حضرت سید شاہ میر گیلانی

حضرت سید شاہ میر گیلانی رضی اللہ عنہ

اوصافِ جمیلہ

آپ کاشفِ اسرار رب العالمین، قدوۃ المتقدمین والمتاخرین، ماہر رموزِ مقطعات فرقانی، واقف اسرار متشابہاتِ قرآنی، امام الطریقت، سلطانِ حقیقت، زبدۃ الاصفیا تھے، حضرت سید ابو الحسن علی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر و مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔

نام و لقب

آپ کا اسمِ سامی حسن، [۱] [۱۔ تذکرہ غوثیہ ۱۲] مشہور نام شاہ میر، [۱] [۱۔ اخبار الاخیار ۱۲] کنیت ابو عبد اللہ، [۱] [۱۔ تذکرہ غوثیہ ۱۲] ابو محمد، [۱] [۱۔ غوث اعظم ۱۲] لقب گرامی جمال الدین، اطہر، [۱] [۱۔ گلشن گلزار ۱۲] سلطان المشائخ، مخدوم الاولیا تھا۔ [۱] [۱۔ غوث اعظم ۱۲]

ولادت

آپ کی ولادت با سعادت ۶۷۶ھ چھ سو چھہتر ہجری مطابق ۱۲۷۸ء ایک ہزار دو سو اٹھتر عیسوی میں بمقامِ حلب ہوئی۔ [۱] [۱۔ باغ سادات قلمی ۱۲۔ شرافت]

تحصیل علوم

آپ نے فقہ و حدیث و تفسیر و علومِ معقول اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سید ابو علی صالح محمد گیلانی حلبی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیے، اور متبحر عالم ہوئے۔ عام لوگ آپ کے حلقۂ درس سے استفادہ پاتے رہے۔

بیعت و خلافت

آپ نے بیعت طریقت اپنے والد اکرم حضرت شیخ المشائخ سید ابو الحسن ضیاء الدین علی رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ کرم علی گیلانی حلبی رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر کی، اور خرقہ خلافت و ارشاد حاصل کیا۔

بیعتِ روحی

آپ کو روحی بیعت حضرت محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے پر دادا حضرت سیّد ابو العباس حمید الدین احمد گیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور جد امجد حضرت سید ابو البرکات محی الدین مسعود گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۱۸۔ ۱۸۴]

استغراق

آپ کی ذات پر استغراقی حالت غالب رہتی تھی، سارا دن توجہ اے اللہ اور شہودِ حق میں ہی گذر جاتا۔ [۱] [۱۔ انوار القادریہ للاثر الجالندہری رحمۃ اللہ علیہ ۱۲]

اخلاق و کمالات

آپ نہایت پارسا جلیل القدر، ذی مراتب، عالی مناقب[۱] [۱۔ غوث اعظم ص ۳۰۵] قدوۂ مشایخ و زبدہ عباد و زُہاد تھے، ولایت کے مقام میں شاہباز تھے، صاحبِ مدرسہ و خانقاہ تھے، آپ کا دستر خوان عام تھا، لنگر ہر وقت جاری رہتا، امرا سے اجتناب رکھتے، غریب نواز و یتیم پرور تھے، علمائے عراق آپ سے سندِ فضیلت حاصل کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ انوار القادریہ ۱۲]

سیر و سیاحت

آپ  کو ملک الٰہی کے سیر کا شوق ہوا تو والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کی طرح بعالمِ تجرید ہند میں تشریف لائے، اور پھرتے پھراتے ریاستِ بَون، کوہِ سَت پڑا پر شہر کالی بوڑی میں پہنچے، چندے وہاں قیام کیا، اور اس علاقہ کو فیوضِ قادریہ سے لبریز کیا، اور پھر واپس حلب تشریف لے گئے۔ [۱] [۱۔ گلشن گلزار ۱۲۔ شرافت]

کرامات

صاحب کتابِ غوث اعظم نے لکھا ہے کہ آپ صاحب خوارق و کرامات و عالی مقامات تھے۔

عملیات

برائےاولاد

آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سو سوار کے دن با وضویہ آیات چینی کے کاسہ میں لکھے، اور پانی سے دھو کر اُس عورت کو پلادے جس کو کچا حمل گِر جاتا ہو، تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کو پوری میعاد کے بعد بچہ پیدا ہوگا جو زندہ و صحیح سلامت ہوگا، آیات یہ ہیں، افرأیتم ماتمنون ء انتم تخلقونہ ام نحن الخلقون۔ [۱] [۱۔ جواہر الاولیا جوہر اوّل ۱۲] (الواقعہ۔ ع ۲)

کلمات طیبات

نصایح:  آپ نے سالکانِ طریقت کو فرمایا ہے، خلق سے اعراض کرو خواہ وہ تم کو قبول کریں یا رَد کریں، ملامت کرنے والوں کی ملامت سے کچھ خوف نہ کرو، اور قلب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاضر رکھو، اور معنوی طور پر صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہر وقت لازم سمجھو، شریعت کے مخالف اور بیجا کلام سے زبان کو بچاؤ، لا یعنی باتوں  کو ترک کرو، مسلمانوں  کو نصیحت کیا کرو اور اپنے مشایخ سلسلہ کے لیے دعائے خیر کیا کرو، اور پوشیدہ و ظاہر میں اُن سے نیک ارادت رکھو، اور ظاہر و باطن میں ان کی خدمات کو لازم سمجھو، اور حضور و غیبت میں اپنے دل کا تعلق ان کے ساتھ رکھو، اور سب اولیاء اللہ سے اپنے مشائخ کے ساتھ زیادہ اختصاص رکھو، اور جو کتابیں ان کی طرف منسوب ہیں اُن کا مطالعہ کیا کرو، اور اُن کی صحبت کو غنیمت جانو۔ [۱] [۱۔ تکملہ مفتاح الفتوح قلمی، مکتوبہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲]

ازواج و اولاد

آپ کی اہلیہ محترمہ کا اسم گرامی حضرت سیّدہ فاطمہ بنت سیّد حسن اوچی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ [۱] [۱۔ باغِ سادات قلمی ۱۲ شرافت] ان کے بطن سے اولاد ہوئی۔ نسب نامہ سادات میں ہے کہ آپ کے دو بیٹے تھے۔

۱۔      حضرت سید ابو محمد شمس الدین محمد اعظم رحمۃ اللہ علیہ

اِن کا ذکر آگے آئے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۔     حضرت سید عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ

اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ ریاستِ بَون بمقام کوہِ سَت پڑا شہر کالی بُوڑی میں آئے، اور وہیں سکونت گزیں ہوئے۔

اِن کی اولاد پنجاب میں اکثر جگہ پائی جاتی ہے، چنانچہ موضع سوک احمد متصل گجرات میں اس خاندان کے کئی گھر موجود ہیں، از انجملہ مولوی سید اکبر علی شاہ صاحب اہل علم نوجوان خوش  اخلاق مہماں نواز اِس وقت اپنے بزرگوں کی یاد گار موجود ہیں، امامیہ خیالات رکھتے ہیں، اور سلسلہ عالیہ نوشاہیہ میں بیعت ہیں، فقیر شرافت عافاہ اللہ کے احباب سے ہیں، سلمہ اللہ تعالیٰ ابن سید حاکم شاہ بن سید دسوندھی شاہ بن سید بقا علی شاہ المعروف سید شاہ بن سید محسن شاہ بن سید مُلّا شاہ بن شاہ شریف بن شاہ افضل بن شاہ نور (یہ سید علی امیر بالا پیر حجروی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے) بن سید ابو محمد بن سید اسمٰعیل سوکوی رحمۃ اللہ علیہ بن  شاہ فتح اللہ (انہوں نے ضلع سیالکوٹ میں اپنے نام پر  کوٹلی شاہ فتح اللہ آباد کی) بن سید سراج [۱] [۱۔ نسب نامہ سادات پیر کوٹ سدھانہ ضلع جھنگ میں اِن کا نام شاہ راجو لکھا ہے۔ شرافت]  الدین سرہندی بن سید کمال بن سید ادہم بن سید عبد اللہ حلبی رحمہم اللہ۔ [۱] [۱۔ گلشن گلزار ۱۲]

حضرت سیّد سعد اللہ الرضوی رحمۃ اللہ علیہ بحر السرائر میں لکھتے ہیں کہ سید شمس الدین محمد نصر کے سوا آپ کا کوئی بیٹا نہ  تھا۔

خلفائے عُظام

۲۔     حضرات صاحبزادگانِ والا تبار رحمۃ اللہ علیہ

آپ کے دونوں بیٹے آپ کے ہی خلیفہ تھے۔

۳۔     حضرت شاہ میانجیو قادری رحمۃ اللہ علیہ

ان کا سلسلہ فقر موجود ہے، چنانچہ ایک بزرگ سید علی رحمۃ اللہ علیہ نام لاہور میں گذرے ہیں، وہ مرید سید غازی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شاہ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شاہ اکرم رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شاہ خلیل رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شاہ متّا رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید سید مصطفٰے رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شاہ میانجیو رحمۃ اللہ علیہ کے۔

۴۔     حضرت شیخ احمد قادری رحمۃا للہ علیہ

اِن کے سلسلہ فقر میں سید عبد الحکیم گیلانی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ با کمال ولی اللہ گذرے ہیں، جن کی اولاد اب تک اچھرہ متصل لاہور میں آباد ہے، ۱۱۰۸ھ میں انتقال کیا، یہ مرید شیخ عبد اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کے، [۱] [۱۔خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۸۴] وہ مرید میر سید شاہ فیروز لاہوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۹۳۳ھ) کے، وہ مرید اپنے دادا شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شاہ نور الدین رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ احمد رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مُرید شیخ حامد گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید سید عبد اللہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۱۸ شرافت]

تاریخ وفات

حضرت سید ابو محمد سراج الدین شیخ شاہ میر اطہر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقول صاحب کتاب غوثِ اعظم ۸؍ ذیقعد ۷۶۶ھ سات سو چھیاسٹھ ہجری مطابق یکشنبہ ۲۷؍ جولائی ۱۳۶۵ء ایک ہزار تین سو پینسٹھ عیسوی میں بعہدِ خلافت المتوکل علی اللہ ابو عبد اللہ محمد بن المعتضد خلیفہ چہل چہارم (۴۴) عباسی مصری کے ہوئی۔

مدفن

آپ کا مزار پُر انوار شہر حلب میں اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ اور جد امجد رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

قطعہ تاریخ

از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ

گشت در جنت چو سید میر پیر
سال وصل آں حبیبِ کبریا

 

خیر مقدم کرد وے را ذوالجلال
ہادیٔ زاہد (۷۶۶) بہشتی بود سال

منہ

سیّدِ میر رفت از عالم
سالِ رحلت چو جست نوشاہی

 

درجناں یافت جائے جا خوش اعظم
ہاتفم گفت سرورِ(۷۶۶) مکرم

منہ

فوت شد شاہ میر مردِ معتبر

 

سالِ رحلت خواں حبیبِ (۷۶۶) مقتدر

منہ

نہاں شد زما منبع کرم وجود

 

سنِ فوت محبوب و مخدوم (۷۶۶) بود

دیگر

از اسماء الحسنیٰ

عدل متکبر (۷۶۶)

قوی مستقیم (۷۶۶)

مومن منتقم (۷۶۶)

طاھر متعالی (۷۶۶)

اطہر متعالی (۷۶۶)

قھار شفیع (۷۶۶)

 

قاھر شفیع (۷۶۶)

 

 

از آیت شریف

وکفٰی باللہ ولیًّا وکفٰی باللہ نصیرًا

(شریف التواریخ)

۷۶۶


متعلقہ

تجویزوآراء