حضرت منبع علم مولانا مفتی سیّد محمد افضل حسین
حضرت منبع علم مولانا مفتی سیّد محمد افضل حسین، فیصل آباد علیہ الرحمۃ
مفتیٔ اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد افضل حسین صاحب ابن میر سیّد علی حسن صاحب ابن میر سیّد جعفر علی صاحب ابن میر سیّد خیرات علی صاحب، ابن میر سیّد منصور علی صاحب ہندوستان کے موضع بوانا (صوبہ بہار) میں ۱۴؍رمضان ۱۳۳۷ھ/ ۱۳؍جون ۱۹۱۹ء بروز جمعۃ المبارک صبح صادق کے وقت تولد ہوئے۔
آپ حسینی سادات خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔
علومِ اسلامیہ کی تحصیل:
حضرت مفتی صاحب ایک بلند پایہ محقق بے مثال مفتی اور علم و عرفان کا منبع ہیں۔ آپ نے درسِ نظامی کی کتب متداولہ مدرسہ فیض الغرباء آرہ صوبہ بہار، شمس العلوم بدایوں صوبہ یوپی اور جامعہ رضویہ منظرِ اسلام بریلی شریف صوبہ یوپی میں حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب آردی، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب آردی، حضرت مفتی محمد ابراہیم صاحب سمتی پوری، حضرت مولانا مفتی ابرار حسین صدیقی تلہری، حضرت مولانا احسان علی صاحب مظفر پوری اور شیخ المحدثین علامہ مولانا مفتی نور الحسین صاحب رامپوری ابن شمس العلماء حضرت مولانا علامہ ظہور حسین صاحب رامپوری شارح قاضی مبارک سے پڑھنے کے بعد شعبان ۱۳۵۹ھ/ ستمبر ۱۹۴۰ء میں جامعہ رضویہ منظرِ اسلام بریلی شریف سے سندِ فراغ حاصل کرلی۔
علاوہ ازیں ۱۳۶۱ھ/ ۱۹۴۲ءمیں الٰہ آباد بورڈ سے مولوی کا امتحان (فرسٹ ڈویژن میں) پاس کیا۔
تدریس و افتاء:
فراغت کے فوراً ہی بعد آپ جامعہ رضویہ منظرِ اسلام بریلی شریف میں منصبِ افتاء پر فائز ہوئے۔ بعد ازاں تدریسی فرائض بھی انجام دینے شرو ع کردیے۔ جامعہ میں آپ نے شیخ الحدیث، صدر مدرس اور مفتی کی حیثیت سے کام کیا۔
ہندوستان سے ہجرت کے بعد پہلے پہل ڈوگہ ضلع گجرات میں ایک سال تک جناب برق نوشاہی کے قائم کردہ مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر حضرت مولانا مفتی معین الدین صاحب شافعی کے اصرار پر جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد میں تشریف لائے اور شیخ الحدیث و مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے، کچھ عرصہ جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر میں شیخ الحدیث، مفتی اور صدر مدرس کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی اور آج کل دوبارہ جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد میں علومِ اسلامیہ کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔
بیعت و خلافت:
جمادی الاخری ۱۳۶۷ھ/ اپریل ۱۹۴۸ء میں مفتیٔ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا محمد مصطفےٰ رضا خان صاحب صاحب مدظلہ کے دستِ حق پرست پر سلسلۂ عالیہ قادریہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا اور ۱۳۷۲ھ/ ۱۹۵۳ء میں حضرت مفتی اعظم ہند نے جمیع سلاسل طریقت اور تمام اوراد و وظائف کی اجازت دے کر خلافت سے مشرف فرمایا۔
تحریکِ پاکستان میں کارکردگی:
جب مسلمانانِ ہندوستان نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے نظامِ زندگی کو چلانے کی خاطر ایک آزاد ملک (پاکستان) کے قیام کے لیے تحریک چلائی، تو علماء اہلِ سنت (بریلوی) نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس تحریک کو کامیاب بناکر دم لیا۔ چنانچہ آل انڈیا سنی کانفرنس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
حضرت مفتی محمد افضل حسین صاحب نے بھی ۱۳۵۹ھ/ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور تحریک پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔
تصانیف:
حضرت علامہ مفتی محمد افضل حسین صاحب نہ صرف یہ کہ عظیم مفتی و مدرس ہیں، بلکہ آپ میدانِ تصنیف کے بھی شاہ سوار ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت آپ کی مندرجہ ذیل تصنیفات ہیں:
۱۔ توضیح الافلاک علم ہیئت
۲۔ زبدۃ التوقیت علم توقیت و حساب
۳۔ معیار الاوقات ؍؍
۴۔ معیار التقویم ؍؍
۵۔ البراہین الہندسیہ علی مقادیر الخطوط العشرہ ؍؍
۶۔ مساحۃ الدائرۃ والبیر ؍؍
۷۔ گھڑیاں اور ان کے اوقات کی کہانی ؍؍
۸۔ مصباح السلم شرح سلم العلوم ؍؍
۹۔ مفتاح التہذیب شرح تہذیب المنطق ؍؍
۱۰۔ معین اللبیب فی حل شرح التہذیب ؍؍
۱۱۔ تعلیقات علی القطبی ؍؍
۱۲۔ السعی المشکور فی مبحث الشک المشہور (منطق)
۱۳۔ ہدایۃ المنطق ؍؍
۱۴۔ بدایۃ الحکمۃ (علمِ حکمت)
۱۵۔ التوضیح المنیر فی مبحث الثناۃ بالتکریر ؍؍
۱۶۔ توضیح الحجۃ الاولیٰ من شرح الشیرازی ؍؍
۱۷۔ بدایۃ الصرف (علمِ صرف)
۱۸۔ تکمیل الصرف ؍؍
۱۹۔ بدایۃ النحو (علمِ نحو)
۲۰۔ دراستہ النحو ؍؍
۲۱۔ التوضیح المقبول فی الحاصل والمحصول ؍؍
۲۲۔ البیان السامی فی شرح دیباجۃ الجامی ؍؍
۲۳۔ الکفایۃ فی مبحث غیر المنصرف من الہدایہ ؍؍
۲۴۔ ترجمہ عبدالرسول شرح مائۃ عامل منظوم ؍؍
۲۵۔ القول الاسلم فی مبحث الحسن والقبح من المسلم (اصولِ فقہ)
۲۶۔ مرقاۃ الفرائض فقہ
۲۷۔ عمدۃ الفرائض ؍؍
۲۸۔ وصیت کے مسائل عسیرہ کا حل بطریقِ جبر و مقابلہ ؍؍
۲۹۔ رویتِ ہلال ؍؍
۳۰۔ حج پاسپورٹ میں فوٹو کا شرعی حکم ؍؍
۳۱۔ عید میلاد اور چراغاں ؍؍
۳۲۔ منظر الفتاویٰ ؍؍
۳۳۔ ردِّ خلافتِ یزید ؍؍
چند تلامذہ:
حضرت مفتی صاحب کے تلامذہ کثیر تعداد میں ہندوستان، پاکستان، افغانستان ، برطانیہ اور آزاد کشمیر میں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں پیہم مصروف ہیں جن میں سے چند تلامذہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ نبیرۂ اعلیٰ حضرت مولانا ریحان رضا خان صاحب مہتمم جامعہ رضویہ منظرِ اسلام بریلی شریف (انڈیا)
۲۔ نبیرۂ اعلیٰ حضرت مولانا اختر رضا خان صاحب، صدر مدرس جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف (انڈیا)
۳۔ مولانا محمد صابر صاحب نسیم بستوی، صاحب تصانیفِ کثیرہ، سابق ایڈیٹر ماہنامہ فیض الرسول براؤن شریف (انڈیا)
۴۔ مولانا غلام مجتبی صاحب، صدر مدرس جامعہ نعیمیہ مرادآباد (انڈیا)
۵۔ مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صاحب حال مقیم برطانیہ
۶۔ مولانا مفتی محمد حسین صاب (سابق) ایم۔ پی۔ اے سکھر (سندھ)
۷۔ مولانا جلال الدین احمد صاحب نوری، مقیم بغداد شریف
۸۔ مولانا مفتی غلام سرور صاحب، شیخ الحدیث والادب جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور
۹۔ مولانا محمود احمد صاحب، مدرس دارالعلوم احسن البرکات، حیدرآباد
۱۰۔ مولانا صاحبزادہ سید معظم شاہ صاحب خواجہ آباد میانوالی
۱۱۔ مولانا شیر علی صاحب، قندھاری (افغانستان)
۱۲۔ مولانا عبداللطیف صاحب، غزنوی (افغانستان)
اولاد:
آپ کے تین صاحبزادے مسمیان سیّد شکیل رضا، سیّد عقیل رضا اور سیّد محمد احمد اور دو صاحبزادیاں سیّدہ قمر النساء و سیّدہ چمن آراء عرف سیّدہ زینت النساء ہیں[۱]۔
[۱۔ مکتوب حضرت مفتی صاحب، بنامِ مرتب]
(تعارف علماءِ اہلسنت)