حضرت مفتی سید مسعود علی قادری
حضرت مفتی سید مسعود علی قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت علامہ مفتی سید مسعوع علی قادری ابن ھافظ سید احمد علی ابن سید قاسم علی ابن سید ہاشم علی(رحہم اللہ تعالیٰ) ۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۹ء میں علی گڑھ کی ایک ریاست بوڑھا گاؤں میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ماہرہ ضلع ایٹہ میں پائی۔۱۹۱۹ء میں مدرسہ لطفیہ جامع مسجد علی گڑھ میں مولانا عبد الرحمن سے عربی کی تعلیم شروع کی،۱۹۲۱ء میں نواب ابو بکر خاں کے قائم کردہ مدرسہ عربیہ قادریہ دادوں ضلع علی گڑھ میں داخلہ لیا اور مولانا وجیہ الدین احمد خاں رامپوری،مولانا نعمانی اور قاری محی الدین ایسے فاضل اساتذہ سے اکتساب علم و فضل کیا۔۱۹۲۸ء مدرسۂ عالیہ رامپور میں تعلیم حاصل کی، دیگر اساتذہ کے علاوہ مولانا فضل حق رامپوری اور ان کے فرزند گرامی مولانا افضال الحق رامپوری سے شرف تلمذ حاصل کیا۔مفتی صاھب تحصیل علوم کے زمانہ میں محنت، ذہانت،خوش اخلاقی اور خوداداری میں اپنے ساتھیوں میں امتیازی حیثیت رہتے تھے۔
۱۹۳۲ء میں حضرت علامہ مولانا وجیہ الدین کے ایماء پر مدرسہ نعمانیہ دہلی میں فرائض تدریس انجام دینے شروع کئے۔۱۹۳۴ء میں مدرسہ عالیہ قادریہ بد ایوں میں مسند تدریس و افتاء پر فائز ہوئے اس کے ساتھ ساتھ مدرسہ کا انتظام بھی آپ کے سپرد تھا۔۱۹۴۱ء میں مدرسہ عربیہ قادریہ بد ایوں تشریف لے گئے اور تقریباً ۱۹۵۰ء تک تدریس،افتاء اور انجام دیتے رہے۔۱۹۵۱ء میں مدرسہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم ملتان میں تشریف لائے اور ۱۹۷۰ء تک تدریس افتاء اور نائب مہتمم کے فرائض انجام دیتے رہے،اس دوران آپ کی مساعئی جمیلہ سے مدرسہ انوار العلوم نے نمایاں ترقی کی۔
۱۹۷۰ء میں آپ کے عارضۂ ذیا بیطس میں اضافہ ہو گیا اور ساتھ ہی عارضۂ قلب بھی لاحق ہو گیا،پھر آپ کے بڑے صاحبزادے،اہل سنت کے ہیباک ترجمان مولانا سید سعادت علی قادری تبلیغ کے لئے سری نام جنوبی امریکہ چلے گئے،ان حالات میں آپ اپنے صاحبزادے مولاا مفتی سید شجاعت علی قادری کی گزارش پر بمع اہل و عیال کراچی چلے گئے اور دار العلوم امجدیہ میں تدریس و افتاء کا کام شروع کردیا اور جامع مسجد قصاباں صدر میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
حضرت مفتی صاحب سلسلۂ عالیہ قادریہ میں اپنے استاذ مولانا وجیہ الدین احمد کے پیر مکھن میاں بریلوی مدظلہ العالی کے مرید اور خلیفۂ مجاز تھے لیکن آپ نے بہت کم لوگوں کو بیعت کیا۔آپ نے تقریباً ۴۵ سال تک جملہ علوم دینیہ کا درس دیا،اس طویل عرصے میں بے شمار علماء و فضلاء نے آپ سے کسب فیض کیا حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمۃ ابتداء ہی سے جمعیۃ علماء پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے اور تمام عمر اہل سنت و جماعت کی تنظیم کے لئے سر گرم عمل رہے۔
آپ کی اولاد میں سے چار صاحبزادوں اور پاچن صاحبزادے آپ سے یادگار ہیں،صاحبزادگان کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔
۱۔ مولانا سید سعادت علی قادری مدظلہ العالی۔
۲۔ مولانا سید مفتی شجاعت علی قادری مدظلہ العالی ناظم اعلیٰ جامعہ نعیمیہ کراچی، ترجمان اہلسنت کراچی ولیکچر رالیاقت گورنمنٹ کالج کراچی۔
۳۔ سید طارق علی ایم۔اے (اکنامکس)،جنگ کراچی
۴۔ سید خوشنود علی قادری
۵۔ سید عتیق علی۔
مفتی صاحب کا یہ کچھ معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے صاحبزدوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا بلکہ دنیاوی تعلیم سے بھی بہرہ ور کیا۔اس وقت آپ کے صاحبزادے دین متین اور مسلک اہل سنت و جماعت کی گر انقدر خدمات انجام دے رہے ہیں،خدا کرے کہ مفتی صاحب کا یہ صدقہ جاریہ ہمیشہ قائم رہے۔
۵؍محرم الحرام،۹فروری(۱۳۹۳ھ ؍۱۹۷۳ء) کو نماز جمہ پڑھائی،حسب معمول تقریر کی آواز بعد از جمعہ کھانا تناول فرمایا،کچھ دیر بعد دل کا دورہ پڑا جو جان لیواثابت ہو،تقریباً پانچ بجکر بارہ منٹ پر آپ کی روح قفس عنصری سے فردوس بریں کی جانب پر واز کر گئی،انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کے وصال کی خبر سے پورے ملک کی علمی فضا پر نا قابل نوبیان غم وادوہ طاری ہو گیا اور ہر شخص آپ کی وفات پر دعا گو اور حسرت کناں تھا۔ جناب جامی مارہ ہروی نے درج ذیل قطعۂ تاریخ وصال لکھا ہے۔
ہوئے رخصت جہاں سے مفتئی مسعود علی سید
جو تھے ایک عالم دیں،رہنمائے اہلسنت بھی
خدا کی حد لب پر عشق پاک مصطفی دل میں
رہی پیش نظر ہر دم شریعت بھی طریقت بھی
صلے میں عشق احمد کے،انہیں قدرت نے بخشی تھی
سیادت بھی امامت بھی سعادت بھی شجاعت بھی
مشیت تھی محرم کے مہینے میں اجل آئی
کسی صورت تو کام آ ہی گیا جذب شہادت بھی
کہا ہاتف نے جامی زینت خلد بریں ہیں وہ
یہی قلب خلش سے ہو گئی تاریخ رحلت بھی؎
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)