حضرت سیدنا لوط علیہ السلام

حضرت سیدنا لوط علیہ السلام 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَآمَنْ لَہٗ لُوْطٌ

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تمام باتوں کی آپ علیہ السلام نے تصدیق فرمائی اور آپ کے دعویٰ نبوت کی تصدیق فرمائی‘‘

تمام انبیائے کرام نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اس لیے یہاں یہ معنی نہیں لیا جاسکتا کہ حضرت لوط علیہ السلام (معاذاللہ) کفر سے ایمان لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کی تبلیغ فرمائی تو آپ تو حید پر ایمان لائے۔

یہ معانی نبی کی شان کے منافی ہیں:

’’لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے ابراہیم علیہ السلام کو ہر دعویٰ میں سچا تسلیم کیا۔ لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہاران بن تارخ کے بیٹے ہیں، اگرچہ ’’کشاف‘‘ میں یہ ہے کہ آپ کی بہن کے بیٹے ہیں لیکن ’’کمالین‘‘ میں اس قول کو رد کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ہاران حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام بھی ہے جو حضرت سارہ کا باپ تھا پہلے زمانہ میں گھر کے کئی افراد کا ایک ہی نام ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات باپ بیٹے کا ایک نام اور کبھی بہن بھائی کا ایک نام بھی ہوتا تھا۔

تنبیہ: بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کو آگ نے کچھ تکلیف نہ دی تو یہ معجزہ د یکھ کر حضرت لوط علیہ السلام ایمان لے آئے۔ اس سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ معاذاللہ کفر کے بعد ایمان لائے، لیکن اس کو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے رد کرتے ہوئے فرمایا:

’’وما قیل انہ امن علیہ السلام حین رای النار لم تحرقہ ضعیف روایۃ وکذا درایۃ لانہ بظاھرہ یقتضی عدم ایمانہ قبل وھو غیر لائق بہ علیہ السلام‘‘

بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ لوط علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا تو آپ ایمان لائے، یہ عقل و نقل کے مخالف ہے؛ کیونکہ اس سے بظاہر پتہ یہ چلتا ہے کہ آپ کا پہلے ایمان نہیں تھا، یہ نبی کی شان کے لائق ہی نہیں۔

لوط علیہ السلام کے ایمان لانے سے مراد:

یا تو ایمان کا وہی معنی ہے جو پہلے بیان کیا جاچکا ہے اور یا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ

’’آپ علیہ السلام مراتب کی اس بلندی پر فائز ہوئے جہاں عام انسان اس مقام کو نہیں پاسکتا۔‘‘

حضرت لوط علیہ السلام کی ہجرت:

حضرت لوط علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بابل سے حران کی طرف ہجرت کی، پھر وہاں سے مصر میں۔ اب ان دونوں کے ساتھ حضرت سارہ بھی تھیں، مصر سے فلسطین میں آگئے۔ اب ان تینوں کے ساتھ حضرت ہاجرہ بھی تھیں۔

پھر لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے شہر سے تقریباً اٹھارہ میل دور تک ایک شہر میں تبلیغ دین کے لیے آگئے اس شہر کا نام ’’سندوم‘‘ تھا۔ قرآن پاک میں اسی کو ’’الموتفکہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا۔ (روح المعانی ج۱۱ حصہ اول ص۱۵۲)

لوط علیہ السلام نے قوم کو عبادت کی دعوت نہیں دی:

حضرت لوط علیہ السلام نے قوم کو صرف برائیوں سے باز رہنے کی تبلیغ کی، لیکن ان کو عبادت کرنے کا حکم اس طرح نہیں دیا جیسے حضرت ابراہیم نے دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام نے قوم کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عبادت کی تبلیغ فرمادی تھی اور یہ بہت مشہور ہوچکی تھی۔

لوط علیہ السلام جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہی تھے اور علاقہ بھی قریب قریب تھا اور آپ کی قوم یعنی خاندان میں سے تھے تو آپ نے دوبارہ مشہور امور کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی قوم کو صرف ان کی خصوصی برائیوں سے ہی روکا؛ تاکہ یہ قوم دنیاوی  اور اخروی عذاب سے بچ جائے، لیکن قوم باز نہ آئی آخر کار ان پر عذاب مسلط کردیا گیا۔

آپ نے قوم کو کہا:

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٓ اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللہ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ (پ۲۰ سورۃ عنکبوت۲۹)

اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم کو کہا تم بے شک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا، کیا تم مردوں سے بد فعلی کرتے ہو؟ اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو؟ اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

آپ علیہ السلام قوم کو عذاب سے بچانے کی فکر میں ہیں لیکن قوم کبھی کہتی ہے تم عذاب لے آؤ اور کبھی کہتی:

قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۱۲۷)

بولے اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو ضرور نکال دیے جاؤ گے یعنی ہم تمہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے اور ہم تمہیں یہاں رہنے نہیں دیں گے۔

لوط علیہ السلام کی قوم کی خرابیاں:

سب سے بڑی برائی ان میں ’’لواطت‘‘ تھی۔ (مردوں سے برائی کرنے کی عادت ان میں کثرت سے پائی جاتی تھی) اور مسافروں اور گذرنے والوں کے راستہ میں بیٹھ جانا ان کا راستہ روکنا اور زبردستی ان سے برائی کا مرتکب ہونا، راستہ میں بیٹھ کر ڈاکہ زنی، لوگوں کو قتل کرنا اور ان کا مال لوٹنا، ان کی بری عادات میں شامل تھا۔

قوم لوط کی یہ برائیاں ابھی تک لوگوں میں موجود ہیں، جو شریعت مطہرہ سے بغاوت ہے۔

۞      مردوں کی محفلوں میں صرف اسی لیے آنا کہ ان کو تاڑنا یعنی بعض کا بعض کو دیکھنا اور برائی کے لیے انتخاب کرنا۔ کبوتر بازی یعنی پورا پورا دن ان کو اڑانے اور شرط پر بازی لگانے میں گذر دینا، آج بھی لوگ اس برائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

۞      عورتوں کی طرف انگلیوں کے پورے مہندی سے رنگنا۔ خیال رہے مرد کو بطور دوا مہندی لگانا جائز ہے لیکن زیب و زینت کے لیے منع ہے، لیکن آج کے دور میں لڑکوں کو لڑکیوں کا لباس اور چال ڈھب پسند ہے جو حرام ہے۔

۞      ہاتھوں سے کنکریاں ادھر ادھر پھینکا، گذرنے والوں کو تنگ کرنا۔ اسی طرح بندوقوں سے کنکریاں پھینک کر لوگوں کوستانا، یہ فعل آج کے دور میں اوباش لوگوں میں قوم لوط سے زیادہ پایا جاتا ہے۔

۞      ایک دوسرے کوتھپڑ مارنا ادھر سے ایک آیا اس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا اور ادھر سے دوسرا آیا اس نے تھپڑ ماردیا، یہ بیہودہ فعل ان کا مزاح ہوا کرتا جو درحقیقت ان کے اوباش ہونے کی علامت تھی۔

۞      محفل میں لوگوں کے سامنے بلند آواز سے ہوا خارج کرنا وہ اپنی شان سمجھتے تھے حالانکہ شرفا کے لیے یہ فعل باعث شرم ہوتا ہے۔ بے اختیار ہوا کا بلند آواز سے خارج ہونا، یا گیس وغیرہ کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وج ہ سے نہ روک سکنا، یا روکنے کی صورت میں بیماری بڑھ جانے کا خطرہ ہونا، سب عذر ہیں، عذر کی صورتوں میں کئی افعال معاف ہوتے ہیں ان کے احکام علیحدہ ہوتے ہیں۔

۞      انگلیوں کے پٹاخے نکالنا بلا وجہ اور بغیر عذر کے انگلیاں کے پٹاخے نکالنا مکروہ ہے اسی وجہ سے کہ یہ لوط علیہ السلام کی قوم کا فعل تھا اور اس وقت بھی اس فعل کو بیہودہ سمجھا جاتا تھا۔

۞      مزاح کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے ننگا ہونا یعنی چادر شلوار وغیرہ اتار دینا۔ ننگا ہونا بے حیا بننا بھی قوم لوط کا فعل ہے جس کو آج نام نہاد مسلمانوں نے ’’ثقافت‘‘ کا نام دیا ہوا ہے۔

۞      مزاح مزاح میں فحش کلامی اور ایک دوسرے کو گالی دینا، یہ برائی بھی آج کے اوباش لڑکوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے، وہ اپنے خیال میں اپنے آپ کو ماڈرن اور ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی شریف آدمی انہیں روکے تو اسے ملائیت، فسطائیت، قدامت پسندی کے القاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں دنیا تو (بے حیائی) بہت آگے جاچکی ہے لیکن یہ ابھی چودہ سو سال پیچھے ہیں۔ سائنسی علوم پڑھ کر ترقی تو ضرور کریں ملک و ملت کو عروج بخشیں لیکن بے حیا بن کر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت نہ دیں۔

الغرض ہر قسم کی بے حیائی اس قوم میں موجود تھی حیا کے خلاف ہر فعل ان کے نزدیک پسندیدہ سمجھا جاتا۔

عام لوگوں کے سامنے عام محافل میں مصطگی کا چبانا اور مسواک کا چبانا بھی قوم لوط کا برا فعل تھا، یہ ایسا فعل ہے جس سے دوسرے دیکھنے والے کا دل خراب ہوتا ہے، دلمیں متلاپن پیدا ہوتا ہے جو بعض اوقات زیادہ حساس طبیعت کے شخص کے قے آنے کا سبب بن جاتا ہے۔

آج کے دور میں چوئنگم (ببل گم) چبانا، منہ سے بار بار نکالنا پھر منہ کے اندر لے جانا اور کبھی غبارہ بنانا، قوم لوط کے فعل کا ہی عکس ہے اور درحقیقت یہ بے وقوفی کی علامت ہے۔

عام طور پر بے وقوف کو اونٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ وہ پیشاب اپنی رانوں پر کرتا ہے جو پیاب سے اپنے آپ کو نہ بچاسکے اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ بے وقوف کو اونٹ کہہ دیتے ہیں اور کئی مست اونٹ اپنے منہ سے اسی طرح غبارے بناتے ہیں پھر منہ میں داخل کرلیتے ہیں، منہ میں جھاگ پیدا ہوتی ہے۔ اسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’بو کے نکالنے والا اونٹ‘‘ کبھی اونٹ کا نظارا بھی دیکھیں اور ترقی یافتہ چوئنگم کھانے والوں کو بھی دیکھیں تو آپ کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، اس لیے ان کو اونٹ کہنا اور بے وقوف سمجھنا عقل کی علامت ہے۔

کچھ لوگ ہر وقت منہ میں مسواک لیے پھرتے ہیں عام محافل میں بس میں ویگن میں حالانکہ اس طرح مسواک منہ میں لینا پھر نکالنا پھر منہ میں ڈالنا کلی نہ کرنا یہ طریقہ دوسروں کا دل خراب کرنے کے مترادف ہے۔

مسواک کون سے مواقع میں مستحب ہے؟

مسواک کے متلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا ارشادات ہیں؟ ان کو سمجھنے سے واضح ہوجائے گا کہ ہر وقت مسواک چباتے رہنا، کبھی منہ میں لینا  کبھی باہر نکالنا معیوب ہے۔ جس فعل سے دوسرے لوگوں کی طبیعت متفر ہو، وہ کام ا نبیائے کرام نے نہیں کیے۔

مسواک کے متعلق ارشاداتِ مصطفوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لولا ان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک عند کل وضوء

اگر میں امت پر شاق نہ سمجھتا تو ہر وضو کے وقت مسواک کا حکم دیتا یعنی ہر وضو کے ساتھ مسواک کو واجب قرار دے دیتا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لولا ان اشق علی امتی لامرتھم بتاخیر العشاء وبالسوک عند کل صلوۃ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ باب السواک)

اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا تو عشاء کی تاخیر اور ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتال یعنی عشاء کی نماز کو دیر سے ادا کرتا اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کو واجب کردیتا۔

خیال رہے کہ یہ دونوں حکم استحبابی اب بھی موجود ہیں صرف وجوب کی نفی ہے تاکہ امت پر مشکل درپیش نہ آئے۔

حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے تو کس چیز سے ابتداء کرتے؟ قالت بالسواک آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مسواک سے۔ (مسلم، مشکوٰۃ باب السواک)

یعنی مسجد سے واپس گھر آکر یا سفر سے واپس آکر مسواک فرماتے تھے آپ نظافت کا خصوصی خیال فرماتے تھے اور دانتوں کی صفائی میں مبالغہ فرماتے۔

مسواک کے مستحب اوقات:

ویستحب فی خمسۃ مواضع اصفرار السن وتغیر الرانحۃ والقیام من النوم والقیام الی الصلوۃ وعند الوضوء (مرقاۃ المفاتیح ج۲ ص۳)

پانچ مقاموں میں مسواک کرنا مستحب ہے:

۱۔      دانت زرد رنگ کے ہوجائیں۔        ۲۔     منہ میں بو آنے لگے۔

۳۔     سونے کے بعد۔           ۴۔     نماز کے لیے جب تیار ہو۔

۵۔     وضوء جب بھی کرے، خواہ نماز کے لیے یا قرآن پاک کو چھونے کے لیے۔

اس بحث سے مسواک کے مواضع واضح ہوگئے، ویگن بس میں، چلتے پھرتے ہر محفل میں مسواک کو چباتے رہنا، کبھی منہ میں لینا، کبھی نکالنا، کبھی تھوکنا پھر مسواک کو منہ میں لینا، کلی نہ کرنا۔ یہ طریقہ راقم کو کہیں سے نہیں ملا کہ ایسا کرنا مستحب ہے یا دوسروں کو متنفر کرنا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)

لوط علیہ السلام کی زوجہ:

حضرت لوط علیہ السلام کی زوجہ کا نام ’’واھلہ‘‘ تھا۔ یہ کافرہ تھی۔ اس کے دلم یں نفاق تھا وعدہ کا پاس نہیں کرتی تھی۔ لوط علیہ السلام کے پاس آنے والے مہمانوں کے متعلق قوم کو مطلع کرتی اس طرح لوط علیہ السلام کی خیانت کی مرتکب ہوتی۔ قوم کی برائی پر خوش ہوتی تھی، اس لیے قوم کے ساتھ عذاب میں یہ بھی گرفتار ہوئی۔

عذاب والے فرشتوں کا لوط علیہ السلام کے پاس آنا:

جو فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے حضرت سارہ کو اسحاق علیہ السلام اور ان کے بعد یعقوب علیہ السلام کی بشارت دینے کے لیے وہی لوط علیہ السلام کی قوم کو عذاب دینے کے لیے بھی آئے۔ وہ فرشتے انسانی شکل میں آئے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام بہت مہمان نواز تھے پندرہ دنوں سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، اس لیے آپ نے جلدی سے ان کے پاس بھونا ہوا بچھڑا پیش کیا۔ آپ نے جب دیکھا کہ یہ اجنبی لوگ ہیں ان کے ہاتھ کھانے تک نہیں پہنچ رہے تو سمجھ گئے کہ یہ تو فرشتے ہیں۔

اعتراض:

رب تعالیٰ نے فرمایا: واوجس منھم خیفۃ اور دل دل میں ان سے ڈرنے لگے۔

اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کو فرشتوں کا پتہ ہی نہ چل سکا اور ان کو اجنبی سمجھ کر ڈر گئے کہ معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آگئے ہیں؟

جواب:

’’قال فی التاویلات النجمیۃ ما کان خوف ابراہیم خوف البشریۃ بان خاف علی نفسہ فانہ حین رمی بالمنجنیق الی النار ماخاف علی نفسہ وقال اسلمت لرب العلمین  وانما کان خوفہ خوف الرحمۃ والشفقۃ علی قومہ یدل علیہ قالوا ’’لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط‘‘ (حاشیہ جلالین ص۱۸۵)

’’تاویلات نجمیہ‘‘ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو بتقاضائے بشریت کوئی خوف نہیں ہوا کہ آپ کو اپنی جان کا خوف ہوتا تو آپ کو جب منجنیق کے ذریعے آگ میں ڈالا جا رہا تھا اس وقت آپ کو اپنی جان کا کوئی خوف نہیں ہوا بلکہ آپ نے کہا: ’’میں اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کر رہا ہوں‘‘ آپ کو صرف خوف اپنی امت کا تھا امت پر رحمت و شفقت کرتے ہوئے آپ خوف کر رہے تھے کہ کہیں میری امت کسی عذاب میں مبتلا نہ ہوجائے فرشتوں کا جواب اس مضمون کو واضح کر رہا ہے کیونکہ انہوں نے کہا ’’آپ خوف نہ کریں بے شک ہم تو لوط علیہ السلام کی طرف بھیجے گئے ہیں۔‘‘

ابراہیم علیہ السلام کا فرشتوں سے مجادلہ:

’’فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرٰھِیْمَ الرَّوْعُ وَجَآءَ تْہُ الْبُشْرٰی یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ‘‘

’’پھر جب ابراہیم کا خوف زائل ہوا اور اسے خوشخبری ملی ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا‘‘

یعنی ابراہیم علیہ السلام کو جب معلوم ہوگیا کہ میری قوم کو عذاب تو نہیں ہو رہا، تو آپ کو لوط علیہ السلام اور ان کی اہل کی فکر دامن گیر ہوئی۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی قول پسند کیا ہے کہ آپ کو اپنی قوم کی فکر تھی، آپ فرشتوں کو پہچان رہے تھے۔ علامہ فرماتے ہیں:

’’والذی امیل الیہ انہ علیہ السلام عرفھم قبل ذالک وان خوفہ منھم لکونہ ملائکۃ لم یدر لای شئی نزلوا‘‘ (روح المعانی ج۷ حصہ اول ص۹۷)

میرا رجحان اسی طرف ہے کہ آپ نے فرشتوں کو پہلے ہی پہچان لیا تھا، خوف صرف اس لیے ہو رہا تھا کہ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کیوں نازل ہوئے ہیں؟ کہیں قوم کو عذاب دینے کے لیے تو نہیں آگئے۔

ابراہیم علیہ السلام کا فرشتوں سے سوال و جواب کرنا اگرچہ حقیقتاً کوئی ’’مجاولہ‘‘ نہیں البتہ صورتاً مجاولہ تھا، آپ علیہ السلام نے انہیں کہا: کیا تم اس بستی کو ہلاک کردو گے جس میں تین سو مومن ہوں گے؟ انہوں نے کہا نہیں ایسا کبھی نہیں کریں گے، پھر آپ نے کہا: کیا تم اس بستی کو ہلاک کرو گے جس میں دو سو ایمان والے رہتے ہوں؟ انہوں نے کہا نہیں اسے تو ہلاک نہیں کریں گے۔ پھر آپ نے کہا کیا تم اس آبادی کو برباد کرو گے جہاں چالیس ایماندار لوگ موجود ہوں گے؟ انہوں نے کہا نہیں اسے تو کبھی برباد نہیں کریں گے، پھر آپ نے فرمایا تم اس شہر کو برباد کرو گے جہاں دس مومن رہتے ہوں؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا کہ اگر ایک مومن ہاں رہتا ہو تو اسے تم برباد کردو گے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔

تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اِنَّ فِیْھا لُوْطَا اس میں تو لوط موجود ہیں، فرشتوں نے کہا: نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْھَا ہمیں معلوم ہے وہاں کون لوگ ہیں؟ لوط علیہ السلام اور ان کی اہل کو ہم نجات دیں گے سوائے ان کی عورت کے، وہ قوم کے ساتھ ہی عذاب میں مبتلا ہوجائے گی۔ (تفسیر جلالین ص۱۸۶)

فرشتوں کا لوط علیہ السلام کے پاس آنا:

وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًاسِیْٓءَ بِھِمْ وَضَاقَ بِھِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ وَجَآءَ ہٗ قَوْمُہٗ  یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ قَالَ یٰقَوْمِ ھٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ فَاتَّقُوا اللہَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ قَالُوْا لَقَدْ عَلِمْتَ مَالَنَا فِیْ بَنٰتِکَ مِنْ حَقٍّ وَاِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِیْدُ قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّةً اَوْاٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ (پ۱۲ سورۃ ھود ۷۷، ۸۰)

جب لوط کے پاس ہمارے فرشتے آئے اسے ان کا غم ہوا اور ان کے سبب دل تنگ ہوا اور بولا یہ بڑی سختی کا دن ہے اور اس کے پاس اس کی قوم دوڑتی ہوئی آئی اور انہیں پہلے ہی برے کاموں کی عادت پڑی تھی کہا اے قوم یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے ستھری ہیں تو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو کیا تم میں سے ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں بولے تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کی بیٹیوں میں ہمارا کوئی حق نہیں اور تم ضرور جانتے ہو جو ہماری خواہش ہے بولے اے کاش مجھے تمہارے مقابل زور ہوتا یا کسی مضبوط پائے کی پناہ لیتا۔

یعنی قوم کو جب پتہ چلا کہ لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت نوجوان بطور مہمان آئے ہوئے ہیں تو وہ اپنے برے ارادے اور شدید  جذبات لیے بھاگتے ہوئے آگئے، ان کو خبر دینے والی بھی لوط علیہ السلام کی زوجہ واھلہ ہی تھی۔

یہ بھی خیال رہے کہ وہ قوم اس بدفعلی یعنی لواطت کا ارتکاب کوئی چھپ کر نہ کرتی بلکہ وہ لوگ ظاہر طور پر اس برائی کے مرتکب ہوتے، اس لیے لوط علیہ السلام نے کہا: کیا تم میں سے کوئی ایک بھی نیک چلن نہیں؟ آپ نے ان کو بڑے پیارے انداز پر نصیحت فرمائی، یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں جو تمہاری بیویاں ہیں تم ان کے حقوق پائمال کر رہے ہو، حقوق زوجیت ادا نہیں کر رہے، نوجوانوں کی طرف تمہارا میلان، بدفعلی کا ارتکاب تمہاری بدچلنی کا ذریعہ ہے۔ اپنی بیویوں کی طرف  میلان کرو تاکہ ان کے حقوق  بھی ادا ہو سکیں اور تم بھی نیک ہوجاؤ۔ یہ میرے مہمان ہیں ان سے کوئی برائی کے مرتکب ہوکر مجھے رسوا نہ کرو۔ اگر میرے پاس کوئی طاقت ہوتی تو میں تمہیں مار مار کر بھگادیتا اگر میرے پاس کوئی مضبوط قلعہ یا پناہ ہوتی تو مہمانوں کووہاں لے جاتا۔

پناہ طلب کرنے کا مطلب:

لوط علیہ السلام نے کہا:

اَوْ آوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ

یس کسی مضبوط پائے کی پناہ لیتا۔

نبی کریم رحمت صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’یرحم اللہ لوطا لقد کان یأوی الی رکن شدید‘‘

اللہ تعالیٰ لوط پر رحم فرمائے آپ کسی مضبوط پائے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔

بظاہر یہاں وہم ہوتا ہے کہ لوط علیہ السلام نے یہ کیوں کہا؟ (معاذاللہ) آپ نے بے صبری کا مظاہرہ کیا اس کا جواب ذکر کرتے ہوئے ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

’’انہ کان بمقتضی الجبلۃ البشریۃ بعض الامور الضروریۃ یمیل الی الاستعانۃ بالعشیرۃ القویۃ‘‘ (مرقاۃ المفاتیح باب بدء الخلق وذکر الانبیاء)

انسان کی جبلت بشری کا تقاضا ہے کہ وہ بعض امور ضروریہ میں اپنے قوی قبیلہ سے امداد طلب کرتا ہے، یہ انبیائے کرام کی شان کے مخالف نہیں۔ بلکہ حضرت لوط علیہ السلام کے بعد آنے والے تمام انبیائے کرام نے بھی اپنے قبائل کے کئی افراد سے امداد طلب کی، اس میں اللہ کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں پائی گئی۔

فرشتوں کا جواب اور قوم لوط پر عذاب:

قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِبِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ، فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ (پ۱۲ سورۃ ھود ۸۱، ۸۳)

فرشتے بولے: اے لوط! ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جاؤ اور تم میں کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے سوائے تمہاری عورت کے، اسے بھی وہی پہنچنا ہے جو انہیں پہنچے گا۔ بے شک ان کا وعدہ صبح کے وقت ہے کیا صبح قریب نہیں؟ پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس بستی کے اوپر کو اس کا نیچا کردیا اور اس پر کنکر کے پتھر لگاتار برسائے جو نشان کیے ہوئے تیرے رب کے پاس ہیں اور وہ پتھر کچھ ظالموں سے دور نہیں۔ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن)

فرشتے اب تک یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہے تھے، جب ان اوباشوں کی گستاخی اور حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی اور بے بسی کی انتہا ہوگئی تو فرشتے گویا ہوئے،اے لوط! گھبراؤ نہیں، دروازہ کھول دو اور ان مسخروں کو آگے آنے دو۔ ہم لونڈے تھوڑے ہیں کہ یہ آگے بڑھر کر ہم کو دبوچ لیں گے ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہم ان بستیوں کو تہ و بالا کرکے رکھ دیں۔ آپ ایسا کریں کہ رات کا جب کچھ حصہ گزر جائے تو اپنے گھر والوں کو ہمراہ لے کر یہاں سے چلے جائیں۔ لیکن آپ کی بیوی آپ کے ساتھ نہیں جاسکتی۔ اس کا انجام وہی ہوگا جو دوسرے مجرموں کا۔ اب ان ظالموں کی مہلت کی گھڑیاں ختم ہوگئیں، صرف صبح ہونے کی دیر ہے اور صبح کے طلوع ہونے میں اب زیادہ وقت نہیں۔

جب عذاب آیا تو ان کی بستیوں کو زیر و زبر کرکے رکھ دیا گیا ان کی فلک بوس عمارتیں زمین پر اوندھی گرادی گئیں ان پر سخت پتھروں کی ایسی موسلا دھار بارش کی گئی کہ وہ سب خاک سیاہ بن کر رہ گئے۔ سعدون، عموراہ، اوما اور زبوئی ان کی چاروں بستیاں اس جگہ آباد تھیں جہاں آج کل بحر مراد یا بحر لوط ہے اب بھی بحر لوط سے دھوئیں کے بادل اٹھتے رہتے ہیں اور کثرت سے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ (تفسیر ضیاء القرآن)

لوط علیہ السلام کا رات کو نکل جانا:

لوط علیہ السلام اپنے ساتھ سوائے زوجہ کے باقی گھر کے افراد کو رات کو لے کر نکل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو لپیٹ دیا اس طرح آپ ابراہیم علیہ السلام کے پاس  پہنچ گئے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے ان کی تمام بستیوں کو اپنے پرسے اٹھایا اور اتنا بلند کیا کہ آسمان والے ان کی بستیوں میں رہنے والے مرغوں کی آواز اور کتوں کے بھونک سن رہے تھے، پھر ان کو پلٹ کر نیچے گرا کر اوپر سے پتھروں کی بارش برسا کر تباہ و برباد کردیا گیا۔ (روح المعانی ج۷ حصہ اول ص۱۱۳)

خیال رہے کہ چار بستیوں کا پہلے ذکر ہوچکا ہے پانچویں بستی جو سب سے بڑی تھی اس کا نام سدوم تھا جسے قرآن پاک میں مؤتفکات سے تعبیر کیا گیا ہے۔

تنبیہ: جو پتھر ان پر برسائے گئے تھے ان پر نشانات تھے جن کی وجہ سے وہ دوسرے پتھروں سے ممتاز تھے، ان پر خطوط تھے یا مہریں تھیں، یا ان پر ہر شخص کا نام لکھا گیا تھا جس جس کا نام تھا اسی پر وہ پتھر گرا اور وہ مرا۔ (خزائن العرفان)

الانتباہ: لوط علیہ السلام کی قوم کو جب پتہ چلا کہ آپ کے پاس نوجوان مہمان آئے ہوئے ہیں تو وہ دوڑتے ہوئے اپنے برے ارادے سے آئے آپ نے انہیں سمجھایا کہ مجھے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو اور آپ نے فرمایا:

یٰقَوْمِ ھٰؤُلَآءِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ (پ۱۲ سورۃ ھود ۷۸)

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ترجمہ کیا ہے:

’’بولے اے میری قوم یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے ستھری ہیں‘‘

دیگر مترجمین نے ترجمہ میں ’’میری بیٹیاں‘‘ ذکر کیا ہے۔

اعلیٰ حضرت کا ترجمہ تفاسیر کے مطابق اور اللہ کے نبی کی شان کے لائق ہے، جبکہ دیگر تراجم سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کے متعلق کہا۔ اگرچہ ایک قول یہ ملتا ہے کہ آپ نے اپنی بیٹیوں کے متعلق کہا کہ تم ان سے نکاح کرلو لیکن یہ قول مختلف بحثوں سے مردود ہے۔ آپ کی دو بیٹیاں تھیں۔ بنات جمع ہے، نیز دو بیٹیاں پوری قوم کے لیے کیسے؟ کیا صرف اس قوم کے دوسردار مراد تھے یا کہ پوری قوم؟ کیا کافروں سے نکاح جائز تھا؟

’’اخرج ابوالشیخ عن ابن عباس وابن ابی حاتم عن ابن جبیر ومجاھد وابن ابی الدنیا وابن عساکر عن السدی ان المراد ببناتہ علیہ السلام نساء امتہ والاشارۃ بھؤلا لتنزیلھن منزلۃ الحاضر عندہ واضافتھن الیہ لأن کل نبی اب لامتہ وفی قراءۃ ابن مسعود رضی اللہ عنہ (النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم وھو اب لھم وازواجہ امھاتھم) قرأ ابی رضی اللہ عنہ مثل ذالک لکنہ قدم وازواجہ امھاتھم علی وھو اب لھم‘‘ (روح المعانی)

ابوالشیخ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے ابن ابی حاتم نے ابن جبیر سے مجاہد ابن ابی الدنیا اور ابن عساکر نے سدی سے بیان کیا ہے کہ یہاں لوط علیہ السلام نے جو بنات کا ذکر کیا ہے اس سے مراد آپ نے اپنی قوم کی عورتیں لی ہیں، ھٰؤلاء سے اشارہ ان کو بمنزل حاضر کے سمجھ کر کیا اور ان کی اضافت اپنی طرف کی اور بناتی کہا، اس سے مراد یہ ہے کہ ہر نبی اپنی امت کے باپ کی حیثیت رکھتا ہے؛ کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرات میں ہے:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَھُوَ اَبٌ لَھُمْ وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّھَاتُھُمْ

نبی مؤمنوں کے ان کی جان سے زیادہ مالک ہیں؛ کیونکہ وہ ان کے باپ ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی قرات میں بھی ایسے  ہی ہے لیکن اس میں وازواجہ امھاتھم پہلے ہے اور وھو اب لھم بعد میں ہے

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ترجمہ کیا ہے، علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ہی پسند کیا ہے اور اپنے مختار پر دلائل قائم کیے ہیں۔ تفسیر کبیر کی عبارت ملاحظہ ہو۔

’’قال یقوم ھؤلا بناتی ھن اطھر لکم ففیہ قولان: قال قتادۃ المراد بناتہ لصلبہ وقال مجاہد وسعید بن جبیر المراد نساء امتہ لانھن فی انفسھن  بنات ولھن اضافۃ الیہ بالمقاتبعۃ وقبول الدعوۃ قال اھل النحو یکفی فی حسن الاضافۃ ادنی سبب لانہ کان نبیا لھم فکان کالاب لھم قال تالی (وازواجھہ امھاتھم) وھو اب لھم وھذا القول  عندی ھو المختار ویدل علیہ وجوہ: الاول ان اقدام الانسان عرض بناتہ عی الاوباش والفجار متبعد لایلیق باھل المروۃ فکیف باکبر الانبیاء، الثانی وھو انتقال ھؤلاء بناتی وھن  اطھر لکم فبناتہ اللواتی من صلبہ لاتکفی للجمع العظیم اما نشاء امتہ ففیھن کفایۃ للکن، الثالث انہ صحت الروایۃ انہ کان لہ بنتان وھما ’’زنتا و زعوراء‘‘ واطلاق لفظ البنات علی البنتین لایجوز لما ثبت ان اقل الجمع ثلاثۃ‘‘ (تفسیر کبیر)

یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے اس کلام (ھٰؤلا بناتی ھن اطھر لکم) میں دو قول ہیں: حضرت قتادہ نے کہا اس سے مراد آپ کی اپنی حقیقی بیٹیاں ہیں، لیکن حضرت مجاہد اور سعید بن جبیر نے کہا ہے کہ اس سے مراد آپ کی امت کی عورتیں ہیں؛ اس لیے کہ وہ آپ کی بیٹیاں ہی تھیں ان کی طرف قبول دعوت اور متابعت کی وجہ سے منسوب کیا اس لیے کہ  نحویوں کا ضابطہ یہ ہے کہ حسن اضافت میں ادنی مناسبت کافی ہے اس لیے کہ آپ ان کے نبی تھے اور نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے کیونکہ قرآن پاک میں آتا ہے وازواجھہ امھاتھم نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں، لہٰذا نبی ان کے باپ ہوئے۔ علامہ رازی فرماتے ہیں یہی قول میرے نزدیک مختار ہے۔ اس کے مختار ہونے پر کئی وجوہ دال ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے:

 کہ انسان کا اپنی بیٹیوں کو اوباشوں اور فاسقوں فاجروں پر پیش کرنا بہت بعید ہے اہل مروت کے لائق نہیں اکابر انبیاء یہ کام کیسے کرسکتے ہیں۔

دوسری وجہ:

آپ نے فرمایا: (ھؤلاء بناتی ھن اطھر لکم) آپ کی اپنی حقیقی بیٹیاں اتنی عظیم جماعت کو کافی نہیں ہوسکتی تھیں امت کی عورتیں ان تمام کو کافی ہوسکتی تھیں۔

تیسری وجہ:

صحیح روایت ہے کہ آپ کی دو بیٹیاں تھیں ایک کا نام زنتا اور دوسری کا نام زعوراء تھا۔ لفظ بنات کا اطلاق (بالحقیقت) دو بیٹیوں پر صحیح نہیں؛ کیونکہ جمع کے کم از کم تین فرد ہوتے ہیں۔

(تذکرۃ الانبیاء)


متعلقہ

تجویزوآراء