حضرت مولانا شمس الدین محمدﷺ بن علی بن ملک داؤد التبریزی

حضرت مولانا شمس الدین محمدﷺ بن علی بن ملک داؤد التبریزی رحمتہ اللہ تعالٰی

مولویؒ نے ان کے القاب میں یہ لکھا ہے"المولی الاعزالداعی الی الخیر خلاصۃ الارواح سر المشکوۃ والز جاجۃ والمصباح شمس الحق والدین نور اللہ فی الاولین والاخرین یعنیوہ  لا عزیز تر خیر کی طرف بلانے والے ارواح کا خلاصہ طاق اور شیشہ کے اور چراغ کے بھید ہیں۔حق اور دین کے آفتاب اولین و آخرین میں خدا کے نور ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ میں ابھی مکتب میں تھا اور بالغ نہ ہوا تھا"اگر چالیس روز مجھ پر گزرتے۔سیرت محمدیﷺ کے عشق کی وجہ سے مجھ کو کھانے کی آرزو نہ ہوتی تھی"اور کھانے کی باتیں کرتے"تو میں ہاتھ اور سر سے منع کردیتا تھا۔آپ شیخ ابو بکر زنبیل باف تبریزی کے مرید ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ شیخ رکن الدین سنجاسی کے مرید ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ بابا کمال جندی کے مرید ہیں۔ممکن ہے کہ سب کی خدمت میں پہنچے ہو اور سب سے تربیت پائی ہو۔آخر حال میں ہمیشہ سفر کرتے تھے۔کالا نمدا پہنے رہتے تھے۔جہاں جاتے کروانسرائے میں ٹھہرے۔کہتے ہیں کہ جب خطہ بغداد میں پہنچے ،شیخ اوحدین کرمانی سے ملے اور پوچھا کہ کس کام میں ہو؟کہا کہ چاند کو پانی کی طشت میں دیکھتا ہوں۔مولانا شمس الدین نے فرمایا ،اگر گردن پر بندل نہیں رکھتا،تو کیوں آسمان پر نہیں دیکھتا۔کہتے ہیں کہ اس وقت جبکہ مولانا شمس الدین بابا کمال جندی کی صحبت میں تھے۔شیخ فخر الدین عراقی بھی شیخ بہاؤالدین زکریا کے فرمان کے مطابق وہیں رہتے تھے۔جو فتح اور کشف شیخ فخر الدین عراقی کی ہوئی تھے۔اس کو ظلم و نثر کے لباس میں ظاہر کرتے تھے،اور بابا کمال جندی کی نظر میں گذارتے تھے۔شیخ شمس الدین اظہار نہ کرتے تھے۔ایک دن بابا کمال نے ان سے کہا،اے فرزند شمس الدین ! جو اسرار و حقائق کہ فرزند فخر الدین عراق ظاہر کرتا ہے،تجھ پران مین سے کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا۔کہا،اس سے بڑھ کے مشاہدہ ہوتا ہے،لیکن اس وجہ سے کہ وہ بعض اصطلاحات اختیار کرتا ہے۔وہ ایسا کرسکتا ہے کہ ان کو اچھے لباس میں جلوہ دے،لیکن مجھے اس کی طاقت نہیں۔باباکمال نے فرمایا کہ حق سبحانہ تعالی تم کو مصاحبی نصیب کرےکہ اولین و آخرین کے معارف و حقائق تمہارے نام پر ظاہر کردے،اور حکمت کے چشمے جو اس کے دل سے زبان پر جاری ہوتے ہیں،اور حرف اور آواز کے لباس میں آتےہیں۔اس لباس کا نقش تیرے نام پر ہو۔کہتے ہیں کہ مولانا شمس الدین ۶۴۲ھ میں مسافرت کی حالت میں قونیہ میں پہنچے۔شکر ریزان کی سرائے میں اترے۔

          مولانا اس زمانہ میں تدریس علوم میں مشغول تھے۔ایک دن آپ فضلاء کی ایک جماعت کے ساتھ مدرسہ سے باہر نکلے اور شکر ریزان کے سرائے کے سامنے سے گذر رہے تھے۔شمس الدین سامنے سے آئےاور مولانا کی سواری کی ہاگ پکڑی،اور کہا،یا امام المسلین با یزید بڑے بزرگ ہیں،یا مصطفیﷺ ۔مولانا نے کہا،اس سوال کی ہیبت سے گویا ساتوں آسمان ایک دوسرے سے جداہوگئے اور زمین پر گر پڑے،اور بڑی آگ میرے دل سے دماغ تک لگی،اور وہاں سے میں نے دیکھا کہ دھواں عرش کے ساق تک نکلا۔اس کے بعد میں نے جواب دیا کہ مصطفیﷺ تو فرماتے ہیں،ماعرفناک حق معرفتکیعنی ہم نے تیرا حق معرفت نہیں پہچانا،اور ابو یزیدکہتے ہیں۔سبحانی مااعظم شانی وانا سلطان یعنی میں پاک ہوں،میری بڑی شان ہےاور میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ ابو یزید کی پیاس ایک گھونٹ سے بعد ہو گئی۔اس لیے سیرابی کا دم مارنے لگے۔ان کا ادراک کوزہ اس سے بھر گیا۔وہ نور اس کے گھر کی سوراخ کےبرابر تھا،لیکن مصطفی ﷺ کی بڑی پیاس تھی،اور آپ کا سینہ مبارک الم نشرح لک صدرک یعنی ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا،خدا کی بڑی فراخ زمین بنا ہوا تھا۔اس لیے آپ نے پیاس کا دم مارا،اور ہر روز قریب کی زیادتی کا تقاضا کیا۔مولانا شمس الدین نے نعرہ مارا اور گر پڑے،مولانا خچر سے اتر آئے،اور شاگردوں کو حکم دیا کہ ان کو پکڑ لیں اور مدرسہ میں لے جائیں۔جب تک ان کو ہوش نہ آیا تھا۔ان کا سر مبارک زانو پر رکھا تھا۔اس کے بعد ان کے ہاتھ کو پکڑا اور روانہ ہو گئے۔تین مہینے برابر دن رات سوم وصال کے ساتھ خلوت میں بیٹھے اور ہر گز باہر نہ آئے۔کسی کو طاقت نہ تھی کہ خلوت میں ان کے پاس آئے۔ایک دن مولانا شمس الدین نے مولانا سے معشوق کی درخواست کی۔مولانا اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر سامنے لے آئے۔فرمایا کہ وہ میری جانی بہن ہے۔مجھے ایک نازنین لڑکا چاہیے۔اس وقت اپنے فرزند سلطان ولد کو سامنے لائے۔فرمایا کہ یہ میرا فرزند ہے۔اب اگر قدر شراب ہاتھ لگے،تو مزہ دیتی۔مولانا باہر آئے اور آتش پرستوں  کے محلّہ میں ایک گھڑا شراب کے لے آئے۔شمس الدین نے فرمایا کہ میں، تو مولانا کے فراخ  مشرب کی طاعت کی قوت کا امتحان کرتاتھا۔جس قدر لوگ کہتے ہیں۔اس سے وہ بڑھ کر ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ میں ان مشائخ سے پوچھتا ہوں کہ لی مع اللہ وقت یعنی اللہ کے ساتھ ایک وقت ہے۔کیا ایسا وقت ہمیشہ رہتا ہے،تو کہتے ہیں کہ ہمیشہ نہیں رہتا،مقصود مولانا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ رہتا ہےاور یہ نادر ہے۔

          فرمایا کہ ایک شخص امت حضرت محمد ﷺ کے ایک درویش کو یہ دعا دی اور کہا کہ خدائے تعالی تجھ کو جمعیت خاطر دے۔اس نے کہا کہ ہے ہے یہ دعا مت کر۔بلکہ میرے لیے دعا مانگ کہ ار رب اس سے جمعیت خاطر لے لے۔خدایا اس کو تفرقہ دےکہ میں جمعیت سے عاجز آگیا ہوں۔فرماتے ہیں کہ ،ایک نے کہا کہ غسل خانہ میں  خدا کا نا نہ لینا چاہیے۔قرآن نہیں پڑھنا چاہیے،مگر آہستہ۔میں نے کہا،میں نہ کیسے کرسکتا ہوں،اس کو اپنے سے جدا نہیں کر سکتا ۔بادشاہ گھوڑے سے نیچے نہیں اترتا۔گھوڑا بیچارہ کیا کرے۔بعض کہتے ہیں کہ جب مولانا شمس الدین قونیہ میں پہنچے ،اور مولانا کی مجلس میں آئے،تو مولانا حوص کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے۔چند کتابیں اپنے پاس رکھی تھیں۔پوچھا یہ کیسی کتابیں ہیں؟مولانا نے کہا ان کو قیل و قال کہتے ہیں۔آپ کو اس سے کیا مطلب؟مولانا شمس الدین نے ہاتھ بڑھایا اور تمام کتابوں کو حوص میں ڈال دیا۔مولانا بڑے افسوس سے کہتے ہیں کہ ہےہے ،درویش یہ تم نے کیا کیا؟ان میں بعض میرے والد کے فوائد تھے کہ اب وہ میسر نہیں ہوسکتے۔شیخ شمس الدین نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور ایک ایک کرکے باہر نکالا ۔پانی کا اثر ذرا  بھی نہ ہوا۔مولانا نے کہا کہ یہ کیا بھید ہے؟شیخ شمس الدین نے فرمایا،یہ ذوق و حال ہے۔تجھ کو اس کی کیا خبر۔اس کے پاس ایک دوسرے کے پاس آتے رہے،جیسا کہ گذرا۔ایک رات شیخ شمس الدین مولانا کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ایک شخص نے دروازہ کے باہر شیخ کے اشارہ کیا کہ باہر آئیے۔فی الھال اٹھ کھڑے ہوئے۔مولانا سے کہا،مجھے قتل کے لیے بلاتے ہیں۔بہت توقف کے بعد مولانا نےفرمایا۔الا لہ الخلق والا مر تبارک اللہ رب العالمین یعنی دیکھو!اسی کے لیے خلق اور امر ہے۔وہ اللہ رب العالمین بابرکت ہے۔سات شخص ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے، گھات میں کھڑے  تھے۔انہوں نے چھری چلائی۔شیخ نے نعرہ مارا۔چنانچہ وہ جماعت بے ہوش ہوگئی اور گر پڑی۔ان میں سے ایک علاؤالدین محمد تھا۔جو مولانا کا فرزند تھااور اس داغ سے داغ دار تھا۔انہ لیس من اھلک یعنی بے شک وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہیں۔جب وہ جماعت ہوش میں آئی،تو سوائے خون کے چند قطروں کے اور کچھ نہ دیکھا۔اس روز سے اب تک سلطان معنی کا نشان ظاہر نہیں ہے اور یہ واقعہ ۶۲۵ھ میں ہوا تھا۔وہ سب نالائق ،ایک ایک بلا میں مبتلا ہوئے اور ہلاک ہوگئے۔علاؤالدین محمد کو عجب قسم کی بیماری ہوئی۔انہیں دنوں میں فوت ہوگیا،اور مولانا اس کے جنازہ پر حاضر نہ ہوئے۔بعض کہتے ہیں کہ شیخ شمس الدین مولانا بہاؤالدین کے پہلو میں دفن ہوئے۔بعض کہتے ہیں کہ ان نالائقوں نے آپ کے بدن مبارک کو کنوئیں میں ڈال دیاتھا۔ایک رات سلطان ولد نے خواب میں دیکھا کہ شیخ شمس الدین نے اشارہ کیا ہےکہ میں فلاں کنوئیں میں سوتا ہوں۔تب آدھی رات کو مھرم دوستوں کو جمع کیا اور مولانا کے مدرسہ میں بانی مدرسہ امیر بدر الدین کے پہلو میں دفن کردیا۔واللہ اعلم۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء