حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح

آپ شیخ  صدرالدین بن شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا ملتانی﷫ کے فرزند اور اپنے دادا شیخ الاسلام  بہاؤالدین زکریا کے براہ راست سجادہ نشین اور جانشین تھے۔ فتاویٰ صوفیہ جو آپ کے ایک مرید کی تصنیف ہے اس میں آپ کا کثرت سے تذکرہ کیا گیا ہے، مجمع الاخبار  میں آپ کے ملفوظات اور خطوط درج ہیں جو آپ نے اپنے مریدوں کے نام لکھے تھے۔

زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ: ایک خط میں لکھتے ہیں عزیز! خوب یاد رکھنا چاہیے کہ انسان دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے ایک صورت اور دوسری صفت، اور قابل تعریف صرف صفت ہے، صورت کی کوئی قیمت نہیں، اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے، صفت کا ظہور حقیقی طور پر صرف آخرت ہی میں ہوگا، وہاں ہر صفت ایک ظاہری صورت میں نظر آئے گی کیونکہ آخرت ہی وہ انعام ہے جہاں ہر چیز کی حقیقت ظاہر لباس میں ملبوس کردی جائے گی اور یہ صورتیں متلاشی نظر آئیں گی اور جس کی جو صورت ہوگی اسی صورت میں اس کو اٹھایا جائے گا، جیسا کہ بلعم باعور کو اتنی عبادت اور زہد کے باوجود کتے کی شکل و صورت میں اٹھایا جائے گا یعنی اس کی صورت کتے جیسی بنادی جائے گی، اسی طرح قیامت کے دن ظالم و سرکش اپنے کو بھیڑیے کی شکل و صورت  میں دیکھے گا، متکبر و مغرور کی صورت چیتے کی مانند اور لالچی و کنجوش کی شکل خنزیر جیسی ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ترجمہ: (آج کا دن وہ دن ہے کہ ہم نے تمہاری آنکھوں سے پردہ ہٹالیا) آپ جب تک اپنے قلوب سے اوصاف رذیلہ کو دور نہ کریں گے اس وقت تک جانوروں اور درندوں میں شمار کیے جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ

ترجمہ: (یہ جانوروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں) قلوب کی صفائی اور پاکی اس وقت حاصل ہوتی ہے  جب اللہ کے دربار میں استعان اور التجا کی جاتی ہے اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں کرتا کیونکہ نفس ہمیشہ سرکشی پر اکساتا ہے مگر جن لوگوں پر اللہ نے اپنا فضل و کرم کیا وہ نفس کی سرکشی سے علیحدہ اور کنارہ کش رہتے ہیں اور میرا پروردگار عزوجل بڑا ہی غفور و رحیم ہے یعنی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل و کرم دستگیری کرکے شامل حال نہ وہ اس وقت تک تزکیہ نفس اور قلوب کی صفائی ناممکن ہے۔ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی  کسی وقت بھی پاکیزہ صفت نہ بن سکتا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی نشانی یہ ہے کہ انسان اپنے ذاتی عیوب پر نظر رکھے اور انہیں بڑا تصور کرے اور انوار الٰہی کی عظمت کے پر تو سے اس کا باطن اس طرح درخشاں ہوجائے کہ تمام دنیا اور دنیا کی شان و شوکت اس نیک مرد کی نظروں میں کوئی وقعت نہ رکھے اور دنیا داروں کی کوئی منزلت و قدر اس کے دل میں سنگریزے کی مقدار تک بھی نہ رہے، جب کسی مومن کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو دنیا دار جن شہوانی اور حیوانی صفات میں مبتلا اور گرفتار ہیں وہ ان تمام چیزوں سے نفرت کرنے لگتا ہے اور پھر اس نیک مرد کی خواہش یہی رہتی ہے کہ یہ دنیا دار بھی فرشتہ صفت بن جائیں، چنانچہ ظلم، غضب غرور، بخل اور طمع و لالچ کے بجائے اس کے اندر عفو و برد باری، تواضع و سخاوت اور ایثار کی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں، ذکر کردہ اوصاف آخرت کے طلب گاروں کے ہیں، رہے طالبان حق، سو ان کے اوصاف بہت بلند و بالاتر ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے) ترجمہ: (اخلاق الٰہی کو اپنے اخلاق بناؤ) یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے جہاں تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہوتی۔

عہد یست مرمراکہ نیگرم بغیر تو دوست
شریست مرمراکہ نخوا ہم بغیر تو ہیچ

ترجمہ: (میں نے اپنی ذات سے یہ عہد کرلیا ہے کہ تیرے بغیر اور کسی کو دوست نہیں بناؤں گا اور اپنے نفس سے یہ شرط کرلی ہے کہ تیرے بغیر اور کسی کو چاہوں گا نہیں) مجمع البحار میں ہے کہ شیخ رکن الدین ابوالفتح نے ایک خط میں اپنے ایک مرید کو لکھا کہ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم، نے فرمایا کہ میں نے از خود نہ کسی سے نیکی کی اور نہ ہی بدی، امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے یہ بات سن کر تمام حاضرین مجلس تعجب سے انگشت بدنداں ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ اے امیرالمومنین! ممکن ہے کہ آپ نے کسی کے ساتھ برائی نہ کی ہو لیکن اچھائی اور نیکی کے بارے میں آپ کیا فرما رہے ہیں؟ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (جس نے نیک عمل کیا تو اس کی جزا اسی کو ملے گی، اسی طرح اگر کسی نے برا کام کیا تو اس کا عذاب بھی اسی کو دیا جائے گا) نیکی اور بدی جو کچھ بھی مجھ سے سرزد ہوئی اس کا بدلہ مجھے ہی دیا جائے گا، دوسروں کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا، باقی اللہ ہی زیادہ جانتے ہیں، اسی بنیاد پر بزرگوں نے کہا ہے          ع        (سلاح دیں کس صلاح او بس است) ترجمہ: (کہ کسی کا بہترین ہتھیار اس کی اپنی اصلاح ہے)

چو میدانی ہر آنچہ کاری دردی
آخر بہمہ حال نکو کا ربہ

ترجمہ: (جب تجھے یہ معلوم ہے کہ جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے، تو پھر ہر حال میں نیکی ہی کا بیج بونا بہتر ہے) عقلمند کے لیے تو یہی نصیحت دنیا اور آخرت کے تمام کاموں کی سعادت کے لیے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نیکی اور بھلائی کی توفیق دیتا ہے، آپ نے اعمال پر متابعت کے لیے ایک نصیحت یہ بھی فرمائی کہ اپنے تمام اعضاء کو تمام تر ممنوعات اور مکروہات شرعیہ سے قولاً  و فعلاً باز رکھا جائے اور فضول آدمی کی نشست برخاست سے علیحدگی اختیار کی جائے اور وہ چیز جو اللہ سے تعلق  توڑ دے اس کی کوئی قیمت نہیں، اور باطل پرست لوگوں کی صحبت سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جو شخص حق کا طلب گار نہیں وہ جھوٹا اور باطل پرست ہے اور نیز مجمع الاخیار میں ہے کہ ایک دن سلطان غیاث الدین تغلق بادشاہ نے مولانا ظہیرالدین لنگ سے دریافت کیا کہ آپ نے شیخ رکن الدین ابوالفتح کی کبھی کوئی کرامت بھی دیکھی؟ تو مولانا نے جواب دیا کہ جمعہ کے روز لوگوں کا بڑی کثرت سے آپ سے فیض حاصل کرنا یہ آپ کی کرامت ہے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ شیخ کے پاس تسخیر کا عمل ہے اور مجھے اگرچہ لوگ عقل مند اور عالم کہتے ہیں مگر میرے پاس کوئی نہیں آتا، خیر کل کو میں شیخ کے پاس جاکر ان سے یہ مسئلہ پوچھوں گا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کو جو سنت قرار دیا گیا ہے اس میں کیا راز ہے؟ چنانچہ رات کو میں نے خواب میں  دیکھا کہ شیخ صاحب سے میری ملاقات ہوئی اور شیخ نے مجھے حلوا کھلایا ہے جس کی حلاوت بیدار ہونے کے بعد تمام دن محسوس کرتا رہا، میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ اگر کرامت یہی ہے تو شیطان بھی اسی طرح کے کرشمے دکھاکر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے (یعنی اس بات کا کرامت سے کوئی تعلق نہیں اس طرح تو شیطان بھی کرسکتا ہے) چنانچہ میں نے اپنے دل میں اس بات کا تہیہ کرلیا کہ کل سویرے جاکر یہ مسئلہ ضرور پوچھوں گا، غرض یہ کہ دوسرے دن صبح سویرے میں شیخ  کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ (بڑا اچھا ہوا آپ تشریف لے آئے) میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا اور پھر خود ہی اس طرح تقریر شروع فرمائی، کہ ناپاکی کی دو قسمیں ہیں، ایک ناپاکی دل اور دوسری ناپاکی بدن اور جسم کی، عورت سے مجامعت کے بعد بدن ناپاک ہوجاتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے دل ، جسم کی پلیدی اور ناپاکی پانی سے ختم ہوتی ہے اور دل کی ناپاکی  آنسوؤں سے ڈھلتی ہے، پھر اس کے بعد فرمایا کہ پانی کے اندر تین اوصاف ہوں گے تب وہ طاہر اور مطہر ہوگا اور تین اوصاف رنگ، مزہ اور بو ہیں، شریعت نے وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا اسی لیے مقدم رکھا تاکہ کلی کرنے سے پانی کا مزہ اور ناک میں پانی ڈالنے سے اس کی بو معلوم ہوجائے، مولانا فرماتے ہیں کہ جب شیخ نے یہ تقریر فرمائی تو میرے جسم  سے پسینہ بہنے لگا، اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ شیطان جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اختیار نہیں کرسکتا اسی طرح حقیقی شیخ کی شکل بھی اختیار نہیں کرسکتا، اس لیے کہ حقیقی شیخ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری پیروی کرتا ہے، اس کے بعد شیخ نے مولانا ظہیر الدین سے خطاب کرکے فرمایا کہ مولانا! آپ ظاہری علوم سے مالا مال ہیں لیکن علوم حال سے ابھی تک ناآشنا ہیں۔

دل کی حسرت جو تھی وہ پوری ہوئی
پورا ہر اک مرا سدعا کر دیا

سلطان قطب الدین بن علاؤ الدین خلجی بادشاہ کے دور سلطنت میں شیخ رکن الدین ابوالفتح دہلی تشریف لائے اور شیخ نظام الدین اولیاء جو اس وقت مسند ارشاد و تربیت پر فائز اور اس وقت کے مشہور بزرگ تھے، شیخ ابوالفتح کی آمد کی خبر سن کر آپ کے استقبال کے لیے اپنے خاص مقام سے حوض علائی تک تشریف لائے، سلطان قطب الدین بادشاہ  نے شیخ رکن الدین کا بڑا اِکرام ع اعزاز کیا اور دوران گفتگو پوچھا کہ اس شہر میں آپ کا کن کن لوگوں  نے استقبال کیا تو شیخ ابوالفتح نے فرمایا دہلی والوں میں سے اسے بزرگ ہستی نے (یعنی خواجہ نظام الدین اولیاء) جو شہر والوں میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔

بعض لوگوں کا بیان ہے کہ سلطان قطب الدین کے دل میں شیخ نظام الدین اولیاء کا مرتبہ اور عزت کم ہوگئی تھی، بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شیخ رکن الدین ابوالفتح کے دربار میں عزت کرنے کی وجہ یہی تھی کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کی شان بان ختم ہوجائے، غرض یہ کہ شیخ رکن الدین ابوالفتح نے اپنے اس جواب سے ان تمام موہومہ تخیلات کی بیخ کنی کردی، جن کی غیر متوقع امید کی گئی تھی، سیرالاولیاء میں لکھا ہے کہ استقبال کرنے کے بعد دونوں بزرگوں یعنی شیخ رکن الدین ابوالفتح اور خواجہ نظام الدین اولیاء کی جامع مسجد میں ملاقات ہوئی جس کی تفصیل یوں منقول ہے کہ حضرت محبوب سبحانی اپنی  نماز کی مقررہ جگہ سے اٹھ کر شیخ رکن الدین کے پاس تشریف لے گئے، پھر تھوڑی دیر کے بعد شیخ رکن الدین اپنی جگہ سے اٹھ کر  خواجہ نظام الدین کی جگہ پر دوبارہ دیدار کی غرض سے تشریف لے گئے اور دونوں کی اسی جامع مسجد میں خوب صحبت و ملاقات رہی۔

ایک دن کا واقعہ ہے کہ محبوب سبحانی اپنے مقبرے کی عمارت تعمیر کر وا رہے تھے کہ اچانک شیخ رکن الدین کی  آمد آمد کا شور بلند ہوا، آپ نے اسی وقت کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور اپنے دوست احباب کو جمع کرلیا، اتنے میں شیخ رکن الدین پالکی میں سوار ہوکر آپ کے ہاں تشریف لے آئے، (بوقت ملاقات بھی) غالباً وہ مرض اور خاص عذر کی بناء پر پالکی ہی میں بیٹھے رہے، خواجہ نظام الدین اولیاء اور آپ کے دیگر تمام ساتھی بھی پالکی کے اردگرد بیٹھ گئے، باتیں ہو رہی تھیں اور مجلس خوب گرم تھی کہ اتنے میں شیخ رکن الدین  ابوالفتح کے چھوٹے بھائی شیخ عمادالدین اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آج بزرگوں کا اجتماع ہے، بہترین موقع ہے لہٰذا اس کو غنیمت تصور کرتے ہوئے آپ حضرات سے کچھ استفادہ کرنا چاہتا ہوں، سوگزارش یہ ہے کہ عرصہ دراز سے میرے دل کے اندر ایک شبہ ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے میں راز کیا تھا؟ شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس میں غالباً یہ حکمت ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ کمالات و درجات جو ابھی تک مقدر اور پوشیدہ تھے ان کا عملی طور پر اصحاب صفہ پر فیضان ظاہر کرنا  مقصود ہوگا، اس کے بعد خواجہ نطام الدین نے اپنے حلقہ بگوش لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ فقیر کے خیال میں ہجرت کا راز یہ ہے کہ  مدینہ کے وہ فقراء جو مکہ میں آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کرسکتے تھے ان کو اس نعمت عظمیٰ سے مشرف کرنا مقصود تھا (ہجرت کے راز کو انہیں دو وجوہ پر منحصر نہ سمجھا جائے بلکہ علماء کرام نے اس کے متعدد اسرار لکھے ہیں غرض یہ کہ ہر دو بزرگوں کے بیان کا مقصد  ایک دوسرے کی خاطر و تواضع تھی، شیخ رکن الدین کا مطلب یہ تھا کہ ہماری آمد کا مقصد طلب کمال اور حصول فائدہ ہے اور محبوبِ سبحانی کا مطلب تکمیل اور فائدہ رسانی تھی، یہ واقعہ سیرالاولیاء میں بھی لکھا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال جو اصحاب صفہ پر موقوف تھا وہ ارشاد و تکمیل ہی تھا جو موجب ثواب اور باعث عالی درجات تھا ان کا اپنا ذاتی کوئی کمال نہ تھا، غرض یہ کہ مطلب دونوں بزرگوں کی باتوں کا ایک ہی ہے۔ واللہ اعلم، اس کے بعد کھانا لایا گیا، کھانے سے فراغت کے بعد محبوب سبحانی نے چند عمدہ قسم کے کپڑوں کے ساتھ سو اشرفیاں ایک ایسے باریک کپڑے میں جس میں سے اشرفیوں کا رنگ باہر سے چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا باندھ کر شیخ رکن الدین کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیں، شیخ رکن الدین نے اس تحفہ کو دکھ کر فرمایا کہ اپنے سونپ کو ڈھانپ لو، محبوب سبحانی نے جواب میں فرمایا (کہ سونا میرا مذہب ہے) یعنی مال و زر باعث ستر مذہب ہے اور گودڑی درویش کا حال ہے تاکہ وہ (ان دونوں کے ذریعہ) عوام سے پوشیدہ رہ سکے۔ (اس کے بھی) شیخ رکن الدین نے تحفہ قبول کرنے سے پس و پیش کیا تو محبوبِ سبحانی نے ان کے بھائی عماد الدین اسماعیل کے حوالہ کردیا۔

اتفاق سے محبوب الٰہی بیمار پڑ گئے تو عیادت کے لیے شیخ رکن الدین آپ کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ہر شخص حج کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش اور سعی کرتا ہے اور یہ عشرہ ذی الحجہ ہے میں سعی کرکے شیخ المشائخ کی زیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہوا، شیخ نظام الدین اولیاء کی وفات کے بعد آپ کی نماز جنازہ بھی  شیخ رکن الدین نے پڑھائی، بعدہٗ فرمایا کہ تین سال تک ہم کو دہلی میں رکھنے کا راز یہی تھا کہ ہم کو یہ سعادت حاصل کرنی تھی اس کے تھوڑے عرصہ بعد شیخ رکن الدین ابوالفتح اپنے اصلی وطن (ملتان) واپس ہوگئے۔

خیرالمجالس  میں شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کا یہ بیان لکھا ہے کہ شیخ الاسلام شیخ رکن الدین ابوالفتح جب ملتان سے دہلی تشریف لائے تو آپ کے پاس قلندروں، بھکاریوں کا ایک جمِ غفیر جمع ہوگیا، قلندروں نے کہا کہ ہمیں شربت پلائیے، آپ نے انہیں کچھ دے کر روانہ کیا، پھر بھکاریوں نے مطالبہ کیا کہ ہم کو بھی دلواؤ، آپ نے ان کو بھی کچھ دے کر روانہ کیا، ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ قوم کے سردار کے پاس تین چیزوں کا ہونا لازمی ہے۔ اولاً مال و دولت تاکہ  لوگ جو کچھ اس سے مانگیں وہ ان کو دے دیا کرے، اس زمانے کے قلندر شربت مانگتے ہیں، اگر درویش کے پاس نقدی اور مال نہ ہو تو وہ ان کو شربت کہاں سے پلائے گا، ان مانگنے والوں کی حالت یہ ہے کہ یہ باہر نکلتے ہی  بدگوئی شروع کردیتے ہیں اور اپنے اس جرم مانگنے کے سبب قیامت کے روز عذاب میں گرفتار ہوں گے، دوسری چیز یہ ہے کہ درویش صاحب علم ہونا چاہیے تاکہ علماء کی صحبت میں ان سے علمی گفتگو کرسکے، تیسری چیز جو درویش کے لیے لازمی ہے وہ ’’حال‘‘ ہے تاکہ دوسرے درویشوں کو بھی حال میں لاسکے۔

اخبار الاخیار


متعلقہ

تجویزوآراء