حضرت مولانا غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ
فخر الاساتذہ وحید عصر حضرت مولانا غلام جیلانی ابن مولوی حاجی غلام فخر الدین ابن مولانا حکیم سخاوت حسین حافظی فخری سلیمانی۱۱؍رمضان المبارک ۱۹۰۰ء میں ریاست دادوں علی گڈھ میں پیدا ہوئے، آپکے دادا بزرگوار نے اپنے آبائی وطن سہسوان ضلع بد ایوں سے ترک سکونت کر کےیہاں اقامتکی تھی، غلام محی الدین جیلانینام رکھا گیا۔ چہارم تک تعلیم پانے کے بعد آپ کے چچا حضرت مولانا غلام قطب الدین برہم چاری نے آپ کو جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں جو اس وقت مدرسہ انجمن اہل سنت کےنام سے مشہور تھا لےجاکر داخل کردیا، آمدنامہ سےتعلیم کا آغاز ہوا حضرت مولانا عبد العزیزی صاحب فتح پوریسے فصول اکبری ارکافیہ پڑھا، صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین فاضل مراد آبادی بانی مدرسہ سے گلستانِ قدوری ،قال اقوال پڑھا، اور عربی اناء کی مشق کی، ۱۹۲۳ء میں حضرت مولانا قاضی شمس الدین احمد جونپوری مولف ‘‘قانونِ شریعت’’ وغیرہ کے ہمراہ اجمیر شریف بغرض تعلیم پہونچے، امتحانداخلہ کے بعد درجہ شرح جامی میں داخہ ملا، دو ماہ بعد خوراک اور ایک روپیہ ماہوا وظیفہ مقرر ہوا، یہ مدت سوکھی روتیوں اور نمک مرچ پر بڑی پریشانیوںسے گذاری، شرح جامی حضرتمولانا امتیاز احمد امیٹھوی مفتی و مدرس دار العلوم سے ختمکی، آٹھ سال تک مسلسل ہرسالانہ امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کرتے رہے، مُلا ھسن کے تحریری امتحان میں ممتحن کی تحسین پر دار العلوم نے چار روپیہ انعامی وظیفہ مقرر کیا،۔۔۔۔ مولانا سید عبد المجید اور مولانا عبد الحئی افغانی سے بھی اخذ علوم کیا، شرح تہذیب کی منطقی ترکیب حضرت مولانا عبداللہ افغانی تلمیذ حضرت مولانا پرول صاحب سے اور حاشیہ عبد الغفور کا تکملہ مولانا سید امیر احمد پنجابی سے پڑھا، باقی فوقانی کتب حضرت امام علامہ حکیم امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے تمام کیں، ۱۳۵۱ھ میں صدر الشریعہ کی ہمر کابی میں مدرسہ منظر اسلام بریلی آئے، یہاں شرح چغمنی اور محقق دوانی کے غیر مطبوعہ حواشی قدیمہ اور جدیدہ کے ساتھ شرح تجرید اور امام رازی علیہ الرحمۃ اور طوسی کی شروح کے ساتھ اشارات کا سبق لیا، ۱۳۵۲ھ میں مدرسہ کےسالانہ جلسہ میں حضرت حجۃ الاسلام نے دستارِ فضیلت باندھی اور سند دی،۔۔۔۔۔۔۔ راقم سطور کے والد ماجد و پیر و مرشد امین شریعت مولانا شاہ رفاقت حسین مدظلہٗ شیخ الحدیث مولانا سردار احمد علیہ الرحمۃ، مجلد ملت حضرت مولانا حبیب الرحمٰن مدظلہٗ شیخ الحدیث مولانا شاہ عبد العزیزی دار العلوم اشرفیہ آپ کے خصوصی رفقاء درس رہے۔
تدریس کی ابتداء مدرسہ محمدیہ جائس سے کی۔(وہیں آپ کے ایک صاحبزادے مدفون ہیں) ایک سالکے بعد مولانا حبیب الرحمٰن شروانی (آزاد خیال) کی دعوت پر دار العلوم عظمت نشان کرنال کے صدر مدرس ہوکر تشریف لے گئے، سوا سال کے بعد کانپور کی مرکزی سُنّی درسگاہ مدرسہ احسنالمدارس قدیم میں صدر مدرس مقرر ہوکر آئے۔ شوال ۱۹۳۵ھ میں خان بہادر الحاج بھیا بشیرالدین رئیس اعظم لال کرتی میرٹھ کی دعوت پر اُن کےمدرسہ اسلامی اندر کوٹ میرٹھ کے منصب صدارت مدرسین کو رونق بخشی، مدرسہ اسلامی میں آپ کی تقرری ایک خاص سبب کی بناء پر ہوئ، مدرسہ مفتی عزیز الرحمٰن مفتی دارالعلوم دیوبند کے مُرید وخلیفہ اور مولوی بدر عالم جامع فیض الباری کے پیر قاری اسحاق صدر مدرس تھے، اور دین دیوبندی کے پکے متبع تھے، بھیا بشیر الدین کا گھرانہ حضرت مولانا شاہ احمد حسن فاضل کانپوری کا مرید اور حضرت مولانا شاہ عبد السمیع بیدل مصنف انوار ساطعہ کا شاگرد تھا، بھیاجی کو خود بھی دونوں سے نسبت حاصل تھی، اعتراض ہوا کہ سنی مہتمم اور سنی مدرسہ اور دیوبندی مدرس میں کیا تعلق ہے، نتیجۃً قاری اسحاق صدارت سے بر طرف کرکے کوٹھی میں بلالیے گئے، یہ بات حلقۂ دیوبند میں وقار کا سوال بن گئی، قاری اسحاق کے مرید مولانا بدر عالم میرٹھی مؤلف فیض الباری پیر کی حمایت میں آپ کی علمی تذلیل پر اُتر آئے، اسی موقع پر آپ نے فیض الباری شرح صحیح البخاری کی علمی و فنی غلطیاں نکالیں اور بتایا کہ مولانا بدر عالم اور اُن کے استاد مولانا انور کشمیری نے کئی فاحش غلطیاں تفہیم حدیث کے سلسلہ میں کی ہیں۔ یہ تنقید بشیر القاری بشرح صحیح البخاری کے نام سے مطبوعہ ہے آپ کو حضڑت قطب وت حافظ سید محمد ابراہیم ساکن سراوہ شریف سے غایت عقیدت ہے، اُن کے دیہات میں گرمیوں کے موسم یں ہر جمعرات کی دوپہر کو دس سیر برف میرٹھ سے بذریعہ ریل لے کر جاتے ہیں اور اسرادہ اسٹیشن سے آبادی تک اپنے سر پر رکھ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔ آپ کو بیعت و خلافت کا شرف شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ علی حسین اشرفی سرکار کچھوچھہ شریف سے حاصل ہے، ۱۳۸۹ھ میں حج وزیارت سے بہرہ ور ہوئے، راقم سطور نے ادب، نحو، منطق کی کتابوں کا آپ سے درس لیا، اور منطقی ترکیب بھی پڑھی، آپ کو درس نظامی کے جملہ فنون میں یکھاں مہارت تامہ حاصل ہے۔