حضرت الاسلام محمد بن اسماعیل بخاری

حضرت الاسلام محمد بن اسماعیل بخاری رضی اللہ عنہ

۱۹۴ھ    ۲۵۶ھ

اسم گرامی محمد، کنیت ابو عبداللہ، لقب امام المحدثین، سید الفقہاء۔ سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ بخاری جعفی۔ آپ کے جدا اعلیٰ مغیرہ نے حاکم بخارا ایمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اس لیےآپ کو جعفی کہا جاتا ہے۔ آپ کے ولادت شوال ۱۹۴ھ میں ماوراء النہر کے مشہور شہر بخارا میں ہوئی۔ والد اپنے زمانے کے بڑے محدث تھے جنہوں نے امام مالک، حماد بن زید اور دیگر عیان حدیث سے تلمذ کا شرف حاصل کیا تھا۔ اور عبداللہ بن مبارک جیسے محدث وزاہد کی صحبت پائی تھی۔

جن کا انتقال امام بخاری کے بچپن ہی میں ہوگیا تھا: امام بخاری ایام طفلی میں نابینا ہوگئے تھے جس کے باعث والدہ کو بے پناہ قلق رہا کرتا تھا اور وہ بارگاہ قاضی الحاجات میں انتہائی تضرع و زاری کے ساتھ لخت جگر کی بینائی کے لیے دعا کیا کرتی تھیں چناں چہ دعا قبول ہوئی اور انہوں نے ایک شب خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تیری گریہ و زاری و دعا کے سبب تیرے فرزند کو بصارت عطا فرمائی صبح بیدار ہوئیں تو نور نظر کی آنکھوں کو روشن و منور پایا۔ (بستان المحدثین، ص۱۷۲)

تحصیل علم:

بخارا میں رسمی تعلیم کے بعد صغر سنی میں ہیں حدیث تحصیل کی جانب متوجہ ہوئے اور دس سال کی عمر میں امام داخلی کے حلقۂ درس میں شریک ہونے لگے اور اپنی خداداد قوت حفظ و ضبط سے حدیثوں کی اسناد و متون کو ذہن میں محفوظ کرنے لگے اسی زمانے کی بات ہے ایک بار امام داخلی نے درس حدیث میں فرمایا ‘‘سفیان عن ابی الزبیر عن ابراہیم’’ امام بخاری نے کہا کہ حضرت ابو زبیر تو ابراہیم سےروایت نہیں کرتے تو داخلی نے تسلیم نہیں کیا۔ امام بخاری نے عرض کی اسے اصل نسخہ میں دیکھنا چاہیے چناں چہ داخلی نے جب اصل نسخہ ملاحظہ کیا۔ باہر تشریف لاکر فرمایا۔ اس لڑکے کو بلاؤ! جب بخاری حاضر ہوئے تو فرمایا میں نے اس وقت جو پڑھا تھا بے شک وہ غلط نکلا۔ اب۔ آپ بتائیں صحیح کیا ہے؟ بخاری نے کہا صحیح ‘‘سفیان عن الزبیر بن عدی عن ابراھیم’’ ہے داخلی نے حیران ہوکر کہا واقعی ایسا ہی ہے (ایضاً، ص۱۷۱) قوت حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ ۱۸ سال کی عمر میں آپ نے عبداللہ بن مبارک کی تمام کتابیں اور وکیع کے نسخے ازبر کرلیے۔

۲۱۰ھمیں اپنی والدہ اور بڑے بھائی کے ساتھ حج کے لیے حجاز کا سفر کیا فراغت حج کے بعد والدہ اور بھائی تو بخارا واپس لوٹے مگر امام صاحب طلب حدیث کے لیے حجاز ہی میں مقیم ہوگئے اور وہاں کے شیوخ حدیث سے استفادہ کرتے رہے آپ نے طلب و جستجوئے حدیث کے لیے بخارا اور حجاز ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ برسہا وطن سے دور دیار غربت کی خاک چھانتے رہے اور علم و فن کے جواہرات سے دامن بھرتے رہے خود فرماتے ہیں۔

میں شام، مصر اور جزیرہ دوبار گیا اور بصرہ کا سفر چار مرتبہ کیا اور حجاز مقدس میں چھ سال سکونت گزیں رہا بیشمار بار کوفہ و بغداد گیا ۔ محدثین کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا۔ (الحدیث والمحدثون، ص۳۵۴)

امام بخاری نے علمی بلا دو امصار کے بکثرت سفر کئے وہاں کے ایک ہزار شیوخ حدیث سے سماع حدیث کیا اور حدیثیں لکھیں خود فرماتے ہیں۔ ‘‘کتبت عن الف شیخ ما عندی حدیث الاو اذکر اسنادہ’’ میں نے ایک ہزار شیوخ سے حدیثیں لکھیں میرے پاس کوئی ایسی حدیث نہیں جس کی سند مجھے از بر نہ ہو۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۳)

اس بیان سے معلوم ہوتا ہےکہ امام بخاری کے شیوخ کی تعداد ایک ہزار تھی مگر سیر و تذکرہ کی کتابوں میں ان خاص خاص اور اہم شیوخ ہی کے نام ملتے ہیں۔

عبید اللہ بن موسیٰ، محمد بن عبداللہ انصاری، عفان، ابو عاصم نبیل، مکی بن ابراہیم، ابو مغیرہ، ابو مسہر، احمد بن خالد وہبی۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۱)

محمد بن سلام سندی، محمد بن یوسف، مکی بن ابراہیم، مقری، ابو مغیرہ فریابی، آدم، ابو الیمان، ابو مسہر (تذکرہ، ج۲، ص۱۲۲) محمد بن عروہ ہارون بن سغف، یحییٰ بن بشیر، قتیبہ، علی بن شفیق، عبدان، معاذ بن اسد، عبدالعزیز اویسی، صدقہ بن فضل، یحییٰ بن یحییٰ بشر بن حکم، اسحاق، ابراہیم بن موسیٰ، محمدبن عیسیٰ، طلق بن غنام، شریح بن نعمان، معلیٰ بن منصور، محمد بن عبداللہ انصاری، عبدالرحمٰن بن محمد، عمر بن عاصم، عبداللہ بن صالح، عبداللہ بن رجاء، عبداللہ بن محمدمسندی، ابو نعیم، حسن بن عطیہ، خلاد بن یحییٰ، خالد بن مخلد، سعید بن ملید، حمیدی، احمد بن محمد ارذقی، مطرف بن عبداللہ (تزکرۃ المحدثین سعیدی، ص۱۷۶)

قوت حفظ وضبط:

قدرت نے امام بخاری کو بے مثال ذہانت اور قوت حفظ و ضبط سے سر فراز فرمایا تھا وہ انتہائی بیدار مغز اور روشن دماغ انسان تھے قرطاس و قلم پر اتنا اعتماد نہیں کرتے تھے جتنا انہیں اپنے لوح ذہن پر بھروسہ تھا۔ حاشد بن اسماعیل عہد بخاری کے زبردست محدث فرماتے ہیں بخاری طلب حدیث کے لیے میرے ہمراہ شیوخ وقت کی خدمت میں آمدو رفت رکھتے تھے لیکن ان کے پاس عام طلبہ کی طرح قلم و دوات اور کاغذ کچھ نہ ہوتا تھا میں نے ان سے کہا جب تم حدیث سن کر تحریر نہیں کرتے تو تمہاری آمد و رفت اور سماع سے فائدہ؟ یہ سننا تو ہوا کے مانند ہے جو ایک کان سے داخل ہوکر دوسرے کان سے نکل گیا سولہ دن بعد بخاری نے مجھ سے کہا تم لوگوں نے مجھ کو بہت تنگ کردیا آؤ اب میری یاد داشت کا اپنے نوشتوں سے مقابلہ کرو۔ اس مدت میں ہم نے پندرہ ہزار حدیثیں لکھیں تھی بخاری نے صحت کے ساتھ سب کو اس طرح سنایا کہ میں اپنی حدیثوں کو ان سے صحیح کرتا تھا امام بخاری خود فرماتے تھے مجھےایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۲، ص۱۲۳)

امام بخاری کے علمی کمالات اور ان کے بے نظیر حفظ و ضبط اور بے مثال حدیث دانی کا شہرہ تمام بلاد اسلامی میں پھیلا تو بعض مقامات پر آپ کی محدثانہ شان اور قوت حفظ کا امتحان بھی لیا گیا جب وہ ایک بار بغداد تشریف لے گئے تو وہاں کے محدثین نے آپ کا امتحان لینا چاہا چناں چہ سو احادیث جب وہ ایک بار بغداد میں گڈ مڈ کرکے دس آدمیوں کے حوالہ کیا گیا ہر شخص ان میں سے دس دس حدیثیں طے شدہ پروگرام کےمطابق کرتا رہا ہر بار امام صاحب لااعرفہ فرماتے رہےجب سب لوگ حدیثیں پیش کرچکے تو امام صاحب نے ہر متن کو اس کی اصل سند اور ہر سند کی اصل حدیث کے ساتھ ملحق کرکے ترتیب وار سنا  دی لوگ سن کر حیرت زدہ ہوگئے۔ (وفیات الاعیان، ج۲، ص۳۲۴)

اس واقعہ کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ‘‘ھنا یخضع للبخاری فما العجب من ردہ الخطأ الی الصواب فانہ کان حافظا بل العجب من حفظہ للخطا علی ترتیبہ ما القو علیہ من مرۃ واحدۃ’’ یہاں امام بخاری کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے تعجب اس بات پر نہیں کہ انہوں نے غلطی کو درست کردیا وہ تو حافظہ زمانہ تھے ہی تعجب اس حافظہ پر ہے کہ انہوں نے ایک ہی مرتبہ میں غلط اسناد و حدیث کو اسی ترتیب پردہرایا جس ترتیب سے ان لوگوں نے پرھا تھا۔ (مقدمہ فتح الباری، ص۴۸۶)

ابو حاتم رازی نے ایک مجلس میں فرمایا: ‘‘یقدم علیکم رجل من خراسان لم یخرج منھا احفظ منہ فقدم محمد بن اسماعیل بعد اشھر’’ تمہارے پاس ایک خراسانی شخص آرہا ہے اس سر زمین سے ایسا بڑا حافظ نہیں پیدا کچھ ہی ماہ بعد محمد بن اسماعیل بخاری شریف لائے۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۴)

اعتراف علم و فضل:

امام بخاری کی جلالت شان اور محدثانہ عظمت و برتری کا ہر دور میں اعتراف کیا گیا ان کی تعریف نہیں اتنے لوگ رطب اللسان ہوئے جن کا احاطہ تحریر میں لانا ازبس دشوار ہے ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں امام بخاری کی اس قدر مدح و ستائش کی گئی کہ قرطاس و قلم ختم ہوسکتے ہیں لیکن ان کے مناقب کا بیان ختم نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ وہ بحر ہے جو اپنا ساحل نہیں رکھتا۔ (مقدمہ فتح الباری، ص۴۸۵)

m               محمود بن نضر شافعی: ‘‘دخلت ابلصرۃوالشام والحجاز والکوفۃ و رورایت علماء ھا کلما جریٰ ذکر محمد بن اسماعیل فضلوہ علی نفسھم’’ میں نے بصرہ، شام، حجاز، کوفہ کا سفرکیا اور وہاں کے علماء کو دیکھا ہر ایک محمد بن اسماعیل کا زکر کر رہا تھا اور اپنے اوپر ان کی فضیلت تسلیم کر رہا تھا۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۴)

m               احمد بن حمدون قصار: ‘‘رایت مسلم الحجاج جاء الی البخاری فقبل بین عینیہ وقال دعنی اقبل رجلیک یا استاذ الا ستاذین و سید المحدثین و طبیب الحدیث فی عللہ۔۔۔۔۔۔۔ لا یبغضک الا الحاسد واشھد ان لیس فی الدنیا مثلک’’ میں نے مسلم بن حجاج کو دیکھا کہ وہ بخاری کےپاس آئے تو انہوں نے امام بخاری کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا اے استاذ الاساتذہ سید المحدثین طبیب الحدیث آپ مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدموں کو چوم لوں۔ آپ سے مفسد کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھے گا اور میں گواہی دیتاہوں کہ آپ کا مثل دنیا میں نہیں۔ (الحدیث والمحدثین، ص۳۵۴)

m               ابن خزیمہ: ‘‘ما رایت تحت ادیم السماء اعلم بحدیث رسول اللہ ﷺ ولا احفظ لہ من البخاری’’ میں نے آسمان کے نیچے محمد بن اسماعیل سے بڑا محدث داں اور حافظ الحدیث نہیں دیکھا۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۵)

m               قتیبہ بن سعید: ‘‘میرے پاس مشرق و مغرب کے بے شمار لوگ علم حدیث کی تحصیل کے لیے آئے لیکن ان میں بخاری جیسا کوئی نہ تھا۔’’

m               رجاء بن حیوہ: ‘‘آیۃ من آیات اللہ’’امام بخاری اللہ کی آیات میں سے ایک آیت ہیں۔

m               بندار: ‘‘ما قدم علینا مثل محمد بن اسماعیل’’ ہمارے پاس محمد بن اسماعیل بخاری کے مثل کوئی شخص نہیں آیا۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۳)

ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن عبداللہ نمیر: ‘‘مارأینامثل محمد بن اسماعیل’’ ہم نے محمد بن اسماعیل بخاری جیسا عالم نہیں دیکھا۔ (ایضاً)

احمد بن حنبل: ‘‘ما اخرجت خراسان مثل، محمد بن اسماعیل’’ سر زمین خراسان نے محمد بن اسماعیل بخاری جیسا عالم پیدا نہیں کیا۔ (ایضاً، ص۴۴)

m               ابو حاتم رازی: ‘‘محمد بن اسماعیل اعلم من دخل العراق’’ جو لوگ عراق میں آئے ان میں سب سے بڑے عالم امام بخاری ہیں۔ (ایضاً)

m               عبدان بن عثمان: ‘‘مارایت بعینی شابا ابصر منہ’’ میں اپنی آنکھوں سے ایسا ہوشمند جوان نہیں دیکھا۔ (ایضاً)

m               عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی: ‘‘رایت العلماء بالحرمین والعراقین فما رایت فیھم اجمع منہ’’ میں نے حرمین اور عراق عرب عراق عجم میں بہت سے علماء کودیکھا تو ان میں امام بخاری سے بڑا جامع علم کسی کو نہیں پایا۔ (ایضاً، ص۴۵)

m               عمرو بن عجلی: ‘‘حدیث لا یعرفہ محمد بن اسماعیل لیس بحدیث’’ وہ حدیث جسے محمد بن اسماعیل بخاری حدیث نہیں کہتے یقیناً وہ حدیث نہیں۔ (ایضاً، ص۴۳)

m               صالح بن محمد اسدی: ‘‘محمد بن اسماعیل اعلمھم بالحدیث’’ محمد بن اسماعیل بخاری لوگوں میں سب سے بڑے عالم حدیث تھے۔ (ایضاً، ص۴۴)

m               اسحاق بن راہویہ: ‘‘یا معشر اصحاب الحدیث اکتبو ا عن ھذا الشباب فانہ لو کان فی زمن الحسن بن ابی الحسن لا حتاج الناس الیہ لمعرفتہ بالحدیث و فقھہ’’ اے اصحاب حدیث کے گروہ اس جوان سے حدیثیں لکھو کیوں کہ اگر یہ شخص حسن بصری کے زمانہ میں ہوتا تب بھی لوگ اس کی معرفت حدیث اور فقہ کے محتاج ہوتے۔ (ایضاً)

m               ابو عمرو خفاف: ‘‘لم ارمثلہ محمد بن اسماعیل وھو اعلم بالحدیث من اسحاق واحمد وغیرھما بعشرین درجۃ ومن قال فیہ شیئافعلیہ منی الف لعنۃ’’ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری جیسا محدث نہیں دیکھا وہ اسحاق اور احمد بن حنبل اور ان کے علاوہ محدثین سے بیس درجہ بڑے عالم تھے اور جو اس بارے میں کچھ کلام کرے میری جانب سے اس پر ہزار لعنتیں ہیں۔ (ایضاً، ص۴۶)

m               مسلمہ: ‘‘کان ثقۃ جلیل القدر عالما بالحدیث’’ وہ معتبر بڑے مرتبہ والے اور حدیث کے عالم تھے۔ (ایضاً، ص۴۶)

m               ابن خلکان: ‘‘البخاری الحافظ الامام فی علم الحدیث’’ بخاری زبردست حافظ اور حدیث میں امام تھے۔ (وفیات الاعیان، ج۲، ص۲۲۴)

کثرت اسانید:

یوں تو حدیث نبوی کے بڑے بڑے حفاظ اسلامی دنیا میں پیدا ہوئے مگر ان کی معرفت زیادہ تو حدیثوں کے متن اور اس کی محدود اسانید و طرق پر تھی۔ مگر امام بخاری کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ احادیث کے طرق و اسانید کی معرفت میں امتیازی شان رکھتے ہیں۔ حدیث کے تمام طرق ان کی نظر میں ہوتے تھے ایک روایت جتنی اسانید کی معرفت میں امتیازی شان رکھتے ہیں۔ حدیث کے تمام طرق ان کی نظر میں ہوتے تھے ایک روایت جنتی اسانیدسے مروی ہوتی امام بخاری کو ان تمام پر عبور ہوتا تھا۔ ایک بار بصرہ کی جامع مسجد میں آپ نے فرمایا میں تم کو وہی حدیث لکھواؤں گا جو تمہارے شہر کے محدثین بیان کرتے ہیں لیکن نئی سند کے ساتھ۔ پھر آپ نے ایک حدیث منصور کی روایت سے پڑھی اور فرمایا تمہارے شہر والے اس حدیث کو منصور کے غیر سے روایت کرتے ہیں اسی طرح امام بخاری نے مشتاقان حدیث کو کثیر تعداد میں احادیث لکھوائیں اور ہر حدیث کے بارے میں فرماتے تمہارے شہر والوں نے اس کو فلاں سے روایت کیا ہے اور میں اس کو فلا سے لکھواتا ہوں۔ (ارشاد الساری، ج۱، ص۳۴)

حافظ ابو احمد اعمش بیان کرتےہیں کہ ایک مرتبہ نیشاپور کی ایک مجلس میں امام مسلم بن حجاز امام بخاری سے ملنے آئے دوران مجلس کسی شخس نےیہ حدیث پڑھی۔ ‘‘عن ابن جزیج عن موسٰی بن عقبۃ عن اسماعیل بن ابی صالح عن ابیہ عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال کارۃ المجلس اذا قام العبد ان یقول سبحانک الیھم بوحمدک اشھد ان لاالہ الا انت استغفرک واتوب الیک’’۔

امام مسلم نے اس حدیث کو سن کر کہا سبحان اللہ کس قدر عمدہ حدیث ہے دنیا میں اس کا ثانی نہیں ہے یعنی یہ حدیث صرف اسی سند سے پائی جاتی ہے پھر امام بخاری سے پوچھا کیا اس حدیث کی آپ کو کسی اور سند کا علم ہے امام بخاری نے فرمایا ہاں لیکن وہ سند معلول ہے امام مسلم نے درخواست کی کہ مجھے وہ سند بتلائیں۔ امام بخاری نے فرمایا جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر نہیں کیا اسے مخفی ہی رہنے دو۔ امام مسلم نے اٹھ کر امام بخاری کے سرکو بوسہ دیا اور اس عاجزی سے مطالبہ کیا کہ اگر امام بخاری نہ بتلاتے تو قریب تھا کہ امام مسلم روپڑتے بالآخر امام بخاری نے فرمایا اگر نہیضں مانتے تو لکھو حدثنا موسیٰ بن اسماعیل حدثنا وھیب حدیث موسیٰ عقبہ عن عون بن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺ کفارۃ المجلس الحدیث۔

امام مسلم اس حدیث کوسن کر بے حد مسرور ہوئے اور بے اختیار کہنے لگے اے مام میں شہادت دیتا ہوں کہ دنیا میں کوئی شخص آپ کا مماثل نہں ہے جو شخص آپ سے بعض رکھے وہ حاسد کے سوا اور کچھ نہیں۔ (ایضاً)

 علل حدیث کی مغفرت:

علم اصول حدیث میں علل حدیث کا فن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے احادیث کی اسانید و متون میں فہم ثاقب اور ذہن رسا کا ملکۂ راسخہ عطا فرمایا ہے وہی اس فن سے حصہ پاتے ہیں۔ علل حدیث ان خفیہ و غامض اسباب کو کہتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث کی صحت میں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے منقطع حدیث کا وصل یا موقوف حدیث کا رفع یا ایک حدیث کو دوسری حدیث میں داخل کردینا وغیرہ وغیرہ۔

ائمہ حدیث نے حدیث معلل کی معرفت کو بہت مشکل قرار دیا ہے حتیٰ کہ عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا ‘‘علل حدیث کی معرفت الہام’’ کے سوا حاصل نہیں ہوتی۔

امام بخاری حدیث کے دوسرے علوم کی طرح علل حدیث میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ بڑے بڑے مشہور محدث آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے علل حدیث کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔

وراق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام مسلم بن حجاج امام بخاری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے استاذ الاساتذہ، سیدالمحدثین اور علل حدیث کے طبیب یہ بتلائیے کہ ‘‘اخبرنا ابن جریج عن موسیٰ بن عقبۃ عن سھیل عن ابیہ عن ابی ھریرۃ’’ اس سند میں کون سی علت ہے؟ امام بخاری نے فرمایا کہ موسیٰ بن عقبہ کا سہیل سے سماع نہیں ہے۔ پس جو حدیث بظاہر متصل تھی وہ درحقیقت منقطع ثابت ہوئی۔ (توجیہ النظر، ص۲۶۸)

حافظ احمد بن حمدون بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک جناز ہ کے موقع پر دیکھا کہ محمد بن یحییٰ بن ذہلی، امام بخاری سے اسماء اور علل کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور امام بخاری اس تیزی اور روانی سے جواب دے رہے تھے جیسے آپ کے منہ سے جواب نہیں کمان سے تیر نکل رہا ہے۔ (ہدی الساری، ج۲، ص۲۶۰)

امام ترمذی فرماتے ہیں ‘‘لم ارفی معنی العلل والرجال اعلم من محمد بن اسماعیل’’ علل حدیث اور فن رجال میں میں نے امام بخاری سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ (تہذیب، ص۴۵۹)

فن اسماء الرجال اور جرح و تعدیل:

اسماء الرجال کا علم نہایت مہتم بالشان بلکہ حدیث کا نصف علم ہے کیوں کہ حدیث متن اور سند کا نام ہے اور اسماء الرجال سند کے رواۃ و رجال کی معرفت کو کہتے ہیں۔ امام بخاری اس علم میں بھی درست کا درجہ رکھتے ہیں کثرت طرق کے ساتھ روایان حدیث کے حالات و کوائف اور ان کے خاندان، وطن، شیوخ، تلامذہ، ولادت و وفات، ثقہ غیر ثقہ جملہ کوائف کا علم رکھتے تھے۔ سلیم بن مجاہد علامہ بیکندی کی مجلس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تھوڑی دیر قبل آئے ہوتے تو ایک ایسے بچے سے ملاقات ہوجاتی جو ستر ہزار حدیثوں کا حافظ ہے ان کو اس نوعمر محدث سےملاقات کا شوق پیدا ہوا جب ان سے ملاقات ہوئی جو امام بخاری تھے تو انہوں نے سوال کیا کہ آپ کو ستر ہزار حدیثیں یاد ہیں۔ نومعر محدث نے کہا بلاشبہ بلکہ اس سے زائد یہی نہیں بلکہ جس حدیث کے بارے میں آپ مرفوع یا موقوف کا سوال کریں گے اس کا جواب بھی دوں گا مزید برآں اس میں جتنے بھی راویان حدیث سندوں میں موجود ہیں اکثر کی وفات سکونت، اور دیگر حالات کا بھی پتہ دے سکتا ہوں۔ (سیرت البخاری، ص۶۸)

جرح و تعدیل کا علم، رجال کی معرفت پر موقوف ہوتا ہے امام بخاری نقد حدیث اور رجال کی جرح و تعدیل کے علم سے بھی کاملاً بہرہ  مندہوئے تھے لاکھوں حدیثوں کے راویوں کی زندگیاں اور ان کے حفظ و ضبط، عدالت اور ان کے اسقام و معائب ان کے پیش نظر ہوتے۔ جس حدیچ کے بارے میں جس راوی کے متعلق ان سے سوال ہوتا مسائل کے سوال کا جملہ پورا بھی نہیں ہونے پاتا کہ آپ کا جواب حاضر رہتا تھا۔

فن رجال اور جرح و تعدیل میں آپ کو جو ملکہ حاصل تھا وہ آپ کی معرکۃ الآراء تصنیف ‘‘تاریخ کبیر’’ اور دیگر تالیفات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے جس میں تقریباً سوا تیرہ ہزار افراد کے حالات قلمبند ہیں آپ کے بعد آنے والا ہر فرد آپ کے علمی خزانہ کا محتاج ہے امام العباس بن سعید نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص تیس ہزار حدیث بھی لکھ ڈالے تو وہ آپ کی اس کتاب ‘‘تاریخ کبیر’’ کا محتاج رہے گا۔ امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں ‘‘ما تحت ادیم السماء اعلم بالحدیث  من محمد بن اسماعیل’’ اس روئے زمین پر امام بخاری سے زیادہ حدیث کی معلومات رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔  (تہذیب، ج۹، ص۴۵)

فقہ:

امام بخاری امیر المومنین فی الحدیث ہونے کے ساتھ فقہ و اجتہاد میں بھی بلند مرتبہ رکھتے تھے پھر صحیح بخاری کے ابواب فقہ کے حدیثوں کو جمع کیا ہے اور اپنے قول و آراء بیان کیے ہیں اس کے علاوہ قرأت فاتحہ خلف الامام، جزء رفع یدین، خلق افعال العباد جیسی کتابیں آپ کی قوت استنباط اور اجتہادی بصیرت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے سید المحدثین کے ساتھ آپ کو سید الفقہاء اور افقہ العلماء جیسے القاب سے یاد کیا ہے اور آپ کی فقہی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

m               حاشد بن اسماعیل: میں بصرہ میں تھا وہاں امام بخاری آئے تو محمد  بن بشار نے کہا ‘‘دخل الیوم سید الفقھاء’’ آج سید الفقہاء آئے۔ (تہذیب التہذیب، ج۹، ص۴۳)

m               ابو مصعب: ‘‘محمد بن اسماعیل افقہ عندنا وابصر من ابن حنبل’’ محمد بن اسماعیل بخاری ہمارے نزدیک سب سے بڑے فقیہ ہیں اور وہ احمد بن حنبل سے بھی زیادہ بصیرت رکھنے والے ہیں۔ (ایضاً)

m               یعقوب بن ابراہیم دورقی: ‘‘محمد بن اسماعیل فقیہ ھذہ الامۃ’’ محمد بن اسماعیل بخاری اس امت کے فقیہ ہیں۔ (ایضاً، ص۴۴)

m               عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی: ‘‘محمد بن اسماعیل البخاری افقھنا واعلمنا واغوضنا واکثرنا طلباً’’ محمد بن اسماعیل ہم میں سب سے بڑے فقیہ، سب سے بڑے عالم حدیث، سب سے زیادہ گہرائی میں اترنے والے اور ہم میں سب سے زیادہ طلب و جستجو کرنے والے ہیں۔ (الحدیث والمحدثون، ص۳۱۵)

حلقۂ درس و تلامذہ:

دور تحصیل علم ہی میں امام صاحب کی عبقری صلاحیت حفظ و ضبط اور ذہانت و طباعی کثر علم کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا تھا۔  جب آپ نے حلقۂ درس قائم کیا اور مسند تدریس کو رونق بخشی تو صرف عام طالبان حدیث ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے محدثین جن کے گرد تلامذہ کا حلقہ ہوا کرتا تھا آپ کی بارگاہ میں نیاز مندانہ حاضر ہوتے اور آپ کے درس سے مستفید ہوتے جو لوگ فضل و کمال کے اعتبار سے خود امام فن کی حیثیت رکھتے ان کے کسی مجموعہ حدیث کو امام صاحب صحیح تسلیم کرتے تو فخر یہ لہجے میں کہتے کہ ہماری ان حدیثوں کو محمد بن اسماعیل بخاری صحیح تسلیم کیا۔ (مقدمہ فتح الباری، ص۴۸۳)

امام صاحب اپنے وطن سے باہر جہاں کہیں جاتے شائقین حدیث کا ہجوم آپ کے گرد جمع ہوجاتا اور حدیث کا سماع کرتا رجال حدیث علل اور تعدد طرق کے بارے میں لوگ معلومات حاصل کرتے۔

یوسف بن موسیٰ مروزی بیان کرتے ہیں کہ میں بصرہ کی جامع مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ منادی کی آواز آئی اے علم کے طلب گارو! امام محمد بن اسماعیل یہاں آئے ہوئے جسے ان سے احادیث لینی ہو وہ ان کی خدمت  میں حاضر ہوجائے۔ مروزی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک دبلا پتلا سا نوجوان ستون کے قریب انتہائی سادگی اور خضوع و خشوع سے نماز پڑھ رہا ہے یہی امام بخاری تھے نماز سے فارغ ہوکر علماء کی طرف متوجہ ہوئے حاضرین نے درخواست کی آج حدیث سے متعلق خطبہ دیں امام صاحب نے منظور فرما لیا شہر میں اعلان کرادیا گیا کہ فلاں وقت امام صاحب بیان فرمائیں گے لوگ جوق در جوق مسجد میں جمع ہونے لگے جب حاضرین کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی تو امام صاحب کھڑے ہوئے اور یوں بیان کرنا شروع کیا اے علمائے بصرہ آج میں تمہارے سامنے وہ حدیثیں پیش کردوں گا جن کے راوی تمہارے شہر بصرہ کے رہنے والے ہیں مگر تم کو ان کی خبر نہیں اس کے بعد انہوں نے جتنی حدیثیں بیان کیں سب کے رواۃ اہل بصرہ تھے۔ (تاریخ بغداد، ج۲، ص۱۵، ۱۶)

طلب علم کے بعد امام بخاری نے اشاعت حدیث کے لیے بصرہ، بغداد، نیشاپور، سمرقند، بخارا میں درس حدیث کے لیے حلقے قائم کیے اور لاکھوں تشنگان علم کو آسودہ کیا آپ کی درسگاہ سے فیض پانے والوں کی تعداد ایک لاکھ بتائی جاتی ہے آپ سے اصاغر، معاصر، اکابر، افراد کے علاوہ خود آپ کے شیوخ نے بھی سماع حدیث کیا۔ چند مشہور تلامذ و سامعین یہ ہیں:

نسائی، ابوزرعہ، ابو حاتم، ابراہیم حربی، ابن ابی دنیا، صالح بن محمد اسدی، ابو بشر دولابی، محمد بن عبداللہ حضرمی، قاسم بن زکریا، ابن ابی عاصم، ابن خزیمہ، عمیر بن محمد بن بجیر، حسین بن محمد قبانی، ابو عمر و خفاف نیشاپوری، حسین بن محمد بن حاتم بن عبید العجلی، عبداللہ بن ناجیہ، فضل بن عباس رازی، ابو قریش محمد بن جمعہ قہستانی، ابو بکر بن ابی داؤد، ابو محمد بن ماعد، حسین بن اسماعیل حاملی، محمد بن یوسف، فربری۔ (تہذیب التہذیب، ج۹، ص۴۱) ترمذی، محمد بن نصرمروزی، صالح بن محمد جزری، ابو حامد بن شرقی، منصور بن محمد بزدوی۔ (تذکرہ، ج۲، ص۱۲۲)

تصانیف:

امام بخاری کو قدرت نے علم کی جس بیکراں دولت سے نواز تھا اسے انہوں نے عام کرنے کے لیے حلقہ درس قائم کیا اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ اپنی علمی اور فنی معلومات کے انے والی نسلوں کے لیے صفحۂ قرطاس پر محفوظ کردیا وہ ابتداہی سے تصنیف و تالیف کا شغل رکھتے تھے خود فرماتے ہیں جب میں اپنی عمر کے اٹھارہویں سال میں داخل ہوا تو میں نے اپنے شیخ عبداللہ بن موسیٰ کے زمانہ میں قضایا الصحابہ والتابعین اور ان کے فتاویٰ میں کتاب تصنیف کرناشروع کردی تھی اور اسی دور میں میں نے نبی ﷺ کی قبر انور کے پاس چاندنی راتوں میں تاریخ کبیر لکھی۔

جامع صحیح:

امام بخاری نے متعدد گراں مایہ تصانیف یاد گار چھوڑیں جن میں الجامع الصحیح، الادب المفرد، التاریخ الکبیر، التاریخ الاوسط، التاریخ الصغیر، خلق افعال العباد، رسالہ رفع الیدین، قرأت خلف الامام، برالوالدین، الضعفاء، الجامع الکبیر، التفسیر الکبیر، کتاب الاشربہ، کتاب الہبہ، کتاب المبسوط، کتاب الکنیٰ، کتاب العلل، کتاب الفوائد، کتاب المناقب، اسامی الصحابہ، کتاب الواحدان، قضاء الصحابہ والتابعین عالم اسلام میں مشہور و معروف ہیں لیکن صحیح بخای کو جو شہرت اور قبولیت عام حاصل ہوئی وہ اور کسی کتاب کے حصہ میں نہ ائی۔ بلکہ اسے جملہ امہات کتب حدیث میں جو مقام بلند حاصل ہوا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوا علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں۔

امام بخاری سے پہلے تدوین کا چلن ضرور عام ہوچکا تھا مگر اس وقت جتنی کتابیں معرض وجود میں آئی تھیں ان میں سے کسی کتاب میں بھی صرف احادیث صحیحہ کے لانے کا التزام نہیں کیا گیا تھاان میں شاذ و منکر مدلس، اور معلل ہر قسم کی روایات جمع کی ئیں تھی جس کے  پیش نظر ضروری تھا کہ حدیث میں ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس میں صرف احادیث صحیحہ درج کی جائیں۔

ایک دن امام بخاری اپنے استاذ اسحاق بن راہویہ کی مجلس درس میں حاضر تھے استاذ نے لوگوں سے کہا کیا اچھا ہوا اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کی توفیق دے کہ سنن میں کوئی ایسا مختصر تیار کرے جس میں باعتبار صحت اعلیٰ درجہ  کی احادیث درج ہوں تاکہ عمل کرنے والے بلاخوف تردد مجتہدین کی طرف مراجعت کیے بغیر اس پر عمل پیرا ہوں امام بخاری کے دن میں یہ بات جاگزیں ہوگئی اور اسی وقت مراجعت کیے بغیر اس پر عمر پیرا ہوں امام بخاری کے دل میں یہ بات جاگزیں ہوگئی اور اسی وقت اس جامع کا خیال پیدا ہوا چناں چہ چھ لاکھ حدیثوں کے اس ذخیرہ میں سے جوان کے پاس موجود تھا انتخاب شروع کیا اور ان میں صحیح ترین احادیث پر اکتفا کیا۔ (بستان المحدثین، ص۱۷۲)

صاحب مفتاح السنہ کا بیان ہے بعض دوسرے ائمہ نے اپنی جمع و تدوین میں صرف صحیح حدیثوں کا لحاظ رکھا تاکہ طالب حدیث کدو کاوش سے بچ جائے سب سے پہلے اس مثالی طریقہ کی بنیاد ڈالنے والے شیخ المحدثین محمد بن اسماعیل بخاری ہیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب میں صرف ان احادیث کو جمع کیا ہے جن کی صحت ان کی نظر میں واضح ہوچکتی تھی۔ (مفتاح السنہ بحوالہ تاریخ افکار و علوم اسلامی اول، ص۴۳۱)

امام بخاری نے صحیح بخاری کی ترتیب و تالیف کے لیے جو اہتمام کیا اس کے بارے میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں۔ بخاری جب کسی حدیث کو لکھنے کا ارادہ کرتے تھے تو اول غسل کرکے دو رکعت نفل ادا کرتے پھر اس کو لکھتے۔ چناں چہ سولہ سال کے عرسہ میں انتخاب سے فراغت پائی جب حدیثوں کو مضمون کے مطابق مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو مدینہ منورہ میں قبرمبارک اور منبر رسول اللہﷺ کے درمیان بیٹھ کر یہ اہم کام انجام دیا ہر ترجمۃ الباب پر دو رکعت نفل ادا کرتے تھے۔ (بستان المحدثین، ص۱۷۲)

حافظ ابن صلاح کے مطابق صحیح بخاری کی کل مرویات سات ہزار دو سو پچھتر ہیں اور حذف مکر رات کے بعد ۴۰۰۰ ہزار حدیثیں ہیں۔ (تذکرۃ المحدثین، سعیدی، ص۲۰۴)

الجامع الصحیح، چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں:

٭صحیح بخاری کی تالیف کا مقصد صرف احادیث صحیحہ کا جمع کرنا نہیں ہے بلکہ تراجم ابواب پر استدلال اور صحیح احادیث سے مسائل فقہیہ کا استخراج و استنباط بھی ہے چناں چہ وہ سب سے پہلے ترجمۃ الباب میں آیات قرآنیہ لاتے ہیں اور بعض اوقات آثار صحابہ و تابعین اور ارشادات ائمہ سے اس کی تائید کرتے ہیں پھر اس باب کے تحت پوری سند کے ساتھ حدیث درج کرتے ہیں۔

٭امام بخاری کسی ایک باب کے تحت احادیث کثیرہ بیان کرتے ہیں اور کبھی صرف ایک حدیث ذکر کرتے ہیں یہ اس صورت میں بن انہیں ترجمۃ الباب کے لیے اپنی شرائط پر احادیث مل جائیں ورنہ ترجمۃ الباب کے تحت کسی حدیث کا کر نہیں کرتے بلکہ کسی حدیث کے بعینہ الفاظ یا اس کے ہم معنی الفاظ کو عنوان باب بناکر اشارہ کرتے ہیں کہ اس عنوان کے تحت شرائط کے مطابق حدیث نہ مل سکی۔

٭ بخاریہ کبھی ایک ہی حدیث کو متعدد جگہ ذکر کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد ان متعدد مسائل کا استنباط ہوتا ہے جن ابواب سے متعلق وہ اس حدیث کو لاتے ہیں۔

٭ امام بخاری کا معمول ہے جب حدیث میں کوئی ایسا غریب لفظ آتا ہے جس کی نظیر کتاب اللہ میں موجود ہے تو اس کی وضاحت میں مفسرین کے اقوال نقل کرتے ہیں۔

٭ صحیح بخاری کا خاص امتیاز اس کی ۲۲ ثلاثیات ہیں۔

امام بخاری ہر کتاب کے شروع میں اس کے زمانۂ نزول اور مشروعیت کی ابتدا کی جانب کبھی کبھی اشارہ کرتے ہیں۔

صحیح بخاری کی اہمیت اور اس کی وقت و بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون ۸۰۸؁ھ لکھتے ہیں ‘‘کتب حدیث میں صحیح بخاری کا درجہ و مرتبہ بہت بلند ہے اسی لیے اس کی شرح کماحقہ نہ ہوسکی اور اس کی گہرائیوں تک رسائی نہ مل سکی، ابن الطال، ابن المہلب، ابن التین نے گوشرحیں لکھیں مگر در حقیقت شرح کا ادا نہ کرسکے’’۔ چناں چہ ہم نے اپنے شیوخ سے بارہا سنا ہے کہ صحیح کہ شرح کابوجھ اب تک امت کے کندھوں پر ہے اور ایک واجب الاداء قرض ہے جو ان کے ذمہ سے اب تک ساقط نہیں ہوا ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص۴۲۶)

اس قول سے بخاری شریف کی اہمیت  کا اندازہ ہوتا ہے اور ابن خلدون کے شیوخ کا یہ قول کہ بخاری شریف کی شرح کا قرض علمائے ملت سے ساقط نہیں ہوا۔ ممکن ہے اس عہد تک اس کی شرحیں ایسی ہی رہی ہوں مگر اس کے بعد کی محققانہ اور جامع شروح یقیناً حق شرح ادا کرتی ہیں اور وہ نہایت اہم اور وقیع ہیں ذمہ قرض کا ساقط ہونا تو اس کا فیصلہ اس عہد کے ان بالغ نظر محققین کے ذمہ ہے جنہوں نے بخاری تمام شروح کا بغور مطالعہ کیا ہو۔

بخاری شریف کی اہمیت و قبولیت کا انداہ اس کی مفصل، مختصر، شروح، تلخیص اور دیگر زبانوں میں ترجموں سے ہوتا ہے جو اس وقت سے اب تک لکھے گئے یا لکھے جارہے ہیں۔

٭ فتح الباری، عمدۃ الباری، ارشاد الساری، الکوکب الدراری، شرح النووی، ہدلیۃ الباری، تیسیر القاری، عون الباری عربی زبان میں کافی اہم ہیں۔

صحیح بخاری کی شرحیں عربی، فارسی اردو اور دیگر زبانوں میں کی گئیں۔ نیز اس کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں کیے گئے اور آج مدارس اسلامیہ میں صحیح بخاری کا درس پورے اہتمام کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں صحیح بخاری کی اہمیت و عظمت اور اہل علم میں مقبولیت کی دلیل ہیں۔

اخلاق و کردار:

امام بخاری نے جس اخلاص و انہماک کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کریمہ کو سینے میں محفوظ کیا تھا اسی طرح انہوں نے اپنی ذات و صفات کو اخلاق نبوی کے سانچے میں ڈھال لیا تھا زہد و تقویٰ عبادت و ریاضت حسن خلق حق گئی و حق شناسی میں ممتاز تھے حلم و مروت کے پیکر تھے کبھی کسی کو برائی سے یاد نہ کرتے اور کسی کی برائی کا بدلہ ہمیشہ نیکی سے دیتے۔ ہر شخص کی عزت نفس کا لحاظ رکھتے وہ بے صابر انسان تھے اور اپنی ذات کا انتقام بالکل ہی نہ لیتے تھے وہ متواضع منکسر المزاج واقع ہوئے تھے بڑی سادہ زندگی بسر کرتے اپنے کام خود کرلیا کرتے کسی دوسرے کو زحمت نہ دیتے۔ آپ کے شاگرد محمد بن حاتم وراق بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ امام بخاری بخارا کے قریب سرائے بنا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں ہی سے دیوار میں اینٹیں چن رہے تھے میں نے آگے بڑھ کر کہا آپ رہنے دیجیے میں یہ انٹیں لگا دیتا ہوں آپ نے فرمایا قیامت کے دن یہ عمل مجھے نفع دے گا وراق کہتے ہیں کہ جب ہم امام بخاری کے ساتھ کسی سفر میں جاتے تو آپ ہم سب کو ایک کمرے میں جمع کردیا کرتے اور خود علیحدہ رہتے۔ایک بار میں نے دیکھا امام بخاری رات کو پندرہ بیس مرتبہ اٹھےاور ہر مرتبہ اپنے ہاتھ سے آگ جلا کر چراغ روشن کیا کچھ احادیث نکالیں ان پر نشانات لگائے پھر تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گئے میں نے عرض کیا آپ نے رات کو اٹھ کر تنہا مشقت برداشت کی مجھے اٹھا لیتے فرمایا تم جوان ہو اور گہری نیند سوتے ہو میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ (تذکرۃ المحدثین، ص۱۸۲)

اخلاقی بلندی کے ساتھ عبادت و ریاضت کا شوق بھی غالب تھا نماز محویت اور تلاوت قرآن کی حلاوت اس درجہ غالب رہتی کہ بڑی سے بڑی اذیت گوارا کرلیتے مگر نماز نہ توڑتے۔ بکیر بن نمیر کا بیان ہے۔

ایک دن امام بخاری نماز پڑھ رہے تھے تو آپ کو ایک زنبور نے سترہ بار ڈنک مارا۔ جب آپ نے نماز پوری کی۔ اپنے شاگرد سے کہا ذرا دیکھا میری قمیص کے نیچے کیا ہے؟ شاگرد نے دیکھا قمیص کے نیچے زنبور تھی جس نے ان کے بدن پر سترہ جگہ ڈنک لگایا ہوا تھا جس کی وجہ سے آپ کا بدن جگہ جگہ سے سوچھ گیا تھا۔ ابن نمیر نے پوچھا جب آپ کو زنبور نے پہلی مرتبہ کاٹا تو اس وقت آپ نے نماز کیوں نہیں توڑی آپ نے فرمایا میں قرآن کریم کی جس آیت کی تلاوت کر رہا تھا اس میں اتنا ذوق شوق پا رہا تھا کہ میں اس وقت اس تکلیف کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔ (تہذیب، ج۹، ص۴۳، تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص۱۸۴)

امام صاحب نے اپنی علمی دیانت اور وقار کو کبھی مجروح نہ ہونے دیا وہ اپنی ذات ضرورت کے لیے امرء رؤسا کے دروازوں پر ہر گز نہ گئے ایک بار آپ کے مضا رب تاجر نےپچیس ہزار لے کر دوسرے ملک میں سکونت اختیار کی امام صاحب سے لوگوں نے کہا کہ مقامی حاکم کا خط لے کر اس علاقہ کے حاکم کے پاس پہنچا دو روپیہ آسانی سے مل جائے گا امام بخاری نے فرمایا اگرمیں نے اپنے روپیے کے یلے حکام سے سفارش لکھواؤں تو کل یہ حکام میرے دین میں دخل دیں گے اور میں اپنے دین کو دنیا کے عوض ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

ابتلاو آزمائش اور وصال:

۲۵۰ھمیں بخاری نیشاپور تشریف لے گئے جہاں ان کا بڑا ہی پر تپاک استقبال کیا گیا آپ نے وہاں حلقۂ درس قائم کیا صبح سے شام تک طالبان حدیث کا ازدحام رہتا پور نیشاپور آپ کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتا یہ بات بعض حاسدوں کو بری لگی اور انہوں نے آپکی تحقیر و تذلیل کے لیے مسئلہ خلق قرآن کے بارے میں آپ سے سوال کیا امام صاحب نے فرمایا ‘‘القرآن کلام اللہ غیر مخلوق’’ سائل نے اصرار کیا قرآن کے الفاظ کا حکم بتایئے۔ تو آپ نے کہا: ‘‘افعالنا مخلوقۃ والفاظنا من افعالنا’’ یعنی ہمارے افعال مخلوق ہیں اور الفاظ بھی ہمارے افعال ہیں مفسدوں نے شور و غوغا کیا کہ امام بخاری الفاظ قرآن کو مخلوق مانتے ہیں جب یہ خبر محمد بن یحییٰ ذہلی کو پہنچی تو اس نے اعلان کرادیا کہ کوئی بخاری کے حلقۂ درس نہ جائے چناں چہ امام مسلم کے سوا تمام لوگوں نے آپ کے حلقۂ درس میں جانا چھوڑ دیا یہ صورت حال دیکھ کر امام بخاری اپنے وطن بخارا لوٹے اہل بخارا نے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا آپ نے بخارا میں مسند درس آراستہ کی مگر یہاں بھی حاسدین کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں لوگوں نے حاکم بخارا خالد بن احمد ذہلی سے کہا کہ امام بخاری سے کہے کہ وہ آپ کے صاحبزادے کو گھر آکر پڑھایا کریں۔

والی بخارا نے خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا میں علم کو سلاطین کے دروازے پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا۔ پڑھنے والے کو میرے درس میں آنا چاہیے۔ والئ بخارا نے کہا اگر میرا لڑکا درس میں آئے تو وہ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھے گا آپ کو اسے علیحدہ پڑھانا ہوگا۔ امام بخاری نے جواب دیا  میں کسی شخص کو احادیث رسول کی سماعت سے نہیں روک سکتا یہ جوابسن کر حاکم بخارا غصہ ہوا اور اس نے ابن الوقت علماء سے فتویٰ لیا اور بخارا سے نکل جانے کا حکم صادر کیا امام صاحب آزردہ ہوکر وطن سے نکلے سمرقند کا رخ کیا اور سمر قند سے پہلے ہی خرتنگ نامی ایک مقام ایک مقام پر ٹھہر گئے وہیں بیمار پڑے اور یکم شوال ۲۵۶ھ کو دارفانی سے رحلت فرما گئے بعد نماز ظہر خرتنگ ہی میں اس پیکر علم و دانش کو ظاہر ہزاروں سوگوارں نے نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کردیا فن کے بعد آپ کی قبر مبارک سے مدتوں ایسی خوشبو آتی رہی جو مشک و عنبر سے بھی عمدہ تھی لوگ قبر کی مٹی تبرکاً لے جانے لگے مجبوراً اس کے گرد محصورہ قائم کردیا گیا۔


متعلقہ

تجویزوآراء