حضرت مولانا یعقوب چرخی
حضرت مولانا یعقوب چرخی رحمتہ اللہ
آپ دراصل چرغ کے رہنے والے ہیں"جو کہ غزنی کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔آپ حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار کے اصحاب میں سے ہیں۔خواجہ بزرگ کی وفات کے بعد خواجہ علاؤ الدین علیہ الرحمۃ کی صحبت میں رہے ہیں۔آپ سے منقول ہے کہ میں خواجہ بزرگ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں جب اول بار ہی پہنچا" تو التماس کی کہ مجھےقبول فرمادیں۔آپ نے فرمایا کہ ہم خود کچھ کام نہیں کرتے ۔آج رات کو دیکھتے ہیںاگر تم کو قبول کرلیا تو ہم بھی قبول کرلیں گے۔مولانا فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی رات ایسی سختی سے نہ کاٹی تھی۔جیسی کہ اس رات کاٹی۔کیونکہ اسی فکر میں تھا کہ خدا جانے مجھ پر یہ دروازہ کھولتے یا بند کرتے ہیں۔جب صبح آپ کی خدمت میں پہنچا"توفرمایاکہ تم کو قبول کرلیا گیا۔لیکن تم خواجہ علاؤ الدین کی صحبت میں رہو گے۔اس کے بعد میں بد خشان کی ولایت میں چلاگیا اور خواجہ علاؤ الدین بعد انتقال حضرت خواجہ بزرگ کے ضعانیاں تشریف لائےاور وہیں متوطن ہوئے۔پھر ایک شخص کو میرے پاس بھیجاکہ حضرت خواجہ نے فرمایا تھاکہ تم میری صحبت میں رہو گے۔میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا"اور آپ کی زندگی تک آپ کی صحبت میں رہا۔میرے جناب مخدوم ارشاد ماب خواجہ ناصر الدین عبید اللہ دام اللہ تعالٰی ظلال ارشاد علی مفارق الطالبین یعنی آپ کے ارشاد کے سائے طالبین کے سروں پر رہیں۔مولانا کی خدمت میں پہنچے ہیں۔فرماتے ہیں کہ میں ہرات میں تھا مجھے خواہش ہوئی کہ مولانا یعقوب کی خدمت میں جاؤں۔تب میں ولایت صغانیاں کی طرف متوجہ ہوااور بڑی محنت و مشقت سے وہاں پر پہنچا۔آپ کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس پر تمام راہ کو یا اکثر پیادہ چلے تھے فرماتے ہیں کہ جب میں ان کی صحبت سے مشرف ہوا۔آپ کے چہرہ مبارک پر تھوڑی سی ایسی سفیدی تھی کہ جس سے طبیعت نفرت کرتی۔مجھ سے سیاست اور سخت گوئی کے لباس میں ظاہر ہوئے۔اس قدر سخت وسست کہا کہ قریب تھا میرا دل ان سے پھر جائے۔جھ کو پوری نا امیدی حاصل ہوئی اور بڑا رنج و الم پیدا ہوا۔آخر دوبارہ آپ کہ مجلس شریف میں حاضر ہواتو مجھ سے محبوبی کی صفت سے پیش آئے کہ کبھی ایسا محبوب میں نے نہ دیکھاتھا۔مجھ سے بڑی مہربانی سے پیش آئے جب مجھ سے آپ باتیں فرما رہے تھے۔تو مجھ کو عزیزی صورت میں معلوم ہوتے تھے۔(اس سے مقصود یہ کہ آپ کی شباحت مولانا سعد الدین کاشغری پیر حضرت خواجہ عبید اللہ کی سی معلوم ہوتیتھی)کیونکہ مجھ کو حضرت مرحوم سے بہت ہی محبت واردات کا رابطہ اور تعلق تھا"اور تھوڑے دن ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہواتھا۔اسی وقت آپ نے اس صورت کو چھوڑ دیا"حتٰی کہ مجھے معلوم ہوا کہ شاید وہ صورت میرا خیال ہی تھا۔اس کے بعد میں نے اپنے ہمراہیوں سے سنا کہ مولانا نے بھی ان کو دیکھا تھا۔فقیر کا یہ اعتقاد ہے کہ آپ کا اس صورت کو چھوڑنا اور اختیار کرنا اپنے شعور اور مرضی سے تھا۔
اس کی دلیل ہے کہ مولانا یعقوبؒ سے یوں نقل کرتے ہیں۔ایسا سنا گیا ہےکہ مولانا فرماتے تھے"جو طالب کہ کسی عزیز کی صحبت میں آئے اس کو خواجہ عبید اللہ کی طرح ہونا چاہیئے کہ چراغ بھی تیار ہو اور روغن بتی بھی تیار ہو کہ اس میں صرف گندھک رکھنا کافی ہے۔ خواجہ عبید اللہ فرماتے ہیں کہ مولانا یعقوب شیخ زین الدین خوانی ؒآپس میں ہم سبق تھے ۔مولانا شہاب الدین سیرابی کے سامنے ایک دن لوگوں نےمجھ سے پوچھا کہ یوں کہتے ہیں ۔شیخ زین الدین تعبیر خواب اور واقعات میں مشغول رہتے ہیں اور اس بارے میں بڑ ا اہتمام کرتے ہیں۔میں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے ایک گھڑی آپ اپنے سے غائب ہوگئے۔آپکا طریق بھی یہ تھا کہ گھڑی گھڑی غائب ہوجایا کرتے تھے۔جب ظاہر ہوئےتو یہ شعر پڑھا:
چو غلام آفتابم ہمہ ز ؤفتاب گویم نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
(نفحاتُ الاُنس)