمہارا مکان دور ہے تم ہر روز حاضر نہیں ہوسکتے جو نسبت تم کو حضرت سید سے پہنچی ہے اصیل ہے اُس کی بہت حفاظت کرنی چاہیے اور یہی کافی ہے بعد ازاں آپ حضرت حاجی محمد افضل کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہوں نے اخذ طریقہ حضرت حجۃ اللہ محمد نقشبندی سے کیا تھا۔ حضرت حاجی نے فرمایا کہ تم نے سلوک برسبیل بصیرت کیا ہے اور تمہیں کشف مقامات بھی ہے ہمیں چنداں کشف و علم مقامات نہیں اس لیے استفادہ بوجہ احسن نہیں ہوسکتا اگرچہ حضرت میرزا نے بطریق توجہ اُن سے استفادہ نہیں کیا مگر سبق حدیث کے ضمن میں ان کے باطن سے فیوض پہنچے تھے۔

بعد ازاں آپ حضرت حافظ سعد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو حضرت محمد صدیق بن خواجہ محمد معصوم کے خلیفہ تھے حضرت حافظ نے آپ کو استخارہ کا حُکم دیا۔ استخارہ میں اجازت معلوم ہوئی آپ بارہ سال اُن کی خدمت میں رہے اور بہت سے فوائد حاصل کیے اس کے بعد آپ نے شیخ الشیوخ شیخ محمد عابد سنامی خلیفۂ حضرت شیخ عبد الاحد سرہندی کی طرف رجوع کیا۔ حضرت شیخ کی توجہات سے آپ نے کمالات ثلاثہ و حقائق سبعہ وغیرہ سات سال میں ختم کیے۔

بعد ازاں حضرت شیخ نے ایک سال میں دو بارہ ابتدا سے انتہا تک بطریق سیر مرادی تمام مقامات پر عبور کرایا جس سے ہر مقام کی کیفیات و حالات میں زائد قوت بہم پہنچی حضرت میرزا فرماتے ہیں کہ ولایات میں واردات توحید کے ظہور سے جو ذوق و شوق اور احوال و مواجید تھے ان مقامات میں وہ سب زائل ہوگئے اور عشق ع محبت کا جوش و خروش جو تجلیات صفات کے سبب سے تھا وہ تجلیات ذاتی کے غلبہ میں مضمحل ہوگیا اور نسبت عینیت و اتحاد مسلوب ہوگئی اور بغیر نسبت عبودیت کے کچھ نہ رہا۔ اس مقام کے معارف و حقائق اسلام کے عقائد حقہ اور شرائع احکام اور برد یقین[۱] اور اتصال بے کیف اور احوال بے رنگ اور لطافت نسبت ہیں ان مقامات میں ہر مرتبہ میں بے کیفی و بے رنگی حاصل ہوئی اور فیض جو مقامات سافلہ میں مثل بڑے بڑے قطرے والی بارش کے تھا یہاں لطیف ہوگیا اور خر میں مثل شبنم کے رہ گیا نہایت بیرنگی کے سبب سے حضرت شیخ کی تو جہات کی برکتیں کم محسوس ہوتی تھیں بلکہ آخر کار ان کی صحبت شریف میں ایک طرح کی صفائی حاصل ہوتی تھی اور کوئی ذوق و کیفیت نہ رہی میں نے حضرت شیخ سے شکایت کی فرمایا کچھ اندیشہ نہ کرنا چاہیے فیضانِ الٰہی برابر پہنچتا ہے اگرچہ نہایت بیرنگی کی وجہ سے ادراک میں نہیں آتا جو حوض کہ پرنالہ سے پر ہوتا ہے جب تک وہ خالی ہوتا ہے پانی کے گرنے کی آواز معلوم ہوتی رہتی ہے مگر جب لبریز ہوجاتا ہے اُس میں پانی آتا رہتا ہے لیکن آواز پیدا نہیں ہوتی حضرت میر زا کا قول ہے کہ حضرت شیخ کی تو جہات سے میری نسبت باطنی میں ایسا طول و عرض پیدا ہوگیا کہ نظر کشفی اس سے قاصر ہے اور تسلیک مقامات طریقہ میں وہ قوت حاصل ہوئی کہ جس کا اظہار باعث خود پسندی ہے حضرت شیخ نے اپنے بعض اصحاب کی تربیت فقیر کے حوالہ کی فقیران کو مقامات طریقہ کی نہایت تک پہنچا کر آپ کی خدمت میں لے گیا آپ نے فرمایا کہ انہوں نے ہر مقام کے حالات و کیفیات جو تم سے حاصل کیے ہیں صحیح ہیں۔ ایک روز آپ نے بیان کیا کہ کل رات اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ کمالات جدیدہ اور فیوض تازہ عطا فرمائے کہ کمالات سابقہ ان کے مقابلہ میں کوئی اعتبار نہیں رکھتے فقیر نے عرض کیا کہ اُس عطیہ کے وقت اِس قدر رات باقی تھی اُس وقت بندہ نے بھی آپ کی محبت کی برکت سے اپنے باطن میں احوالِ عجیبہ محسوس کیے آپ نے فرمایا کہ تم سچ کہتے ہو تم کو ہمارا ضمنی بنایا ہے فیوض و برکات جو ہمیں عطا ہوتے ہیں اُن میں سے تمہیں بھی حصہ ملتا ہے ایک روز بندہ نے خاندان قادری کی اجازت کے لیے آپ سے عرض کیا فرمایا کہ یہ اجازت ہم تمہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ سے لے دیتے ہیں چنانچہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ گئے۔

[۱۔ برد یقین ایک مقام ہے جو کمالات نبوت میں حاصل ہوتا ہے برد کے معنی خنکی کے ہیں۔ یعنی یقین کی خنکی وراحت وہاں حاصل ہوتی ہے اور امر استدلالی کشفی ہوجاتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قیامت کا آنا اور سوال منکر و نکیر وغیرہ جو دلائل سے ثابت ہیں وہاں محبت و برہان کی حاجت نہیں رہتی۔]

آپ کے حکم سے بندہ نے بھی مراقبہ کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضور حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم مع اصحاب عظام و اولیائے کرم رضی اللہ تعالیٰ عنہم ایک بارگاہِ عالی میں رونق افروز ہیں اور حضرت غوث الثقلین حضور پُرنُور میں کھڑے ہیں حضرت شیخ نے عرض کیا کہ میرزا جانجا ناں خاندان قادریہ کی اجازت کے اُمیدوار ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس معاملہ میں سید عبد القادر سے عرض کرو۔

چنانچہ اُن سے عرض کیا گیا اُنہوں نے حضرت شیخ کی عرض قبول فرما کر بندہ کو اجازت مع خرقہ عطا فرمائی اور بندہ نے اپنے باطن میں نسبت قادریہ کی برکات محسوس کیں اور میرا سینہ اس نسبت کے انوار سے لبریز ہوگیا نسبت نقشبندیہ میں اضمحلال و بودگی زیادہ ہے اور نسبت قادریہ میں لمعان انوار زیادہ ہے حضرت میرز کو حضرت شیخ سے طریقہ چشتیہ و سہروردیہ کی بھی اجازت تھی۔

مقام و مرتبہ:

حضرت میرزا فرماتے تھے کہ فقیر ابراہیمی المشرب تھا حضرت شیخ نے تصرف باطنی سے محمد المشرب بنادیا۔ جن دونوں میں آپ نے فقیر کو حقیقت محمد کو بشارت دی اور اس مقام کے انوار میں فنا حاصل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فقیر کے سامنے بیٹھے ہیں پھر دیکھا کہ حضور انور بندہ کی جگہ تشریف رکھتے ہیں پھر دیکھا کہ دونوں جگہ میں بیٹھا ہوں اِس سے حضرت میرز کی علوشان ظاہر ہے۔

فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر تھا کہ فقیر کے بارے میں فرمایا کہ دو آفتاب ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں مگر انوار کی غایت درجہ کی روشنی کے سبب سے ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہوسکتا اگر طالبانِ خدا کی تربیت کی طرف متوجہ ہوں گے تو ایک عالم کو منور کردیں گے اسی طرح ایک روز نہایت تواضع سے فقیر کے زانو کو بوسہ دے کر فرمایا کہ تمہاری مثل میرے مُریدوں میں کوئی نہیں ایک روز فرمایا کہ تمہیں خدا و رسول کے ساتھ نہایت محبت ہے تمہاری تو جہات سے ہمارا طریقہ رائج ہوگا جناب الٰہی سے تمہارا لقب شمس الدین حبیب اللہ عطا ہوا ہے ایک روز حضرت سید نے بندہ کی جوتیاں سیدھی کرکے رکھیں اور فرمایا کہ تمہیں درگاہِ الٰہی میں قبولیت تمام حاصل ہے۔ حضرت حاجی محمد افضل بندہ کی تعظیم کے لیے سیدھا کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہاری نسبت کے کمالات کی تعظیم کرتا ہوں اور بار بار فرماتے کثر اللہ امثالکم(اللہ تم سے بزرگ بکثرت کردے)۔ حضرت حافظ سعد اللہ بندہ کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تم میرے قبلہ گاہ کی جگہ ہو ایک دفعہ بندہ نے صاحبزادوں میں سے ایک کی زبانی جو سرہند شریف کو جارہا تھا۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی جناب میں سلام کہلا بھیجا۔ اُس صاحبزادے کا بیان ہے کہ جب میں نے تمہارا سلام مزار مبارک پر عرض کیا تو حضرت مجدد نے اپنا سر مبارک سینہ تک مزار سے نکالا اور کمال اشتیاق سے دریافت کیا کہ کونسا میرزا؟ ہمارا دیوانہ و شیفتہ؟ علیک وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا کشف صحیح عطا کیا ہے کہ روئے زمین کے تمام حالات ہم سے پوشیدہ نہیں اور ہتھیلی کے خطوط کی مانند عیاں ہیں اس وقت میں حضرت میرزا جانجاناں کا مثل کسی اقلیم و شہر میں نہیں جس شخص کو سلوک مقامات کی آرزو ہو وہ ان کی خدمت میں جائے چنانچہ بادشاہ صاحب نے حسب الامر حضرت میرزا کی خدمت میں استفادہ کے لیے رجوع کیا۔

فیوض و برکات:

حضرت میرزا پورے گیارہ سال حضرت شیخ محمد عابد قدس سرہ کی خدمت میں رہے حضرت شیخ(متوفی ۱۸ رمضان ۱۱۶۰ھ) کے بعد آپ نے مسند خلافت کو زینت بخشی۔ طالبانِ خدا نے ہر طرف سے آپ کی طرف رجوع کیا حضرت شیخ کے بڑے بڑے اصحاب اور مشائخ وقت کے اردت مندوں نے آپ سے استفاہ برکات کیا علماء و صلحاء کسب فیوض کے لیے آپ کی خانقاہ میں جمع ہوگئے اور آپ کے کمالات کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی اوائل حال میں آپ کی توجہ کی تاثیر سے لوگوں میں بے تابی پیدا ہوجاتی اور کمال استغراق کے سبب سے بے خود ہوجایا کرتے اور جاذبہ محبت سے قطع مقامات کیا کرتے آخر میں جب آپ کے باطن میں جمیعت و اطمینان پاکر درجات قرب پر پہنچ جاتے اور اسرار طریقت پر آگاہ ہوجاتے طالبوں کی تہذیب نفوس جیسا کہ آپ کی خدمت میں ہوتی تھی بزرگانِ سلف ہی کے وقت میں کبھی ہوتی ہوگی۔ مشائخ کرام آپ کی نسبت فرماتے تھے کہ جو فیض طالب خدا کو فقط آپ کی صُحبت سے پہنچتا ہے وہ دوسروں کی ہمت و توجہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا چنانچہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے گیا حضرت خواجہ نے دیکھتے ہی فرمایا کہ تم شاید حضرت میرزا کے مُرید ہوگئے ہو کیوں کہ تمہارا باطن نسبت مجددیہ کے انوار سے معمور ہے۔ اُس نے عرض کیا کہ نہیں میں تو صرف ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ فرمایا۔؎

آہن کہ بپارس آشنا شُد
فی الفور بصورت طلا شُد

اللہ تعالیٰ نے حضرت میرزا کو ارشاد و القائے نسبت میں وہ قوت عطا فرمائی تھی کہ آپ کی غائبانہ تو جہات سے لوگ دور دراز شہروں میں گھر بیٹھے ترقیات حاصل کرتے تھے جو حالات حاضرین خدمت پروارد ہوتے اُن کو مسافت بعیدہ پر حاصل ہوجاتے چنانچہ شاہ بھیک نبیرۂ شیخ عبد الاحد کابل میں تھے آپ نے دہلی سے غائبانہ توجہ فرما کر اُن کو مقامات عالیہ پر پہنچا دیا اِسی طرح حضرت مولوی احمد اللہ فرزند حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی کو دہلی سے پانی پت میں غائبانہ توجہ فرمایا کرتے چنانچہ ایک مکتوب میں اُن کو یوں لکھتے ہیں ہر روز در حلقہ صبح اول توجہ بشمامے شود۔ ودر کمالات نبوت د خول ظاہر مے گردد از خوبی استعداد شماست۔

بمقتضائے عموم الطاف آپ کی عادت تھی کہ سالک ابھی ایک مقام کو پورے طور پر طے نہ کرنے پاتا تھا کہ بطریق طُغرہ اُس سے اعلیٰ مقام پر واصل فرما کر ادنے التفات سے وہاں کے حالات و کیفیات اُس پر القا فرمادیتے تاکہ ہر مقام سے منسابت پیدا کرکے بطور خود کثرت ذکر و مراقبہ سے کام کو انجام تک پہنچادے اور مقامات عالیہ کے انوار و برکات سے بہرہ ور ہوجائے چنانچہ آپ کے خلیفہ حضرت محمد احسان مقام جذبہ کی شورش و بیتابی سے ارباب حلقہ کی جمیعت و طمانیت میں خلل انداز ہوا کرتے آپ نے ان کو برسبیل طغرہ اُس سے اعلیٰ مقام میں پہنچا دیا کہ جس کا مقتضا اطمینان و تکسین باطن ہے پس وہ اضطراب و شورش نہ رہی اور ان کی باطنی نسبت پر دوسرے طرز سے حالات وارد ہونے لگے۔

آپ کی ہمت عالی اِس پر مصروف تھی کہ طیرقہ احمدیہ عالم میں مروج ہوجائے اور طریقہ مجددیہ کی نسبتوں سے جہان منور ہوجائے چنانچہ ہزار ہا آدمی آپ سے بیعت ہوکر دوام ذکر خدا میں مشغول ہوگئے اور قریب دوسو آدمیوں کے اجازت تعلیم طریقہ پاکر ہدایت خلق میں مشغول ہوئے اور ان میں سے پچاس مقامات احمدیہ کی نہایت کو پہنچ کر ارباب طریقہ کے مقتدا بن گئے غرض یہ کہ حضرت میرزا تیس سال اپنے مشائخ کی خدمت میں کسب انوار و برکات کرکے غایت کمال و تکمیل کے مرتبہ پر پہنچ گئے اور ۳۵ سال طالبان خدا کی تلقین میں مشغول رہ کر نیک آثار صفحہ روزگار چھوڑ گئے۔ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔

زہد و توکل:

حضرت میرزا کمال زُہد و توکل سے متصف تھے اور دنیا و اہلِ دنیا کی کچھ پروانہ کرتے تھے اور دنیا داروں کے ہدیے قبول نہ فرماتے۔

ایک دفعہ محمد شاہ بادشاہ نے اپنے وزیر قمر الدین کی زبانی کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ملک عطا فرمایا ہے جس قدر دل مبارک میں آئے بطور ہدیہ قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ارشادِ باری تعالیٰ یوں ہے۔ ’’قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ہفت قلیم کی متاع کو قلیل فرمایا ہے تمہارے پاس اِس قلیل کا ساتواں حصہ یعنی ایک اقلیم ہندوستان ہے اس میں سے کیا قبول کروں۔

ایک امیر نے ایک حویلی اور خانقاہ تیار کرکے اور فقراء کی وجہ معاش مقرر کرکے آپ کی خدمت میں عرض کیا آپ نے قبول نہ فرمایا اور جواب دیا کہ چھوڑنے کے لیے اپنا اور بیگانہ مکان برابر ہیں اور ہر شخص کی روزی جو علم الٰہی میں مقّدر ہے وقت پر اُس کو ضرور مل جاتی ہے فقیروں کا خزانہ صبر و قناعت کافی ہے۔

ایک دن سخت جارے میں آپ ایک پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے نواب خاں فیروز جنگ حاضر تھا یہ حال دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اُس نے اپنے ایک مصاحب سے کہا کہ ہم گنہگاروں کی یہ کیسی بدبختی ہے کہ وہ بزرگ جن کی خدمت میں ہمیں ارادت و بندگی ہے ہماری نیاز قبول نہیں کرتے۔ حضرت نے فرمایا۔؎

ہزار حیف کہ گل کردہ بینوائی ما
بچشم آبلہ آمد برہنہ پائی ما

فقیر نے روزہ رکھا ہوا ہے کہ امیروں کی نیاز قبول نہ کروں گا۔ اب کہ آفتاب غروب کے قریب پہنچ گیا ہے اگر میں اپنا روزہ توڑ دوں تو مجھے دس لاکھ روپیہ چاہیے کہ ہمسایہ عورتوں کی دیگ گرم ہوجائے۔

نواب نظام الملک نے تیس ہزار روپیہ بطور نیاز پیش کیا آپ نے قبول نہ فرمایا نواب نے عرض کیا کہ آپ راہِ خدا میں تقسیم فرمادیں فرمایا کہ میں تمہارا خانسا ماں نہیں یہاں سے تقسیم کرنا شروع کردو گھر تک ختم ہوجائے گا اِسی طرح ایک افغان سردار نے تین سو اشرفیاں بھیجیں آپ نے واپس کردیں فرماتے تھے کہ اگرچہ ہدیہ کے ردّ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے لیکن اُس کے قبول کرنے کو واجب بھی نہیں بتایا گیا جو مال کہ یقینی طور پر حلال ہو اُس کے لینے میں برکت ہے فقیر اپنے اصحاب کے ہدیے جو اخلاص سے لاتے ہیں قبول کرلیتا ہے امیروں کا مال اکثر مشتبہ ہوتا ہے اور لوگوں کے حقوق اُس سے متعلق ہوتے ہیں قیامت کے دن اُس کا حساب دینا دشوار ہوگا ترمذی شریف میں یہ حدیث ہے۔

لا تذول قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ حتی یسأل عن خمس عن عمرہ فیما افناہ وعن شبابہ فیما ابلاہ وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما انفقہ وماذا عمل فیما علم۔[ا]

[۱۔ اس حدیث کا اردو ترجمہ اِس کتاب کے اخیر میں اربعین صوفیہ میں دیکھو۔]

اس لیے ہدایا کے قبول کرنے میں تامل ضروری ہے۔

ایک دفعہ ایک امیر نے آموں کا ہدیہ آپ کی خدمت میں بھیجا آپ نے واپس کردیا۔ اُس نے بڑی منت سماجت کے ساتھ دوبارہ بھیجے آپ نے دو آم رکھ لیے اور باقی واپس کردیے اور فرمایا کہ فقیر کا دل اِس ہدیہ کے قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اُسی وقت ایک باغبان آپ کی خدمت میں شکایت لایا کہ فلاں امیر نے میرے آم ظلم سے لے لیے۔ اُن میں سے کچھ آپ کی خدمت میں بھیجے ہیں۔ میری مدد کیجیئے آپ نے فرمایا۔ سبحان اللہ! یہ ناعاقبت اندیش لوگ مغضوبہ ہدیوں سے فقیر کا باطن سیاہ کرنا چاہتے ہیں۔

آپ امیروں کے گھر کا کھانا بھی نہ کھایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان لوگوں کے کھانے کی ظلمت باطنی نسبت کو مکدر کردیتی ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ’’شر الطعام طعام الاغنیاء‘‘ (سب سے بُرا کھانا امیروں کا کھانا ہے)۔ بلکہ غریبوں کی ضیافت قبول کرنے میں بھی تامل کیا کرتے تھے بدیں خیال کہ لوگ بوجہ بے سامانی سودی قرضہ لے کر ضیافت کرتے ہیں۔ ایک دفعہ روزہ افطار کرنے کے وقت آپ نے کسی غیر کے گھر کی ایک روٹی یاروں میں تقسیم فرمائی اور خود بھی اُس کا ایک ٹکڑا تناول فرمایا نماز تراویح کے بعد یاروں سے فرمایا کہ تم اپنے باطن کا حال دیکھ کر بتاؤ کہ اُن ٹکڑوں نے باطنی نسبت میں کیا اثر کیا ہے۔ آپ کے ایک خادم نے عرض کیا کہ آپ نے بھی تناول فرمایا ہے پہلے آپ ہی فرمائیں اس پر آپ نے فرمایا کہ فقیر کا باطن تو سیاہ ہوگیا تھا مگر نماز پڑھنے اور قرآن شریف سننے سے بحال ہوگیا خادم نے عرض کیا کہ جب مشتبہ لقمہ کی کدورت نے آپ کے باطن مبارک اور دریائے انوار میں تغیر پیدا کردیا ہے تو ہم سے تنگ باطنوں کے حال کی خرابی کا کیا ذکر ہے فرمایا کہ لقمہ ہی سے توفیق رفیق ہوتی ہے اور نورِ طاعت زیادہ ہوتا ہے۔

آپ نے غنا پر فقر کو اختیار کیا تھا اور صبر و قناعت پسند کرکے تسلیم و رضا کو اپنا شیوہ بنایا ہوا تھا۔ اپنے اصحاب کے لیے بھی یہی دعا فرمایا کرتے کہ یہ اِس قدر امیر نہ ہوں کہ اسراف میں مبتلا ہوجائیں اور نہ اس قدر غریب ہوں کہ قرض لینے کی نوبت پہنچے۔ فرماتے کہ میں اپنے اوقات و اعمال حدیث و فقہ کے مطابق درست کرلیے ہیں جو شخص ہمارا کوئی عمل خلافِ شرع دیکھے ہمیں آگاہ کردے۔

سنتِ مطہرہ سے محبت:

آپ لوگوں کو سنت کے موافق سلام کرنے کی تاکید کرتے تھے اور جھک کر سلام کرنے اور ہاتھ سر پر رکھنے سے منع فرماتے تھے اپنے مشائخ خصوصاً حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی محبت میں سرشار تھے اور فرماتے تھے کہ فقیر کو جو کچھ ملا ہے اپنے پیروں کی محبت سے ملا ہے بندہ کے اعمال کیا ہیں کہ بارگاہِ الٰہی کے قرب کا باعث ہوں مقبولان و مقربان خدا کی محبت سب سے قوی ذریعہ قبولیت خدا کا ہے۔

شانِ بے نیازی:

آپ ہر ایک سے تواضع اور کشادہ پیشانی سے پیش آتے تھے او بزرگوں اور پرہیزگاروں کی تعظیم حسبِ مراتب کیا کرتے تھے آپ عمر بھر کسی کا فرا میر یا غریب کی تعظیم کے لیے نہیں اُٹھے ایک بار آپ نے سُنا کہ سردار مرہٹہ آپ کی زیارت کے لیے آتا ہے آپ مجلس سے اُٹھ کر کسی کام کے لیے حجرے میں چلے گئے جب وہ آکر بیٹھ گیا تو نکل آئے اور جب دیکھا کہ اُٹھنے کو ہے تو حُجرے میں تشریف لے گئے کیوں کہ اگر اس کی تعظیم نہ کرتے تو وہ ناراض ہوتا اور اگر کرتے تو دین کا نقصان تھا ایک دفعہ ایک بزرگ آپ کو اجازت اعمال حب و بغض و طے ارض و دست غیب و تسخیر سلاطین بغیر شرط اداے زکوٰۃ اور ایک سیر اکسیرزر خالص دیتا تھا۔ آپ نے قبول نہ کیا۔ کیوں کہ احتمال تھا کہ نسبت باطن ریا سے ملوث ہوجاتی اور اسباب دنیا کے ساتھ نسبت بھی تھی۔ طالبوں میں سے جس کا میلان ایسے اعمال و کیمیا کی طرف دیکھتے اُس سے ناخوش ہوتے اور فرماتے کہ ان کو کیا مصیبت آئی ہے کہ توکل و استغنا کو چھوڑ کر مزخرفات فانیہ کی طرف مائل ہیں۔

فرمایا کہ ایک دفعہ ایک رافضی نے جناب امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کا کلمہ منہ سے نکالا بوجہ محبت دینی و احترام اصحاب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مجھے غصہ آگیا میں نے اُس بے ادب کی سزا کے لیے خنجر نکالا وہ گھبر کر کہنے لگا کہ واسطہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معاف کیجیے حضرت امام کا نام سنتے ہی میرا غصہ جاتا رہا اور میں نے در گزر کیا۔

مکاشفات و کرامات

حضرت میرزا اپنے وقت میں دیگر مشائخ خاندان سے اس امر میں ممتاز تھے کہ آپ کا کشف مقامات آلہیہ صحیح و مطابق نفس الامر ہوتا تھا اور طالبوں کو طریقہ مجددیہ کے مقامات کی غایت تک سلوک طے کراتے تھے آپ اپنے مُریدوں کو مقامات عالیہ کی بشارتیں دیا کرتے تھے اس پر بعض افغانوں نے دل میں انکار کیا۔ آپ نے نورِ فرست سے دریافت کرکے فرمایا کہ اگر تم کو اعتبار نہیں ہے تو گزشتہ اکابر دین میں سے کسی کو مقرر کرلو تا کہ اُس کی رُوح ظاہر ہوکر اِن بشارتوں کے صحیح ہونے کی شہادت دے انہوں نے عرض کیا کہ اگر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق فرمائیں تو یہ تصدیق مقبول ہے آپ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فاتحہ پڑھ کر مع اصحاب جناب مقدس کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ گئے اور اُس توجہ میں سب کو غیبت حاصل ہوئی حضور سرور کائنات علیہ وآلہٖ افضل الصلوات والتسلیمات نے ظاہر ہوکر منکرین کو سرزنش کی۔ اور فرمایا کہ میرزا صاحب کی بشارتیں سب صحیح ہیں۔

گمشدہ کی واپسی:

محمد قاسم کے بھائی نے حضرت میرزا سے عرض کیا کہ محمد قاسم عظیم آباد میں قید ہوگیا ہے اُس کی رہائی کے لیے توجہ فرمائیں آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ وہ قید نہیں ہوا دلالوں کے ساتھ کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ خیریت گزری اُس نے ایک خط اپنے گھر بھیجا ہے کل یا پرسوں پہنچ جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

غیب کی خبر:

حضرت کے خلیفہ غلام مصطفےٰ خاں ی زوجہ غائبانہ آپ کی توجہ میں بیٹھا کرتی تھی اور ہر روز ایک شخص کو اطلاع کے لیے آپ کی خدمت شریف میں بھیج دیتی ایک روز اُس شخص نے بلا اجازت آکر عرض کیا کہ بی بی صاحبہ توجہ کی منتظر بیٹھی ہیں آپ نے کُچھ دیر خاموش رہ کر فرمایا جھوٹ نہ بول تو بلا اجازت آیا ہے وہ ابھی سو رہی ہے۔ اُس شخص نے اپنے قصور کا اعتراف کیا۔

کفر کی ظلمت:

ایک روز خلیفہ غلام حسن کو آپ نے توجہ کے بعد فرمایا کہ شاید تونے کفار کی پرستش کا طعام کھایا ہے کہ تیرے باطن سے کفر کی ظلمت معلوم ہوتی ہے اُس نے عرض کیا کہ میں نے ہندو کے ہاتھ سے کچھ کھالیا۔ یہ میری باطنی کدورت اِسی سبب سے ہے۔

راستے سے واپسی:

اپ نے اپنے خلیفہ مولوی غلام محی الدین کو رخصت کے وقت فرمایا کہ تمہارے آگے ایک دیوار نظر آئی ہے۔ شاید راستے میں سے واپس آجاؤ چنانچہ چند ماہ کے بعد راستے سے واپس آگئے۔

دلوں کا جاننا:

حضرت میرزا فرماتے تھے کہ میں یاروں کے دلوں کے خطرات کو خود یاروں کی نسبت زیادہ جانتا ہوں ایک خادم نے عرض کیا کہ آپ بتا کیوں نہیں دیتے فرمایا کہ یہ بات پردہ داری سے جو ستاری کے وصف کا ظل ہے بعید معلوم ہوتی ہے۔ خلیفہ محمد احسان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سے اپنے بیٹے کے نام رکھنے کے لیے عرض کیا اور میرے دل میں آیا کہ اگر آپ محمد حسن نام تجویز فرمائیں تو مجھے پسند ہے۔ اِس خطرہ کے آتے ہی آپ نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے لڑکے کا نام محمد حسن رکھ دیا اسی طرح غلام عسکری خان کا بیان ہے کہ حضرت نے میرے دل کے خطرہ پر آگاہ ہوکر میرے بیٹے کا نام غلام قادر رکھا۔

عذاب قبر سے نجات:

ایک روز حضرت ایک فاحشہ عورت کی قبر پر مراقبہ میں بیٹھ گئے فرمایا کہ اُس کی قبر میں دوزخ کی آگ شعلہ زن ہے اور وہ عورت شعلوں کے ساتھ اوپر جاتی ہے اور نیچے آتی ہے اُس کے ایمان میں مُجھے شک ہے مگر کلمہ طیب کا ختم اُس کو روح کو بخشتا ہوں۔ اگر ایمان کے ساتھ مری تو بخشی جائے گی چنانچہ کلمہ طیب کے ختم کا ثواب پہنچا کر فرمایا کہ الحمد اللہ ایمان کے ساتھ مری تھی اس کلمہ کی برکت سے عذاب سے نجات پاگئی۔

قبر کا حال:

ایک بے ادب شخص نے حضرت کے مکشوفات سے انکار کرکے بطور امتحان عرض کیا کہ یہ میرے ایک یار کی قبر ہے۔ اِس کا حال دریافت کیجیئے۔ آپ نے سکونت کے بعد فرمایا کہ جھوٹ نہ بول یہ تو ایک عورت کی قبر ہے تمہاری یار کی نہیں۔

شفا کا وقت:

میر علی اصغر کی ماں بیمار تھی۔ جب حضرت اُس کے مرض کے سلب کرنے میں متوجہ ہوئے تو الہام ہوا کہ ابھی شفا کا وقت نہیں آیا آپ چند روز اپنے دو لت خانہ میں رہے۔ مریضہ بڑے فاصلہ پر تھی آپ نے الہام سے فرمایا کہ اُس کی صحبت کا وقت آگیا ہے اور غائبانہ اُس کی صحت کے لیے توجہ کی تو وہ فوراً تندرست ہوگئی۔

قبولیت دُعا:

حضرت کا ایک پڑوسی شدت مرض سے جان بلب تھا آپ نے دعا کی کہ الٰہی اُس کی موت کے غم کی تاب نہیں اُسے شفا عطا فرما۔ یہ دُعا قبول ہوگئی اور وہ پڑوسی دو تین روز میں تندرست ہوگیا۔

لڑکے کی بشارت:

ایک روز جب حضرت مراقبہ سے فارغ ہوئے تو غلام عسکری خاں کی والدہ نے آپ کا دامن پکڑلیا۔ اور عرض کیا کہ جب تک آپ میری لڑکی کے بارے میں لڑکے کی بشارت نہ دیں گے آپ کا دامن نہ چھوڑوں گی حضرت نے کچھ سکوت کے بعد فرمایا کہ خاطر جمع رکھو اللہ تعالیٰ تمہاری لڑکی کو لڑکا عطا کرے گا۔ بعنایات الٰہی ایسا ہی وقوع میں آیا۔

بارش میں سفر:

فرماتے تھے کہ ایک روز ہم بغیر زاد اور راحلہ کے سفر کر رہے تھے اللہ تعالیٰ ہر منزل میں بیگانوں کے ہاتھ سے سامان ضروری مہیا کردیتا تھا اچانک راستے میں سخت بارش اُتری۔ ہوا سرد تھی ساتھیوں کو تکلیف ہوئی میں نے دعا کی یا الٰہی ہمارے گردا گرد برسے۔ اور ہم مع ساتھیوں کے منزل پر خشک پہنچ جائیں۔ چنانچہ اِسی طرح واقع ہوا۔

حضرت میرزا کے کشف و کرامات بہت ہیں ہم نے یہاں صرف چند ایک نقل کردینے پر اکتفا کیا ہے۔ کیوں کہ عمدہ کرامت حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر استقامت اور طالبوں کو قربِ خدا کے مراتب پر پہنچانا ہے اور حضرت سے اِس طرح کی کرامتوں کا ظہور اظہر من الشّمس ہے۔

وصال مُبارک:

جب حضرت میرزا کی عمر اسی سے متجاوز ہوگئی تو آپ پر رفیق اعلیٰ کا شوق غالب ہوا۔ آپ نے اپنے خلیفہ ملا نسیم کو اُس کےوطن کی طرف رخصت کرتے وقت فرمایا کہ اِس کے بعد ہماری تمہاری ملاقات معلوم نہیں ہوتی۔ یہ سُن کر آپ کے خُدام بہت روئے۔ ایک روز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اظہار میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت سے فقیر کے دل میں کوئی ایسی آرزو نہیں چھوڑی جو حاصل نہ ہوئی اُس قادر مطلق نے فقیر کو اسلام حقیقی سے مشرف کیا علم سے حصہ و افردیا۔ نیک عمل پر استقامت بخشی لوازم طریقہ یعنی کشف و تصرف و کرامت عنایت کیے۔ صالحین کو کسب فیوض کے لیے بندہ کے پاس بھیجا اور ان کو مقامات طریقہ پر پہنچا کر اپنے رستے کی ہدایت کے لیے مقرر کیا دنیا اور اہلِ دنیا سے علیحدہ رکھا اور دل میں ماسوا کی گنجائش نہ چھوڑی اب سوائے شہادت ظاہری کے کوئی آرزو باقی نہیں فقیر کے اکثر بزرگ شہید ہوئے ہیں مگر فقیر نہایت کمزور ضعیف ہے اور قوت جہاد نہیں رکھتا بظاہر اِس مرتبہ کا حصول مشکل ہے اُس شخص سے تعجب ہے جو موت کو دوست نہیں رکھتا موت ہی بقائے الٰہی کا باعث ہے موت ہی جناب رسالت مآب علیہ افضل الصلوات والتحیات کی زیارت کا سبب ہے موت ہی اولیائے کرام کا دیدار کرادیتی ہے موت ہی عزیزوں سے ملادیتی ہے فقیر اکابر دین کی ارواح طیبہ کی زیارت کا مشتاق ہے اور نہایت آرزو مند ہے کہ دیدار حضور مصطفےٰ و خلیل علیہا الصلوت و التسلیمات سے مشرف ہوجائے اور امیر المومنین صدیق اکبر و امام حسن مجتبے و سید الطائفہ حضرت جنید و حضرت خواجہ نقشبند و حضرت مجدد رضی اللہ تعالیٰ عنہم اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ آرزو بھی پوری کردی اور درجہ شہادت پر پہنچادیا۔ آپ اِس ظاہری شہادت کو باطنی یعنی مرتبہ فنانی اللہ کے ساتھ جمع کرکے درجات قربِ الٰہی میں اعلیٰ علیین پر پہنچ گئے۔

قصہ شہادت کی کیفیت یوں ہے کہ چار شنبہ کی رات بتاریخ ۷ محرم ۱۱۹۵ھ میں رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ چند آدمیوں نے حضرت کے دروازے پر دستک دی خادم نے عرض کیا کہ کچھ آدمی آپ کی زیارت کے لیے آئے ہیں فرمایا کہ آنے دو تین آدمی اندر آئے جن میں سے ایک ولات زادہ مغل تھا۔ حضرت خوابگاہ سے نکل کر ان کے برابر کھڑے ہوگئے مغل نے پوچھا کہ میرزا جانجاناں تم ہو۔ فرمایا کہ ہاں۔ دوسرے دو نے کہا کہ میرزا جانجاناں یہی ہیں۔ پس اُس بدبخت نے طمانچہ کی گولی ماری۔ جو آپ کے بائیں پہلو پر دل کے قریب لگی اور آپ بوجہ ناتوانی زمین پر گر پڑے لوگوں کو خبر ہوگئی جراح آگیا صبح کو نواب نجف خاں نے کہ وزیر شاہی تھا ایک فرنگی جراح بھیجا اور کہا کہ قاتل معلوم نہیں۔ اگر معلوم ہوگا تو قصاص جاری کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ارادہ الٰہی میں شفا ہے تو بہر صورت ہوجائے گی۔ دوسرے جراح کی ضرورت نہیں۔ اگر قاتل معلوم ہوجائے ہم نے معاف کردیا ہے تم بھی معاف کردینا۔ آپ تین دن زندہ رہے۔ اِس حالت میں اپنا یہ شعرا کثر پڑھا کرتے تھے۔؎

بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

غرض یہ کہ دسویں شب محرم کو کہ جسے شہادت کی رات کہتے ہیں آپ نے تین بار زور سے سانس لیا اور واصل بحق ہوگئے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

لوگوں نے آپ کی وفات کی تاریخیں بہت کہی ہیں جن میں سے دو یہاں نقل کی جاتی ہیں ایک آیہ شریف اُو لٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ۔ دوسری الفاظ حدیث شریف۔ عاش حمیداً مات شھیداً۔

شاید آپ کو اپنا واقعہ معلوم ہوگیا تھا کہ اپنے دیوان میں یوں فرماتے ہیں۔؎

بلوحِ تُربتِ من یافتند از غیب تحریرے
کہ ایں مقتول راجز بیگنا ہی نیست تقصیرے

ارشاداتِ عالیہ

حضرت میرزا اقدس سرہ کے مکتوبات و ملفوظات میں سے بطور تبرک صرف چند اقتباسات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

۱۔       مخدوما! اس دفعہ آپ نے دوشُبہ لکھے ہیں ایک یہ کہ حضرات سرہند کے خلیفے کمالات و مقامات بلند کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے آثار مثل اولیائے متقدمین کے اُن کے ظہور میں نہیں آتے دوسرا یہ کہ وہ اپنے مُریدوں کو بلند بشارتیں دیتے ہیں اور ان کے حالات ان بشارتوں پر دلالت نہیں کرتے۔ اور نیز اکابر سابقین کے ساتھ ان درویشوں کی برابری بلکہ ان پر فضیلت لازم آتی ہے اور یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے۔

پہلے شُبہ کو جواب:

پہلے شُبہ کا جواب آپ کو معلوم رہے کہ اولیائے متقدمین نے بھی باوجود حصول فنا کے کمالات علیا کا دعویٰ کیا ہے اور کتب صوفیہ ان مقالات سے بھری پڑی ہیں۔ غایہ مافی الباب اُس گروہ کی ایک جماعت ان امور کے ظاہر کرنے کے لیے مامور تھی اور ایک فرقہ بسبب غلبہ سُکر معذور تھا۔ پس ان کے شان میں بھی ہر دو احتمال میں سے ایک کو تجویز کرسکتے ہیں۔ اور سوائے نبوت کے کوئی کمال بالا صالت ختم نہیں ہوا۔ اور مبدأ فیاض میں بخل و دریغ ممکن نہیں ہے۔ پس اِن بزرگوں کے حق میں حسن ظن سے کونسی چیز روکنے والی ہے۔ آخر نیک مسلمانوں میں سے ہیں اور آثار کمال کے ظہور سے مراد اگر استقامات ہے جو کرامت سے بڑھ کر ہے تو یہ خوبی طریقہ مجددیہ کے زبردست بزرگوں کے ساتھ ظہور میں آتی ہے اور کمزوروں کا کچھ اعتبار نہیں اور اگر آثار سے مقصود خرق عادات اور مکاشفات کا صادر ہونا ہے جو منظور عوام ہے تو ہ امور باجماع صوفیہ ولایت کی شرائط سے نہیں اور نہ اُس کے لوازم سے ہیں۔ پوشیدہ نہیں کہ صحابہ کرام جو اُمت مرحومہ کے تمام افراد سے افضل ہیں اُن سے ایسے لوازم سے ہیں پوشیدہ نہیں کہ صحابہ کرام جو اُمت مرحومہ کے تمام افراد سے افضل ہیں اُن سے ایسے امور بہت کم صادر ہوئے ہیں چونکہ اس طریقہ مجددیہ کے مجاہدات و ریاضات بطور صحابہ کرام تابعین کے کتاب و سنت کے اتباع کے ساتھ ہیں۔ اس لیے اس طریقہ والوں کے اذواق و مواجید بھی اُسی جماعت کے اذواق کے مشابہ ہیں۔ فلا تکن ممن الممترین۔

دوسرے شُبہ کا جواب:

دوسرے شُبہ کا جواب اہل کمال کے باطنی آثار کا معلوم کرلینا آسان نہیں۔ خصوصاً اِس طریقہ کی نسبت بے کیف کا ادراک ہر عمر و زید کا کام نہیں لیکن یہ نسبت صحیح فراست والوں سے پوشیدہ نہیں اور آثار ظاہری میں جو کثرت طاعت و ریاضت اور افراط ذوق و شوق اور تجرد و انقطاع ہیں۔ اہل اخلاص وریا اور ارباب حق و باطل شریک ہیں اور سوائے معصومین کے کبھی کبھی گناہوں کے صادر ہونے سے کوئی شخص محفوظ نہیں۔ اور حق یہ کہ زمانہ نبوت کی دوری اور قیامت کی نزدیکی کے سبب سے امور ظاہر باطن میں نہایت ضعف آگیا ہے لیکن یہ بشارتیں بے حقیقی نہیں اور ان مشائخ کا مقصود بشارت سے یہ ہے کہ مرید نے اس مقام سے ایک حصہ پایا ہے نہ کہ مثل اولیائے مشہور کے اُس مقام میں قوت و رفعت بہم پہنچائی ہے تاکہ اُن کے ساتھ مساوات لازم آئے اور اگر اچھی لیاقت والا طالب اس کام میں عمر بھر جدو جہد سے کام لے اور اُن بزرگوں کے دولت کا شریک ہوجائے تو محال نہیں۔؎

فیض روح القدس ارباز مدد فرماید
دیگراں ہم بکند آنچہ مسیحا میکرد

معلوم رہے کہ حضرات نقشبندیہ کی نسبت انعکاسی ہے جیسا کہ نور آفتاب شیشہ میں منعکس ہوجاتا ہے اور بڑا عرصہ درار ہے کہ پیر کے باطن کے انوار مرید کے شیشہ کے لازم بن جائیں اور بجائے انعکاس کے تحقق و ثبوت پیدا ہوجائے اور مرید مرتبہ کمال و تکمیل پر پہنچ جائے بعض وقت پیر کے مقام کا عکس مرید کے باطن آئینہ میں پڑتا ہے اور ابھی وہ مقام تحقیق و ثبوت کو نہیں پہنچتا کہ پیر کشف دقیق و نظر تحقیق سے کام نہ لے کر اُس مرید کو اُسی مقام کی بشارت دے دیتا ہے اور پیر کے جدا ہونے کے بعد وہ نسبت جو بشرط سامنے ہونے کے ظاہر ہوگئی تھی غائب ہوجاتی ہے۔ پس اُس کے آثار اگر ظاہر نہ ہوں تو بجا ہے اور یہ غلطیاں اِس زمانہ میں بہت رواج پاگئی ہیں کیوں کہ پیروں میں نسبت کشفی کمیاب ہے اور مرید ہمت کی کمزوری کے باعث بے قرار ہوکر بشارت مقام اور اجازت ارشاد کی التماس کرنے لگتے ہیں۔ والسلام۔

سماع کی کیفیت:

سماع رقت پیدا کرتا ہے اور رقت رحمت کا باعث ہے پس جو چیز رحمت الٰہی کا باعث ہو وہ کس طرح حرام ہوسکتی ہے اور مزامیر کی حُرمت میں کوئی اختلاف نہیں مگر دف کوشادیوں میں مباح کہا گیا ہے اور نَے کو مکروہ ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے میں جارہے تھے نَے کی آواز آپ کے کان مبارک میں آئی آپ نے اپنے کان مُبارک بند کرلیے اور حضرت عبد اللہ بن عمر جو ہمراہ تھے اُن کو سننے سے نہ روکا پس معلوم ہوا کہ کمال تقویٰ ایسی آواز سے پرہیز کرنے میں ہے بزرگان نقشبندیہ جن کا معمول عزیمت پر عمل کرنا اور رخصت سے پرہیز کرنا ہے۔ سماع سے پرہیز کرتے ہیں کیوں کہ سماع کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے اور مختلف فیہ کا ترک کرنا اور اولےٰ ہے۔ اِسی طرں ان بزرگوں نے کمال تقویٰ کے سبب سے ذکر خفی اختیار کیا ہے اور ذکر جہر کو موقوف کودیا ہے۔

اولیاء اللہ کی تعظیم و محبت:

تمام اولیاء اللہ کی تعظیم اور عام مشائخ کی محبت رحمۃ اللہ علیہم لازم ہے اگر اپنے پیر کے حق میں بلحاظ نفع و فائدہ اُٹھانے کے افضلیت کا عقیدہ رکھے تو غلبہ محبت سے بعید نہیں۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے نیا طریقہ بیان کیا ہے اور اپنے طریقہ کے مقامات و کمالات بہت تحریر فرمائے ہیں اور اس طریقہ کے برگزیدہ اصحاب جوان مقامات و واردات پر پہنچ گئے ہیں ہزاروں سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں اور ان مقامات میں کوئی شبہ نہیں کیوں کہ ہزاروں علما و عقلا کے اقرار سے وہ تواتر کو پہنچ گئے ہیں باینہمہ یہ عقیدہ نہ رکھنا چاہیے کہ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اولیائے مقتدمین کے برابر اکابر سے افضل ہیں کیوں کہ وہ اکابر دین حضرت کے مشائخ میں سے ہیں۔

عزیمت پر عمل کرنا اور تقویٰ اختیار کرنا اس وقت میں سخت متعذر ہے کیوں کہ معاملات بگڑ چکے ہیں اور شرع کے موافق عمل گویا موقوف ہوگیا ہے اور اگر روایت فقہ اور ظاہر فتوے پر عمل کیا جائے اور نئے پیدا ہوئے امور اور بدعت سے پرہیز کیا جائے تو بہت غنیمت ہے۔

اوقات کا لحاظ:

کھانے پینے اور سونے جاگنے اور اعمال و عبادات میں میانہ روی اور حد اعتدال بہت مشکل ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اوقات حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے موافق منضبط ہوجائیں۔ حضرت انبیاء علیہم السلام کا اتباع ہر امر میں حِد اعتدال کے حاصل کرنے کے لیے ہے اس بارے میں لیقوم الناس بالقسط۔ نص قاطع ہے۔

اوراد و وظائف:

کثرت درود ہزار بار اور استغفار سالکین کے لیے لازم ہے مکتوبات حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ جو جامع مسائل شریعت و اسرار طریقت و معارف حقیقیت و نکات سلوک و دقائق تصوف و انوار نسبت مع اللہ ہیں۔ اُن کا درس ہمیشہ عصر کے بعد ہونا چاہیے کیوں کہ اِس امر میں ابواب سعادت کی کشائش ہے اور دعائے حزب البحر صبح و شام اور ختم حضرات خوجگان قدس اللہ اسرار ہم ہر روز حل مشکلات کے لیے پڑھنا چاہیے نماز تہجد دس یا بارہ رکعت جس قدر آسان ہو سورہ اخلاص یا سورہ یٰٓسین  کی قرأت کے ساتھ اور نماز اشراق چار رکعت اور نماز چاشت چار یا چھ رکعت اور فی الزول چار رکعت ایک سلام سے اور چھ یا بیس رکعت بعد سنت مغرب کے اور چار رکعت بعد سنت عشاء کے اور سنت عصر اور تحیۃ و رضوان سب کو لازم قرار دینا چاہیے قرآن مجید کی تلاوت ایک یا دو پارے اور کلمہ توحید و کلمہ تمجید سو سو بار اور سبحان اللہ وبحمدہ صبح کے وقت اور سونے کے وقت اور سونے کے وقت سو سو بار اور دیگر اوقات کی دعائیں جو حدیث صحیح سے ثابت ہیں معین کرنی چاہیں۔ لیکن ان اعمال میں حضور قلبی ضروری ہے۔

مراقبہ کی ہمیشگی:

مراقبہ کی ہمیشگی سے نسبت باطن میں قوت اور ملک و ملکوت سے آگاہی اور نظر موہبت سے دلوں کو با مراد کرنا حاصل ہوتا ہے اور ذکر تہلیل کی کثرت سے صفات بشریت کی اور کثرت درود سے نیک واقعات اور کثرت نوافل سے انکسار و شکست دلی اور کثرت تلاوت سے نور اور صفائی حاصل ہوتی ہے اور ذکر تہلیل بلحاظ معنے طریقہ میں مفید ہے اور صرف لفظ کا تکرار ثواب آخرت کا سرمایا اور گناہوں کا کفارہ ہے ذکر نفی و اثبات حبس دم کے ساتھ تین سو بار سے کم فائدہ نہیں دیتا۔ زیادہ جس قدر ہوسکے مفید ہے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ حبس دم کو اِس ذکر کی شرط قرار نہ دیتے تھے البتہ مفید بتاتے تھے لیکن آپ نے وقوف قلبی کے ساتھ دوام ذکر اور مبدأ فیض کی طرف توجہ کو اپنے طریقہ کار کن فرمایا ہے ہوش دردم پہلے ذکے کے ساتھ ضروری ہے جب ذکر قوت پکڑ جائے اور اسم ذات کی آواز خیال کے کان میں پہنچ جائے تر ہر سانس میں ذات الٰہی سے آگاہی اور توجہ رکھنی چاہیے اور باطن کو خطرات سے بچانا چاہیے اور جب کوئی خطرہ دل میں آئے اُس وقت اُس کو پکڑلینا چاہیے تاکہ وسوسے اور حدیثِ نفس ہنگامہ برپا نہ کریں۔ خطروں کا ہجوم فیض کے آنے کا مانع ہے۔ اسم ذات کی کثرت سے جذبہ الٰہی کی نسبت پیدا ہوتی ہے اور نفی و اثبات سلوک اور مسافت راہ کے طے کرنے کے لیے مفید ہے۔ حالات باطنی کی کیفیات کا ادراک مرتبہ ولایت میں محفوظ کرتا ہے اور کمالات نبوت میں سوائے نکارت و جہالت کے اور کوئی یافت باطن کا وصف نہیں ہوتا مگر معاملات فوق میں اگرچہ لطافت و بیرنگی لازم ہے فی الجملہ ادراک ہوتا ہے نسبت مجددیہ کی لطافت و بیرنگی لوگوں کے انکار کا سبب ہوتی ہے۔ اِس لیے جب سالک کی سیر کمالات پر پہنچ جاتی ہے تو میرے دل میں تردد پیدا ہوتا ہے۔ کہ مبادا طریقہ کو ترک کردے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگر میری عمر نے وفا کی۔ تو میں سالکوں کو مقامات سافلہ سے مقامات عالیہ پر پہنچاؤں گا۔ مقصود خدا کا ہو رہنا اور سنت کا اتباع ہے اور یہ ہر مقام میں حاصل ہے۔ برد یقین و طمانیت جو مقامات عالیہ مجددیہ میں حاصل ہوتی ہے اُس سے مقصود کے ساتھ اتصال بے کیف پیدا ہوجاتا ہے۔؎

اتصالے بے تکیف بے قیاس
ہست رب الناس را با جان ناس

اور کوئی ذوق و شوق و حضور اس کو نہیں پہنچ سکتا۔

نعمت الٰہی:

کمالات پر پہنچنے کا راستہ قریب ہے کہ بند ہوجائے اور ولایت کا طریق جاری رہے۔ اِس آخر زمانہ میں مقامات کے سلوک سے لیاقتیں کوتاہ ہیں اور اُن کا مقصود پر پہنچنا متعذر ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے قریب تیس سال کے گزرے ہوں گے کہ طالبوں کی سیر سُرعت سے تھی اور وہ کشف و وجدان اچھا رکھتے تھے۔ فی الحال فقیر کے مریدوں میں سے اگر کوئی طالب صادق اخلاص و قدس سعی سے فیوض طریقہ کو کسب کرے تو مدت دراز کے بعد ولایت قلبی یا ُس کے فوق پر پہنچتا ہے اور مقامات عالیہ مجددیہ پر پہنچنا سخت متعذر ہے کشف صحیح کہ جس سے سالکین کی سیر مقامات مطابق واقع معلوم ہوجائے بہت نایاب ہے بشارتیں دینے سے خدا پر بہتان لگانا اور سالک کو مغرور کرنا نہ چاہیے۔ تغیر حالات اور درود و اردات اور دوام توجہ الی اللہ اور جمعیت خاطر اور وظائف عبادات سے اوقات کو معمور رکھنا عمدہ الٰہی ہے۔

وسیلہ پکڑنا:

درگاہِ الٰہی میں وسیلہ پکڑنے کے لیے مشائخ طریقہ میں سے ہر ایک جبل متین ہے۔ جو مراتب قرب پر پہنچا دیتا ہے۔ مستفید نے اگر فیض حاصل کیا توز ہے سعادت اور وہ مشائخ میں سے ایک بن گیا۔ حضرت غوث الثقلین کی توجہ اپنے طریقہ علیہ کے متوسلوں کے حال کی طرف زیادہ معلوم ہوئی۔ اِس طریقہ والوں میں سے کسی ایسے کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی کہ حضرت غوث پاک کی توجہ مبارک اُس کے حال پر مبذول نہ ہو۔ اسی طرح حضرات خواجہ نقشبند کی عنایت اپنے معتقدین کے حال پر مصروف ہے۔ مُغل صحرا میں یا سونے کے وقت اپنا اسباب اور گھوڑے حضرت خواجہ کی حمایت کے حوالہ کردیتے ہیں اور تائیدات غیبی اِن کے شامل حال ہوجاتی ہیں۔ اِس بارے میں بہت سی حکایتیں ہیں جن کے لکھنے سے کلام طویل ہوجائے گا۔ سلطان المشائخ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ اپنے مزار کی زیارت کرنے والوں پر بہت عنایت فرماتے ہیں۔ اِسی طرح شیخ جلال پانی پتی بڑی عنایت ظاہر کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ قطب الدین اپنے مشہود میں بہت مستغرق رہتے ہیں۔ حضرت خواجہ شمس الدین کو ماسوا کی طرف التفات نہیں۔ رحمۃ اللہ علیہم۔

اولیائے خدمت:

اولیائے خدمت کو ہم پہچانتے ہیں اور اُن سے ملاقات ہوتی ہے لیکن اُن کا ظاہر کرنا قاضی الٰہی نہیں۔ نادر شاہ کے لشکر کے قطب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک معاملہ میں لاہور کے قاضی کی مُہر درکار تھی۔ میں نے اُس سے کہہ دیا۔ وہ دن کے چوتھائی حصہ میں کاغذ کو وہاں کے قاضی کی مُہر سے مزین کر کے لے آیا۔ اور کہنے لگا کہ قاضی صاحب کو کچھ کام تھا اِس لیے دیر سے آیا ہوں ورنہ  میرا آنا جانا ایک ساعت میں ہوتا ہے۔

ایک دفعہ کچھ روپے ایک فقیر کی لڑکی کے نکاح کے لیے درکار تھے وہ قلعہ میں گیا اور محمد شاہ کے سرہانے سے ہزار روپے کی تھیلی جو وہ ہر رات گوشہ نشین مساکین کے خرچ کے واسطے اپنے سر کے نیچے رکھا کرتا تھا اٹھالی بادشاہ کی آنکھ کھل گئی۔ اُس نے خیال کیا کہ شاید چور ہے قطب نے کہا کہ میں وہ ہوں جس کے واسطہ سے تمہاری جان بچی ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ میں اور روپیہ  منگوا دیتا ہوں۔ فرمایا اتنا ہی کافی ہے۔

نفس کی مخالفت:

نفس کی مخالفت جس قدر ہوسکے اچھی ہے لیکن نہ اِس قدر کہ تنگ آجائے اور طاعت میں خوشی اور شوق نہ رہے کبھی کبھی اس کے ساتھ غم خواری بھی کرنی چاہیے کیوں کہ مومن کے نفس کی رضا باعث ثواب ہوتی ہے ایک دفعہ فقیر کے نفس نے متمثل ہوکر آرزو کی کہ جو شخص مجھے اس طرح کا کھانا کھلائے جو مقصود کہ اس کا ہو پورا ہوجائے۔ اتفاقاً اُس وقت کوئی موجود نہ تھا کہ اُس سے کہہ دیا جائے۔ پھر ایک مدت کے بعد اُس نے متشکل ہوکر ایک قسم کے کھانے کی التجا کی۔ اُس وقت ایک شخص حاضر تھا۔ اُس نے فقیر کے حکم سے وہ کھانا تیار کیا۔ اُس کی ایک مشکل تھی کہ جو کسی تدبیر سے حل نہ ہوتی تھی اس امر سے حل ہوگئی۔

شکر اور صبر:

بے مزہ طعام کو شکر کے حصول کے لیے اگر مصالحہ سے بامزہ بنالیں تو مضائقہ نہیں بلکہ احسن معلوم ہوتا ہے جو لوگ مزہ دار اور لذیذ طعام کو پانی ملا کر بے مزہ بنالیتے ہیں یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ بے مزہ طعام سے شکر دل سے ادا نہ ہوگا۔ مگر ظاہر زبان سے جو صورت شکر ہے نہ کہ حقیقت شکر بلکہ حقیقت میں وہ شکر صبر کی قسم سے ہے کہ جس کے معنی نفس کو روکنا ہے پس یہ امر خلاف شکر کا مستلزم اور اتباعِ سنت کا منافی ہے۔ جو(یعنی اتباع سنت) نفس کی مخالفت کے لیے سب سے سخت چیز ہے اور اس طعام بامزہ کی تجلی خاص کی حق تلفی اس کے علاوہ ہے۔

غیر کی طرف متوجہ نہ ہو:

پیر کے سامنے غیر کی طرف متوجہ نہ ہونا چاہیے اور کسی کی طرف التفات نہ کرنی چاہیے خواہ وہ التفات کسی کے خطاب کے جواب میں ہو۔ چنانچہ نقل ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد صدیق قدس سرہ کے سامنے آپ کے ایک مرید خاص سے خطاب کیا۔ اُس شخص نے خطاب میں بہت مبالغہ کیا تو حضرت محمد صدیق نے اپنے مرید سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم اُس کے جواب میں یہ بیت کہہ دو۔؎

من گم شدہ ام مرا مجوئید
از گم شدگان سخن نگوئید

فیض کا حصول:

اولیائے کرام کے مزارات کی زیارت سے جمیعت کا فیض طلب کرو۔ اور مشائخ کرام کی ارواح طیبہ کو فاتحہ اور درود کے ثواب کا تحفہ پہنچا کر بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بناؤ کیوں کہ ظاہر و باطن کی سعادت اس سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر مبتدیوں کے لیے بغیر تصفیہ قلبی کے اولیا کی قبروں سے فیض حاصل ہونا مشکل ہے۔ اسی واسطے حضرت نقشبند قدس سرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ حق سبحانہ کا محاور ہونا قبروں کے مجاور ہونے سے بہتر ہے۔

حضرت میرزا قدس سرہ کی طبیعت نہایت موزوں تھی اور شعر بھی کہا کرتے تھے نظر بر اختصار و مقصود آپ کی نظم کا نمونہ یہاں پیش نہیں کیا گیا۔

(مقامات مظہری مولفہ حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ۔ کلمات طیبات مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)

(مشائخ نقشبند)


متعلقہ

تجویزوآراء