مبلغ اسلام مولانا ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری قدس سرہ
مولانا فضل الر حمن انصاری رحمہ اللہ تعالیٰ دنیا ئے اسلام کے مایۂ ناز مبلغ اور بین الاقوامی شخصیت کے حامل تھے انہوںنے اپنی ساٹھ سالہ زندگی کا اکثر حصہ تبلیغ اسلام میں صرف کیا، پاکستان کے علاوہ افریقہ ،امریکہ ،ایشیا اور یورپ کے مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں قدر و منزلت ینگاہ سے دیکھے کام کیا۔ مولانا انصاری اپنی دینی خدمات کی بنا پر عالم اسلام میں قدرت و منزلت کی نگاہ سیدیکھے جاتے تھے،مصر کے نائب وزیر اعظم ڈاکٹر عبد العزیز کامل ۱۸؍جون ۱۹۷۴ء کو مولانان انصاری کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے ار ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:۔
’’ان کے انتقال سے عالم اسلام ایک جید عالم، مفکر اور اسلام کے مبلغ سے محروم ہو گیا ہے، میں اسلام کی تبلیغ کے لئے ڈاکٹر انصاری کے طریقۂ کار سے بہت متاثر ہوں جو تعلیم یافتہ اور ذہین افراد کو متاثر کرتا تھا[1]۔‘‘
مولانا فضل الرحمن انصاری نے نو عمری میں قرآن پاک حفظ کیا، درس نظامی پر عبور حاصل کیا اور مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ میں ایک عرصہ تک تعلیم حاصل کرتے رہے، مولانا فرماتے تھے:۔
’’جامعہ علی گڑھ سے سائنس میں فیکلٹی سے انر پاس کرنے کے بعد اسلامی عقائد کے بارے میں عجیب و غریب شکوک و شہابت دل میں پیدا ہونے لگے تھے بلکہ ایک وقت تو دماغ انکار پر مائل ہو گیا تھا۔‘‘
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، عالم اسلام کے عظیم ترین مبلغ مولانا شاہ محمد عبد العلیم صدیقی قدس سرہ سے ملاقات ہوئی،ان کی نگاہ کیمیا اثر نے دل و دماغ کی کایا پلٹ دی اور فکر و نظر کا دھا ر صحیح سمت کو موڑا ، جو دل انکار اسلام پر مائل تھا ،دین فطرت کی محبت اور عظیم مصطفی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) کا گہوارہ بن گیا۔
پروفیسر محمود حسین صدیقی لکھتے ہیں:۔
’’مولانا کیذات وہ مرکز تھی جہاں عشق و عقل دونوں آکر ملتے ہیں ، سیاح عالم مولونا حافظ شاہ محمد عبد العلیم صدیقی قادری کی چشم کر نے فضل الرحمن صاحب کے قلب و دماغ کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کے نور سے منور کیا تھا، ایک مبلغ اسلام کی خصوصیات میں بنیادی چیز حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے والہانہ محبت ہے اور یہ محبت کی چنگاری کسی محبت میں فنانی اللہ والے کی نظر سے منتقل ہوتی ہے اور پھر شعلہ بن کر جسد خاکی کوجلاکر خاکستر کردیتی ہے تب ہی تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کام سے وابستگی اوراس میں ہمہ تن انہماک پیدا ہوتا ہے:‘‘[2]
اب نہ صرف مولانا کے خیالات بدل گئے بلکہ وضع قطع میںبھی تبدیلی آگئی۔ فیکلٹی آف تھیولوجی میںداخلہ لیا، فلسفہ میںمولانا ظفر الحسن اور دینیات میںمولانا سید سلیمان اشر ف کے شاگرد بنے ، اول درجہ میں امتحان پاس کیا او ر وہ امتیازی مقام حاصل کہ طالب علمی ہی میں اساتذہ آپ پرفخر کرنے لگے[3]۔
کراچی یونیورسٹی سے فلسفہ میںڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،پیر و مرشد مولانا شاہ محمد عبد العلیم صدیقی کے ساتھ دنیا بھر کے تبلیغی دورے کئے اوراپنی سحر انگیز خطابت سے دلوں کیدنیا پرنقش اسلام ثبت کیا، پیرو مرشد کے ساتھ پہلے دورئہ دنیا کے بعد گزیٹڈ عہدے سے استعفاء دے دیا اور مکمل طورپر مطالعہ و تبلیغ کے لئے وقف ہو گئے۔ آپ نے دورئہ فلپائن کا ایک مشاہدہ بیان فرمایاہے جس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
۱۹۵۰ء میں کو تابا میں شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی ایک عظیم اجتماع سے خطا ب فرمانے والے تھے، عین تقیر ے وقت برق و باراں کے آثار پیدا ہونے سے مجمع میں اضطر اب پیدا ہونے لگا حضرت شاہ محمد عبد العلیم ن نور بصیرت سے معلوم کر کے اعلان کرادیا کہ آپ اطمینان رکھیں بارش نہیں ہوگی ، چنانچہ آپ کی دو گھنٹے کی دلولہ انگیز تقریر کے دوران بارش نہ ہوئی اور بعد میں موسلادھار بارش ہوئی یہ آپ کی بین کرامت تھی جس نے بے شمار دلوں کو متاثرکیا[4]
مولان انصاری کا یہ کارنامہ نا قابل فراموش ہے کہ آپ نے شمالی ناظم آباد، کراچی میں ایک ادارہ المرکز الاسلامی(ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشن) قائم کیا جہاں سے زیادہ تر غیر ملکی طلباء حالات حاضرہ کی ضروریات کے مطابق تبلیغ اسلام کی تربیت حاصل کر کے اپنے اپنے علاقوں میں فرائض تبلیغ انجام دیتے تھے۔بقول مولانا انصاری اس ادارہ سے ۴۱ادارے وابستہ ہیں جو دنیا کے گوشے گوشے میں فرائض تبلیغ انجام دے رہے ہیں،خدا کرے کہ مولانا کے لواحقین اس ادارہ کون کے مشن کے مطابق چلاتے رہیں۔
مولانا فضل الرحمن انصاری انگریزی میں سحر انگیز تقریر فرماتے تھے۔ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ممتاز اہل علم کے سامنے آپ نے بار ہا تقریر کی اور بیشمارا اہل علم آپ کی تقریر سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ قدرت نیآپ کو تحریر و تقریر میںیکساں کمال عطا فرمایا تھا۔ آپ نے تقریباً ۲۵کتابیں دعوت اسلام کی تشریح اور افکار با طلہ کی تردید میں انگریزی زبان میںلکھیں اور اہل علم سے خراج تحسین حاصل کیا۔حال ہی میں آپ کی ایک تصنیف د و ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے جسے انگریزی دان طبقہ نے قدر کی نگاہ سے دیکھاہے۔آپ جمیعۃ الفلاح ،کراچی کے رسالے وائس آف اسلام کے پہلے ایڈیٹر تھے،آپ کی نگرانی میں انگریزی زبان میںماہنامہ منارٹ شائع ہوتا تھاجو وقیع مضامین پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔
۱۱؍جمادی الاولیٰ ۳؍جون (۱۳۹۴ھ؍۱۹۷۴ء) بروز سو موار دس بجے دن مولانا فضل الرحمن انصاری کا حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال ہوا ، نماز جنازہ مولانا سید کریم الجیلانی نے پڑھائی ۔ آپ کا مزار المرکز الاسلامی شمالی ناظم آباد کراچی کے احاطہ میں بنایا گیا ہے۔ آپ نے ایک فرزند ایک بیوہ اور چار صاحبزادیاں یادگار چھوڑیں[5] آپ مبلغ اسلام مولانا شاہ محمد عبد العلیم صدیق کے نہ صرف فیض یافتہ اور خلیفۂ مجاز تھے بلکہ داماد بھی تھے۔
جامعہ کراچی اور سندھ کے بانی شیخ الجامعہ پروفیسر اے بی اے حلیم نے جمعیت الفلاح میں مولانا انصاری کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
’’مولانا انصاری تمام مذاہب اور مشرقی و مغربی علوم کے ماہر تھے ، انہوں نے اسلام کو بہترین شکل میں پیش کیا ، ان کا مشن کامیاب رہا اور بہت سے غیرمسلم ان کے خلوص محبت تھی اور انہی خوبیوں کی وجہ سے وہ اسلامی دنیا میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے:۔‘‘[6]
پروفیسر محمود حسین صدیقی نے کہا:۔
’’غیر مسلم ان کا علمی بصیرت کے اس قدر مداح تھے کہ ان کو گریٹ تھنکر کا خطاب دیا گیا، وہ کوئی سیاسی شخصیت یا سرمایہ دار نہیں تھے لیکن عالم اسلام میں لاکھوں افراد کے دلوں میں ان کا ایک مقام ہے ۔‘‘[7]
’’ڈاکٹر انصاری نے ملک اور بیرون ملک خصوصاً افریقی اور لاطینی امریکہ میں وسیع پیمانہ پر تبلیغی کام کو منظم کیا تھا وہ بیرونی ممالک میں قائم شدہ اسلامی مشن کے وفاق کے بھی سر راہ تھے اور اس حیثیت میں متعدد ممالک کا دورہ کر چکے تھے،آپ کی تصانیف میں معاشرہ کی قرآنی بنیادیں نمایاں مقام رکھتی ہے، یہ کتاب انگریزی زبان میںہے اور جلدوں پر مشتمل ہے ،عصر حاضر کے اسلامی لٹر یچر میںیہ کتاب ایک بہت ممتاز حیثیت کی مالک ہے۔‘‘[8]
مشہور شاعر ماہر القادری نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی وفات کو ملت اسلامیہ کے لیے عظیم سانحہ قرار دیا،انہوںنے کہا کہ مرحوم کی تبلیغی ،علمی اور دینی خدمات نا قابل فراموش ہیں اور مرکز اسلامی ان کے اخلاص اور عملی جدو جہد کا زندہ ثبوت ہے[9]
جناب راغب مرادآبادی قطعۂ تاریخ کہا ؎
تبلیغ سے بلند ی اسلم کی شان
تعلیم کی شمعیں بھی جلائیں ہر آن
پوچھو کوئی محر مان علم دیں سے
جو لانگہ علم دیں تھے فضل الرحمن[10]
آرزو اکبر آبادی نے یہ قطعۂ تاریخ وصال لکھا ؎
وہ مبلغ تھے نرالی شان کے
اہل دل کو ہے انہی کی جستجو
جانشین حضرت عبد العلیم
جن کی شہرت ہے جہاں میں چار سو
دامن رحمت میں جاکر سو گئے
’’عابد فضل رحماں ‘‘ آرزو[11]
[1] روز نامہ جسارت ، کراچی : ۲۰ جون ۱۹۷۴ء
[2] محمود حسین صدیقی ، پروفیسر : روز نامہ جنگ ، کراچی ،۲۵ جون ۱۹۷۴ء
[3] ایضاً : ص ۳۔
[4] فضل الرحمن انصاری ،مولانا: روز نامہ جنگ کراچی، ۳ جنوری ۱۹۷۳ء۔
[5] روز نامہ حبارت ، کراچی : ۵ جون ۱۹۷۴ء
[6] اے۔بی۔اے حلیم، پروفیسر: روز نامہ جسارت کراچی: ۲۵ جون ۱۹۷۴ء
[7] ایضاً : ، ص ۳
[8] ماہنامہ فکر و نظر ،اسلام آباد : جولائی ۱۹۷۴ئ، ص ۸۱۱
[9] روز نامہ جسارت ، کراچی : ۵ جون ۱۹۷۴ء
[10] روز نامہ جنگ کراچی :۱۵ جون ۱۹۷۴ء
[11] ایضاً : ۱۲ جون ۱۹۷۴ء
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)