حضرت سید غلام حیدر علی شاہ

حضرت سید غلام حیدر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

امام عرفاء حضرت پیر سید غلام حیدر شاہ ابن سید جمعہ شاہ ۳ صفر ،۲۶اپریل (۱۲۵۴ھ؍۱۸۳۸ئ) کو جلال پور میںرونق افزائے دار دنیا ہوئے ، آپ کا سلسلۂ نسب دسویں پشت میں حضرت سید مخدوم جہانیاں سے جا ملتا ہے ۔ آ پ کی والدہ ماجدہ بری عبادت گزار اور صالحہ خاتون تھیں ، آ پ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہماری والدہ بابا فرید الدین گنجشکر کی والدہ کی مانند تھیں ، جنہوں نے ابتداء ہی سے اپنے لخت جگر کو نماز روزہ کا پابند بنادیا تھا۔

جب آپ نیہوش سنبھالا تو قرٓ ن پاک کی تعلیم کے لئے آپ کو میاں خان محمد اعظم پوری کے سپرد کیا انہوںنے قرآن مجید پڑھانا شروع کیا جس کی تکمیل آپکے چچا سید امام شاہ نے فرمائی۔ اس کے بعد میاں عبد اللہ چکروی سے فارسی اور اردو کی درسی کتب پڑھیں پھر جلال پور سے پانچ کوس کے فاصلہ پر قاضی محمد کامل کی خدمت میں نین وال تشریف لے گئے اور ان سے کتب فقہ کا درس لیا ، اپنے علاقے کے مشہور عالم مفتی غلام محی الدین سے استفادہ کیا اور کنز الد قائق پڑھی ، اس سے زیادہ آپ نے ظاہری علم با قاعد گی سے نہیں پرھا لیکن بلند صلاحیتوں اور اہل علم کی مجلسون کی وجہ سے وہ عالمانہ مقام حاصل کرلیا جس سے بہت سے عالم بھی محروم تھے حضرت خواجہ شمس العارفین قد س سرہ سے مرقع اور کشکول کا درس لیا۔

ابھی آپ کی عمر ۱۷ سال تھی کہ والد ماجد کا وصال ہوگیا ۔تلاش مرشد میں سید غلام شاہ کی خدمت میںہرن پور پہنچے اور بیعت کی درخواست کی ، انہوں نے سیال شریف جانے کا مشورہ دیا بلکہ خود ساتھ لے گئے۔ حضرت خواجہ شمس العارفین قدس سرہ نے انہیں دیکھا تو کھڑے ہو گئے ، مزاج پوچھا اور بیٹھنے کا حکم دیا چنانچہ آپ ۷ رجب ۱۲۷۱ھ کو ان کے دست حق پرست پر بیعت ہو گئے۔ بیعت کے بعد ہر ماہ دو تین مرتبہ شیخ خدمت میں حاضر ہوتے اور شیخ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہان کے سامنے بولنے کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی ، جب چھٹی مرتبہ حاضر ہوئے تو حضرت شیخ نے خرقۂ خلافت اور اجازت سے سرفراز فرمایا ۔

حضرت پیر حیدر شاہ قدس سرہ منکسر المزاج اور بلند اخلاق کے مالک تھے ، آپ کو خود پسندی چھو کر بھی نہیں گزری تھی ۔ نہایت نرم دل اور سراپا شفقت و عنایت تھے۔ غرباء کی دلجوئی آپ کا کاص وصف تھا ۔ اعما ل میں نہایت محتاط اور پابدن شریعت تھے۔ آپ حد درجہ خوبصورت تھے ، درازقامت ، دلکش آنکھیں ،شانوں پر زلفیں ، کلاوہچہار ترکی سر پر ، موسم سرما میں بانات کا کوٹ ، گرمیوں میںململ کا کرتہ ، پائوں میں جہلمی طرز کا سادہ جوتا پہنے ہوئے وہ ھسن مجسم معلوم ہوتے تھے۔

آپ کے چار صاحبزادے تھے، سید بدیع الزمان شاہ (م۷شعبان ۱۲۹۵ھ)، سید قائم الدین شاہ (م۲۱ رجب ۱۳۱۶ھ) درحمہم اللہ تعالیٰ ۔

حضرت پر سید حیدر شاہ قدس سرہ نے خدمت دین اور اشاع سلسلۂ چشتیہ میں گرانقدر خدمات انجام دیں، بے شمار خلق خدا حلقۂ ارادت میں داخل ہوئی اور راست پر آئی ، خاص طور پر بڑے بڑے جلیل القدر علماء آپ کے مرید ہوئے اور آپ کے فیض صحبت سے مستفیض ہوئے۔

۶جمادی الاخریٰ ، ۷ جولائی (۱۳۶۶ھ/۱۹۰۷ئ) کو آپ کا وصال ہوا اور جلالپور شریف میں محوا استر حت ابدی ہوئے آج بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ، علامہ اقبال نے تاریخ وصال کہی ؎

ہر کہ بر خاک مزار پیر حیدر شاہ رفت

تربت اور امین جلوہ ہائے طور گفت

ہاتف از گردوں رسید و خاک اور ابوسہ داد

گفتمش سال وفات اوبگو’’مغفور ‘‘گفت[1]

اکبر الہٰ آبادی نے قطعۂ تاریخ کہا ؎

معرفت کی جس کو ہو دولت نصیب

پھر اسے کیا فکر مال و جاہ ہے

حضرت مرحوم تھے مرد خدا

ان کا جو پیرو ہے حق آگاہ ہے

ان کی تاریخ وصال ازروئے درس

انتقال پیر حید شاہ ہے

آئندہ صفحات پر حضرت پیر سید حیدر شاہ جلالپوری قدس سرہٗ علامہ اقبال مرحوم ار اکبر الہٰ آبادی کی تحریرات کے عکس پیش کئے جارہے ہیں ۔

نوٹ:۔ یہ تمام حالات’’ذکر حبیب‘‘ حصہ اول‘‘ سے ماخوذ ہیں۔

مادہ تاریخ وصال حضرت عالم جلالپوری ازن بر جمان حقیقت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ایم۔اے۔پی۔ایج ڈی

 

ہر کہ ہر خا ک زار پیر حیدر شاہ رفق

تربت اور امین جلوہائے طور گفت

ہاتف از گردوں سید و خاک اور ابو داد

گفتمش سال وفات او بگو مغفور گفت

 

از انسان العصر بہادر سید کبر حسین صاحب پیشر ششن حج الہ آباد

 

معفت کی جسکو ہو دولت نصیب

پر اسے کیا فکر مال وجاہ سے

حضرت مرحوم تھے مرخدا

اکنا جو پیرود ہے حق آگاہ ہے

انکی تاریخ وصال ازوررئے درد

انتقال پیر حمید شاہ ہے

(اکبر ارلاد)

 

[1] پیج نمبر۳۰۲) ماہنامہ صوفی منڈی بہاء الدین حبیب حصہ اول

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)


متعلقہ

تجویزوآراء