حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی
حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اپنے زمانے کے شیخ الوقت اور امام الاولیأ تھے۔ بڑے عابد و زاہد، عالم فاضل اور صاحبِ کشف و کرامت تھے۔ آبائی نسبت امام علی بن موسیٰ کاظم سے ہے۔ نسبتِ خرقہ پانچ واسطوں سے حضرت شیخ شبلی تک منتہی ہے۔ حضرت غوث الاعظم سے بھی فیوض و برکات حاصل کیے ہیں۔ حضرت غوث الثقلین نے ان کی ہمشیر کو اپنی بہن کہا تھا اس لیے آپ انہیں اپنا خواہر زادہ سمجھتے تھے۔ ایک روز شیخ احمد رفاعی کے بھانجے شیخ ابوالحسن اِن کے حجرے کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اندر نظر کی تو دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا آپ سے باتیں کر رہا ہے۔ حیران رہ گئے کہ یہ کس راستے سے اندر آیا ہے۔ چند ساعت تک وہ شیخ سے ہم کلام رہا۔ جب فارغ ہوا تو جو روزنِ دیوارِ خلوتِ شیخ میں تھا اُس میں سے برقِ خاطف کی طرح نکل گیا۔ شیخ ابوالحسن کہتے ہیں میں یہ حال دیکھ کر خدمتِ شیخ میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ یہ کون شخص تھا۔ فرمایا: ‘‘تُونے اسے دیکھا ہے’’ کہا ہاں۔ فرمایا: یہ شخص رجال الغیب سے تھا۔ تین روز ہوئے بارگاہِ کبریائی سے مہجور (یعنی معزول) ہوگیا ہے۔ میں نے سبب پوچھا۔ فرمایا: ایک روز جزأر بحرِ محیط میں جہاں یہ مقیم ہے۔ دو تین روز بارش ہوتی رہی اس کے دل میں خیال گزرا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ بارش آباد زمین پر ہوتی اور خلقِ خدا کو اس سے پُورا نفع ہوتا۔ اپنے خیال کی وجہ سے بارہ گاہِ رب العزّت سے مہجور ہوگیا ہے۔میں نے کہا: آپ نے اسے اس حال سے خبر کیوں نہ دی۔ فرمایا: شرم آئی کہ اس کے سامنے اُس کی معزولی کا حال بیان کروں۔ میں نے کہا: اگر آپ فرمائیں تو اسے اس حال سے مطلع کروں۔ فرمایا: کرسکتا ہے۔ کہا: کیوں نہیں؟ فرمایا: اپنا سر گریبان میں ڈالو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ایک لمحہ کے بعد آواز آئی۔ اے ابوالحسن! سر اٹھا اور آنکھیں کھول۔ جب سر اٹھایا اور آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں بحرِ محیط کے جزائر میں سے ایک جزیرے میں ہوں۔ حیران رہ گیا۔ ہمت کرکے اٹھا۔ ابھی تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ ایک جگہ پر اُس مرد کو بیٹھے ہوئے دیکھا پاس گیا۔ سلام کیا اور سارا قصّہ بیان کیا۔ اس نے مجھے قسم دی کہ جس طرح میں کہوں تم نے اسی طرح کرنا ہے۔ میں نے کہا بسر و چشم۔ اس نے کہا: میرا خرقہ میری گردن میں ڈال اور مجھے زمین پر گھسیٹ اور یہ کہہ کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو حق تعالیٰ کی حکمت پر اعتراض کرتا ہے۔ پس میں نے اس کا خرقہ اس کی گردن میں ڈالا اور زمین پر گھسیٹنا ہی چاہتا تھا کہ ندائے غیب آئی: اے ابوالحسن اسے چھوڑ دے۔ ملائکہ زمین و آسمان پر گریہ زاری کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے۔ میں نے جب یہ آواز سنی تو بے خود گیا۔ جب اپنے آپ میں آیا تو دیکھا سیّد احمد رفاعی کے سامنے حاضر ہوں۔
میں اپنے آنے جانے پر مطلق آگاہ نہ ہُوا۔ صاحبِ مناقبِ غوثیہ حضرت شیخ محمد صادق شیبانی فرماتے ہیں: ایک روز میں حضرت غوث الاعظم کی خدمت میں حاضر تھا آپ نے اپنے ایک خادم سے کہا: سیّد احمد رفاعی کے پاس جا اور پُوچھ کہ عشق کیا ہے؟ اور اس کا جواب مجھے لاکر دے۔ خادم ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت کا پیغام دیا۔ یہ سنتے ہی انہوں نے ایک آہِ جانکاہ اپنے سینۂ پُر سوز سے کھینچی اور کہا کہ عشق ایک ایسی آگ ہے جو ماسوا اللہ کو جلا ڈالتی ہے۔ اُن کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ جس درخت کے نیچے آپ بیٹھے ہوئے تھے وہ جل اٹھا اور سیّداحمد رفاعی بھی اس کے ساتھ جل کر خاکستر ہوگئے۔ پھر وہی راکھ پانی ہوکر برف کی مانند جم گئی۔ خادم خوف زدہ ہوکر خدمتِ حضرت غوث الاعظم میں حاضر ہوا اور تمام ماجرا بیان کیا۔ فرمایا: پھر اسی جگہ پر جا اور اس جگہ کو بخور و عطر سے معطر کر، جسمِ سید احمد رفاعی اس عالمِ عنصری کی طرف رجوع کرے گا۔ چنانچہ خادم اسی جگہ پر واپس آیا اور حضرت کے فرمودہ کے مطابق اُس جگہ کو معطر کیا۔ ابھی ایک ساعت بھی نہ گزری تھی کہ جو پانی سیّد احمد رفاعی کی جگہ پر جما ہوا تھا اس نے جسم کی صورت اختیار کرلی اور سیّد احمد رفاعی دوبارہ زندہ ہوگئے۔
روایت ہے جو شخص حاجت کے لیے آپ سے تعویذ طلب کرتا آپ اسے تعویذ کردیتے۔ اگر قلم و سیاہی نہ ہوتی تو سفید کاغذ پر ہی اپنی انگلی سے بغیر قلم و سیاہی لکھ دیتے۔ ایک روز ایک شخص بغرضِ امتحان تعویذ کھول کر خدمتِ شیخ میں لایا اور استدعا کی کہ تعویذ لکھ دیجیے۔ جب انہوں نے کاغذ ہاتھ میں لے کر دیکھا تو فرمایا: اے فرزند تعویذ تو اس پر لکھا ہوا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو سادہ کاغذ پر دوبارہ سیاہی سے لکھ دوں۔ اس کاغذ پر حروف بشکلِ خود موجود ہیں۔
ایک روز ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں چاہتا ہُوں کہ آپ کے واسطے سے آتشِ دوزخ سے آزاد ہوجاؤں اور مجھے اسی وقت خطِ آزادی آسمان سے آجائے۔اُسی وقت ایک سفید کاغذ برق خاطف کی طرح آسمان سے آپ کے سامنے آگِرا۔ شیخ نے وُہ کاغذ اٹھا کر سائل کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا: لے آتشِ دوزخ سے یہ تیرا خطِ آزادی ہے اس نے دیکھا تو وہ محض سفید کاغذ تھا۔ عرض کیا: اس پر تو کچھ نہیں لکھا ہوا۔ فرمایا: یہ کاغذ نور سے لکھا ہوا ہے جو دل ہی کی آنکھ سے پڑھا جاسکتا ہے۔۵۷۲ھ میں وفات پائی۔
قطعۂ تاریخِ وفات:
سیّد احمد رفاعی سرورِ دورِ زماں
’’قطبِ کامل شاہِ دین‘‘ شد سالِ ترحیلش رقم
۵۷۲ھ
شد چو از دنیائے فانی راہیِ خلدِ بریں
ہم بگو احمد رفاعی سیدِ ہادیِ دیں!
۵۷۲ھ