مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی

 

 

مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مجاہد جنگ آزادی علامہ فضل رسول عثمانی بدایونی قادری قدس سرہ کے خانواد ہ علمی و روحانی کے چشم و چراغ مولانا حکیم عبدالقیوم قادری بدایونی کے فرزند اصغر مولانا عبدالحامد بدایونی ۱۱، نومبر ۱۹۰۰ء کو دہلی میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے ۔ (مولانا بدایونی کی ملی و سیاسی خدمات ص۱۵)

تعلیم و تربیت :

ابتدائی تعلیم اپنے آبائی اجدادی مدرسہ قادریہ میں مولانا عبدالمقتدر بدایونی سے حاصل کی۔ اس کے علاوہ مولانا محب احمد ۔ مولانا مفتی حافظ بخش بدایونی (منصب تنبیہ الجھال بالھام البااسط المتعال) مولانا مفتی محمد ابراہیم ، مولانا مشتاق احمد کانپوری ، مولانا واحد حسین اور مولانا عبدالسلام فلسفی سے تعلیم حاصل کی ۔ آخر میں الہیات کی تکمیل اور قراٗت قرآن شریف کے شوق میں آپ دو سال تک مدرسہ الہیات کانپور میںمقیم رہے۔

بیعت :

آپ سلسلہ قادریہ میں بدایوں شریف کے نامورعالم دین وبزرگ حضرت مولانا عبدالمقتدر بدایونی قدس سرہ کے دست پر بیعت ہوئے ۔

خطابت:

سند الفراغ کے بعد مدرسہ شمس العلوم بدایوں کے نائب مہتمم مقرر ہوئے ۔ تقریر خطابت و وعظ گوئی آپ کے خاندان کا ہمیشہ سے طرہ امتیاز رہا ۔ چنانچہ مدرسہ شمس العلوم کے سالانہ جلسوں میں آپ کی تقاریر خصوصی اہمیت کی حامل ہوتی تھیں ۔ تین سال تک مدرسہ شمس العلوم میں مولانا بدایونی درس دیتے رہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے دینی اور سیاسی جلسوں میں بھی خطابت فرماتے رہے ۔

صوبہ بنگال کے مسلمانوں کی فرمائش پر کلکتہ کی عید گاہ میں نماز عید پڑھانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ (گلدستہ عقیدت مقالات برحالات عبدالحامد بدایونی مطبوعہ ۱۹۷۱ء )

سفر حرمین شریفین :

مولانا عبدالحامد بدایونی نے ۲۲ مرتبہ حج بیت اللہ شریف اور حضور پر نور ﷺ کے روضہ اقدس کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ ( گلدستہ عقیدت ص۳۵)

تحریک خلافت :

ترکوں کی امدا د اور تحریک خلافت کو موثر بنانے کے لئے علی برادران (مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ) اور زعمائے خلافت نے گاندھی کی لیڈری اور ’’ہندو و مسلم اتحاد ‘‘کی خاطر خرچ کیا ۔ لیکن تجربے اور مشاہدے نے اس چیز کو واضح کر دیا کہ گاندھی اور ہندو قوم ، مسلمانوں کی اس تنظیم ( تحریک خلافت ) کو کسی طرح گوارانہ کر سکے ۔ پنڈت مالو یہ ، پٹیل اور تمام ہندووٗں زعماء ہر موقع پر د ر پردہ تحریک کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ۔ چنانچہ ایک طرف چور ا چوری کا ڈھونگ رچایا گیا تو دوسری متھرا ۔ آگرہ وغیرہ کے اجلاع میں مسلمانوں کو آریہ بنانے کی منظم مہم شروع کی گئی اور وہ گاندھی جنہیں علی برادران میدان سیاست میں لائے تھے ، شردھانند کی تحریک آریہ سماج سے خلا ملا کی باتیں کرنے لگے ۔ دوسری جانب اسمبلی میں نہرو رپورٹ پیش کی ۔ یہ رپورٹ مسلمانان ہند کی غیرت قومی کے لئے ایک چیلنج تھی ۔ مولا نا محمد علی اس رپورٹ کے بعد اور مولانا عبدالحامد بدایونی شد ھی کے آغاز کے وقت کانگریس سے علیحدہ ہو گئے ۔ اور جہاں جہاں شدھی کا کام کیا جارہا تھا ان حلقوں میں پہنچ کر مستقل طریقے سے تبلیغی جدو جہد شروع کر دی اور مرکزی تبلیغ الا سلام انبالہ و آگرہ کی تنظیم میں ایک فعال رکن کی حیثیت سے شریک ہو گئے ۔

تحریک پاکستان :

جمعیت علمائے ہند دہلی جو کانگریس پرستی میں مشہور ویگانہ حیثیت رکھتی تھی ۔ اس کے چند ارکان کچھ دنوں تک قائداعظم کے ساتھ رہے لیکن بعد میں یہ تمامی افراد کانگریس کے ہم نوا ہوگئے۔ علامہ بدایونی نے یوپی ، سی پی، بہار ، اڑیسہ ، بنگال ، آشام ،بمبئی ، کراچی (سندھ ) بلوچستان ، پنجاب اور صوبہ سرحد کے دور افتادہ مقامات پرمسلم لیگ کے انتخابات میںنمایاں طور پر لیگ کے لئے سر گرم عمل رہے۔ خان برادران کے مقابلے میں جو معرکہ ہوا اس میں مولانا بدایونی کی گراں قدر خدمات ایسی ہیں کہ آپ کو ’’فاتح سرحد ‘‘کا خطاب دیا گیا ۔اسی طرح سلہٹ بنگال جہاں مولانا حسین احمد ٹانڈوی (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ) کا اثر خاص تھا اور جسے مولانا کا حصن حصین کہا جاتا تھا ۔ لیکن علامہ بدایونی نے کانگریسی طائفے کے مقابلے میں الحمد للہ !شاندار طریقے سے مسلم لیگی امید وار کو کامیاب بنایا ۔ ہندوستان کے تمام گوشوں میں مسلم لیگ کانفرنسیںہوئیں ۔ ان کانفرنسوں میں مولانا بدایونی شریک ہوئے اور مسلم لیگ کو مستحکم کرنے اور پاکستان کے قیام کی تحریک کو نہایت ہی موثر اور دل نشین انداز میں پیش فرمایا ۔ مولانا کی تقریروں میں ہمیشہ یہ پہلو نمایاں رہتا کہ ہم ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں کتاب و سنت اور فقہ حنفی کے مطابق حکومت کی جائے۔ مولانا مسلم لیگ کی کانفرنس منعقدہ لکھنو ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک مسلم لیگ او ر قیام پاکستان کی تحریک میں سراپا مشغول رہے۔ (گلدستہ عقیدت )

جمعیت علماء پاکستان :

تقسیم کے وقت مولانا بدایونی مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے کراچی تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہو گئے ۔ کانگریسی نظریات کی حامل ’’جمعیت العلماء ہند ‘‘کے مقابلہ میں مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری نے مرکزی ’’جمعیت علماء پاکستان ‘‘ کی بنیا د ۱۹۴۸ء میں رکھی تو مولانا بدایونی سندھ وکراچی زون کے صدر چنے گئے ۔ مولانا ابوالحسنات کی وفات (۱۹۶۱ئ) کے بعد اتفاق رائے سے آپ کو جمعیت علماء پاکستان کا مرکزی صدر چن لیا گیا اور آپ تاحیات اس عہدہ جلیلہ پر متمکن رہے اور ہر لحاظ سے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ (اکابر تحریک پاکستان )

جمعیت علماء پاکستان نے دستور پاکستان کے سلسلے میں اپنے مسودات بھی شائع کر کے حکومت کے حوالے کئے ۔ ۳۳علماء کا جوا جتماع کراچی میں دستور کی ترتیب کے لئے منعقد ہوا اس کے اندر علامہ بدایونی اور علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی نے مرکزی جمعیت علماء پاکستان کی طر ف سے منائندگی فرمائی ۔ جمعیت علماء پاکستان کے اغراض و مقاصد میں پاکستان کی حفاظت و صیانت داخل ہے ۔ چنانچہ پاکستان کو دنیا بھر میںمتعارف کرانے کے لئے اس کے و فود حجاز ، عراق ،ترکی ، لندن ، روس ، چین ، الجزائر ، تیونس ، کویت ، ایران اور بحرین بھی گئے اور انتہائی مفید خدمات انجام دیتے رہے ۔

ستمبر ۱۹۶۵ء میں جس وقت ہندوستان نے پاکستان کے خلاف جنگی اقدامات کئے تو سب سے پہلے مرکزی جمعیت علماء پاکستان اس لڑائی کو جہاد (اسلام اور کفر) قرار دے کر انتہائی سر گرمی کے ساتھ پوری قوم کو پاکستان کی حفاظت کے لئے تیار کیا۔

ایک بار آرام باغ کراچی میں جمعیت کی جانب سے منعقدہ جلسہ ’’جہاد کشمیر ‘‘میں اپنا جدی پشتی لباس چھوڑ کر فوجی یونی فارم میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے جلسہ گاہ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے ۔

جامعہ تعلیمات اسلامیہ کا قیام :

۱۹۶۴ء میں فالج کا پہلا حملہ ہو ااور آنکھ میں کینسر ہونے کے باوجود انہوں نے ’’جامعہ تعلیمات اسلامیہ ‘‘کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ قائم کیا۔ جامعہ کے لئے کراچی میں منگھوپیر روڈ نزد بنارس چورنگی اورنگی ٹاوٗن دامن کوہ میںپچھتر ( ۷۵) ہزار گز زمین حاصل کی گئی ۔ طلباء کی تعلیم کے لئے وسیع کمرے تیار ہو چکے ، ہر کمرے میں ساٹھ طلباء کی گنجائش رکھی گئی ، سات کمرے طلباء کی رہائش کے لئے مکمل ہو چکے تھے ۔ سو طلباء کے کھانے کے لئے تین وسیع کمرے بنائے جا چکے تھے ۔ ستر ہزار روپے کی لاگت سے جامعہ کا ایک وسیع دروازہ تعمیر ہوا ۔ جس میں علوم قدیمہ و جدیدہ کے ساتھ ساتھ تمام عالمی زبانوں اور مذاہب عالم کے مطالعے کا بندوبست کیا گیا۔ اس میںمختلف ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہوئے ۔ آپ نے مصر ، ترکی انگلینڈ ، روس، چین ، الجیریا ، نائیجیر یا ، تیونس ، حجاز مقدس ، کویت ، عراق اور ایران کا دورہ فرمایا اور وہاں کے نظام تعلیم کا بغور مطالعہ کیا تاکہ اس مطالعہ کی روشنی میں ’’جامعہ تعلیمات اسلامیہ ‘‘ کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے ، جامعہ میں چھ سو طلباء کی نشتوں کا بندوبست کیا گیا ہے۔

شاعری :

یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ولولہ انگیز خطیب ، زیر ک سیاستدان مولانا بدایونی نازک خیال شعر بھی تھی ۔ نمونہ کلام :

کیا بیاں ہو مرتبہ ہم سے شہ لولاک کا

ناطقہ ہے بند، قاصر ذہن ہے ادراک کا

شادی و اولاد :

دہلی میں خان بہادر ڈپٹی بہاء الدین کے گھرانے میں شادی کی ۔ دو بیٹے تولد ہوئے

۱۔ صاحبزادہ محمد عابد قادری ۱۹۹۹ء

۲۔ محمد زاہد قادری

تصنیف و تالیف :

آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں ، چند ایک کے نام یہ ہیں :

۱۔ کتاب و سنت غیروں کی نظر میں ۔ مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی۱۳۷۷ھ ؍ ۱۹۵۷ء

۲۔ فلسفہ عبادا ت اسلامی۔ مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ۱۳۷۷ھ ؍۱۹۵۷ء

۳۔ حرمت سود ۔ مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ۱۳۷۷ھ؍۱۹۵۷ء

۴۔ اسلام کا زراعتی نظام ( اس کتاب پر علامہ اقبال نے تحسین آمیز کلمات تحریر کئے تھے ) مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ۱۳۷۷ھ؍۱۹۵۷ء

۵۔ اسلام کا معاشی نظام او ر سوشلزم کی مالی تقسیم ۔ طبع ثانی ادارہ پاکستان شناسی لاہور

۶۔ دعوت عمل ۔ طبع او ل اعظم اسٹیم پریس حیدر آباد دکن ۱۳۵۲ھ طبع ثانی ادارہ معارف نعمانیہ ، لاہور

۷۔ نظام عمل ۔ ۱۹۳۴ئ

۸۔ عائلی قوانین

۹۔ تصحیح العقائد ۔ طبع اول لاہور ۱۹۵۱ء طبع دوئم لاہور ۲۰۰۰ء

۱۰۔ مرقع کانگریس ۔ مطبوعہ۱۹۳۹ء

۱۱۔ مشرقی (عنایت اللہ مشرقی بانی خاکسار تحریک ) کا ماضی و حال

۱۲۔ مسئلہ زدواج

۱۳۔ سوشلزم او ر اسلام ۔ دارالتصنیف بدایوں ۱۹۴۰ء

۱۴۔ الجواب المشکور فی مسئلۃ القبور ( عربی ) مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی

۱۵۔ وفد حجاز کی رپورٹ ۔ آل انڈیا مسلم لیگ مطبوعہ مجلس عمل دہلی ۱۹۴۷ء

۱۶۔ مشیر الحجاج

۱۷۔ تاثرات دورہ روس ۔ جمعیت علماء پاکستان کراچی ۱۹۵۷ء

۱۸۔ تاثرات دورہ چین ۔ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی ۱۳۷۷ھ

۱۹۔ انتخابات کے ضروری پہلو ۔ شائع کردہ مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ ۱۹۳۵ء

۲۰۔ جذبات حامد (کلام حامد ) ۔ مرتب : محمد شاہد عامر قادری نبیرہ مولانا بدایونی ۔ مطبوعہ کراچی ۲۰۰۳ء

۲۱۔ رپورٹ دورہ آزاد کشمیر

وصال :

حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی نے مصروف زندگی گذار کر ۷۲ سال کی عمر میں ۱۵، جمادی الاول ۱۳۹۰ھ بمطابق ۲۰، جولائی ۱۹۷۰ء بروزدو شنبہ مبارک اس دنیائے فانی سے انتقال فرما گئے ۔ پیر کالونی کے بلدیہ پارک میں حضرت مولانا سید مختار اشرف جیلانی سر کار کلاں سجادہ نشین آستانہ عالیہ اشرفیہ کچھو چھ شریف ( انڈیا ) نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے ۔ آپ کی وصیت کے مطابق جامعہ اسلامیہ منگھوپیر روڈ کے احاطہ میں آپ کو دفن کیا گیا ۔

(گلدستہ عقیدت میں ایک طویل مضمون محترم سید محمد فاروق احمد کا ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ مولانا نے خود اس پر نظر ثانی فرمائی تھی اکثر مواد اسی سے ماخوذ ہے)

عبد حامد معینی عثمانی

قادریت سے جس کو نسبت ہے

وہ جگر گوشہ حکیم شہید

جس کا علم و عمل وراثت ہے

زور بازوئے حضرت منظور

جس کی ضرب المثل خطابت ہے

جس کی گفتار پر کہیں سامع

بارک اللہ! کیا فصاحت ہے

عشق سرکار دو جہاں دل میں

جو کہ طعرائے اہل سنت ہے

لب پہ ہر دم درود و ذکر حبیب

بس یہی دو جہاں کی نعمت ہے

حق کی رحمت سے مدح خوان رسول

داخل مطربان جنت ہے

(۱۳۹۰ھ)

سابق وزیر اعلیٰ سندھ پیر الہی کی کوشش سے پیر کالونی کے بلدیہ پارک کانام ’’مولانا عبدالحامد بدایونی پارک ‘‘ رکھا گیا ۔ آپ نے خون پسینہ ایک کرکے جامعہ اسلامیہ قائم کی لیکن آپ کے وصال کے بعد وہ جامعہ حکومت سندھ کو کرایہ پر اس شرط پر دی گئی کہ کالج کا نام ’’عبدالحامد بدایونی کالج ‘‘ہو گا۔ اس طرح مولانا کے عظیم دینی منصوبہ پر پانی پھیر دیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد کالج سے مولانا کا نام ختم کر کے ’’اورنگی ڈگری کالج ‘‘نام رکھ دیا ۔

بنارس چورنگی کانام ’’مولانا بدایونی چوک ‘‘رکھا جائے او ر شمالی ناظم آباد سے اورنگی آنے والی سڑک کا نام ’’شاہرا ہ بدایونی ‘‘ اور خود اورنگی ٹاوٗن کانام ’’بدایونی ٹاوٗن ‘‘ رکھا جاتا تاکہ آئندہ نسلیں ایسے محسنین ملت کے کارناموں سے روشناس ہوتیں ۔ لیکن جہاں محسن کشوں اور ملت دشمنوں کا قبضہ اور راج ہو جائے تو پھر ان سے ایسے ہی دل آزار ، نہ زیبا، بے توقع ، بے حسی جیسے اقدامات متوقع ہو سکتے ہیں ۔

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)


متعلقہ

تجویزوآراء