حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان رضوی پیر جو گوٹھ

حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان رضوی پیر جو گوٹھ، سندھ علیہ الرحمۃ 

یادگارِ سلف استاذ العلماء جامع معقول و منقول حضرت علامہ مفتی تقدس علی خان[۱] بن الحاج سردار ولی خان بن مولانا ہادی علی خان بن مولانا رضا علی خان (جد امجد مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی) رجب، اگست ۱۳۳۵ھ/ ۱۹۰۷ء میں بمقام آستانہ عالیہ رضویہ محلہ سوداگران، بریلی شریف (ہندوستان) پیدا ہوئے۔

[۱۔مولانا حسن رضا خان قدس سرہ نے آپ کا تاریخی  نام تقدس علی خان (۱۳۲۵ھ)  استخراج فرمایا۔ (مرتب)]

اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ العزیز آپ کے والد محترم کے چچا زاد بھائی تھے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کے نانا تھے۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان رحمہ اللہ آپ کے ماموں اور سسر تھے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا خلیل الرحمان بہاری، مولانا ظہور الحسن فاروقی مجددی (صدر مدرس مدرسہ عالیہ رام پور و دار العلوم منظرِ اسلام بریلی شریف) اور ان کے صاحبزادے مولانا نور حسین سے حاصل کی۔ متوسط کتب درسِ نظامی برادر زادۂ اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا حسنین رضا خان قدس سرہ سے پڑھیں اور اعلیٰ  تعلیم حضرت مولانا رحم الٰہی، مولانا عبدالمنان (مردان) مولانا عبدالعزیز خان اور حضرت صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی (مصنف بہارِ شریعت) سے حاصل کی اور تکمیل حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان رحمہ اللہ سے کی۔  انہوں نے آپ کو در سیاست کے علاوہ رد المحتار کا مقدمہ بھی پڑھایا ور فتویٰ نویسی کی مشق بھی کرائی۔ ۱۳۴۵ھ میں آپ نے دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے سندِ فراغت حاصل کی۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ سے آپ نے شرح جامی کا خطبہ پڑھا۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز سے بالواسطہ شرفِ تلمذ حاصل  کرنے کے لیے مدارس کے منتہی طلباء آپ سے شرح جامی کا خطبہ پڑھتے ہیں۔ محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار  احمد رحمہ اللہ نے بھی آپ سے یہ خطبہ پڑھا، چنانچہ اس تدریس کا شہرہ ہوا اور اس کا مادہ ’’تدریسِ تقدس علی ‘‘ (۱۳۴۸ھ) استخراج کیا گیا۔

آپ دورانِ تعلیم ہی دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف کے نائب مہتمم مقرر ہوئے اور آپ کی نگرانی میں مشہور علماء کی دستار بندی ہوئی جن میں حضرت شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی قدس سرہ قابلِ ذکر ہیں، الٰہ آباد یونیورسٹی میں آپ نے علومِ شرقیہ کے امتحانات کا سلسلہ جاری کرایا، جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن اور الٰہ آباد یونیورسٹی کے ممتحن رہے۔

فراغت کے فوراً  بعد دارالعلوم بریلی شریف میں تدریس شروع کی اور بے شمار فضلاء کو فیضیاب کیا، حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہ کے وصال کے بعد آپ دارالعلوم کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اس طرح پچیس سال کا عرصہ بریلی شریف میں پڑھانے کے بعد آپ ۱۳۷۱ھ میں کراچی (پاکستان) تشریف لے آئے۔

بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت اور حضرت حجۃ الاسلام رحمہما اللہ کے اعراس اور مشاعروں کا اہتمام بھی آپ کے ذمہ ہوتا تھا۔

۱۳۷۲ھ میں آپ نے پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میں مدرسہ قادریہ کا اجراء کیا۔ اس وقت حضرت پیر صاحب پاگارہ مدظلہ لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

۱۹۵۲ء میں پیر صاحب کی تاج پوشی ہوئی اور ۵؍مئی ۱۹۵۲ء کو جامعہ راشدیہ کا افتتاح ہوا، آپ اس جامعہ کے پہلے شیخ الجامعہ اور حضرت پیر صاحب پاگارہ کے اتالیق استاد مقدر ہوئے۔ اس وقت سے آپ جامعہ راشدیہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سینکڑوں طلباء آپ سے پڑھ کر مختلف کر مختلف مساجد اور مدارس بالخصوص جامعہ راشدیہ کی مختلف شاخوں میں دینی فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔

آپ عرصہ بیس سال سے مدینہ مسجد عیدگاہ، پیرگوٹ ضلع خیر پور میں خطابت اور امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا، مرادآباد سنی کانفرنس میں آپ نے شرکت کی جبکہ بنارس  سنی کانفرنس  میں آپ کے برادرِ خورد حضرت مولانا مفتی اعجاز ولی خان رحمہ اللہ شریک ہوئے اور آپ نے تحریکِ ختم نبوت میں دیگر علماء اہل سنت کے شانہ بشانہ کام کیا۔

سنی کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ (دارالسلام) میں آپ نے پیر صاحب پاگارہ کی نمائندگی کی اور ان کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان (۱۶، ۱۷؍اکتوبر ۱۹۷۸ء) میں آپ  پہلے اجلاس کے مہمانِ خصوصی تھے۔

آپ جمعیت علماء پاکستان پیرگوٹ (سندھ) کے صدر رہ چکے ہیں، ۱۹۶۰ میں آپ بنیادی جمہوریت کے انتخاب میں کامیاب ہوئے اور چھ سال تک یونین کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے قوم و وطن کی خدمت کرتے رہے۔

آپ کی بعض قلمی تصانیف ہندوستان میں رہ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد آپ نے بعض کتب کے تراجم کیے جو ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔

حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان کو ۱۳۳۲ھ میں اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ سے بیعت اور تمام سلاسل میں خلافت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان رحمہ اللہ نے آپ کو خاندانِ قادریہ کے اوراد و وظائف کی اجازت دے کر اپنا مجاز فرمایا اور خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور اپنے دست مبارک میں آپ کا ہاتھ لے کر مصافحہ فرماتے ہوئے حدیثِ مصافحہ سنائی جو سات واسطوں سے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔

۱۳۶۷ھ میں آپ  نے بغداد شریف، کاظمیہ شریف ، کربلائے معلی و نجف اشرف میں حاضری دی اور ۱۳۶۸ھ میں پہلا حج  ہندوستان سے کیا۔ پاکستان سے ۱۳۸۸ھ میں دوسرا اور ۱۳۹۲ھ میں تیسرا حج کیا۔ ۱۳۹۵ھ سے آپ مسلسل ہر سال ماہ رمضان المبارک میں عمرہ و زیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔

آپ کے بے شمار تلامذہ کالجوں، یونیورسٹیوں اور دینی مدارس و مساجد  میں دینی و مذہبی خدمات انجام دہے رہے ہیں۔ چند فضلاء کے اسماء یہ ہیں:

مولانا محمد ابراہیم خوشتر قادری، سابق خطیب جامع مسجد ماریشش، افریقہ، حال لندن

مولانا رجب علی، مفتی نان پارہ اسٹیٹ

مولانا مفتی اشفاق حسین نعیمی، مفتی جودھ پور

مولانا مفتی اعجاز ولی خان رحمہ اللہ، سابق شیخ الحدیث جامعہ نعمانیہ لاہور

مولانا مفتی غلام قادر، مدرس جامعہ راشدیہ

مولانا مفتی محمد رحیم، ناظم اعلیٰ جامعہ راشدیہ

مولانا مفتی عبدالحمید آنولوی (مرحوم) خطیب جامع مسجد نواب شاہ

مولانا محمد صالح رحمہ اللہ خطیب جامع مسجد درگارہ شریف، سابق مہتمم جامعہ راشدیہ

مولانا مفتی عبدالرحیم مدرس مدرسہ شاہ پور چاکر

مولانا مفتی در محمد شیخ الحدیث مدرسہ صبغۃ الاسلام سانگھڑ

مولانا محمد ہارون ایم اے، معلم عربی، ضلع خیرپور[۱]

[۱۔ مکتوب حضرت استاذ العلماء مفتی تقدس علی خان رضوی مدظلہٗ، بنامِ مرتب ۹؍دسمبر ۱۹۷۸ء]

(تعارف علماءِ اہلسنت)


متعلقہ

تجویزوآراء