حضرت ابوالحسن مغربی شناذلی

حضرت ابوالحسن مغربی شناذلی علیہ الرحمۃ

          آپ کا نام علی بن عبداللہ ہے۔شریف حسنی ہیں۔اسکندریہ کے رہنے والے ہیں۔وہاں کے بہت لوگ آپکی خدمت میں رہے ہیں۔آپ بڑے اولیاء اللہ اور بڑے مشائخ میں سے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ میں سیرو سفر میں تھا۔ایک جنگل میں سویا ہوا تھااور صبح تک درندے میرے گرد جمع تھے۔ہر گز اس رات جیسا انس کبھی نہیں پایاتھا۔میرے دل میں آیا کہ مجھے خدائے تعالیٰ کے مقام انس سے کچھ حاصل ہوگیا۔ایک نہر پر میں آیا۔وہاں پر اتنے چکور دیکھے کہ اتنے نہ دیکھے تھے۔جب انہوں نے میرے پاؤں کی آواز سنی ۔سب ایک دم بھاگ گئے۔یہاں تک کہ ڈرکے مارے مجھ سے خفقان ہوگیا۔میں نے سنا کہ وہ مجھے کہتے ہیں،اے وہ شخص جس نے کل درندوں کے ساتھ انس حاصل کیا تھا۔تجھ کو کیا ہوگیا کہ ان چکوروں کے اڑنے سے ڈر گیا،لیکن کل تم ہمارے ساتھ تھےاور آج اپنے نفس کےساتھ ہو۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اسی دن تک بھوکا رہا تھا۔میرے دل میں آیا کہ تجھ کو اس کام سے حصہ حاصل ہوا۔دفعتہً ایک عورت کو دیکھا کہ غار سے باہر آئی،جو نہایت خوبصورت تھی۔گویا اس کا چہرہ ایک آفتاب تھا۔کہنے لگی،منحوس اسی دن تک بھوکا رہا اور ٹھہر گیا۔پھر خدا پر اپنے اعمال کا ناز کرتا ہے۔مجھ کو چھ ماہ گزر گئے ہیں کہ کھانا نہیں چکھا۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں ایک دن غار میں تھا۔میں نے کہا،الہٰی میں تیرا شاکر بندہ ہوں۔پھر میں سنا کہ مجھے کہتے ہیں۔جب اپنے سوا کسی اور کو جس پر انعام کیا گیاہو،نہ دیکھے گا۔میں نے کہا،الہٰی کیونکہ میں نے اپنے سوا کسی اور کو انعام پانے والا نہ سمجھوں۔حالانکہ تم نے انبیاء علیہ السلام پر انعام کیا ہے۔بادشاہوں پر انعام کیا ہے۔میں سنا کہ کہتے ہیں،اگر انبیاء نہ ہوتے تو تم راہ راست نہ پاتےاور اگر علماء نہ ہوتےتو پیروی کس کی کرتے،اگر بادشاہ نہ ہوتے تو بے غم نہ ہوتےاور یہ سب میری نعمتیں تم پر ہیں۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرا ایک رفیق تھا۔اس کے بع دمیں غار میں ایک جگہ بنائی۔ہم خدائے تعالیٰ کے ملنے کی طلب کرتے تھےاور کہتے تھے کہ کل مجھ کو فتح ہوگی۔اتفاقاً ایک مرد آیا،جو کہ باہیبت تھا۔ہم نے کہا کہ تم کون ہو؟کہا،عبدالملک ۔ہم نے جانا کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہے۔ہم نے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟کہا،تمہارا کیاحال ہے؟اس شخص کا حال کیا ہوگا،جو کہ یہ کہتا ہے کہ کل مجھے فتح ہوگی اور اس سے اگلے دن مجھے کشود ہوجائے گی۔یہ نہ ولایت ہے،نہ فلاح۔اے نفس کیوں خدا کی عبادت خدا ہی کے لیے نہیں کرتا۔ہم نے جان لیا کہ اس کو ہماری طرف کیوں لائے ہیں۔ہم نے توبہ استغفار کی اور ہم پر فتح ظاہر ہوئی۔

        وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھاتو آپؑ نے فرمایا۔یا علی طھر تیابک من الدنس تحظ بمدداللہ فی کل نفس یعنی اے علی پاک کر اپنے کپڑوں کو میل سے،تاکہ خدا کی مددسے ہر دم تم کامیاب ہو۔میں نے کہا،یارسول اللہ میرے کپڑے کون سے ہیں؟فرمایا کہ خدائے تعالی نے تم کو پانچ خلعتیں پہنائی ہیں۔اعل خلعت محبت،دوم خلعت معرفت،سوم خعلت توحید،چہارم خلعت ایمان،پنجم خلعت اسلام۔جو شخص خدائے تعالیٰ کو دوست رکھتا ہے۔اس پر ہر چیز آسان ہوجاتی ہےاور جو شخص خدا کو پہچانتا ہے۔اس کی نطر میں تمام چیزیں چھوٹی نظر آتی ہیں اوروج شخص کہ خدا کو ایک جانتا ہےتو کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا۔جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے،وہ ہر چیز سے بے خوف ہوجاتا ہے۔جو شخص اسلام پرہو،خدائے تعالیٰ کا گناہ گار نہیں ہوتا،اگر گناہ گار بھی ہے تو عذر کرتا ہےاور وہ قبول کرلیتا ہے۔شیخ ابوالحسن فرماتے ہیں،یہیں سے میں نے خدا کے اس قول کا مطلب سمجھ لیا۔وثیا بک فطھر یعنی اپنے کپڑوں کو پاک کر تو شاگرد شیخ ابوالعباس مرسی کہتے ہیں کہ مدینہ شریف سے میں نے امیر المومنین حمزہ رضی اللہ عنہ کی زیارت کا ارادہ کیا۔راستہ میں ایک اور شخص میرا رفیق بن گیا۔جب ہم وہاں پر پہنچے تو مزار کا دروازہ بند تھا۔حضرت رسالت پناہﷺ کہ روحانیت کی برکت سے کھل گیا۔ہم اندر گئے۔دیکھا کہ روضہ کے نزدیک ایک مرد دعا مانگتا ہے۔میں نے اپنے رفیق سے کہا کہ مرد ابدال ہے اور دعا اس وقت مقبول ہے۔اس نے دعا مانگی کہ خدائے تعالٰی اس کو اشرفی روزی کردے اور میں نے دعا مانگی کہ خدائے تعالٰی بلائے دنیا اور  عذاب آخرت سے نجات دے۔جب لوٹنے کے وقت مدینہ شریف کے  نزدیک ہم پہنچے۔ایک شخص سامنے آیا اورمیرے رفیق کو اس نے ایک دینار دیا اور جب ہم مدینہ میں آئے اور شیخ ابو الحسن کی نظر ہم پر پڑی تو میرے رفیق سے کہا"اے خسیں الہمت تم نے ایسی گھڑی پائی تھی کہ جس میں دعا قبول ہوتی تھی"مگر تم نے ایک دینارپر خرچ کردی۔کیوں تو ابو العباس کی طرح نہ ہوا کہ خدائے تعالٰی سے دینار اور آخرت کی عافیت مانگتا۔خدائے تعالٰی نےاس کی دعا قبول کیوہ فرماتے ہیں کہ شروع حال میں مجھے اس بارہ ترود ہوا کہ آیا جنگل میں لوگوں سے منقطع ہو کررہوں یا آبادی میں آؤں کہ جس میں علماء بزرگوں کی صحبت میسر ہو۔مجھ کو بتایا گیا کہ پہاڑ پر ایک ولی رہتے ہیں۔میں نے ان کی زیارت کا ارادہ کیا۔رات کے وقت میں وہاں گیا۔دل میں کہا کہ رات کے وقت ان کی خدمت میں نہ جاؤں۔اس لیے اس غار کے دروازہ پر سورہا تھا۔میں نے سنا کہ وہ اندر سے یہ کہتا ہے کہ خدایا بعض لوگ ایسے ہیں کہ تجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ تو اپنی مخلوق کو ان کا مسخر بنادے۔تو نے مسخر کردیا تو وہ مجھ سے اس پر راضی ہوگئے"لیکن میں تجھ سے مانگتا ہوں کہ اپنے مخلوق کو مجھ سے بدگو بنادے۔تاکہ مجھ کو تیرے سوا اور کسی کا ٹھکانہ نہ ہو۔میں نے دل میں کہا"اے نفس سن لے کہ یہ شیخ کس سمندر کا اقرار کرتا ہے۔جب صبح ہوئی تو میں ان کے سامنے گیا اور سلام کہا۔اس کی ہیبت و خوف سے میں بھر گیا۔میں نے کہا"اے میرے سردار کیا حال ہے؟کہا کہ میں خدائے تعالٰی سے نیکی اور تسلیم"خوشی "رضا کی شکایت کرتاہوں۔جس طرح تو نے تدبیر اختیار کی گرمی کی شکایت کرتاہے۔کہا کہ میں تدبیر و اختیارکی گرمی کو جانتا ہوں اور اس وقت  اس میں ہوں"مگر فرمائیے کہ نیکی"تسلیم"رضا کیا ہےاور کیوں اس کی شکایت کرتےہو؟کہا" میں ڈرتا ہوں کہ اس کی سختی مجھ کو خدائے تعالٰی سے مشغول کرے۔میں نے کہا"اے میرے سردار میں نے سنا ہے کہ آپ رات کو کہتے تھے۔خدایا تیرے بعض ایسی بندے ہیں کہ تم سے یہ چاہتے ہیں کہ اپنی مخلوق کو ان کے مسخر کردے۔تو نے ان کو مسخر کردیا تو وہ راضی ہوگئے۔شیخ ہنس پڑے اور کہا"اے فرزند تم جو اللھم سخرنی کہتے ہو۔یعنی اے خدا میرے مسخر بنادے۔اس کے عوض اگر یوں کہے"اللھم کن لیالٰہی تو میرا ہو جاتو کیا تجھے  گمان ہے کہ جس کا خدائے تعالٰی ہوجائے"وہ کسی کا محتاج ہوگا۔یہ بددلی کیا ہے؟امام یافعی کہتے ہیں کہ میں نے بعض مشائخ سے سنا ہے کہ جب کوئی ان سے دعا کے لیے کہتا تو آپ کہتے"کان اللہ لک یعنی خدا تیرا ہوجائےیہ کلمہ باوجود چھوٹا ہونے کے تمام مقاصد کاجامع ہے کیونکہ جب خدا تعالٰی کسی کا ہو جائے تو اس کے سارے مطلب دےدیتا ہے لیکن خدائےتعالٰی اس کا بنتا ہےجو اس کا ہوجائے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہےمن کان اللہ کان اللہ لہ یعنی جو شخص کہ خدائے تعالٰی کا ہوجائے"خدا اس کا ہوجاتا ہے۔شیخ ابو الحسن فرماتے ہیں۔انالا نری مع الحق من الخلق احداوان کان ولا بدفکا لھباء فی الھواء ان فتشۃ لم تجدشیءا یعنی ہم خدا کے ساتھ کسی مخلوق کو کچھ بھی نہیں دیکھتے اور اگر ضروری ہو تو ایسا دیکھتے ہیں۔جیسا کہ ایک ذرہ ہوا میں ہوتا ہے"اگر اس کی تفتیش کرو تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہلا تکنحظک من دعائکالفرح بقضاء حاجتکدون فرحک بمناجانک لمحبو بک فتکون من المحجو بین یعنی تیرا حصہ دعا سے ایسا نہ ہونا چاہیئے کہ اپنی حاجت روائی سے خوش ہو اور اپنے محبوب سے مناجات کرنے میں خوش نہ ہو۔پھر محجوبین میں سے ہوجائے گا۔یعنی خدا سے دور ہو جائے گا۔آپ یہ بھی کہتے ہیں"کلفقیر لم یکن فیہ اربعہ ادبفجعلہوالتراب سواء لارحمۃ للاصاغروالحرمۃ للاکابروالانصافمن النفسو ترکالانصافلھایعنی جس فقیر میں چار آداب نہ ہوں تو اس کو اور  مٹی کو برابر سمجھ"چھوٹوں پر رحم کرنا"بڑوں کی تعظیم"نفس سے انصاف چاہنا اور اپنے لیے انصاف کو چھوڑ دینا۔آپ ۶۵۴ھ میں ایسے وقت میں فوت ہوئے کہ مکہ مبارکہ کی طرف ایسے جنگل مین توجہ کر رہے تھے کہ جس میں کھاری پانی تھا۔جب آپ کو وہاں دفن کیا تو آپ کی برکت سے وہ پانی میٹھا ہوگیا۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء