حضرت شیخ ابو مدین مغربی

حضرت شیخ ابو مدین مغربی علیہ الرحمۃ

آپ کا نام شعیب بن الحسین بالحسن ہے۔اس گروہ کے بڑوں میں سے ہیں۔بہت سے مشائخ آپ کی صحبت و خدمت میں تربیت پائے ہیں۔منجما۔ان کے شیخ محی الدین عربی ہیں۔وہ اپنی تصنیفات میں ان کا ذکر بہت کرتے ہیں۔ان کی باتوں اور معرفت  کا ذکر کیا ہے۔امام یا فعی کہتے ہیں کہ یمن کے اکثر شیخ  تو  شیخ عبدالقادرؒ سے نسبت رکھتے ہیں اور بعض شیخ ابو مدین  سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ تو شیخ مغرب  ہیں اور یہ شیخ مشرق ہیں۔یعنی عبدالقادرؒ"کتاب فصوص الحکم"میں مذکور ہے کہ ایک ابدال نے ایک شیخ سے کہا"ابو مدین سے بعد سلام کے کہو کہ  اس کا کیا سبب ہےکہ جو چیز ہم پر مشکل نہیں ہوتی" وہ تم پر مشکل ہوتی ہے۔باوجود اس کے جو تمہارا مقام ہے۔ہم اس کی خواہش رکھتے ہیں اور تم اس مقام کی کہ جس میں ہم ہیں۔خواہش نہیں رکھتے۔فتوحات میں مذکور ہے کہ میں نے ایک ولی اللہ سے سناکہتے تھے کہ میں نے اس گروہ کے ایک بزرگ سے سنا وہ کہتے تھے"میں نے شیطان کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا"تیرا حال شیخ ابو مدین  کے ساتھ جو کہ توحید و توکل میں امام ہیں"کیسا ہے؟کہا"میرا حال ان کے ساتھ یہ ہے کہ جب میں کوئی شے  ان کے دل میں ڈالتا ہوں تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے کہ کوئی شخص محیط سمندر میں پیشاب کرے۔اس سے لوگوں نے پوچھا کہ تم نے پیشاب کیوں کیا تو وہ یہ کہے کہ اس لیے کہ سمندر ناپاک ہو جائے اور وضو اس سے نہ ہوسکے۔سو ایسے شخص سے کوئی بھی بڑھ کر بے وقوف ہوگا۔اسی طرح میری نسبت ابو مدین کے دل کے ساتھ ہے۔فتوحات میں یہ بھی مذکور ہے کہ لوگ تیمن اور تبرک کی وجہ سے شیخ ابومدین سے ہاتھ ملاتے تھے اور ان کے ہاتھ پر بوسہ دیتے تھے۔لوگوں ان سے پوچھا کہ تم اپنے نفس میں اس کاکچھ اثر پاتے ہو؟کہا" حجراسود اپنے اندر کچھ اثر پاتا  ہے کہ جس کو بہترین میں سے نکال دے۔باوجود یہ کہ اس کو انبیاء اور رسول علیہم السلام اوراولیاء کرام بوسہ دیتے رہے ہیں۔لوگو ں نے کہا کہ نہیں۔کہا" تو بس میں بھی وہی حجراسود ہوں۔میرا بھی وہی حکم ہے۔ایک دن شیخ ابو مدین نے مغرب کے ایک شہر میں اپنی گردن کو پست کیا اور کہا"اللھم انی اشھدک واشھد ملائکتک انی سمعت واطعت یعنی خداوندا میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیرے فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں میں نے تیرا حکم سنا اور اطاعت کی۔ان کے مریدوں نے پوچھا کہ حضرت اس دعا کا کیا سبب تھا؟شیخ عبدالقادرؒ نے آج بغداد میں کہا ہے"قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ۔اس کے بعد شیخ عبدالقادرؒ کے بعض مرید بغداد سے آئے اور خبر لائے کہ شیخ عبدالقادرؒ نے اسی وقت یہ کلمہ کہا تھا۔جب شیخ ابو مدین یہ آیت سنا کرتے"وما اوتیتم منالعلم الا قلیلا یعنی تم کو تھوڑا ہی علم دیا گیا ہے تو کہا کرتے کہ یہ تھوڑا سا علم جو خدا نے ہم کو دیا ہے۔یہ بھی ہمارے ملک میں نہیں۔ بلکہ ہمارے پاس عاریت ہے اور ہمیں بیت سا علم نہیں ملا۔پس ہمیشہ ہم جاہل ہیں۔

فتوحات مکیہ میں بھی لکھا ہے۔کان شیخناابومدین بالمغرب قدترک الحرفۃ وجلس مع اللہ تعالٰی علی ما یفتح اللہ لہ وکان علی طریقۃ عجیبۃ مع اللہ فی ذالک الجلوس فانہماکان یردشیئا یوتی الیہ بہ مثل الا امام عبدالقادر الجیلی سواء غیر ان عبدالقادر کان انھض فی الظاھر لما بعطیہ الشرف فقیل لہ یاابا مدین لم لا تحترف اولم لا یقول بالحرفۃفقال الضیف عند کم اذا انزل بقوم و عزم علی الاقامۃ کم تواقیت زمان وجوب ضیافۃ علیھم قالواثلثۃ ایام قال وبعد ثلاثۃ ایام قالوا تحرف ولا یقعد عند ھم حتی یخر جھم قال الشیخ اللہ اکبر انصفونانحن اضیاف ربنا تبارک و تعالٰی نزلنا علیہ فی حضرتہ علی وجھہ لا قامۃ عندہ الی الابد فتعینت الضیافۃ فانہ تعالٰی مادل علی کریم خلق بعبدہ الا کان ھو اولی بالانصاف بہ قالو انعم قال وایام ربنا کما قال وان یوما عندربک کالف سنۃ مما تعدون فضیافۃ بحسب ایامہ فاذا اقمنا عندہ فی ثلثۃ الاف ثلثہ وانقضت ولا تحترف یتوجہ اعتر اضکم علینا ونحن نموت وینقض الدینا ویبقی لنا فضلۃ عندہ تعالٰی من ضیا فتنا فاستحسن ذالک منہ المعترض فانظر فی ھذا النفس ان کنت منھم وکان ابو مدین یامر اصحابہ یاظھارا الطاعات فانہ لم یکن عندہ فاعل الا اللہ یعنی ہمارے شیخ  ابو مدین مغرب میں رہتے تھے۔انہوں نے کمائی چھوڑدی تھی او ر خدا کے مہمان ہو کر بیٹھے رہتے تھےجو کچھ وہ انہیں دیتا۔ان کا اس سنت میں خدا کے ساتھ عجیب طریق تھا۔کیونکہ جو کچھ خدا ان کو دیتا،و رد نہیں کرتے۔وہ اور امام عبدالقادرجیلیؒ اس میں برابر تھے،مگر یہ کہ عبدالقادر ظاہری تکلیف اور شرافت میں ان سے بڑھ کر تھے۔ان سے کہا گیا کہ اے ابو مدین آپ حرفہ کیوں نہیں کرتے یا کیوں نہیں حرفہ کی تعلیم دیتے۔آپ نے فرمایا کہ جب تمہارا مہمان  کسی قوم میں آئے اور اقامت کا ارادہ کرے تو اس کی ضیات کا ضروری زمانہ کتنا ہے؟انہوں نے کہا کہ تین دن۔پوچھا کہ پھر تین دن کے بعد اس کو کیا کرنا چاہئے۔تاکہ ان کا حرج نہ ہو۔شیخ نے کہا،اللہ اکبر ہم خدا کے مہمان ہیں۔اس کے حضور میں اقامت کے لیے ٹھیرے ہوئے ہیں۔سو ہماری ضیافت اس کے پاس ہمیشہ کے لیے معین ہوگئی۔کیونکہ وہ خدا جس عمدہ خلق کی لوگوں کو ہدایت کرتاہے،خوداس کا زیادہ مستحق ہے۔لوگوں نے کہا،ہاں بیشک۔کہا کہ ہمارے رب کے دن جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے کہ ایک دن تیرے رب کے نزدیک ہزار سال کے برابر ہے،جس کو تم شمار کرتے ہو۔پس ہماری ضیافت اس کے دنوں کے مطابق ہوگی۔اب جو ہم اس کے نزدیک تین ہزار سال تک رہیں اور وہ زگر جائیں پھر ہم حرفت نہ کریں تو بے شک تمہارا اعتراض ہم پر وارد ہوگاحالانکہ ہم بھی مر جائیں اور دنیا گزر جائے گی۔تب بھی خدا کے پاس ہامری ضیافت کا حصہ باقی رہے گا ۔اس جواب کے معترض نے بہت پسند کیا۔اب اس نفس میں سوچ اگر تو ان میں سے ہے۔

          ابو مدین اپنے اصحاب کو طاعات کے اظہار کے لیے حکم کیا کرتے تھے۔کیونکہ ان کے نزدیک اللہ کے سوا اور کوئیفاعل نہیں ہے۔ایک دن ابو مدین دریا کے کنارے پر جا رہے تھے۔فرنگ کے کافروں کی ایک جماعت نے ان کو قید کر لیا اور اپنی کشتی میں لے گئے۔دیکھا کہ وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت قید کی ہوئی ہے۔جب شیخ نے کشتی میں قدم  رکھا تو کافروں نے لنگر چھوڑ دیا۔تاکہ روانہ ہوں۔ہر چند کوشش کی وہاں سے کشتی نہ ہلی ۔ایک دوسرے سے کہنے لگے۔غالباً یہ اس کا ٹھیرنا اس مسلمان کے باعث ہے۔جس کو ہم نے ابھی پکڑا ہے۔شاید یہ کوئی ولی آدمی ہے۔شیخ کو انہوں نے اجازت دی کہ آپ کشتی سے اتر جائیں۔شیخ نے کہا، جب تک یہ سارے مسلمان نہ چھوڑو گے ،میں باہر نہ جاؤں گا۔جب اس کے سوا کوئی علاج نہ دیکھا تو سب کو چھوڑ دیا۔اسی وقت ان کی کشتی روانہ ہوگئی اورفرماتے ہیں۔اذا ظھر الحق معہ غیرہ یعنی جب حق ظاہر ہوجاتا ہےتو اس کے ساتھ اور کوئی نہیں رہتااور وہ یہ بھی کہتے ہیں۔لیس فی القلب سوی وجھۃ واحدۃ فالی ایی وجھۃ تو جھت حجبت عن غیر ھا یعنی دل کی ایک ہی جہت ہے۔اب جس طرف تو توجہ کرے گا۔اس کے غیر سے چھپ جائے گا ۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں۔ماوصل علی صریح الحریتہ من علیہ من نفسہ بقیۃیعنی وہ شخص صریح آزاد نہیں ہوا۔جس پر اس کے نفس سے کچھ بقیہ ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں،من رایتہ یدعی مع اللہ حالا یکون علی ظاھرہ منہ شاہد فا حذروہ ومن کان الا اخذمنہ اجب اللہ من العطاء فما شم رائحۃ الفقر ومن اشعارہ۔شعر

                   لا تنکر الباطل فی طورہ          فانہ من بعض ظھورانہ

         واعطہ منک بمقدارہ           حتی توفی حق ائباتہ

    یعنی مت انکار باطل کو اپنے طور میں ۔کیونکہ وہ اسی کے بعض ظہورات میں سے ہے اور وہ اس کو اپنی طرف اس کا مرتبہ یہاں ت کہ اس کے اثبات کا حق پورا کردے ۔آپ ۵۹۰ھ میں ہجری میں فو ت ہوئے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء