علامہ محمد حامد رضا خان قادری
حجۃ الاسلام علامہ محمد حامد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ اور تحریکِ پاکستان
۱۲۹۲ھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۱۳۶۲ھ
دو قومی نظریہ (جس کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آئی) کی پاسبانی میں حجۃ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمہ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
شعبان المعظم۱۳۴۳ھ؍ مارچ ۱۹۲۵ء میں مسلمانوں کی مذہبی، علمی اور سیاسی ترقی کے لیے متقدر علماء حق نے آل اندیا سنی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ کانفرنس کے بانی اراکین میں شہرزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ کانفرنس کے پہلے تاسیس اجلاس منعقدہ ۲۰ تا ۲۳ شعبان المعظم ۱۳۴۳ھ/ ۱۶ تا ۱۹۲۵ء کو مراد آباد میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، مذہبی، معاشی، معاشرتی، عمرانی ترقی کے واضح اور مکمل لائحہ عمل پر مبنی ہے۔وقت گزرنے کے باوجود آج بھی وہ خطبہ واضح نشان راہ ہے۔ اسی خطبے میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد کے بجائے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
‘‘بے شک دو گھٹنوں کو ایک گاڑی میں جوزکر زیادہ وزن کھینچا جاسکتا ہے لیکن بکری اور بھیڑئیے کو ایک جگہ جمع کرکے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا’’۔ (۷)
مسلمانوں کو ہندوؤں سے دوررہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘یہ سمجھتے رہنا چاہیے کہ یہ دشمن موقع کی تاک میں ہے اور موقع مل جائے تووہ ہمارے ساتھ کمی کرنے والا نہیں ہم اپنے آپ کو اس موقع سے بچاتے رہیں ایسا نہ ہوکہ پچھلے زمانہ کی طرح دشمنوں پر اعتماد کیا جائے، اپنی باگ ان کے ہاتھ میں دے دی جائے، اپنی کشتی کا ناخدا ان کو مان کر اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں ڈالا جائے، آنکھیں بند کرکے ان کی تقلید کرنے لگیں جس راہ وہ ہمیں لے چلیں، ہم وہ راہ چل کھڑے ہوں، ماضی قریب کی سیاسی جماعتوں اور کمیٹیوں کے اغواء سے مسلمان ان غلطیوں کا شکار ہوچکے ہیں جن کے نتائج آج یہ رونما ہو رہے ہیں کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے استحصال پر کمر باندھ لی ہے۔ کہیں مرتد کرنے کی کوششیں ہیں۔ کہیں تیغ و تفنگ سے حملے ہیں۔ کہیں قانونی شکنجوں میں کسا جاتا ہے۔ یہ سب اسی ہندو پرستی کا صدقہ ہے جو پچھلے چار پانچ سال مسلمان کرچکے ہیں’’۔ (۸)
مزید فرمایا:
‘‘الحاصل مسلمان، ہندو پرستوں سے پرہیز کریں، اپنے امور ان کے ہاتھ میں نہ دیں، اپنے آپ کو ان کی رائے کے سپرد نہ کریں، رہزنوں کو رہنما نہ بنائیں، ان کی مجالس میں شرکت نہ کریں، ان کی چکنی چپڑی باتوں اور درد اسلام کے دعاوی سے دھوکہ نہ کھائیں حریفان چابک فن سے بچیں۔’’ (۹)