حضرت شیخ عثمان زندہ پیر صابری

تعارف:ولی متصرف بہ تصرفات مطلق عین شہود ذات فنافی اللہ بقاباللہ ، حضرت شیخ عثمان زندہ پیر چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ مشہور زمانہ اولیائے کبار سے ہیں۔اپنے زمانے کے مشائخ و علماء میں آپ کو ممتاز حاصل تھا۔اور سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے عظیم روح رواں تھے۔ آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے عظیم روحانی پیشوا حضرت شیخ عبد الکبیر چشتی صابری بن حضرت قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگوہی چشتی صابری علیہ الرحمۃ کے فرزند ارجمند اور مرید و خلیفہ اور سجادہ نشین تھے۔

سجادہ نشینی اور اس کا فیصلہ:آپ کے تین بھائی تھے ایک حضرت شیخ حسین حضرت شیخ برہان اور حضرت شیخ محمود۔ شیخ حسین آپ سے بڑے تھے اور اپنے والد ماجد کی ظاہری حیات میں انتقال فرماگئے تھے۔ ان کے دو بیٹے شیخ نور الدین اور شیخ غفور یاد گار زمانہ رہے۔ جب آپ کے والد گرامی حضرت شیخ عبد الکبیر فوت ہوئے تو حضرت شیخ عثمان زندہ پیر ہی کو سجادہ نشین منتخب کیا گیا۔مگر بوجہ اختلاف شیخ حسین کے دونوں بیتوں نےسجادگی کا دعویٰ بادشاہ وقت سلطان ابراہیم لودھی کی عدالت میں کردیا۔اور اس کے ساتھ ہی حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی اور حضرت شیخ جلال الدین حمد کبیر الاولیاء علیہم الرحمۃ کے مزارات پر آنے والی فتوحات اور نذرانوں کا دعویٰ بھی کردیا۔

چنانچہ بادشاہ سلطان ابراہیم لودھی اس مقدمہ اور جھگڑے کا فیصلہ کرنے خود پانی پانی پت آگیا۔اگرچہ آپ کی والدہ ماجدہ اور دیگر مریدین و عقیدت مندان و امرائے شہر سب آپ حضرت عثمان زندہ پیر چشتی صابری کے حق میں تھے۔چونکہ شیخ حسین کے دونوں صاحبزادوں کا بادشاہ کے دربار میں اثر ور سوخ تھا۔ اس وجہ سے بادشاہ نے طرف داری کرتے ہوئے سجادہ نشینی دو حصوں میں تقسیم کر دی۔

سجادہ نشینی کے منصب سنبھالنے کے بعد جب پہلی مرتبہ عید کے روز دونوں سجادہ نشین شہر سے باہر آئے تو دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ شیخ حسین کے بیٹےے چنڈول پر سوار تھے وہ نیچے گر گئے۔ اور زخمی ہوگئے اور عید گاہ تک نہ پہنچ سکے۔اور حضرت شیخ عثمان زندہ پیر رحمۃ اللہ علیہ صحیح سلامت عیدگاہ میں پہنچے اور نماز عیدادا کی۔ اس دن کے بعد سے شیخ حسین کے دونوں صاحبزادوں میں مقابلہ کی سکت نہ رہی اور سجادہ نشینی حضرت شیخ عثمان زندہ پیر چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کےپاس ہی رہی۔

کشف و کرامات:جٹ برادری کے دو آدمی ایک ہندو ایک مسلمان آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔ ان کے معاملات میں فیصلہ نہیں ہوپارہا تھا۔ وہ دونوں اکھٹے ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا اختلاف آپ کے سامنے بیان کیا۔ آپ نے دونوں کی باتیں سنیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان حق پر ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ہندو نے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا اور کہنے لگا کہ آپ نے مسلمان ہونے کے ناطے دوسرے مسلمان کی طرف داری کی ہے۔وگرنہ میں حق پر ہوں فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہیے تھا۔

آپ اس ہندو کی بات سن کر مراقبہ میں چلے گئے۔ اور تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھا کر فرمایا کہ تمہاری دونوں کی بیویاں حاملہ ہیں۔تم دونوں کے لیے حکم دیا جاتا ہے۔ کہ سیدھے گھروں کو چلے جاؤ۔ تم دونوں میں سے جو سچا ہوگا۔اس کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا۔اور جو جھوٹا ہو گا اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوگی۔ وہ دونوں اس فیصلے پر متفق ہوگئے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ کچھ لوگوں کے بعد مسلمان کے گھر لڑکا پیدا ہوا اور ہندو کے گھر میں لڑکی۔یہ دیکھ کر معترض ختم ہوگیا۔ اور دونوں نے آپ کے فیصلے پر متفق ہوکر آپس کا جھگڑا ختم کردیا۔

کرامت نمبر ۲:آپ کے صاحبزادے شیک نطام الدین چشتی صابری علیہ الرحمۃ نے ایک کنواں بنوایا تو وہ اپنے والد گرامی کے پاس حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی کہ آپ فاتحہ اور دعا فرمائیں۔آپ نے فرمایا کہ پہلے دعوت کا انتظام کرو۔جس میں ایک گائے ذبح کرو اور اتنے من گندم کا آٹا پکا کر لوگوں کو کھانا کھلاؤ پھر میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔حضرت شیخ الدین نے عرض کیا میرے پاس تو ایک بکری ہے۔ اور میں اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہوں آپ نے فرمایا ہماری زبان سے جو نکل گیا ہے آپسے پورا کرو ورنہ مجھے ڈر ہے کہ تماہرا کنواں گر جائے گا۔حضرت شیخ نظام الدین دعوت کا انتظام کرنے سے ہچکچاہٹ سے کام لیت رہے اور کنواں نیچے سے بیٹھنے کے سبب گرگیا۔

وصال باکمال:آپ کا وصال باکمال دس ذی العقد ۹۹۰ ھ بمطابق 1582ء کو ہوا۔مزار پُر انوار پانی پت ہندوستان میں مرجع خاص و عام ہے۔ حضرت علامہ مفتی غلام سرور لاہوری نے قطعہ تاریخ یوں لکھی ہے۔


متعلقہ

تجویزوآراء