حضرت ہارون علیہ اسلام

بنی اسرائیل:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے کیونکہ ’’اسرائیل‘‘ آپ علیہ السلام کا ’’لقب‘‘ ہے یا آپ کا دوسرا نام ہے۔ لفظ ’’اسرائیل‘‘ میں ایک قول یہ ہے کہ یہ عجمی لفظ ہے۔ اسراء اور ایل سے مرکب ہے۔ اسرا کے چار معنی بیان کیے گئے ہیں۔ عبد (بندہ، عبادت کرنے والا)، صفوۃ (برگزیدہ)، انسان اور مہاجر (ہجرت کرنے والا)۔ اور ایل کا معنی ہے اللہ تعالیٰ۔ اس لحاظ پر حضرت یعقوب علیہ السلام کا یہ نام اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار اور اس کے برگزیدہ اور اس کے پیدا کردہ عظیم المرتبت انسان اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے یعنی ہجرت کرنے والے بھی تھے۔

بعض حضرات نے کہا کہ یہ لفظ عربی ہے اسراء کا معنی ہے رات کو لے جانا اور ایل کا معنی ہے اللہ تعالیٰ۔ اب اس لحاظ پر آپ کا نام اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کے وقت اپنی طرف رجوع کرایا کہ آپ اس کی طرف ہجرت کرنے والے ہوئے۔ (ماخوذ از تفسیر قرطبی، روح المعانی)

موسی علیہ السلام:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے جو اپنے قبیلہ کے سردار تھے۔ لادی بن یعقوب کی اولاد سے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے نام میں اختلاف ہے یار خا، ایار خت نوحانذ، یوخانذ، لوخا، مریم۔ یہ تمام نام ذکر کرنے کے بعد حاشیہ جلالین میں ذکر کیا گیا ہے۔

’’والا صح ھو الاول کما فی روح البیان‘‘

صحیح قول پہلا ہی ہے۔ یعنی یار خا جیسے روح البیان میں ہے: مفتی احمد یار خان رحمہ اللہ نے تفسیر نعیمی میں ’’عائذ‘‘ لکھا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) (حاشیہ جلالین ص ۳۲۶)

حضرت ہارون علیہ السلام:

آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سگے بھائی ہیں، بہت بڑے حوصلہ مند اور بُرد بار تھے۔ بنی اسرائیل آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔

’’وھو اکبر من موسیٰ علیہ السلام بثلث سنین‘‘

وہ موسیٰ علیہ السلام سے تین سال بڑے تھے۔ (صاوی، حاشیہ جلالین ص ۱۴۱)

’’سامری‘‘ کا نام بھی ’’موسیٰ‘‘ تھا:

’’سامری‘‘ جس نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا پر لگا دیا تھا جس کا ذکر آگے آئے گا، (ان شاء اللہ) اس کا نام بھی ’’موسیٰ‘‘ تھا۔ سامری کے نام و نسب اور جائے سکونت کے بارے میں اقوال مختلف ہیں۔ سب سے زیادہ راجح قول یہی ہے کہ اس کا نام موسیٰ اور اس کے باپ کا نام ظفر تھا۔ اور بنی اسرائیل کے ایک قبیلہ سامرہ سے تھا۔ اس قبیلہ کی مناسبت سے اس کی جائے سکونت کا نام بھی ’’سامرہ‘‘ ہوا۔ اس لیے اس کو سامری کہتے ہیں۔ یہ شخص خود اور اس کا سارا قبیلہ بلکہ اطراف و جوانب کے تمام لوگ گائے کی پرستش کیا کرتے تھے۔ یہ سامری اس زمانے میں پیدا ہوا جب کہ فرعون نبی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو ذبح کرادیتا تھا۔ جب یہ پیدا ہو تو اس کی ماں نے اسے پہاڑ کے غار میں چھپا دیا۔ بنی اسرائیل کے اس قسم کے بچوں کی تربیت کے لیے حضرت جبرائیل امین کو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا تھا۔ اس موسی بن ظفر یعنی سامری کی تربیت کے لیے بھی حضرت جبرائیل متعین تھے۔ وہ اس کے غار میں تشریف لاتے اور اس کا اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے دیتے جس وہ دودھ اور شہد چوستا رہتا۔ (تفسیر قرطبی ج ۷ ص ۲۸۴)

بعض علماء نے لکھا ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام خود اپنی انگلیاں اس کے منہ میں دے دیتے تھے جس سے وہ دودھ اور شہد چوستا تھا۔ صاحب روح المعانی نے اس ضمن میں دو شعر بھی نقل کیے ہیں:

اذا المرء لم یخلق سیعدا تحیرت
فموسی الذی رباہ جبریل کافر

 

عقول مربیہ و خاب الموئل
و موسی الذی رباہ فرعون مرسل

 

جب آدمی اصل خلقت میں سعادت سے محروم ہو تو اس کی تربیت کرنیوالوں کے دماغ حیرت زدہ اور اس سے بہتری کی امید رکھنے والے خائب و خاسر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ وہ موسی جس کی پرورش جبرائیل امین علیہ السلام نے کی کافر ہوا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) جس کی پرورش فرعون نے کی اللہ تعالیٰ کا رسول (فرستادہ، بھیجا ہو) ہے۔ (روح المعانی پ ۱۶ ص ۲۷۷)

’’سامری‘‘، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بظاہر ایمان لایا،مگر پکا منافق تھا۔ (تبیان)

فرعون:

مصر کے بادشاہوں کا لقب ’’فرعون‘‘ ہوا کرتا تھا جس طرح روم کے بادشاہوں کا قیصر، فارس کے بادشاہوں کا ’’کسریٰ‘‘ یمن کے بادشاہوں کا ’’تبع‘‘ ترک بادشاہوں کا ’’خاقان‘‘ اور حبشہ کے بادشاہوں کا لقب ’’نجاشی‘‘ تھا۔

’’ولم یکن من الفراعنۃ احد اشد غلظۃ ولا اقسی قلبامنہ‘‘

مصر کے جتنے بادشاہ بھی گزرے ہیں کوئی بھی موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون سے زیادہ بد خلق، سخت دل اور ظالم نہیں تھا۔ یوسف علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کا نام ’’ریان بن ولید‘‘ تھا جس نے ایمان قبول کرلیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں پایا جانے والا فرعون ’’ولید ابن مصعب یا مصعب بن ریان‘‘ تھا۔ بعض نے اس کا نام ’’قابوس‘‘ بھی تحریر کیا ہے۔ قبیلہ قبطیہ سے تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں پائے جانے والے فرعونوں کے درمیان چار سو سال سے زائد عرصہ تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے:

بنی اسرائیل کی حالت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے یہ تھی کہ یہ لوگ فرعونیوں کے خادم تھے۔ فرعونیوں نے ان کو مختلف قسم کے کاموں پر مقرر کیا ہوا تھا۔ کچھ لوگوں کو تعمیر کے کاموں پر لگایا ہوا تھا۔ اور کچھ لوگوں سے ہل چلانے کا کام لیا جاتا، اور کچھ لوگوں سے کھیتی باڑی کے مختلف کام لیے جاتے، فصل کی کاشت اور کٹائی وغیرہ کے کاموں پر مقرر تھے۔ گندے کاموں پر بھی انہیں ہی لگایا جاتا، بیت الخلاء کی صفائی انہی لوگوں کے ذمہ تھی۔ کیچڑ صفائی وغیرہ کے کاموں پر ان کو ہی مقرر کیا جاتا۔ پتھر تراشنا اور پتھروں کو اٹھا اٹھا کر لانا انہی کے ذمہ تھا۔ جو لوگ یہ کام نہیں کرسکتے تھے ان پر جزیہ مقرر کردیا جاتا تھا۔ اور جو شخص سورج کے غروب ہونے سے پہلے جزیہ نہ ادا کرتا اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دیے جاتے اور ایک مہینہ تک اس کے ہاتھ اسی طرح بندھے رہتے۔ اور بنی اسرائیل کی عورتوں سے اس طرح کام لیے جاتے جیسے لونڈیوں سے کام لیے جاتے ہیں، یعنی گھریلو تمام کام ان کے سپرد ہوتے، سوت کاتنا اور سلائی بنائی وغیرہ کے کام ان عورتوں سے ہی لیے جاتے تھے۔

بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرنا:

فرعون نے ایک خواب دیکھا ہے کہ بیت المقدس کی جانب سے ایک آگ نکلی ہے جس نے مصر کا احاطہ کرلیا اور تمام قبطیوں کو جلا دیا، لیکن بنی اسرائیل کو اس نے کوئی نقصان نہ پہنچایا۔ اس خواب سے فرعون بہت پریشان ہوا اس نے خواب کی تعبیر بیان کرنے کے ماہرین سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہوسکتی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس خواب سے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو تمہاری بادشاہی کے زوال کا سبب بنے گا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو اسے ذبح کردیا جائے۔ اس طرح اس کے حکم سے ہزاروں کی تعداد میں ان کی بچے ذبح کر دے گئے وہ جو ذبح کیے گئے ان کی تعداد بارہ ہزار یا ستر ہزار تھی۔ اتنی بات واضح ہے کہ ہزاروں کی تعداد تھی۔ (تفسیر جلالین، جمل)

رب تعالیٰ نے نبی اسرائیل کو یہی حالات یاد کرانے کی لیے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بنی اسرائیل کو یاد کرنے کے لیے کہا کہ تمہارے آباء و اجداد پر ہمارے بڑے انعام تھے، وہ بھی شکر کرنے کی بجائے رب تعالیٰ کے احکام کا انکار ہی کرتے رہے اور خائب و خاسر ہوئے، تمہیں چاہیے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ (پ ۱ سورت بقرہ، ۴۹)

جب ہم نے نجات دی تمہیں فرعون کی آل سے، وہ تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے، ذبح کرتے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمہاری لڑکیوں کو، اور اس میں تمہارے رب تعالیٰ کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔

ایک اور معنی ویستحیون نسائکم کا یہ بھی ہے کہ وہ تمہاری عورتوں کی شرمگاہیں دیکھتے تھے کہ یہ حاملہ ہیں یا نہیں۔ زندہ چھوڑنے والا معنی زیادہ مشہور ہے کہ انہیں لڑکیوں سے کوئی خطرہ نہ تھا اس لیے ان کو زندہ چھوڑ دیتے

وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ

اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی،

اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ تم جن مصیبتوں میں گرفتار تھے وہ تمہاری بہت بڑی آزمائش تھی کہ صبر کرتے ہو یا نہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پر جو اللہ تعالیٰ نے انعام کیے کہ تمہیں فرعونیوں سے نجات دی یہ تمہاری آزمائش تھی کہ کیا تم نعمتوں کا شکر کرتے ہو یا نہیں؟ (تفسیر روح المعانی و کبیر)

موسی علیہ السلام کی پیدائش:

وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِیْهِ ج فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ ج اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (پ ۲۰ سورۃ القصص ۷)

اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو الہام فرمایا کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے، اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بیشک اسے ہم تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے۔

آپ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈال کر یقین کرا دیا گیا تھا کہ پیدائش کے بعد تم بچے کو دودھ پلاتی رہو، جب تمہیں فرعون کے جاسوسوں سے خطرہ لاحق ہو یا بچے کے رونے وغیرہ سے پڑوسیوں سے تمہیں خطرہ ہو تو بچے کو دریا میں ڈال دو، ہم اس بچے کی حفاظت کریں گے اور تمہاری طرف لوٹادیں گے۔ اور اسے رسول بنائیں گے۔

آپ علیہ السلام کی والدہ نے آپ کو دریا میں پھینکنے سے پہلے کتنی مدت دودھ پلایا اس کی حد کا ذکر قرآن پاک میں تو نہیں البتہ ایک قول ابن جریج کا یہ ہے۔

’’انہ بعد اربعۃ اشھر صاح فالقی فی الیم والمراد بالیم ھھنا النیل‘‘

کہ بے شک آپ چارہ ماہ بعد روئے تو پڑوسیوں وغیرہ کے خطرہ کے پیش نظر آپ کو دریائے نیل میں ڈال دیا گیا۔

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر جب ولادت کا وقت قریب ہوا تو آپ کے پاس ایک دایہ آئی۔ ان میں سے جو فرعون نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے لیے مقرر کر رکھی تھیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان سے نور کی کرنیں ظاہر ہو رہی تھیں جن کو دیکھتے ہی دایہ کا ہر جوڑ کانپنے لگا۔ اس کے دل میں موسیٰ علیہ السلام کی محبت ڈال دی گئی۔ اس نے کہا: اے عورت (اے اس بچے کی ماں) میں تو اسے قتل کرنے کے لیے آئی تھی لیکن مجھے اس  سے شدید محبت ہوچکی ہے، اس لیے تو اپنے بچے کو محفوظ کر لے وہ دایہ یہ کہہ کر چلی گئی۔ اتنے میں فرعون کے جاسوس آپ کے دروازہ پر پہنچ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے جاسوسوں کو آتے ہوئے دیکھ کر کہا: اے ماں فرعونی آرہے ہیں، آپ کی ماں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے، ہوش و حواس جاتے رہے، بچے کو ڈر کے مارے کپڑے میں لپیٹ کر جلتے تنور میں ڈال دیا۔ جب فرعونی آپ کے گھر میں داخل ہوئے تو جلتے تنور کی طرف تو وہ نہ گئے اور گھر تمام چھان مارا کوئی بچہ نظر نہ آیا۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو دیکھا تو ان کے رنگ میں بھی کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔ جو عام طور پر عورتوں کا بچے کی پیدائش پر رنگ زرد پڑ جاتا ہے اور آپ کا دودھ بھی نظر نہ آنے پر پوچھا کہ وہ دایہ تمہارے گھر کیوں آئی تھی؟ آپ نے کہا وہ میری دوست تھی جو مجھے ملنی آئی تھی۔ یہ کوئی جھوٹ نہیں تھا وہ آپ کی دوست بھی تھی۔

جب فرعونی آپ کے گھر سے نکل گئے تو آپ کو ہوش آیا اور اپنی بیٹی سے پوچھا بچہ کہاں گیا یعنی آپ کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ بچے کو کہاں ڈالا تھا۔ بیٹی نے جواب دیا مجھے تو کچھ پتہ نہیں، اتنے میں تنور سے آہستہ آہستہ رونے کی آواز آئی تو آپ نے دیکھا کہ بچے پر آگ ٹھنڈی سلامت ہوچکی ہے۔ انہوں نے بچے کو تنور سے نکال لیا۔ والدہ کو جب یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ فرعون بچے کی تلاش میں پوری جدو جہد کر رہا ہے تو آپ نے بچے کو صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں پختہ بات ڈال دی تھی کہ اس طرح بچہ محفوظ رہے گا اور ایک دن انہیں واپس مل جائے گا۔

آپ کی والدہ ایک نجار کے پاس گئیں تا کہ اس سے ایک صندوق حاصل کریں اس نے پوچھا تم نے لکڑی کے صندوق کو کیا کرنا ہے تو آپ نے سچ سچ بتا دیا کہ اپنے بیٹے کو اس میں ڈال کر دریا میں ڈالنا ہے، ہوسکتا ہے فرعونیوں سے بچ جائے۔ صندوق اس نے آپ کو فروخت کردیا، لیکن بڑھئی کے دل میں بد نیتی پیدا ہوگئی وہ فرعونی لوگوں کے پاس گیا جو بچوں کو ذبح کرنے پر مقرر تھے کہ انہیں بتاسکے، جب وہ ان کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان کو بند کردیا۔ وہ ہاتھ سے اشارے کر رہا تھا، ان لوگوں نے اسے (پاگل سمجھ کر) مارا اور بھگا دیا جب وہ واپس اپنے گھر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان کو اس پر پھر لوٹا دیا۔ پھر وہ دوسری مرتبہ ان لوگوں کی طرف گیا تاکہ انہیں بتاسکے پھر اس کی زبان بند ہوگئی پھر ہاتھوں سے اشارے کرنے کی وجہ سے انہوں نے اسے مارا گھر لوٹا، پھر اس کی زبان ٹھیک ہوگئی۔ پھر تیسری مرتبہ انہیں بتانے کے لیے گیا تو اس کی زبان بھی بند ہوگئی اور اندھا ہوگیا۔ پھر اس کی پٹائی ہوئی اور اسے واپس بھگادیا گیا۔ اب وہ سچے دل سے توبہ کرنے لگا: اے اللہ تعالیٰ اگر تو مجھے میری نظر اور زبان دے دے تو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول فرمالیا اور اسے زبان اور نظر دے دی۔

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے آپ کو صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کردیا فرعون کی صرف ایک بیٹی تھی اور اس کی کوئی اولاد نہ تھی وہ اپنی بیٹی سے بہت زیادہ محبت کیا کرتا تھا وہ بھی ہر روز اپنے باپ کے پاس تین حاجات پیش کرتی تھی۔ وہ بہت زیادہ برص کی بیماری میں مبتلا تھی۔ فرعون نے اس کے بارے میں طبیبوں اور جادو گروں سے مشورہ کیا انہوں نے کہا اے بادشاہ یہ اس  وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتی جب تک دریا میں سے ایک انسان کے مشابہ کوئی چیز نہ پائی جائے اور اس کی لعاب لیکر اس کے برص والے مقامات پر ملی جائے پھر یہ ٹھیک ہوجائے گی۔ اور یہ بھی اس وقت ہوگا جب فلاں دن اور فلاں مہینہ ہو اور سورج خوب روشن ہو، جب وہی دن آگیا تو فرعون نے دریا کے کنارے پر محفل سجائی اس کے ساتھ اس کی زوجہ آسیہ بنت مزاحم بھی تھی، فرعون کی بیٹی بھی اپنی لونڈیوں کے ساتھ دریا کے کنارے پر جا کر بیٹھ گئی۔ دریائے نیل سے ایک نہر فرعون کے محلات کی طرف آئی ہوئی تھی، اس میں فرعون کی بیٹی اور اس کی لونڈیاں نہانے لگیں، انہوں نے دیکھا ایک تابوت دریا کی موجوں میں ہچکولے کھا رہا ہے، جو ایک درخت کے ساتھ آکر رکا ہے۔ فرعون نے حکم دیا کہ جلدی سے وہ تابوت میرے پاس لایا جائے کشتی والے لوگوں نے جلدی سے وہ تابوت فرعون کے پاس پیش کردیا۔

انہوں نے کوشش کی کہ اس کو کھولیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے، پھر توڑنا چاہا لیکن توڑنے میں بھی کامیاب نہ ہوئے، فرعون کی زوجہ آسیہ کو اس تابوت کے اندر ایک نور چمکتا ہوا نظر آیا جو دوسروں کو دکھائی نہ دیا۔ جب آسیہ نے تابوت کو کھولنا چاہا تو کھول لیا جس میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا جس کی آنکھوں کے درمیان ایک نور چمک رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں اس بچے کی محبت ڈال دی فرعون کی بیٹی نے اس بچے کا لعاب لے کر جب اپنے برص والے مقامات پر لگایا تو وہ اسی وقت ٹھیک ہوگئی۔ اس نے بچے کو سینے سے لگایا فرعون کو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ وہی بچہ نہ ہو جس سے ہم بچنا چاہتے ہیں۔ تمہارے ڈر کی وجہ سے اسے دریا میں پھینک دیا گیا ہوگا۔ فرعون نےیہ سن کر بچے کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، لیکن فرعون کی زوجہ آسیہ نے بچے کی بخشش طلب کی اور اسے اپنا بیٹا بنالیا۔ اس طرح یہ پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا جس میں موسیٰ علیہ السلام کی لعاب کی خیر و برکت کا مظاہرہ بھی کرالیا گیا آپ کو قتل ہونے سے بچا کر رب تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھا دی کہ جس بچے کو ختم کرنے کی غرض سے تم ہزاروں بچے ذبح کرادیے اسے میں نے تمہارے پاس پہنچادیا ہے لیکن تم اسے نہ ذبح کر سکے اور نہ ہی کرسکو گے۔

فرعون کی زوجہ بہت نیک عورت تھی، انبیائے کرام کی نسل سے تھی، غریبوں اور مسکینوں پر رحم کرتی تھی، اس نے فرعون کو کہا کہ یہ بچہ پتہ نہیں کس سر زمین سے آیا ہے تمہارے لیے خطرہ تو اسی ملک کا بچہ ہوگا، یہ بچہ کتنا پیارا اور خوبصورت ہے۔ یہ تو بچہ بنانے کے قابل ہے۔ اسے قتل نہیں کرنا ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے اس لیے ہم اسے اپنا بچہ بنالیں گے۔ آسیہ کی یہ بات فرعون اور اس کی قوم کے سر کردہ لوگوں نے تسلیم کرلی۔ رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو قتل ہونے سے بچالیا، رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِئِیْنَ o وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَ لَا تَقْتُلُوْهُ عَسٰٓى اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ  (پ ۲۰ سورت القصص ۸۔۹)

تو اسے اٹھالیا فرعون کے گھر والوں نے کہ وہ ان کا دشمن اور ان پر غم ہو، بیشک فرعون اور ان کے لشکر خطا کار تھے اور فرعون کی زوجہ نے کہا: یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شائد یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ بے خبر تھے۔

یعنی فرعون اور اس کے وزیر ھامان اور ان کے دوسرے سر کردہ لوگوں کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ یہی وہ بچہ ہے جس نے بڑے ہوکر ہماری بادشاہی کو تباہ کرنا ہے تو وہ اس بچے کو نہ اٹھاتے اور اگر اٹھا بھی لیا تھا تو قتل ضرور کرتے لیکن قدرت باری کا مقابلہ ممکن نہیں۔

وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰى عَیْنِیْ (پ ۱۶ سورت طہٰ ۳۹)

اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے محبت ڈالی اور اس لیے کہ تو میری نگاہوں کے سامنے تیار ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں محبوب بنایا اور مخلوق کا محبوب کردیا اور جس کو اللہ تعالیٰ اپنی محبوبیت سے نوازتا ہے، لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں میں ایسی ملاحت، خوبصورتی اور نورانیت رکھی گئی تھی کہ جو بھی آپ کو دیکھتا وہی آپ سے محبت کرنے لگتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا محبوب بنالیا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آسمان و زمین والے آپ سے محبت نہ کرتے۔ (از کبیر، روح المعانی، خزائن العرفان)

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور بہن کی بے قراری:

وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًاط اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (پ ۲۰ سورۃ القصص ۱۰۔ ۱۱)

اور صبح کو موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا دل بے صبر ہوگیا ضرور قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم ڈھارس نہ بندھاتے اس کے دل کو کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے اور اس کی ماں نے اس کی بہن کو کہا اس کے پیچھے چلی جاؤ تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان کو خبر نہ تھی۔

’’فارغا‘‘ کا ایک معنی یہ ہے۔

’’فراغ الفواد ھو الخوف والاشفاق‘‘ کہ دل کو خوف اور ڈر لاحق ہونا۔

یعنی آپ کی والدہ کو جب یہ خبر ملی کہ بچہ فرعون کے ہاتھ آگیا تو آپ کو بہت زیادہ خوف لاحق ہوا کہ وہ کہیں قتل ہی نہ کردیں۔ دوسرا معنی ہے خالی ہونا۔ یعنی آپ کا دل اور تمام غموں سے فارغ ہوگیا صرف موسیٰ علیہ السلام کا غم دامن گیر ہوا۔ اس معنی کے لحاظ سے ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کو جب یہ خبر ملی کہ فرعون کے ہاتھ بچے کا تابوت آگیا ہے تو آپ کا دل عقل سے خالی ہوگیا، ہوش اڑ گئے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں پھر یہ القاء کیا کہ فرعون کی بیوی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا بیٹا بنالیا ہے۔ تو آپ کے دل کو تسلی ہوئی اگر اللہ تعالیٰ آپ کے دل کو ڈھارس نہ بندھاتا تو ہوسکتا ہے کہ آپ دریا میں پھینکتے وقت واویلا شروع کر دیتیں۔ ہائے میرے بچے! ہائے میرے بچے! کی پکار سے لوگ خبردار ہوجاتے۔ یا آپ کو جب یہ خبر ملی کہ فرعون کی زوجہ آسیہ بچے پر مہربان ہوگئی اس وقت آپ خوشی سے ظاہر کر دیتیں کہ میرے بچے کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہر کرنے سے روکے رکھا۔

موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام ’’مریم‘‘ تھا۔ زیادہ مشہور یہی نام ہے اگرچہ ’’کلثوم‘‘ اور ’’کلثمہ‘‘ بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپ کی والدہ نے مریم کو کہا کہ جاؤ دیکھو تابوت کدھر گیا۔ کیا واقعی فرعون کے ہاتھ آگیا ہے؟ انہوں نے بچے سے کیا سلوک کیا؟ مریم دور دور سے دیکھتی رہی تاکہ انہیں پتہ نہ چل سکے۔

تنبیہ:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ’’مریم‘‘ تھا اور ’’مریم‘‘ کے باپ کا نام ’’عمران‘‘ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی سگی بہن کا نام بھی ’’مریم‘‘ ہے اور آپ کے باپ کا نام بھی ’’عمران‘‘ ہے۔ بعض حضرات نے وہم کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن تھی۔ یہ غلط ہے ان دونوں انبیائے کرام کے درمیان زمانے کے اعتبار سے بہت بڑا فاصلہ ہے۔

موسی علیہ السلام کی پرورش آپ کی ماں کے ذمہ:

وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ o فَرَدَدْنٰهُ اِلٰٓى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ o

اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں، تو بولی: کیا میں تمہیں بتادوں ایسے گھر والے کہ تمہارے اس بچہ کو پال دیں؟ اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں۔ تو ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف پھیرا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو، اور غم نہ کھائے۔ اور جان لے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طبیعت میں اپنی ماں کے دودھ کے بغیر تمام دودھ پلانے والی عورتوں سے نفرت پیدا کردی تھی۔ فرعون نے بچے کی پرورش کے لیے دایہ بلانے کا حکم دیا۔ جو دایہ بھی آتی آپ اس کا دودھ نہ پیتے۔ لیکن بھوک کی وجہ سے بے قرار ہورہے تھے۔ فرعون بھی اپنی زوجہ آسیہ کی وجہ سے بچے کی حالت سے فکر مند تھا۔ بچے کو گود میں لے کر تسلیاں دے رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ کاش کوئی ایسی دایہ مل جائے جس کا دودھ بچہ پینا شروع کردے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپ کی بہن نے کہا میں تمہیں ایک گھر والوں کا پتہ بتاتی ہوں جو اس بچے کی تربیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہونے دیں گے جو اس کی پرورش کی ضمانت دیں گے، کسی قسم کی خیانت کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ خلوص سے سب کام کریں گے، کوئی نقص لازم نہیں آنے دیں گے۔

’’وھم لہ ناصحون‘‘ اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے یہ کہا کہ وہ اس کے خیر خواہ ہیں۔ تو ھامان نے کہا کہ یہ اس بچے کے خاندان کو جانتی ہے اسے پکڑ لو تو خود بچے کے گھرانے کا پتہ چل جائے گا۔ تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام کی بہن نے کہا: میرا مطلب یہ ہے کہ اس گھرانے کے لوگ بادشاہ کے خیر خواہ ہیں۔ اس بچے کے خیر خواہ میں نے نہیں کہا۔ چونکہ وہ خاندان نبوت کی لڑکی تھی اس کی ذہانت اسی قابل تھی کہ اس نے نہایت حسین جو اب دے کر اپنے آپ کو اور اپنے بھائی کو بچالیا۔ اس کے اس جواب کو سن کر فرعون نے کہا اچھا تم اس عورت کو لے آؤ جس کے متعلق تم کہہ رہی ہو۔ تو وہ اپنی ماں کے پاس آئیں اور انہیں لے گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ہاتھوں میں تھے بھوک اور پیاس کی وجہ سے بے قرار تھے وہ آپ کو تسلیاں دے رہا تھا، جبھی آپ کی والدہ پہنچیں تو ماں کی خوشبو سنونگھ کر فوراً ماں کی طرف لپکے اور دودھ پینا شروع کردیا۔ فرعون نے بڑے تعجب سے پوچھا تم کون عورت ہو؟ کہ اس بچے نے تمہارا دودھ پسند کیا حالانکہ کتنی ہی دایہ ہم نے طلب کیں کسی کا دودھ اس نے نہیں پیا تو آپ کی والدہ نے جواب دیا:

’’انی امراۃ طیبۃ الریح طیبۃ اللبن لا اوتی بصبی الا قبلنی‘‘

کہ بےشک میں ایسی عورت ہوں کہ مجھ سے خوشبو آتی ہے یعنی میں اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھتی ہوں میرا لباس صاف ستھرا ہوتا ہے میں اچھی قسم کی خوشبو استعمال کرتی ہوں۔ اور قدرتی خوشبو بھی میرے جسم سے آتی ہے میرا دودھ بھی پاکیزہ، اچھا، خوش ذائقہ اور خوشبودار ہے آج تک میں نے جس بچے کو بھی دودھ پلایا ہے اس نے ضرور میرا دودھ پیا ہے۔

فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی والدہ کے سپرد کردیا اور ان کا خرچ بھی مقرر کردیا۔ رب تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایک وعدہ ڈالا تھا کہ تم اس بچے کو دریا میں پھینک دو میں تمہارے پاس اسے واپس لوٹادوں گا۔ اس وعدہ کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا تاکہ آپ کی والدہ کو یقین ہوجائے کہ جب یہ وعدہ پورا ہو گیا ہے تو یہ بچہ رسول بھی ضرور بنے گا۔ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت سے بے خبر ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کی قدرت کے مقابل تمام تدبیریں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ (از کبیر و روح المعانی)

موسیٰ علیہ السلام کا قبطی کو گھونسا مارنا:

وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖ ج فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖ لا فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ١ؕ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ o قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗط اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ (پ ۲۰ سورت القصص ۱۵۔ ا۷)

وہ شہر میں داخل ہوئے اس وقت جب بے خبر سو رہے تھے اس کے باشندے، پس آپ نے پایا وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے یہ ایک ان کی جماعت سے تھا اور یہ دوسرا ان کے دشمنوں سے، پس مدد کے لیے پکارا آپ کو اس نے جو آپ کی جماعت سے تھا، اس کے مقابلہ میں جو آپ کے دشمن گروہ سے تعلق رکھتا تھا، توسینہ میں گھونسا مارا موسیٰ علیہ السلام نے اس کو اور اس کا کام تمام کردیا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کام شیطان کی طرف سے ہوا، بے شک وہ کھلا دشمن بہکا دینے والا ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے عرض کی: اے میرے رب میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو مجھے بخش دے تو رب تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ عرض کی: اے میرے رب جیسا تو نے مجھ پر احسان کیا تو اب ہر گز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا۔

موسیٰ علیہ السلام کے پوشیدہ طور پر شہر میں داخل ہونے کی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں، تاہم زیادہ صحیح وجہ یہ معلوم ہوتی ہےکہ موسیٰ علیہ السلام کو روزِ اول سے ہی اپنی والدہ کے پاس رہنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع مل گیا تھا۔ ساری صورت حال سے آپ اچھی طرح آگاہ ہوگئے۔ نیز آپ کو اپنے جلیل القدر آباء و اجداد کے منصب نبوت پر آگاہی ہوچکی تھی۔ آپ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ فرعون خدا بنا بیٹھا ہے اور لوگوں سے اپنی پرستش کراتا ہے تو آپ کا موحد ذہن اس شرک صریح کو زیادہ عرصہ گوارا نہ کرسکا اور آپ کے پُر جلال مزاج نے فرعون کو اس ناشائستہ حرکت پر ٹوکا۔ اور آپ نے فرعون اور فرعنیوں کی گمراہی کا رد شروع کردیا۔ بنی اسرائیل آپ کی بات سنتے اور آپ کی اتباع کرتے، آہستہ آہستہ اس کا چرچا ہوگیا۔ فرعون کو بھی براہ راست خدائی دعوی سے ٹوک چکے تھے، اس لیے قطع تعلق تک نوبت جا پہنچی آپ کو مجرم اور باغی سمجھا جانے لگا، چنانچہ اس کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے روپوش ہوگئے اور  اگر کسی ضروری کام کے لیے آپ کو شہر میں آنا پڑتا تو آپ ایسے وقت شہر میں آتے کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو یہ واقعہ بھی اس وقت پیش آیا جب آپ ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ لوگ آرام کر رہے تھے۔

چنانچہ علامہ قرطبّی اور دیگر محققین نے اسی قول کو ترجیح دی۔

قال ابن اسحاق وکان فی ھذا الوقت قد اظھر خلاف فرعون وعاب علیھم عبادۃ فرعون والاصنام فدخل مدینۃ فرعون یوما علی حین غفلۃ من اھلھا

اور اس سے پہلے علامہ قرطبّی لکھتے ہیں:

فکان لا یدخل مدینۃ فرعون الا خائفا مستخفیا (تفسیر قرطبی)

آپ کے شہر میں خوف سے چھپ کر داخل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ابن اسحاق نے کہا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ نے فرعون کے ساتھ اختلاف کو ظاہر فرما دیا اور فرعونیوں کی بتوں اور فرعون کی عبادت کی مذمت کی تو ان کی طرف سے شدید رد عمل ہوا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے پوشیدہ رہنے کی راہ اختیار کی، ان دنوں میں ہی آپ شہر میں پوشیدہ طور پر اس وقت داخل ہوئے جب کہ وہ لوگ غفلت میں تھے۔

جب آپ شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں دست و گریبان ہیں ایک اسرائیلی اور دوسرا قبطی، اسرائیلی نے آپ کو مدد کے لیے پکارا۔ آپ آگے بڑھے کہ قطبی کو دست درازی سے منع کریں جب اس نے بات نہ مانی تو آپ نے ایک مُکَّا رسید کیا، اسے قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن وہ مکا جان لیوا ثابت ہوا، اور اس کا قصہ تمام ہوگیا۔

حضرت قتادہ نے ان دونوں کے لڑنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ قبطی، اسرائیلی کو لکڑیوں کا ایک بھاری گٹھا اٹھانے کا حکم دے رہا تھا اس نے اٹھانے سے انکار کردیا، چنانچہ اس قبطی نے حاکم قوم کا فرد ہوتے ہوئے اسے زدو کوب شروع کی، اتنے میں آپ تشریف لائے اور اسرائیلی نے آپ سے فریاد کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی فریاد رسی کے لیے محض اس لیے نہیں گئے کہ فریاد کرنے والا اسرائیلی تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر مظلوم کی مدد کرنا ہر دین میں فرض ہے۔

’’وانما اغاثہ لأن نصر المظلوم دین فی الملل کلھا علی الامم وفرض فی جمیع الشرائع‘‘ (تفسیر قرطبی ماخوذ از ضیاء القرآن)

شیطان کی طرف قتل کو منسوب کرنے کی وجہ:

اللہ تعالیٰ نے کافروں کو قتل کرنا مباح کر رکھا ہے لیکن ایک وقت تک ان کے قتل کو موخر کیا گیا تھا کچھ عرصہ بعد قتل کرنا مستحب ہوتا، لیکن وقت سے پہلے قتل کرنے سے مستحب کو ترک کرنا لازم آگیا اس وجہ سے آپ نے اس فعل کو شیطان کی طرف منسوب کردیا، کہ میرا اقدام، ترک مستحب پر شیطان کے عمل سے ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کا اشارہ مقتول کے عمل کی طرف تھا اپنے عمل کی طرف تھا ہی نہیں آپ کا مطلب یہ تھا۔

’’عمل ھذا المقتول من عمل الشیطان المراد منہ بیان کونہ مخالفا للہ تعالیٰ مستحقا للقتل‘‘

یہ شخص جو قتل ہوگیا ہے اس کے کام ہی شیطانی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مخالف تھا اس لیے یہ قتل کا مستحق تھا

تیسری وجہ یہ تھی کہ آپ نے عمل کا معنی لشکر اور گروہ لیا۔

’’یعنی انہ من جند الشیطان و حزبہ یقال فلان من عمل الشیطان ای من احزابہ‘‘

آپ کے ارشاد کا مقصد یہ تھا کہ یہ قتل ہونے والا شخص شیطانی لشکر اور شیطانی گروہ سے ہے۔

عام طور پر عربی محاورہ میں فلان من عمل الشیطان کہا جاتا ہے جس کا معنی یہ لیا جاتا ہے کہ وہ شخص شیطانی گروہ سے ہے۔

رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی کہنے کا ایک مطلب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے اللہ جو مستحب کام مجھ سے چھوٹ گیا کہ میں نے اسے جلدی قتل کردیا اگرچہ حق یہ تھا کہ تاخیر کی جاتی اس کی وجہ سے میں نے اپنی جان پر زیادتی کی ہے اور تو اس ترک مستحب کو بھی معاف فرما۔

دوسرا مطلب یہ ہے۔

’’رب انی ظلمت نفسی حیث قتلت ھذا الملعون فان فرعون لو عرف ذالک لقتلنی بہ فاغفرلی ای فاسترہ علی ولا توصل خبرہ الی فرعون فغفرلہ ای سترہ عن الوصول الی فرعون‘‘

اے میرے رب میں اس ملعون کو قتل کر کے اپنی جان کے لیے وبال بنا لیا ہے کیونکہ اگر فرعون کو یہ پتہ چل گیا تو وہ مجھے قتل کردے گا اس لیے اے اللہ میری پردہ پوشی فرما کہ یہ خبر فرعون تک نہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرعون تک اس خبر کو پہنچنے سے مخفی رکھا۔ (تفسیر کبیر)

قتل کا راز ظاہر ہونا:

فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآىِٕفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗ قَالَ لَهٗ مُوْسٰٓى اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ o فَلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا لا قَالَ یٰمُوْسٰٓى اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ  اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ (پ ۲۰ سوت القصص ۱۸ ۔ ۱۹)

تو صبح کی اس شہر میں ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے؟ جبھی دیکھا کہ وہ جس نے کل ان سے مدد چاہی تھی فریاد کر رہا ہے موسیٰ علیہ السلام نے اس سے فرمایا بے شک تو کھلا گمراہ ہے تو جب موسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ اس پر گرفت کرے جو ان دونوں کا دشمن ہے وہ بولا اے موسیٰ علیہ السلام کیا تم مجھے ایسا ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا تم تو یہی چاہتے ہو کہ زمین میں سخت گیر بنو اور اصلاح نہیں کرنا چاہتے ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ فرعون کی قوم کے لوگوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ کسی بنی اسرائیل نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے اس پر فرعون نے کہا کہ قاتل اور گواہوں کو تلاش کرو، فرعونی گشت کرتے پھرتے تھے اور انہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا تھا۔ دوسرے روز جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ وہی بنی اسرائیلی جس نے ایک روز پہلے ان سے مدد چاہی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑ رہا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ان سے فریاد کرنے لگا تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بیشک تو کھلا گمراہ ہے یعنی ہر روز لوگوں سے لڑتا ہی رہتا ہے، اپنے آپ کو بھی مصیبت اور پریشانی میں ڈالتا ہے اور اپنے مدد گاروں کوبھی۔ اور تو احتیاط کیوں نہیں کرتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے خوب رعب اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر ارشاد فرمایا۔

پھر موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم بھی آگیا کہ فرعونی بڑے ظالم ہیں لہذا اس کی امداد کرنی ہی چاہیے جب آپ آگے بڑھے کہ اپنے اور اس بنی اسرائیلی کے دشمن کی گرفت کریں تو اس بنی اسرائیلی نے غلط فہمی میں خوف کرتے ہوئے کہ آج شائد میرا کام تمام کرنا چاہتے ہیں کہا: کہ اے موسیٰ علیہ السلام آج تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو جیسے کل ایک شخص کو تم نے قتل کردیا تھا؟ اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ راز کھل گیا کہ کل فرعونی کو قتل موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا ہے۔ جب فرعون کو یہ خبر ملی تو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا حکم نافذ کردیا لوگ آپ کو ڈھونڈنے لگے۔ (خزائن العرفان)

ایک مخبر نے موسیٰ علیہ السلام کو بتادیا:

وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى قَالَ یٰمُوْسٰٓى اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ (پ ۲۰ سورت القصص ۲۰)

اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) بے شک دربار والے (فرعونی درباری) آپ کے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں تو نکل جائیے میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔

موسیٰ علیہ السلام کو خبر دینے والا ..... کہ وہ لوگ تمہارے قتل کا  مشورہ کر رہے ہیں اور فرعون نے تمہیں قتل کرنے کا فیصلہ بھی کر دیا ہے ..... شخص آلِ فرعون سے تھا، جو مومن تھا لیکن ایمان کو چھپاتا تھا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں:

’’کون ھذا الرجل الجائی مومن من ال فرعون ھو المشھور‘‘ (روح المعانی)

موسیٰ علیہ السلام کا ’’مَدْیَن‘‘ کی طرف ہجرت کرنا:

فَخَرَجَ مِنْهَا خَآىِٕفًا یَّتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ o وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ (پ ۲۰ سورت القصص ۲۱ ۔ ۲۲)

تو اس شہر سے نکلے ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے عرض کی اے میرے رب مجھے ستمگاروں (ظالموں) سے بچالے اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے کہا: قریب ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ بتائے۔

’’مدین‘‘ سے مراد وہ شہر ہے جہاں حضرت شعیب علیہ السلام تشریف فرما تھے۔ اس شہر کو مدین بن ابراہیم کی طرف منسوب کیا گیا تھا۔ مصر اور مدین میں آٹھ دنوں کی مسافت تھی اس شہر پر فرعون کی حکمرانی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو  اسی شہر کی جانب جانے کی ہدایت دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہ تو یہ شہر اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی اس کا راستہ جانتے تھے۔ کوئی سواری پاس نہیں تھی راستے کا کوئی خرچ اپنے پاس نہیں تھا۔ صرف درختوں کے پتوں پر گزر کر کے آپ نے راستہ کی مسافت کو طے کیا۔ راستہ دکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی معاونت کے لیے جبرائیل امین علیہ السلام کو مقرر فرمایا۔ فرعونی لوگ آپ کو تلاش کرتے رہے لیکن آپ کو تلاش نہ کرسکے، کیونکہ مدین کو جانے والے تین راستے تھے آپ نے درمیانی راہ کو اختیار کیا اور وہ دوسرے راستوں پر آپ کو تلاش کرتے رہے۔ جب رب تعالیٰ آپ کی حفاظت کر رہا تھا تو وہ آپ کو تلاش کر بھی کیسے سکتے تھے۔؟ (ماخوذ از روح المعانی)

موسیٰ علیہ السلام مدین کے کنویں پر:

وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ  وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ ج قَالَ مَا خَطْبُكُمَا؟ قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ o فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ o (پ ۲۰ سورۃ القصص ۲۳ ۔ ۲۴)

اور آپ جب مدین کے پانی پر آئے، وہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور  ان سے اس طرف دو عورتیں دیکھیں کہ اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم دونوں کا کیا حال ہے؟ وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتیں جب  تک سب چرواہے پلا کر پھیر نہ  لے جائیں۔  اور  ہمارے باپ بوڑھے ہیں۔ تو  موسیٰ (علیہ السلام) نے ان دونوں کو پانی پلا دیا۔ پھر سایہ کی طرف پھرا، عرض کی: اے میرے رب میں اس کھانے کا جو تو میرے لیے اتارے محتاج ہوں۔

جب آپ مدین کے ایک کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ کثیر  مقدار میں کنویں پر جمع ہیں جو اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں، کوئی اونٹوں کو پانی پلا رہا ہے، کوئی گائے بھینس کو  اور کوئی بھیڑ بکریوں کو، لیکن دیکھا  کہ دو عورتیں ایک طرف اپنے جانوروں کو  روک کر کھڑی ہیں، وہ  یہ نہیں چاہتیں کہ مزاحمت کر کے آگے بڑھیں، ان کے نزدیک لوگوں سے پانی حاصل کرنے میں مزاحمت کرنا، جہاں بری بات تھی وہاں عورتوں کا مردوں سے آزاد نہ  میل جول اور دھکا بازی  حرام تھی۔ وہ اپنی کمزوری کی وجہ  سے بھی دور کھڑی تھیں کہ کنویں سے پانی نکالنا زور  آور  مردوں کا کام تھا۔ اس پر  استعمال ہونے والے ڈول کو  دس آدمی مل کر نکالتے تھے۔ اور  کنویں کے منہ پر ایک پتھر رکھ دیا  جاتا تھا اسے ڈھکنے کے لیے اور  ہٹانے کے لیے بھی دس آدمی مل کر ہٹاتے، نیز وہ  یہ بھی نہ  چاہتی تھیں کہ ان کے جانور  دوسرے لوگوں کے جانوروں سے مل جل جائیں  کہ انہیں علیحدہ کرنے  میں دشواری ہو۔ ان وجوہ کے پیش نظر وہ اپنے جانوروں کو  علیحدہ ایک  طرف روک کر کھڑی تھیں۔ لوگوں کے فارغ ہو  کر چلے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے ان دونوں عورتوں سے پوچھا کہ تم ایک طرف اپنے  جانوروں کو روک کر کیوں کھڑی ہو؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں ہم خود پانی نکال نہیں سکتیں اس لیے ایک  طرف کھڑی رہتی ہیں کہ لوگ اپنے جانوروں کو  پانی پلا کر چلے جائیں تو جو پانی حوض میں بچ جائے وہ ہم اپنے جانوروں کو  پلا لیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کو ان پر رحم  کرنے کے لیے کہا  لیکن  انہوں نے کہا کہ  اگر  تم اتنے ہمدرد ہو  تو خود ہی پلا دو۔ یہ  کہتے ہوئے انہوں نے مل کر بھاری  پتھر کنویں کے منہ پر  رکھ دیا آپ نے اکیلے ہی اس  پتھر کو  ہٹا دیا اور دس آدمیوں کے نکالنے والے ڈول کو اکیلے ہی نکال لیا۔

’’ودعا بالبر کۃ ثم قرب غنمھما فشربت حتی رویت‘‘ (تفسیر کبیر)

اور برکت کی دعا کی اور ان کی بکریوں کو پانی کے قریب کیا۔ وہ ایک ہی ڈول سے پانی پی کر سیراب ہوگئیں۔

پھر آپ ایک  طرف سائے میں بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی اے اللہ مجھے کھانا عطا فرما دے؛ کیونکہ آپ سات  دنوں سے صرف درختوں کے پتے ہی کھا رہے تھے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، روح المعانی)

سبحان اللہ! نبی کی شان عظمت کا اندازہ کیجیے! کہ  سات دنوں سے بھوکے لیکن  دس آدمیوں سے بڑھ کر  زور ابھی موجود ہے،  سفر کی تھکان بھی اور کنواں سخت  تپتی دھوپ میں، لیکن کوئی چیز بھی رکاوٹ نہ بن سکی، ہمدردی کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔

شعیب علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کو طلب کرنا:

وہ دونوں لڑکیاں شعیب علیہ  السلام کی بیٹیاں تھیں جب عام معمول سے ہٹ کر آج وہ جلدی اپنے گھر لوٹ کر  آگئیں تو ان سے ان کے باپ نے پوچھا کہ آج تم اتنی جلدی کیسے آگئی ہو؟ تو انہوں نے بتایا کہ آج کنویں پر ایک نیک اور بہادر شخص تھا جس نے ہماری بکریوں کو پانی پلادیا اس لیے ہم جلدی واپس آگئی ہیں کہ ہمیں تمام لوگوں کے فارغ ہونے اور  باقی بچ جانے والے پانی کا انتظار نہیں کرنا  پڑا۔

شعیب علیہ السلام نے کہا کہ جاؤ اس  شخص کو بلا کر لاؤ۔ یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو  علم  عطا فر مادیا ہوگا کہ آنے والا شخص موسیٰ علیہ السلام ہے وہ بھی میرا نبی ہے جس کو  کچھ عرصہ بعد میں نے اعلان نبوت کا حکم دینا ہے اسے تم اپنے پاس رکھو۔

فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَلا قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (پ ۲۰ سورت القصص ۲۵)

تو ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی، بولی میرا باپ تمہیں بلاتا ہے کہ تمہیں بدلہ دے اس کا جو تم نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پاس آیا اور اسے باتیں کر سنائیں اس نے کہا ڈرئیے نہیں آپ بچ گئے ظالموں سے۔

اگرچہ اس  عورت نے تو یہ  کہا تھا کہ آپ کو میرے باپ بلا رہے ہیں تاکہ تمہیں اجرت عطا کریں جو تم نے ہمارے  جانوروں کو پانی پلایا ہے

’’وان قالت ذالک فلعل موسی علیہ السلام ما ذھب الیھم طلبا للا جرۃ بل للتبرک برؤیۃ ذالک الشیخ‘‘

لیکن موسیٰ علیہ السلام اجرت حاصل کرنے کی غرض سے نہیں گئے تھے بلکہ صرف شعیب علیہ السلام کی زیارت کرنے کی غرض سے گئے تھے۔

آپ نے اس بات کو نا پسند کیا تھا کہ اجرت لینے کے لیے میں جاؤں، یہی وجہ ہے کہ جب آپ شعیب علیہ السلام کے گھر پہنچے تو آپ نے موسیٰ علیہ  السلام کو کھانا  پیش  کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا

اعوذ باللہ اللہ کی پناہ! شعیب علیہ  السلام نے پوچھا  تم نے یہ  کیوں کہا؟ تو آپ نے جواب دیا:

’’انا اھل بیت لا نبیع دیننا بدنیانا  ولا نأخذ علی المعروف ثمنا‘‘

بے  شک ہمارے گھرانے کے لوگ اپنے دین کو دنیا کے بدلے نہیں بیچتے،  اور کسی بھلائی کی کوئی قیمت نہیں لیا کرتے ہیں۔ شعیب علیہ السلام نے کہا:

’’ولکن عادتی و عادۃ آبائی اطعام الضیف فجلس  موسیٰ علیہ السلام فاکل‘‘

لیکن وہ میری  اور  میرے آباؤ  اجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ آپ کے اس ارشاد پر موسیٰ علیہ  السلام بیٹھے اور کھانا  کھایا۔

لیکن پھر بھی بار بار خیال یہی آ رہا  تھا کہ کہیں میری نیکی کے عمل کی یہ اجرت نہ ہو، جس سے میرے عمل کے خلوص میں فرق آئے۔ بعد ازاں شعیب علیہ السلام نے پوچھا تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ آپ علیہ السلام نے بتایا میں موسیٰ بن عمران بن قاھث بن لاوی  بن یعقوب ہوں۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا۔  بچوں کا قتل کیا جانا  آپ  کو  دریا  میں ڈال  دینا  اور  دایہ کا طلب کرنا۔ آپ کا  اپنی والدہ کے پاس پرورش پانا پھر قبطی کا  ان کے ہاتھوں قتل ہونا اور فرعونیوں کا آپ کو  تلاش کرنا۔ تمام واقعہ سننے کے بعد شعیب علیہ السلام نے فرمایا:

لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ

خوف نہ کرو ظالموں سے تمہیں نجات  مل سکتی ہے۔

یعنی ہمارے علاقہ  پر فرعون اور اس کے لشکر کا ان شاء اللہ تسلط نہیں چلے  گا یہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عظیم  قدرت  کا ایک کرشمہ ہے کہ فرعون اپنے لاکھوں لشکریوں کے ہوتے ہوئے  موسیٰ علیہ السلام کو  تلاش کرنے  کے با وجود صرف آٹھ دن کی مسافت پر  تلاش نہ  کرسکا۔

شعیب علیہ السلام کو بیٹی کا مشورہ:

قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ

ان دونوں میں سے ایک نے کہا  اے میرے باپ  ان کو نوکر رکھ لو بے  شک  بہتر نوکر وہ  ہے جو  طاقتور  اور امانت دار ہو۔

چونکہ شعیب  کی بیٹی موسیٰ علیہ  السلام کی بہادری کو دیکھ  چکی تھی  کہ دس آدمیوں کے نکالنے والے ڈول کو آپ نے اکیلے ہی نکال لیا اور  بھاری پتھر کو اکیلے ہی کنویں کے منہ  سے ہٹا دیا اور  آپ کے تقوی کو بھی دیکھ چکی تھیں کیونکہ ان سے سوال کرنے  میں آپ کی نگاہیں نیچے تھیں اور اس کے ساتھ چلتے ہوئے بھی یہی کہا کہ تم پیچھے پیچھے چلو۔ میں آگے چلتا ہوں تم مجھے پیچھے سے راہ بتلاتی آنا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اگر میں پیچھے چلا تو میری  نگاہ اس پر پڑے گی۔ خیال رہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف  سے وحی کے ذریعے ہو رہا تھا۔ یہ کہنا کہ شعیب علیہ السلام نے اپنی جوان بیٹی کو اکیلے ہی ایک اجنبی کو بلانے کے لیے بھیج دیا تھا، درست نہیں۔ علامہ رازی فرماتے ہیں:

لعلہ علیہ السلام کان قد  علم بالوحی طھار تھا فکان یعتمد علیھا

شعیب علیہ السلام کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ اپنی بیٹی  کو بھیج کر اس شخص کو بلائیں آپ کی بیٹی پاک دامن، تمام عیوب سے پاک اور با اعتماد ہے اور جس کو بلانے کے لیے جا رہی ہے وہ بھی تو میرا پیارا صاحبِ کمال نبی ہے۔ شعیب ک علیہ  السلام ی بیٹی نے موسیٰ علیہ السلام کے دو کمال  ذکر کیے۔ قوت اور  امانت۔ یعنی آپ قوی (بہادر) اور امین (صاحب تقویٰ) ہیں۔ حالانکہ دو اور وصف جب تک نہ پائے جائیں اس وقت تک  انسان  کامل انسان نہیں ہوتا۔ وہ ہیں فطانت اور زیرک ہونا۔ لیکن یہ  دونوں وصف امانت میں موجود ہیں۔ کیونکہ کامل  امانت انسان میں فطانت اور عقلمندی کے بغیر نہیں پائی جاسکتی۔ (تفسیر کبیر)

سبحان اللہ شعیب  علیہ السلام کی بیٹی  کا انتخاب کیا خوب تھا؟ کہ بہادر ہونا جو کافروں کے ساتھ جنگ بھی کرسکے اور  صاحب تقویٰ عقلمند اور  سمجھ دار ہونا ہی انسان بناتا ہے،

اور  پھر یہ انتخاب بھی مشورہ کی حد تک  تھا۔ عرض باپ سے ہی کیا: کیونکہ آپ  جانتی تھیں کہ ہمارے باپ نے اپنی شریعت کے مطابق کسی شخص کو اپنے پاس رکھ کر اس  سے بطور مہر خدمت لے کر  ہمارا نکاح اس سے کرنا ہے۔

آج کی لڑکیاں اس  سے سبق حاصل کریں جو والدین کی مرضی کے بغیر سبز باغ دکھانے  والے لڑکوں کو پسند کر  کے والدین کو عمر بھر کا روگ لگا کر از خود ہی ان کے پاس چلی جاتی ہیں، لیکن ایسی لڑکیاں سو فیصد نا  کام رہتی ہیں، چند دنوں کے بعد انہیں ذلت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

شعیب علیہ السلام کی موسی علیہ السلام کو  شادی کی پیشکش:

قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰٓى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍج فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ ج وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ o قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ o (پ ۲۰ سورت القصص ۲۷ ۔ ۲۸)

کہا میں چاہتا ہوں کی اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں اس  مہر  پر  کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو، پھر اگر  پورے دس برس کرلو تو تمہاری طرف  سے ہے۔ اور  میں مشقت میں ڈالنا نہیں  چاہتا۔ قریب ہے ان شاء اللہ تم مجھے نیکوں میں پاؤ گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ میرے اورتمہارے درمیان اقرار ہوچکا ہے میں ان دونوں میں جو میعاد پوری کردوں تو مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں۔ ہمارے اس  قول پر اللہ کا ذمہ ہے۔

شعیب علیہ السلام کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے آپ موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے لہذا آپ نے مناسب سمجھا کہ ایک بیٹی کا نکاح اس نیک شخص سے کر دیا جائے۔ آپ علیہ السلام نے ان سے مشورہ لیا کہ اگر تمہارا نکاح ان دو بیٹیوں میں سے ایک سے کردیا جائے تو کیا تم مہر کے بدلے آٹھ سال تک ہماری خدمت کرسکو گے؟ یعنی آٹھ سال تو  تم پر واجب ہوں گے مزید دو سال خدمت کرنا مستحب ہوگا وہ تمہاری مرضی پر  منحصر ہوگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسے قبول کر لیا اور عرض کیا کہ ان دو مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کرلوں مجھے یہاں رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اس طرح دونوں کے درمیان معاہدہ طے ہوجانے کے بعد نکاح ہوگیا اور  موسیٰ علیہ  السلام نے مہر  ادا  کرنے کے لیے آپ کے گھر بحیثیتِ داماد خدمت کرنی شروع کردی۔ شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو بکریاں ہانکنے اور  انہیں درختوں کے پتے جھاڑ کر  کھلانے کے لیے ایک  عصا دیا جو  سا گو ان کے درخت کی لکڑی کا بنا ہوا تھا جو آدم علیہ  السلام ساتھ لائے تھے اور پھر انبیائے کرام سے منتقل ہوتا ہوا حضرت شعیب علیہ السلام تک پہنچا تھا۔ اب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آگیا یہی عصا بعد میں آپ کا معجزہ بن گیا۔ (از مدارک، حاشیہ جلالین ص ۳۲۹)

مدت کی تکمیل کے بعد مصر واپسی:

فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاج قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ o فَلَمَّآ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓى اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo (پ ۲۰ سورت القصص ۲۹ ۔ ۳۰)

پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی میعاد پوری کرلی اور اپنی بی بی کو لے کر چلے، طور کی طرف سےایک آگ دیکھی اپنے گھر والی سے کہا، تم ٹھہرو مجھے طور کی طرف سےایک آگ نظر پڑی ہے شائد میں وہاں سے کچھ خبر لاؤں یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لاؤں کہ تم تاپو۔ پھر جب آگ کے پاس آئے ندا کی گئی، میدان کے دائیں کنارے سے برکت والے مقام میں درخت سے کہ: اے موسیٰ (علیہ السلام) بے شک میں ہی اللہ رب ہوں سارے جہان کا۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے آٹھ سال اور دس سال خدمت کرنے کے متعلق کہا تھا، موسیٰ علیہ السلام نے ان دونوں میں سے کون سی مدت پوری کی؟ اس کے متعلق امام بخاری اور دوسرے کئی حضرات نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بیان کیا ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے کون سی مدت پوری کی تھی تو آپ نے جواب دیا۔

’’قضی اکثر واطیبھما ان رسول اللہ اذا قال فعل‘‘

کہ موسیٰ علیہ السلام نے اکثر مدت یعنی دس سال مکمل خدمت کی تھی (کیونکہ آٹھ سال تو واجب تھے اور اوپر دو سال مستحب تھے جو پاکیزہ اور زیادہ ثواب کا ذریعہ تھے اس لیے آپ نے زیادہ ثواب والی مدت کو بھی یقیناً پورا کیا۔) اور اللہ تعالیٰ کا رسول جو کہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے۔ (روح المعانی)

دس سال جب آپ نے خدمت کے مکمل کر لیے تو آپ نے شعیب علیہ السلام سے مصر جانے کی اجازت طلب کی تاکہ اپنی والدہ اور اپنے بھائی سے ملاقات کریں اور یہ خیال کیا کہ قبطی کے قتل کو بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے اب معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑ چکا ہوگا۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ نے اپنی اہلیہ کو ساتھ لیا ایک سواری اور کچھ بکریاں بھی ساتھ تھیں۔ مختصر سامان سفر ضروریات کے لیے ساتھ لیا اور شام کے بادشاہوں کے خطرہ کے پیش نظر آپ نے عام راستہ کو چھوڑ کر ایک اور صحرائی راستہ اختیار کیا، راستہ بھی بھول گئے۔ آپ کی بکریاں وغیرہ بھی متفرق ہوگئیں۔ پانی وغیرہ بھی پاس نہیں تھا۔ طور کی غربی جانب وادی طوی میں جب آپ پہنچے تو جمعہ کی رات کو جو بہت زیادہ سرد تھی آپ کے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ آپ نے طور کی بائیں جانب راستہ میں آگ دیکھی، تو اپنی زوجہ کو کہا:

تم یہاں ہی ٹھہرو کہ میں وہاں سے آگ کی چنگاری لے آؤں یا وہاں سے آگ سلگا کر لاؤں تا کہ تم آگ تاپ سکو، اور سردی کم محسوس ہو۔

خیال رہے کہ قرآن پاک میں جذوۃ (چنگاری)، قبس (شعلہ) اور شہاب (چمک، شعلہ) کے لفظ استعمال ہیں، یعنی میں چنگاری لے آؤں یا شعلہ لے آؤں، یعنی کوئی ایسی چیز وہاں سے سلگا کر لے آؤں یا وہاں کوئی آدمی موجود ہو تو اس سے یہ راہ معلوم کرلوں۔

آپ علیہ السلام جب آئے تو دیکھا کہ آگ آہستہ آہستہ شعلے مار رہی ہے۔ جب قریب آئے تو آگ نے شدت اختیار کرلی۔ بہت بڑی شعلے مارنے والی آگ نظر آئی۔ عجیب منظر یہ تھا کہ آگ ایک درخت سے نکل رہی تھی آگ جتنی زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح درخت کےپتے بھی زیادہ سبز ہوتے چلے جاتے ہیں، آپ اسی سوچ میں کچھ دیر تک گم رہے کہ آگ کی شدت کہاں اور درخت کے پتوں کا سبز ہونا کہاں؟ کافی دیر سوچنے کے بعد اگرچہ ذہن نے کوئی فیصلہ نہ کیا تاہم خیال کیا کہ آگ سلگا کر لے جاؤں جب آپ ارادہ کرتے ہیں کہ آگ سلگاؤں تو آگ دور ہوجاتی ہے پھر سوچ میں گم ہوجاتے ہیں۔ (از روح المعانی ج ۹ ص ۱۶۵)

تنبیہ:

آگ کی چار قسمیں ہیں:

۱۔      ایک وہ جو کھاتی ہے پیتی نہیں، یہ ہے دنیا کی آگ۔

۲۔     دوسری وہ جو کھاتی بھی ہے اور پیتی بھی ہے دہ ہے معدہ کی آگ۔

۳۔     تیسری وہ جو کھاتی بھی نہیں اور پیتی بھی نہیں یہ وہ آگ ہے جو موسیٰ علیہ السلام نے دیکھی۔

۴۔     چوتھی وہ آگ ہے جو پیتی ہے کھاتی نہیں یہ وہ آگ ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ مبارکہ سے کیا۔

اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَآ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ (پ ۲۳ سورت یٰسین ۸۰)

جس نے تمہارے لیے ہرے درخت سے آگ پیدا کی جبھی تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔

یعنی عرب کے علاقوں میں دو درخت ہوتے ہیں جو وہاں جنگلوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں ایک کا نام ’’مرخ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’عفار‘‘ ہےان کی خاصیت یہ ہے کہ جب ان کی سبز شاخیں کاٹ کر ایک دوسرے پر رگڑی جائیں تو ان سے آگ نکلتی ہے باوجود یکہ وہ اتنے تر ہوتے ہیں کہ ان سے پانی ٹپکتا ہے۔ اس میں رب تعالیٰ کی قدرت کی کتنی عظیم نشانیاں ہیں کہ آگ اور پانی کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔

ایک اور لحاظ پر بھی آگ کی چار قسمیں ہیں۔

۱۔      ایک وہ لوگ جس میں روشنی تو تھی لیکن جلانے کی تاثیر نہیں تھی، یہ وہ آگ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھی تھی۔

۲۔     دوسری وہ جس میں جلانے کی طاقت تو ہوگی لیکن اس میں روشنی نہیں ہوگی۔ یہ جہنم کی آگ ہے۔

۳۔     تیسری وہ آگ ہی جس میں روشنی بھی پائی جاتی ہے اور جلانے کی طاقت بھی اسے حاصل ہے، یہ دنیا کی آگ ہے۔

۴۔     چوتھی قسم یہ ہے کہ اس میں روشنی بھی نہیں اور جلانے کی تاثیر بھی نہیں جو آگ درخت میں رکھی گئی ہے جب ان کی شاخوں کو نہ رگڑیں اس وقت تک ان میں آگ تو ہوتی ہے لیکن ظاہر نہیں ہوتی۔ (از کبیر پ ۱۶ ج ۲۲ ص ۱۵، خزائن العرفان پ ۲۳ ع ۴)

موسیٰ علیہ السلام آگ کے عجیب منظر سے سوچ میں گم تھے کہ آپ کو آواز دی گئی۔

یٰمُوْسٰى  اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى

اے موسیٰ علیہ السلام بے شک میں تیرا رب ہوں تو تو اپنے جوتے اتار ڈال بے شک تو پاک جنگل ’’طویٰ‘‘ میں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنے فضل و کرم سے یہ علم دے دیا کہ آپ نے آواز کو سن کر سمجھ لیا، یقین کر لیا کہ یہ میرے رب کی آواز ہی ہے۔ یہ آپ کا معجزہ ہے رب تعالیٰ کی آواز کسی مکان سے نہیں آرہی تھی، وہ مکان سے پاک ہے اس کی آواز کی کیفیت کو بھی نہیں بیان کیا جاسکتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب درخت سے آسمانوں کی طرف اٹھنے والے نور کو دیکھا اور اس میں فرشتوں کی تسبیحات کو سنا اور آپ کو جب یہ آواز دی گئی تو آپ نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا۔ لبیک میں تیری خدمت میں حاضر ہوں میں تیری آواز تو سن رہا ہوں، تجھے دیکھ نہیں رہا تو کہاں ہے رب تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی۔

’’انا معک وامامک و خلفک و محیط بک واقرب الیک منک‘‘

میں تمہارے پاس ہوں، تمہارے سامنے ہوں، تمہارے پیچھے ہوں، تمہارا احاطہ کیے ہوئے ہوں اور تم سے بھی تمہارے زیادہ قریب ہوں۔

آپ نے تمام وسوسات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا: میں اللہ تعالیٰ کی آواز کو اپنے اوپر سے اور اپنےنیچےسے اور اپنے پیچھے سے اور اپنے دائیں طرف سے اور اپنی بائیں طرف سے ایسے ہی سن رہا ہوں جیسے سامنے سے سن رہا ہوں۔

فعلمت انہ لیس بکلام المخلوقین

مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کلام مخلوق میں سے کسی کا بھی نہیں ہوسکتا۔

فاخلع نعلیک آپ اپنے جوتے اتار دو۔ ایک تو اس کا مشہور و معروف مطلب یہ ہے کہ آپ پاکیزہ جگہ آگئے ہیں جہاں میری تجلیات کا ظہور ہو رہا ہے اور میں تم سے ہم کلام ہوں اس لیے ادب کا تقاضایہ ہے کہ تم اپنے جوتے اتار دو۔ ایک اور وجہ جوتے اتارنے کی یہ بھی تھی۔

’’انما امر بخلعھما لینال قدمیہ برکۃ الوادی وھذا قول الحسن و سعید بن جبیر و مجاھد‘‘

حضرت حسن، سعید بن جبیر اور مجاہد کا قول یہ ہے کہ آپ کو جوتے اتارنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ آپ کے قدموں کو اس سر زمین کی برکت حاصل ہوجائے۔ (کبیر)

اور وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ خواب میں جوتا دیکھنے سے مراد زوجہ اور اولاد لیا جاتا ہے اب معنی یہ ہوگا کہ آپ اپنے دل میں زوجہ اور بچے کا خیال نہ رکھو، ان کی طرف مشغول نہ ہو، بلکہ خالص توجہ میری ذات کبریائی کی طرف ہو۔ اور مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا اور آخرت کو چھوڑ دو گویا کہ آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ کا دل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ کلی طور پر تم اللہ تعالیٰ کی معرفت میں اپنے دل کو مستغرق کردو۔ (کبیر ج ۲۲ ص ۱۷)

رب تعالیٰ کے موسیٰ علیہ السلام کو ارشادات:

وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰى  oاِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ o اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰى  oفَلَا یَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَتَرْدٰى o(پ ۱۶ سورۃ طہٰ ۱۳ ۔ ۱۶)

اور میں نے تجھے پسند کیا اب کان لگا کر سن جو تجھے وحی ہوتی ہے، بے شک میں ہی ہوں اللہ تعالیٰ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ، بے شک قیامت آنے والی ہے، قریب تھا کہ میں اسے سب سے چھپاؤں کہ ہر جان اپنی کوشش کا بدلہ پائے تو ہر گز تجھے اس کے زماننے سے وہ باز نہ رکھے، جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش کے پیچھے چلا پھر تو ہلاک ہوجائے۔

رب تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ علیہ السلام میں نے اپنی رسالت و نبوت کے لیے تمہیں تمام لوگوں اور تمہاری قوم سے چن لیا ہے، اس لیے اب میں تمہیں وحی کرنے لگا ہوں تم کامل توجہ سے سننا۔ رب تعالیٰ کےاس حکم کو سنتے ہی آپ ایک پتھر پر کھڑے ہوگئے اور ایک پتھر سے سہارا لگالیا۔ اپنے دائیں ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اپنی ٹھوڑی کو اپنے سینے سے لگایا اور کامل طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے کی طرف متوجہ ہوگئے۔

فائدہ:

حضرت وھب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

’’ادب الاستماع سکون الجوارح و غض البصر والاصغاء بالسمع و حضور العقل و العزم علی العمل و ذالک ھو الا ستماع لما یحب اللہ تعالیٰ‘‘ (کبیر)

سننے کے آداب یہ ہیں کہ انسان اپنے تمام اعضاء کو حرکت دینے سے باز رکھے نظر نیچے رکھے یعنی ادھر ادھر نہ دیکھے بلکہ کلام کرنے والے کی طرف ہی صرف متوجہ ہو اور مکمل طور پر کان لگا کر سنے اور عقل کو حاضر رکھے اور پھر کام کرنے کا مصمم ارادہ رکھے بس یہی وہ سننا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

فائدہ:

اسی انداز و آداب پر سبق سننے والے طلباء اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کامیاب ہوجاتے ہیں، ورنہ ایک ہی گلاس میں بیٹھے ہوئے ذہین اور زیرک طلباء محروم ہوجاتے ہیں۔ کم ذہن والے برتری لے جاتے ہیں شرارتی قسم کے طلباء استاذ کے ادب سے محروم، چوہدارہٹ کے طلبگار حضرات کی قسمت میں محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی وحدانیت کا ذکر فرمایا کیونکہ اس کی ذات و صفات پر ایمان لانا اصل الاصول (سب اصلوں کی اصل) ہے، پھر اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا، پھر نماز کا حکم دیا کہ یہ میری یاد کا ذریعہ ہے، پھر قیامت کا ذکر فرمایا کیونکہ جسے یہ یقین ہوگا کہ قیامت آنی ہے اور نیکیوں اور برائیوں کا حِساب بھی ہونا ہے، وہی شخص ایمان لائے گا اور عبادت بھی کرے گا اور حرمات سے اجتناب بھی کرے گا، پھر قیامت کو مخفی رکھنے کا ذکر فرمایا اس لیے کہ اگر وقت بتادیا جاتا تو لوگ کہتے ابھی قیامت دور ہے، دوسرے مقام پر قیامت کے قریب ہونے کا ذکر کیا کہ اخروی لازوال زندگی کے مقابل یقیناً قیامت قریب ہی ہے۔

موسی علیہ السلام کو معجزات عطا ہونا:

وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰىo قَالَ هِیَ عَصَایَ ج اَتَوَكَّؤُا عَلَیْهَا وَ اَهُشُّ بِهَا عَلٰى غَنَمِیْ وَ لِیَ فِیْهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰىo قَالَ اَلْقِهَا یٰمُوْسٰىo فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِیَ حَیَّةٌ تَسْعٰىo قَالَ خُذْهَا وَ لَا تَخَفْ سَنُعِیْدُهَا سِیْرَتَهَا الْاُوْلٰىo وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىo  لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ)

اور یہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ علیہ السلام؟ عرض کی: یہ میرا عصا ہے، میں اس پر سارا لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اس میں اور کام ہیں۔ فرمایا: اسے ڈال دے اے موسیٰ علیہ السلام! تو موسیٰ علیہ السلام نے ڈال دیا تو وہ جبھی دوڑتا ہوا سانپ ہوگیا، فرمایا! اسے اٹھالے اور ڈر نہیں، اب ہم اسے پھر پہلی طرح کردیں گے۔ اور اپنے ہاتھ اپنے بازو سے ملا، خوب سفید نکلے بغیر کسی مرض کے۔ ایک اور نشانی کہ ہم تمہیں بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔

وما تلک بیمینک تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ تلک اشارہ ہے عصا کی طرف، اور یمینک سے مراد آپ کا ہاتھ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارشارہ فرمایا دونوں کی طرف تو ہر ایک کو غالب معجزہ اور روشن دلیل بنادیا۔ جمادیت (بے جان جسم) سے مقام کرامت تک پہنچادیا۔ جب رب تعالیٰ کی ایک نظر سے جماد حیوان بن گیا اور کثیف جسم نورانی اور لطیف بن گیا، تو کون سی تعجب والی بات ہے کہ مسلمانوں کے گناہوں کی وجہ سے مردہ دلوں کو، عبادت کی سعادت اور نور معرفت حاصل ہوجائے جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں کو ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اپنی نظر رحمت سے نوازتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے دائیں ہاتھ کی برکت کی وجہ سے جب عصا اژدہا بن گیا اور آپ علیہ السلام کا عظیم معجزہ بن گیا تو کون سا مقام تعجب ہے؟ کہ مومن کا دل معصیت سے نکل کر نور معرفت کی طرف منتقل ہوجائے؟ جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتا ہے۔

قلب المؤمن بین اصبعین من اصابع الرحمن

رب تعالیٰ نے آپ سے پوچھا تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ تاکہ آپ جب جواب دیں گے کہ یہ عصا ہے تو پھر اژدہا بننے پر آپ کو کوئی خوف نہیں ہوگا کہ یہ تو وہی عصا ہے جو ابھی میں نے پھینکا تھا۔ (ازکبیر)

فائدہ:

موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو عام لوگوں کے سامنے ظاہر کردیا گیا کہ رب تعالیٰ نے آپ سے کیا فرمایا اور آپ نے کیا عرض کیا؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جو کلام فرمایا اسے یوں ذکر کیا

’’فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰی‘‘ وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔ اس کی تفصیل نہیں بیان فرمائی کہ

’’والذی ذکرہ مع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کان سرالم یستاھل لہ احد من الخلق‘‘

جو باتیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئیں وہ آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان راز کی باتیں تھیں مخلوق سے کوئی اس کا اہل ہی نہیں تھا کہ اسے بتایا جاتا۔ (کبیر)

موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنے کلام سے مشرف فرمایا تو قیامت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور سلام سے عزت و تکریم بخشے گا رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔

’’سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ‘‘ ان پر سلام ہوگا مہربان رب تعالیٰ کا فرمایا ہوا۔ (کبیر)

موسی علیہ السلام نے سوال کے جواب میں فرمایا ھی عصای یہ میرا عصا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے کلام بھی کر رہے ہیں لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت میں مستغرق ہونے کا مقام حاصل نہ ہوا کیونکہ آپ کو اپنے عصا کا علم ہے کہ یہ میرا عصا ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت و  دوزخ کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کی طرف توجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ  کی معرفت میں مستغرق  ہیں۔

’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى‘‘ آنکھ نہ کسی کی طرف پھری اور نہ حد سے بڑھی۔

آپ انوار تجلیات باری تعالیٰ میں ایسے محو تھے کہ کسی اور  طرف آنکھ پھرتی ہی نہ تھی، بلکہ جب رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کہا گیا ہے ’’امدحنا‘‘ ہماری مدح کیجیے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا: لا احصی ثناء علیک میں تیری تعریف کو شمار نہیں کرسکتا، اس کے بعد آپ رب تعالیٰ کی ثناء اور اپنے آپ کو بھی بھول گئے اور  عرض کیا:

’’انت کما اثنیت علی نفسک‘‘اے اللہ تیری وہی تعریف ہے جو  تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔ (تفسیر کبیر)

نکتہ:

موسیٰ علیہ السلام نے عصا  کو جب  زمین پر  ڈالا  تو وہ سانپ بن گیا، قرآن پاک میں اس کے لیے تین لفظ استعمال  ہوئے ہیں:

’’حیۃ، جآن،  ثعبان‘‘ چھوٹا سانپ ہو یا بڑا، مذکر ہو یا مونث، سب کو حیۃ کہا جاتا  ہے، لیکن ثعبان بہت بڑے جسم والے سانپ کو  کہا جاتا ہے۔ اورجآن باریک  سانپ کو کہتے ہیں۔ تینوں الفاظ کا  ایک ہی سانپ پر  استعمال اس طرح ہے کہ جب آپ علیہ السلام عصا کو پھینکتے تو ابتدائی طور پر وہ باریک سانپ بن جاتا پھر آہستہ آہستہ پھیلتا جاتا اور بڑا اژدہا بن جاتا۔ یا صورت یہ تھی کہ وہ جسم کے لحاظ پر تو بہت بڑا سانپ یعنی اژدہا بن جاتا لیکن دوڑ اور پھرتی میں باریک سانپ کی طرح ہوتا۔ (کبیر)

موسیٰ علیہ السلام کا جواب صرف اتنا کافی تھا کہ یہ  میرا عصا ہے، لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے سلسلہ کلام بڑھاتے ہوئے ازروئے محبت کے بات کو لمبا کیا  اور کہا: میں اس پر سہارا لگاتا ہوں، اس سے پتے جھاڑ کر  اپنی بکریوں کو کھلاتا ہوں اور بھی اس سے میں منافع حاصل کرتا ہوں۔

موسیٰ علیہ السلام کو ایک معجزہ یہ عطا ہوا کہ آپ اپنے عصا کو زمین پر ڈالتے تو وہ  اژدہا بن جاتا ہے اور جب اسے پکڑتے تو وہ پھر اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ  کر  عصا بن جاتا ہے۔ دوسرا معجزہ آپ کو یہ عطا ہوا کہ آپ  اپنے  دائیں ہاتھ  کو بغل کے نیچے بازو سے لگاتے ہیں اور پھر  باہر نکالتے ہیں تو  وہ  سفید چمکدار ہوجاتا جو نظروں پر چھا جاتا حالانکہ آپ  کا رنگ گندم گوں تھا۔

فرعون کو تبلیغ کا حکم:

’’اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى۠‘‘ فرعون کے پاس جاؤ وہ  سرکش بن گیا ہے۔

رب تعالیٰ نے جب آپ  کو رسالت و  نبوت کے منصب پر فائز  کر دیا تو حکم دیا کہ  اے موسیٰ علیہ  السلام فرعون کے پاس جاؤ اسے میری وحدانیت پر ایمان لانے کا حکم دو، وہ دنیا کی نعمتوں کی وجہ سے میرے حقوق کا انکار کر چکا ہے۔ میری ربوبیت کا منکر ہے۔ اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ میں اس  سے غافل ہوں، قسم ہے مجھے  اپنی عزت کی اگر میں نے بندوں کو مہلت نہ دے رکھی ہوتی  تو وہ میری گرفت میں کب کا آچکا ہوتا۔ اور میرے غضب کی وجہ سے زمین و آسمان  پہاڑ دریا وغیرہ سب چیزیں  اس پر غضب میں ہوتیں۔ اب اس  پر میری گرفت کا وقت آچکا ہے۔ تم اسے بتاؤ کہ اللہ ایک ہے اس کے بغیر کوئی معبود نہیں تو اپنے رب ہونے سے توبہ کرلے اگر وہ راہ است پر  آگیا تو بہتر، ورنہ اسے تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ (از روح المعانی)

موسیٰ علیہ السلام کی دعا:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْo وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْo وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْo یَفْقَهُوْا قَوْلِیْo وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْo هٰرُوْنَ اَخِیo اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِیْo وَ اَشْرِكْهُ فِیْٓ اَمْرِیْo كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًاo وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاo اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًاo قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ)

عرض کی اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول  دے۔  اور میرے  لیے میرا کام آسان کردے اور میری زبان  کی گرہ کھول دے کہ وہ میری بات سمجھیں۔ اور میرے لیے میرے گھر والوں سے ایک وزیر کردے۔ وہ کون؟ میرا بھائی ہارون علیہ السلام اس سے میری کمر مضبوط کر  اور اسے میرے کام میں شریک کر، کہ ہم کثرت سے تیری  پاکی بیان کریں اور کثرت  سے تیرا ذکر کریں۔ بے شک تو ہمیں دیکھ رہا ہے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ علیہ السلام تیری  مانگ تجھے عطا ہوئی۔

جب موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا  کہ تم  فرعون کے پاس  جاؤ  اسے راہ حق دکھاؤ تو  بظاہر یہ  بہت عظیم کام تھا اس لیے آپ نے اپنی کامل عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے رب تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ جب تو نے مجھ پر اتنا بڑا کام لازم کر دیا ہے تو  میرا سینہ کھول دے، ہوسکتا ہے  زبان میں پیدائشی طور پر  لکنت ہو  جس  کے زوال کی آپ نے دعا کی ہو۔  لیکن زیادہ مشہور یہ ہے کہ آپ کی زبان بچپن میں جل گئی تھی جس کی وجہ سے بولنے میں لکنت آگئی تھی۔

وجہ اس کی یہ ہوئی تھی کہ فرعون نے آپ کو ایک مرتبہ اٹھایا ہوا تھا آپ نے اس کی داڑھی کو پکڑ کر کھینچ لیا چونکہ وہ اپنی داڑھی میں لعل و جواہر سجا کر رکھتا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس کی داڑھی کو کھینچنے کی وجہ  سے غصہ میں اس نے آپ کو تھپڑ مار دیا اور کہا کہ یہ ہی میرا دشمن ہے ایک تلوار والے شخص کو بلا کر آپ کو قتل کرنا چاہا تو اس  کی زوجہ آسیہ جو موسیٰ علیہ السلام سے محبت کرتی تھی کہنے لگی یہ بچہ ہے اس نے تو تمہارے جواہر دیکھ کر کھینچ لیا ہے۔ اسے ابھی یا قوت اور آگ کے انگاروں میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی حاصل نہیں۔ فرعون نے کہا ٹھیک ہے دیکھتے ہیں کہ یہ سمجھ دار ہے یا نہیں۔ دہکتی آگ کے انگارے اور یاقوت آپ کے سامنے رکھ دیے آپ نے اپنا ہاتھ یاقوت کی طرف بڑھانا چاہا  تھا کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کے ہاتھ کو آگ کے انگاروں کی طرف بڑھا دیا۔ جب آپ کو آگ گرم لگی تو آپ نے وہ چنگاری منہ میں ڈال لی جس کی وجہ سے آپ کی زبان کچھ جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی۔ اب اسی کے زوال کی دعا کی تاکہ لوگ میری بات کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ اسی وجہ سے آپ نے اپنے بھائی کی معاونت کی درخواست کی کہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں۔

لیکن خیال رہے کہ دعا کرتے وقت یہ ہی حالت تھی کہ ہارون علیہ السلام کی زبان  میں کوئی لکنت نہیں تھی وہ کلام صاف کرتے تھے اور  ان کا انداز بیان فصیح ہوا کرتا ان کی بات کو آسانی سے سمجھ لیتے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی زبان کو سمجھنے میں لوگوں کو مشکل درپیش آتی جب آپ نے دعا کی اور رب تعالیٰ نے اسے قبول فرما کر یہ مژدہ سنایا۔

’’ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى‘‘  اے موسیٰ علیہ السلام تمہاری مانگ تمہیں دے دی گئی۔

تو آپ کی زبان مکمل صحیح ہوگئی۔ آپ علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام سے زیادہ فصاحت حاصل ہو گئی، لیکن آپ نے دعا میں حضرت ہارون علیہ السلام کی جو معاونت طلب کی تھی وہ بھی قبول ہوگئی۔ یعنی رب تعالیٰ نے آپ کی زبان کو درست فرما کرمزید احسان فرماتے ہوئے آپ کو  ہارون علیہ السلام کی معاونت بھی عطا فر مادی۔

’’والحاصل ان ما استدل بہ  علی بقاء عقدۃ مافی لسانہ علیہ السلام وعدم زوالھا بالکلیۃ غیر تام‘‘

حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دلائل پیش کرنا کہ ’’آپ علیہ السلام کی زبان کی گرہ کو مکمل نہیں کھولا گیا تھا گرہ باقی رہی جس کی وجہ سے کچھ لکنت باقی رہی‘‘ درست نہیں۔ (روح المعانی)

فائدہ:

’’وزیر‘‘ مشتق ہے وزر سے جس کا معنی ہے بوجھ  اٹھانا۔ وزیر کا معنی ہوا بوجھ اٹھانے والا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے زمانے کے وزراء قوم کا  بوجھ اٹھانے کی بجائے قوم پر بوجھ بن کر بیٹھے ہیں۔ قومی خزانہ کو لوٹ کر کھا چکے ہیں۔ کھربوں روپے پاکستان پر قرض، ان وزراء کی شاہ خرچیوں اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے لازم آرہا ہے۔  شرعی اصولوں کو چھوڑ کر مغربی جمہوریت کی رٹ لگانا بیہودگی ہے۔

دونوں بھائیوں کو حکم دیا:

وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْo اِذْهَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْo اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىo فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ ۴۱ ۔ ۴۴)

اور میں نے مخصوص کر لیا ہے تمہیں اپنی ذات کے لیے، اب جائیے آپ اور آپ کا بھائی میری نشانیاں لیکر، اور نہ سستی کرنا میری یاد میں آپ دونوں جائیں فرعون کے پاس، وہ سرکش بنا بیٹھا ہے اور گفتگو کریں اس کے ساتھ نرم انداز سے شائد کہ وہ نصیحت قبول کرے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔

دونوں بھائیوں کو فرعون سے نرم بات کرنے کا حکم دیا کہ وہ تمہاری سخت گفتگو سے طیش میں آکر تمہارے لیے مصیبت نہ  بن جائے۔ اور تمہاری وجہ سے جو  دوسروں کو تعلیم حاصل ہونی ہے اس  کا مقصد بھی نہ فوت ہوجائے۔ ہر مبلغ کے لیے اس میں رہنمائی ہے۔ مبلغ کو ایسا شیریں کلام اور نرم خو ہونا چاہیے کہ جب بولے تو یوں معلوم  ہو کہ اس کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں یا شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ اگر وہ تند مزاج اور سخت کلام ہوگا تو لوگ اس سے نفرت کریں گے اور اس سے دور بھاگ جائیں گے۔

’’قلت القول اللین ھو القول الذی لا خشونۃ فیہ فاذا کان موسی امر بان یقول لفرعون قولا لینا فمن دونہ احری‘‘

میں کہتا ہوں کہ قول لین ہے کہ اس میں نرمی ہو کوئی سختی نہ ہو جب موسیٰ علیہ السلام کو حکم  دیا گیا کہ فرعون سے نرم کلام کریں تو دوسروں کو زیادہ حق پہنچتا ہے کہ کہ وہ بھی نرم کلام کریں۔

لعلہ میں لعل کے معنی میں جو امید  و  رِجاء ہے اس کا تعلق ذات باری سے نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام  سے ہے۔ یعنی تم اس امید پر پوری کوشش کرنا کہ شائد وہ ہدایت قبول کرے اور  اللہ تعالیٰ سے ڈرنے لگے۔ (از ضیاء القرآن)

فرعون کا موسی علیہ السلام سے کلام کرنا:

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَo وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَo قَالَ فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَo فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَo وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَo  (پ ۱۹ سورت شعراء)

فرعون نے کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے ہاں بچپن میں نہیں پالا؟ اور  تم نے ہمارے ہاں اپنی عمر کے کئی برس نہیں گزارے؟ اور تم نے کیا  اپنا وہ کام جو تم نے کیا اور تم نا شکرے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں نے وہ کام کیا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی، تو میں تمہارے ہاں سے نکل گیا جبکہ تم سے ڈرا تو  میرے رب نے مجھے حکم عطا فرمایا اور مجھے پیغمبروں سے کیا۔ اور یہ کوئی نعمت ہے جس کا تو  مجھے احسان جتاتا ہے حالانکہ تو نے غلام بنا کر  رکھے ہیں بنی اسرائیل۔

موسیٰ علیہ السلام نے بارہ سال کی عمر میں قبطی کو مکا مارا تھا جس سے وہ مرگیا اور آپ مدین چلے گئے یا اس وقت آپ کی عمر تیس سال تھی۔ زیادہ مناسب قول یہی نظر آتا ہے کیونکہ آپ دس سال شعیب علیہ السلام کے پاس ٹھہرے، اس طرح چالیس سال مکمل ہوتے ہیں۔ انبیائے کرام کا اعلان نبوت چالیس سال کی عمر میں ہی ہوتا رہا۔

فرعون نے کہا: ہم نے تمہیں بچپن میں پالا اور اتنی عمر تک تم ہمارے پاس رہے تو ہماری نعمتیں کھاتے رہے لیکن تم نے ان نعمتوں کی ناشکری کی ہے اور ہمارے ایک آدمی کو بھی مار ڈالا۔

آپ علیہ السلام نے کہا: قتل کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا صرف اس شخص کو ادب سکھانا مقصود تھا، لیکن وہ بے ارادہ قتل ہوگیا۔ اس کی ناگہانی موت پر مجھے مجرم بھی نہیں ٹھرایا جاسکتا تھا اور نہ ہی مجھے شہر کو چھوڑ کر جانے کی ضرورت تھی، لیکن جب تم نے غلط فیصلہ کر دیا تھا کہ مجھے قتل کرنے کا حکم دے دیا تو میں اپنی جان کے خوف سے شہر چھوڑ کر چلا گیا۔

’’فعلتھا اذا وانا من الضالین والمرا د بذالک الذاھلین عن معرفۃ ما یؤول الیہ من القتل لانہ فعل الوکزۃ علی وجہ التأدیب‘‘

ضالین کا معنی ہے غافل ہونا، یعنی میں نے یہ کام غفلت میں کیا۔ یہ بات میرے علم میں بھی نہ تھی کہ وہ ایک مکے سے ہی مرجائے گا۔ میں نے مکا اسے ادب سکھانے کے لیے مارا تھا، قتل کرنے کے لیے نہیں مارا تھا۔

موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اب میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آیا ہوں کیونکہ اس نے مجھے حکم عطا فرمایا جسے حکم حاصل ہو اسے علم بھی حاصل ہوتا ہے، جسے علم حاصل ہو اس کی عقل اور رائے کامل ہوتی ہیں۔ علم سے مراد دین ہے جس میں توحید باری تعالیٰ کا علم سب سے اصل ہے۔

اور آپ نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، یقیناً میرا منصب وہی ہوگا جو سب انبیائے کرام کو حاصل رہا۔ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: کہ تو مجھے یہ احسان جتلا رہا ہے کہ تو نے میری تربیت کی، حالانکہ تو نے سارے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ مالک پر لازم ہوتا تھا کہ وہ اپنے غلاموں کی پرورش کرے۔ مالک کو حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے غلاموں کی تربیت کا انہیں احسان جتلائے۔

پھر یہ کہ تو نے مجھے کون سی نعمتیں اپنی طرف سے دی ہیں؟ مجھ پر مال تو وہی خرچ کیا جو میری قوم سے بحیثیت غلام وصول کیا جاتا رہا۔ پھر تجھے یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ تو نے میرے خاندان کے لاکھوں آدمیوں سے ہر مشکل کام لیا اور ان پر جزیہ مقرر کیا؟ اس خاندان کے ایک بچے کی تربیت کا احسان جتلانا تجھے زیب نہیں دیتا۔ مجھے پالنے والے بھی تو میرے اپنے لوگ ہی تھے۔ یا میری ماں نے مجھے پالا ہے۔ یا میرے خاندان کے لوگوں نے۔ تم تو مجھے قتل کرنا چاہتے تھے، میری وجہ سے تو تم نے میری قوم کی ہزاروں بچے ذبح کرادیے، یہ میری تربیت اور مجھے ذبح ہونے سے بچانا تو صرف میرے رب تعالیٰ کا مجھ پر فضل ہے، ورنہ تیرے احسانوں سے تو تیرے ظلم زیادہ ہیں۔ تیرے مظالم نے تیرے احسان تباہ و برباد کر کے رکھ دیے ہیں۔ اب تو کس وجہ سے احسان جتلا رہا ہے؟ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

موسیٰ علیہ السلام نے رب کے حکم سے کہا:

فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَؕ وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰىo اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىo قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰىo قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (پ ۱۶ سورت طہٰ ۴۷ ۔ ۵۰)

پس بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اور انہیں (اب مزید) عذاب نہ دے۔ ہم لے آئے ہیں تیرے پاس ایک نشانی تیرے رب کے پاس سے، اور سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بیشک وحی کی گئی ہے ہماری طرف کہ عذاب (خدا وندی) اس پر آئے گا جو جھٹلاتا ہے (کلام الٰہی کو) اور رو گردانی کرتا ہے۔ فرعون نے پوچھا اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے؟ فرمایا: ہمارا رب وہ ہے جس نے عطا کی ہر چیز کو (موزوں) صورت، پھر مقصد تخلیق کی طرف ہر چیز کی رہنمائی کی۔

بنی اسرائیل پر مصر میں بڑے بڑے مظالم ہو رہے تھے، انہیں بیگار میں پکڑا جاتا۔ بے زبان چوپائیوں کی طرح سے دن بھر مشقت کے کام لیے جاتے اور ان سے ہر طرح کا ذلت آمیز سلوک کیا جاتا اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد سنی اور ان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے اپنے دو بندوں کو روانہ فرمایا

مصری لوگ سورج دیوتا کو ’’الٰہ اکبر‘‘ (بڑا خدا) یقین کرتے تھے، اور مصر کے فراعنہ (تمام فرعون) اپنے آپ کو اس سورج دیوتا کا ’’اوتار‘‘ کہتے تھے۔ اسی طرح مصریوں کے مذہبی عقیدے کا سارا لے کر انہوں نے اپنی حکومت کی بنیادیں مستحکم کر رکھی تھیں۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام بھی اپنے آپ کو کورع (سورج دیوتا) کا مظہر سمجھتا اور ’’ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى‘‘ ہونے کی ڈینگیں مارتا۔

جب حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا:

’’اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ‘‘ اے فرعون ہم دونوں تیرے رب کی طرف سے رسول بن کر آئے ہیں۔ تو وہ چونکا اور بڑ بڑایا، ہیں ..... میرا بھی کوئی رب ہے؟ سب مصریوں کا رب ہوں، میرا کوئی رب نہیں ہوسکتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) غلط کہہ رہا ہے۔

اس نے پوچھا ذرا اس رب کی حقیقت بتاؤ جس نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا: ایک فقرہ کہا اور کوزے میں دریا بند کر کے رکھ دیا فرمایا:

’’میرا پروردگار وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ اپنا وظیفہ حیات اور مقصد تخلیق بحسن و خوبی ادا کر سکے، پھر اسے اتنی سوجھ بوجھ بھی عطا کردی کہ وہ صحیح طور پر ان قوتوں سے کام لے سکے، پرندوں کو پر بخشے اور پھر انہیں اڑنے کا سلیقہ بھی خود ہی سکھادیا، مچھلی کو ایسا جسم دیا کہ وہ گہرے دریاؤں اور طوفانی سمندروں میں تیرے سکے اور ساتھ اس نے تیرنے کا ڈھنگ بھی بتایا، گوشت خور درندوں کے پنجے اور دانت ایسے بنائے کہ وہ اپنا شکار پکڑ سکیں، اونٹ کی قامت کو بلند کیا تو اس کی گردن بھی لمبی بنادی تاکہ اونچے درختوں کے پتے بھی کھا سکے اور نیچے زمین سے گردن جھکا کر پانی پی سکے۔ صحراؤں میں جہاں پانی کی سطح بہت نیچی ہوتی ہے وہاں جو درخت اگائے ان کی جڑیں اتنی لمبی بنادیں کہ وہ زمین کی تہہ سے اپنی خوراک حاصل کرسکیں، ہر خطۂ زمین میں پیدا ہونے والے حیوانات کو وہاں کے مخصوص موسمی تقاضوں کے مطابق لباس بھی دیا اور رزق بھی، پھر اس گلشن ہستی کے گل سر سبز اور بزم حیات کے صدر نشین حضرت انسان کی ظاہری ساخت اور باطنی صلاحیتوں پر نگاہ ڈالیے، آپ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ارشاد کی عظمت کا یقین ہوجائے گا۔

علامہ زمحشری ’’اعطی کل شئی خلقۃ‘‘  کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اعطی کل شئی صورتہ و شکلہ  الذی یطابق المنقعۃ المنوطۃ بہ‘‘

یعنی ہر چیز کو ایسی شکل و صورت بخشی جو ان فوائد اور منافع کے لیے موزوں و مناسب ہےجن کے لیے اس کی تخلیق ہوئی اور ’’ثم ھدٰی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ای عرف کیف یرتفق بما اعطی و کیف یتوصل الیہ‘‘

یہ بھی سکھادیا کہ وہ ان اعضاء اور قوتوں سے کس طرح کام لے اور ان منفعتوں تک کیسے رسائی حاصل کرے۔ (تفسیر کشاف ماخوذ از تفسیر ضیاء القرآن)

یعنی جس رب العلمین کا تم اپنے آپ کو رسول کہتے ہو، وہ کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟

جب اللہ تعالیٰ کی حقیقت بیان کرنا انسانی طاقت سے ماوراء ہے تو موسیٰ علیہ السلام نے ایسا حکمت بھرا جواب دیا جسے وہ بھی سمجھنے کی کوشش کرتا تو سمجھ جاتا۔

قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ (پ ۱۹ سورت شعراء ۲۴)

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا رب تعالیٰ ہے اگر تمہیں یقین ہو۔

یعنی اگر تم اشیاء کو دلیل سے جاننے کی صلاحیت رکھتے ہو تو ان چیزوں کو پیدائش ہی اللہ تعالیٰ کے وجود کی کافی دلیل ہے۔

خیال رہے کہ ’’ایقان‘‘ اس علم کو کہتے ہیں جو استد لال سے حاصل ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی شان میں ’’مُوْقِن‘‘ نہیں کہا جاتا۔

’’قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ‘‘ فرعون نے اپنے آس پاس والوں سے کہا کیا تم غور سے سنتے نہیں؟

اس کے گرد اس وقت اس کی قوم کے بڑے بڑے سردار تھے، وہ لوگ پانچ سو کی تعداد میں زرق برق لباس سے آراستہ ہوکر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے فرعون نے کہا: کیا تم غور سے موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہیں سنتے ہو؟ یہ کہتا ہے زمین و آسمان کو بھی پیدا کرنے والا ہے حالانکہ زمین و آسمان قدیم ہیں، انہیں تو کسی نے پیدا ہی نہیں کیا، ان کے لیے رب تعالیٰ کی کیا حاجت ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے ان کی باتیں سن کر دلیل بدل دی۔ ایسی چیزوں کا ذکر کیا جن کے حادث ہونے یعنی پہلے نہ ہونے پھر فنا ہونے کا وہ بھی انکار نہیں کرسکتے تھے۔

’’قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ‘‘ آپ نے کہا: وہ تمہارا رب تعالیٰ ہے اور تمہارے اگلے آباء و اجداد (باپ دادوں) کا بھی رب ہے۔

’’قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ‘‘

فرعون نے کہا تمہارے یہ رسول جو وحی تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ضرور عقل نہیں رکھتے۔

فرعون اپنے سوا کسی کو معبود نہ سمجھتا تھا؟ طنز کے طور پر کہا: یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجے گئے یعنی یہ خود جو رسول ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، یہ عقل سے دور ہیں: کیونکہ فرعون اس شخص کو عقل سے دور سمجھتا تھا جو اسے معبود نہیں مانتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسی گفتگو انسان اس وقت کرتا ہے جب دلائل سے عاجز آجائے، لیکن نبی کی عظمت کو دیکھیے! آپ علیہ السلام اپنے دلائل پھر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ آپ کو مجنون، دیوانہ کہہ رہا ہے لیکن آپ رب تعالیٰ کی ربوبیت کو اپنے دلائل سے بیان فر ما رہے ہیں۔

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَا اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (پ ۱۹ سورت شعراء ۲۸)

آپ علیہ السلام نے فرمایا: وہ تو مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا رب تعالیٰ ہے اگر تمہیں عقل ہو۔

مشرق سے سورج کو ہر روز طلوع کرنا، مغرب میں غروب کرنا اور سال میں ہر موسم، ہر بہار کا اپنے وقت پہ آنا، بارشیں برسانا، ہواؤں کا چلانا، یہ سب کچھ اس کے نظام قدرت میں ہے۔ کاش کہ تمہیں بھی کچھ سمجھ آجائے۔

فرعون نے آپ کو (معاذ اللہ) صراحتاً مجنون کہہ کر اپنی حماقت کا ثبوت دیا لیکن آپ نے حکمت آمیز جملہ ذکر فرمایا کہ اگر تمہیں عقل ہو، یعنی رب تعالیٰ کی قدرت اس کی ربوبیت اور اس کی وحدانیت کو تسلیم نہ کرنا تمہاری حماقت پر دلالت کر رہا ہے۔ (از خزائن العرفان پ ۱۹ سورت شعراء ع ۶)

فرعون کی دھمکی:

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ (پ ۱۹ سورت شعراء ۲۹)

فرعون نے کہا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تمہیں قید کروں گا۔

فرعون کی قید قتل سے بھی بدتر تھی اس کا جیل خانہ تنگ و تاریک عمیق (گہرا) گڑھا تھا، اس میں اکیلا ڈال دیتا تھا نہ وہاں کوئی آواز سنائی دیتی تھی نہ کچھ نظر آتا تھا۔

موسی علیہ السلام نے کہا میں معجزات لے آیا ہوں:

قَالَ اَوَ لَوْ جِئْتُكَ بِشَیْءٍ مُّبِیْنٍ (پ ۱۹ سورت شعراء ۳۰)

کہا: میں اگرچہ تمہارے پاس کوئی روشن چیز لاؤں؟

یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے معجزات عطا فرمائے ہیں جو میری نبوت پر دلالت کر رہے ہیں، کیا تو میری حقانیت کے ظاہر ہونے پر بھی مجھے قید خانہ میں بھیجے گا؟

قَالَ فَاْتِ بِهٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَo فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌo وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَo (پ ۱۹ سورت شعراء ۳۱ ۔ ۳۳)

فرعون نے کہا تو لاؤ اگر سچے ہو تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا ڈال دیا جبھی وہ صریح (ظاہر) اژدہا بن گیا اور اپنا ہاتھ نکالا تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا۔

موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنا عصا زمین پر ڈالا تو وہ بہت بڑا اژدہا بن گیا، رنگ اس کا زرد تھا اس کے جسم پر بال تھے، منہ کھولا ہوا تھا۔ اس کی دونوں جبڑوں کے درمیان اسی ذراع (ایک سو بیس فٹ) کا فاصلہ تھا۔ وہ اپنی دم پر کھڑا ہوگیا۔ اور ایک میل تک بلند ہوگیا۔ اس نے اپنا نیچے والا جبڑا زمین پر رکھا اور اوپر والا فرعون کے محل کی دیواروں پر، فرعون کی طرف متوجہ ہوا تاکہ اسے پکڑے۔ فرعون نے تخت سے نیچے چھلانگ لگائی اور اس کی ہوا خارج ہونے لگی۔

بعض روایات میں ہے کہ اس کی چار سو مرتبہ اس دن ہوا نکلی اور مرتے دم تک اسی وجہ سے پیٹ کی بیماری میں مبتلا رہا، اسی حال میں غرق ہوگیا۔

جب اژدھا نے لوگوں کی طرف رخ کیا تو لوگ ڈر کے مارے ادھر ادھر بھاگنا شروع ہوئے۔ اس بھگدڑ کی وجہ سے پچیس ہزار آدمی ایک دوسرے پر گر کر مر گئے۔ فرعون نے چلانا شروع کیا اور کہنے لگا

اے موسیٰ علیہ السلام اس کو پکڑو میں تم پر ایمان لے آؤں گا اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب پکڑا تو وہ پھر اپنے حال پر لوٹ آیا یعنی عصا بن گیا۔ (روح المعانی ج ۵ حصہ دوم ص ۲۰)

موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنا ایک معجزہ دکھایا تو فرعون نے کہا کیا اور بھی تم نشانی لائے ہو تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں آپ نے اپنے ہاتھ کو بغل میں لے کر باہر نکالا تو وہ سورج کی شعاعوں کی طرح چمکنے لگا۔

وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ (پ ۱۹ سورت شعراء ۳۳)

اور اپنا ہاتھ نکال تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا۔

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗٓ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ (پ ۱۹ سورت شعراء ۳۴)

فرعون نے اپنے گرد (بیٹھے ہوئے) سرداروں سے کہا کہ بے شک یہ دانا جادو گر ہیں۔

فرعون نے جب اپنے گرد بیٹھے ہوئے سرداروں کو کہا کہ یہ تو جادو گر ہیں تو انہوں نے بھی فرعون کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بطور مشاورت کے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ (پ ۹ اعراف ۱۰۹)

فرعون کی قوم کے سردار بولے یہ تو ایک علم والا جادو گر ہے۔

یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَo قَالُوْٓا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ ابْعَثْ فِی الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِیْنَo یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍo (پ ۱۹ سورت شعراء ۳۵ ۔ ۳۷)

(فرعون نے اپنے قوم کے سرداروں کو کہا) چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اپنے جادو کے زور سے تب تمہارا کیا مشورہ ہے؟ وہ بولے انہیں اور ان کے بھائی کو ٹھہرائے رہو اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیجو کہ وہ تیرے پاس بڑے بڑے دانا جادو گروں کو لے آئیں۔

فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو مقابلہ کے لیے کہا:

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ یٰمُوْسٰىo فَلَنَاْتِیَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَ لَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًىo  قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى (پ ۱۶ سورت طہٰ ۵۷ ۔ ۵۹)

فرعون نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے جادو کے سبب ہماری زمین سے نکال دو؟ اے موسیٰ (علیہ السلام) تو ضرور ہم بھی تیرے آگے ویسا ہی جادو لائیں گے، تو ہم میں اور اپنے میں ایک وعدہ ٹھہرادو جس سے نہ ہم بدلیں گے نہ تم۔ (جہاں مقابلہ ہوگا وہ) ہموار جگہ ہو۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ لوگ دن چڑھے جمع کیے جائیں۔

فرعون نے کہا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو؟ ہم بھی اپنے جادو گر بلاتے ہیں وہ تمہارے ساتھ مقابلہ کریں گے؛ تم ہمارے ساتھ ایک دن اور ایک جگہ مقرر کر لو تاکہ اس دن مقابلہ ہو، وعدہ پر دونوں فریق قائم رہیں، کوئی بھی اپنے وعدے سے نہ پھیرے۔ ایسی جگہ کا انتخاب کرنا جو ہموار میدان ہو، اس میں نشیب و فراز نہ ہو تاکہ سب لوگ یہ مقابلہ دیکھیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے تم اپنے میلے کا دن مقرر کر لو اس لیے کہ تمہارے تمام لوگ اس دن فارغ ہوکر ایک جگہ عیش و عشرت کے لیے جمع ہوتے ہیں اس طرح تمام لوگ اس مقابلہ کو آسانی سے دیکھ سکیں گے اور تمام لوگوں کو دن چڑھے جمع ہونا چاہیے۔

جادو گروں کا آجانا:

فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍo وَّ قِیْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَo لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَo  فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَo قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo (پ ۱۹ سورت شعراء ۳۸ ۔ ۴۲)

تو جمع کیے گئے جادو گر ایک مقرر دن کے وعدہ پر اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو گے شائد ہم ان جادو گروں کی پیروی کریں اگر یہ  غالب آجائیں پھر جب جادو گر آئے فرعون سے بولے کیا ہمیں کچھ مزدوری ملے  گی اگر ہم غالب  آئے اس نے کہا ہاں اس وقت تم میرے مقرب ہو جاؤ گے۔

جادو گر میلے کے دن آگئے، لوگوں کو بھی  کہہ دیا  گیا کہ سب لوگ ضرور جمع ہونا کیونکہ ہمیں امید ہے کہ ہمارے جادو گر ہی غالب آئیں گے ہم ان کے دین پر قائم رہیں گے، اگرچہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے دین پر آنا  ہی نہیں چاہتے تھے لیکن لوگوں کو مائل کرنے کے لیے انداز ایسا رکھا کہ جس کلام میں شک ہو  کہ  شائد ہم ان جادو گروں کی ہی تابعداری کریں گے اگر یہ غالب آگئے۔

جادو گر جب فرعون کے دربار میں آئے تو انہوں نے شاہی  دربار سے فائدہ  اٹھانے کی کوشش اور کہا  اگر ہم غالب آگئے  تو کیا ہمیں بہت بڑا معاوضہ ملے گا جو  بادشاہ کی شان کے لائق ہو؟ فرعون نے کہا ہاں! میں تمہیں اپنا مقرب بنالوں گا۔ بادشاہ جن کو اپنا قریبی بنالیتے ہیں ان پر قومی خزانوں کا  تو منہ کھول دیا  جاتا ہے وہ انعام کا سن  کر مقابلہ کے لیے آمادہ ہوگئے۔ (از روح المعانی)

موسی علیہ السلام کی جادو گروں کو تبلیغ:

قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰى وَیْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا فَیُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰىo فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰىo قَالُوْٓا اِنْ هٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَ یَذْهَبَا بِطَرِیْقَتِكُمُ الْمُثْلٰىo فَاَجْمِعُوْا كَیْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّاج  وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ ۶۱ ۔ ۶۴)

ان سے موسیٰ علیہ السلام  نے کہا: تمہیں خرابی ہو  اللہ تعالیٰ پر  جھوٹ نہ باندھو، کہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کردے اور بے شک نا مراد  رہا  جس نے جھوٹ باندھا،  اور وہ اپنے معاملہ میں ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے اور چھپ کر  مشورہ کرنے لگے، بولے بے شک یہ دونوں ضرور جادو  گر ہیں چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری زمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دیں اور تمہارا اچھا دین لے جائیں، تو  اپنے داؤ کو پکا کر لو، (تمام میلے میں مل کر جمع کر لو) پھر سب صف باندھے آجاؤ، آج وہی کامیاب ہوگا جو اس مقابلہ میں کامیاب رہا۔

یہاں سے یہ بیان کیا جا رہا  ہے فرعون نے جب جادو گروں کو  جمع کرلیا تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کے سامنے ہونے پر کیا کیا؟ تو اس  کا جواب دیا جا رہا ہے۔

’’قال لھم بطریق النصیحۃ‘‘

آپ نے انہیں نصیحت کے طور پر کہا

کہ میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دکھاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے معجزات عطا فرمائے ہیں۔ تم یہ کہتے ہو کہ میں یہ جادو کر رہا ہوں۔ یہ تو اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے، اس سے تو تمہاری بربادی ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب سے تباہ کردے گا۔ جس عذاب کو ٹالنے کی تمہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہوگی۔ موسیٰ علیہ السلام کی اس نصیحت پر …..

’’فتنازعوا ای السحرۃ حین سمعوا کلامہ علیہ الصلوۃ والسلام کان ذالک غاظھم فتنازعوا‘‘

یعنی آپ کے کلام کو سن کر جادو گر غیظ و غضب میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے اور بحث کرنے لگے کہ کیسے اسے جواب دیا جائے؟ اور یہ مشورہ ان کا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام سے چھپ کر تھا کہ وہ اس پر واقف نہ ہوجائیں۔ آخر کار اسی پر اتفاق ہوا کہ یہ دونوں جادو گر ہیں، یہ تو ہمیں اس زمین سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان سے سر توڑ مقابلہ کرنا چاہیں اپنے اپنے داؤ اس کے سامنے لا کر اسے عاجز کرنا چاہیے، کامیابی پر ہمیں غلبہ حاصل ہوگا۔ (تفسیر ابو سعود)

موسیٰ علیہ السلام اور جادو گروں کا مقابلہ:

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓ اِمَّآاَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآاَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَo قَالَ اَلْقُوْاج فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍo (پ سورت اعراف ۱۱۵ ۔ ۱۱۶)

انہوں نے کہا: اے موسیٰ علیہ السلام یا تو آپ (اپنا عصا) ڈالیں یا ہم (اپنی رسیاں اور لاٹھیاں) ڈالنے والے ہیں، آپ علیہ السلام نے کہا: تم ڈالو، جب انہوں نے ڈالا لوگوں کی نگاہوں پر جادو  کردیا، اور انہیں ڈرایا اور بڑا جادو لائے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلے انہیں تبلیغ کی کہ تم غلط راہ پر ہو اپنی بربادی نہ تلاش کرو، لیکن جادو گر جب باز نہ آئے، مقابلہ پر ہی ان کا اتفاق ہوا اور انہوں نے کہا موسیٰ علیہ السلام کو کہ اب ذرا سامنے آجاؤ یا پہلے تم اپنا عصا ڈالو یا ہم اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالتے ہیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان پر کوئی اثر نہیں ہوا تو آپ نے انہیں کہا کہ ٹھیک ہے پہلے تم ہی ڈال دو۔

یاد رہے کہ جادو گروں کو  موسیٰ علیہ السلام کافر مانا: ’’پہلے تم ڈالو‘‘ یہ جادو کی اجازت نہیں تھی۔ بلکہ ان کی ضد پر انہیں پہلے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالنے کی اجازت دی، ذکر کررہ بحث سے وہ اعتراض مندفع ہوگیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو جادو کرنے کی اجازت دی، حالانکہ جادو کرنا کفر ہے۔ کفر کی اجازت دینا بھی کفر ہے تو آپ نے کیسے اجازت دی؟ اس کا جواب واضح ہوچکا ہے کہ آپ علیہ  السلام نے انہیں جادو سے روکا اور یہ بتایا کہ یہ باعث عذاب ہے۔ لیکن جب وہ جادو کرنے پر بضد تھے تو آپ نے کہا ٹھیک ہے اگر اپنے کفر کی وجہ سے میرے معجزے سے مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو کرلو، تاکہ حق اور باطل میں فرق واضح ہوجائے۔ جب انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں تو لوگوں کی آنکھوں پر اثر کردیا کہ وہ صحیح دیکھنے سمجھنے کے قابل نہ رہیں، اس سے واضح ہوا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدلا جاسکتا یہ  صرف ایک بناوٹ ہوتی ہے۔

’’لو کان السحر حقا لکانوا قد سحر واقلو بھم لا اعینھم‘‘

اگر جادو حق ہوتا یعنی اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو یہ ذکر کیا جاتا کہ ان کے دلوں پر جادو کر دیا یہ نہ کہا جاتا کہ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔

بعض روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ انہوں نے رسیوں اور لاٹھیوں پر پارہ چڑھا دیا تھا، پھر دھوپ میں رکھنے کی وجہ سے ان میں حرکت پیدا ہوگئی، لوگوں نے سمجھا کہ یہ اپنے اختیار سے حرکت کر رہی ہیں، ان کی حرکت کو دیکھ کر لوگ ڈر گئے۔ وہ ایک دوسرے کو ڈرانے لگے کہ بچ جاؤ یہ تو سانپ بن گئے ہیں۔ کیونکہ کثیر مقدار میں تو خود جادو گر تھے، اور پھر ہر ایک کے ہاتھ میں کتنی کتنی لا ٹھیاں اور رسیاں تھیں۔ اسی طرح اس میدان میں ہر طرف سانپ ہی سانپ نظر آنے لگ گئے۔ (تفسیر کبیر)

فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰىo قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ ۶۷ ۔ ۶۸)

تو اپنے نفس میں موسیٰ علیہ السلام نے خوف پایا ہم نے فرمایا: ڈر نہیں بے شک تو ہی غالب ہے

موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کو بلا خوف و خطر تبلیغ فرمائی کہ بے شک تم اپنے جادو گروں کو بلا لو تو ڈرنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے جبکہ .....

’’قد علم موسی علیہ السلام انھم لا یصلون الیہ وان اللہ ناصرہ‘‘

موسیٰ علیہ السلام کو یقینی طور پر علم حاصل تھا کہ یہ جادو گر اور ان کے بنائے ہوئے سانپ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ میرا ناصر ہے آپ کو ڈر اس چیز کا محسوس ہوا۔

’’انہ خاف ان تدخل علی الناس شبھۃ فیما یرونہ فیظنوا انھم قد ساووا موسی علیہ السلام ویشتبہ ذالک علیھم‘‘

کہ لوگ کہیں جادو گروں کے جادو کو دیکھ کر یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ لوگ بھی موسیٰ علیہ السلام کے برابر ہی ہیں، لوگوں پر کہیں جادو اور معجزہ میں فرق کرنا مشکل نہ ہوجائے۔ جو اصل مقصد ہے کہ لوگوں پر معجزہ کا غلبہ واضح ہوجائے وہ فوت نہ ہوجائے پس صرف اسی بات کا خوف تھا۔

رب تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام ڈرئیے نہیں بے شک آپ کو ہی غلبہ حاصل ہوگا یعنی جادو گر خود ہی اپنی شکست کا جب اعتراف کرلیں گے اور آپ کی حقانیت تسلیم کرلیں گے تو مقصد پورا ہو جائے گا۔ (ماخوذ از کبیر)

وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَo فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَo فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَo وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَo قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَo رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۱۷ ۔ ۱۲۲)

اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال، تو ناگاہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا، تو حق ثابت ہوا اور ان کا کام باطل ہوا، تو یہاں وہ مغلوب ہوئے اور ذلیل ہوکر پلٹے اور جادو گر سجدے میں گرادئیے گئے، بولے ہم ایمان لائے جہاں کے رب پر جو رب ہے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا۔

وحی کرنے سے مراد حقیقی وحی بھی ہوسکتی ہے اور الہام بھی، یعنی ہوسکتا ہے کہ اس وقت آپ کے دل میں القاء کردیا گیا ہو کہ آپ اپنا عصا ڈال دیں، وہ ان کے جادو سے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل جائے گا جب آپ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا اس نے اپنا منہ کھولا تو اس کے منہ کے درمیان اسی ذراع (ایک سو بیس فٹ) کا فاصلہ تھا اور اس نے ان کی تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل لیا، حالانکہ وہ تین سو اونٹوں پر لاد کر لائے تھے، موسیٰ علیہ السلام نے جب اسے پکڑا تو وہ پہلے کی طرح عصا ہوگیا۔ جادو گروں کی رسیاں اور لاٹھیاں معدوم ہوگئیں۔ یعنی ایسے باقی نہ رہیں جیسے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔

بعض جادو گروں نے دوسرے جادو گروں کو کہا کہ یہ جادو نہیں ہوسکتا کیونکہ جادو میں ایک چیز کی حقیقت نہیں بدلتی صرف دوسرے لوگوں کی آنکھوں پر اثر ہوتا ہے، اگر یہ جادو ہوتا تو ہماری رسیوں اور لاٹھیوں کو نہ نگل لیتا۔

’’فاستدلوا بہ علی ان موسی علیہ السلام نبی صادق من عند  اللہ تعالیٰ‘‘

اس سے انہوں نے دلیل پکڑی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ (تفسیر کبیر)

فائدہ:

واضح ہوا کہ علم کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے کیونکہ وہ لوگ اپنے جادو کا علم میں کامل درجہ رکھتے تھے انہیں معلوم تھا کہ جادو کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس کی انتہاء کہاں ہے؟ جب وہ اپنے فن کا اعلیٰ درجے کا علم رکھتے تھے تو .....

’’وجدوا معجزۃ موسی علیہ السلام خارجۃ عن حد السحر علموا انہ من المعجزات الا لھیۃ لا من جنس التمویھات البشریۃ‘‘

انہیں معلوم ہوگیا کہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ جادو کی حد سے خارج ہے انہیں یقین ہوگیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزات سے ہے، انسانی بناوٹ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ اپنے جادو کے علم میں کامل درجہ نہ رکھتے ہوتے تو وہ معجزہ اور جادو میں فرق نہ کر پاتے، بلکہ کہتے کہ وہ شخص جادو کے علم میں ہم سے زیادہ ہے، اسی لیے ہم اس سے عاجز آگئے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ جادو کے علم میں اعلی درجہ رکھتے تھےاسی کامل علم کی وجہ سے وہ کفر سے ایمان کی طرف منتقل ہوئے۔

’’فاذا کان حال علم السحر کذالک فما ظنک بکمال حال الا نسان فی علم التوحید‘‘

جب جادو کے علم سے ان کو اتنا فائدہ حاصل ہوگیا تو اے انسان ذرا غور کر کہ اگر تجھے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا علم حاصل ہو تو اس میں کتنا ہی کمال ہوگا؟ (کبیر)

جب جادو گروں پر موسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کی حقیقت کھل گئی تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے بے اختیار سجدہ میں گر گئے، کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق عطا کی ہے کہ ہمیں پتہ چل گیا یہ معجزہ ہے جادو نہیں، پھر انہوں نے کہا رب العالمین پر ہمارا ایمان ہے۔

خیال رہے کہ صرف رب تعالیٰ پر ایمان لانے سے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی بلکہ ایمان مکمل اسی وقت ہوتا ہے جب نبی پر ایمان لائے، کیونکہ نبی پر ایمان لانے سے تمام ایمانیات پر ایمان لانا لازم ہوجاتا ہے اسی لیے انہوں نے پھر کہا کہ ہمارا ایمان موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے رب تعالیٰ پر ہے یعنی انھیں اسی نے نبی بنا کر بھیجا ہے۔

فائدہ جلیلہ:

جادو گروں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ شروع کرنے سے پہلے کہا:

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ

اے موسیٰ (علیہ السلام) یا تو آپ ڈالیں اور یا ہم ڈالنے والے ہیں۔

انہوں نے موسی علیہ السلام کا ذکر پہلےکیا اور اپنا ذکر بعد میں کیا:

’’ان القوم راعو احسن الادب حیث قدموا موسی علیہ السلام فی الذکر وقال اھل التصوف انھم لما راعو الادب لا جرم رزقھم اللہ تعالیٰ الایمان ببرکۃ رعایۃ ھذا الادب‘‘

بے شک جادو گر قوم نے موسیٰ علیہ السلام کا ذکر پہلے کر کے آپ کے ادب و احترام کی اچھے طریقے سے پاسداری کی، صوفیائے کرام نے فرمایا ہے: کہ اسی ادب و احترام کی برکت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کی نعمت سے سرفراز کیا۔ (تفسیر کبیر)

سبحان اللہ! کیا شان ہے انبیاء کرام کی، کہ ان کے ادب و احترام سے کافروں کو ایمان نصیب ہوتا ہے اور ان کی گستاخی کی وجہ سے کلمہ توحید پڑھنے والے بھی مردود ہوجاتے ہیں۔

تنبیہ:

اس واقعہ سے پتہ چلا کہ اس زمانے میں جادو گر کثیر تعداد میں تھے، اسی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام کو ایسا معجزہ دیا گیا جس سے آپ نے جادو گروں کا مقابلہ کیا اور ان کو عاجز کردیا، تمام انبیائے کرام کو ان کے زمانے کے مطابق معجزات عطا کیے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں علم طب (حکمت) کا زور تھا آپ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطاء ہوئے کہ تمام اطباء (حکماء) ان سے عاجز رہے؛ کیونکہ آپ کو مردوں کا زندہ کرنا، مادر زاد اندھے کو نظر عطا کرنا، برص والے کو درست کرنے کے معجزات عطاء ہوئے، جو کسی طبیب کی طاقت میں یہ نہ تھا کہ ایسا کر سکے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فصاحت کا زور تھا، بڑے بڑے شعراء ایک ایک طرح و مصرعہ پر قصائد لکھ دیتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کا کلام پیش کیا جو آپ کا عظیم معجزہ ہے تو وہ تمام عاجز آگئے، کسی ایک کو جرأت نہ ہوسکی کہ قرآن پاک کی ایک چھوٹی سورۃ کا مقابلہ کرسکے جبکہ قرآن پاک نے انہیں بار بار چیلنج بھی کیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

نتیجہ حاصل ہوا:

فرعون ..... جو خدائی کا دعویدار تھا، کہتا تھا: ’’انا ربکم الاعلی‘‘ میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں اس ..... کے متعلق تمام لوگوں کو پتہ چل گیا کہ وہ ذلیل، عاجز، گھٹیا انسان ہے۔

’’والا لما احتاج الی الا ستعانۃ بالسحرۃ فی دفع موسی علیہ السلام‘‘

ورنہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے دفاع میں جادو گروں سے امداد طلب نہ کرتا۔

اگر خدا ہوتا تو خود ہی صرف ’’کن‘‘ سے کام تمام کردیتا اوریہ بھی واضح ہوگیا کہ جادو گر کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدل سکتے، اگر وہ کسی چیز کی حقیقت کو بدل سکتے تو فرعون کو یہ نہ کہتے کہ ’’اگر ہم غالب آگئے تو کیا تو ہمیں اجرت دے گا‘‘؟ بلکہ وہ خود ہی مٹی سے سونا بنا لیتے۔ بلکہ وہ اپنے جادو کے ذریعے فرعون کی بادشاہی پر قبضہ کرلیتے یا کسی اور ملک کی بادشاہی حاصل کر کے بہت بڑے رئیس بن جاتے۔ انسانوں کو ان آیات سے متنبہ کیا گیا کہ تم باطل اور جھوٹے اقوال اور شعبدہ بازی کے افعال سے فریب نہ کھا جانا، بلکہ اپنے ایمان پر قائم رہنا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

فرعون کی جادوگروں کو دھمکی:

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْج اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَاج فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَo لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۲۳ ۔ ۱۲۴)

فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے ہو اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دیتا یہ تو بڑا مکر ہے جو تم سب نے شہر میں پھیلایا ہے کہ شہر والوں کو اس سے نکال دو، تو اب جان جاؤ گے قسم ہے کہ میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا، پھر تم سب کو سولی دوں گا۔

جب فرعون نے دیکھا کہ جادوگروں نے تمام مخلوق کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم کرلیا ہے اسے خوف ہوا کہ تمام لوگ آپ پر ایمان نہ لے آئیں، اس نے دو قسم کے شبہات ڈال کر قوم کو ایمان لانے سے منع کرنے کی کوشش کی، ایک تو اس نے یہ کہا: کہ ان لوگوں کا ایمان لانا اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی حقانیت کو دیکھا ہے بلکہ انہوں نے پہلے سے موسیٰ علیہ السلام سے ساز باز کر رکھی تھی کہ ہم تمہاری نبوت کا اقرار کرلیں گے اور تم پر ایمان لے آئیں گے۔ لوگ ہمیں دیکھ کر تم ہر ایمان لائیں گے۔

دوسری بات اس نے یہ کہی کہ موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کا اتفاقی مشورہ یہ ہے کہ تمہیں تمہارے شہروں سے باہر نکال دیں اور خود اس ملک پر قابض ہوجائیں۔ وطن سے لوگوں کو بہت زیادہ محبت ہوتی ہے اس لیے وہ ان لوگوں کو ایمان سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا اگرچہ اس کے دونوں شبہات کی کوئی حیثیت نہیں تھی، لیکن قوم بھی تو بے سمجھ ہی تھی۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

نو مسلموں کا فرعون کو جواب:

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰى مَا جَآءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاo اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَآ اَكْرَهْتَنَا عَلَیْهِ مِنَ السِّحْرِ وَ اللّٰهُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىo اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَ لَا یَحْیٰىo وَ مَنْ یَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰىo جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ ۷۲ ۔ ۷۶)

انہوں نے کہا ہم ہر گز تجھے ترجیح نہیں دیں گے ان روشن دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں، ہمیں اپنے پیدا کرنے والے کی قسم تو کرلے جو تجھے کرنا ہے، تو اس دنیا ہی کی زندگی میں تو کرے گا۔ بیشک ہم اپنے رب تعالیٰ پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور وہ جو تو نے ہمیں مجبور کیا جادو پر۔ اور اللہ تعالیٰ بہتر ہے اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ بے شک جو اپنے رب تعالیٰ کے حضور مجرم ہوکر آئے تو ضرور اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ مرے اور نہ جیئے، اور جو اس کے حضور ایمان کے ساتھ آئے کہ اچھے کام کیے ہوں انہی کے درجے اونچے بسنے کے باغ، جن کے نیچے جاری نہریں ہیں۔ اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اور یہ صلہ اس کا ہے جو پاک ہوا۔

فرعون کی دھمکی کو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں رد کردیا اور اس کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا؛ کیونکہ انہیں کامل یقین اور مکمل بصیرت حاصل ہوچکی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام سچے نبی ہیں، انہوں نے فرعون کو کہا کہ تمہارے فیصلہ کا تعلق دنیا کی زندگی سے ہے جو فانی ہے اور ہمارا مطلوب اخروی زندگی کی سعادت حاصل کرنا ہے جو ہمیشہ کے لیے باقی ہے۔ اور عقل کا تقاضہ ہے کہ ان فانی نقصانات کو برداشت کرلیا جائے جو باقی رہنے والی سعادت تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں۔

قَالُوْۤا اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَo وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۲۵ ۔ ۱۲۶)

انہوں نے کہا ہم اپنے رب کی طرف پھرنے والے ہیں اور تجھے ہمارا کیا برا لگا، یہی نہ کہ ہم اپنے رب کی طرف نشانیوں پر ایمان لائے جب وہ ہمارے پاس آئیں۔ اے رب ہمارے! ہم پر صبر انڈیل دے(ہمیں صبر عطا کر) اور ہمیں مسلمان اٹھا۔

انہوں نے فرعون کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم مرعوب ہونے والے، ڈرنے والے نہیں؛ کیونکہ ہم تو اپنے رب تعالیٰ کی طرف پھرنے والے یعنی اس پر ایمان لانے والے ہیں۔ اے بے عقل، خدائی کے دعوے دار! تو کس چیز کو برا سمجھ رہا ہے؟ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی نشانیاں آگئیں ہم ان کو دیکھ کر ایمان لائے۔ بس یہی چیز تجھے نا پسند آئی۔

پھر انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا کی، کہ اے اللہ تعالیٰ! اگرچہ تونے ہمیں سیدھی راہ پر قائم کر دیا اور فرعون کی دھمکیوں کے مقابل صبر عطا کردیا ہے، لیکن یہ نعمت ہمارے پاس قائم اسی وقت رہ سکتی ہے جب تیرا فضل ہمیں شامل حال رہے۔ انہوں نے عرض کیا:

’’ربنا افرغ علینا صبرا‘‘ اے ہمارے رب ہمیں کامل صبر عطا کر۔

’’افراغ الإ ناء‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب برتن کو انڈیل کر اس میں موجود چیز کو کامل طریقہ سے بہا دیا جائے، گویا انہوں نے کامل صبر طلب کیا، کہ اللہ صبر ہم پر انڈیل دے اور لفظ ’’صبرا‘‘ نکرہ ذکر کیا جس میں تنوین تعظیم پر دلالت کررہی ہے۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے عظیم صبر کی دعا کی۔ ان کی دعاء کو رب تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور انہیں وہ عظیم صبر عطاء فرمایا جس کی بدولت انہیں شہادت جیسا عظیم مرتبہ نصیب ہوا۔

’’عن ابن عباس رضی اللہ عنھما فعل ذالک و قطع ایدیھم وارجلھم من خلاف و ھذا ھو الا ظھر مبالغۃ منہ فی تحذیر القوم عن قبول دین موسی علیہ السلام‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرعون نے اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا وہ جادو گر جنہوں نے ایمان قبول کرلیا تھا ان کے ہاتھ پاؤں کٹوادیئے اور انہیں شہید کروادیا گیا، یہی قول زیادہ واضح ہے کیونکہ فرعون نے اپنا رعب جمانے اور قوم کو موسیٰ علیہ السلام کا دین قبول کرنے سے روکنے اور ڈرانے میں مبالغہ ثابت کرنے کے لیے ایسا کیا۔

فرعون کو قوم کے سرداروں کا ڈرانا:

وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْج وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ (پ ۹ سورت اعراف ۱۲۷)

اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا: کیا تو موسیٰ(علیہ السلام) اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑتا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں؟ اور تجھے اور تیرے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ فرعون نے کہا ہم نے ان کے بیٹوں کو قتل کردیں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے۔ اور بیشک ان پر غالب ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام کا جادوگروں سے مقابلہ کرانے کے بعد فرعون نے آپ علیہ السلام کو کچھ نہ کہا نہ گرفتار کیا اور نہ ہی اور کسی قسم کی سزا دی بلکہ آپ کو آزاد چھوڑ دیا۔

’’واعلم ان فرعون کان کلما رأی موسی خافہ اشد الخوف فلھذا السبب لم یتعرض لہ‘‘

یقین کیجیئے بیشک فرعون نے جب بھی موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا اس پر آپ کا شدید رعب طاری ہوا وہ آپ سے بہت زیادہ ڈرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے آپ علیہ السلام کا راستہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔

فرعون کی قوم کے سرداروں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے ڈرتے ہوئے آپ کو آزاد رکھے ہوئے ہے، انہوں نے کہا: کہ اگر تم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کو اسی طرح آزادی دیئے رکھی کہ وہ اپنی تبلیغ کرتے رہے تو تمہیں اور تمہارے خداؤں کو لوگ چھوڑ دیں گے۔

ایک قول زجاج کا یہ بھی ہے۔

’’ایکون منک ان تذر موسی وان یذرک موسی‘‘

تم نے اگر موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح آزادی دیئے رکھی، اس کا راستہ کھلا چھوڑے رکھا تو موسیٰ علیہ السلام تم سے اور تمہارے معبودوں سے دور رہے گا۔

خیال رہے کہ فرعون اگرچہ خود بھی خدائی کا دعویدار تھا لیکن اس نے لوگوں کو بتوں کی عبادت کی اجازت دے رکھی تھی، یہی مفہوم ہے ’’الھتک‘‘ کا، کہ تمہارے معبودوں کو چھوڑدیں گے۔

’’قبل ان فرعون کان قد وضع لقومہ اصناما صغارا وامر ھم بعبادتھا وقال انا ربکم الا علی ورب ھذہ الاصنام قال الحسن کان فرعون یعبد الا صنام‘‘

کہا گیا کہ فرعون نے اپنی قوم کے لیے چھوٹے چھوٹے بن بنا کر رکھے تھے وہ انہیں بتوں کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا میں تمہارا سب سے بڑا خدا ہوں اور ان بتوں کا بھی میں رب ہوں حضرت حسن کا قول ہے کہ فرعون خود بھی بتوں کی عبادت کرتا تھا قوم کا مقصد یہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو قید کرلیا جائے اور سخت ترین سزا دی جائے۔

’’فعند ھذا لم یذکر فرعون ماھو حقیقۃ الحال وھو کونہ خائفا من موسی علیہ السلام‘‘

قوم کے اس مطالبہ پر فرعون نے حقیقت حال کو ان پر واضح نہ کیا کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام سے شدید خوف لاحق ہوچکا ہے۔

البتہ یہ کہنے لگا کہ ہم بنی اسرائیل کے کے بیٹوں کو ذبح کرادیں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیں گے، اس طرح موسیٰ علیہ السلام کے معاون مرد نہیں رہیں گے، اور ان کی قوم کی نسل ختم ہوجائے گی، یہ کام کرنا ہم پر کوئی مشکل نہیں کیونکہ ان پر غلبہ حاصل ہے۔ (ماخوز اذ تفسیر کبیر)

بنی اسرائیل کا ڈرنا اور موسیٰ علیہ السلام کا تسلی دینا:

قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْا١ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ١ۙ۫ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا١ؕ قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۲۸ ۔ ۱۲۹)

موسیٰ(علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کی مدد چاہو اور صبر کرو، بیشک زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وارث بنائے۔ اور آخر میدان مالک اللہ تعالیٰ ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وارث بنائے۔ اور آخر میدان پرہیز گاروں کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا: کہ ہم ستائے گئے ہیں آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے تشریف لانے کے بعد۔ آپ(علیہ السلام) نے فرمایا: قریب ہے کہ تمہارا رب دشمن کو ہلاک کردے اور اس کی جگہ زمین کا مالک تمہیں بنائے، پھر دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو۔

قوم نے جب سنا کہ فرعون نے ہمارے بچوں کو ذبح کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے تو بہت زیادہ پریشان ہوئے، ان پر بہت زیادہ گھبراہٹ طاری ہوئی، کہنے لگے: اے موسیٰ علیہ السلام ہمیں آپ کے تشریف لانے سے پہلے بہت ستایا گیا، جز یہ ہم سے وصول کیا گیا اور ہر مشکل کام اور ہر حقیر کام ہم سے لیا جاتا رہا کسی قسم کی نعمت آسائش ہم تک نہیں پہنچنے دی گئی۔ ہمارے بچوں کو ذبح کرایا گیا۔ ہماری لڑکیوں کو زندہ چھوڑا گیا۔ اے موسیٰ علیہ السلام اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے کیا اب بھی ہمیں پہلے کی طرح ہی ستایا جائے گا؟ یاد رہے کہ ان کا یہ سوال حقیقت حال جاننے کے لیے تھا، کوئی اعتراض نہ تھا اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ناراضگی کا اظہار تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے دو چیزوں کا حکم دیا، اور دو چیزوں کی بشارت دی۔ آپ علیہ السلام نے ایک حکم یہ دیا۔

’’استعینوا باللہ‘‘ اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرو اور دوسرا حکم آپ نے یہ دیا ’’واصبروا‘‘ صبر کرو۔ پہلے آپ نے انہیں اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرنے کا حکم دیا اس لیے کہ لیے کہ جب انسان کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی اور جہان میں مدبر(تمام امور کی تدبیر فرمانے والا) نہیں تو اس کا سینہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے کھل جاتا ہے۔ اور اس پر تمام قسم کی مصیبتوں کو برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا مشاہدہ کرنے کی اس میں صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تمام قسم کی مصیبتیں اس پر آسان ہوجاتی ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جو دو بشارتیں دیں ان میں سے ایک یہ ہے:

اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ

بیشک زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے مالک بنائے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ تسلی دیتے ہوئے یہ خوشخبری دی کہ فرعون اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ ہلاک کردے گا اور تمہیں اس زمین کا مالک بنادے گا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے خوش ہوجائیں اور فرعون کی دھمکیوں کے خطرہ کو دل سے نکال دیں۔

دوسری بشارت آپ علیہ السلام نے یہ دی۔

’’والعاقبۃ للمتقین‘‘  اور آخر میدان پرہیزگاروں کے ہاتھ ہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے کتنا پیارا ترجمہ فرمایا! اس کی تفسیر میں علامہ رازی فرماتے ہیں:

’’فقیل المراد امر الآخرۃ فقط وقیل المراد امر الدنیا فقط وھو الفتح والظفر والنصر علی الاعداء وقیل المراد مجموع الامرین‘‘

بعض حضرات نے کہا اس سے مراد صرف آخرت کی کامیابی ہے، یعنی متقین کا آخر میں انجام اچھا ہوگا، بعضوں نے کہاں مراد اس سے صرف دنیا کی کامیابی و کامرانی اور دشمنوں پر ان کو امداد حاصل ہونا اور بعض حضرات نے کہا کہ اسے مراد دین اور دنیا کی کامیابی ہے۔

زیادہ بہتر یہ آخری معنی ہے کیونکہ ’’للمتقین‘‘ کی تفسیر میں علامہ رازی فرماتے ہیں:

’’اشارۃ الی ان کل من اتقی اللہ تعالیٰ وخافہ فاللہ یعینہ فی الدنیا والاخرۃ‘‘

اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تقوی اور خوف رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں امداد فرماتا ہے۔

یعنی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا میدان ان پرہیزگار لوگوں کو ہی حاصل رہے گا۔

فرعون کی قوم کا مشورہ:

فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْۤا اَبْنَآءَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ وَ اسْتَحْیُوْا نِسَآءَهُمْ وَ مَا كَیْدُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍo (پ ۲۴ سورت مومن ۲۵)

پھر جب موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ان لوگوں کے پاس حق ہمارے ہاں سے تو انہوں نے کہا قتل کر ڈالو ان لوگوں کے بچوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے اور زندہ چھوڑدو ان کی لڑکیوں کو اور نہیں ہے کافروں کا ہر مکر مگر رائیگاں۔

  جب موسیٰ علیہ السلام دین حق لے کر ان کے پاس آئے اور اپنی صداقت اور اپنے دین کی حقانیت کو براھینِ قاطعہ سے ثابت کردیا تو وہ لوگ دلائل و براھین کے میدان میں زچ ہوگئے اور جھوٹے الزامات پر اتر آئے اور بہتان تراشی کا شیوہ اختیار کرتے ہوئے آپ کو جادوگر اور جھوٹا کہنا شروع کردیا۔ اس سے بھی جب بات نہ بنی تو تشدد پر اتر آئے۔ یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی نسل کشی کی جائے، بچے مار ڈالے جائیں، لڑکیاں زندہ رہنے دی جائیں۔ اس طرح بنی اسرائیل کی عددی قوت ختم ہوجائے گی اور وہ کسی طرح ہمارے لیے خطرہ کا باعث نہ بنے گی؛ لیکن ان کی یہ سازش ناکام ہوگئی۔

کیا پیارے الفاظ ہیں: وَ مَا كَیْدُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ

یعنی انہوں نے یہ منصوبہ موسیٰ علیہ السلام کو کمزور کرنے کے لیے اور آپ کی دعوت کو بے اثر بنانے کے لیے سوچا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی یہ چال سیدھی راہ سے بہک گئی اس لیے مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ (از ضیاء القرآن)

فرعون کا شیخی مارنا:

وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَ لْیَدْعُ رَبَّهٗ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَكُمْ اَوْ اَنْ یُّظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ (پ ۲۴ سورت مومن ۲۶)

اور فرعون نے(جھنجھلا کر) کہا مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ علی السلام کو قتل کروں اور وہ بلائے اپنے رب کو(اپنی مدد کے لیے) مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل نہ دے یا فساد نہ پھیلادے ملک میں۔

فرعون شیخی بگھارتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اعیان مملکت! اگر مجھے کچھ نہ کہو میں چشم زدن میں موسیٰ علیہ السلام کا کام تمام کروں، مجھے تو تمہاری رائے کا پاس ہے اور میں اسے کچھ نہیں کہتا گویا کہ موسیٰ علیہ السلام پر امرائے حکومت کی پاسداری کی وجہ سے اب تک ہاتھ نہیں اٹھایا گیا، حالانکہ فرعون دل میں ڈر رہا تھا کہ اگر اس نے زیادتی کی تو کہیں موسیٰ علیہ السلام کا ڈنڈا اژدھا بن کر اسے نگل نہ جائے اپنی رعایا کو اپنی پالیسی کے بارے میں مطمئن کرنے کے لیے فرعون نے دو خطروں کو ذکر کیا۔

پہلی بات تو یہ بتائی کہ اگر تم نے موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی نہ کی تو یہ تمہارے عقائد کی عمارت کو منہدم کرکے رکھ دے گا۔

دوسری یہ بات ہے کہ اب تم بڑے امن و سکون اور خیر و عافیت سے زندگی بسر کر رہے ہو نہ بیرونی حملے کا خطرہ ہے اور نہ اندرون ملک کوئی شور برپا کرسکتا ہے اور اگر بنی اسرائیل کے مردوں اور عورتوں کو پذیرائی حاصل ہوگئی تو یاد رکھو بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھیں گے۔ پسماندہ اور مفلوک الحال لوگ تمہاری بالادستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ملک بھر میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکادیں گے۔ عقلمندی اور دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ اس ابھرتے ہوئے خطرہ کا آج ہی مکمل طور پر انسداد کردیا جائے۔

حقیقت میں اس کی ذات اور اس کا تختِ شاہی خطرے سے دو چار تھا، وہ صرف مصریوں کا ابادشاہ ہی نہیں تھا بلکہ ان کا خدا بھی تھا، اس نے سوچا اگر موسیٰ علیہ السلام اپنی تبلیغ میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو لوگ اس کی خدائی کو ماننے سے انکار کردیں گے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کو قبول کریں گے۔ نیز اس ظلم و ستم کی پھر اس حاکم کو اجازت نہ ہوگی۔

دراصل دعوت موسوی سے اس کی ذات کو خطرہ لاحق تھا، عصائے موسوی کی ہیبت سے اس کا تخت کانپ اٹھا تھا۔ وہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل پر اپنی قوم کو رضا مند کرنا چاہتا تھا کہ اس کی ذات اور اس کا اقتدار سلامت رہے، لیکن ایک چالاک اور شاطر سیاست دان کی طرح ظاہر یہ کرنا چاہتا تھا کہ یہ اقدامات قوم کے مذہب کی سلامتی اور ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔

صدہا سال پہلے فرعون نے جو چال چلی، ’’فرعونی سیاست کے پیر و کار‘‘ آج بھی حرف بحرف اس کی تقلید کر رہے ہیں جب بھی کوئی اللہ تعالیٰ کا بندہ ان کی دھاندلیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو ان عقل کے اندھوں کو یہ توفیق تو نہیں ہوتی کہ وہ اپنی خامیوں کی اصلاح کرلیں، جورو ستم کا جو بازار انہوں نے گرم کر رکھا ہے اس کی جگہ قانون کی فرمانروائی بحال کریں، الٹا وہ لٹھ لے کر ان نیک بندوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں، ان کو فسادی، اقتدار کا بھوکا اور معلوم نہیں کن کن الزامات سے بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں۔ (ضیاء القرآن)

موسیٰ علیہ السلام کا جواب:

وَ قَالَ مُوْسٰٓى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ

اور موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں پناہ مانگتا ہوں اپنے رب کی اور تمہارے پروردگار کی ہر اس متکبر(کے شر) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔

موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کے اس منصوبہ کا علم ہوا تو آپ گھبرائے نہیں، پریشان نہیں ہوئے، بلکہ آپ کی زبان سے وہی جملہ نکلا جو موسیٰ علیہ السلام جیسے برگزیدہ رسول کے شایان شان تھا، فرمایا: مجھے اکیلا نہ سمجھو اس رب ذوالجلال کی پناہ اور حمایت حاصل ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ تم لاکھ اس کی بندگی کا رشتہ توڑنا چاہو، تم فرعون کو اپنا خدا سمجھتے ہو، تم حقیقت کو بدل نہیں سکتے، بندے پھر بھی تم اسی رب تعالیٰ کے ہو، جس کا میں بندہ ہوں۔ میں نے ہر متکبر اور سرکش کے شر سے اس کے دامن رحمت میں پناہ لی ہوئی ہے، تم میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ (ضیاء القرآن)

ایمان چھپانے والے شخص نے کہا:

وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَكْتُمُ اِیْمَانَهٗٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ اِنْ یَّكُ كَاذِبًا فَعَلَیْهِ كَذِبُهٗج وَ اِنْ یَّكُ صَادِقًا یُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُكُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌo یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَآ اَرٰى وَ مَآ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِo (پ ۲۴ سورت مومن ۲۸ ۔ ۲۹)

اور کہنے لگا ایک مرد مومن، جو فرعون کے خاندان سے تھا اور چھپائے ہوئے تھا اپنے ایمان کو، کیا تم قتل کرنا چاہتے ہو ایک شیخ کو اس وجہ سے کہ وہ کہتا ہے میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے؟ حالانکہ وہ لے آیا ہے تمہارے پاس دلیلیں تمہارے رب تعالیٰ کی طرف سے(اسے اپنے حال پر چھوڑ دو)، اگر وہ حقیقتاً جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کی شامت اس پر ہوگی، اور اگر وہ سچا ہوا(اور تم نے اس کو گزند پہنچائی) تو ضرور پہنچے گا تمہیں وہ عذاب جس کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے والا، بہت جھوٹ بولنے والا ہو، اے میری قوم! مانا آج حکومت تمہاری ہے،(نیز تمہیں) غلبہ حاصل ہے اس ملک میں، (لیکن مجھے یہ تو بتاؤ) کون بچائے گا ہمیں خدا کے عذاب سے؟ اگر وہ ہم پر آجائے گا۔(یہ سن کر فرعون) کہنے لگا: میں تو تمہیں وہی مشورہ دیتا ہوں جس کو میں درست سمجھتا ہوں اور نہیں راہنمائی کرتا میں تمہاری مگر سیدھے راستہ کی طرف۔

’’قِبْطِی‘‘ قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا، لیکن اس نے اپنی قوم کو اپنے ایمان سے آگاہ نہیں کیا تھا، اس نے جب سنا کہ فرعون اپنے حواریوں سے مل کر موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تو اس نے ان کو اس ارادہ سے باز آنے کی تلقین شروع کی، پہلے تو انہیں جھڑکا کہ تم موسیٰ علیہ السلام کے درپے آزار کیوں ہو؟ اس نے تمہارا کیا جرم کیا ہے؟ اس نے کون سی قانون شکنی کی ہے؟ محض اس لیے تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے؟ اور اس کے ذاتی عقیدہ میں کیوں دخل دیتے ہو؟ اس کو اس کے حال پر چھوڑدو۔ اگر بالفرض وہ غلط کہہ رہا ہے تو خود ہی کیفر کردار کو پہنچ جائے گا، ہمیں اپنے ہاتھ اس کے لہو سے سرخ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

آج کل ہم بڑی عزت و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں حکومت ہماری ہے، ہمارے اشارۂ ابرو پر لوگوں کی قسمتیں بدلتی ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ ہمارے فرمان سے سرتابی کرے، دولت، سامان عیش و عشرت کی فراوانی ہے، ہم اس حالت کو بدلنا نہیں چاہتے، ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ یہ حالات برقرار رہیں۔

اگر موسیٰ علیہ السلام(نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں تو خدا ’’مسرف کذاب‘‘(حد سے بڑھنے والا، بہت جھوٹ بولنے والا) سے خود نپٹ لے گا اور اگر وہ سچا ہے اور ہم نے اسے قتل کردیا تو یاد رکھو خدا کا غضب جوش میں آئے گا اور عیش و عشرت کی یہ بساط الٹ کر رکھ دی جائے گی، اس لیے مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کو نہ چھیڑیں۔ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور مفروضہ خطرات سے حواس باختہ ہوکر کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں کہ خدا کے عذاب میں یوں گرفتار ہوجائیں کہ بچ نکلنے کی پھر کوئی صورت نہ رہے۔

اس کے جواب میں فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ میں نے تمہیں جو مشورہ دیا ہے میرے نزدیک وہ درست ہے اور میں تمہیں اس راہ پر گامزن کرنا چاہتا ہوں جس میں تمہاری بھلائی ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون مطلق العنان فرمانروا ہونے کے باوجود آج کل کے فرعونوں کی طرح تنگ مزاج اور کم ظرف نہیں تھا کہ ادھر کسی نے مخالف رائے دی جھٹ وہ غدار اور گردن زدنی قرار دے دیا گیا بلکہ وہ اختلاف رائے کو بڑے تحمل سے برداشت کرتا تھا۔

وَ قَالَ الَّذِیْٓ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابo مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِo (پ ۲۴ سورت مؤمن ۳۰ ۔ ۳۱)

اور کہنے لگا وہی ایمان والا اے میری قوم میں ڈرتا ہوں کہ تم پر(بھی کہیں) پہلی قوموں کی تباہی کے دن جیسا دن نہ آجائے، جیسا حال ہوا تھا قوم نوح، عاد اور ثمود کا۔ اور ان لوگوں کا جوان کے بعد آئے۔ اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بندوں پر ظلم کرے۔

اس مرد مومن نے جب دیکھا کہ اس کی پندو موعظت اثر انگیز نہیں ہو رہی تو اس نے مزید کھل کر گفتگو شروع اور گذشتہ زمانوں میں اپنی بد اعمالیوں کے باعث تباہ و برباد ہونے والی قوموں کا ذکر شروع کیا اور فرمایا ان تباہ ہونے والی قوموں کے حالات سے عبرت پکڑو اور اس غلط روش کو چھوڑ دو۔

اور اس نے کہا مجھے پکار کے دن کا تم پر ڈر ہے، یعنی اس سے مراد قیامت کا دن ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ذرا سا زلزلہ آجائے یا کوئی نا گہانی مصیبت آجائے تو اتنا شور و غل مچتا ہے کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جب لوگ یکایک قیامت کی ہولناکیوں سے دو چار ہوں گے، قدموں کے نیچے زمین انگارے کی طرح تپ رہی ہوگی، اوپر سے سورج کی کرنیں آگ برسا رہی ہوں گی، سامنے دوزخ کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے، چاروں طرف سے فرشتوں نے گھیر رکھا ہوگا۔ اس سرا سیمگی کے عالم میں شور و غل کا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے اس دن کو ’’یوم التناد‘‘ یعنی ایک دوسرے کو پکارنے کا دن کہہ دیا۔

یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ ج مَا لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ ج وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍo (پ ۲۴ سورت مؤمن ۳۳)

مزید اس نے اپنی نصیحت جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس دن سے ڈرو جس روز تم بھاگو گے پیٹھ پھیرتے ہوئے نہیں ہوگا تمہارے لیے اللہ تعالیٰ(کے عذاب) سے کوئی بچانے والا اور جسے گمراہ کردے اللہ تعالیٰ اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

اس مرد مومن نے ان کو سمجھانے کی پر ممکن کوشش کی اور کہا:

وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُo اَلَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍo (پ ۲۴ سورہ مومن ۳۴ ۔ ۳۵)

اے میری قوم! بے شک آئے تمہارے پاس یوسف علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے پہلے روشن دلائل لے کر پس تم شک میں گرفتار رہے اس میں وہ جو لے کر آئے تھے یہاں تک کہ جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہنا شروع کردیا کہ نہیں بھیجےگا اللہ تعالیٰ ان کے بعد کوئی رسول، یونہی گمراہ کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جو حد سے بڑھنے والا شک کرنے والا ہوتا ہے(یونہی گمراہ کرتا ہے) انہیں جو جھگڑتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں بغیر کسی(معقول) دلیل کے جوان کے پاس آئی ہو،(یہ طریقہ) بڑی ناراضگی کا باعث ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور مومن کے نزدیک اسی طرح مہر لگا دیتا ہے اللہ تعالیٰ ہر مغرور اور سرکش کے دل پر۔

پہلے جن قوموں کا ذکر ہوا وہ دور دراز علاقوں میں بسنے والی تھیں، اب اس نبی اور اس کے منکرین کا ذکر ہو رہا ہے، جو کچھ عرصہ پہلے اسی ملک کے باشندے تھے۔ یوسف علیہ السلام کے نام سے کون ایسا مصری تھا جو واقف نہ تھا؟ ان کا دور حکومت مصر کی تاریخ کا وہ درخشاں دور تھا جب کہ ہر طرف عدل و انصاف کا نور برس رہا تھا۔ قانون کی بالا دستی قائم تھی، غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی اس طرح دل داری کی جاتی تھی کہ سبحان اللہ! اس عام اور شدید قحط کی چیرہ دستیوں سے انہیں یوسف علیہ السلام کے حسن انتظام کے باعث پناہ ملی تھی۔ اس نبی اور عادل فرمانروا کے ساتھ اس کی قوم نے جو برتاؤ کیا ’’مومنِ آلِ فرعون‘‘ اس کا ذکر فرما کر انہیں تنبیہ کر رہا ہے کہ بے داغ سیرت ان کے بے عدیل نظام حکومت ان کی عدل گستری اور ان کی رعایا پروری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود ان کو نبی ماننے کےلیے تیار نہ ہوئے، بلکہ ان کی ساری عمر اسی ادھیڑ بن میں گزر گئی کی یہ نبی ہے کہ نہیں؟ قطعی اور یقینی دلائل کے باوجود وہ تذ بذب کاہی شکار رہے اور شک کی وادیوں میں بھٹکتے بھٹکتے عمر گزار دی۔ اور جب وہ نیر تاباں غروب ہوگیا تو پھر کف افسوس ملنے لگے اور کہنے لگے: ایسی ہستی اب دوبارہ پیدا نہیں ہوگی۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

پہلے ہدایت سے یوں محروم رہے اب امکان یہ تھا کہ کوئی دوسرا نبی تشریف لائے تو یہ اپنی گذشتہ غفلت اور کوتاہی کی تلافی کرلیں، یہ کہہ کر ’’اب اور کوئی ایسا نہیں آئے گا‘‘ انہوں نے اس امکان کو بھی کالعدم کردیا۔

رجل مومن نے اپنی کلام کے آخر میں ایک اصول بیان فرمادیا کہ جس فرد یا قوم میں یہ تینوں عیوب پیدا ہو جائیں ان کے ہدایت پانے کی کوئی امید نہیں رہتی۔ کوئی معجزہ کوئی پند و نصیحت انہیں چاہِ لگتی ہے۔ وہ تین عیب یہ ہیں۔

۱۔      مسرف: حد سے بڑھنے والا جو احکام و اوامر اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں ان کی پابندی نہ کرنے والا اسے ہزار سمجھایا جائے وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجانے کا نام ہی نہیں لیتا۔

۲۔     مرتاب: وہ شخص جو شک کی بیماری کا مریض ہو اس کے سامنے روشن دلائل کے انبار لگادو شک کے جراثیم اس کے ذہن سے نکلتے ہی نہیں۔

۳۔     من یجادل: جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں بے جا تاویل کرتا ہے ان  میں عیب نکالتا ہے تضاد ثابت کرتا ہے جس فرقہ میں یہ تین عیب ہوں خدا انہیں کبھی ہدایت نہیں دیتا۔

وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَo اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓى اِلٰهِ مُوْسٰى وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا وَ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ وَ مَا كَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍo (پ ۲۴ سورت مومن ۳۶ ۔ ۳۷)

اور فرعون نے کہا: اے ہامان بنا میرے لیے ایک اونچا محل (اس پر چڑھ کر) ان راہوں تک پہنچ جاؤں یعنی آسمان کی راہوں تک، پھر میں جھانک کر دیکھوں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو اور میں تو یقین کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے اور یوں آراستہ کردیا گیا فرعون کے لیے اس کا برا عمل، اور روک دیا گیا اسے راہِ (راست) سے۔ اور نہیں تھا فرعون کا سارا فریب مگر اس کی اپنی تباہی کے لیے۔

فرعون نے جب یہ محسوس کیا کہ اس مرد مومن کی گفتگو حاضرین کو متاثر کر رہی ہے تو اس نے فوراً پیترا بدلا اور کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت پرکھنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں کہ ہم اس کے بارے میں پریشان رہیں اور کسی حتمی (یقینی) فیصلہ پر نہ پہنچ سکیں۔ ابھی ایک بلند مینار تعمیر کرتے ہیں اور اس پر چڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا سراغ لگائیں گے۔ زمین پر تو کہیں سے نہیں اگر آسمان پر مل گیا تو ہم بھی مان لیں گے اور اگر آسمان پر بھی اس کا سراغ نہ ملا تو پھر سب کو یقین ہوجائے گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بات غلط ہے۔

پھر ہامان کی طرف متوجہ ہوکر کہا: ہامان، اے وزیر با تدبیر! یہ کام تم کرو۔ ہمیں ایک اونچا بہت اونچا مینار تعمیر کردو اس پر چڑھ کر ہم آسمان پر چڑھنے کا راستہ دریافت کرلیں گے اور آسمان کا کونہ کونہ چھان ماریں گے۔

خیال رہے ہر وہ چیز جس کے ذریعہ کسی جگہ تک رسائی حاصل کی جائے اسے ’’سبب‘‘ کہتے ہیں یہاں اسباب سے مراد وہ رستے ہیں جو آسمان کی طرف جاتے ہیں، یا ان سے مراد آسمان کے دروازے جن کے ذریعہ آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔

فرعون نے ساتھ ہی اپنی رائے بھی ظاہر کردی کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی بات میں سچائی نام کو نہیں۔

خیال رہے۔ ظن بمعنی گمان غالب بھی لیا جا سکتا ہے اور بمعنی یقین بھی۔ یعنی فرعون نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سچے نہیں یا اس کا مطلب ہوگا میرا یقین ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو سچے نہیں۔

فرعون کا مکر و فریب اس کی تباہی کا سبب بنا یعنی اس کی مکاری عیاری حیلہ سازی اور دانستہ انکار حق کے باعث اس کے برے اعمال اسے حسین و خوشنما نظر آنے لگے وہ انہیں کے پیچھے پڑا رہا اور جو حیلہ سازیاں اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کی تھی وہ سب خود اس کی قیاس اور بربادی کا سبب بنیں۔

وَ قَالَ الَّذِیْٓ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِo (پ ۲۴ سورت مومن ۳۸)

اور کہنے لگا وہ جو ایمان لایا اے میری قوم میرے پیچھے چلو میں دکھاؤں گا تمہیں ہدایت کی راہ۔

یعنی بھلائی اور نجات کا راستہ وہ نہیں جس پر فرعون تمہیں چلانا چاہتا ہے بلکہ آؤ میں تمہیں رشد و ہدایت کا راستہ دکھاتا ہوں جس پر چل کر تم اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہو۔

یٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ هِیَ دَارُ الْقَرَارِo مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَاج وَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْهَا بِغَیْرِ حِسَابٍo (پ ۲۴ سورت مومن ۳۹ ۔ ۴۰)

اے میری قوم یہ دنیوی زندگی تو (چند روزہ) لطف اندوزی ہے اور آخرت ہی ہمیشہ ٹھہرنے کی جگہ ہے جو برے کام کرتا ہے اسے سزادی جائے گی اسی قدر اور جو نیک کام کرتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ ایمان دار ہو تو وہ داخل ہوں گے جنت میں، رزق دیا جائے گا انہیں وہاں بے حساب۔

مرد مومن کا سلسلہ وعظ شروع ہے اب اس نے مصلحت کے سارے حجاب تار تار کر دیے ہیں اور اس کے نتائج اور خطرات سے بے نیاز ہوکر اعلان حق کردیا اور  کہا:

وَ یٰقَوْمِ مَا لِیْٓ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوةِ وَ تَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَى النَّارِo تَدْعُوْنَنِیْ لِاَكْفُرَ بِاللّٰهِ وَ اُشْرِكَ بِهٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ اَنَا اَدْعُوْكُمْ اِلَى الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ oلَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْهِ لَیْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَا فِی الْاٰخِرَةِ وَ اَنَّ مَرَدَّنَآ اِلَى اللّٰهِ وَ اَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ o فَسَتَذْكُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَكُمْ وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَى اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ o(پ ۲۴ سورت مومن۴۱ ۔ ۴۴)

اے میری قوم میرا بھی عجیب حال ہے کہ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں نجات کی طرف اور تم بلاتے ہو مجھے آگ کی طرف تم مجھے دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا انکار کردو اور میں شریک ٹھہراؤں اس کے ساتھ اس کو جس کا مجھے علم تک نہیں اور میرا حال یہ ہے کہ میں پھر بھی تمہیں اس خدا کی طرف بلاتا ہوں جو عزت والا بخشنے والا ہے سچی بات تو یہ ہے کہ جس کی (بندگی کی) طرف تم مجھے بلاتے ہو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اسے پکارا جائے اس دنیا میں اور آخرت میں اور یقیناً ہم سب کو لوٹنا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف اور یقیناً حد سے گزرنے والے جہنمی ہیں پس (اے میرے ہم وطنو) عنقریب تم یاد کرو گے جو میں (آج) تمہیں کہہ رہا ہوں اور میں اپنا (سارا) کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں بے شک اللہ تعالیٰ دیکھنے والا ہے (اپنے) بندوں کو۔

اس مرد مومن نے کہا یعنی میرے ساتھ بھی تم لوگوں کا رویہ عجیب و غریب ہے۔ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ میں کودنے کی دعوت دیتے ہو۔ میں تمہیں اس خدائے واحد کی بندگی کی تلقین کرتا ہوں جو سب سے زبر دست بھی ہے اور اس کے باوجود بڑا بخشنے والا ہے، عمر بھر خطائیں کر کے بھی اگر اس کے در کرم پر کوئی آجائے تو معاف کردیتا ہے۔ اور تم مجھے کہتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا انکار کردوں اور اس کے ساتھ ایسے شریک بناؤں جو بالکل بے بس اور بے اختیار ہیں۔ اور جن کی خدائی کا مجھے کوئی علم نہیں۔ میں تو تمہاری خیر خواہی میں سر گرم ہوں اور تم ہو کہ اپنے ساتھ مجھ غریب کو بھی ڈبو دینا چاہتے ہو۔ تم میرے عجیب دوست ہو، مجھے تمہاری ایسی دوستی کی ضرورت نہیں۔ مہربانی فرما کر مجھے اس قسم کی نصیحتیں نہ کیا کرو اور اس نے کہا جن معبود ان باطلہ کی عبادت اور بندگی کی تم مجھے نصیحت کر رہے ہو یہ تو ایسے ہیں کہ انہیں یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ دنیا میں یا آخرت میں انہیں خدا تسلیم کیا جائے اور نہ انہوں نے خود کبھی اپنی خدائی کا دعوی کیا ہے۔ اور اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ اتنے بے بس اور بے اختیار ہیں کہ نہ دنیا میں ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ ہے اور نہ قیامت کے دن کسی کی فریاد سنیں گے۔

فرعون جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کہلواتا تھا اس کے روبرو اور بھرے دربار میں اتنی حق گوئی ایک مرد مومن کو ہی زیبا ہے لیکن جب سامعین کو اس نے متاثر ہوتے نہ دیکھا تو اس نے صاف کہا آج تو میری بات نہیں مان رہے اور میری تلخ نوائی تمہیں گراں گزر رہی ہے عنقریب وہ وقت آئے گا جب عذاب الٰہی تم پر نازل ہوگا اس وقت تم میری ان باتوں کو یاد کرو گے۔

فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ oاَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّاج وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ o(پ ۲۴ سورت مومن ۴۵ ۔۴۶)

پس بچالیا اسے اللہ تعالیٰ نے ان اذیتوں سے جن کے پہنچانے کا انہوں نے حیلہ کیا اور ہر طرف سے گھیر لیا فرعونیوں کو سخت عذاب نے۔ دوذخ کی آگ پر پیش کیا جاتا ہے انہیں اس پر صبح و شام اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) داخل کردو فرعونیوں کو سخت تر عذاب میں۔

چنانچہ فرعونیوں نے اس مرد حق کیش کو قتل کرنے کی سازشیں کیں لیکن وہ سب ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی خود حفاظت فرمائی اور کوئی اس کا بال بیکانہ کرسکا، الٹا فرعون اپنے لاؤ لشکر اور جاہ و حشمت سمیت غرق کردیا گیا۔

(غرق کرنے کا واقعہ تفصیلی طور پر ان شاء اللہ بعد میں ذکر کیا جائے گا)

فرعون اور اس کا ٹھاٹھیں مارتاہوا لشکر سمندر میں غرق ہوگیا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر سلامتی کے ساتھ کنارے پر پہنچ گئے۔ دنیا میں ہی حق کا بول بالا اور باطل کا منہ کالا ہوگیا۔

یاد رہے کہ ان کا قصہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ فرعون اور اس کے پرستاروں کو ہر صبح و شام دوزخ کی آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ جب عالم برزخ کی میعاد ختم ہوجائے گی تو قیامت قائم ہوگی اس کے بعد انہیں اسی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔

اس آیت سے علماء اہل سنت نے ’’عذابِ قبر‘‘ کا اثبات کیا ہے۔ قبر سے مراد صرف وہ گڑھا نہیں جس میں کسی کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ یہ قبر تو کسی کو نصیب ہوتی ہے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے۔ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے کے وقت کو عالم برزخ کہتے ہیں۔ آل فرعون کو دئیے جانے والے دو عذابوں کا یہاں ذکر ہورہا ہے ایک وہ جس میں وہ قیامت سے پہلے مبتلا ہیں دوسرا وہ جو قیامت کے بعد انہیں دیا جائے گا۔

’’ھذہ الآیۃ اصل کبیر فی استدلال اھل السنۃ علی عذاب البرزخ فی القبور‘‘ (تفسیر ضیاء القرآن ۲۴ ع ۹ ۔ ۱۰)

فرعون اور اسکی قوم قحط سالی میں مبتلا:

وَ لَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۳۰)

اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط اور پھلوں کے گھٹانے سے پکڑا کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ برباد کرنے سے پہلے دنیا میں چھوٹے چھوٹے عذاب دے کر سوچنے سمجھنے کا موقع دیا کہ یہ کفر و معصیت سے باز آجائیں، فرعون نے اپنے چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس کی مدت میں کبھی درد یا بخار یا بھوک میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔ اب قحط سالی کی سختی ان پر اس لیے ڈالی گئی کہ وہ اس سختی ہی سے خدا کو یاد کریں اور اس کی طرف متوجہ ہوں، لیکن وہ کفر میں اس قدر راسخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی ہی بڑھتی رہی۔

فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖج وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ اَلَآ اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَالا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۳۱ ۔ ۱۳۲)

تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح بھی تم پر ایمان لانے والے نہیں۔

جب ان کو ارزانی فراخی خوشحالی اور امن و عافیت حاصل ہوتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے ہم جب مستحق تھے تو اسی لیے ہی یہ امن و عافیت کی حالت ہمیں حاصل ہے وہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ سمجھتے اور نہ ہی شکر بجا لاتے اور جب انہیں تنگ حالی قحط سالی اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا تو کہتے کہ یہ بلائیں تو موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے پہنچیں اگر یہ نہ ہوتے تو یہ مصیبتیں بھی نہ آتیں۔ رب تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شامت تو تمہارے اپنے اعمال یعنی کفر و ضلالت کی وجہ سے ہے جو اس نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے وہی تمہیں حاصل ہونا ہے پھر اصل شامت تو وہ ہوگی جب تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا۔

حق تو یہ ہے کہ وہ اس قسم کی تنبیہات کی وجہ سے سوچتے سمجھتے کفر و ضلالت کو چھوڑتے اور ایمان لے آتے لیکن وہ اپنی سرکشی میں اتنے غالب آچکے تھے کہ ایمان لانے سے سرا سر انکار کردیا جب وہ اپنی ہٹ دھرمی میں یہاں تک پہنچے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کردی۔

رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ

اے رب ہمارے! ان کے مال برباد کردے اور ان کے دل سخت کردے۔ آپ کی دعا کو قبول کرلیا گیا فرعونیوں کے درہم و دینار پتھر ہوکر رہ گئے یہاں تک کہ پھل اور کھانے کی چیزیں بھی برباد ہوگئیں اور طرح طرح کی ان پر آزمائش آئیں۔

مختلف قسم کے عذاب:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۳۳)

تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی، گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

جب جادو گروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر اور سرکشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پے در پے نشانیان آنے لگیں کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے رب تعالیٰ کے حضور عرض کردیا تھا کہ اے اللہ فرعون اس دنیا میں بہت سرکش ہوچکا ہے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے اسے اور اس کی قوم کو ایسے عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لیے سزا اور میری قوم اور بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا سبب بنے تو اللہ تعالیٰ نے طوفان بھیجا، ابر آیا اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی۔ قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور  پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا۔ ان میں سے جو بیٹھا ڈوب گیا۔ نہ ہل سکتے اور نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے پھر ہفتہ کے دن تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر ان کے گھروں سے متصل تھے ان کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے ہمارے لیے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی، طوفان کی مصیبت دور ہوئی، زمین میں سر سبزی و شادابی آئی جو پہلے نہ دیکھی تھی، کھتیاں خوب ہوئیں، درخت خوب پھلے تو فرعونی کہنے لگے۔ یہ پانی تو نعمت تھا۔ اور وہ ایمان نہ لائے ایک مہینہ اسی طرح ان کا عافیت میں گزر گیا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ’’ٹڈی‘‘ بھیجی، وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکانوں کے دروازے، چھتیں،تختے، سامان یہاں تک کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئی۔ اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں اور بنی اسرائیل کے گھروں میں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہوکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی، ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ اس پر عہد و پیمان کیا۔ سات روز تک ٹڈی کی مصیبت میں گرفتار رہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی، کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے، یہ ہمیں کافی ہیں۔ ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ ایمان لانے کا وعدہ انہوں نے ایفاء نہ کیا اور اپنے برے اعمال میں مبتلا رہے۔ ایک ماہ پھر ان کا اس طرح عافیت میں گزرگیا۔

اس کے بعد ان پر ’’قُمَّل‘‘ کا عذاب آیا۔ قمل سے مراد گھن یا جوں یا کوئی اور چھوٹا سا  کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی بچے تھے وہ کھا لیے، کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا کھانے میں بھر جاتا تھا۔ اگر کوئی دس بوری گیہوں چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا۔ باقی سب کیڑے کھا جاتے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال بھنویں پلکیں چاٹ گئے۔ جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے۔ سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا ہم توبہ کرتے ہیں، آپ اس بلا کے دفع ہونے کی دعا فرمائیے۔ آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مصیبت کو بھی سات روز کے بعد دور فرمایا۔ لیکن فرعونیوں نے پھر وعدہ توڑدیا اور ایمان نہ لائے بلکہ پہلے سے زیادہ برے اعمال شروع کردیے ایک ماہ ان کا پھر آرام سے گزر گیا۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ’’مینڈک‘‘ بھیجے۔ اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے تھے۔ بات کرنے کے لیے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں داخل ہوجاتا۔ ہانڈیوں میں مینڈک، کھانے میں مینڈک اور چولہوں میں  مینڈک پھر جاتے تھے۔ آگ بجھ جاتی تھی۔ مینڈک اوپر سوار ہوجاتے تھے۔ اس مصیبت سے فرعونی روپڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا اس دفعہ ہم پکا وعدہ کرتے ہیں کہ توبہ کریں گے ایمان لائیں گے۔ آپ دعا کریں یہ مصیبت ہم سے ٹل جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے عہد و پیمان لے کر پھر دعا فرمائی سات روز یہ عذاب بھی ان پر رہا آخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ بھی دور ہوا ایک مہینہ ان کا پھر امن و عافیت میں گزر گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ توڑ دیا اور اپنے کفر پر برقرار رہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر خون کا عذاب نازل کیا ان کے تمام کنوؤں کا پانی نہروں اور چشموں کا پانی دریائے نیل کا پانی غرضیکہ ہر پانی ان کے لیے تازہ خون بن گیا، انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جادو سے تمہاری نظر بندی کی ہے انہوں نے کہا نظر بندی کیسے ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں تو اس نے حکم دیا کہ قبطی اور بنی اسرائیل ایک ہی برتن سے پانی لیا کریں، لیکن اس کا بھی انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بنی اسرائیل جب نکالتے تو پانی ہی نکلتا لیکن جب اسی برتن سے قبطی نکالتے تو خون نکلتا۔ یہاں تک کہ فرعونی عورتین پیاس سے عاجز ہوکر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا تو وہ پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا تو فرعونی عورت کہنے لگی کہ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں ڈال دے جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا جب فرعونی عورت کے منہ میں آیا خون بن گیا۔ فرعون کا شدت پیاس کی وجہ سے برا حال تھا۔ درختوں کا رس چوس رہا تھا۔ وہ بھی منہ میں پہنچتے ہی خون بن جاتا۔ پھر اس مصیبت سے تنگ آکر موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ فرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام نے پھر دعا کی اس طرح یہ عذاب بھی سات روز رہنے کے بعد ختم ہوگیا مگر یہ لوگ پھر ایمان نہ لائے ان کے بار بار ایمان لانے کے وعدے اور مصیبت اٹھ جانے پر وعدے کو توڑنے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:

وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَج لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَo فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَo (پ ۹ سورت اعراف ۱۳۴ ۔ ۱۳۵)

اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا کہتے اے موسیٰ علیہ السلام ہمارے لیے اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرو اس عہدے کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے۔ بیشک اگر تم ہم پر عذاب اٹھادو گے تو ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے۔ پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے ایک مدت کے لیے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے۔

ان پر تمام عذاب ایک ایک ہفتہ رہے جب بھی کوئی عذاب آتا موسیٰ علیہ السلام سے ایمان لانے کا وعدہ کرتے کہ تم دعا کرو کہ اگر یہ عذاب ہم سے اٹھالیا جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے عذاب جب اٹھالیا جاتا پھر وعدہ توڑدیتے ایک مہینہ ان کا آرام سے گزر جاتا پھر دوسرے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہر بار انہوں نے ایمان لانے کا وعدہ کیا لیکن توڑدیا۔ (ماخوذ از خزائن العرفان)

بنی اسرائیل کو مصر سے لے جانے کا حکم:

وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لا لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ ۷۷)

اور بے شک ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لیے دریا میں خشک راستہ نکال دے تجھے ڈر نہ ہوگا فرعون آلے اور نہ خطرہ۔

موسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو رات میں مصر سے نکال کر لے جاؤ یعنی اب بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کی قوم کی تباہی کاوقت آچکا ہے۔

رات کو نکالنے کا حکم دیا تاکہ بنی اسرائیل کا اجتماع دشمن کے سامنے نہ ہو اور وہ ان کی مراد کی تکمیل میں مانع نہ بنے، رات کو نکالنے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فرعون اور اس کا لشکر ان کا پیچھا کر کے ان کو روک نہ سکے اور فرعون کے عظیم لشکر کو دیکھ کر بنی اسرائیل خوف نہ کریں۔ چاندنی رات میں موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلے۔ بنی اسرائیل کے پاس کافی مقدار میں سونے اور چاندی کے زیورات بھی تھے جو انہوں نے قبطیوں سے مانگ کر لیے ہوئے تھے کہ ہم انہیں اپنی عید میں استعمال کریں گے وہ پہلے بھی ان سے زیورات لیتے رہتے تھے۔

یوسف علیہ السلام نے وصیت فرمائی تھی کہ جب تم مصر سے نکلو تو میرا تابوت بھی ساتھ لے کر جانا تو موسیٰ علیہ السلام نے آپ کی وصیت کے مطابق ایک بوڑھی عورت کی نشاندہی پر وہ تابوت نکال کر خود بنفس نفیس اٹھایا۔

ابن ابی حاتم حضرت ابو موسی اشعری سے ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کے پاس ایک مرتبہ ٹھہرے، اس نے حضور کی مہمان نوازی کی اور بہت تعظیم اور تکریم کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کبھی ہمارے پاس بھی آنا، تو وہ دیہاتی ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ کہ میں تمہیں عطا کروں۔ اس نے کہا: ایک اونٹنی جس پر کجا وہ پڑا ہوا ہو اور ایک دودھ دینے والی بکری جس کا دودھ میرے گھر والے پئیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتو بنی اسرائیل کی بوڑھی عورت سے بھی گیا گزرا ہوا ہے (اس نے تو جنت کی طلب کی تھی) صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل کی بوڑھی عورت کا واقعہ کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کر چلے تو راستہ بھول گئے اس پر حیرانگی سے ایک دوسرے سے پوچھنے لگے یہ کیا ہوا کچھ لوگوں کو حضرت یوسف علیہ السلام کی وصیت کا علم تھا تو انہوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت ہمارے آباؤ اجداد سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ مصر سے نکلتے وقت میرا تابوت ضرور ساتھ لے جانا، ہمارے بھولنے کی یہی وجہ ہوسکتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو یوسف علیہ السلام کی قبر کو جانتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے ایک بوڑھی عورت کے بغیر کوئی بھی نہیں جانتا کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کس جگہ واقع ہے؟ تو موسیٰ علیہ السلام نے اس عورت کو بلا کر کہا کہ تم بتاؤ کہ یوسف علیہ السلام کی قبر کہاں ہے؟ اس نے کہا میں اس وقت تک نہیں بتاؤں گی جب تک میری ایک شرط نہ پوری کرو۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا میری صرف یہ خواہش ہے کہ میں جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ موسیٰ علیہ السلام کچھ سوچ میں پڑے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی نازل کی کہ اے موسیٰ علیہ السلام اس سے وعدہ کرلو۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے تمہاری درخواست منظور ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جب اس عورت کے ساتھ چلے تو اس نے آپ کی قبر کی نشاندہی کی۔ جب یوسف علیہ السلام کے تابوت کو نکالا گیا تو اندھیری رات روشن ہوگئی اس طرح انہیں راستہ مل گیا، یہ حدیث غریب ہے۔ قریب ہے کہ صحابی تک موقوف ہو۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، ابن کثیر ج ۳ ص ۳۳۵)

صبح ہونے پر فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کی طرف روانگی:

فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآىِٕنِ حٰشِرِیْنَO اِنَّ هٰؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَO وَ اِنَّهُمْ لَنَا لَغَآىِٕظُوْنَO وَ اِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَO فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍO وَّ كُنُوْزٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمO كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَO فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِیْنَO فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰى اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَO قَالَ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنO (پ ۱۹ سورت شعراء ۵۳ ۔ ۶۲)

فرعون نے شہروں میں جمع کرنے والے بھیجے کہ یہ لوگ ایک تھوڑی جماعت ہیں اور بے شک ہم سب کا دل جلاتے ہیں اور بیشک ہم سب چوکنے ہیں(اللہ تعالیٰ نے فرمایا) تو ہم نے انہیں باہر نکالا بوغوں اور چشموں اور خزانوں اور عمدہ مکانوں سے ہم نے ایسا ہی کیا اور ان کا وارث کردیا بنی اسرائیل کو، فرعون نے ان کا تعاقب کیا دن نکلے، پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا تو موسیٰ علیہ السلام والوں نے کہا: ہم کو انہوں آلیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یوں نہیں بیشک میرا رب تعالیٰ میرے ساتھ ہے وہ مجھے ابھی راہ دیتا ہے۔

فرعون نے جب دیکھا کہ بنی اسرارئیل موجود نہیں ہیں تو بہت غصہ میں ہوا اس نے ہر طرف اپنے کارندے دوڑا کر اپنی فوجوں، لشکروں اور اپنے تمام حامیوں کو جمع کرلیا اور کہنے لگا کہ بنی اسرائیل ہمارے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے وہ ہمیشہ غیظ و غضب کو بھڑکاتے رہتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کو مکمل طور پر تباہ برباد کردیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی برباد کرنے کے لیے ان کے دلوں میں یہ بات ثابت کردی کہ سب لوگ بنی اسرائیل کا پیچھا کرکے ان کا مکمل صفایا کردو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے ان تمام فرعونیوں کو برباد رکرکے اپنا وعدہ پورا فرمادیا۔ فرعون کو ماننے والے تمام اس کے کہنے پر اپنی نعمتوں اپنے اعلی قسم کے مکانات اور پھل دار درختوں کے باغات اور اپنے سامان تعیش یعنی اپنی عیش و عشرت کے کے سامانا کو چھوڑ کر بظاہر بنی اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے چلے جو در حقیقت اپنی ہی بربادی کی طرف چل رہے تھے۔

فرعون کے کہنے پر سب لوگ جمع ہوکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں چل پڑے، دریائے قلزم کے کنارے پر ان کے سامنے پہنچ گئے۔ بنی اسرائیل نے جب دیکھا تو کہنے لگے کہ اب تو ہم پکڑ لیے جائیں گے، ان کے دلوں میں پہلے ہی فرعون کا رعب چھایا ہوا تھا اور وہ تعداد میں بھی فرعونیوں سے بہت کم تھے اور کسی قسم کا ان کے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا اس لیے ان پر بہت زیادہ خوف طاری ہوا۔ تو میں موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب تعالیٰ میرے ساتھ ہے وہ ابھی میری راہنمائی فرمائے گا۔

موسی علیہ السلام کو دریا میں عصا مارنے کا حکم:

فَاَوْحَیْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِo وَ اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَo وَ اَنْجَیْنَا مُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗٓ اَجْمَعِیْنَo ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَo اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَo وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُo (پ ۱۹ سورت شعراء ۶۳ ۔ ۶۸)

تو ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہوگیا جیسا بڑا پہاڑ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچالیا موسیٰ علیہ السلام اور اس کے سب ساتھ والوں کو پھر دوسروں کو غرق کردیا بے شک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں سے اکثر مسلمان نہ تھے اور بیشک تمہارا رب تعالیٰ وہی عزت والا مہربان ہے۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ اپنا عصا دریا پر مارو آپ نے جب اپنا عصا دریا پر مارا تو دریا پھٹ گیا اس نے راستہ چھوڑدیا۔ درمیان میں خشک راستہ اور ادھر ادھر پانی کی بلندی اتنی عظیم تھی جیسے بڑے بڑے پہاڑ ہوں۔ بنی اسرائیل چونکہ بارہ قبائل تھے ایک ہی راستہ میں ایک دوسرے کے ساتھ چلنا مناسب نہیں سمجھتے تھے اس لیے ہر قبیلہ کے لیے علیحدہ راستہ بنایا گیا، یعنی دریا میں بارہ راستے بنائے گئے۔ ہر راستہ کے دائیں بائیں پانی کی بلندی عظیم پہاڑوں جیسے تھی۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں کیا معلوم ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی زندہ ہیں یا پانی کی طغیانی میں غرق ہوچکے ہیں۔ تو درمیان سے روشن دانوں کی طرح پانی کو ہٹادیا گیا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے دریا عبور کرگئے۔ فرعون اور اس کے لشکر نے بھی دریا میں راستہ دیکھ کر اپنے گھوڑے دوڑائے لیکن وہ بنی اسرائیل کو نہ پاسکے۔

حضرت سائب نے رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرعونیوں اور بنی اسرائیل کے درمیان جبرائیل امین تھے۔ بنی اسرائیل کے پچھلے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال رہے تھے کہ جلدی چلو، اگلے لوگوں سے مل جاؤ۔ اور فرعونیوں کے دلوں میں یہ بات ڈال رہے تھے کہ آہستہ چلو پچھلے لوگوں کو ساتھ ملنے دو بنی اسرائیل جب دریا عبور کر چکے اور فرعونی ابھی درمیان میں ہی پہنچے تھے تو پانی آپس میں مل گیا اس طرح فرعون اور اس کی قوم کے تمام لوگ .....  ایک روایت کے مطابق یہ چھ لاکھ کی تعداد میں تھے ..... غرق ہوگئے۔ بنی اسرائیل یہ تمام ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

فرعون کا غرق ہونے پر ایمان لانا اور قبول نہ ہونا:

وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا حَتّٰۤى اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo آٰلْـٰٔنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَo فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَo (پ ۱۱ سورت یونس ۹۰ ۔ ۹۲)

اور ہم بنی اسرائیل کو دریا میں پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک جب اسے ڈوبنے نے آلیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں۔ کیا اب؟ اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا۔ آج ہم تیری لاش کو اترا دیں گے(تند موجوں سے باہر پھینک دیں گے اور باقی رکھیں گے) کہ تو اپنے پچھلوں کے لیے نشانی ہو اور بیشک لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔

سبحان اللہ! مالک الملک کی کتنی عظیم قدرت ہے؟ کہ وہ شخص..... جو کبھی انا ربکم الاعلٰی (میں تمہارا بڑا رب ہوں) کا دعوی کرتا تھا..... آج جب اس کی گرفت میں آتا ہے، دریا کی طغیانی میں شدید موجوں کے تھپیڑوں میں آتے ہی ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ ایمان لاتا ہے ایک مرتبہ کہا ’’آمنت‘‘ میں ایمان لایا دوسری مرتبہ کہا:

اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْا اِسْرَاءِیْلَ

کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔

تیسری مرتبہ کہا:

وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ

اور میں مسلمان ہوں۔

لیکن یہ اس کا ایمان قبول نہ ہوا؛ کیونکہ رب تعالیٰ کے عذاب کو دیکھ کر، فرشتوں کا سامنا کرتے ہوئے ایمان لانا نفع مند نہیں ہوسکتا۔

فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا

تو ان کے ایمان نے انہیں کام نہ دیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔

رب تعالیٰ نے فرمایا: اب تو ایمان لاتا ہے پہلے نافرمانیاں کرتا رہا اور فساد پھیلاتا رہا، یعنی پہلے تمہیں ایمان لانے کا کتنا وقت دیا؟ کئی مرتبہ تجھے آمائشوں میں مبتلا کرکے ایمان لانے کی طرف سوچنے کے مواقع فراہم کیے، لیکن اس وقت تو ایمان نہ لایا، اب غرق ہونے پر تیرے ایمان لانے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو تیرے جسم کو دریا کی موجوں سے باہر پھینک کر لوگوں کے لیے نشانی بنایا جائے گا۔ سب کو پتہ چل جائے کہ آج خدائی کا دعویدار غرق ہوکر مردہ حالت میں پڑا ہے۔ خدائے حقیقی تو وہ ہوسکتا ہے جو ہمیشہ کے لیے قائم و دائم ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

بنی اسرائیل کی ناشکری:

وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰٓى اَصْنَامٍ لَّهُمْج  قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَo اِنَّ هٰٓؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَo قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَo (پارہ ۹ سورۃ الاعراف ۱۳۸ ۔ ۱۴۰)

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا پار اتارا، تو ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ اپنے بتوں کے آگے آسن مارے تھے بولے: اے موسیٰ علیہ السلام! ہمیں ایک خدا بنادے جیسے ان کے لیے اتنے خدا ہیں، آپ نے فرمایا: تم ضرور جاہل لوگ ہو یہ حال تو بربادی کا ہے جس میں یہ لوگ ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں وہ سرا سر باطل ہے آپ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں زمانے بھر پر فضیلت دی۔

اللہ تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل کے دشمنوں کو ہلاک کردیا جس کا وہ مشاہدہ کررہے تھے انہیں دریا سے سلامتی سے گزار دیا۔ حق تو یہ تھا کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے۔ لیکن رب تعالیٰ نے ان کی جہالت کا تذکرہ فرمایا کہ وہ کتنے جاہل اور ناشکرے لوگ تھے کہ وہ بت پرستوں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ’’ہمیں بھی ایسا خدا بنادو‘‘۔

’’تلک الا صنام تماثیل بقر‘‘

بنی اسرائیل نے جو بت دیکھے تھے وہ گائے کی شکل کے تھے۔(بت پرستی کی طرف ان کے میلان کو دیکھ کر ہی سامری نے انہیں بچھڑے کی پوجا پر لگادیا تھا)

موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ تم تو جاہل لوگ ہو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ عبادت تو اعلیٰ درجے کی تعظیم کا نام ہے اور اعلیٰ درجے کی تعظیم اسی ذات کی ہوسکتی ہے جس کے عظیم انعامات ہوں اور سب سے بڑے انعامات جسم کی تخلیق، زندگی عطا کرنا، خواہشات، قدرت عطا کرنا اور نفع مند اشیاء کا پیدا کرنا ان اشیاء پر قادر سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں اور عبادت کے لائق بھی اس کے سوا کوئی نہی۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)

تورات لینے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کا طور پر جانا:

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں فرعونیوں سے نجات دے گا تو میں تمہیں رب تعالیٰ سے ایک کتاب لاکردوں گا جس میں حرام و حلال، امرو نہی کا ذکر ہوگا اسی وعدہ کے مطابق آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تورات لینے طور پر آئے۔

وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةًج وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَo (پارہ ۹ سورۃ الاعراف ۱۴۲)

اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس رات کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس اور بڑھا کر پوری کیں تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوا اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بھائی ہارون علیہ السلام سے کہا میری قوم پر میرے نائب رہنا اور اصلاح کرنا او فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ فرمایا کہ تم طور پر آؤ تمہیں چالیس دنوں کے بعد کتاب دی جائے گی آپ کو حکم دیا گیا کہ تم تیس دن ایسے نیک اعمال کرنا جو میرے قرب کا ذریعہ بنیں پھر دس دنوں میں تمہیں کتاب عطا کردی جائے گی اس طرح تیس دنوں دنوں کا وعدہ چالیس دنوں تک ہوا۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو ذی القعدۃ کے تیس روزے رکھنے کا حکم دیا جب آپ نے تیس دن کے روزے مکمل کرلیے تو منہ میں بو نا مناسب سمجھ کر مسواک کی، فرشتوں نے کہا کہ ہم تو تمہارے منہ سے کستوری کی خوشبو سونگھ رہے تھے لیکن تم نے مسواک کرکے ضائع کردی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کی:

’’اما علمت ان خلوف فم الصائم اطیب عندی من ریح المسک‘‘

کیا تمہیں معلوم نہیں؟ کہ روزے دار کے منہ کی بو میرے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ذی الحج کے دس روزے اور رکھیں، اس طرح چالیس دن بڑھا کر چالیس کردئیے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جاتے ہوئے اپنے بڑے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب بنایا جو خود بھی مستقل نبی تھے یہ نیابت نبوت میں نہیں تھی بلکہ رسالت میں تھی یعنی حضرت ہارون علیہ السلام فقط نبی تھے اور موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اس لیے آپ نے انہیں اپنے منصب رسالت کا نائب اور خلیفہ بنایا وہ بھی فقط طور سے واپسی تک۔

دوسری وجہ ہے کہ آپ کا ارشاد ایک محاورہ کے مطابق ہے یعنی جس طرح دو شخصوں کے ذمہ کوئی کام لگایا جائے تو ان میں سے ایک نے اگر کہیں جانا ہو تو دوسرے سے کہتا ہے:

’’کن عوضا عنی علی معنی ابذل غایۃ و سعک و نھایۃ جھدک بحیث یکون فعلک فعل شخصین‘‘

تم میری جگہ بھی کام کرنا یعنی بہت زیادہ کوشش سے یہ کام کرنا ایسے پتہ چلے کہ تم دو آدمیوں کی جگہ کام کر رہے ہو۔ (روح المعانی)

رب تعالیٰ کے دیدار کی تمنا:

وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗلا قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْكَ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْج فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا (پارہ ۹ سورۃ الاعراف ۱۴۳)

جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے وعدہ پر حاضر ہوئے اور ان سے ان کے رب نے کلام فرمایا عرض کی اے میرے رب مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھے دیکھوں۔ فرمایا: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا، ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا اسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوکر گر گئے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا البتہ اس کلام کی حقیقت کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ جب موسیٰ علیہ السلام کلام سننے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طور سینا میں حاضر ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے بقدر چار فرسنگ کے ڈھک لیا، شیاطین اور زمین کے جانور یہاں تک کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کر دئیے گئے اور آپ کے لیے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے فرشتوں کو دیکھا اور آپ نے عرش معلیٰ کو دیکھا، لوح محفوظ کو دیکھا، اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا، آپ نے اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کیے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اگرچہ ساتھ تھے لیکن وہ بھی رب تعالیٰ کی قدرت سے موسیٰ علیہ السلام اور رب تعالیٰ کے درمیان ہونے والے کلام کو نہ سن سکے۔

موسیٰ علیہ السلام نے رب تعالیٰ سے کلام کو سن کر ایسی لذت محسوس کی کہ آپ کے دل میں رب تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوگئی اور عرض کی اے اللہ تعالیٰ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں تو مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرما۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے‘‘ یہ نہیں فرمایا: ’’مجھے نہیں دیکھا جاسکتا‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات رب کا دیدار کیا۔ نیز دیکھنے کی نفی دنیا سے متعلق ہے جنت میں مومنین رب تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔

موسیٰ علیہ السلام کا سوال کرنا ہی اس چیز پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ نے ممکن چیز کا سوال کیا اگر رب تعالیٰ کو دیکھنا محال ہوتا تو آپ سوال نہ کرتے۔

رب تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اپنی تجلیات کو ظہور پہاڑ پر کرتا ہوں تم پہاڑ کو دیکھو اگر تم نے پہاڑ کو دیکھ لیا تو سمجھنا کہ مجھے بھی دیکھ لوگے لیکن رب تعالیٰ کی تجلیات کی تاب پہاڑ نہ لاسکا کہ وہ قائم رہتا بلکہ وہ بھی پاش پاش ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بھی ہوش بر قرار نہ رکھ سکے۔ (ماخوذ از خزائن العرفان)

قوم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی:

قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَ اَضَلَّهُمُ السَّامِرِیُّo فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا اَفَطَالَ عَلَیْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْo قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَى السَّامِرِیُّo فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا هٰذَآ اِلٰهُكُمْ وَ اِلٰهُ مُوْسٰى فَنَسِیَo اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْهِمْ قَوْلًا وَّ لَا یَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًاo (پارہ ۱۶ سورۃ طہٰ ۸۵ ۔ ۸۹)

رب تعالیٰ نے کہا ہم نے تیرے آنے کے بعد تیری قوم کو بلا میں ڈالا اور انہیں سامری نے گمراہ کردیا تو موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے غصہ میں بھرے ہوئے افسوس کرتے ہوئے آپ نے کہا اے میری قوم کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہ کیا تھا کیا تم پر لمبی مدت گزری یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب (عذاب) اترے۔ تو تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا انہوں نے کہا ہم نے آپ کے وعدہ کی خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی لیکن ہم سے کچھ بوجھ اٹھوائے گئے اس قوم کے زیورات کے تو ہم نے انہیں ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈالا تو اس نے ان کے لیے بچھڑا بنایا ہے جو بے جان جسم ہے گائے کی طرح بولتا ہے تو بولے یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ علیہ السلام کا معبود موسیٰ علیہ السلام تو بھول گئے تو کیا نہیں دیکھتے کہ وہ انہیں کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور ان کے کسی بُرے بھلے کا اختیار نہیں رکھتا۔

موسیٰ علیہ السلام جب اپنی قوم کے ستر سر کردہ افراد کو ساتھ لے کر طور پر کتاب لینے کے لیے گئے قوم سے چالیس دنوں کا وعدہ کر کے گئے آپ اپنی قوم کے ان افراد سے ذرا جلدی ہی آگے طور پر پہنچ گئے رب تعالیٰ نے پوچھا تم اپنی قوم کے افراد سے پہلے کیوں آگئے تو آپ نے عرض کیا اے مولائے کائنات وہ بھی میرے پیچھے آہی رہے ہیں میں صرف تیری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جلدی آگیا۔ طور پر ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی تھی کہ تمہاری قوم گمراہ ہوچکی ہے آپ کو گئے ہوئے جب بیس دن مکمل ہو گئے تو سامری نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کو گئے بیس دن اور بیس راتیں ہوچکی ہیں چالیس کی تکمیل ہوگئی آپ نہیں آئے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہارے پاس فرعونیوں کے زیورات ہیں وہ تم پر حرام ہیں اس لیے وہ زیورات تم لوگ مجھے دے دو کہ میں ایک خدا بنادوں کیونکہ وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہ قوم ایسا خدا چاہتی ہے جو انہیں نظر آئے۔ یہ خود بھی گائے کی پرستش کرتا تھا اس لیے اس نے تمام زیورات جمع کر کے انہیں ایک بچھڑا بنا دیا۔

بچھڑے کے بولنے کی وجہ:

چونکہ فرعون کے لشکر نے اپنے گھوڑوں کو دریا میں ڈالنے سے سوچ و بچار شروع کردی تھی تو جبرائیل علیہ السلام ایک گھوڑی پر سوار ہو کر آئے وہ جہاں قدم رکھتی تھی وہاں سبز گھاس پیدا ہوجاتی سامری نے یہ ماجرا دیکھ لیا تھا اس لیے اس نے گھوڑی کے سم کے نیچے سے مٹی اٹھا کر محفوظ کرلی تھی وہی مٹی بچھڑے کے ڈھانچے میں ڈال دی تھی جس کی وجہ سے اس میں اثر حیات پیدا ہوگیا اور وہ گائے کی طرح ڈکارنے لگا سامری سے جب موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ یٰسَامِرِیُّo قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْo (پارہ ۱۶ سورۃ طہ ۹۵ ۔ ۹۶)

سامری تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا میں نےوہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا۔ تو ایک مٹھی بھرلی فرشتے کے نشان سے، پھر اسے ڈال دیا اور میرے جی کو یہی بھلا لگا۔

گھوڑی کے قدموں کے نشانات سے مٹی لینا:

علامہ قرطبی نے بھی یہی بیان کیا ہے کہ سامری نے جبرائیل علیہ السلام کی گھوڑی کے قدموں کے نشان کی جگہ سے ایک مٹھی بھر مٹی لے کر بچھڑے کے ڈھانچے میں ڈالی۔ (قرطبی جلد ۱۱ ص ۲۳۹)

خیال رہے کہ سب سے پہلے اس قول (گھوڑی کے قدموں کے نشان سے مٹی لینا) کو ابو مسلم اصفہانی نے تسلیم نہیں کیا جو بہت بڑا معتزلی ہے۔ پھر اس قول کا سہارا لیتے ہوئے مودودی صاحب نے تفھیم القرآن میں بھی یہی تحریر کردیا کہ سامری نے موسیٰ علیہ السلام سے جھوٹ موٹ کہہ دیا تھا۔

مودودی صاحب کی یہ سوچ غلط ہے۔ قرآن پاک نے اگرچہ واضح طور پر اس قول کو نقل بھی نہیں کیا لیکن رد بھی نہیں کیا اس لیے متقدمین حضرات کی تفاسیر کو چھوڑ کر ایک معتزلی کی بات کو تسلیم کرنا بھی کوئی عقل و دانش کا کام نہیں۔

واپسی پر موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کی سرزنش کی:

وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْج اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْج وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗٓ اِلَیْهِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo (پارہ ۹ سورۃ الاعراف ۱۵۰ ۔ ۱۵۱)

اور جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے غصہ میں بھرے جھنجھلائے ہوئے، کہا تم نے کیا میری جانشینی کی، میرے بعد کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی اور (آپ نے) تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سرکے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے (ہارون علیہ السلام نے) کہا: اے میرے ماں جائے! قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمن کو نہ ہنسا اور مجھے ظالموں میں نہ ملا۔ عرض کی اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں لے لے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کی گمراہی کو دیکھ کر حمیت دینی اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اتنے شدید غصہ میں آئے کہ آپ سے بے اختیار توراۃ کی تختیاں گر گئیں اور اسی بے اختیاری کی صورت میں اپنے بڑے بھائی کے سر اور داڑھی کو پکڑکر کھینچنے لگے یہی وجہ ہے کہ آپ کو اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا بلکہ مدح کے ضمن میں آیا آخر کار بھائی کے عذر پیش کرنے پر ان کی دلجوئی کے لیے رب تعالیٰ کے حضور دعا کی اے اللہ تعالیٰ مجھ سے غصہ کی حالت میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو یا میرے بھائی سے قوم سے عاجز آنے کی وجہ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو معاف فرمادے۔ (ماخوذ از روح المعانی)

سامری کی سزا:

قَالَ فَاذْهَبْ فَاِنَّ لَكَ فِی الْحَیٰوةِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ وَ اِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَهٗ

(موسیٰ علیہ السلام نے سامری کو) کہا تو چلتا بن کہ دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہے کہ تو کہے چھونا نہیں اور بے شک تیرے لیے (آخرت میں) ایک وعدہ کاوقت ہے۔

سامری کی دنیا میں یہ سزا مقرر ہوئی کہ جو شخص اس کے قریب آکر اسے ہاتھ لگاتا وہ شخص اور یہ شدید بخار میں مبتلا ہوجاتے اس لیے یہ دور سے آتے ہوئے شخص کو دیکھ کر کہتا مجھ سے مصافحہ نہ کرنا مجھے چھونا نہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگوں کے درمیان ایک وحشی جانور کی حیثیت میں ہوگیا لوگوں نے اس سے میل ملاقات اس کے ساتھ مل کر کھانا اس کے ساتھ خرید و فروخت اور اس کے ساتھ کلام کرنا چھوڑ دیا یعنی ہر قسم کے معاملات جولوگوں کے درمیان ہوتے ہیں وہ اس سے منقطع کر دئیے گئے اور اخروی سزا جس نے ضرور واقع ہونا ہے جس نے معاف بھی نہیں ہونا وہی سزا ہوگی جو مشرک کی ہوگی بلکہ اور لوگوں کو مشرک و گمراہ بنانے کی وجہ سے اس سزا میں شدت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًاo (پ ۵ سورۃ نساء ۱۱۶)

اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے (شرک کے بغیر ہر قسم کے گناہ) جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہے۔

فائدہ:

موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دنوں کے بعد تورات عطا کی گئی کہ آپ چالیس دن دنیا والوں سے الگ تھلگ ہوکر اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہیں، اس طرح اس کے ذکر و فکر سے آپ کے قلب و روح کو ایک خاص قسم کی قوت حاصل ہوجائے جو اس عظیم بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہوجائے۔

’’ان للا ربعین خصوصیۃ فی اختصاص الکلام للأ نبیاء کما ان لھا اختصاصا فی ظھور ینابیع الحکمۃ من قلوب الاولیا کقولہ علیہ السلام من اخلص للہ اربعین صبا حا ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ‘‘ (از روح البیان)

بیشک چالیس کو ایک خصوصیت حاصل ہے اسی وجہ سے انبیائے کرام کو چالیس سال کی عمر میں نبوت کے اعلان کا حکم دیا جاتا رہا ان سے رب تعالیٰ کا کلام بذریعہ وحی اسی عمر میں ہوا پھر اولیاء عظام کا بھی یہی معمول ہے کہ وہ چلا کشی کرتے ہیں یعنی چالیس روز تک دنیا سے علیحدہ ہوکر فقط رب تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوتے ہیں تو ان کے دلوں پر حکمت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص چالیس صبح خلوص سے (دنیا سے الگ تھلگ ہوکر) اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اس کے دل سے اس کے زبان پر حکمت کے چشمے نمودار ہوجاتے ہیں۔

کاش کہ لوگوں کو یہ سمجھ آجائے کہ چالیس دن تک فوت شدہ کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کرتے رہنا پھر چالیس پر اس کے لیے اجتماعی دعا کتنی مقبولیت کا سبب ہوگی خیر بد قسمت کے لیے دعا کا اہتمام نہیں کیا جاتا ہمیں ان لوگوں سے جھگڑنے کی ضرورت نہیں۔

بنی اسرائیل کو توبہ کا حکم:

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo (پ ۱ سورت بقرہ ۵۴)

اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ (توبہ کرو) تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے بہترہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

الغرض موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو حکم دیا ’’انکم ظلمتم انفسکم‘‘ کہ تم نے بچھڑے کی پوجا کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا اب تم اپنے رب تعالیٰ کی طرف توبہ کرو اور تمہاری توبہ کی صورت یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو چنانچہ توبہ کرنے والوں نے اسی طرح توبہ کی کہ ہر ایک کے ہاتھ میں تلوار تھی بلا امتیاز ہر ایک نے دوسرے کو قتل کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور ہر قاتل و مقتول نے شہادت کا مرتبہ پایا۔

موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کو ذبح کر کے اس کا خون بہایا اور ہڈیوں کا ریتی سے برادہ کر کے جلا دیا اور خاکستر پانی میں بہادی موسیٰ علیہ السلام کا بچھڑے کو ذبح کر کے اس کا خون بہانا اس بات کی دلیل ہے کہ سونے چاندی کی دھات سے بنا ہوا اس کا جسم گوشت اور ہڈیوں میں تبدیل ہوگیا اور اس میں حیات پیدا ہوگئی بعض نے کہا کہ ریتی سے اس کا برادہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا جسم دھات سے گوشت اور ہڈیوں میں تبدیل نہیں ہوا لیکن یہ دلیل اس لیے ضعیف ہے کہ دھات کا ہی برادہ نہیں کیا جاتا بلکہ ریتی سے ہڈی کا برادہ بھی کیا جاتا ہے قدما مفسرین کے مطابق صحیح یہی ہے کہ وہ بچھڑا دھات سے گوشت اور ہڈی میں تبدیل ہوگیا تھا قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ مقولہ: .....

 وَ انْظُرْ اِلٰٓى اِلٰهِكَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهٗ (پ ۱۶ سورت طہٰ ۹۷)

اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو دن بھر آسن مارے رہا قسم ہے ہم ضرور اسے جلائیں گے پھر ریزہ ریزہ کر کے اسے دریا میں بہائیں گے .....

اپنے ظاہر الفاظ کے ساتھ قدماء مفسرین کے قول کی تائید کرتا ہے۔ (روح المعانی پ ۱۶ ص ۲۵۷، تبیان پ ۱، ص ۲۰۶)

بنی اسرائیل کی پشیمانی کے بعد بھی کج روی:

بچھڑے کی پوجا کرنے اورموسیٰ علیہ السلام کی سرزنش کرنے کے بعد وہ لوگ بہت پشیمان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کے بہترین ستر افراد کو ساتھ لے کر طور پر آجائیں تاکہ وہ تمام قوم کی طرف سے بچھڑے کی پوجا کے جرم کی معانی طلب کریں۔ آپ ان کو جب ساتھ لے کر گئے تو انہوں نے کہا اے موسیٰ علیہ السلام تم اپنے رب تعالیٰ سے سوال کرو یہاں تک کہ ہم بھی اس کے کلام کو  سنیں۔ موسیٰ علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام نے رب تعالیٰ کے حضور عرض کیا تو اسے قبول کرلیا گیا۔

جب آپ پہاڑ کے قریب پہنچے تو ستون کی شکل میں بادل نمودار ہوا جس نے تمام پہاڑ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بادل کے قریب ہوئے یہاں تک کہ اس میں داخل ہوگئے موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے رب تعالیٰ سے کلام کیا تو آپ کی پیشانی سے ایک نور چمکنے  لگا انسانوں میں سے کوئی ایک اسے دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ قوم نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنا جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو کہا یہ کرو اور یہ نہ کرو جب کلام کا سلسلہ ختم ہوا تو بادل کو اٹھا لیا گیا۔

قوم نے کہا ’’لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ‘‘ ہم ہرگز تمہارا نہیں یقین کریں گے جب تک اللہ تعالیٰ کو ظاہر نہیں دیکھ لیں گی تو ان کو بجلی کی کڑک نے اپنی گرفت میں لے لیا اور سب مر گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔ اور عرض کیا اے اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے ستر آدمیون کو منتخب کر کے لایا تھا تاکہ ان کی توبہ کے قبول ہونے پر میرے گواہ بنیں اب میں ان کی طرف واپس جاؤں گا تو میرے ساتھ کوئی ایک بھی جب نہیں ہوگا تو وہ میرے متعلق کیا خیال کریں گے موسیٰ علیہ السلام دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو لوٹا دیا۔

خیال رہے کہ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام جب تورات لینے کے لیے طور پر گئے اس وقت ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر گئے پھر واپس لوٹنے پر قوم کے بچھڑے کی پوجا کرنے کے بعد لے کر گئے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ پہلے ان آدمیوں کو لے کر گئے پھر انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کر کے توبہ کی یا توبہ کے واقعہ کے بعد لے کر گئے۔ (از تفسیر کبیر پ ۱ ج ۳ ص ۸۴)

رہا یہ امر کہ بعض آیات قرآنیہ کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کے بعد دنیوی حیات حاصل نہیں ہوتی ان آیات میں اسی عادت الٰہیہ کا قانون عام کا بیان ہے لیکن خرق عادت بھی کتاب و سنت ہے ثابت ہے اور بعض امور کا قانون خاص کے تحت ہونا قرآن و حدیث سے واضح ہے اس لیے یہاں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کی دنیوی مدت عمر علم الٰہی میں باقی تھی اور بطور سزائے معصیت یا کسی دوسری حکمت کی وجہ سے ان پر موت طاری کی گئی ان لوگوں کو مرنے کے بعد دنیا میں دوبارہ زندگی عطا کی جاتی ہے اور جن لوگوں کو دنیوی مدت عمر علم الٰہی میں پوری ہوچکی ان کو دنیا میں دوبارہ زندگی نہیں دی جاتی ہے۔ (تبیان پ اول ص ۲۰۷)

قوم کا احکامِ خدا وندی ماننے سے انکار:

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَo (پ ۱ سورت بقرہ ۶۳)

اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا اور طور (پہاڑ) کو تمہاے اوپر اٹھایا کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا (اسے) مضبوطی سے پکڑو اور جو اس میں ہے (اسے) یاد کرو تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔

اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی ایک اور اشد ترین بغاوت و سرکشی کا ذکر فرمایا وہ یہ کہ اس قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے خود ہی مطالبہ کیا کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی کتاب آنی چاہیے جس کے احکام کے مطابق ہم اپنی زندگی بسر کریں اور ان احکام کی روشنی میں فلاح اور بھلائی کی راہ پائیں۔ موسیٰ علیہ السلام جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات لائے تو اس میں ان کی طبعی سرکشی اور طغیان کے لحاظ سے کچھ بھاری احکام بھی تھے مگر ایسے نہیں جو نا قابل عمل ہوں بلکہ ان کی حالت کے مناسب اور حکمت الٰہیہ کے عین مطابق تھے بنی اسرائیل نے صرف بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام نے پہاڑ کا ایک حصہ ان پر اٹھالیا اور ارشاد ہوا۔

’’خذوا ما آتینٰکم بقوۃ‘‘ ہم نے تمہیں جو کچھ دیا اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑلو۔ اس پر ان سے پختہ عہد لیا گیا لیکن انہوں نے اس عہد کو بھی توڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے باطنی فساد کو خوب اچھی طرح ظاہر کرنے اور انہیں رسوا کرنے کے لیے قرآن مجید میں الفاظ ’’رفعنا‘‘ کے ساتھ ان پر پہاڑ اٹھالینے کا ذکر بار بار فرمایا۔

خیال  رہے کہ بعض لوگوں نے یہاں سے مراد زلزلہ لیا ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ جب لفظ کا حقیقی معنی مراد لیا جاسکتا ہے تو مجازی معنی لینا جائز نہیں۔

قرآن پاک میں اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے تین مرتبہ ’’رفعنا‘‘ اور ایک مرتبہ ’’نتقنا‘‘ ذکر کیا گیا اگر آیت کریمہ میں یہی مشہور و متعارف معنی مراد نہ لیے جائیں تو قرآن پاک میں اس واقعہ میں تینوں جگہ لفظ ’’رفعنا‘‘ بے معنی ہوکر رہ جائے گا کیونکہ صرف پہاڑ کا بلند ہونا معنی مراد نہیں اس لیے کہ پہاڑ تو پیدائشی طور پر بلند ہی ہیں یہی ہوسکتا ہے کہ پہاڑ ان کے سروں پر سائبان کی طرح بلند کیا گیا یہی معنی ’’ نتقنا‘‘ کا بھی صحیح ہو سکتا ہے یعنی ہم نے پہاڑ کو جڑوں سے اکھیڑ کر بلند کردیا یہی تفسیر متقدمین مفسرین کرام کی ہے تعجب ہے ان لوگوں پر جو متقدمین علماء کرام اسلام کی تحقیقات کو پس پشت ڈال کر یہود انصاری کی بے بنیاد کتابوں اور جدید ملحدانہ نظریات پر اعتماد کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مادہ پرستی اور لا دینی افکار سے متاثر ہوکر محض عقل ناتمام اور ناقص تجربات پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں جن کی نظر میں علماء متقدمین اور اسلاف کی تحقیقات کوئی وقعت نہیں رکھتی وہی لوگ کتاب و سنت کی نصوص میں غلط تاویلیں کر کے خود بھی گمراہی کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر کے ’’ضلوا فا ضلوا‘‘ (خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو گمراہ کیا) کا مصداق بن جاتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

واضح رہے کہ پہاڑ کو اس جگہ  سے اکھاڑ کر بلند کرنااس لیے نہ تھا کہ تورات کے احکام ان سے جبراً منوائے جائیں بلکہ محض ان کی اور طغیان کی وجہ سے تھا لہذا اس آیت کریمہ کا ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ دین میں کوئی جبر نہیں سے کوئی تعارض نہیں۔ (از تبیان)

عمالقہ سے جہاد کا حکم اور بنی اسرائیل کی رو گردانی:

یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَo قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَo قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَج فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَo قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo (پ ۶ سورت مائدہ ۲۱ ۔ ۲۵)

(موسیٰ علیہ السلام نے کہا) اے میری قوم داخل ہوجاؤ اس پاک زمین میں جسے لکھ دیا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اور نہ پیچھے ہٹو پیٹھ پھیرتے ہوئے ورنہ تم لوٹو گے نقصان اٹھاتے ہوئے۔ کہنے لگے اے موسیٰ علیہ السلام اس زمین میں تو بڑی جابر قوم (آباد) ہے اور ہم ہر گز داخل نہ ہوں گے اس میں جب تک وہ نکل نہ جائیں وہاں سے اور اگر وہ نکل جائیں اس سے تو پھر ہم ضرور داخل ہوں گے۔ (اس وقت کہا) کہا دو آدمیوں نے جو (اللہ سے) ڈرنے والوں سے تھے، انعام فرمایا تھا اللہ تعالیٰ نے جن پر کہ، (بے دھڑک) داخل ہوجاؤ ان پر دروازے سے اور جب تم داخل ہوگے دروازے سے تو یقیناً تم غالب آجاؤ گے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اگر ہو تم ایماندار۔ کہنے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم تو ہر گز داخل نہ ہوں گے اس میں قیامت تک جب تک وہ وہاں ہیں پس جاؤ تم اورتمہارا رب اور دونوں لڑو ان سے، ہم تو یہاں ہی بیٹھیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے رب میں مالک نہیں ہوں سوائے اپنی ذات کے اور اپنے بھائی کے پس جدائی ڈال دے ہمارے درمیان اور اس نافرمان قوم کے درمیان۔

بنی اسرائیل کا اصل آبائی وطن مالوف ملک شام تھا۔ یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ لوگ مصر آکر مقیم ہوئے اور وہاں مختلف حالات سے گزرتے رہے فرعون مصر کی غلامی کا کٹھن دور بھی ان لوگوں نے مصر میں گزارا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے انہیں نجات دلائی فرعون دریا میں غرق ہوا اور بنی اسرائیل نے اطمینان کا سانس لیا اس دوران ملک شام پر قوم عمالقہ قابض ہوچکی تھی اور انہوں نے وہاں تسلط قائم کرلیا تھا فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ عمالقہ سے جہاد کر کے ان سے اپنا اصل وطن آزاد کرائیں اور وہاں جا کر مقیم ہوجائیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں کے لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے بارہ نقیب (سردار) روانہ کیے جو چالیس روز تک وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرتے رہے جب واپس آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں فرمایا کہ قوم کے سامنے برملا ایسی کوئی بات نہ کہنا جس سے ان کے حوصلے پست ہوں لیکن بارہ میں سے دس نے وہاں کے لوگوں کی قوت و جبروت ان کی قد و قامت ان کے قلعوں کی مضبوطی کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بنی اسرائیل چلا اٹھے اور انتہائی بے باکی سے اپنے پیغمبر کو کہہ دیا کہ ہم ایسی جابر قوم سے ٹکر لے کر اپنے بچوں کو یتیم اور اپنی بیویوں کو بیوہ کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ آپ اور آپ کا خدا پہلے ان سے جا کر لڑیں ان سے ملک کو پاک کریں تو پھر ہم اپنے آبائی وطن کا رخ کریں گے انہوں نے کہا ہم شام کی زرخیز زمینوں ٹھنڈے پانی کے ابلتے ہوئے چشموں اور پھلوں سے لدے ہوئے باغات اور وہاں کی عزت کی زندگی سے باز آئے ہم تو واپس مصر جاتے ہیں۔

دوسرے دو سرداروں حضرت یوشع بن نون اور کالب نے بہت سمجھایا کہ نا مرد نہ بنو۔ ذرا ہمت کر کے دشمن کے شہر کے دروازے سے داخل ہوکر حملہ کر کے دیکھو۔ نصرت الٰہی کس طرح تمہارے دشمنوں کو کچل کر رکھ دیتی ہے لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا جب وہ عمالقہ کی طاقت کا حال سن کر دل چھوڑ بیٹھے اور جہاد سے منہ موڑ کر واپس لوٹے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جرم کی سزا یوں دی کہ وہ اپنے گھروں تک واپس نہ پہنچ سکے اور چالیس برس تک وادی تیہ میں حیران و پریشان گھومتے رہے۔

’’تیہ‘‘ مصر اور شام کے درمیان ایک وسیع اور کھلا میدان تھا۔ تیہ کے معنی ہی حیرانی و پریشانی کے ہیں۔ بنی اسرائیل اس میدان میں چالیس سال تک انتہائی حیرانی اور پریشانی کے عالم میں سر گرداں رہے اسی لیے اسے وادی تیہ کہا جاتا ہے بنی اسرائیل اپنے گھروں تک جانے کی فکر میں دن بھر سفر کرتے رات بسر کرنے کے بعد صبح اپنے آپ کو وہیں پاتے جہاں سے گزشتہ صبح انہوں نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ (از تبیان و ضیاء القرآن)

بنی اسرائیل کی سرکشی کے باوجود ان پر انعامات:

وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَo (پ ۱ سورت بقرہ ۵۷)

اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کردیا اور من اور سلوی تم پر اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی پاک چیزوں سے اور انہوں نے (ہماری نا فرمانی) کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا، ہاں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔

بنی اسرائیل کی انتہائی سرکشی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان پر بے شمار انعامات فرمائے اس آیت کریمہ میں جن نعمتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق میدان تیہ سے ہے جہاں وہ چالیس برس تک پریشان حالی اور سر گردانی میں رہے اس وادی میں نہ کوئی سایہ ہے، نہ کوئی درخت، نہ ہی کوئی عمارت، نہ پینے کے لیے پانی، نہ کھانے کے لیے کوئی چیز، نہ روشنی تھی اورنہ ضروریات زندگی کے دیگر لوازمات۔ اس بے سر و سامانی اور غریب الوطنی کے عالم میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان کے لیے سب سامان مہیا ہوگئے اللہ تعالیٰ نے دھوپ سے بچاؤ اور سایہ کے حصول کے لیے بادل بطور سائبان نازل فرما دیا کھانے کے لیے من سلوی بھیج دیا من و سلوٰی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں صحیح یہی ہے کہ من سے مراد ترنجبین ہے جو ایک نفیس شیریں ذائقہ دار مادہ تھا جو شبنم کی طرح صبح کے وقت آسمان سے اترتا اور کثیر مقدار میں چھوٹے چھوٹے درختوں پر منجمد ہو جاتا تھا سلوی کے بارے میں متعدد اقوال ہیں صحیح یہی ہے کہ وہ بٹیر تھا بعض نے کہا کہ وہ بھنا ہوا اترتا تھا اور بعض کا قول ہے کہ بکثرت زندہ پرندے ان کے پاس جمع ہوجاتے تھے وہ انہیں زندہ پکڑ لیتے اور ذبح کرتے تھے۔ الغرض من اور سلوی ان کی شیریں اور نمکین لطیف غذائیں تھیں جنہیں شکم سیر ہو کر وہ کھاتے تھے تاریکی دور کرنے کے لیے عمودی شکل میں ایک روشنی ظاہر ہوجاتی تھی لباس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی اعجازی شان اس طرح ظاہر فرمائی کہ نہ ان لوگوں کے کپڑے میلے ہوتے اور نہ ہی پھٹتے اور ان کے بچوں کے جسم کے ساتھ بچوں کا لباس بھی بڑھتا رہتا تھا۔

وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ

یہاں لفظ ’’فعصوا‘‘ محذوف ہے یعنی اتنے عظیم و جلیل احسانات و انعامات کے باوجود انہوں نے نا فرمانیاں کیں اور اپنی نا فرمانیوں سے انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا ہاں وہ اپنے (آپ) ہی کو نقصان پہنچاتے رہے۔ (قرطبی ج ۱ از تبیان)

پتھر سے پانی نکالنا:

وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَo (پ ۱ سورت بقرہ ۶۰)

اور جب پانی طلب کیا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے تو ہم نے فرمایا اپنا عصاء اس پتھر پر مارو تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ بے شک ہر گروہ نے پانی پینے کی اپنی جگہ کو پہچان لیا۔ کھاؤ اور پیئو اللہ (تعالیٰ) کے رزق سے اور نہ پھرو زمین میں فساد کرتے ہوئے۔

میدان تیہ میں چھ لاکھ کی تعداد میں بارہ میل پر پھیلے ہوئے لشکر جب پیاس کی شدت محسوس ہوئی تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنی بے بسی کا ذکر کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کیا اور حکم دیا کہ اے موسیٰ(علیہ السلام) اپنا عصا پتھر پر مارہ پانی جاری ہوجائے گا آپ نے اپنا عصا پتھر پر مارا تو بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ ہر قبیلے نے ایک ایک چشمہ اپنے لیے مختص کرلیا پتھر سے جاری ہونے والا پانی اتنی بڑی تعداد کے لوگوں کے لیے کافی تھا پتھر مکعب شکل کا تھا اور ہر طرف سے تین تین چشمے جاری ہوئے یہ پتھر کوئی خاص معین تھا یا کہ عام پتھر تھا اگرچہ اس میں مختلف اقوال تو ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ قرآن پاک میں کسی پتھر کو مختص جب نہیں کیا گیا تو وہ پتھر عام تھا۔ (تفسیر ابی السعود)

میدان تیہ سے نجات اور ان کی سرکشی:

وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْط وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَo فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَo (پ ۱ سورت بقرہ ۵۸ ۔ ۵۹)

اور جب ہم نے فرمایا اس شہر میں چلے جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو با فراغت کھاؤ اور تم داخل ہو دروازے میں سرجھکائے ہوئے اور کہو ’’حطۃ‘‘ (ہمارے گناہوں کو معاف کر) ہم تمہارے گناہوں کو بخشش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو عنقریب ہم زیادہ دیں گے تو بدل دیا ظالموں نے اس بات کو  جوان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے تو ہم نے ظالموں پر آسمان سے عذاب اتارا کیونکہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔

اس میں اختلاف ہے کہ وہ بستی کون سی تھی اور کس زمانے میں بنی اسرائیل نے اسے فتح کرلیا، بائیبل کی تصریح یہ ہے:

’’اس شہر کو بنیا سرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے اخیر زمانہ میں فتح کیا اور وہاں بڑی بدکاریاں جن کے نتیجہ میں خدا نے ان پر وبا بھیجی اور جوبیس ہزار آدمی ہلاک کر دئیے‘‘۔

ایک چیز قرآن کا مطالعہ کرتے وقت ہمیشہ نظر رھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ قرآن جن واقعات کا ذکر کرتا ہے اس سے مقصود صرف عبرت و موعظت ہوتی ہے اس سے اس واقعہ کی تاریخی حیثیت کا بیان مطلوب نہیں ہوتا اس لیے قرآن ان واقعات کے صرف ان پہلوؤں کو بیان کرتا ہے جن میں درس عبرت ہو عموما غیر ضروری تفصیلات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو لوگ قرآن حکیم کی اس خصوصیت کو ملحوظ نہیں رکھتے وہ قصص قرآنی میں تاریخی کتب کی طرح تفصیلات کا تسلسل اور زمان و مکان کا تعین نہیں پاتے تو وہ طرح طرح کے شکوک و شہبات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ (از ضیاء القرآن)

جب موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا واقعہ مراد لیا جائے تو بستی سے مراد ریحا ہوگی کیونکہ موسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں داخل نہیں ہوئے، اگر بیت المقدس مراد لیا جائے تو یہ واقعہ حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کے زمانے سے متعلق ہوگا۔ رب تعالیٰ نے اس قوم کو کہا کہ جب تم شہر میں داخل ہو تو سجدہ کرتے ہوئے عجز و انکساری سے داخل ہونا اور زبان سے ’’حطۃ‘‘ کہنا لیکن قوم نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سرکشی سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کے بجائے اپنی سرینوں کے بل گھسیٹتے ہوئے داخل ہونا اختیار کیا اور ’’حطۃ‘‘ کہنے کی جگہ ’’حنطۃ‘‘ (ہمیں گندم چاہیے) کہا ان کی سرکشی اور حدود سے تجاوز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے طاعون کا عذاب بھیجا جس سے وہ چوبیس ہزار کی تعداد میں مر گئے۔ (از کبیر)

من و سلوٰی سے اعراض اور ذلت کا تسلط:

وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَ قِثَّآىِٕهَا وَ فُوْمِهَا وَ عَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَیْرٌط اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْط وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُق وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَo (پ ۱ سورت بقرہ ۶۱)

جب تم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا اے موسیٰ ہم سے ایک کھانے پر ہر گز صبر نہ ہوگا تو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کیجیے کہ وہ (من و سلوی کی بجائے) ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزیں پیدا کرے زمین کی سبزی (ترکاری)، ککڑی، گندم، مسور اور پیاز فرمایا کیا تم ادنیٰ (گھٹیا) چیز کو بہتر کے بدلے مانگتے ہو، اترو شہر میں تو بے شک (وہاں) تمہیں ملے گا جو تم نے مانگا اور ڈال دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں آگئے یہ اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ اس لیے (بھی) کہ وہ نا فرمانی کرتے اور حد سے بڑھتے تھے۔

یہ بات بھی بنی اسرائیل نے میدان تیہ میں کہی تھی۔ (قرطبی ج ۱ ص ۴۲۲)

بنی اسرائیل عرصہ دراز تک بلا ناغہ من و سلوی کھاتے رہنے کی وجہ سے اکتا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہم اب ایک ہی قسم کے کھانے پر صبر نہ کرسکیں گے من و سلوی کی دو مختلف قسم کے کھانوں کو ایک کھانا اس لیے کہا گیا کہ دونوں قسم کے کھانے وہ ایک ساتھ کھاتے تھے یا اس لیے کہ ہر روز بطور غذا انہیں یہی دو چیزیں ملتی تھی یہ نفیس کھانا باقی کھانوں سے بہتر تھا لیکن بنی اسرائیل کے اصرار پر ارشاد ہوا ’’اھبطوا‘‘ تم مصر میں اتر جاؤ جو کچھ تم نے مانگا وہ تمہیں وہاں ملے گا اس مصر کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ فرعون کا مصر تھا یا کوئی اور شہر رائج ہے کہ اس سے غیر متعین شہر مراد ہے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وادی تیہ کے قریب کوئی شہر تھا جس میں عارضی طور پر جانے کا حکم ان کی خواہش کے مطابق دیا گیا تھا بڑھتی ہوئی نفسانی خواہشات کی بناء پر طاعت اور بندگی کی حدود سے بار بار یہود کا تجاوز اور طغیانی ان کے حق میں دائمی ذلت و مسکنت (مسکینی) پر منتج ہوا۔

قوم یہود پر ذلت و مسکنت کا مسلط ہونا ایسی حقیقت ثابتہ ہے جس کا انکار واقعات کی روشنی میں کوئی اہل انصاف نہیں کرسکتا قرآن مجید میں بھی (علی روس الاشہاد) واضح شہادت سے فر مارہا ہے کہ ذلت و مسکنت اور دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کا غضب ان کے حق میں مقدر ہوچکا ہے دنیا جانتی ہے کہ یہودی کی تاریخ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں سے بہت پرانی اور قدیم ہے ابتداء سے لیکر آج تک ان کی تاریخ کو سامنے رکھ لیجیے کوئی دوران کا ذلت و مسکنت سے آپ کو خالی نظر نہیں آئے گا حالانکہ ان میں ایک طبقہ بہت بڑا سرمایہ دار ہے لیکن انتہائی بخیل اور حریص بخیل کتنا ہی مالدار ہو مگر بخل کی وجہ سے وہ ہمیشہ مسکینی کی ہئیت پر رہتا ہے اور حریص کمال حرص کے سبب ہر جائز و نا جائز طریقہ سے مال جمع کرنے کی فکر میں رنج و تعب (مصیبت اور مشقت) میں مبتلا رہتا ہے پھر یہ کہ سب یہودی مال دار نہیں بلکہ بہت سے یہود فقر و مسکنت کا شکار ہیں۔ حیوانیت و بر بریت، ظلم و جور، دکھی انسانیت پر لرزہ خیز مظالم ان کی طبائع میں مرکوز ہیں۔ عہد شکنی، وعدہ خلافی ان کا طرۂ امتیاز ہے، ان کے ظلم و ستم کے باعث اقوام عالم کی نظروں میں وہ لائق گردن زنی (گردن اڑادینے کے قابل) رہے ہیں اسی لیے ان کی پوری تاریخ میں ایسا کوئی وقت نہیں آیا کہ ان کے جرائم کی پاداش میں لوگ انہیں قتل کرنے اور سخت تکلیفیں پہنچانے کے درپے نہ رہے ہوں قرآن مجید کے اعلان کے مطابق یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا جیسا کہ سورۃ الاعراف میں فرمایا

وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ o (پ ۹ سورت اعراف ۱۶۷)

یعنی آپ کے رب تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ وہ ان یہود پر قیامت تک ایسے لوگوں کو بھیجتا رہے گا جو انہیں بد ترین عذاب دیں گے۔

اس زمانہ میں بھی جب کہ یہود کی نام نہاد حکومت فلسطین میں قائم ہے مظلوم فلسطینی ہر وقت ان کی تاک میں رہتے ہیں گویا وہ یہودیوں پر مسلط رہتے ہیں جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ یہود کو تکلیفیں پہنچانے قتل کرنے اور قیدی بنانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور یقیناً یہ صورت حال قیامت تک جاری رہے گی البتہ ان کے جان و مال کی بے حرمتی سے بچنا اللہ تعالیٰ کی رسی کے سہارے ہوسکتا ہے یا اس کے علاوہ ذلت و خواری  سے محض بظاہر محفوظ رہنا لوگوں کی رسی کے ذریعے ممکن ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِo (پ ۴ سورت آل عمران ۱۱۲)

یعنی وہ جہاں بھی پائے جائیں ذلت ان پر مسلط کردی گی بجز اللہ کی رسی اور لوگوں کی رسی کے اللہ تعالیٰ کی رسی سے مراد قرآن اور اسلام ہے قرآنی اور اسلامی حکم ہے۔

وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُo (پ۱۰ سورت توبہ ۶)

یعنی اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو اور ارشاد فرمایا

حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَo (پ ۱۰ سورت توبہ ۲۹)

یعنی (اگر ثہ پناہ طلب نہ کریں تو) ان کا مال و جان محفوظ نہیں یہاں تک کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔

اگرچہ پناہ مانگنا اور جزیہ ادا کرنا دونوں باتیں موجب ذلت ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے دین میں مستامن اور ذمی کا جان و مال بے حرمتی سے محفوظ رہتا ہے۔ اور لوگوں کی رسی سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلم لوگ ان سے معاہدہ کر کے ان کی حفاظت کا ذمہ اٹھالیں جیسا کہ آج کل بعض غیر مسلم بڑی طاقتوں نے یہود سے معاہدہ کر کے ان کی حفاظت ذمہ اٹھایا ہوا ہے، جس کی بل بوتے پر فلسطین میں یہود کی بے بنیاد حکومت کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ اگر وہ لوگ آج اپنا معاہدہ ختم کردیں تو یہ نام نہاد حکومت باقی نہ رہے۔

بعض مفسرین نے ’’لوگوں کی رسی‘‘ کا مفہوم ’’جزیہ‘‘ بیان کیا ہے ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی رسی اور لوگوں کی رسی ایک ہی قرار پائے گی حالانکہ انسب یہ ہے کہ یہ دونوں علیحدہ ہوں۔ (ملخصاً البحر المحیط ج ۳ ص ۳۲، ابن کثیر ج ۱ ص ۳۹۶)

غالباً اسی لیے قرآن مجید میں ’’وحبل من المسلمین کی بجائے وحبل من الناس‘‘ فرمایا گیا ہے ایسی حکومت کا قیام قرآن کی پیشگوئی کے خلاف ہرگز نہیں بلکہ حبل من الناس کے الفاظ میں اس مسئلہ میں قرآنی صداقت کا اعلان کر رہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ قرآن کے مطابق محض لوگوں کے سہارے فلسطین میں بے بنیاد اسرائیلی حکومت قائم ہے جو آج بھی حقیقی ذلت و مسکنت اور اللہ تعالیٰ کے غضب میں مبتلا ہے اور یقیناً آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے غضب میں یہ لوگ مبتلا ہوں گے۔

 وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ

اور نبیوں کا ناحق قتل کرتے تھے

’’بغیر الحق‘‘ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انبیائے کرام علیہم السلام سے کوئی ایسا کام سرزد ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے اس کا قتل حق قرار پائے کیونکہ انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہیں ان سے کوئی ایسا کام نہیں ہوسکتا یہاں بغیر الحق فرماکر انبیاء کے قاتلین کے فعل کا وصف بیان فرمایا کہ وہ ناحق تھا۔ (قرطبی ج ۱، ص ۴۳۲)

اس آیت سے ثابت ہوا کہ انبیاء کا قتل ان کی نبوت کے خلاف نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وعدۂ الٰہیہ ..... ’’واللہ یعصمک من الناس‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا ..... حضور کی خصوصیات سے ہے، ورنہ نفس قتل کا نبی پر وارد ہونا ہرگز اس کی نبوت کی نفی نہیں کرتا، جس کی روشن دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت طاری ہو جائے یا مقتول ہوجائیں تو اے مسلمانو کیا تم پچھلے پاؤں پھر جاؤ گے۔ یعنی رسول کےلائے ہوئے دین کو چھوڑ دو گے۔

اس آیت میں بنی اسرائیل کی انتہائی شقاوت قلبی کا بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو قتل کرنے والوں سے بڑھ کر کون شقی القلب ہوسکتا ہے حضرت زکریا علیہ السلام حضرت یحی علیہ السلام اور ان جیسے جلیل القدر انبیاء کرام علیہم السلام کو انہوں نے انتہائی بیدردی کے ساتھ شہید کیا یہ سب کچھ یہود کی نا فرمانی اور پرانی سرکشی کا ظہور تھا۔ (تبیان)

گائے کے گوشت سے مقتول کو زندہ کرنے کا واقعہ:

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖٓ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَo قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَo قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَo قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا وَ اِنَّآ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَo قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَج مُسَلَّمَةٌ لَّا شِیَةَ فِیْهَا قَالُوا الْـٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا یَفْعَلُوْنَo (پ ۱ سورت بقرہ ۶۷ ۔ ۷۱)

اور جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت سے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے ایک گائے ذبح کرنے کا، وہ بولے: کہ آپ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں؟ (موسیٰ علیہ السلام نے) فرمایا اللہ تعالیٰ کی پناہ کہ میں نادانوں سے ہوجاؤں انہوں نے کہا: ہمارے لیے اپنے رب تعالیٰ سے دعا کیجیے وہ ہمیں بتادے وہ کیسی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا بے شک وہ فرماتا ہے یقیناً وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ بچھڑی (بلکہ) اس کے درمیان متوسط عمر کی، پس بجالاؤ جو تمہیں حکم دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمارے لیے اپنے رب تعالیٰ سے دعا کیجیے وہ ہمیں بتائے اس کارنگ کیا ہے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا بے شک وہ فرماتا ہے یقیناً وہ زرد گائے ہے گہرے چمکدار رنگ کی دیکھنے والوں کو چھی لگتی ہے وہ بولے اپنے رب تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجیے وہ ہمیں کھول کر بتائے اس کا وصف کیا ہے؟ بے شک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور بیشک اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ضرور راہ پائیں گے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا بیشک وہ فرماتا ہے یقیناً وہ گائے ہے جو نہ محنت کش ہے کہ زمین میں ہل چلاتی ہے اور نہ وہ کھیتی کو پانی دیتی ہے صحیح سالم ہے (یک رنگ) جس میں کوئی (داغ) دھبہ نہیں وہ بولے آپ ٹھیک بات لائے پھر انہوں نے اسے ذبح کیا اور وہ یہ کام کرنے کے قریب نہ تھے۔

بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے ایک رشتہ دار کو قتل کردیا تاکہ اس کا وارث بن جائے۔ قتل کر کے اس کی لاش کو چوراہے میں پھینک دیا پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر آگیا موسیٰ علیہ السلام نے کوشش کی قاتل کا پتہ لگانے کی لیکن پتہ نہ چل سکا وہ لوگ کہنے لگے اپنے رب تعالیٰ سے دعا کیجیے نا کہ وہ بتائے کہ اس کا قاتل کون ہے۔ آپ نے اپنے رب تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کی آپ نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کر کے اس کا گوشت مردہ کو مارو وہ زندہ ہوکر بتائے گا کہ میرا قاتل کون ہے انہوں نے تعجب کیا کہ ذبح شدہ جانور کا گوشت مردہ کو کیسے زندہ کرے گا یہ تو ایک مزاح نظر آرہا ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی پناہ میں جاہلوں سے ہو جاؤں۔

’’یعنی ان الاشتغال بالا ستھزاء لا یکون الا بسبب الجھل و منصب النبوۃ لا یحتمل لا قدام علی الا ستھزاء‘‘

یعنی مزاح اڑانا جاہلوں اور نادانوں کا کام ہے نبی کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی سے مزاح اڑائے اور خصوصا دینی معاملات میں مزاح اڑانا شدید عذاب اور وعید کا سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی کے متعلق یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ وہ ایسا اقدام کرسکتا ہے جو عذاب کا سبب بنے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔

’’لو ذبحوا ایۃ ارادو لأ جزأت منھم لکنھم شددوا علی انفسھم فشدد اللہ علیھم‘‘

اگر وہ کوئی گائے بھی ذبح کرتے تو ان کو کفایت کرتی لیکن انہوں نے خود بار بار سوال کر کے اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سختی کی حضرت حسن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’والذی نفس محمد بیدہ لولم یقولوا ان شاء اللہ لحیل بینھم و بینھا ابدا‘‘

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر وہ انشاء اللہ تعالیٰ نہ کہتے تو ہمیشہ ان کے اور گائے کے حصول میں سوالات حائل رہتے۔ یعنی جب انہوں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم ہدایت پائیں گے تو اسی وقت ان کو سوالات ختم کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔

بہت بھاری قیمت سے گائے حاصل کی:

اس وقت عام طور پر گائے کی قیمت تین دینار تک ہوتی تھی لیکن انہوں نے سوال کر کے اپنے لیے اتنی مشکل پیدا کردی تمام اوصاف کسی گائے میں بیک وقت پائے جانے دشوار نظر آئے آخر کار تلاش کرتے کرتے انہیں ایک بیوہ اور اس کے یتیم بچے کے پاس ایسی گائے نظر آئی جس میں بیان کردہ جمیع اوصاف موجود تھے بوڑھی نہیں تھی اور بچھڑی نہیں تھی بلکہ درمیانی عمر کی تھی زرد رنگ تھا دیکھنے والوں کو خوش کرتا تھا زمین میں اس نے ہل نہیں چلایا تھا اور نہ ہی کھیتی کو سیراب کیا تھا اور اس میں کوئی عیب اور داغ دھبہ نہیں تھا کیونکہ اس یتیم کے بوڑھے، نیک، پرہیز گار باپ نے اپنی ایک بچھڑی کو جنگل میں چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دے دیا تھا کہ میرا بچہ کچھ بڑا اور سمجھدار ہوکر اسے لے جائے گا۔ وہ بچہ بھی والدین کا فرمانبردار تھا۔ اپنے باپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنی گائے جنگل سے لے آیا تھا۔ اسی گائے میں تمام اوصاف موجود تھے۔ موٹی تازی تھی، خوبصورت تھی، بنی اسرائیل کو اس کے چمڑے میں جتنی مقدار میں سونا آسکتا تھا اتنی مقدار میں سونا بطور قیمت ادا کرنا پڑا۔

سبحان اللہ! مالک الملک نے اپنے بندے کی گائے کی جنگل میں حفاظت فرمائی اور اس نیک بندے کی بیوہ اور اس یتیم بچے کو کثیر مقدار میں مال و دولت عطا فرمایا۔

بنی اسرائیل اگرچہ گائے کی بھاری قیمت ادا کرنے پر بخوشی رضا مند نہیں تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اگر ہمارا مقتول زندہ ہوگیا تو ہمارا اپنا ہی عیب ظاہر ہوگا لیکن انہیں پھر بھی گائے ذبح کرنی پڑی کیونکہ اب ان کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا تھا اگرچہ وہ ذبح نہیں کرنا چاہتے تھے۔ (از کبیر)

گائے کے ذبح کرنے میں حکمت:

ایک وجہ تو یہی تھی کہ نیک آدمی کے یتیم بچے اوراس شخص کی بیوہ کو کثیر مال عطا کرنا تھا اس لیے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور بنی اسرائیل کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ وہ سوال کرتے ہیں اس طرح وہ گائے کہیں اور نہ مل سکی دوسری وجہ یہ تھی کہ گائے کی قربانی کا طریقہ پہلے سے چلا آرہا تھا اور وہ لوگ گائے کی قربانی کو عظیم سمجھتے تھے اس لیے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کے ذہن اسے قبول کرلیں کہ گائے کی قربانی میں یہ اثر ہوگا مقتول کو زندہ کرنے کا یہ عجیب انداز بیان کرکے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ جیسے چاہے مردوں کو زندہ کرتا ہےنیز یہ کام ان کے اپنے ہاتھوں سے کرایا تاکہ موسیٰ علیہ السلام پر وہ جادو گری کا الزام عائد نہ کرسکیں۔

قومِ موسیٰ علیہ السلام میں قارون

ارشاد خدا وندی ہے:

اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْص وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِق اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَo وَ ابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا وَ لَا یُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَo فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُلا اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍo وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاج وَ لَا یُلَقّٰىهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَo فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَقف فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِق وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَo وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُج لَوْ لَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَo (پ ۲۰ سورت القصص ۷۶ ۔ ۸۲)

بے شک قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا پھر اس نے ان پر زیادتی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے جن کی چابیاں ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا اترا نہیں ہے بیشک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو مال تجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے اور زمین میں فساد نہ چاہ بیشک اللہ تعالیٰ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا بولا یہ تو مجھے ایک علم سے ملا ہے جو میرے پاس ہے اور کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے وہ سنگتیں ہلاک فرمادیں جن کی قوتیں اس سے سخت تھیں اور جماعتیں اس سے زیادہ (اللہ خود ہی جانتا ہے) اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا (کہ تمہارا مال کہاں ہے، تمہاری زیادتیاں کیا ہیں؟) تو اپنی قوم پر نکلا اپنی آرائش میں، بولے وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بے شک اس کا بڑا نصیب ہے اور بولے جنھیں علم دیا گیا خرابی ہو تمہاری اللہ تعالیٰ کا ثواب بہتر ہے اس کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور یہ انہیں کو ملتا ہے جو صبر والے ہیں تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا اورکل جس نے اس مرتبہ کی آرزو کی تھی صبح کہنے لگے عجیب بات ہے اللہ تعالیٰ رزق وسیع کرتا ہے اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ فرماتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا اے عجب! کافروں کا بھلا نہیں۔

قارون (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کا قریبی رشتہ دار تھا زیادہ مشہور یہ ہے کہ آپ کا چچا زاد بھائی تھا بعض حضرات نے اسے آپ کا خالہ زاد کہا ہے اس نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی نبوت پر حسد کرتے ہوئے منافقت اختیار کرلی تھی جیسے آپ کی قوم میں سامری منافق تھا قارون خوبصورت ہونے کی وجہ سے منور کہلاتا تھا اور تورات کا بھی بہت بڑا قاری تھا لیکن نبی کا گستاخ ہونے کی وجہ سے ذلیل ہوا وہ بہت بڑا مالدار تھا دس آدمیوں کی جماعت اس کے مال کو شمار نہیں کرسکتی تھی یا یہ لوگ اس کے خزانوں کو اٹھا نہیں سکتے تھے۔

’’ان اختیار ابن عباس والحسن أن تحمل المفاتح علی نفس المال‘‘

حضرت ابن عباس اور حسن (رضی اللہ عنہم) کا مختار مسلک یہ ہے کہ مفاتح سے مراد مال لیا جائے یعنی اس کے مال کو دس آدمی نہیں اٹھا سکتے تھے۔

’’والعصبۃ الجماعۃ الکثیرۃ مثلھا فالعشرۃ عصبۃ‘‘

عصبہ اور عصابہ بڑی جماعت کو کہتے ہیں دس کی تعداد پر عصبہ بولا جاتا ہے کیونکہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا ونحن عصبۃ اور ہم ایک جماعت ہیں یہ کہنے والے دس کی تعداد میں تھے۔

’’ان تلک المفاتیح بلغت ستین حملا لیس مذکورا فی القران فلا تقبل ھذہ الروایۃ‘‘

جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ قارون کے خزانوں کی چابیاں ساٹھ سواریوں کا بوجھ تھا اس کا ذکر قرآن پاک میں نہیں لہذا اس روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

قارون اپنی مالداری کی وجہ سے اپنی قوم کے غرباء کو گھٹیا سمجھتا تھا ان کے ایمان کا کچھ پاس نہ کرتا اپنے کثرت مال کی وجہ سے اس کے دل میں ان کی کوئی عظمت نہ تھی مصر میں رہنے کے دوران بھی فرعون کا ایجنٹ تھا اس لیے وہاں بھی بنی اسرائیل پر مظالم ڈھاتا رہتا تھا اور اپنے تکبرانہ انداز سے بھی ان پر غصہ کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ (کبیر)

اس کی قوم نے اسے کہا کہ تم اپنے کثیر مال کی وجہ سے اتراؤ نہیں اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق تمہیں مزید نعمتیں عطا کرے گا کیونکہ اس کا وعدہ ہے۔

 لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ (پ ۱۳ سورت ابراھیم ۷)

اگر تم شکریہ ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید نعمتیں دوں گا۔

اس لیے تمہیں چاہیے کہ تم دنیا میں آخرت کےلیے عمل کر کے عذاب سے نجات حاصل کرو اس لیے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی حصہ یہ ہے کہ آخرت کے لیے عمل کرے صدقہ دے کر صلہ رحمی کر کے اور اعمال خیر کے ساتھ آخرت کا ثواب اور کامیابی حاصل کرے اور اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانی، صحت قوت و جوانی اور دولت کو نہ بھول بلکہ ان سے اے انسان آخرت کو طلب کر۔

حدیث شریف میں ہے کہ پانچ سے پہلے پانچ کو غنیمت سمجھو۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، ثروت کو ناداری سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، زندگی کو موت سے پہلے، قارون نے کسی کی نصحیت کو قبول نہ کیا بلکہ کہنے لگا یہ مال تو مجھے کسی نے نہیں دیا میں نے تو اپنے علم سے اسے حاصل کیا۔

علم سے مراد تورات کا علم یا کیمیا گری جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حاصل کیا تھا اور اس کے ذریعے قلعی کو چاندی اور تانبے کو سونا بنالیتا تھا یا علم تجارت یا علم زراعت یا اور پیشوں کا علم۔ (از خزائن العرفان)

جب وہ زرق برق لباس زیب تن کیے ہوئے شاندار سواری پر سوار ہوکر شاہانہ انداز پر نکلتا تو تو اسے دیکھ کر دنیا اور لوگوں کا للچاتا دل میں حسرت پیدا ہوتی وہ کہتے کتنا خوش نصیب ہے یہ قارون کاش ہمیں بھی اس جیسا مال و دولت اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ میسر ہوتی، لیکن جو لوگ صاحب علم تھے دنیا کے مال کی حقیقت سے باخبر تھے کہ یہ ناپائیدار چیز ہے ان کے دل میں کسی قسم کو کوئی خیال پیدا نہ ہوتا کہ ہمیں بھی ایسا مال ملے بلکہ انہوں نے دوسروں کو بھی سمجھایا کہ تمہاری بربادی ہو تم دنیا کا مال طلب کر رہے ہو تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کے لیے اپنے ایمان پر ثابت رہو اور اچھے اعمال کرتے رہو۔

قارون کا زمین میں دھنس جانا:

موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے مال سے زکوٰۃ وصول کروں قارون نے انکار کردیا اس نے دوسروں کو بھی برگشتہ کرنے کی کوشش کی لوگوں کو جمع کر کے کہنے لگا کہ موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس نماز ادا کرنے کا حکم لائے اور بھی کئی احکام لائے کہ تم ان پر عمل کرو تو ہم نے ان پر عمل کیا اب وہ ہم سے ہمارا مال بھی چھیننا چاہتے ہیں یہ ہم کیسے برداشت کریں سب نے کہا ہاں یہ تو ہم کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتے لیکن اس میں تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا کیا جائے؟ اس نے کہا فاحشہ عورتوں میں سے ایک عورت کی طرف پیغام بھیج کر اسے بلاتے ہیں اور اسے انعام کا لالچ دے کر موسیٰ علیہ السلام پر تہمت لگاتے ہیں تاکہ سب لوگ اسے چھوڑ جائیں اس نے اپنی منصوبہ کے مطابق ایک فاحشہ عورت کو بلایا اسے ایک ہزار دینار یا سونے سے بھراہوا ایک طشت دینے کا وعدہ کیا کہ تم سب لوگوں کے سامنے یہ کہہ دینا کہ موسیٰ علیہ السلام نے میرے ساتھ برائی کا ارتکاب کیا ہے اس نے کہا ٹھیک ہے میں کہہ دوں گی۔

موسیٰ علیہ السلام نے عید کے دن خطبہ دیا اور احکام الٰہیہ بیان کیے اس دوران قارون نے بھی اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی مذموم لیکن نا کام کوشش کی یا کہ قارون نے موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ تم بنی اسرائیل کو جمع کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچاؤ کہ مجھے رب تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے آپ نے سب لوگوں کو جمع کیا ممکن ہے قارون کے کہنے پر عید کے دن ہی سب کو جمع کر کے آپ نے خطبہ دیا ہو اس طرح روایتوں کا مقصد ایک ہی ہوگا آپ نے دوران خطبہ ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس کا پیغام تمہیں پہنچاؤں کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ٹھہراؤ صلہ رحمی کرو اس طرح آپ نے اور بھی کئی احکام بیان فرمائے اور آپ نے یہ فرمایا کہ رب تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں زانی کو سنگسار کردوں۔ قارون اور اس کے چمچے کڑچھے کہنے لگے، یہی کام اگر تم کرو؟ آپ نے فرمایا مجھے سنگسار کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تم نے تو زنا کیا ہے (معاذ اللہ)۔ آپ علیہ السلام نے کہا میں نے؟ انہوں نے کہا ہاں تم نے۔ ابھی وہ عورت مجمع عام میں آکر بتائے گی اس عورت کو بلایا گیا سب نے کہا کہ تم بتاؤ جو معاملہ تمہارے ساتھ درپیش آیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسے کہا اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے سچ سچ بتاؤ کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ اس عورت نے کہا جب تم نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا ہے تو اب میں سچ سچ بیان کروں گی کوئی جھوٹ کی آمیزش نہیں ہوگی۔

اس نے کہا ان لوگوں نےمجھے بلایا اور کثیر مال دینے کی پیش کش کی ہے کہ میں تم پر تہمت لگاؤں کہ تم نے میرے ساتھ برائی کا ارتکاب کیا ہے میں گواہی دیتی ہوں کہ بے شک تم پاک دامن ہو ہر طرح سے پاک و صاف ہو اور تم اللہ تعالیٰ کے رسول ہو۔ موسیٰ علیہ السلام روتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور رب تعالیٰ کے حضور عرض کرنے لگے اے مولائے کائنات جب میں تیرا رسول ہوں تو ان کو اپنی گرفت میں لے لے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے موسیٰ علیہ السلام زمین کو تمہارے حکم کے تابع کردیا ہے اسے جو حکم دیں گے وہ تسلیم کرے گی۔ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو کہا کہ مجھے رب تعالیٰ نے قارون کی طرف بھی ایسے ہی بھیجا جیسا کہ فرعون کی طرف۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے اس پر شاہد ہے:

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍo اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ قَارُوْنَo (پ ۲۴ سورت المؤمن ۲۳ ۔ ۲۴) (پ ۲۴ ع ۸)

اور بیشک ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیوں اور روشن سند کے ساتھ بھیجا فرعون اور ھامان اور قارون کی طرف۔

اس لیے جو شخص اس کا ساتھ دینا چاہے وہ اس کا ساتھ دے اور جو میرا ساتھ دینا چاہتا ہے وہ اسے چھوڑ دے آپ کے اس ارشاد پر اس کے ساتھ صرف دو آدمی رہ گئے باقیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا پھر آپ علیہ السلام نے کہا: ’’اے زمین ان کو (قارون اور اس کے ساتھیوں کو) پکڑلے‘‘ زمین نے ان کو ایڑیوں تک اپنے اندر دھنسالیا وہ کہہ رہے تھے اے موسیٰ علیہ السلام، اے موسیٰ علیہ السلام لیکن آپ بدستور فرما رہے تھے اے زمین ان کو پکڑلے۔ تو زمین نے ان کو گھٹنوں تک دھنسا لیا۔ پھر اس نے کہا اے موسیٰ علیہ السلام، اے موسیٰ علیہ السلام لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ دی بلکہ زمین کو کہا ان کو اپنی گرفت میں لے لے تو  زمین نے ان کو کمر تک دھنسالیا پھر اسی طرح گردونوں تک وہ دھنس گئے اس حالت میں وہ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آہ و زاری کر رہے تھے آپ پر رحم کرنے کے واسطے ڈال رہے تھے لیکن آپ نے شدت غضب کی وجہ سے ان کی بات کی طرف کوئی دھیان نہ کیا بلکہ زمین کو آخری حکم بھی دے دیا کہ اے زمین ان کا مواخذہ کرلے۔ آخر زمین نے ان کو مکمل طور پر اپنے اندر سمیٹ لیا۔

رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی اور کہا اے موسیٰ تم نے کتنی سخت دلی کا مظاہرہ کیا ہے وہ تمہیں بار بار پکار رہے تھے لیکن تم نے ان پر کچھ رحم نہ کیا ان کی آہ و زاری پر کچھ توجہ نہ دی۔

’’اما وعزتی و جلالی لو بی استغاث لا غثتہ‘‘

اور دوسری روایت میں ہے کہ

’’لو ایای دعوا مرۃ واحدۃ لو جدونی قریبا مجیبا‘‘

خبر دار مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر مجھ سے کوئی فریاد طلب کرتا تو میں اس کی فریاد کو ضرور پہنچتا یعنی اس کی حاجت کو پورا کرتا کہ اگر مجھے ایک مرتبہ ہی کوئی پکارتا تو مجھے اپنی پکار قبول کرنے والا پاتا۔ رب تعالیٰ کے اس ارشاد کا جواب موسیٰ علیہ السلام نے بھی کیا خوب دیا موسیٰ علیہ السلام نے کہا۔

’’رب غضبالک فعلت‘‘

اے میرے رب میں تیری لیے ہی تو غصہ کرتے ہوئے یہ کیا ہے۔

یعنی اے اللہ تعالیٰ جب وہ تیرے دین کی دھجیاں بکھیر رہے تھے تیرے احکام کو پامال کر رہے تھے خود گمراہ ہو رہے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے تھے تو میں نے تیرے حضور عرض کیا کہ اے مولائے کریم جب میں تیرا رسول ہوں انہیں تیرے احکام پہنچا رہا ہوں لیکن یہ اپنے طریقہ سے باز نہیں آ رہے تو تو ان کو اپنی گرفت میں لے لے اے رب کریم تجھ سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ میں نے ان پر اس لیے غصہ نہیں کیا کہ انہوں نے مجھ پر تہمت لگائی ہے اس میں وہ خود ہی ذلیل ہوچکے تھے میرا غصہ تو تیری ذات کی وجہ سے تھا میں ان کی آہ و پکار کو کیسے سنتا؟ (از روح المعانی)

موسیٰ علیہ السلام کو قوم کی ایذاء سے بری کرنا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاo (پ ۲۲ سورت احزاب ۶۹)

اے ایمان والو! ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ستایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بری فرمادیا اس بات سے جو انہوں نے کی اور موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ہاں آبرو والا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کی تقسیم پر جب ایک شخص نے اعتراض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

’’یرحم اللہ موسیٰ لقد اوذی باکثر من ھذا فصبر‘‘

اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا لیکن آپ نے صبر کیا۔ (بخاری و جلالین)

موسیٰ علیہ السلام کو ستانے کا ایک واقعہ تو ابھی گزرا ہے کہ آپ پر تہمت لگانے کی ناپاک جسارت کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بری فرمایا۔

دوسرا واقعہ جو مسند احمد بخاری ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بہت حیا فرماتے تھے، آپ اپنے جسم کو اس طرح ڈھانپ کر رکھتے تھے کہ آپ کے جسم کی جلد کو کوئی شخص نہ دیکھے۔ یہ اہتمام آپ  حیاء کی وجہ سے کرتے تھے۔

بنی اسرائیل میں سے آپ کو بعض نے ذہنی اذیت (تکلیف) پہنچائی، وہ کہنے لگے کہ آپ اپنے جسم کو کسی عیب کی وجہ سے ڈھانپتے ہیں تو آپ کو برص کی مرض ہے یا ادرۃ (خصیتین میں ہوا بھری ہونا) کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جب ہی اپ ہمارے ساتھ مل کر ننگے ہوکر نہیں نہاتے۔ وہ سب لوگ مل کر ننگے نہاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ نبی کو ان کے لگائے ہوئے عیب سے بری فرمائے۔ موسیٰ علیہ السلام ایک دن سب لوگوں سے علیحدہ ہوکر نہانے لگے۔ آپ نے اپنے کپڑے پتھر پر رکھے غسل کیا جب غسل سے فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لیے پتھر کی طرف متوجہ ہوئے تو پتھر آگے بھاگ کھڑا ہوا موسیٰ علیہ السلام پتھر کے پیچھے پیچھے۔  (ثوبی حجر، ثوبی حجر) اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے ۔ کہہ رہے ہیں۔ لیکن پتھر وہاں جاکر رکا جہاں بنی اسرائیل کے بڑے بڑے لوگ محفل سجائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے جب موسیٰ علیہ السلام کو ننگے دیکھا تو انہیں علم ہوگیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو بہت حسین ہیں آپ میں کوئی عیب نہیں۔ وبراہ مما یقولون (انہوں نے آپ پر جو عیب لگائے تھے رب تعالیٰ نے آپ کو بری کردیا) اب پتھر چونکہ رک چکا تھا آپ علیہ السلام نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو اپنے عصا سے مارا۔ (از روح المعانی)

’’قال ابوہریرہ اللہ ان بہ ندیا ای الرسنۃ او سبعۃ من ضرب موسیٰ‘‘ (تفسیر )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی، بے شک موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے پتھر پر چھ یا سات نشان پڑ گئے تھے۔

تیسرا واقعہ یہ تھا کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام پر حضرت ہارون علیہ السلام کو قتل کرنے کا الزام عائد کردہا  تھا، ابن منبع ابن جریر ابن منذر ابن ابی حاتم ابن مردویہ رضی اللہ عنہم اور حاکم نے بیان کیا ہے اور اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی کہ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام پہاڑ پر گئے تو وہاں ہارون علیہ  السلام فوت ہوگئے۔ بنی اسرائیل کہنے لگے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم نے حضرت ہارون علیہ السلام کو قتل کردیا حالانکہ وہ ہمیں تم سے زیادہ محبوب تھے اور وہ نرم مزاج تھے۔ ان کے اس بیہودہ کلام سے بھی آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے ہارون علیہ السلام کی لاش کو اٹھایا اور وہاں سے گزر ا جہاں بنی اسرائیل کی محافل قائم تھیں اور فرشتے ہارون علیہ السلام کی وفات کا ذکر کر رہے تھے۔

’’فبراہ اللہ فانطلقوا بہ فدفنوہ‘‘

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بری فرمایا اور فرشتے ہی ہارون علیہ السلام کی لاش کو لے گئے اور انہوں نے ہی دفن کیا۔ (از روح المعانی)

موسیٰ علیہ السلام کو انہوں نے ہی جادوگر اور مجنوں کہہ کر ستایا اور یہ کہہ کر پریشان کیا:

فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ (پ۶ سورت مائدہ ۲۴)

تم اور تمہارا خدا جاکر لڑائی کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں اور یہ کہہ کر آپ کو تکلیف پہنچائی۔

لَنْ نَصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ

ہم ہرگز ایک کھانے پر صبر نہ کریں گے۔

لَنْ نُؤمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللہَ جَھْرَۃً

ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہر طور پر دیکھ لیں۔

ان تمام تکالیف دہ اقوال سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے نجات دی آپ کے دل کو تسلی دی۔

وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیْھَا موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ہاں وجیہ تھے۔

وجیہ کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں مرتبہ والے قدر و منزلت میں بلند مقام رکھنے والے، اللہ تعالیٰ کے مقبول، مستجاب الدعوات (آپ کی ہر دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا سوائے اس کے کہ آپ نے دنیا میں رب تعالیٰ کو دیکھنے کی جو دعا کی اسے قبول نہیں کیا گیا) اور وجیہ کا معنی یہ بھی لیا گیا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے براہ راست کلام کیا۔ حضرت مولانا احمد  خان رضا بریلوی کا ترجمہ ان تمام معنای کو شامل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں آبرو (عزت) والے تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات:

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ  عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس سے کہا کہ بے شک توناگہانی گمان کرتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل  یہ وہ موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں جو خضر علیہ السلام والے موسیٰ علیہ السلام ہیں انہوں نے کہا وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، جھوٹ کہتا ہے۔ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کو خطبہ دینے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے آپ سے پوچھا گیا لوگوں میں سے زیادہ عالم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: میں زیادہ عالم ہوں، تو رب تعالیٰ نے آپ پر عتاب فرمایا کیونکہ آپ علیہ السلام نے سوال کے جواب کو رب تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا حالانکہ یہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین (دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ) میں رہتا ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی اے میرے رب میں انہیں کیسے پاؤں گا تو آپ کو بتایا گیا کہ تم اپنے تھیلے میں ایک مچھلی بند کرکے اپنے ساتھ لے لو جہاں تمہاری مچھلی گم ہوجائے وہی ان کا مقام ہوگا۔ (مسلم باب فضائل خضر علیہ السلام ج۲)

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِفَتٰہُ لَآاَبْرَحُ حَتّٰیٓ اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًاo فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِھِمَا نَسِیَا حُوْتَھُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًاo فَلَمَّا جَاوَزَاقَالَ لِفَتٰہُ اٰتِنَا غَدَآءَ نَاز لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَانَصَبًاo قَالَ اَرَءَ یْتَ اِذْ اَوَیْنَآ اِلَی الصَّخْرَةِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَز وَمَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِق عَجَبًاo (پ۱۵ سورت کہف ۶۰ ۔ ۶۳)

اور یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا میں باز نہ رہوں گا جب تک وہاں نہ پہنچوں جہاں دو سمندر ملے ہیں یا قرنوں  چلا جاؤں پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے اپنی مچھلی بھول گئے اس نے سمندر  میں اپنی راہ لی سرنگ بناتے ہوئے۔ پھر جب وہاں سے گزر گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے خادم  سے کہا ہمارا صبح کا کھانا لاؤ بے شک ہمیں اپنے سفر میں بڑی مشقت کا سامنا ہوا بولا بھلا دیکھیے تو جب ہم نے اس چٹان کے پاس جگہ لی تھی تو بے شک میں مچھلی کو بھول  گیا تھا اور مجھے شیطان ہی نے بھلایا ہے کہ میں اس کا ذکر کروں اس (مچھلی) نے تو سمندر میں اپنی راہ لی ہے جو باعث تعجب ہے۔

موسیٰ علیہ السلام نے جس جوان کو اپنے ساتھ لیا وہ یوشع بن نون تھے جو آپ کی خدمت و صحبت میں رہتے تھے اور آپ سے علم اخذ کرتے تھے اور آپ کے بعد آپ کے ولی عہد ہیں۔

مجمع البحرین سے مراد دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ یعنی بحر فارس اور بحر روم جہاں ملیں گے وہاں تمہیں حضرت خضر علیہ السلام مل جائیں گے اس کی نشانی یہ بتائی گئی کہ جہاں تمہاری مچھلی  گم ہوجائے اسی مقام میں ان کو تلاش کرنا موسیٰ علیہ السلام نے وہاں پہنچنے کا مصمم عزم (پکا ارادہ) کرلیا اور فرمایا کہ میں اپنی کوشش جاری رکھوں گا یہاں تک کہ وہاں پہنچ جاؤں بے شک وہ جگہ کتنی ہی دور ہو میرا سفر وہاں پہنچنے تک جاری رہے گا پھر ان حضرات نے روٹی اور بھونی  ہوئی نمکین مچھلی اپنے ساتھ ایک تھیلے میں لی تاکہ راستہ میں کام آئے پھر یہ اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ایک پتھر کی چٹان تھی وہاں ان حضرات نے آرام کیا اور سو گئے بھونی ہوئی مچھلی تھیلے میں زندہ ہوگئی تڑپ کر دریا میں گر گئی اس پر سے پانی کا ب ہاؤ رک گیا اور ایک محراب سی بن گئی حضرت یوشع بن نون علیہ السلام بیدار ہوچکے تھے مچھلی کے زندہ ہوکر دریامیں گرنے کو دیکھ رہے تھے لیکن یہ واقعہ موسیٰ علیہ السلام کو بتانا بھول گئے تھے دونوں حضرات وہاں سے چلے دوسرے دن کھانے کے وقت تک اپناسفر جاری رکھا جب دوسرا دن ہوا کھانے کا وقت ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا  سفر کی تھکان بھی ہے اور بھوک کی شدت بھی اس لیے تھیلے سے روٹی اور مچھلی نکالو تاکہ کھانا کھالیں اس وقت یوشع بن نون کو یاد آیا انہوں نے کہا مچھلی تو زندہ ہوکر دریا میں چلی گئی تھی بھونی ہوئی مچھلی کا زندہ ہوکر دریامیں جانا حیران کن اور تعجب ناک معاملہ تھا۔

حضرت یوشع علیہ السلام نے اپنے بھولنے کو شیطان کی طرف منسوب کیا اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کے دل میں وطن سے دوری اور گھر کے افراد کا خیال ہو آپ نے نفس کے خیالات کو شیطان کی طرف منسوب کردیا ہو  جو مثل شیطان ہے دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مشاہدہ میں مستغرق  ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف کامل توجہ کی وجہ سے اور کچھ خیال نہ رہا ہو اس کا حقیقی فاعل تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن آپ نے عاجزی کے طور پر یہ کہا ہو کہ مجھے کچھ نہ کچھ دیگرامور کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے تھی یہ میرا توجہ نہ کرنا مجازاً شیطان کی طرف منسوب ہے۔ (از  خزائن العرفان و روح المعانی)

فائدہ:

واذ قال موسیٰ لفتہ میں ’’فتی‘‘ سے مراد یوشع بن نون ہیں۔ فتی نوجوان کو کہتے ہیں  خادم کو ادب و احترام کے لیے خادم کے بجائے فتی (نوجوان) کے لفظ سے یاد فرمایا گیا اس سے ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ فرق مراتب کے باوجود ہمیں کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کرنا چاہیے جس سے کسی اپنے سے کم درجہ  کی تذلیل ہو اور دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو۔ کاش کہ یہ سبق پولیس  کے افراد کو حاصل ہوجائے جن میں اکثریت شرفاء سے بیہودہ کلام سے درپیش آتی ہے اور یہ سبق اللہ تعالیٰ کرے سکولوں اور دینی مدارس کے ہزاروں مدرسین میں سے کسی ایک بیہودہ کو بھی حاصل ہوجائے جو گندی زبان استعمال کرتے ہیں طلباء کرام کو اپنی اولاد و اقارب سے کم سمجھنے والے بیہودی بحواس کرنے والے مخرب اخلاق تو ہوسکتے ہیں معلم اخلاق نہیں ہوسکتے علم سے دور کرنے کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں علم عطا کرنے کا سبب نہیں بن سکتے طلباء کو بد کلامی تو سکھاسکتے ہیں شیریں سخنی سکھانا ان سے بھلا کیسے ممکن ہے۔

مچھلی زندہ ہونے کی جگہ لوٹنا:

قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِق فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِھِمَا قَصَصًالا فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰہُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo قَالَ لَہٗ مُوْسٰی ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًاo قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًاo وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہ خُبْرًاo قَالَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللہ صَابِرًا وَّلَآ اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًاo (پ۱۵ سورت کہف ۶۴ ۔ ۶۹)

(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا کہ یہی تو ہم چاہتے تھے تو پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے تو ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا  اس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا میں تمہارے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھادو گے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی کہا آپ میرے ساتھ ہرگز نہ  ٹھہر سکیں گے اور اس بات پر  اس شرط پر کہ تم مجھے سکھادو گے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی کہا آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے اور اس بات پر کیونکر صبر کریں جسے آپ کا علم محیط نہیں موسیٰ علیہ السلام نے کہا عنقریب اللہ تعالیٰ چاہے تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع وہاں لوٹ کر آئے جہاں مچھلی زندہ ہوکر پانی میں چلی  گئی تھی پانی کا بہاؤ رکنے کی وجہ سے مختلف نشانات موجود تھے موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی مقام ہمارا مقصود ہے دونوں نے تلاش کرنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک شخص چادر اوڑھے لیٹ رہا ہے موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا انہوں نے کہا اس زمین میں سلام کہاں سے آگیا؟ (یہاں تو کوئی سلام کرنے والا کبھی نظر نہیں آیا) آپ نے کہا: میں موسیٰ ہوں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: بنی اسرائیل کا موسیٰ؟ آپ نے کہا جی ہاں حضرت خضر علیہ السلام نے کہا  اللہ تعالیٰ نے جو علم تمہیں عطا فرمایا وہ مجھے عطا نہیں فرمایا اور جو علم مجھے عطا فرمایا تمہیں نہیں عطا فرمایا موسیٰ علیہ السلام نے  عرض کی کیا میں آپ کی تابعداری کرسکتا ہوں کہ تم مجھے وہ علم عطا کردو خضر علیہ السلام کو معلوم تھا کہ انہیں ظاہری شریعت کا  علم عطا کیا گیا ہے یہ باطنی امور پر صبر نہیں کرسکیں گے اس لیے انہوں نے کہا تم کیسے صبر کرسکو گے موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں ان شاء اللہ تعالیٰ صبر کروں گا۔ (از مسلم شریف و شرح مسلم)

حضرت خضر علیہ السلام نے شرط عائد کردی:

قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْئَلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰیٓ اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا (پ۱۵ سورت کہف۷۰)

کہا اگر آپ میرے ساتھ رہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کو نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔

موسیٰ علیہ السلام چونکہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ صبر کروں گا اور آپ کے حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا اس لیے آپ کو خضر علیہ السلام نے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔

خضر علیہ السلام کا کشتی توڑنا:

فَانْطَلَقَاوقفة حَتّٰیٓ اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیْنَةِ خَرَقَھَاط قَالَ اَخَرَقْتَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَہَاج لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا اِمْرًاo قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًاo قَالَ لَاتُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَلَا تُرْھِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًاo (پ۱۵ سوت کہف ۷۱ ۔ ۷۳)

اب دونوں چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے اس بندہ نے اسے چیر ڈالا (موسیٰ علیہ السلام) نے کہا تم نے اسے اس لیے چیرا کہ اس کے سواروں کو ڈبادو بے شک  تم نے بری بات کی کہا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے کہا مجھ سے میری بھول پر گرفت نہ کرو اور مجھ پر میرے کام میں مشکل نہ ڈالو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا زکر ہے کہ وہ دونوں چلے، یوشع علیہ السلام کا ذکر نہیں، یا تو اس لیے کہ وہ تابع تھے ان کے ذکر کی ضرورت محسوس نہیں کی، یا یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں بنی اسرائیل کی طرف لوٹا دیا ہو۔

بخاری و مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ وہ دونوں دریا کے کنارے چل رہے تھے ان کے قریب  سے ایک کشتی کا گزر ہوا کشتی والے لوگوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچان لیا تھا اس لیے انہوں نے آپس میں کلام کیا کہ انہیں کشتی میں سوار کرنا چاہیے لہٰذا انہوں نے بغیر اجرت لینے کے ان حضرات کو سوار کرلیا یہ دونوں جب سوار ہوئے تو ایک چڑیا آئی جو کشتی کے ایک ک نارے پر بیٹھی اس نے دریا میں اپنی چونچ ماری تو حضرت خضر علیہ السلام نے کہا:

’’مانقص علمی وعلمک من علم اللہ الا مثل ما نقص ھذا العصفور من البحر‘‘

میرا علم اور تمہارا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابل ایسے ہی ہے جیسے اس چڑیا کی چونچ میں آنے والے پانی کو دریا کے پانی میں نسبت ہے۔

یہ بات صرف سمجھانے کی حد تک ہے ورنہ ان دونوں کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابل اس سے بھی قلیل ہے۔ خیال رہے یہاں ظاہری معنی مراد نہیں لیا جاسکتا کیونکہ ظاہری معنی یہ ہے کہ میرے اور تمہارے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں کوئی کمی نہیں کی سوائے اتنی مقدار کے جتنی چڑیا کی چونچ نے دریا میں کمی  کی ہے ۔ یہ معنی کسی حد تک بھی درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کمی کا واقع ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں ماقبل بیان کردہ معنی کو ہی علامہ نووی نے شرح مسلم میں ان الفاظ سے پیش کیا ہے:

’’قال العلماء لفظ النقص ھھنا لیس علی ظاھرہ وانما معناہ ان علمی وعلمک بالنسیۃ الی علم اللہ تعالیٰ کنسبۃ ما نفرۃ ھذا العصفور الیٰ ماہ البحر ھذا علی التقریب الی الافھام والافنسبۃ علمھا اقل واحقر‘‘۔ (شرح صحیح مسلم ج۲ ص۲۷۸)

حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کا ایک تختہ اکھیڑ دیا تھا موسیٰ علیہ السلام نے تعجب کرتے ہوئے کہا کہ اس قوم نے ہمیں بغیر اجرت کے کشتی پر سوار کیا تم نے اسے توڑ دیا کیا تم لوگوں کو غرق کرنا چاہتے ہو خیال رہے یہ کشتی کا توڑنا کنارے کے قریب جاکر تھا اور خضر علیہ السلام نے وقتی طور پر اس میں کیل بھی لگا دیا تھا۔

لقد جئت شیئا امرا

تم نے بہت بری بات کی۔

یعنی تمہارا کام اچھا نہیں۔ امرا کا معنی داھیا منکرا

بہت خوف ناک معاملہ عام طور پر امر الامر لفظ بولا جاتا ہے جبکہ کوئی عظیم کام واقع ہو یا کثیر امور کا وقوع ہو۔

خضر علیہ السلام نے کہا میں نے جو کہا تھا کہ تم ظاہر دیکھ کر صبر نہیں کرسکو گے موسیٰ علیہ السلام نے کہا مجھ سے بھول واقع ہوگئی ہے اس لیے اس میں میری کوئی گرفت  نہ کریں۔ (از روح المعانی)

خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کردیا:

فَانْطَلَقَاوقفة حَتّٰیٓ اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّةً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّکْرًا قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًاo قَالَ اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَیْءٍ م بَعْدَ ھَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًاo

پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک لڑکا ملا اس بندہ نے اسے قتل کردیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا تم نے ایک ستھری جان بغیر کسی جان کے بدلے قتل کردی بے شک تم نے بہت بری  بات کی کہا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ ہرگز صبر نہیں کرسکو گے، کہا اس کے بعد تم سے پوچھوں تو پھر میرے ساتھ نہ رہنا بے شک میری طرف سے تمہارا عذر پورا ہوچکا ہے۔

جب کشتی سے دونوں حضرات نکلے تو کنارے پرچل رہے تھے جب ان کا گزر ایک بستی سے  ہوا، وہاں لڑکے کھیل رہے تھے ایک لڑکا ان میں جس کا نام جیسوریا جنبتور تھا جو تمام لڑکوں سے زیادہ حسین اور صاف ستھرا تھا آپ نے اسے سر سے پکڑا اور اس کا جدا کردیا۔ ایک روایت میں ہے آپ نے اسے لٹا کر چھری سے ذبح کردیا۔

موسیٰ علیہ السلام نے بڑے غصہ میں زور دار آواز سے کہا یہ تم نے کتنا برا کام کردیا ایک نابالغ بچے کو قتل کردیا جو صاف ستھرا گناہوں سے پاک تھا اس پر کوئی قصاص لازم نہیں تھا یہ ایسا کام تم نے کیا ہے جو سراسر عقل کے خلاف ہے حضرت خضر علیہ السلام نے کہا میں نے جو کہا تھا کہ تم صبر نہیں کرسکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اس کے بعد اگر میں نے کوئی سوال کیا تو تم میرا ساتھ چھوڑ دینا کیوں کہ اس وقت تمہیں میری طرف سے عذر حاصل ہوجائے گا۔ (از روح المعانی)

خضر علیہ السلام نے دیوار کو سیدھا کردیا:

فَانْطَلَقَا حَتّٰیٓ اِذَآ اَتَیَآ اَھْلَ قَرْیَةِ نِاسْتَطْعَمَآ اَھْلَھَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْھُمَا فَوَجَدَا فِیْھَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًاo قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًاo

پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب گاؤں والوں کے پاس آئے ان دہقانوں سے کھانا مانگا انہوں نے انہیں دعوت دینی قبول نہ کی پھر دونوں نے اس گاؤں میں ایک دیوار پائی کہ  گرا چاہتی ہے اس بندہ نے اسے سیدھا کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری لے لیتے خضر علیہ السلام نے کہا یہ میری اور آپ کی جدائی ہے اب میں ان باتوں کی وجوہ بتاؤں گا جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔

یہ بستی انطاکیہ یا ایلہ تھی موسیٰ علیہ السلام بھوک کی وجہ سے اس حالت میں تھے کہ کسی سے طعام طلب کرنا جائز بلکہ جان بچانے کی وجہ سے واجب ہوجاتا ہے ایسے حال میں ان لوگوں پر بھی واجب ہوجاتا ہے کہ وہ طعام کھلائیں اسی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام نے دیوار درست کرنےپر اعتراض کیا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں شدید بھوک کے حال میں کھانا بھی نہیں کھلایا تو ان سے اجرت لینی ضروری تھی جب  ان دونوں نے دیوار کو دیکھا جو ایک طرف جھکی ہوئی تھی گرنے کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ سے اسے سیدھا کردیا یا صرف ہاتھ پھیرا اور وہ دیوار سیدھی ہوگئی یہ در حقیقت ان کا معجزہ تھا موسیٰ علیہ السلام کے اس اعتراض پر خضر علیہ السلام نے کہا اب آپ کے وعدہ کے مطابق میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آچکا ہے البتہ یہ تین کام جو میں نے کیے ہیں جن پر تم نے اعتراض کیا ان میں سے ہر ایک کی وجہ اور حکمت میں بیان کردیتا ہوں تاکہ تمہیں پتہ چل جائے اور تم جس غرض سے آئے تھے یعنی علم حاصل کرنے کے لیے وہ بھی حاصل ہوجائے۔ علامہ رازی فرماتے ہیں کہ میں نے حکایات کی بعض کتب میں دیکھا ہے کہ جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئی جس میں ہے

فابوا ان یضیفوھما

اس بستی والوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا۔

اس بستی والے جن کے آباء اجداد نے انکار کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سونا لے کر حاضر ہوئے کیونکہ انہیں اس سے بڑی شرم آ رہی تھی کہ ان کے آباء و اجداد اتنے گھٹیا لوگ تھے کہ صرف دو یا تین بھوک سے ستائے ہوئے مسافروں کو کھانا نہیں کھلاسکتے تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم اس سونے کے بدلے صرف باء کے بدلے تاء خریدنا چاہتے ہیں یعنی.....

’’فابوا ان یضیفوھما‘‘ کی جگہ ’’فاتوا ان یضیفوھما‘‘.....

آپ کردیں جس کا معنی ہوجائے وہ ان کے پاس مہمان نوازی کے لیے کھانا لے کر آئے اس سے ہماری بستی والوں سے ملامت اور ندامت اٹھ جائے گی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف انکار کردیا فرمایا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں تغیر و تبدل کیا جائے اگر ایک نقطہ کے بدلنے سے اللہ تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی لازم آ رہی ہو تو یہ رب تعالیی کے کلام میں کذب ثابت کرے گا اس سے احکام الٰہیہ پر اعتبار ہی نہیں رہے گا رب تعالیٰ کی ربوبیت اور عبد کی عبودیت کا بطلان لازم آئے گا۔ (از کبیر)

ان کا مطالبہ  ہی حقیقت میں حماقت پر مبنی تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ جس قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود رب تعالیٰ نے اٹھایا ہو اس میں تبدیلی کوئی انسان کرسکے اور خاص کرکے اللہ تعالیٰ کے رسول سے امید کرنا اور ہی زیادہ عقل سے دوری کی علامت ہے۔

کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’رحمۃ اللہ علینا وعلی موسیٰ علیہ السلام لولا انہ عجل لرای العجب ولکنہ اخذتہ من صاحبہ ذمامۃ قال ان سالتک عن شیئ بعدھا فلا تصاحبنی قد بلغت من لدنی عذرا‘‘ (مسلم شریف ج۲ ص۲۹۹)

اللہ تعالیٰ ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے اگر آپ جلدی نہ کرتے تو اور عجیب واقعات دیکھتے  لیکن آپ نے جو اپنے ساتھی سے وعدہ کرلیا تھا اس نے آپ کو آلیا موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر میں اس کے بعد سوال کرو ں تو تم میرے ساتھ نہ رہنا بے شک تمہیں میرے  طرف سے عذر مل گیا۔

اسی وعدہ کے مطابق تیسرے سوال کے بعد دونوں کے درمیان فراق ہوگیا:

حدیث پاک کے الفاظ مبارکہ کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ نووی فرماتے ہیں:

’’قال اصحابنا فیہ ابتدا الانسان بنفسہ فی الدعاءوشبھہ من امور الاخرۃ واما حظوظ الدنیا فالادب فیھا الایثار وتقدیم غیر علی نفسہ‘‘

اسی حدیث سے علماء کرام نے یہ مسئلہ ثابت کردیا ہے کہ دعا میں یعنی اس قسم کے اخروی امور میں انسان اپنا ذکر پہلے کرے لیکن دنیاوی معاملات میں ایثار کرنا یعنی اپنے آپ پر دوسرے کو ترجیح دینا اور دوسرے کو اپنے آپ پر مقدم رکھنا ہی بہتر ہے۔

حضرت خضر علیہ السلام اپنے کاموں کی وضاحت کرتے ہیں:

اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا وَکَانَ وَرَآءَ ھُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا

وہ جو کشتی تھی وہ کچھ محتاجوں کی تھی کہ دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا کہ ہر ثابت کشتی زبردستی چھین لیتا۔

آپ نے فرمایا یہ کشتی دس مسکینوں کی ہے جن میں کچھ اپاہج بھی ہیں وہ اس کی مزدوری سے اپنی گزر اوقات کر رہے ہیں جب یہ واپس لوٹیں گے تو ان کو ایک کافر بادشاہ جلندی کا سامنا کرنا پڑے گا وہ صحیح کشتیوں کو پکڑ رہا ہے لیکن عیب دار کو نہیں پکڑتا اس لیے میں نے اسے عیب دار بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ یہ کشتی وہ نہ چھین سکے اور ان کی محنت و مزدوری جاری رہے آپ نے کہا:

فاردت ان اعیبھا

میں نے ارادہ کیا اسے عیب دار بناؤں۔

یہ نہیں کہا’’فاعبتھا‘‘ میں نے اسے عیب دار کردیا اس لیے کہ ظاہراً اگرچہ عیب دار ہوگیا تھا لیکن در حقیقت اسے نفع مند بنایا گیاتھا۔

وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوةً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا (پ ۱۶ سورت کہف ۸۰ ۔ ۸۱)

اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ انہیں سرکشی اور کفر پر چڑھا دے تو ہم نے چاہا کہ ان دونوں کا رب اس سے بہتر ستھرا اور اس سے زیادہ مہربانی میں قریب عطا کرے۔

حضرت ابی ابن کعب کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ان الغلام الذی قتلہ الخضر طبع کافرا ولو عاش لارھق ابویہ طغیانا وکفرا‘‘ (مسلم شریف ج۲ ص۳۴۵)

بے شک وہ لڑکا جسے خضر علیہ السلام نے قتل کیا اس پر کافر ہونے کی مہر لگادی گئی تھی کہ اگر یہ زندہ رہاتو اپنے والدین کو سرکشی اور کفر کی طرف مجبور کردے گا۔

’’معناہ ان اللہ اعلم انہ لو بلغ لکان کافرا  لا أنہ کفر فی الحال ولا یجری علیہ فی الحال احکام الکفار واللہ اعلم‘‘ (نووی)

یعنی بے شک اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ یہ بڑا ہوکر کافر ہوجائے گا اگرچہ اسے بچپن میں کافر نہیں کہا جاسکتا تھا۔

وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌلَّھُمَا وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّ ھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَالَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًاo (پ۱۶ سورہ طٰہٰ ۸۲)

رہی وہ دیوار، وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے پیچھے ان کا خزانہ تھا اور اس کا باپ نیک آدمی تھا تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں آپ کے رب کی رحمت سے اور یہ کچھ میں اپنے حکم سے نہ کیا، یہ وجوہ ہیں ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔

’’وکان ابوھما صالحا یدل علی ان صلاح الآباء یفید العنایۃ باحوال  الابناء‘‘ (کبیر)

آیت کریمہ میں جو ذکر کیاگیا ہے  کہ ان کا باپ نیک آدمی تھا اس سے پتہ چلا کہ آباء کی نیکی سے ان کی اولاد پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوتی ہے۔

’’قال محمد بن منکدر ان اللہ یحفظ بصلاح العبد ولدہ وولد ولدہ وعترتہ وعشیرتہ واھل دو یرات حولہ فی حفظ اللہ ما دام فیھم‘‘ (از مظہری)

محمد بن منکدر فرماتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ ا پنے نیک بندے کی نیکیوں کی وجہ سے اس کی اولاد اور اس کی اولاد کی اولاد اور اس کے قبیلہ، اور اس کے اردگرد رہنے والے پڑوسیوں کی حفاظت کرتا ہے وہ لوگ جب تک اس نیک بندے کے پڑوس میں رہیں گے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں گے۔

فائدہ:

 تین واقعات کے متعلق حضرت خضر علیہ السلام نے جو توجیہات پیش کی ہیں ان میں پہلی توجیہ کا ذکر کرتےہوئے فرمایا:

’’فاردت ان اعیبھا‘‘ میں نے ارادہ کیا کشتی کو عیب دار بناؤں

دوسری توجیہ میں فرمایا:

’’فاردنا‘‘ ہم نے یہ ارادہ کیا۔

اور تیسری میں فرمایا:

’’فاراد ربک‘‘ آپ کے رب نے یہ ارادہ فرمایا۔

اسلوب بیان کے اس تفاوت کی وجہ کیا ہے؟ اس کے متعلق مختصر گزارش یہ ہے کہ اگرچہ خیر و شر نفع و ضرر ہر چیز کا خالق حقیقی اللہ تعالیٰ ہے لیکن اہل ادب و عرفان کا طریقہ یہ  ہے کہ خیر و نفع کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور جب شر اور ضرر کے ذکر کا موقع آتا ہے تو اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کا ارشاد ہے:

واذا مرضت فھو یشفین

جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ ہی مجھے شفا دیتا ہے۔

بیماری کی اضافت اپنی طرف کی اور صحت کی اللہ کی طرف حالانکہ بیمار کرنے والا بھی وہی ہے اسی طرح یہاں کشتی توڑنے کی وجہ بتائی تو ’’فاردت‘‘ کہہ کر اس  کی نسبت اپنی طرف کی کیونکہ کشتی توڑنا بظاہر مذموم نظر آتا تھا  اور جب دیوار درست کرنے کی بات آئی تو اس کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کی ’’فاراد ربک‘‘ کیونکہ وہ فقط خیر ہی ہے اور قتل غلام کے دو پہلو تھے خیر اس لیے کہ اس کے والدین کو نافرمان بیٹے کے عوض میں نیک اولاد دی جا رہی تھی اور  شر اس لیے کہ بظاہر ایک معصوم بچے کو قتل کیا جا رہا تھا اس لیے ’’فاردنا‘‘ جمع کا صیغہ استعمال کیا تاکہ خیر کے پہلو کی نسبت ذات خدا وندی کی طرف ہوجائے اور شر کا  پہلو اپنی طرف منسوب کردیا علامہ  بدر الدین نے اسی توجیہ کو زیادہ پسند فرمایا فرماتے ہیں:

’’لما اراد ذکر العیب للسفینۃ نسبہ لنفسہ ادبا مع الربوبیۃ فقال اردت ولما کان قتل الغلام مشترک الحکم بین المحمود والمذموم استتبع نفسہ مع الحق فقال فی الاخبار بنون الا ستتباع لیکون المحمود من الفعل وھو راحۃ ابویہ المومنین من کفرہ عائدا علی الحق سبحنہ والمذموم ظاھرا وھو قتل الغلام بغیر حق عائدا الیہ وفی اقامۃ الجدار کان خیرا محضا فنسبہ للحق فقال فاراد ربک ثم بین ان الجمیع من حیث العلم التوحیدی من الحق بقولہ وما فعلتہ عن امری‘‘ (البرھان القرآن الزر کشی ج ۴ ص ۶۰، ضیاء القرآن)

(ضیاء القرآن سے نقل کرنے کے بعد کبیر کو دیکھا تو اس  میں بھی یہی وجہ مذکور ہے البتہ الفاظ مختصر ہیں)

حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے یا ولی؟

اس مسئلہ میں اہل علم کے ہر  طرف سے دلائل موجود  ہیں کچھ حضرات نے ولی کہا اور کچھ نے نبی کہا محققین حضرات اس طرف ہیں کہ آپ نبی تھے اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے مفکر اسلام مفسر قرآن حضرت پیر کرم شاہ صاحب فرماتے ہیں جمہور علماء  کا  مذہب ہے کہ  یہ  بندہ خضر علیہ السلام ہے ان کا نام بلیابن  ملکان ہے کیونکہ جہاں یہ  تشریف فرما ہوتے وہ جگہ سر سبز ہوجاتی تھی اس لیے خضر علیہ السلام آپ کا لقب تھا اور وہ اسی لقب سے مشہور ہوگئے۔

بعض علماء کی یہ  رائے ہے کہ وہ ولی تھے لیکن علامہ پانی پتی اور دیگر علماء محققین کی یہ رائے ہے کہ وہ نبی تھے کیونکہ ولی کے الہام سے علم ظنی حاصل ہوتا ہے اور  اس میں خطا کا احتمال ہوتا ہے الہام کی وجہ سے قتل جیسے سنگین فعل کا ارتکاب جائز نہیں ہوسکتا اس لیے کہ آپ کو  نبی ماننا پڑے گا اور نبی ماننا پڑے گا اور نبی کا علم یقینی ہوتا ہے۔ (از ضیاء القرآن)

آپ کو نبی ماننے والوں کے دلائل:

۱۔      اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا

ہم نے اسے اپنی طرف سے رحمت عطا کی۔

رحمت سے مراد اس مقام میں نبوت ہی ہے دوسرے مقام پر رحمت بمعنی نبوت استعمال ہے۔ جب کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

 لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (پ ۲۵، ع ۹ سورت زخرف)

کیوں نہ اتارا گیا  قرآن ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر۔

یعنی  مکہ اور ظائف  کے کسی امیر ترین  آدمی پر  قرآن اترنا چاہیے تھا تو ان کے جواب میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ‘‘ کہا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں۔

یہاں رحمت سے مراد نبوت ہے مولنا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی تفسیر میں خزائن العرفان میں فرماتے ہیں یعنی کیا نبوت کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کہ جس  کو چاہیں دے دیں کس قدر جاہلانہ بات کہتے ہیں۔

۲۔     ارشاد ربانی ہے:

’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے استاذ کے واسطہ کے بغیر اور راہنمائی کرنے والے کی رہنمائی کے بغیر علم عطا کیا۔

’’وکل من علمہ اللہ لا بواسطۃ البشر وجب ان یکون لبیا یعلم الامور بالو حی من اللہ تعالیٰ‘‘

ہر وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ بغیر کسی انسان کے واسطہ  سے ایسا علم عطا فرمائے جو قعطی درجے کا ہو وہ صرف وحی کے ذریعے ہی عطا ہوگا۔

خواہ وحی جلی ہو یا خفی ہو ایسا شخص نبی ہی ہوسکتا ہے کیونکہ ولی کا علم جو اسے الہام کے ذریعے حاصل ہو قطعی نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے۔

۳۔     موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا

کیا میں تمہارے ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھادو گے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی۔

نبی تعلیم حاصل کرنے میں غیر نبی کی تابعداری نہیں کرتا اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نبی تھے۔

۴۔     جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کو کہا کہ آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دو انہوں نے اپنی رفعت کا مظاہر کرتے ہوئے کہا:

وَ كَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ خُبْرًا

اور تم کیسے صبر کرو گے اس بات پر جسے آپ کا علم محیط نہیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے تواضع سے جواب دیا:

’’ولا اعصی لک امرا‘‘ اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا۔

اس سے پتہ چلا کہ علم لدنی کے لحاظ سے موسیٰ علیہ السلام پر خضر علیہ السلام کو فوقیت حاصل تھی۔

’’ومن لا یکون نبیا لا یکون فوق النبی‘‘

جو نبی نہ ہو اسے نبی پر  کسی قسم کی بھی فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی۔

خیال رہے کہ خضر علیہ السلام کو صرف جزوی فضیلت یعنی علم لدنی کے لحاظ سے حاصل تھی ورنہ مدارج کے لحاظ پر موسیٰ علیہ السلام کو برتری حاصل ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی زیر آیت .....

’’ھل اتبعک علی ان تعلمن‘‘ ..... کے تحریر فرماتے ہیں۔

’’وھذہ الایۃ تدل علی ان المفضول قد یکون لہ فضل جزئی علی من ھو افضل منہ وعلی ان الفاضل ینبغی ان یطلب ھذہ الحصۃ من الفضل من المفضول‘‘ (مظہری)

یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ کبھی کم درجہ والے شخص  کو زیادہ درجہ والے پر جزوی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے اور یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ زیادہ مرتبہ والے کو چاہیے کہ کم مرتبہ  والے سے وہ فضل و  کمال حاصل کرے جو اسے حاصل ہے۔

علم لدنی کیا ہے؟ امام رازی فرماتے ہیں:

’’والصوفیۃ سموا العلوم الحاصلۃ بطریق المکا شفات العلوم اللدنیۃ‘‘

صوفیاء کرام نے ان علوم کا نام لدنی رکھا جو کشف کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔

یعنی صرف اللہ تعالیٰ کے عطا سے حاصل ہوتے ہیں ان میں انسان کے کسب کو  دخل نہیں۔ (تفسیر کبیر)

۵۔     حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے افعال کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا:

’’وما فعلتہ عن امری‘‘ میں نے اپنے حکم سے کچھ نہ کیا۔

یعنی میں نے یہ تمام  کام اپنی رائے اور اپنے اجتہاد سے نہیں کیے۔

’’وانما فعلتہ بامر اللہ و وحیہ‘‘

بلکہ میں نے یہ  تمام کام اللہ تعالیٰ کے حکم  اوراس کی وحی سے کیے ہیں۔

’’لان الا قدام علی تنقیص اموال الناس وارافۃ دھانھم لایجوز الا بالو حی والنص القاطع‘‘

اس لیے کہ لوگوں کے مال کا نقصان کرنا  اور کسی  کو قتل کرنا بغیر وحی اور قطعی نص کے کبھی جائز نہیں ہوسکتا۔

’’وھو بدل علی النبوۃ‘‘

اس سے واضح ہوا کہ جب آپ کی طرف وحی آتی تھی تو  آپ نبی تھے۔

۶۔     موسیٰ علیہ السلام کی جب ابتدائی ملاقات آپ سے ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا:

’’السلام علیک‘‘ آپ نے جواب دیا:

’’وعلیک السلام یا نبی بنی اسرائیل‘‘ اے بنی اسرائیل کے نبی اسرائیل کے نبی تم پر بھی سلام ہو۔

موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’من عرفک‘‘

تمہیں کس نے بتایا کہ میں بنی اسرائیل کا نبی  ہوں۔

آپ نے کہا:

’’الذی بعثک الی‘‘ اسی ذات نے بتایا جس نے تمہیں میرے پاس بھیجا ہے۔

’’وھذہ یدل علی انہ انما عرف ذالک بالوحی والوحی لا یکون الا مع النبوۃ‘‘

اس سے پتہ چلا کر آپ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعے پہچانا۔ وحی صرف نبی کے پاس ہی آتی ہے اس طرح آپ کا نبی ہونا واضح ہوا۔ (تفسیر کبیر)

خیال رہے علامہ رازی نے ان کے جوابات بھی نقل کیے ہیں لیکن راقم چونکہ  آپ کی نبوت کا قائل ہے اس لیے ان دلائل پر اکتفا کر  رہا ہے جو حضرات آپ کی ولایت کے قائل ہیں نبوت کے نہیں۔ وہ کبیر اور روح المعانی کا تفصیلی مطالعہ کریں۔

کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں؟

اس کے متعلق پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں رہی بات یہ کہ خضر علیہ السلام اب زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں اس میں علماء کے دو گروہ ہیں اور  ان دونوں گروہوں نے اپنے اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگادیے ہیں علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر میں ان دلائل کو  بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن متعدد صفحات پر پھیلی ہوئی اس بحث کا مطالعہ کرنے کے باوجود تسکین نہیں ہوئی اور انسان کسی ایسے نتیجہ پر نہیں پہنچتا جس  سے دل مطمئن ہو اللہ تعالیٰ عارف باللہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے مزار کو اپنے انوار کا مہبط بنائے انہوں نے اس سلسلہ میں ایسی بات رقم کی ہے کہ جس سے دلائل کا تضاد بھی رفع ہو جاتا ہے اور انسان کے دل میں ایک اطمینان بھی پیدا ہوجاتا ہے میرے خیال میں یہاں فریقین کے دلائل کا نقل کرنا طوالت کا باعث ہوگا صرف تفسیر مظہری کی وہ عبارت لکھ دینا کافی ہے مجھے امید ہے کہ ان کی تحقیق سے جس طرح میری تشویش دور ہوئی اس کے  مطالعہ سے آپ کی پریشانی بھی ختم ہو جائے گی فریقین کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس اشکال کا حل حضرت مجدد الف ثانی کے کلام کے بغیر نا ممکن ہے حضرت مجدد سے حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ زندہ ہیں یا وفات پاگئے ہیں تو وہ بار گاہ الٰہی میں حقیقت حال کے انکشاف کے لیے متوجہ ہوئے۔

’’فرأی الخضر حاضرا عندہ فسالہ عن حالہ فقال انا والیاس لسنا من الاحیاء لکن اللہ سبحانہ اعطی لا رواحنا قوۃ تتجسد بھا و نفعل بھا افعال الاحیاء من ارشاد الضال و  اغا ثۃ الملھوف اذا شاء اللہ وتعلیم العلم اللدنی واعطاء النسبۃ لمن شاء اللہ وجعلنا معینا للقطب المدار من اولیاء اللہ تعالیٰ الذی جعلہ اللہ تعالیٰ مدار اللعالم وجعل بقاء العالم ببرکۃ وجودہ وافاضیتہ وقال الخضر ان القطب فی ھذا الزمان فی دیار یمن متبع للشافعی فی الفقۃ قال فنحن نصلی مع القطب صلوۃ علی مذھب الشافعی فبھذا الکشف الصحیح اجتمع الاقوال وذھب الا شکال والحمد للہ الکبیر المتعال‘‘ (از تفسیر مظہری)

تو حضرت مجدد الف ثانی نے دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام ان کے پاس کھڑے ہیں آپ نے ان سے ان کی حقیقت حال دریافت کی تو  انہوں نے فرمایا کہ میں اور الیاس زندوں میں سے نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری روحوں کو  ایسی قوت بخشی ہے جس سے ہم مجسم ہوتے ہیں اور زندوں کے سے کام کرتے ہیں مثلاً جب اللہ تعالیٰ چاہے تو ہم گمراہی کی رہنمائی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں علم لدنی کی تعلیم دیتے ہیں اور  جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو اسے روحانی نسبت مرحمت کرتے ہیں ہمیں اولیاء اللہ تعالیٰ میں سے جو قطب مدار ہوتا ہے اس کا معاون و  مدد گار بنایا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے مدار عالم بنایا ہے اور اس کی برکت و فیض سے دنیا کی بقاء ہے آج کل یمن کے ایک بزرگ قطب مدار ہیں جو شافعی المذہب ہیں ہم ان کے ساتھ شافعی مذہب کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں اس  کشف صحیح سے مختلف اقوال کا  تضاد اور اشکال دور ہوگیا سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جو کبیر و متعال ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) (ضیاء القرآن)

فوائد:

موسیٰ علیہ السلام باوجود اس  کے کہ کثیر علوم و اعمال کے مالک تھے اور آپ کا  منصب بھی بلند تھا آپ کے حق میں کامل شرافت کے اسباب مجتمع تھے لیکن پھر بھی آپ خضر علیہ السلام کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور ان کے سامنے تواضع اختیار کیا۔

’’وذالک یدل علی ان التواضع خیر من التکبر‘‘

یہاں سے پتہ چلا تواضع تکبر سے بہتر ہے یعنی انسان تواضع سے ہی اعلی مقام حاصل کرسکتا ہے متعلم دو  قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ متعلم جو کچھ بھی نہیں جانتا اس کو بحثیں کرنے قیل و قال کا کوئی تجربہ نہیں تقریر کو لوٹا نہیں سکتا اعتراض کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا دوسرا متعلم وہ ہے اسے پہلے ہی کثیر علوم حاصل ہوتے ہیں استدلال اور اعتراض کرنے کا  اسے تجربہ حاصل ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ چاہتا ہے کہ کسی کامل انسان کو مل کر علم میں اور درجہ کمال حاصل کرے ایسے شخص کا علم حاصل کرنا بہت مشکل ہے اس لیے کہ وہ جب کسی چیز کو دیکھے گا کوئی  کلام سنے گا تو بسا اوقات ظاہر طور پر اسے  وہ  کام یا بات  درست نظر نہیں آئے گی تو وہ اعتراض کرے گا قیل و قال  کرے گا اس میں جھگڑا کرے گا کیونکہ وہ حقیقت حال سے بے خبر ہوگا حالانکہ حقیقت میں وہی کلام درست ہوگا۔ ایسے متعلم کے مجادلہ سے استاذ جو علم میں کمال درجہ رکھتا ہے متنفر ہوجاتا ہے، دو تین مرتبہ برداشت کرنے کے بعد  اسے کہتا ہے آپ چلے جائیں میں تمہیں نہیں پڑھا سکتا تم پہلے ہی  زیادہ علم رکھتے ہو۔

متعلم وہی بہتر ہے جو  استاد پر اعتراض برائے اعتراض نہ کرے، اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، ن کیجیے منصب تدریس پر فائز ہم نے انہیں ہی دیکھا جو بالوب تھے، نیاز مند تھے، متواضع تھے۔ بے ادب، گستاخ اور بے وفاؤں نے اگر دنیا کا مال و دولت حاصل کیا بھی ہو تو استاذ کی ناراضگی کا طوق ان کے گلے میں پڑکر ان کی ذلت کا سبب بنا۔ کئی ایسے تھے جنہیں ہم سمجھتے تھے کہ یہ استاذ بن کر دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہونگے لیکن ایسا نہ  ہوسکا کیونکہ ان کی بدطینتی نے انہیں مقام ذلت پر پہنچادیا۔ یہی حال مرید کا  ہے کہ وہ اپنے شیخ کے ادب و احترام کا لحاظ کرے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں ذکر  کرتے ہیں۔

’’(قال فان اتبعتی فلا تسئلئی) وھذہ الایۃ تدل علی انہ یجب علی المرید ترک الاعتراض علی الشیخ‘‘

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ پر اعتراض کرنا چھوڑ دے موسیٰ علیہ السلام نے جب خضر علیہ  السلام سے علم حاصل  کرنا چاہا تو ادب و احترام اور نیاز مندی کا بہت  ہی پاس کیا۔

آپ نے اپنے آپ کو  ان کا تابع بناتے ہوئے یوں عرض کیا ھل اتبعک کیا میں آپ کا تابع ہو جاؤں اس تابعداری پر قائم رہنے کی اجازت طلب کرتے ہیں گویا آپ نے یوں کہا:

’’ھل تاذن لی ان اجعل نفسی تبعالک‘‘

کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں خود کو  آپ کا تابع رکھوں۔

اس میں آپ نے بہت بڑی عاجزی کا اظہار کیا آپ نے علی ان تعلمن مجھے آپ علم سکھائیں کہہ کر گویا اقرار کیا کہ جو علم لدنی آپ کو  حاصل ہے وہ مجھے حاصل نہیں یہ بھی ادب کا  ایک طریقہ ہے۔

۴۔     اور آپ نے کہا:

’’مماعلمت‘‘ آپ کو جو علم دیا گیا اس سے کچھ بتادیں۔

اس میں مقصد یہ تھا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے تمام علوم عطا کردیں کہ میں آپ کے برابر ہوجاؤں بلکہ میں تو آپ سے کچھ علوم حاصل کرنا چاہتا ہوں جس طرح فقیر غنی سے کچھ مال طلب کرتا ہے اس طرح کا سوال موسیٰ علیہ السلام نے کر کے عاجزی کا  اعلی معیار قائم کیا خیال رہے کہ اس میں من تبعیضیہ ہے۔

۵۔     آپ نے کہا:

’’مما علمت‘‘ کہہ کر اعتراف کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی عطا کیا ہے میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔

۶۔     کہا: ’’رشدا‘‘ ’’نیک بات‘‘ یعنی آپ کو جو نیک بات عطا ہوئی وہ مجھے بھی سکھادیں۔

اس میں خضر علیہ السلام کے نیکی کے راہ پر  ہونے کا اعتراف ہے اور اپنا رشد و ہدایت طلب کرنے  کا اظہار ہے۔

۷۔     ’’علی ان تعلمن مما علمت‘‘ اللہ تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا کیا ہے وہ مجھے آپ سکھادیں۔

یہ کہہ کر گویا یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ آپ میرے ساتھ وہ معاملہ فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے معاملہ کیا ہے یعنی آپ کا مجھ پر ایسا احسان ہوگا جیسا رب تعالیٰ کا آپ پر احسان ہے اسی لیے استاذ کے احسان کا اعتراف کرنے والے کسی بزرگ نے کہا ہے:

’’انا عبد من تعلمت منہ حرفا‘‘

میں نے جس سے ایک حرف بھی حاصل کیا ہے میں اس کا عبد ہوں۔

۸۔     متابعت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام غیر کی طرح کرنا صرف اس لحاظ پر کہ یہ کام فلاں نے کیا ہے میں نے بھی اس کی تابعداری کی وجہ سے کرنا ہے خود انسان کے پاس اس کام کرنے کی کوئی دلیل نہ ہو۔ ہم لا الہ الا اللہ کہتے ہیں اور یہود بھی یہی کلمہ کہتے ہیں، لیکن ہم ان کے متبع نہیں کیونکہ ہمارے پاس اس کی دلیل موجود ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں لیکن ہمارا پانچ نمازیں ادا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے کیونکہ آپ کے افعال و اقوال کے بغیر ہمارے پاس اور کوئی دلیل نہیں موسیٰ علیہ السلام نے کہا ’’ھل اتبعک‘‘ کہہ کر خضر علیہ السلام سے تابعداری کرنے کی اجازت طلب کی یعنی میں آپ کے افعال کو دیکھ کر اقوال کو سن کر ہی آپ کی تابعداری کروں گا مجھے کسی اور دلیل کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اس مسئلہ سے واضح ہوا کہ

’’ان المتعلم یجب علیہ فی اول الامر التسلیم وترک المنازعۃ والاعتراض‘‘

بے شک متعلم کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی طور پر ہی استاذ کی بات تسلیم کرے اور جھگڑا کرنا اور اعتراض کرنا ترک کردے۔

سمجھنے کے لیے پوچھنا درست ہے استاذ نے عدم توجہ سے درست نہ بیان کیا ہو تو مستحسن طور پر علیحدگی میں وہ مسئلہ دوبارہ پوچھ لیا جائے۔

۹۔     موسیٰ علیہ السلام نے ’’اتبعک‘‘ کہہ کر یہ کہا کہ میں تمام امور میں آپ کی تابعداری کروں گا آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں کچھ باتوں میں تابعداری کروں گا۔

۱۰۔    جب روایات سے یہ واضح ہے کہ خضر علیہ السلام کو پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں صاحب تورات ہیں رب تعالیٰ نے آپ سے بلا واسطہ کلام کر کے آپ کو خصوصیت سے نوازا ہے آپ کو عظیم الشان معجزات عطا کیے گئے ہیں پھر موسیٰ علیہ  السلام کا بلند و بالا منصب رکھنے کے باوجود اور بلند درجات حاصل ہوتے ہوئے اتنی بڑی تواضع کرنا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ علم حاصل کرنے میں کتنی عظیم کوشش فرما رہے ہیں اور یہ آپ کی شان کے لائق بھی تھا کیونکہ جتنا علم زیادہ  ہوگا اسی قدر چہرے پر علم کی نورانیت اور سعادت زیادہ حاصل ہوگی اور وہ شخص اور زیادہ علم حاصل کرنے میں شدید کوشش کرے گا۔

’’وکان تعظیمہ لا رباب العلم اکمل واشد‘‘

وہ شخص علم والوں کی کامل طور پر  زیادہ  سے زیادہ تعظیم کرے گا۔

۱۱۔     موسیٰ علیہ السلام نے کہا:

’’ھل اتبعک علی ان تعلمن‘‘

کیا میں آپ کی تابعداری کروں اس شرط پر کہ آپ مجھے علم سکھادیں۔

آپ نے تابعداری، خدمت گزاری کا ذکر پہلے کیا اور علم حاصل کرنے کا بعد میں۔

’’وھذا منہ ابتدا بالخدمۃ ثم فی المرتبۃ الثانیۃ طلب منہ التعلیم‘‘

اس سے واضح ہوا کہ متعلم پہلے استاذ کی خدمت کو شعار بنائے پھر حصول تعلیم کو مدنظر رکھے۔ (از کبیر)

وہ طالبعلم بدبخت ہے جو  استاذ کی خدمت کو عار سمجھتا ہو یا استاذ کے بتائے ہوئے کام نہ کرے اور ٹال مٹول سے کام لے۔

تاہم استاذ کے لیے بھی ضروری ہے کہ حسن اخلاق سے طلباء کو اپنے قریب کرے، آدم خور کے قریب ہونے والے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ اسی استاذ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے خدمت گزاری کی تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دے۔ ایسا استاذ جو صرف اپنے کاموں کو ترجیح دے، اپنے گزار کی تعلیم کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دے۔ ایسا استاذ جو صرف اپنے کاموں کو ترجیح دے، اپنے خدمت کرنے والے کی تعلیم کا نقصان کرے، وہ اس طالب علم کا درحقیقت دشمن تو ہوسکتا ہے محسن نہیں۔ خدمت گزار پر احسان یہی ہے کہ اس کی تعلیم میں جو کام نقصان کا سبب بن رہے ہوں ان پر سختی سے متنبہ کرے۔ اچھا سبق یاد  کرنے پر  شفقت کرے۔ شفقت سے ہی اپنی اولاد کی طرح اس سے محبت رکھے۔

ایسا استاذ بھی طلباء کا محسن نہیں ہوسکتا جو لطائف قصے کہانیاں سنا کر تضییع اوقات کا سبب بنے اور کتاب نہ پڑھائے اور ایسا استاذ بھی طلباقء کا محسن نہیں جو اپنا سبق مکمل کر کے کسی کو کام پر لگائے اور دوسرے استاذ کی حق تلفی کرے، یا سبق مکمل کرنے کے بعد قصے کہانیاں شروع کردے اور دوسروں کا حق ضائع کر کے ظلم کا مرتکب ہو۔

فارغ ہونے کے بعد یقیناً طلباء کو احساس ہوتا ہے کہ کون سا استاذ ہمارے اوقات ضائع کرتا رہا اور کس استاذ نے ہمیں پڑھانے کی طرف توجہ دی تھی؟ کاش یہ بات طلباء کو دوران تعلیم ہی پتہ چل جائے۔

۱۲۔    موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے تابعداری کرنے کے عوض مال و دولت یا کچھ مرتبہ نہیں طلب کیا بلکہ صرف تحصیل علم کا مطالبہ کیا۔ (از کبیر)

وہ طلباء درحقیقت احمق ہوا کرتے ہیں جو استاذ کے قریب کی وجہ سے دوسرے طلباء کی شکایتیں لگاتے رہتے ہیں، دوسرے طلباء کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اے دین کے معلمین! خدارا انصاف سے بتائیں کہ جاسوس مقرر کرنا کون سی شریعت میں جائز ہے؟ کبھی استاد پر جاسوس مقرر کرنا، کبھی طلباء پر، یہ انصاف سے بعید ہے۔ آج کا استاد کل اپنی طالب علمی کو دیکھے، جس استاد کو اپنا ماضی بھول جائے، کمینی حرکات کا مرتکب وہی ہوسکتا ہے۔

اے آج کے آدم خور استاد! تو ذرا اپنے ماضی کو جھانک کر دیکھ تو کتنا لائق تھا؟ کتنا فرشتہ سیرت تھا؟ کیا تو نے کوئی غلطی نہیں کی؟ کیا تجھ سے کوئی تساہل نہیں ہوا؟ کیا تجھ سے کوئی بھول نہیں ہوئی؟

جب تو بھی آج کے طلباء کی طرح ہی تھا تو آج بہودہ بکواس کیوں کر رہا ہے؟ آج تو ڈنڈے کیوں برسا رہا ہے؟ آج تو انسانوں کو گدھا کیوں سمجھ رہا ہے؟ کیا تیرا استاذ بھی تیری طرح ہی بہودہ تھا؟ جیسا تو ہے۔ ذرا غور تو کر! ذرا سوچ، انسانیت کیا ہے؟

موسیٰ علیہ السلام کا انتقال:

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملک الموت (عزرائیل فرشتہ) کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف بھیجا گیا جب وہ آپ کے پاس آیا تو ’’صکہ ففقا عینہ‘‘ آپ نے تھپڑ مار کر اس کی آنکھ نکال دی۔

دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ اپنے رب تعالیٰ کا حکم قبول کرو تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کر دیا جس سے اس کی آنکھ ضائع ہوگئی عزرائیل واپس اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوا عرض کی:

’’ارسلتنی الی عبد لا یرید الموت‘‘ مجھے تونے ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔

اللہ تعالیٰ نے عزرائیل کو آنکھ پھر عطاء کردی یعنی نظر پھر لوٹادی اور فرمایا کہ جاؤ میرے بندے کے پاس اسے کہو کہ اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھے، ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے عمر اتنے سال بڑھا دوں گا۔ آپ نے عرض کی اے میرے رب پھر کیا ہوگا؟ رب تعالیٰ نے فرمایا پھر موت آجائے گی۔ آپ نے عرض کی موت ابھی آجائے۔ ساتھ یہ سوال کیا کہ اے میرے رب مجھے بیت المقدس کی سر زمین پر پہنچا دینا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میرے صحابہ اگر میں چاہوں تو تمہیں سرخ ریت کے ٹیلوں کے پاس راستے کی ایک جانب آپ کی قبر اب بھی دکھا سکتا ہوں۔ (مسلم شریف)

فائدہ:

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیت المقدس میں دفن ہونے کی خواہش اس لیے کی کہ وہ مقام انبیائے کرام علیہم السلام کے دفن ہونے کی وجہ سے مشرف تھا آپ کی دعا سے واضح ہوا کہ فضیلت والے مقام میں صالحین کے قرب و جوار میں دفن ہونا مستحب ہے۔ (نووی شرح مسلم)

’’ان الدفن بقرب الصالحین فی مواضع متبرکۃ امر مندوب‘‘ (خازن ص ۴۴۷)

نیک لوگوں کے قریب متبرک مقامات میں کسی کو دفن کرنا امر مستحب ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روضہ مطہرہ میں دفن ہونے کی خواہش کی اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایثار فرماتے ہوئے اجازت دی، اس پر فتح الباری شرح بخاری میں ہے کہ اس حدیث پاک سے معلوم ہو رہا ہے کہ نیک لوگوں کے قریب دفن ہونے کی تمنا پائی جائے اس خیال کے پیش نظر کہ ان پر جب رحمت کا نزول ہوگا مجھے بھی اس سے فائدہ ہوگا نیک لوگ جب ان کی زیارت کو آئیں گے اور ان کے لیے دعا کریں گے تو اس دعا کا فائدہ مجھے بھی ہوگا۔ (فتح الباری شرح بخاری ج ۳ ص ۱۶۶)

تنبیہ: مسلم شریف کی حدیث پاک سے روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ عزرائیل علیہ السلام کو انبیائے کرام علیہم السلام پر کوئی تسلط نہیں بعض انبیائے کرام علیہم السلام نے حکم باری کو قبول کرتے ہوئے ابتدا ہی میں عزرائیل علیہ السلام کو خوش آمدید کہا۔ بعض انبیائے کرام علیہم السلام نے عزرائیل علیہ السلام کو اپنے پاس بلا اجازت آنے پر تنبیہ کی اور بتایا کہ عزرائیل کو ان پر کوئی تسلط حاصل نہیں پھر اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کو بھی ترجیح دی عمر کی مہلت ملنے کے باوجود قبول نہیں فرمائی تو واضح ہوا کہ ان کا منشا عمر کا حصول نہیں ہوتا بلکہ شان انبیائے کرام علیہم السلام کو عوام الناس پر واضح کرنا مقصد عظیم ہوتا ہے۔

فائدہ جلیلہ:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم فرمایا کہ زمین پر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہو خبردار بغیر اجازت کے حاضر نہ ہونا بغیر اجازت کے روح قبض نہ کرنا تو عزرائیل نے دروازے کے باہر اعرابی کی صورت میں کھڑے ہوکر عرض کی:

’’السلام علیکم اھل بیت النبوۃ و معدن الرسالۃ و مختلف الملائکۃ‘‘

اے معدن رسالت، ملائکہ کے مقام آمدو رفت، اہل بیت نبوت تم پر سلام ہو

مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں داخل ہوں تم پر خدا کی رحمت ہو۔ اس وقت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے موجود تھیں انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حال میں مشغول ہیں اس وقت ملاقات نہیں فرما سکتے،

دوسری مرتبہ پھر اجازت طلب کی یہی جواب ملا، تیسری مرتبہ اجازت طلب کی اور بآواز بلند اجازت طلب کی۔ چنانچہ جتنے صاحبان گھر میں موجود تھے اس آواز کی ہیبت سے ان پر لرزہ طاری ہوگیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں آئے اور آنکھ مبارک کھول کر فرمایا کیا بات ہے؟ صورت حال آپ کی خدمت میں عرض کی گئی آپ نے فرمایا اے فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) تمہیں معلوم ہے یہ کون ہے؟ یہ لذتوں کو توڑنے والا، خواہش اورتمناؤں کو کچلنے والا، اجتماعی بندھنوں کو کھولنے والا، بیویوں کو بیوہ کرنے والا اور بچوں بچیوں کو یتیم کرنے والا ہے۔ (مدارج النبوت جلد دوم )

موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز ادا کرنا:

حضرت سلیمان تیمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مررت علی موسیٰ وھو یصلی فی قبرہ‘‘

میرا گزر موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تو اپنی قبر میں نماز ادا کر رہے تھے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ

’’مررت لیلۃ اسری بی‘‘ معراج کی رات میرا گزر موسیٰ علیہ السلام سے ہوا۔ (مسلم شریف ج ۲ ص ۲۷۶)

اور ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے موسیٰ علیہ السلام کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا عیسیٰ علیہ السلام کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ابراہیم علیہ السلام کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ (مسلم شریف ج ۱ ص ۱۱۶)

خیال رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا پھر بیت المقدس میں اپنے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا پھر آسمانوں پر آپ کو مرحبا کہتے ہوئے بھی دیکھا، اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار تھے آپ براق کی رفتار سے سفر کر رہے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام بغیر کسی سواری کے اپنی شان نبوت سے چل رہے تھے، اس لیے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بیت المقدس اور آسمانوں پر پہنچ گئے۔ یعنی رفتارِ نبوت، براق کی رفتار سے بڑھ کر ہے۔

دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ایک وقت میں قبر میں بھی تشریف فرما ہوں اور بیت المقدس میں بھی اورآسمانوں میں بھی۔ (واللہ اعلم بالصواب)

 (تذکرۃ الانبیاء)


متعلقہ

تجویزوآراء