حضرت مولانا شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی

حضرت مولانا شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

علی حسین نام نامی، پیر، شاہ اور اعلیٰ حضرت خاندانی خطاب، اشرفی تخلص کی ۲۲؍ربیع الثانی ۱۲۶۶ھ بروز دو شنبہ بوقت صبح صادق ولادت ہوئی، حضرت مولانا گل محمد خلیل آبادی علیہ الرحمۃ نےبسم اللہ خوانی کی رسم ادا کرائی، مولوی امانت علی کچھوچھوی، اورمولانا سلامت علی گور کھپوری اور مولانا قلندر بخش کچھوچھوی علیہم الرحمۃ سے فارسی عربی کی تحصیل کی، ۱۲۸۲ھ میں اپنے برادر اکبر قطب المشائخ حضرت شاہ اشرف حسین قد سرہٗ سےمرید ہوکر تکمیل سلوک فماکر اجازت وخلافت حاصل فرمائی، ۱۳۹۳ھ میں پہلا حج کی، دربار نبوی سے خاص نعمتیں مرحمت ہوئیں، ۱۲۹۷ھ میں مسند سجادہ نشین پر فائزہوکر مصروف ہدایت وارشاد ہوئے ۱۳۲۳ھ میں دوبارہ حج وزیارت کا سفر کیا، تیسری بار ۱۳۲۹ھ میں مناسک حج کی ادائیگی اور دیدار روضۂ نبوی کےبعد بیت المقدس، شام و مصر، حامہ شریف ، کربلائے معلی بفداد و مقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوئے، چوتھا اور آخری سفر حج وزیارت ۱۳۵۴ھ میں مذکورہ بالادیار میں صدہا علماء ومشائخ داخل سلسلہ ہوئے، اور اجازت وخلافت سے سر فراز کیےگئے، حضرت میاں راج صاحب سوندھ شریف ضلع گڑگانواں نے سلسلہ قادریہ زاہدیہ کی اجازت کے ساتھ سلطان الاذکار ودیگر اشغال مخصوصہ کی اجازت دی اور ایک دونی عطا فرمائی، مولانا سید شاہ محمد امیر کاملی نے سلسلہ قادریہ منوریہ کی اجازت سےنوازا، حضرت شاہ آل رسول مارہروی حضرت شاہ حافظ احمد حسین خاں شاہجہانپوری، حضرت شاہ خلیل احمد مخاطب بہ عین اللہ صفی پوری نے اپنے سلاسل کی اجازتیں عطا فرمائیں، اعلیٰ حضرت سرکار کھچوچھہ علاوہ باطنی اعلیٰ اوصاف وخصوصیات کے ظاہری شکل وصورت میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہٗ کےہم شکل و صورت تھے، ارباب مشاہدہ نےاس کی تصدیق کی ہے، ولیعہد سجادہ سرکار کلاں حضرت مولانا سید شاہ اظہار اشرف مدظلہٗ کی روایت ہے کہ ایک بار اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی رضی اللہ عنہ کے مزار پاک کے اندر سے فاتحہ پڑھ کر نکل رہےتھےاور فاضل بریلوی امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا قدس سرہٗ بفرض فاتحہ جارہے تھےکہ فاضل بریلوی کی نظر اعلیٰ حضرت پر پڑی، دیکھا تو بالکل ہم شکل محبوب الٰہی تھے، اسی وقت برجستہ یہ شعر کہا ؎

اشرفی اے رخت آئینۂ حُسنِ خوباں
اےنظر کردۂ پر ورۂ ملہ محبوباں

ہزار ہا افراد تو صرف آپ کے حُسن خدا داد کی زیارت سےحلقہ بگوش اسلام ہوئے، آپ کی تقریر نہایت مؤثر ہوتی تھی،مواعظ میں جس انداز میں آپ ثمنوی پڑھتےوہ بے نظیر تھا،۔۔۔۔حضرت مخدوم سلطان اشرف سمنانی کچھوچھوی کےبعد سلسلہ عالیہ اشرفیہ میں آپ جیسا مرجع الخلائق کوئی دوسرےبزرگ نہیں گذرے، آپ ہیکی ذات مبارکہ سے شرق سے غرب اور شمال سےجنوب تک صدیوں بعد سلسلہ اشرفیہ بلادِ اسلامی میں پھیلا۔

آپ کا دربار میکدۂ عرفان وآگہہی تھا، جہاںبادہ گساران طریقت کا ہر وقت میلہ لگارہتا تھا، آپ متقدمین صوفیہکی روش پر فکر سخن بھی فرماتے تھے، آپ کے محبوب مُرید اور مشہور مبلغ اسلام میر غلام بھیک نیرنگ وکیل انبالہ نےدیوان عرفان ترجمان کا مجموعہ بنام ‘‘تحائف اشرفی’’ ۱۳۳۳ھ میں مرتب کر کےشائع کیا، دوبارہ ازہر بکڈ یو کراچی نے شائع کیا ہے۔

گیارہویں رجب ۱۳۵۵ھ کو طویل عمر میں حضرت کا وصال ہوا، مرقد درگاہ مخدوم سید اشرف میں زیارت گاہ ہے، آپ کے خلفاء میں سے چند کا ذکر اسی تذکرہ میں مرقوم ہے

(چراغ صفوی)


متعلقہ

تجویزوآراء