حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ بلوچ نعیمی ش

استاذ العلماء یادگار اسلاف حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ بلوچ نعیمی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

علامہ مفتی محمدعبداللہ نعیمی بن محمد رمضان بلوچ ۱۳۴۴ھ؍۱۹۲۵ء میں ایرانی مکران کے محلہ ریکسر ادارہ پل مقام چاہ بار مکران ایران میں تولد ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں آپ کے والد ماجد نقل مکانی کر کے بلوچستان سے سندھ آگئے اور ملیر (کراچی ) میں مستقل آباد ہو گئے ۔

تعلیم و تربیت :

یہیں پر مفتی صاحب کی تعلیم کا آغاز ہوا ، آپ نے مندرجہ ذیل علماء سے علوم عقلیہ و نقلیہ میں تحصیل فرمائی :

۱۔      مولانا حکیم اللہ بخش سندھی         

۲۔     مولانا حافظ محمد بخش جہلمی

۳۔     مولانا محمد عثمان مکرانی                     

۴۔     تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی (کراچی)

مفتی صاحب نے تاج العلماء کے زیر سایہ دارالعلوم مخزن عربیہ (کراچی ) سے دورہ حدیث کیا اور ۱۹۶۰ء میں سند فراغت اور دستار فضیلت حاصل کی۔ آپ کے ساتھ مولانا الحاج جمیل احمد نعیمی صاحب (استاذالحدیث جامعہ نعیمیہ کراچی) کی بھی دستار بندی ہوئی تھی ۔

دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ کا قیام :

آپ نے ۱۹۵۵ء سے ہی صاحبداد گوٹھ (ملیر ) کی اس مسجد میں تعلیم القران کے نام سے مدرسہ قائم کیا جہاں اب دارالعلوم قائم ہے اور خود درس دیتے رہے۔ سند فراغت حاصل کر نے کے بعد ۱۹۶۱ء میں یہاں دارالعلوم مجدد یہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی ۔ جب دارالعلوم تعمیر ہوا تو مفتی صاحب نے خود مزدوروں کے ساتھ کام کیا۔ اس سے آپ کے اخلاص اور بے نفسی کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔

بیعت و خلافت:

آپ سلسلہ قادریہ میں حضرت الحاج سید عبدالخالق شاہ مکرانی سے اور سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت الحاج عبداللہ سولنگی سندھی سے بیعت ہوئے اور ان ہی سے خلافت بھی حاصل ہوئی ۔

تلامذہ :

آپ کے بے شمار تلامذہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں پھیلے ہوئے ہیں ۔

٭     مفتی محمد احمد نعیمی شیخ الحدیث مدرسہ انوار مجدد یہ نعیمیہ غریب آباد کھوکھراپار ملیر توسیع کراچی

٭     مولانا عبداللطیف نعیمی خطیب لال مسجد ملیر

٭     مولانا سید رئیس احمد بدایونی مرحوم سابق خطیب لال مسجد گھانچی ہال ملیر

٭     حافظ محمد بخش نعیمی مرحوم سابق خطیب جامع مسجد غوثیہ کھوکھر اپا ر

٭     مولانا سید محمد اکبر حسین شاہ شابق خطیب لال مسجد ملیر حال خطیب راولپنڈی

٭     مولانا ولی اللہ نعیمی مہتمم مدرسہ بھینس کالونی ملیر

٭     مولانا نذر محمد جت نعیمی مہتمم مدرسہ جاتی ضلع ٹھٹھہ

٭     مولانا عبدالرحمن بلوچ نعیمی مہتمم مدرسہ ضلع دست یاری صوبہ بلوچستان زاہدان ایران

تصنیف و تالیف:

آپ کو درس و تدریس اور دارالعلوم کی تعمیر و ترقی کے سبب تصنیف و تالیف کے لئے وقت نہ مل سکا ۔ فتاویٰ کے علاو ہ چند رسائل ان کی یادگار ہیں ۔

٭     فتاویٰ مجددیہ نعیمیہ جلد اول مطبوعہ دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ ملیر ۱۴۱۱ھ مرتبہ مفتی محمد جان نعیمی

٭     تفسیر ما اھل بہ لغیر اللہ

٭     تعویذ گنڈا جائز ہے

٭     تحفۃ الاخوان فی الصلوۃ والسلام قبل الاذان

اولاد :

 آپ نے ایک شادی کی اس کے بطن سے ۶بیٹے اور ۵ بیٹیاں تولد ہوئیں ۔

٭     مولانا غلام محمد نعیمی شہید (ان کے حالات بھی اس کتاب میں شامل ہیں )

٭     محمد قاسم ناظم مکتبہ مجددیہ نعیمیہ ملیر

٭     مولانا مفتی محمد جان نعیمی مہتمم دارالعلوم مجدد یہ نعیمیہ ملیر

٭     بشیر احمد                 

٭     مولانا حافظ نذیر احمد نعیمی

٭     منیر احمد

سفر حرمین شریفین :

۱۹۷۱ء میں وہ حج بیت اللہ شریف اور زیارت مدینہ منورہ کی سعادت سے بہر ہ در ہوئے ، یہ حج ،حج اکبر تھا۔ اس سال بریلی شریف سے حضور مفتی اعظم ہند محمد مصطفی رضا خان قادری نوری بھی حج کرنے آئے تھے ان سے بھی اکتساب فیض کیا۔ مفتی صاحب نے کئی بار عمرہ اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل کی۔

اشاعت دین :

۱۹۷۷ء میں وہ ایران کے دورے پر تشریف لے گئے اور وہاں ایک ماہ کا طویل تبلیغی دورہ کر کے اہل سنت و جماعت کے مسلک کی اشاعت کی ۔ وہ دین کی خدمت میں مجاہد انہ سر گرم عمل رہے ۔تبلیغ دین متین اور درس و تدریس کے علاوہ انہوں نے فتویٰ نویسی کے ذریعہ بڑی خدمت کی۔

پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب رقمطراز ہیں :

فتویٰ نویسی اتنی آسان نہیں جتنی لوگ سمجھتے ہیں ۔ اس کیلئے سالوں کے مطالعے ، مشاہدے ، محنت ، تحقیق و تدقیق کے ذوق تنقید و تنقیح کے ملکہ ، خداداد صلاحیت و قابلیت ، تحمل و تدبر ، سائل کی غرض و غایت کے ادراک ، حالات اور ماحول کے تقاضوں کو سمجھنے کی لیاقت اور بہت سے دیگر امور کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائل کو کتابوں اور فتاویٰ کے مجموعوں کی روشنی میں فتویٰ دینے والا مفتی نہیں بلکہ مفتی ناقل ہے۔ جس کے پاس صرف نقل کرنے کے لئے عقل ہوتی ہے کیوں کہ نقل کے لئے بھی عقل چاہئے اور اب تو عقل بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے ‘‘۔

عادات و خصائل :

مفتی صاحب کتب تفسیر و حدیث اور فقہ پر عبور رکھتے تھے ۔ ان کے فتاویٰ سے ان کی بصیرت و تبحر علمی کے ساتھ ساتھ اخلاص اور بے نفسی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ حلیم الطبع ، نرم دل ،سادہ مزاج ، سادہ لباس ، سادہ گفتار ، خلیق و ملنسار ، عاجزو منکسر المزاج تھے، بڑے مہمان نواز تھے آدھی رات کو بھی مہمان آجائے تو خندہ پیشانی سے پذیرائی کرتے اور گرم گرم روٹیاں پکواکر مہمان کو کھلاتے ۔ صاحب تقویٰ و طہارت تھے، ہر وقت باوضو رہتے تھے۔ غرض یہ کہ وہ ظاہر و باطن میں عامل سنت تھے ۔ وہ کتابوں کے عاشق تھے، سندھ کے قدیمی کتب خانوں سے بڑی تگ و دو ست قلمی مخطوطات کی نقل یا اصل حاصل کر کے اپنے کتب خانہ کی زینت بناتے اس طرح سندھ کے نادر و نایاب قلمی علمی خزانہ کو ایک جگہ پر جمع کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ زندگی بھر ایسی کتابوں کو تلاش کرتے رہے ، تلاش و جمع کا سلسلہ آخر تک جاری رہا ۔

وصال:

مفتی محمد عبداللہ نعیمی بذریعہ کار سیوہن شریف روانہ ہو گئے ۔ بڑے صاحبزادے مولانا غلام محمد نعیمی کار چلارہے تھے، مفتی محمد احمدنعیمی اور دیرینہ رفیق فقیر محمد بلوچ ، حاجی دوست محمد بلوچ ساتھ تھے ۔ جب آخری اسٹاپ آمری پر کار کا اچانک دروازہ کھل گیا مفتی صاحب چلتی گاڑی سے نیچے آگئے شدید زخمی ہوئے ، کرتا تار تار ہو گیا۔ کراچی لے گئے برابر خون نکلنے کی وجہ سے بہت کمزور ہو گئے تھے، ڈاکٹر وں نے تجویز کیا کہ خون چڑھایا جائے، جب آپ نے سناتو برملا فرمایا ۔’’میرے جسم میں یہ پلید خون مت چڑھاوٗ ‘‘۔ ۵۷ سال کی عمر میں ۱۰، شوال المکرم ۱۴۰۲ھ بمطابق ۳۰، جولائی ۱۹۸۲ء کو رات ۳بجکر ۱۵منٹ پر کلمہ طیب پڑھا اور آخری ہچکی لی ۔ روح پروا زکرنے کے باوجود قلب ذکر الہی میں بیس منٹ تک مستغرق رہا ۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر بھی حیران رہ گئے۔ علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ؒ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ شام کو دارالعلوم کے احاطے میں لحد میں اتارا گیا۔(ماخوذ: فتاویٰ مجدد یہ نعیمیہ جلد اول )

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)


متعلقہ

تجویزوآراء