حضرت محققِ بے مثیل علامہ عبدالحق غور غشتوی
حضرت محققِ بے مثیل علامہ عبدالحق غور غشتوی، غور غشتی (کیمبلپور) علیہ الرحمۃ
محققِ بے مثیل حضرت میاں عبدالحق ابن امیر احمد ابن احمد شیخ صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ، کی اولاد امجاد میں سے ہیں۔ آپ اپنے وقت کے امام اور جلیل القدر علماء کے استاذ ہیں۔ آپ کی عمر اس وقت (۱۹۷۸ء میں) اکیاسی سال سے متجاوز ہے۔[۱]
[۱۔ ماہنامہ فکر و نظر، شعبان ۱۳۹۶ھ/ اگست ۱۹۷۶ء، ص۱۳۰]
تعلیم و تربیت:
ابھی آپ کی عمر ایک برس تھی کہ والد اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ کے چچا علامہ فیضی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی تربیت کی اور تعلیم کی طرف متوجہ کیا۔ کافیہ وغیرہ مولانا فضل احمد سے بمقام غازی پڑھا۔ مولانا سیّد حبیب شاہ قاضی پوری سے بھی درس لیا۔ مولانا نور گل تلمیذ علامہ فضل حق رامپوری سے بھی اخذ فیض کیا۔ مولانا محمد دین بدھوی (کیبلپور) سے علومِ حکمیہ کی تکمیل کی۔ حضرت علامہ بدھوی علیہ الرحمۃ بھی علامہ فضل حق رامپوری کے تلامذہ میں سے ہیں۔
دورۂ حدیث کے لیے دیوبند گئے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور دورانِ سال ہی کسی عارضہ کی بناء پر واپس تشریف لے آئے۔
تدریس:
فراغت کے بعد دو سال مکھڈ شریف مسندِ تدریس پر فائز رہے اور اس کے بعد دربارِ عالیہ سیال شریف میں تدریسی ذمہ داریاں سنبھال لیں، لیکن چند ماہ بعد واپس تشریف لے آئے اور چالیس سال تک غور غشتی ضلع کیمبلپور میں اپنی مسجد میں علم و فضل کے پیاسوں کو سیراب کرتے رہے۔[۱]
[۱۔ محمود احمد قادری، مولانا: تذکرہ علماء اہل سنّت، ص۱۷۸، ۱۷۹، مطبوعہ کانپور، (ہند)]
ایک مرزائی سے مناظرہ:
حضرت میاں صاحب، جہاڑ علاقہ تربیلہ میں مولانا محمد جان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، تو مولانا محمد جان نے بتایا کہ میاں عبدالجبار مرزائی ساکن گندف سیداں ہزارہ ڈویژن نے مجھے ایک خط میں لکھا ہے کہ یا تو مرزائیوں کو کافر کہنا چھوڑ دیا پھر ہم سے مناظرہ کرو اور مشورہ طلب کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ آپ اس علاقے کے مفتی ہیں، اگر آپ خاموش رہے، تو عوام سمجھیں گے کہ مولوی عبدالجبار حق پر ہے، چنانچہ انہوں نے میاں صاحب کو ساتھ لیا اور بمقام گندف پہنچ گئے۔ عوام کو پتہ چلا، تو گرد و نواح کے لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہوگیا۔
مولوی عبدالجبار اور اس کے حواری بار بار بلانے کے باوجود میدانِ مناظرہ میں نہ نکلے اور بالآخر اصرار شدید کے بعد شام چار بجے کے قریب اپنے حواریوں سمیت آ پہنچے۔ علما نے متفقہ طور پر اہل سنت و جماعت کی طرف سے حضرت میاں صاحب کو مناظر منتخب کیا۔ مختلف سوالات و جوابات کے تبادلے کے بعد جب مولوی عبدالجبار کا بس نہ چلا اور علم کے اس کوہِ گراں کے سامنے نہ ٹھہر سکا، تو اپنی ندامت چھپانے کے لیے پشتو میں اپنے ساتھی سے کہنے لگا ’’خودیر زور ور ملا دے‘‘ (بھئی یہ مولوی تو کوئی آف ہے) میاں عبدالحق نے فرمایا کہ مرزا کی گمراہیاں آپ کے سامنے پیش کردی ہیں، آپ کی مرضی ہے کہ اب راہِ حق قبول کریں یا نہ!
مولوی عبدالجبار مبہوت ہوکر اُٹھ کھڑے ہوئے اور یوں میاں صاحب کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کے سوال پر فرمایا کہ جب تک یہ شخص توبہ نہ کرے۔ اس کی غمی اور شادی میں شرکت نہ کی جائے[۱]۔
[۱۔ عبدالحکیم شرف قادری مولانا: ضمیمہ کتاب نور الانوار مع ترجمہ تنویر الابصار ص۱۶، ۲۰]
علم و حکمت کا منبع:
حضرت استاذ العلماء میاں عبدالحق علم و حکمت کا منبع و مرکز ہیں اور اجل علماء کو آپ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے؛ چنانچہ آپ کے علمی مقام کی طرف اختر راہی نے ’’فکر و نظر‘‘ میں ’’دو کتب خانوں کے چند نادر مخطوطات‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
’’میاں صاحب بلند پایہ عالمِ دین ہیں۔ علاقہ میں ان کا فتویٰ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس وقت موصوف کی عمر اسی سال سے متجاوز ہے، مگر حافظہ بے مثال ہے۔ موصوف کی زندگی کا بڑا حصہ تدرسی و تعلم میں گزرا ہے، ان کے رشحاتِ قلم سے دو تین کتابچے شائع ہوئے۔ موصوف کے کتب خانہ میں تفسیر، حدیث، فقہ حنفی اور درسی کتب کا منتخب ذخیرہ ہے۔ مخطوطات کی تعداد چالیس پچاس کے درمیان ہے‘‘۔ [۱]
[۱۔ اختر راہی، ماہنامہ ’’فکر و نظر‘‘ شعبان ۱۳۹۶ھ، اگست ۱۹۷۶، ص۱۳۰، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد]
مشہور تلامذہ:
آپ سے کثیر التعداد تلامذہ نے اکتسابِ فیض کیا۔ کابل اور کوہاٹ کی طرف آپ کے بے شمار تلامذہ موجود ہیں، چند مشہور شاگرد مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ مولوی غلام اللہ خان،راولپنڈی (دیوبندی مکتبۂ فکر کے مشہور عالم)
۲۔ حضرت علامہ گل اکرام، راولپنڈی
۳۔ حضرت مولانا ہدایت الحق، حضرو
۴۔ حضرت مولانا عبدالحق، بارہ زئی
۵۔ مولوی حبیب الرحمان (دیوبندی مکتبۂ فکرسےتعلق رکھتے ہیں)
۶۔ مولوی ضیاء الحق (دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں)
۷۔ مولوی فضل الرحمٰن (دیوبندی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں)
صاحبزادگان:
۱۔ مولای عبدالسلام (دورۂ حدیث پڑھتے ہوئے فوت ہوگئے)
۲۔ مولوی حبیب الرحمٰن
۳۔ مولوی سیف الرحمٰن
۴۔ مولوی نعمان (خطیب جامع مسجد غوثیہ نصیرآباد، نزد کوہ نور ملز، راولپنڈی)
[۱۔ عبدالحکیم شرف قادر، مولانا: حالات مصنف ضمیمہ نور الانوار مع ترجمہ تنویر الابصار ص۲۰۔ ۲۰۔ مطبوعہ جمعیت علماء سرحد پاکستان، دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور
۲۔ مرتب (محمد صدیق ہزاروی) نے حضرت استاذ العلما مولانا عبدالحق مدظلہ کی دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ میں زیارت کی، جبکہ مرتب وہاں متعلم تھا اور حضرت سالانہ امتحان کے موقعہ پر تشریف لائے تھے۔ حضرت کی پر وقار شخصیت جو زہد و تقویٰ کا عملی نمونہ ہے، قابلِ زیارت ہے۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)