قدوۃ العارفین حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری
قدوۃ العارفین حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ المشائخ ، امام الفضلاء مرجع العرفاء حضرت مولانا خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضور ابن حضرت مولانا غلام مصطفی ابن حضرت مولانا غلام مرتضیٰ (رحمہم اللہ تعالیٰ) ۱۲۰۲ھ؍۸۔۱۷۷۸ء میں قصورمیں پید اہوئے[1]
آپ کے والد ماجد ار جد امجد بلند پایہ ولی اور متجر اہل علم تھے پنجابی زبان کے شیکسپئر پیر وارث شاہ اور حضرت پیر ملہے شاہ قدس سرہما آپ کے جد امجد ہیک ے شاگرد اور فیض یافتہ تھے[2]
آپ کا شجرئہ نس خلیفۂ اول یار غار حضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے اجداد عرب سے ہجرت کر کے پہلے سند تشریف لائے ، پھر سند سے آکر قصور کو اپنا مسکن بنالیا[3]
ابھی حضرت خواجہ قصوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی عمر بمشکل ایک سال تھی کہ والد ماجد کا ظاہری سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ کی تربیت کا ذمہ آپ کے عم بزرگو ار حضرت خواجہ شیخ محمد نے اٹھایا ۔ تمام علوم متداولہ معقول منقول کی تحصیل عم بزرگو ار سے اور انہی سے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت ہو کر خلافت حاصل کی ۔ عم محترم کے علاوہ دیگر اساتذہ سے بھی اکتساب فیض کیا جن میں سے مولانا با ب رحمہ اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ملتا ہے[4] عم مکرم کے وصال کے بعد قطب الاقطاب حضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور گیارہ ماہ شیخ کی خدمت میںرہنے کے بعد سلسلۂ عالیہ قادریہ چشتیہ اور سہر وردیہ میں ماذون و مجاز ہوئے ، حضرت شاہ صاحب نے بیعت کے بعد آپ کا ہاتھ ہوا میںلہرادیااور فرمایا:۔
’’تمہارا ہاتھ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا ،وہ تمہارے ہر کام دینی و نیوی میں ممدو معاون ہوں گے[5]۔‘‘
حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ آپ پر ہایت مہربان تھے، گاہو بیگاہ ان کی عنایات کا ظہور ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ خان نجیب الدین خاں قصوری حاضر تھے، حضرت شاہ صاحب نے بہ طور انبساط فرمایا’’ غلام محی الدین کو کس جگہ کا پیر بنایا جائے؟‘‘ خاں صاحب نے کہا ’’ انہیں قصور کا پیر بنادیجئے‘‘
اس پر حضرت شاہ صاحب جوش میں آگئے اور فرمایا:۔
’’تم بہت کم ہمت ہو، ہم انہیں سارے پنجاب کا پیر بنائیں گے [6]۔‘‘
آپ نے علم حدیث حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی قدس سرہ سے پڑھا اور علم حدیث پڑھانے کی باقاعدہ سند حاصل کی [7]
خلافت و فراغت کے بعد آپ نے اپنے مسکن قصور کو رشد و ہدایت کا مرکز بنایا اور اپنے شیخ کے حکم سے دور و دراز کا سفر کیا اور درس توحید معرفت کو عام کیا، ہزاروں افراد آپ کی تربیت اور راہنمائی سے روہ راست پر آئے ۔ یہ وہ دور تھا جب پنجاب پر سکھوں کے تسلط نے ہر شخص کو ہراساں کر رکھا تھا ۔ آپ کے اخلاق کریمہ ، اخلاق نبوی کا بہترین نمونہ تھے لباس، خوراک ، گفتگو ، نشست و برخاست ،غرض ہر کام میں سنت مطہرہ کے اتباع کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے ،بزرگان دین خاص طور پر حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کمال عقیدت و محبت رکھتے تھے،ایک جگہ فرماتے ہیں ؎
طریقم قادری عرفم قریشی
حنیفی مشربم مولد قصوری
غلام غوث اعظم محی الدینم
طفلیش یافتم ہر دم حضوری [8]
آپ ہمیشہ ملاقات کرنے والوں کو اتبع شریعت کی تلقین ، علماء سوء اور انگریز سے دور رہنے کا درس دیا کرتے تھے، چنانچہ نواب شیر محمد خاں ٹوانہ کو فرمایا:
’’ علماء سوء کے وعظ میں شرکت نہ کرنا ، شریعت کے احکام کی پابندی کرنا ، فرنگی حکام سے نفت رکھنا [9]۔‘‘
حضرت خواجۂ قصوری اپنے دور ے خدا رسیدہ بزرگ اور بلند پایہ ولی تھے۔ آپ سے کرامات کا ظہور ایک عام سی بات تھی، کوئی شخص اولاد کے حصول کے لئے تعویذ مانگتا تو تعویذ دیتے وقت اگر آپ ارشاد فرماتے کہ اسے چاندی کے خول میں بند کر کے رہنا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ لڑکی ہوگی اور اگر فرماتے کہ اسے جست کے خول میں رکھنا تو یہ لڑکا پیدا ہونے کی بشارت ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ کسی نے تعویذ طلب کیا تو آپ نے فرمایا سے چاندی کے خول میں رکھنا آپ کے خلیفۂ اعظم حضرت مولانا غلام نی للّہی نے عرض کی: حضور اسے لڑکے کی خواہش ہے۔ آپ نے فرمایا اب تو چارہ ماہ گزر چکے ہیں چنانچہ اس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی [10]
تبلیغ کے علاوہ تدریس پر بھی کافی توجہ صرف فرماتے تھے ، تشنگان علوم ، ظاہری اور باطنی علوم کے فیض سے سر شار ہوتے تھے۔آپ تمامتدا ولہ علوم میں مہارت کا ملہ رکھنے کے سات ساتھ شعر و سخں کا بہرین ذوق بھی رکھتے تھے لیکن حمد باری ، نعت شریف اور منقبت کے علاوہ کسی موضوع پر خامہ فرسائی نہ فرماتے تھے۔ آپ عربی ، فارسی اردو اور پنجابی میں بے تکلف اظہا رخیال فرماتے تھے۔ آپ کے کلامیں روانی ، قوت بیان،کیف سرور اور استاد انہ پر کاری کے جوہر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
ایک قصیدہ نعتیہ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جس میں عربی و فارسی کے امتزاج نے دلکشی اور عجیب حسن پیدا کردیا ہے ؎
اے شرف آل آدم ووَے فخر انبیاء
انت الذی وصالک لی غایۃ المنیٰ
حقّا کہ در کمال جمالت نظیر نے
فی الشرق والغروب وفی الررض والسماء
احوال امتت ہمہ معلوم یک بہ یک
من شک بیہ ضل قمن ایقن اھتدا
جزبر شفاع نبود اعتماد دل
عّجل لنا الشفاعۃ یا شافع الوریٰ
ہر کس وسیلہ نام تو دار بہ شوق دل
الکل یطلبونک آت ومن مضی
یارب بفضل خویش رساں تحفۂ درود
من اضعف العباد الیٰ اشرف الوریٰ [11]
تحفۂ رسولیہ نامی مبار ک کتاب آپ کی وہ زندئہ جاوید کرامت ہے جس میں آپ نے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ اور معجزا ت عالیہ کا بیان کیا ہے۔ اس کے ایک باب میں آپ نے حضرت مولانا صاحبزادہ عبد الرسو قصوری کی ولادت سے ایک سال پہلے ان کی ولادت کی خبردی ، انہیں پند ونصائح فرمائے اور ان کا نام مبارک بھی معین فرمایا اس نظم کا مطلع ہے ؎
اے کہ ہوزی تو بکم عدم
زودبہ گلزار جہاں نہ قدم[12]
اس کتاب کے مطالعہ سے آپ کی روحانی بصیرت اور کشف و کرامت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ آپ نے متدد با کمال ہستیوں کی تربیت فرما کر انہیں خلافت سے نوازا اور مسند رشد و ہدایت پر سر فراز فرمایا جن میں سے حضرت خواجہ عبد الرسول قصوری (فرزند ارجمند) مولانا غلام دستگیر قصوری (تلمیذ و داماد ) مولانا غلام مرتضیٰ (بیر بل شریف ) حضرت مولانا غلام نبی للّٰہی خلیفۂ اول حضرت مولانا حافظ نور الدین (چکوڑی شریف )وغیر ہم رحمہم اللہ تعالیٰ ) نہایت مشہور و معروف ہیں[13]۔
آپ نے اصلاح عقائد ، اصلاح اعمال و اخلاق کے ساتھ ساتھ متدد تصانیف قلم بند فرمائیں جنہیں اہل علم و عرفان حضرات نے حرز جاں بنایا ، تصانیف کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ تحفۂ رسولیہ (فارسی نظم )
۲۔ دیوان حضور ی
۳۔ رسالۂ نظامیہ (مسئلہ توحید ، فارسی نظم)
۴۔ خلاصۃ التقریر فی مذمۃ المز امیر
۵۔ رسالہ در دفرقۂ ضالہ وہابیہ
۶۔ رسالۂ سلالہ
۷۔ زاد الحاج (پنجابی)
۸۔ خطبات جمعہ و عیدین (عربی و فارسی نظم)
۹۔ شرح دیبا چہ بوستاں (عربی)
۱۰۔ شرح درود مستغاث شریف
۱۱۔ چہل مجالس (ملفوظات حضرت شاہ غلام علی دہلوی قدس سرہ)
۱۲۔ مکتوبات شریف[14]
حضرت مولانا محی الدین قصوری دائم الحضور ی قدس سرہ کا وصال ۲۲ ذیعقدہ، ۱۷ ؍اگست (۱۲۵۰؍۱۸۵۴ئ) کو ہوا ، مولانا غلا دستگیر قصوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’بے نظیر زماں‘‘ سے تاریخ وصال نکالی [15]
[1] شبیر احمد ،سید : انوار محی الدین ، ص ۴۱
[2] ایضاً : ، ص ۱۹
[3] ایضاً: ، ص ۱۵
[4] ایضاً : ، ص ۴۳
[5] محمد حسن ،نقشبندی : حالات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ ، ص ۳۵۹
[6] شبیر احمد ،سید : انوار محی الدین ، ص ۵۰
[7] ایضاً : ، ص ۵۲
[8] ایضاً : ، ص ۹۹
[9] شبیر احمد ،سد : انوار محی الدین ص ۱۸۰
[10] ایضاً : ص : ۶۔ ۱۲۵
[11] شبیر احمد ، سید : انوار محی الدین ص ۱۰۱۔۱۰۳۔
[12] ایضاً : ص ۱۳۸۔
[13] ایضاً:ص ۱۸۷۔
[14] شبیر احمد ، سید : انوار محی الدین ص ۱۲۴۔۱۲۵
[15] ایضاً : ص ۱۳۲۔۱۳۶
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)