حضرت شیخ سیف الدین عبدالوہاب

حضرت شیخ سیف الدین عبدالوہاب علیہ الرحمۃ

          آپ شیخ عبدالقادر ؒ کے فرزند ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ مہینوں میں سے کوئی مہینہ ایسا نہ ہوتا تھا،مگر یہ کہ اپنےچڑھنے سے پہلے اپنے والد کی خدمت میں آتا۔ار اس میں سختی و برائیاں ہوتیں تو بری شکل میں آتا اور اگر نعمت و خیر کی باتیں ہوتی تو اچھی شکل میں آتا۔جمادی الاخری کے آخر دن جمعہ ۵۶۰ھ میں مشائخ صوفیہ کی ایک جماعت ان کی خدمت میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک کوبصورت جوان آیا اور کہنے لگا ،السلام علیک یاولی اللہ میں ماہ رجب ہوں۔اس لیےآیا ہوں کہ آپ کو خوشخبری سناؤں کہ میرے اندر کوئی سختی مقدر نہیں ہے۔اس رجب کے مہینے میں کوئی برائی نہ دیکھی گئی۔خیر و نیکی رہی اور جب ماہ رجب کا آخر دن ہوا تو ایک بد شکل آیا اور کہا ،اور کہا السلام علیک یا ولی اللہ میں شعبان کا مہینہ ہوں۔آیا ہوں کہ آپ کو ماتم کی باتیں سناؤں۔اس ماہ موت و فنا بغداد میں اور قحط سالی عرب میں ،قتل و خون خراسان میں ہوگا۔جب ماہ شعبان آیا تو جو کچھ اس نے کہا تھا۔وہی واقع ہوا۔شیخ ماہ رمضان میں چند روز بیمار ہوئے۔۲۹ رمضان کو شیخ کی ایک جماعت ان کے سامنے حاضر تھی ۔جیسے شیخ علی ہستی،شیخ نجیب الدین ،سہروردی وغیرہ ہما۔ایک شیخ پورے وقار و عزت کے ساتھ آیااور کہا،السلام علیکم یا ولی اللہ ۔میں ماہ رمضان ہوں آیا ہوں کہ اس بات کا جو آپ پر مجھ میں مقدر ہے۔عذر کروں اور رخصت کروں کہ یہ آخری امیر آپ سے ملنا ہے۔پھر وہ چلا گیا۔آپ دوسرے سال کے ربیع الاخر میں دنیا سے رخصت ہوئے اور اگلا رمضان آپ پر نہ آیا۔

          ایک دن شیخ وعظ کہہ رہے تھے اور شیخ علی ہئیتی آپ کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ان کو نیند آگئی۔شیخ نےاہل مجلس سے کہا،خاموش رہو اور آپ منبر سے اتر پڑےاور شیخ علی ہئیتی کے سامنے ادب سے کھڑے ہوگئےاور ان کی طرف دیکھتے رہے۔جب شیخ علی جاگے تو شیخ نے ان سے کہا،حضرت محمدﷺ کو تم نے خواب میں دیکھا۔انہوں نے کہا،ہاں دیکھا۔شیخ نے کہا،میں اسی لیے ادب سے کھڑا ہوگیا تھا۔آپ ﷺ نےتم کو کس امر کی نصحیت کی؟کہا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں رہنے کے لیے ۔اس کے بعد شیخ علی سے لوگوں نے پوچھا کہ شیخ کے اس فرمانے کا مطلب کیا تھا کہ میں اس لیے ادب سے کھڑا ہوگیا تھا؟شیخ علی نے کہا کہ جو کچھ میں نے خواب میں دیکھتا تھا۔وہ اس کو بیداری میں دیکھتے ہیں اور شیخ علی ہئیتی مشائخ بطائخ (میان،عراق،عجم،عرب)سے تھے۔منجملہ ان کی کراماتکے ایک کرامات یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنے شیر آجائے اور وہ ان کا نام لے تو شیر چلا جائے گا اور جو شخص مچھر کی زمین میں ان کا نام لے تو وہاں سے مچھر جاتے رہیں گے۔

۵۲۱۔شیخ ابو محمد عبدالرحمٰن طفہونجی علیہ الرحمۃٰ

        ایک دن طفہونج جو کہ بغداد کے علاقہ میں ہے ۔آپ منبر پر کہتے تھے۔انا بین الا ولیاء کالکر کی بین الطیور اطولھم عنقا یعنی میں اولیاء اللہ میں ایسا ہوں۔جیسے کلنگ جانوروں میں۔جس کی گردن سب سے لمبی ہوتی ہے۔شیخ ابوالحسن علی بن احمد کہ شیخ عبدالقادر ؒ کے مریدوں میں سے ہیں۔موضع جنت کے رہنے والے ہیں جو اسی اطراف میں ہے۔آپ کی مجلس میں آئے تھے۔اٹھے اور گودڑی سے سر نکال کر کہا،مجھے چھوڑ دو کہ تم سے کشتی لڑوں۔شیخ عبدالرحمٰن خاموش ہوگئےاور اپنے مریدوں سے کہا کہ اس میں ایک سر کے بال کے برابر خدا کی عنایت سے خالی نہیں پاتا ہوں اور اس کو فرمایا کہ اپنے گودڑی پہن لو۔اس نے کہا،میں جس سے باہر نکل چکا ہوں۔اس کی طف ہر گز پھر نہ جاؤں گا۔پھر جنت گاؤں کی طرف منہ کیا اور اپنی بیوی آواز دی کہ اے فاطمہ میرا کپڑا لاکہ پہنوں۔اس کی بیوی نے اس گاؤں میں سن لیا اور راہ میں اس کپڑے کو لاکر ملی۔۔پھر شیخ عبدالرحمٰن نے اس کو کہا کہ تمہارا شیخ کون ہے؟کہا کہ میرا شیخ شیخ عبدالقادر ؒ ہے۔انہوں نے کہا ،میں نے تو کبھی شیخ عبدالقادر کا ذکر نہیں سنا ،مگر مجھ کو زمین پر چالیس سال ہوچکے ہیں کہ باب قدرت کے درکات میں ہوں۔وہاں پر میں نے ان کو کبھی نہیں دیکھااور اپنے میردوں کی ایک جماعت کو کہا،تم بغداد میں جاؤاور شیخ عبدالقادر سے کہو کہ عبدالرحمٰن سلام پہنچاتا ہےاور کہتا ہے کہ مجھ کو چالیس سال ہوچکے ہیں کہ میں باب قدرت کے طبقوں میں ہوں،مگر آپکو میں نے وہاں نہیں دیکھا،نہ اندر ، نہ باہر۔شیخ عبدالقادر نے اسی وقت اپنےبعض مریدوں سے کہا کہ تم طفہونج جاؤ۔راستہ میں تم کو شیخ عبدالرحمٰن طفہونجی کے مرید ملیں گے۔ان کو اپنے ساتھ واپس لےجانا۔جب شیخ عبدالرحمٰن کے پاس پہنچو تو کہنا۔عدالقادر آپ کو سلام پہنچاتے ہیںاور کہتے ہیں،انت گی الدر کات ومن ھو فی الدرکات لا یری من ھو فی الحضرۃومن ھو فی الحضرۃ لا یری من فی المخدع وانا فی المخدع ادخل واخرج من باب السرمن حیث لا ترانی بامارۃ ان خر جت لک خلعۃ الفلا نیۃ علی یدی خرجت لک وھی خلعۃ الرضاء بامارۃ ان اخلع علیک فی الدر کات بمحضر من اثنی عشرالف ولی اللہ سبحانہ خلعت الولا یہ وھی فزز جیہ خضراء طراز ھا سورۃ الا خلاص علی یدی خرجت یعنی تم نیچے درجوں میں ہو اور جو نیچے  درجوں میں ہوتا ہے۔وہ ان کو نہیں دیکھتا اور جو حضور میں  ہو تے ہیں"وہ ان کو نہیں دیکھتے"جو کہ پردوں میں ہوتے ہیں۔میں پردوں میں ہو تا ہوں۔داخل ہوتا ہوں اور نکلتا ہوں"بھید کے دروازہ سے جہاں سے تم نہیں دیکھتے ہو۔اس کی یہ نشانی ہے کہ میں فلاں وقت تم کو فلاں خلعت پہنایاتھا۔میرے ہاتھ پر تمہارے لیے خلعت رضا نکلی تھی اور یہ علامت ہے کہ  فلاں خلعت فلاں رات میں تمہارے لیے نکلی۔تمہارے لیے فتح کا خلعت اور یہ علامت ہے کہ ان طبقات میں میں تم نےکو بارہ ہزار ولی اللہ کےسامنے خلعت پہنایا ہے۔جو خلعت ولایت کا ہے"وہفرز جتیہ سبز ہے۔جس کا نقش سورہ اخلاص ہے۔جومیرے ہاتھ پر نکلا ہے۔راستہ میں آپ کے مرید شیخ عبد الرحمٰن کے مریدوں سے جا ملے۔کہا"سچ کہا"عبد القادر نے۔وہ سلطان الوقت اور صاحب تصرف ہیں۔ایک سوداگر شیخ حماد کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے شام کے قافلہ کی تیاری کی ہے اورسات سو دینا کا مال میرے پاس ہے۔شیخ حماد نے کہا"اگر تم اس سال نہ جاؤ گے تو تمہارا مال لٹ جائے گا اور خود مارا جائے گا۔سوداگر غم ناک ہوا اور شیخ حماد کے پاس سے باہر نکل آیا۔شیخ عبد القادر اس کو ملے۔اس نے اپنا قصہ آپ سے بیان کیا۔آپ نے فرمایا کہ جاؤ خیروعافیت سے جاؤ گے اور غنیمت سے واپس آؤ گے۔میں اس کا ضامن ہوں۔وہ شخص شام کے سفر میں گیا۔اپنے مال کو ہزار دینار پر فروخت کیا۔

ایک دن استنجے کے لیے سقایہ میں آیا۔اس ہزار دینار کو طاق میں رکھ دیا باہر نکل آیا اور بھول گیا۔اپنے مکان پرچلا آیا۔اس کو نیند آگئی۔خواب میں کیا دیکھتاہے کہ قافلہ ہے اور ڈاکوؤں نے اس کو لوٹ لیا ہے اور قافلے کو مار ڈالاہے۔اس کو بھی ایک شخص نے تلوار ماری ہے اور وہ مرگیا ہے۔اس ڈر سے بیدار ہوگیا۔خون کا اثر اپنی گردن پردیکھا اور اس مار کا درد معلوم کیا۔اس کے دل میں آیا کہ ہزار دینار بھول آیا ہوں۔چلا گیا اور وہ دینار جا کر پا لیے۔بغداد میں گیا اور دل میں کہنے لگا"اگراول شیخ حماد سے ملتاہوں تو وہ بڑے بزرگ ہیں اور اگر شیخ عبدالقادر کو ملتا ہوں تو ان کی بات درست نکلی۔غرضیکہ وہ کشمکش میں تھا۔اتفاقاً شیخ حماد نے اس کو بازار میں دیکھا اور کہا کہ پہلے شیخ عبدالقادر سے مل۔کیونکہ اس کی بات سچی نکلی ہے۔انہوں نے سترہ دفعہ خدا سے دعا مانگی ہے کہ جو تیرا قتل بیداری میں مقدرہوچکا تھا۔وہ خواب میں گذرا اور تیرے مال تلف ہونا بھول میں ہوگیا۔پھر وہ شیخ عبدالقادر کی خدمت میں آیا۔آپنے کہا"جو تم کوشیخ حماد نے کہا ہے کہ میں نے سترہ دفعہ دعا مانگی ہے۔آپ نے فرمایا کہ مجھ کو خدائی معبود کی عزت کی قسم میں نے کئی رسترہ کر کے ستر دفعہ تک دعا مانگی تھی۔تب جا کر ایسا ہوا کہ شیخ حماد نے کہا۔شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میں جوانی میں علم کلام میں مشغول ہوگیا۔چند کتابیں اس کی میں نے حفظ کیں۔میرےچچا مجھ کو اس سے منع کرتے تھے۔ایک دن میرے چچا شیخ عبدالقادر کی زیارت کو گئے اور میں بھی ان کے ساتھ گیا۔مجھ سے  کاہ کہ حاضر رہو کہ ایک ایسے مردخدا کے پاس جاتے ہیں۔جس کا دل خدائے تعالٰی کی خبریں دیتا ہے اور اس کی برکات کا منتظر رہو۔جب میں بیٹھا تو میرے چچا نے کہاکہ اے میرے سردار میرا بھتیجا عمر علم کلام میں مشغول ہے۔میں ہر چند اس کو کہتا ہوں"مگریہ باز نہیں آتا۔شیخ نے پوچھا کہ اے عمر کون کون سی کتاب تم نے حفظ کی ہے۔میں نے کہا"فلاں کتاب فلاں کتاب۔تب شیخ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینہ پر پھیرا۔واللہ کہ ان کتب میں سے ایک لفظ بھی مجھےحفظ نہیں رہا۔خدائے تعالٰی نے ان تمام مسائل کو میرے دل سے بھلایا"لیکن میرے سینہ کو علم لدنی سے بھردیا۔میں آپ کے پاس سے اٹھا ایسی زبان سے جو کہ حکمت بولنے والی تھی۔مجھ سے کہا"یا عمر انت اخر المشھورین بالعراق یعنیاے عمر تم عراق میں سب سے آخر مشہور ہوجاؤگے۔

(نفحاتُ الاُنس)


متعلقہ

تجویزوآراء