امام المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی
امام المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ
نام :
احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن محمود بن احمد بن احمد بن کنانی عسقلانی، مصری، شافعی
پیدائش :
۲۲ شعبان المعظّم ۷۷۳ھ کو مصر میں پیدا ہوئے ۔ابھی کم سن ہی تھے کہ والدۂ محترمہ کا انتقال ہوگیا اور پانچ سال کی عمر کو پہنچےتو والدِ محترم بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔اس وقت آپ کی پرورش مصر کے ایک تاجر اور آپ کے والد کے دوست زکی الدین خروبی نے کی۔
تعلیم و تربیت :
پانچ سال کی عمر میں مدرسے میں داخل ہوئے اور نو سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوئے نیز العمدہ، الحاوی الصغیر اور مختصر ابن حاجب بھی حفظ کرلیں۔
۷۸۵ھ میں مکہ مکرمہ حج کے لیے حاضر ہوئے اور شیخ عفیف الدین عبداللہ بن محمد نشاوری اور شیخ جمال الدین بن ظھیرہ سے حدیث کا درس لیا۔
۷۸۶ھ میں واپس مصر لوٹ آئے اور علمِ دین کے حصول میں مشغول ہوگئے۔
۷۸۷ھ میں آپ کے سرپرست زکی الدین خروبی کا بھی انتقال ہوگیا مگر آپ نے علمِ دین سے منہ نہ موڑا بلکہ ہمہ تن علم حدیث کی تحصیل میں مصروف ہوگئے۔
آپ کے قوتِ حافظہ کا یہ عالم تھا کہ اکثر کتب آپ کو حفظ ہوگئیں پھر آپ کی خوش بختی کہ علامہ امام زین الدین عراقی کی صحبت آپ کو میسر ہوگئی۔ ان کی خدمت میں آپ نے دس سال گذارے اور علمِ حدیث کی تکمیل کی، نیز علامہ ابو حفص عمر بن ارسلان بلقینی کی خدمت میں حاضر ہوکر علمِ فقہ حاصل کیا اور اسی طرح امام عزالدین ابن جماعۃ کی خدمت میں ان کے وصال تک رہے اور علومِ دینیہ کی تحصیل فرماتے رہے۔
بیس سال کی عمر میں ۷۹۳ھ قوص ہجرت کی اور نور الدین انصاری سےاکتسابِ علم کیا۔
اس کے بعد اسکندریہ، قاہرہ، یمن، تعز، زبید، عدن ،مکۂ مکرمہ، مدینۂ منورہ، شام، غزہ، نابلس، رملہ، دمشق اورحلب ہجرت کرکے علومِ دینیہ کی تحصیل فرماتے رہے۔
آپ نے جن مشائخ سے علوم دینیہ کی تحصیل فرمائی ان کی تعداد تقریباً ۷۳۰ ہے۔
جن کا ذکر آپ نے اپنی تالیف المجمع المؤسس للمعجم المفہرس میں فرمایا۔
علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی جس اخلاص اور انہماک سے علوم دینیہ حاصل فرماتے رہے وہ قابلِ تقلید ہے اوراس سبب سے وہ علم و فضل کے بحرِ ذخّار ٹھہرے ۔ اپنے معاصرین پر سبقت لے گئے بلکہ علمِ حدیث میں ان کا یہ مقام ٹھہرا کہ ان کے پائے کا محدّث چند صدیوں تک پیدا نہ ہوسکا اور امیر المؤمنین فی الحدیث، حافظ الحدیث اور شیخ الاسلام جیسے القابات سے ان کو یاد کیا جاتا ہے۔
تاثرات ائمہ:
آپ کے استاد علامہ حافظ زین الدین عراقی اپنے شاگردوں میں آپ کو حدیث کا سب سے بڑا عالم فرماتے۔ نیز ایک مقام پر فرماتے ہیں ‘‘الشیخ العالم الکامل الفاضل المحدث، المفید الحافظ المتقن الضابط الثقۃالمامون جمع الرواۃوالشیوخ و میز بین الناسخ والمنسوخ و جمع الموافقات والابدال ومیز بین الثقات والضعفاء من الرجال ۔’’[1]
علامہ حافظ تقی الدین محمد بن محمد بن فھد آپ کے متعلق فرماتے ہیں:
علامہ، امام، حافظ، محقق، عدیم النظیر، آپ جیسی شخصیت نگاہوں نے نہیں دیکھی[2]۔
علامہ ابنِ عماد فرماتے ہیں:
آپ حافظِ عصر، شیخ الاسلام امام الحفاظ امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔[3]
امام جلال الملۃ والدین سیوطی فرماتے ہیں:
شیخ الاسلام امام الحفاظ فی زمانہ و حافظ الدیار المصریۃبل حافظ الدنیاء قاضی القضاۃ مطلقاً[4]
قوتِ حافظہ:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو وسعت علم اور قوت حافظہ عطا فرمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پڑھنے میں اتنی تیز رفتاری تھی کہ صرف چار چار مجلس میں سنن ابن ماجہ اور صحیح مسلم کو ختم کردیتے تھے۔ معجم صغیر طبرانی کو صرف ظہر اور عصر کے درمیان ختم کرلیا۔
کتابت بھی اسی سرعت سے فرماتے۔
فنِّ اسماء الرجال:
محدثینِ کرام نے جمع و ترتیبِ احادیث کے ساتھ ساتھ احادیثِ طیبہ کی صحت کے حوالے سے علمِ اسماء الرجال بھی ترتیب دیا۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ کے زمانۂ مبارکہ تک محدّثین نے اگرچہ اس حوالے سے کام کیا مگر حافظ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اس فن میں امام ٹھہرے۔ اس فن کی معرفت آپ کی ذات پر ختم تھی۔
تصانیف:
علامہ حافظ محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی نے آپ کی تصانیف کی تعداد ۲۷۰ تحریر فرمائی ہے۔
بعض کے نام یہ ہیں:
۱۔ الآیات النیرات فی معرفۃ الخوارق والمعجزات
۲۔ البحث عن احوال البعث
۳۔ الغنیۃ فی مسألۃ الرؤیۃ
۴۔ الااحکام لبیان ما وقع فی القرآن من الابھام
۵۔ اتحاف المھرۃ بأطراف العشرۃ
۶۔ الأربعون التالیۃ للمائۃ العشاریۃ
۷۔ الأنارۃ فی أطراف الأحادیث المختارۃ
۸۔ تجرید زوائد مسند البزار علی مسند أحمد والکتب الستۃ
۹۔ تحفۃ أھل التحدیث عن شیوخ الحدیث
۱۰۔ تسدید القوس فی مختصر الفردوس
۱۱۔ تعریف أھل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس
۱۲۔ التعلیق علی ‘‘موضوعات ابن الجوزی’’
۱۳۔ تغلیق التعلیق
۱۴۔ التلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر
۱۵۔ الجامع الکبیر من سُنن البشیر النذیر
۱۶۔ جزء الوقوف علی مافی صحیح مسلم من الموقوف
۱۷۔ جلاء القلوب فی معرفۃ المقلوب
۱۸۔ الدرایۃ فی تخریج أحادیث الھدایۃ
۱۹۔ شرح الترمذی
۲۰۔ طرق حدیث (أولی الناس بی)
۲۱۔ طرق حدیث ‘‘غب الزیارۃ’’
۲۲۔ فتح الباری بشرح صحیح البخاری
۲۳۔ القول المسدّد فی الذبّ عن مسند الامام أحمد
۲۴۔ الکافی الشاف فی تخریج أحادیث الکشاف
۲۵۔ اللآلیء المنثورۃ فی الأحادیث المشھورۃ
۲۶۔ اللباب فی شرح قول الترمذی ‘‘وفی الباب’’
۲۷۔ الماءۃ العشاریۃ من حدیث البُرھان الشامی
۲۸۔ المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ
۲۹۔ نخبۃ الفکر فی مصطلح أھل الأثر
۳۰۔ نزھۃ السامعین فی روایۃ الصحابۃ عن التابعین
۳۱۔ نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر
۳۲۔ ھدایۃ الرواۃ الی تخریج أحادیث المصابیح والمشکاۃ
۳۳۔ الاعلام بمن ذکر فی البخاری من الأعلام
۳۴۔ تبصیر المنتبہ بتحریر المشتبہ
۳۵۔ تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال الأئمۃ الأربعۃ
۳۶۔ تقریب التھذیب
۳۷۔ تھذیب التھذیب
۳۸۔ لسان المیزان
۳۹۔ نزھۃ الألباب فی الألقاب
۴۰۔ المجمع المؤسس للمعجم المفھرس
۴۱۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ
۴۲۔ الاعلام بمن سمی محمدا قبل الاسلام
۴۳۔ الاعلام بمن ولی مصر فی الاسلام
۴۴۔ انباء الغمر بأنباء العمر
۴۵۔ الأنوار بخصائص المختارﷺ
۴۶۔ الایناس بمناقب العباس
۴۷۔ توالی التأسیس بمعالی ابن ادریس
۴۸۔ الدرر الکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ
۴۹۔ رفع الاصر عن قضاۃ مصر
۵۰۔ الزھر النضر فی نبأ الخضر
۵۱۔ السیرۃ النبویۃ
۵۲۔ شرح نظم السیرۃ للعراقی
۵۳۔ القصد الأحمد فیمن کنیتہ أبو الفضل واسمہ أحمد
۵۴۔ مختصر المولد النبوی للعراقی
۵۵۔ بلوغ المرام من أدلۃ الأحکام
۵۶۔ تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب
۵۷۔ شرح مناسک المنھاج للنووی
۵۸۔ عجیب الدھر فی فتاوی شھر
۵۹۔ قوۃ الحجاج فی عموم المغفرۃ للحجاج
۶۰۔ کشف الستر برکعین بعد الوتر
۶۱۔ بذل الماعون بفضل الطاعون
۶۲۔ المجموع العام فی آداب الشراب والطعام ودخول الحمام
۶۳۔ معفرفۃ الخصال الموصلۃ الی الظلال
۶۴۔ الالھام الصادر عن الانعام الوافر
۶۵۔ الدرر المضیّۃ من فوائد الاسکندریّۃ
۶۶۔ الفوائد الجمۃ فیمن یجدد الدین لھذہ الأمۃ
اولاد:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا فرمایا: صاحبزادے کا نام علامہ ابو المعالی محمد بدرالدین ہے؛ جو ۸۱۵ھ میں پیدا ہوئے، گیارہ سال کی عمر میں حفظِ قرآ ن کیا، پھر علومِ دینیہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ اپنے والد کے علاوہ شیخ شہاب واسطی، شیخ فخر دندل وغیرہم سے استفادہ کیا ۔
اپنے والد کی تالیف نخبۃ الفکر کی شرح نتیجۃ النظر فی شرح نخبۃ الفکر کے نام سے لکھی ۔
۸۹۶ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔
درس و تدریس :
علامہ حافظ ابنِ حجر رضی اللہ عنہ اپنے دور کے مرجع العلما تھے آپ کے بحرِ علمی کا چرچا ہر سو پھیل چکا تھا اسی وجہ سے طلبا جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضری دیتے اور علم کی دولت سے مالامال ہوتے۔ آپ نے اپنے زمانے میں کئی علمی مراکز میں دروس حدیث دیے خانقاہ بیرسیہ میں آپ نے بیس سال درس دیا۔ اس کے علاوہ شیخونیہ، بدریہ، صاتحیہ، فخریہ، نجمیہ، جامع ابن طولان، حسینیہ، جمالیہ میں منصبِ تدریس پر فائز رہے۔
معروف تلامذہ :
علامہ حافظ محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی متوفی ۹۰۲ھ
علامہ ابراہیم بن عمر بن حسن شافعی متوفی ۸۸۵ھ
شیخ السلام زکریا بن محمد انصاری متوفی ۹۲۶ھ
امام قطب الدین ابوالخیر محمد بن محمد ابن الخیضری زبیدی متوفی ۸۹۴ھ
علامہ محمد بن محمد ابن فھد مکی متوفی ۸۷۱ھ
محقق علی الاطلاق علامہ امام محمد بن عبدالواحد السیواسی المعروف ابن ھمام حنفی صاحب فتح القدیر متوفی ۸۶۱ھ
امام قاسم بن قطلو بغاحنفی متوفی ۸۷۹ھ
علامہ یوسف بن تغری بردی حنفی متوفی ۸۷۴ھ
صاحب النجوم الزاھرۃ علامہ احمد بن ابراہیم طرابلسی شافعی متوفی ۸۸۴ھ
علامہ ناصر بن احمد مزاری بسکری ابن غزنی متوفی ۸۲۳ھ
علامہ محمد بن محمد ثقفی حلبی المعروف بابن شحنہ متوفی ۸۹۰ھ
علامہ علی بن محمد بن سعید جبرینی طائی المعروف بابن خطیب ناصریہ متوفی ۸۳۴ھ
علامہ محمد بن ناصر الدین ابن غرابیلی متوفی ۸۳۵ھ
علامہ رضوان بن محمد عقبی مصری متوفی ۸۵۲ھ
علامہ تغری برمش جلالی مؤیدی متوفی ۸۵۲ھ
علامہ احمد بن علی کردی قاھری متوفی ۸۱۷ھ
امام سلیمان بن ابراہیم تعزی حنفی متوفی ۸۲۵ھ وغیرہم۔
وفات :
آپ کا وصال ۷۹ سال کی عمر میں ذوالحجہ ۸۵۲ھ قاھرہ میں ہوا ۔
جب جنازہ تیار ہوچکا تو اس وقت شدید بارش ہوئی اور نمازِ جنازہ میں اتنی بھیڑ تھی کہ لوگوں نے اس سے پہلے نہ دیکھی تھی۔ امام شافعی اور شیخ مسلم سلمی کے مزار کے درمیان مقام قرافہ صفری میں آپ کی تدفین ہوئی۔
اللہ تعالیٰ آپ کے مزارِ پرانوار پر رحمتوں کی بارش نازل فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔
[1] الجواہر والدرر ص ۲۱۰۔
[2] لخط الالحاظ، ص ۳۳۲۔
[3] شذرات الذھب، ج۷، ص ۲۷۰۔
[4] ذیل طبقات الحفاظ ص ۲۵۱