حضرت استاذ العلماء مفتی محمد خلیل خان برکاتی

حضرت استاذ العلماء مفتی محمد خلیل خان برکاتی، حیدرآباد علیہ الرحمۃ 

حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خان برکاتی بن عبدالجلیل خان (مرحوم) ذی قعدہ ۱۳۳۸ھ/ ۱۹۲۰ء میں بمقام کھریری ضلع علی گڑھ (بھارت) پیدا ہوئے۔

خاندان:

آپ کا تعلق لودھی پٹھان خاندان سے ہے۔ آباؤ اجداد کا زیادہ رجحان فوجی ملازمت کی طرف تھا۔ علاوہ ازیں زمینداری کا پیشہ بھی اختیار کیا جاتا تھا، جبکہ آپ کے نانا مولانا عبدالرحمان خان عرف لال خان ایک جید عالمِ دین تھے اور حضرت علامہ لطف اللہ خان کے تلمیذ رشید تھے۔

تعلیم و تربیت:

آپ کے والد ماجد بچپن میں ہی انتقال فرماگئے تھے، اس لیے آپ کی پرورش ننھیال کے ہاں افغان روڈ محلہ کمبوہ مارہرہ شریف ایڑ یوپی میں ہوئی۔ اسی دوران آپ نے ماریسن اسلامیہ ہائی اسکول مارہرہ شریف سے مڈل تک اُردو کی تعلیم پائی۔

اس کے بعد درس نظامی میں شامل فنون اور حدیث کی کتب حضرت صدرالشریعہ مولانا مفتی محمد امجدعلی رحمہ اللہ (مصنف بہار شریعت) سے پڑھ کر مدرسہ عربیہ حافظیہ علی گڑھ (یوپی) ریاست دادوں، سے سندِ فراغ و دستارِ فضیلت حاصل کی۔

آپ نے تدریسی زندگی کاآغاز مدرسہ قاسم العلوم مارہرہ  شریف (ہندوستان) سے کیا۔ کچھ عرصہ قمرالمدارس میرٹھ (ہندوستان) میں پڑھایا اور اب مدت سے دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد (پاکستان) میں مہتمم اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں۔ تدریس کے علاوہ دو سال جامعہ برکاتیہ اور ڈیڑھ سال جامع مسجد محلہ شیشگراں مارہرہ شریف میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرمایا۔ پاکستان تشریف لانے کے بعد ایک سال مسجد کھارادر (کراچی) اور چودہ سال مسجدِ خضراء حیدرآباد میں خطابت فرمانے کے بعد اب کئی سالوں سے مسجد اقصیٰ لطیف آباد (حیدرآباد) میں فریضۂ خطابت ادا فرما رہے ہیں۔

تحریکِ پاکستان:

تحریک ِ پاکستان کا دور آپ کا زمانۂ طالب علمی تھا، چنانچہ آپ نہایت ولولے اور جوش کے ساتھ مسلم لیگ کے جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہوکر تقاریر فرماتے اور منظوم کلام کے ذریعے مسلمانوں میں تحریک کے لیے جوش و خروش پیدا کرتے رہے۔

بیعت و خلافت:

آپ زمانۂ طالب علمی میں ہی تاج العلماء سیّد شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی کے ہاں بیعت سے مشرف ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ کو حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفےٰ رضا خان دامت برکاتہم العالیہ سے تمام سلاسل میں خلافت حاصل ہے۔

تصانیف:

آپ صاحب قلم شخصیت ہیں، چنانچہ آپ کی تصنیفات و تالیفات  کے مجموعی صفحات دو ہزار پانچ صد کے لگ بھگ ہیں، جن میں سے بعض تیس یا چالیس صفحات پر مشتمل رسائل ہیں اور بعض کتب ضخیم ہیں جو درج ذیل ہیں:

۱۔       ہمارا اسلام (پانچ حصے)          (عقائد و مسائل کا مجموعہ)

۲۔       ہماری نماز (مکمل)             (مسائلِ نماز)

۳۔      بہارِ نسواں                    (عورتوں کے حقوق و فرائض)

۴۔      روشنی کی طرف               (ترجمہ المنقذ من الضلال)

اس کے علاوہ قرآن پاک پر ایک تشریحی نوٹ، دس پارے مطبوعہ ہیں، تفسیر اٹھارہ پاروں تک ہوچکی ہے۔ منظوم کلام کچھ طبع ہوچکا ہے اور کچھ غیر مطبوعہ ہے۔

مشہور تلامذہ:

آپ کے تلامذہ کا حلقہ کافی وسیع ہے جن میں مشہور شاگردوں کے اسما گرامی یہ ہیں:

۱۔       مولانا حبیب  الرحمٰن شاہ        آزاد کشمیر

۲۔       حافظ محمد سعید                 آزاد کشمیر

۳۔      مولانا غلام محمد                 بلوچستان

۴۔      مولانا محمد وارث               بلوچستان

۵۔       مولانا غلام مصطفےٰ              بلوچستان

۶۔       مولانا قادر بخش                بلوچستان

۷۔      مولانا عبدالکریم               سندھ

۸۔      مولانا خیر محمد                  سندھ

۹۔       مولانا ہدایت اللہ               سندھ

۱۰۔      مولانا عزیز اللہ                سندھ

اولاد:

آپ کے دو صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں ہیں۔ بڑے صاحبزادے مولانا غلام محی الدین احمد میاں برکاتی دارالعلوم احسن البرکات میں نائب مفتی ہیں، کچھ عرصہ ’’ترجمان اہل سنت‘‘ کراچی کے نائب مدیر بھی رہے ہیں۔ بی اے  تک تعلیم رکھتے ہیں، بہترین قاری اور حافظِ قرآن ہیں۔[۱] ترجمانِ اہلِ سنّت کا جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء نمبر اور نظامِ مصطفےٰ نمبر انہی کی ادارت میں شائع ہوئے۔

[۱۔ مکتوب مفتی صاحب، بنامِ مرتب کے ذریعے یہ تمام کوائف حاصل ہوئے]

(تعارف علماءِ اہلسنت)


متعلقہ

تجویزوآراء