سید الخلفاء حضرت مفتی سید عبدالفتاح گلشن آبادی

(سید الخلفاء حضرت مفتی سید عبدالفتاح گلشن آبادی)(وفات ۱۳۲۳ ھ)

نام :آپ کا اسم گرامی عبد الفتاح اور عرفیت سیداشرف علی ہے۔ خانوادۂ  نبوت کے گل سرسبد ہیں۔   نسب:سید عبدالفتاح بن سید عبد اللہ حسینی قادری پیرزادہ گلشن آبادی، بن سید شمس الدین، بن زین العابدین، سید محی الدین، بن سید عبدالفتاح، بن سید شیر محمد، بن سید محمد صادق شاہ حسینی الخ، قدس اللہ اسرارہم۔آپ مذہباً حنفی اور مشرباً قادری ہیں۔

ولادت:  آپ کی ولادت ۱۲۳۴ھ میں ہوئی۔ ایک دین دار گھرانے اور علم و فضل کے گہوارے میں آپ نے آنکھیں کھولیں۔  سادات حسینی ہونے کے باعث آپ کا خانوادہ شروع ہی سے دکن کے علاقے میں ’پیرزادہ خاندان  کہلاتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر کے روحانی اور علمی ماحول میں ہوئی۔ تحصیل علم کا آپ نے فطری ذوق پایا تھا،  اس لیے شوقِ علم نے آپ کو کبھی گھر بیٹھنے نہیں دیا۔ جب بھی موقع ملتا علاقے کے علما و مشائخ سے اکتسابِ علم و فیض کے لیے نکل جاتے۔ نیز آپ نے حصولِ علم و فقہ کے سلسلے میں دور دراز کا سفر بھی اختیار فرمایا۔ آپ کے معروف اساتذہ میں کچھ کے اسماے گرامی یہ ہیں  :

اَساتذہ: حضرت سید میاں سورتی، مولوی شاہ عالم بڑودوی، مولوی بشارت اللہ کابلی، مولوی عبد القیوم کابلی، مولوی بدرالدین کابلی، محمد عمر پشاوری، مولوی اشرف آخونزادہ، مولوی محمد صالح بخاری، مولوی محمد اسحق محدث دہلوی، مفتی عبدالقادر تھانوی، مولانا خلیل الرحمن مصطفیٰ آبادی، مولانا فضل رسول عثمانی بدایونی، مولوی محمد اکبر کشمیری، اور حضرت مولانا معلم ابراہیم باعکظہ وغیرہ -رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ-

ان عظیم و جلیل بارگاہوں سے آپ نے کتب درسیہ کا فیض لیا۔ معقول و منقول میں مہارت و حذاقت پیدا کی۔ خصوصاً علوم فقیہ اور صرف و نحو میں تبحر حاصل کیا۔ ۱۲۶۴ھ/۱۸۴۸ء میں امتحان سے فارغ ہوئے اور مفتی کی سند حاصل کی۔ پھر ۱۲۷۱ھ/۱۸۵۶ھ میں عدالت دھولیہ ضلع خاندیس میں منصب افتا پر فائز ہوئے، جہاں صاحبان جج و منصفان و صدر امین و قاضی وغیرہ کے محکموں اور عدالتوں سے ہر سال خصومات و نکاح و طلاق و میراث و ہبہ و وصیت وغیرہ کے تعلق سے سینکڑوں سوال واستفتا آتے رہے، جن کے شافی و کافی جوابات فقہی متون کی روشنی میں علامہ دیتے رہے۔ ان مسائل واستفتا کے مسودوں سے کئی دفتر تیار ہوئے۔

ایک کامیاب مدرس کے طور پر آپ نے کئی دہائیوں تک تشنگانِ علوم و فنون کو سیراب کیا۔ ۱۲۸۴ھ میں سرکاری الفنسٹن

کالج و ہائی اسکول بمبئی میں عربی وفارسی کے اُستاد مقرر ہوئے، اور یہاں بھی آپ نے اوقاتِ درس کے علاوہ جم کے خدمت دین انجام دی۔۱۲۸۴ھ میں سرکاری الفنسٹن کالج و ہائی اسکول بمبئی میں عربی وفارسی کے اُستاد مقرر ہوئے،

آپ کی خدماتِ جلیلہ کے اِعتراف میں حکومت انکلیشیہ نے آپ کو’جسٹس آف پیس (Justice of Peace)اور خان بہار کے خطاب و اعزاز سے نوازا۔(۲) حکومت کی یہ مہربانی آپ برداشت نہیں کرسکے اور سارے مراتب و مناصب سے مستعفی ہو کر گلشن آباد (ناسک) میں آ کر فروکش ہو گئے،اور یکسو ہو کر خدمت دین متین میں جٹ گئے۔

آپ کی کتب و فتاویٰ دیکھنے کے بعد آپ کی شانِ فقاہت کا اندازہ ہوتا ہے، نیز یہ بھی کہ اکابر اہل سنت اور علمائے اعلام کے ساتھ آپ کے تعلقات ومراسم کتنے گہرے تھے۔ چوٹی کے علما نے آپ کے فتاویٰ پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، اور آپ کی تحقیق بلیغ کو سراہنے کے ساتھ آپ کو امام اہل سنت اور مجاہد سنیت کے لقب سے یاد کیا ہے۔

آپ کے فتاویٰ میں مندرجہ ذیل مسائل کے جواز پر مدلل روشنی ڈالی گئی ہے: ایصالِ ثواب،زیارت کی نیت سے سفر کرنا،اولیا سے استمداد و اعانت و ندا، میلاد خوانی، سلام مع القیام،روحِ اطہر کا محفل میلاد میں حاضر ہونا، موئے کی زیارت و تعظیم اور اس سے برکت حاصل کرنا، تقلید ائمہ اربعہ، مشائخ کے ہاتھوں پر داخل بیعت ہونا، علم غیب رسول، مردوں کو سمع و بصر و ادراک کی قوت حاصل ہونا، تدفین کے بعد اذان کہنا، قبر پر پھول چڑھانا، نمازِ فجر و عصر کے بعد مصافحہ کرنا، تیجہ، دسواں،  بیسواں اور چہلم منانا، اعراسِ اولیا کا بیان، نذر و نیاز اور منت اولیا، بیانِ حیلہ واسقاط، سوادِ اعظم اہل سنت و جماعت کی حقیقت اور بہتر فرقوں کا رد وغیرہ۔

عقائد و افکارِ اہل سنت کے موضوع پر آپ نے ایک مبسوط و بے مثال کتاب ’تحفہ محمدیہ در ردِ فرقہ مرتدیہ‘ کے نام سے تحریر فرمائی، جس میں یہی سب مباحث کثیر دلائل و براہین کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں،  نیز اس میں نو پید فرقہ وہابیہ کی ولادت و خباثت کا بھرپور نقشہ کھینچا ہے۔نیز غیر مقلدوں اور نام نہاد سلفیوں کی بھی جا بجا گوشمالی کی ہے۔

مولانا عبدالحلیم ساحلؔ کی شہادت کے مطابق جن دنوں مفتی عبدالفتاح ممبئی میں قیام پذیر تھے، وہ زمانہ ممبئی کے مسلمانوں کے لیے بڑا ہی پر آشوب تھا۔ مسلمانوں کے درمیان اعتقادی بحثوں،  مناظروں اور معرکہ آرائیوں کا خوب دار دورہ تھا۔ فرقہ وہابیہ کے مقابل اہل سنت و جماعت کے علما و فضلا نبرد آزما تھے جن کے سرخیل و قافلہ سالار مفتی سید عبدالفتاح گلشن آبادی تھے،  کیوں کہ آپ اس وقت مرجع علما تصور کیے جاتے تھے۔ اور شاید اسی زمانے میں آپ نے مذکورۃ الصدر کتاب تصنیف فرمائی جس میں فرقہ وہابیہ کا رد بلیغ کیا ہے۔

آپ کی پوری زندگی درس وتدریس اور وعظ و خطابت کی نذر ہو گئی۔ علم  و فضل کے لحاظ سے آپ کا مقام معاصرین میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ کامیاب مدرس و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بے مثال خطیب اور زود رقم مصنف و محقق بھی تھے۔ عربی وفارسی اور اُردو میں کئی درجن کتابیں آپ کے نوکِ قلم سے نکلیں۔  ان میں سے بعض یہ ہیں  :

تحفہ محمدیہ،  تاریخ الاولیاء(دو جلدیں )، جامع الفتاوی (چار جلدیں )، دولت بے زوال و برکت حال  ومآل، کلید دانش(فارسی)، کلید دانش (اُردو)، مرغوب الشعراء، تاریخ انگلستان، تاریخ افغانستان، تاریخ روم، الباقیات الصالحات فی مولد اشرف المخلوقات، رحمۃ للعالمین، فیض عام، اشرف المجالس،صد حکایات… مجامع الاسماء، فارسی آموز(دو حصہ)، تشریح الحروف، تعلیم اللسان، خزانۃ العلوم (دو جلدیں )، اشرف القوانین، خزانۂ  دانش، تحفۃ المقال، اشرف الانشاء، خلاصہ علم جغرافیہ، جغرافیہ عالم، مصادر الافعال۔ تحفۃ المقال، عربی بول چال… مناظرۂ  مرشد آباد، تحفۃ الموحدین، اظہار الحق، تحفہ عطرین، تائید الحق… دیوان اشرف الاشعار، توشہ عاقبت، ترجمہ قصیدہ بردہ۔

آپ کی وفات ۱۵/صفر۱۳۲۳ء کو ممبئی میں ہوئی، اور وہیں مشہور و معروف مینارہ مسجد کے بیس منٹ (Basement)کے سمت مغرب میں سپردِخاک کیے گئے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!

 

 


متعلقہ

تجویزوآراء