سیدالانبیاء سیدنا محّمدِ مصطفےٰ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضور امام الاولیاء،سرور انبیاء، باعثِ ایجاد عالم، فخر موجودات، محبوب رب العالمین، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، منبع فیض انبیاء ومرسلین، معدن علوم اولین و آخرین، واسطہ ہر فضل و کمال، مظہر ہر حسن و جمال اور خلیفہ مطلق و نائب کل حضرت باری تعالیٰ جل جلالہ کے ہیں۔
اوّل تخلیق:
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپﷺ کے نور کو پیدا کیا۔ پھر اسی نور کو واسطہ خلقِ عالم ٹھہرایا۔ عالم ارواح ہی میں اس نور کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اسی عالم میں دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی روحوں سے عہد لیا گیا کہ اگر وہ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ کو پائیں تو ان پر ضرور ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ جیسا کہ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِینَ الآیہ میں مذکورہے۔ اسی واسطے تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو حضور ﷺ کی آمد کی بشارت دیتے رہے ہیں۔
نورِ مصطفیٰ ﷺ کی منتقلی:
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اپنے حبیب پاک ﷺکا نور ان کی پشت مبارک میں بطور ودیعت رکھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے وہ نور حضرت حواء کے رحم پاک میں منتقل ہوا۔ پھر حضرت حواء سے حضرت شیث علیہ السلام کی پشت میں منتقل ہوا۔ اس طرح یہ نور انور پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا ہوا حضور کے والد ماجد حضرت عبداللہ ؓ کی پشت مبارک میں منتقل ہوا۔ اور حضرت عبداللہ سے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک میں منتقل ہوا۔
برکاتِ نورِ مصطفیٰ ﷺ:
اسی نور کی برکت سے حضرت آدم علیہ السلام مسجودِ ملائکہ بنے۔ ۔ اور اسی نور کے وسیلہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی نور کی برکت سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی غرق ہونے سے بچی۔ اسی نور کی برکت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتشِ نمرود گلزار ہوگئی۔ اسی نور کی برکت سے حضرت ایوب علیہ السلام کی مصیبت دور ہوگئی۔ اور اسی نور کی برکت سے حضرات انبیائے سابقین علیہم السلام پر اللہ تعالیٰ کی عنایات بغایت ہوئیں۔ حضورﷺ اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک میں ہی تھے کہ آپ کے والد حضرت عبداللہ نے انتقال فرمایا۔
ولادتِ مصطفیٰ ﷺ:
حضور اقدس ﷺ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے ۔ مگر قول مشہور یہی ہے کہ واقعہ ’’اصحابِ فیل‘‘ سے بچپن روزبعد ۱۲ ربیع الاول بمطابق ۲۰ اپریل؁ ۵۷۱ء ولادت باسعادت کی تاریخ ہے۔ اہل مکہ کا بھی اسی پر عمل ہے کہ وہ لوگ بارہویں ربیع الاول ہی کو کاشانۂ نبوت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، اور وہاں میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔(مدارج النبوۃ،جلد ۲، ۱۴)
تاریخ عالم میں یہ وہ نرالا اور عظمت والا دن ہے کہ اسی روز عالم ہستی کے ایجاد کا باعث ، گردش لیل ونہار کا مطلوب، خلق آدم کا رمز ، کشتی نوح کی حفاظت کا راز، بانیِ کعبہ کی دعا ، ابن مریم کی بشارت کا ظہور ہوا۔ کائنات وجود کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو سنوارنے والا ، تمام جہان کے بگڑے نظاموں کو سدھارنے والا یعنی ؎
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ماوٰی، ضعیفو ں کا ملجا
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
سندالاصفیا ء ، اشرف الانبیاء ، احمد مجتبیٰ، حضرت محمد مصطفے ٰ ﷺ وجود کائنات میں رونق افروز ہوئے تو پاکیزہ بدن ،ناف بریدہ، ختنہ کئے ہوئے ،خوشبو میں بسے ہوئے، بحالت سجدہ ، مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں اپنے والد ماجد کے مکان کے اندر پیدا ہوئے ، باپ کہاں تھے جو بلائے جاتے اور اپنے نو نہال کو دیکھ کر نہال ہوتے ، وہ تو پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ دادا بلائے گئے جو اس وقت طواف کعبہ میں مشغول تھے۔ یہ خوشخبری سن کر دادا ’’حضرت عبدالمطلب‘‘ خوش خوش حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور ولہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگایا ۔پھر کعبہ میں لے جا کر خیرو برکت کی دعا مانگی اور ’’محمد(ﷺ)‘‘ نام رکھا۔ آپ کے چچا ابو لہب کے پاس لونڈی ’’ثویبہ‘‘ خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی۔ اور ’’ابو لہب‘‘کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کا اشارہ سے ثویبہ کو آزاد کر دیا۔ جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال پوچھا تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ :
’’تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ کھانے پینے کو نہیں ملا بجز اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتا ہوں‘‘(بخاری جلد ۲، باب و امہاتکم التی ارضعنکم)
اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لیے نہایت ہی لذت بخش ہے آپ لکھتے ہیں:
اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لیے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھا اور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا ۔ آنحضرت ﷺ کی ولادت پر خوشی منانے اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پر جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا انحضرت ﷺ محبت میں سرشار ہوکر خوشی مناتا ہے اور اپنامال خرچ کرتا ہے۔ (مدارج النبوۃ جلد۲، ص ۱۹)
حلیہ ٔ مصطفیٰ ﷺ:
عاشقِ صادق حضرت شاہ ابو المعالی قادری کرمانی اہوری رحمۃ اللہ علیہ ﷫ حضور اکرمﷺ کے حلیہ مبارک کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں:
ھو اسمر بیاض اللون و واسع الجبھۃ وازج الحاحبین واقلج الاسنان واسود العینین وملیح واقنا انف وازج الحواجب وطویل الیدین وثمام القد ومجتمع اللحیۃ ورفیق الانامل وضیق الغماد ولیس فی بدنہ شعر الا لخط الصدر الی الشرہ وصورتہ احسن الصور وحسنہ حسن القمر ونورہ نور الشمس وکلامہ کلام روح القدس وقالہ قال الشریعۃ وحالہٗ حال الحقیقۃ وعلمہٗ علم الیقین ولسانہٗ لسان الذاکر وقلبہٗ عین المعرفۃ وذاتہٗ ذات انوار الحق ودینہ اکرام الادیان ملتہ اشرف الملل وخلقہ احسن الاخلاق وعملہٗ امر اللہ ونعلہ عبادۃ اللہ وجسمہٗ خیر الاجسام واسمہٗ خیرالانام صلی اللہ علیہ واٰلہٖ واصحابہ اجمعین.
حضور اکرم ﷺکا رنگ گندمی سرخ یا سفید ملا ہوا تھا۔ فراخ پیشانی، باریک ابرو، کشادہ دندان، سیاہ چشم، حیا دار ملیح نظر والی بلند ناک، بھرے ہوئے لمبے بازو، سر و قد (یعنی سیدھا جیسے مناسب ہوتا ہے)اور گنجان ریش مبارک، باریک بال، تنگ دہان تھا۔ آپ کے بدن مبارک پر بال نہیں تھے مگر سینۂ اقدس کے خط سے ناف تک اور آپ کی نازنین صورت تمام صورتوں سے احسن ہے، آپ کا حسن چاند کے حسن سے بڑھکر اور آپ کا نور، نورِ خورشید سے افضل۔ آپ کا کلام روح القدس کا کلام اور آپ کی گفتگو رازِ شریعت اور آپ کا حال حقیقت کی صورت ہے۔ آپ کا علم، علمِ یقین اور آپ کی زبان خدا کا ذکر کرنے والی زبان ہے۔ آپ کادل معرفت کا چشمہ، آپ کی ذات انوارِ حق کا کرشمہ، آپ کا دین تمام دنیا کے مذہبوں سے بلند اور آپ کی ملّت تمام ملّتوں سے برگزیدہ ہے۔ آپ کا خلقِ عظیم اخلاقِ حسنہ کا نچوڑ، آپ کا عمل خدا کا حکم، آپ کا کام اللہ کی عبادت، آپ کا جسم مخلوق میں خیر و سعادت اور آپ کا اسمِ گرامی ’’خیرالانام‘‘ ہے صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
نسب پاک مصطفیٰﷺ:
حضور اقدس ﷺ کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے ۔حضرت محمد ﷺ ، بن عبداللہ ، بن عبدالمطلب، بن ہاشم، بن عبدمناف، بن قصی، بن کلاب ، بن کعب ، بن لوی، بن غالب، بن فہر، بن مالک، بن نضر، بن کنانہ، بن خزیمہ، بن مدرکہ ، بن الیاس، بن مضر،بن نزار، بن معد، بن عدنان۔ (بخاری جلد ۱،ص باب مبعث النبی ﷺ)
والدہ ماجدہ کی طرف سےحضرت محمد ﷺ بن آمنہ ، بنت وہب، بن عبدمناف، بن زہرہ، بن کلاب ، بن مرہ۔
حضور علیہ السلام کے والدین کا نسب نامہ’’کلاب بن مرہ‘‘ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کر دونوں سلسلے ایک ہوجاتے ہیں’’ عدنان‘‘ تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مورخین ثابت ہے۔اس کے بعدناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اور حضورﷺ جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ’’عدنان‘‘ ہی تک ذکر فرماتے تھے۔(کرمانی بحوالہ حاشیہ بخاری جلد۱ ص ۵۴۳)
مگر اس پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ ’’عدنان‘‘ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزندار جمند ہیں۔
خاندانی شرافت:
حضور اکرم ﷺ کا خاندان نسب ونجابت اور شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کرسکے چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب و ہ کفر کی حالت میں تھے ۔ بادشاہ ِروم ہر قل کے بھر ے دربار میں اس حقیقیت کا اقرار کیا کہ ’’ھو فینا ذونسب‘‘ یعنی نبی ﷺ عالی خاندان ہیں۔(بخاری جلد ۱ ص ۴)
حالانکہ اس وقت وہ آپ (ﷺ) کے بدترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں میں وقار گرادیں۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ‘‘کنانہ’’ کو برگزیدہ بنایا۔ اور ‘‘بنی ہاشم’’میں سے مجھ کو چن لیا۔(مشکوٰۃباب فضائل سیدالمرسلینﷺ)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ؎
لہ النسب العالی فلیس کمثلہ
حسیب نسیب منعم متکرم
یعنی حضور انور ﷺ کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی جسب و نسب والا، اور نعمت و بزرگی والا آپ کے مثل نہیں ہے۔
بچپن کے واقعات:
سب سے پہلے آپ ﷺکو آپ کی والدہ ماجدہ نے کچھ دن دودھ پلایا۔ پھر آپ نے چند روز ابولہب کی آزاد کی ہوئی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا۔ بعد ازاں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے قبیلے بنی سعد میں لے گئیں۔ وہیں پہلی بار حضور کا شق صدر ہوا۔ دوسرا شق صدر دس برس کی عمر شریف میں اور تیسرا غارِ حراء میں بعثت کے وقت اور چوتھا شبِ معراج میں ہوا۔ جب آپ ﷺکی عمر شریف چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ انتقال فرماگئیں۔ اور آپ کے دادا جناب عبدالمطلب آپ کی پرورش کے کفیل ہوئے۔ جب آٹھ سال کے ہوئے تو جناب عبدالمطلب نے بھی وفات پائی۔ پھر حضور اپنے چچا جناب ابوطالب کے ہاں پرورش پاتے رہے۔ بارہ سال کی عمر شریف میں آپ جناب ابوطالب کے ساتھ ملک شام کو تشریف لے گئے۔ اس سفر میں بحیرہ راہب نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ یہ رسول رب العالمین ہیں۔ چودہ سال کی عمر میں آپ ﷺنے اپنے چچاؤں کے ساتھ حربِِ فجّار میں شرکت فرمائی۔ پچیس سال کی عمر شریف میں آپﷺ حضرت خدیجہ کی طرف سے بغرض تجارت شام کو تشریف لے گئے۔ اس سفر میں نسطور راہب نے آپ کی نسبت کہا کہ یہ آخر الانبیاء ہیں۔ اس سفر سے واپسی کے قریباً تین ماہ بعد حضورﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوگیا۔ جب آپ کی عمر مبارک ۳۵ سال کی ہوئی تو قریش نے عمارتِ کعبہ کو ازسرِ نو بنایا۔ اس تعمیر میں حضور ﷺبھی شریک تھے۔ اور اپنے چچا حضرت عباس کے ساتھ کندھے پر پتھر اٹھاکر لا رہے تھے۔
خفیہ دعوتِ اسلام:
جب عمر مبارک چالیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اعلان نبوت کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ ﷺخفیہ طور پر چند لوگوں کو دعوت اسلام دینے لگے۔ اس دعوت پر کئی مرد و زن آپ پر ایمان لائے۔ چنانچہ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ۔ لڑکوں میں حضرت علیؓ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا۔ آزاد کیے ہوئے غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ ؓاور غلاموں میں حضرت بلال ؓہیں۔
اعلان نبوت:
خفیہ دعوت کے تین سال بعد اعلانیہ دعوت کا حکم آیا۔ تبلیغ علی الاعلان پر قریش برا فروختہ ہوگئے اور آپﷺ کو اور آپ کے اصحاب کو اذیت دیتے رہے۔ نبوت کے پانچویں سال حضور ﷺنے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے جو چاہیں ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں۔ چنانچہ پہلے پہل گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے ہجرت کی ۔ نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ ؓایمان لائے اور ان کےتین دن بعد حضرت عمر فاروق ؓبھی مشرف باسلام ہوئے۔ اسلام کی ترقی پر قریش مسلمانوں کو اور ایذا ئیں دینے لگے۔ اس لیے ۸۳ مرد اور ۱۸ عورتوں نے دوسری بار حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ قریش نے نجاشی کے پاس اپنے بھیجے کہ مہاجرین کو واپس کردو۔ مگر وہ سفیر بے نیل و مرام واپس آئے۔ اس لیے قریش نے اب بالاتفاق یہ قرار دیا کہ (حضرت) محمد ﷺکو اعلانیہ قتل کردیا جائے۔ بنو ہاشم و بنو مطلب حضور ﷺ کو بغرضِ حفاظت شعب ابی طالب میں لے گئے۔ اس پر قریش نے بنو ہاشم و بنو مطلب سے مقاطعہ کردیا تاکہ تنگ آکر حضورﷺ کو ان کے حوالہ کردیں۔ اور اس بارے میں ایک تحریری معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ کی چھت میں لٹکادیا۔ قریش نے نہایت سختی سےا س معاہدہ کی پابندی کی۔ تین سال کے بعد حضور ﷺنے خبر دی کہ اس معاہدہ کو دیمک چاٹ گئی ہے اور سوائے اللہ کے نام کے کچھ نہیں چھوڑا۔ جب معاہدہ کو دیکھا گیا تو حضورﷺ کا ارشاد صحیح نکلا۔ مگر مخالفین بجائے روبراہ ہونے کے اور درپے ایذا ہوگئے۔ ماہ رمضان ۱۰ نبوت میں جناب ابو طالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے تین دن بعد سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے بھی انتقال فرمایا۔ حضور ﷺ نے پریشانی کی حالت میں طائف کا سفر کیا۔ مگر اشرافِ ثقیف نے آپ کی دعوت کا بری طرح سے جواب دیا۔ اور واپسی پر اس قدر پتھر برسائے کہ نعلین شریفین خون سے آلودہ ہوگئیں۔
واقعہ معراج:
آپ ﷺکی عادت شریفہ تھی کہ ہر سال موسم حج میں تمام قبائل عرب کو جو مکہ اور نواح مکہ میں موجود ہوتےدعوت اسلام دیا کرتے تھے اور میلوں میں بھی اسی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ نبوت کے گیارہویں سال آپ ﷺنے حسبِ عادت منیٰ میں عقبہ کے نزدیک جہاں اب مسجد عقبہ ہے۔ قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کو دعوت اسلام دی۔ وہ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے مدینہ میں اپنے بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس لیے آئندہ سال بارہ مرد ایام حج میں مکہ میں آئے اور حضور ﷺکے دست مبارک پر بیعت کی۔ بقول مشہور اسی سال ماہ رجب کی ستائیسویں رات حضور ﷺ کو حالت ِبیداری میں جسد شریف کے ساتھ معراج ہوا اور پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ نبوت کے تیرہویں سال انصار میں سے ۷۳ مرد اور عورتوں نے حضور ﷺکی بیعت کی۔
ہجرت ِمدینۃ المنورہ:
قریش کی ایذاء رسانی سے اب مسلمانوں کا قیام مکہ میں دشوار ہوگیا۔ اس لیے حضور ﷺکی اجازت سے صحابہ کرام متفرق طور پر رفتہ رفتہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ اور مکہ میں حضورﷺ کے علاوہ حضرات ابوبکر ؓاو رعلی ؓاور کچھ بیمار و غیرہ رہ گئے۔
قریش نے جب دیکھا کہ آنحضرت ﷺکے مددگار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہوگئے ہیں۔ تو وہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی وہاں چلے جائیں اور اپنے مددگاروں کو ساتھ لے کر مکہ پر حملہ آور ہوں۔ اس لیے انہوں نے دارالندوہ میں جمع ہوکر شیخ نجدی کے مشورہ سے یہ قرار دیا کہ رات کو حضور ﷺ کو قتل کردیا جائے۔ حضور کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ کفار نے حسب قرار داد رات ہوتے ہی حضورﷺ کے دولتخانہ کو گھیرلیا۔ آپ نے حضرت علی ؓکو ا پنے بستر پر چھوڑا اور ایک مشت خاک لے کر سورہ یٰسین شریف کی شروع کی آیات پڑھ کر کفار پر پھینک دی۔ کفار کو کچھ نظرنہ آیا اور آپ وہاں سے نکل کر حضرت صدیق اکبر ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ تین رات غار ثور میں رہے۔ قدید کے قریب سراقہ بن مالک آپ کے تعاقب میں آیا۔ آپ کی دعاء سے اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔ اور وہ معافی مانگ کر واپس چلا آیا۔ قدید ہی میں حضور ﷺ کا گزر امِّ مَعبد کے خیمہ پر ہوا۔
مسجد قباء کی بنیاد:
رسول اللہ ﷺقباء میں ۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے دن پہنچے۔ یہی اسلامی تاریخ کی ابتداء بنی ۔ آپ نے بستی قبا ءمیں مسجد ِقباء کی بنیاد رکھی۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ مدینہ میں آپﷺ کی تشریف آوری سے مسلمانوں کو جو خوشی ہوئی وہ بیان نہیں ہوسکتی۔ آپ ﷺ نے حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے مکان پر قیام فرمایا۔ اسی سال مسجد نبوی۔ ازواج مطہرات کے لیے حجرے اور مہاجرین کے لیے مکانات بن کر تیار ہوگئے۔ اذان مشروع ہوگئی۔ حضور ﷺنے اپنے اصحاب کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔
غزوات کا آغاز:
ہجرت کے دوسرے سال قبلۂ نماز بجائے بیت المقدس کے کعبہ شریف ہوگیا۔ رمضان کے روزے فرض ہوگئے۔ اور غزوات و سرایا کا آغاز ہوا۔ غزوات تعداد میں ۲۷ ہیں اور سرایا ۴۷ ۔ بڑے بڑے غزوات جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے سات ہیں۔ بدر، احد، خندق، خیبر، فتح مکہ، حنین، تبوک۔ جن غزوات میں حضور اقدس ﷺ نے قتال فرمایا وہ یہ ہیں۔ بدر ، احد، خندق، مصطلق، خیبر، فتح مکہ، حنین، طائف۔ غزوات میں سب سے اخیر غزوہ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں تھا۔
حکمرانوں کے نام خطوط:
ہجرت کے ساتویں سال کے شروع میں آنحضرت ﷺنے والیان ِملک (قیصر و کسریٰ و نجاشی وغیرہ) کے نام دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے۔ اور ۹ھ میں غزوہ تبوک سے واپسی پر مسجد ضرار جو منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی تھی آپ کے حکم سے جلادی گئی۔
سالِ وفود:
اسی سال وفود ِعرب ،د ربارِرسالت ﷺمیں اس کثرت سے حاضر ہوئے کہ اسے سالِ وفود کہا جاتا ہے۔یہ وفود بالعموم نعمت ایمان سےمالا مال ہوکر واپس گئے۔ ۱۰ھ میں بھی وفود عرب خدمت اقدس میں حاضر ہوتے رہے۔ اہل یمن و ملوک حمیرا ایمان لائے۔ اور رسول اللہ ﷺنے آخری حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔
وصال مبارک:
آنحضرت ﷺکی بعثت کے وقت تمام دنیا بالخصوص عرب پر حد سے زیادہ جہالت و گمراہی چھائی ہوئی تھی۔ ان کی اخلاقی و مذہبی پستی حد غایت کو پہنچی ہوئی تھی۔ موافق و مخالف سب کو معلوم ہے کہ حضور ﷺامی تھے۔ امیوں میں آپ ﷺنے پرورش پائی۔ کسی سے تعلّم و تلمّذ نہ کیا اور نہ لکھنا پڑھنا سیکھا۔ مگر آپ ﷺنے بتعلیم الٰہی اپنے اصحاب کرام کو وہ تعلیم روحانی دی کہ وہ معارف ربانی کے عارف اور اسرار فرقانی کے ماہر بن گئے۔ جس کسی نے دولت ایمان سے سرفراز ہوکر کچھ وقت بھی شرف ملازمت حاصل کرلیا۔ وہی عالم ربانی، اور عارف ِیزدانی بن گیا۔ آپ کی صحبت میں صحابہ کرام میں سے ہر ایک کو نسبت خاصہ اور قوت قدسیہ مبدأ فیاض سے عطا ہوگئی۔ قصہ کوتاہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام کو اسلام و ایمان اور احسان سے مالا مال کرکے اور سچے دین کے ظاہری و باطنی علوم سکھاکر ماہ ربیع الاول ۱۱ھ میں دو شنبہ کے دن الرفیق الاعلیٰ پکارتے ہوئے اعلیٰ علیین قرب العالمین میں تشریف لے گئے۔ علیہ وعلیٰ الہ واصحابہ افضل الصلوات واکمل التحیات۔ مگر حضور سراپا نور رحمۃ للعالمین ﷺحیات ہیں۔ قیامت تک حضورﷺ کی امت مرحومہ کو حضور سے وہی فیضان بواسطہ خواص امت علمائے کرام و صوفیہ عظام پہنچتا رہے گا جو حضورﷺ کی ظاہری زندگی میں پہنچتا تھا۔ حضور ﷺکی امت میں وقتاً فوقتاً اولیاء، و صلحاء پیدا ہوتے رہیں گے۔ اور ان اولیائے کرام کے ذریعے حضور ختم المرسلین رحمۃ اللعالمین ﷺ کی نبوت کی تصدیق ہوتی رہے گی۔
چنانچہ حضرت امام وقت سیدنا مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں یوں فرماتےہیں:
‘‘خداوند تعالیٰ برہان نبوی را تا امروز باقی گردانیدہ است و اولیاء را سبب اظہار آں کردہ۔ تاپیوستہ آیاتِ حق و حجت صدق سیدنا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر مے باشند۔ ومرایشاں راوالیان عالم گردانیدہ تا محرم وے گشتہ اندو راہ متابعت نفس رادر نوشتہ از آسمان باراں برکت اقدام ایساں آید۔ واز زمین نباتات ببر کات صفائی احوال ایشاں روید’’۔
حضرت خواجہ انبالوی روحی و قلبی فداہ فرماتے ہیں:
حقیقت محمدیہ کا تعلق جس طرح ذات رسول اللہﷺ کے ساتھ حیات میں تھا بعینہ وہی تعلق اب بعد وصال بھی بدن مبارک کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دین کو کئی نہیں بدل سکتا۔ اور جس طرح حضور پر نور ﷺکی حیات میں آپ کے تصرفات جاری تھے ویسے ہی اب بھی جاری ہیں۔ یہی معنٰی ہیں حیات النبی ﷺہونے کے اور اسی وجہ سے قطب ، غوث ،ابدال ،اوتاد وغیرہ رسول اللہ ﷺکی امت میں ہوتے رہیں گے۔‘‘ (ذکر خیر)۔
ارشاداتِ عالیہ:
حضور اقدس ﷺکے ارشادات قدسیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق آپ ﷺکے ارشادات قدسیہ نہ پائے جاتے ہوں۔ ۔ اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی اٰل سیدنا ومولانا محمد واصحاب سیدنا ومولانا محمد اھل بیت سیدنا ومولانا محمدوازواج سیدنا ومولانا محمد وذریۃ سیدنا ومولانا محمد واتباع سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم

عنوانِ دیوانِ نبوّت، سلطانِ ایوانِ فتوت، قالبِ روج غیب الغیب، قلبِ فتوح بے عیب و ریب، شاہِ اسرارِ قدم، ماہِ انوارِ حکم، لطیفۂ علومِ عرفان، صحیفہ رقومِ احسان، دُرِّ دُرجِ اقرء باسم ربّک الّذی خلق، شرفۂ بُرجِ فلا اُقسم بالشّفق والّیل وما وسق، صاحبِ مسندِ کنتُ نبیًّا واٰدم بین الماء والطّین، نازنینِ چار بالشِ وما ارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعٰلمین، شہنشاہِ بارگاہِ لی مع اللہ، برہانِ اشتباہِ فاعلم انّہٗ لٓا الٰہ الّہ اللہ، شہر یارِ اذیغشی السّدرۃ ما یغشےٰ، عالم آرائے ما زاغ البصرو ما طغٰے، مہبطِ اسرارِ سبحان الّذی اسرٰی، ہنبعِ انوارِ دنیٰ فتدلّیٰ، گوہرِ خزنیۂ بطحا لو لوئے گنجینہ طٰہٰ، مکرم مجتبےٰ، معظّمِ مہتدٰے،معلّمِ مقتدا، مقدّمِ مرتجٰے، حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم وعلیٰٓ اصحابہ البررۃ الاتقیاء۔     ؎

اے صبح صادقاں رُخِ زیبائے مصطفےٰ
آئینۂ سکندر و آبِ حیاتِ خِضر
معراجِ انبیاء و شبِ قدرِ اصفیا
ادریس کو مدّرسِ درس معارِف ست
عیسٰے کہ دَیر دائرِ عَلوی مقامِ اوست
بر ذروۂ دَنٰے فتدلّیٰ کشیدہ سَر
از جامِ روح پر ورِ مازاغ گشتہ است
خیّاطِ کار خانۂ لولاک دوختہ
شمس و قمر کہ لو لوء دریائے اخضر اند
قرصِ قمر شکست بریں خوانِ لاجود
کحل الجواھرِ مَلَک و طوطیایٰ روح
روح القدس کہ آیٔتِ قربت بشانِ اوست

 

وے سروِ راستاں قدِ رعنائے مصطفے
نورِ جبینِ بعلِ شکر خائے مصطفےٰ
گیسوئے روز پوش قمر سائے مصطفےٰ
لب تشنہ پیشِ منطقِ گویائے مصطفےٰ
شد پردہ دارِ ذر وۂ علیائے مصطفےٰ
ایوانِ بارگاہِ معلّائے مصطفےٰ
آہوئے چشمِ دلکشِ شہلائے مصطفےٰ
پیراہنِ ابیت ببا لائے مصطفےٰ
از روئے مہر آمدہ لا لائے مصطفےٰ
وقتِ صلائے معجزہ ایمائے مصطفےٰ
دانی کہ چیست؟ خاکِ کفِ پائے مصطفےٰ
قاصِر ز درکِ پایۂ ادنائے مصطفےٰ

خواجہ گدائے درگہِ اوشد کہ جبرئیل
شد با کمالِ مرتبہ مولائے مصطفےٰ

صلوات اللہ وسلامہٗ علیہ بعدد اللّیل والنّھار وقطرات الا مطار  وا وراق الا شجار وذرّات الغبار من سطح الارض القفار الیٰ مدار الفلکِ الدّوّار۔

نام و کُنیت

حضور کا اسم گرامی محمّد، احمد، کنیتِ سامی ابو القاسمِ ابو ابراہیم، لقبِ پاک مصطفےٰ، مجتبےٰ تھا۔

صاحبِ مواہب لدنیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارک جو کتاب و سنّت اور کُتبِ قدیم میں مذکور ہیں تبرتیبِ حروفِ معجم چار سو (۴۰۰) سے زیادہ لکھے ہیں۔

آپ کے ننانوے (۹۹) نام جو سالک کے لیے روزانہ تلاوت کرنے ضروری ہیں وہ آگے لکھے جاویں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

نسب نامۂ پدری

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قُصیّ بن کِلاب بن مُرّہ بن کعْب بن لُوَیّ بن غالب بن فہر بن مالکِ بن نَضْر الملقب بہ قُرَیش بن کِنانہ بن خُزیمہ بن مُدْرکہ بن اِلْیاس بن مَضَر بن تِرار بن مَعدّ بن عَدنان۔

یہاں تک شجرۂ نسب اتفاقی ہے۔ حافظ ابو عمر و یوسف بن عبد اللہ المعروف بہ ابن عبد البرّ المزیّ القرطبی المالکی رحمۃ اللہ علیہ کتاب الاستیعاب میں لکھتے ہیں ھٰذا مالم یختلف فیہ احد من النّاس۔

اس سے آگے حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام تک سلسلہ نسب میں نہایٔت درجہ کا اختلاف ہے۔ لیکن ہم اِس جگہ تاریخ کبیر طبری جلد دوم (۲) سے تحریر کرتے ہیں۔

عَدْنان بن اُدَوْ بن ہَمَیْسَعْ بن سلامان بن عَوْص بن یُوْز بن قموال بن اُبَیّ بن عوّام بن ناشِد بن حزا بن بلْداس بن تدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحِش بن ماخےٰ بن عَیْفٰے بن عبقر بن عُبَیْد بن الدُّعا بن حمدان بن سَنْبر بن یثْرم بن نحزن بن یلحن بن اَرْعُوٰے  بن عَیْفی بن دِیْشان بن عِیْصر بن اَقْناد  بن ابہام بن مُقصِی بن ناحِث بن زارحِ شمِیّ بن مزی بن عوص بن عرّام بن قیدار بن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام۔

اِس سے آگے شجرہ نسب اس طرح پر ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارخ بن ناخور بن سارغ بن ارغ بن فالغ بن عابرالملقب بہ حضرت ہود  علیہ السلام بن شالخ بن از فخشد بن حضرت سام علیہ السلام بن حضرت نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنُوح الملقب بہ حضرت ادریس علیہ السلام بن بارِ دبن مَہْلائیل بن قِیْنان بن انوش بن حضرت شیث علیہ السلام بن ابو البشر حضرت آدم علیٰ نبیّنا وعلیہم الصّلوٰۃ والسلام حضور کے تمام آباء کرام مسلم و مومن اہل توحید تھے۔ (ہدایۃ الغبی)

نسب نامۂ مادری

آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم پاک حضرت سیّدہ آمنہ تھا بِنت وہب بن عبد المناف بن زُہرہ بن کِلاب بن مُرّہ قریشی۔

تاریخ ولادت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت بروزِ دوشنبہ وقتِ صبح صادق  بتاریخ نہم (۹) ربیع الاول ۱ یکم عام الفیل مطابق بست (۲۲) دوم اپریل ۵۷۱ء پانچسو اکہتر عیسوی موافق یکم جیٹھ ۶۲۸ چھ سو اٹھائیس بکرمی میں ہوئی (رحمۃ اللعالمین جلد (۲) دوم)

عام مؤرخین جو ولادت حضور کی بارہ (۱۲) ربیع الاوّل کو لکھتے ہیں وہ دلائلِ ریاضی سے صحیح ثابت نہیں ہوئی۔

جائے وِلادت

جس مکان میں حضور علیہ الصّلوۃ والسلام کی ولادت  ہوئی وہ وراثت میں آپ کو پہنچا تھا۔ آپ نے وہ مکان حضرت عُقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ اُنہوں نے محمد بن یوسف کے ہاتھ فروخت کر دیا جو حجّاج ثقفی کا بھائی تھا۔ اُس نے وہ مکان اپنے محل میں داخل کر لیا۔ اور اُس جگہ کا نام بَیْضا رکھا۔ چنانچہ مدت دراز تک وہ جگہ بنام سرائے محمد بن یوسف مشہور رہی۔ جب بنو امیّہ کی سلطنت کا زمانہ گذرا تو ہارون الرشید عباسی کی والدہ حج کرنے آئی تو اُس نے مکان شریف کو محل محمد بن یوسف سے علیٰحدہ کر کے ایک مسجد تعمیر کی جس پر سونے کا کام کروایا۔ (معارج النبوۃ)

مؤلفِ کتاب ہذا فقیر شرافت عفیٰٰ عنہ کہتا ہے کہ زمانہ حاضرہ تک قُبہ مولد النبی مکہ معظمہ میں موجود تھا۔ اور زائرین زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔ لیکن ۱۳۴۴ھ میں عبد العزیز ابن سعود نجدی حاکمِ مکہ نے جو  وہابی المذہب ہے بوجہ تعصّب مذہبی کے وہ قبہ معہ دیگر قبابِ متبرکہ کے شہید کر وا دیا ہے۔ اب وہ جگہ خالی پڑی ہے۔

واقعاتِ ولادت

جس رات کو حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام پیدا ہوئے کِسرٰے کے محل میں زلزلہ پڑ گیا۔ اور اُس کے چودہ (۱۴) کنگرے گِر پڑے، سادہ کی نہر (واقعہ فارس) خشک ہوگئی، فارس کا آتشکدہ جو ہزاروں برس سے روشن تھا بجھ گیا۔ اور ایسے کئی واقعات عجیبہ ظہور میں آئے جو کتبِ سیرت میں مفصّل مذکور ہیں۔

رضاعت

آپ نے سات (۷) روز تک اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا، اس کے بعد ثُویبہ (کنیزِ ابو لہب) نے دودھ پلایا، پھر یہ سعادت حلیمہ سَعدیّہ بنتِ ابی ذُویْب کو نصیب ہوئی جو حارث بن عبد العزّٰے کی اہلیہ تھیں، آپ قریباً پانچ برس اُن کے پاس علاقہ طایٔف میں رہے۔ (مسالک السّالکین)

شقّ صدر

اسی زمانہ میں ایک روز حضرت جبرائیل و میکائیل علیہما السّلام آپ کو اُٹھا کر پہاڑ پر لے گئے اور سینہ مبارک ناف تک چاک کیا، اور دِل کو نکال کر اُس میں سے ایک نقطۂ سیاہ خون آلود کو نکال کر باہر پھینکا، اور دِل کو معرفتِ حق  اور یقینِ صادق اور نورِ ایمان سے بھر کر اور خاتمِ نور سے مُہر سے کر کے پھر اُس کے مقام میں رکھ دیا۔ کہتے ہیں کہ آپ کا شق صدر چار (۴) مرتبہ ہوا۔ ایک یہ جو واقعہ گذرا، دوسرا (۲) دس (۱۰) برس کی عمر میں، تیسرا (۳) بعثت کے وقت، چوتھا (۴) وقتِ معراج۔ (مسالک السّالکین)

تربیت

آپ بھی شکم والدہ میں ہی تھے کہ آپ کے والدِ بزرگوار حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوگیا، جب آپ چھ (۶) برس کے ہوئے تو والدہ ماجدہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ منوّرہ میں زیارتِ اخوال کے واسطے تشریف لے گئیں، وہاں ایک مہینہ تک رہنے کا اتفاق ہوا، واپسی کے وقت جب مقامِ ابواء میں پہنچیں تو وہیں ۵۷۷ء میں انتقال فرمایا اور مدفون ہوئیں، اُمِّ ایمن برکہ خادمہ نے آپ کو مکہ معظمہ میں پہنچایا۔

کفالتِ جدِّ امجد

آپ کے دادا بزرگوار حضرت عبد المطلب آپ کی پرورش میں مصروف ہوئے، جب حضور کی عمر شریف آٹھ برس دو مہینے دس روز کی ہوئی تو حضرت عبد المطلب نے بھی بعمر بیاسی (۸۲) سال ۵۷۹ء میں رحلت فرمائی۔ (مسالک السّالکین)

کفالتِ ابو طالِب

اُس وقت سے آپ اپنے عمِّ مکرّم حضرت ابو طالِب کے پاس رہنے لگے، اور وہ دل و جاں سے آپ کے متکفّل ہوئے۔ (مسالک السّالکین)

سفرِ شام

جب آپ بارہ (۱۲) برس دو  (۲) مہینے دس (۱۰) روز کے ہوئے تو ۵۸۳ء میں حضرت ابو طالب کے ہمراہ تجارت کے واسطے ملکِ شام کو تشریف لے گئے، جب شہر بصرٰے سے چھ (۶) میل اس طرف موضع کَفر میں پہنچے تو ابو عداس ملقّب بہ بحیرا راہب نے جس کو جرجیس بھی کہتے ہیں آپ میں علامات پیغمبر آخر الزّمان کے پاکر آپ کو پہچانا، اور آپ کے نزدیک آیا، اور  ہاتھ مبارک پکڑ کر کہا یہ رسولِ ربّ العالمین ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنا پیغمبر کرے گا تاکہ اہلِ جہان کے واسطے رحمت ہو۔ (مسالک السّالکین)

تزویج خَدیجہ

جب آپ کی عمر پچیس (۲۵) برس کی ہوئی تو حضرت خدیجہ بنتِ خویلد نے آپ کے حسنِ معاملہ، راستبازی، صدق، دیانت و پاکیزہ اخلاقی کی عام شہرت سُن کر تجارت کے واسطے آپ کو بہت سا مال دیا، اور اپنا غلام مَیْسرہ بھی ساتھ دیا، آپ ملکِ شام کو تشریف لے گئے، اِس سفر میں چند خوارق عادات معجزات آپ سے صادِر ہوئے، اور نسطورا راہب نے آپ کو پہچانا اور آپ کی رسالت کی خبر دی، اور اِس تجارت میں آپ کو منافِع کثیر حاصل ہوا، جس وقت آپ واپس تشریف لائے، تو آپ کے فضائل و معجزات مَیْسرہ کی زبان سے سُن کر حضرت خدیجہ کو اشتیاق پیدا ہوا کہ آپ سے نِکاح کروں، چنانچہ نفیسہ بنتِ منبہ کے ہاتھ آپ کو شادی کا پیغام بھیجا،[۱] [۱۔مسالک السّالکین ۱۲ / سیرۃ النبی جلد اوّل ۱۲ شرافت] حضور نے قبول فرمایا اور تاریخ معیّن پر حضرت ابو طالب اور تمام رؤسائے قریش جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے، حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا، اور پانسو درہم (۵۰۰) طلائی مہر قرار پایا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت چالیس (۴۰) برس تھی، یہ نکاح ۵۹۶ء میں ہوا۔

تعمیرِ کعبہ

جب عمر شریف آپ کی پینتیس (۳۵) برس ہوئی تو ۶۰۶ء میں خانہ کعبہ کی تعمیر عمل میں آئی، باقوم نامی رومی معمار نے عمارت کا کام کیا، آپ نے حجر الاسود کو اپنے ہاتھ مبارک سے اُٹھا کر رُکنِ عراقی میں نصب فرمایا، یہ گویا اشارہ تھا کہ دین الٰہی کی عمارت کا آخری پتھر بھی اِنہیں ہاتھوں سے نصب ہوگا۔

توحید پر ستی

آپ آغازِ طفولیت سے ہی توحیدِ باری تعالیٰ کے قائل و معتقد تھے، مراسمِ شرک سے ہمیشہ مجتنب رہتے، ایک دفعہ قریش نے آپ کے سامنے کھانا لا کر رکھ دیا جو کہ بتوں کے چڑھاوے کا تھا، جانور جو ذبح کیا گیا تھا وہ کِسی بت کے نام پر ذبح کیا گیا تھا، آپ نے کھانے سے صاف  انکار کر دیا۔ (سیرۃ النبی حصہ اوّل)

طلوع آفتاب رسالت

جب آفتاب نبوّت طلوع ہونے کو تھا تو علاماتِ رسالت ظاہر ہونے لگیں، آپ رَویاے صادقہ دیکھتے، اور اُن کا اثر بعینہٖ ظاہر ہوتا، جس شجر حجر کی طرف سے آپ گذرتے سب آپ کو بالفاظِ السّلام علیک یَا رسول اللہ سلام کرتے، آپ کو قبل از نبوّت خلوت و تنہائی مرغوبِ خاطر تھی، آپ غارِ حرا میں جا کر جو مکہ معظمہ سے تین (۳) میل کے فاصلہ پر ہے عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے، مراقبہ، تفکر، تدبّر کا شغل ہوتا تھا۔ (مسالک السّالکین)

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے۔ قیل ما کان صفۃ تعبّدہ اجیب بان ذٰلک کان بالتّفکرّ والا عتبار۔

ایک دن بروز دو شنبہ بتاریخ نہم (۹) ربیع الاوّل ۴۱ میلادی مطابق دوازدہم (۱۲) فروری ۶۱۰ء جبکہ آپ کی عمر بحساب قمری پورے چالیس (۴۰) سال ہوچکی تھی، حسبِ معمول غارِ حرا میں مراقبہ میں مصروف تھے، فرشتہ غیب یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام خدمت میں آئے اور مژدۂ رسالت دے کر کہا۔ اقرأ باسم ربّک الّذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ وربّک الاکرم الّذی علّم بالقلم علم الانسان مالم یعلم (العلق) یعنی پڑھ اُس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا، جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ تیرا خدا کریم ہے، وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔ (سیرۃ النبی)

پھر حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے زمین پر پاؤں مارا ایک چشمہ پیدا ہوگیا، اُس سے آپ کو وضو کرایا، اور  امام ہوکر دو (۲) رکعت نماز آپ کو پڑھائی اور غائب ہوگئے۔ (مسالک السّالکین)

ف صاحبِ تحفۃ الابرار نے لکھا ہے کہ یہی طریقہ سنّت اب تک مشایخِ طریقت میں جاری ہے کہ مرید کو تلقین کرنے کے وقت دوگانہ نفل ادا کرواتے ہیں۔

تبلیغ اِسلام

جب آپ نے دعوت شروع کی تو سب عورتوں سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبرٰے رضی اللہ عنہا اور سب مردوں سے پہلے حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ اور سب لڑکوں سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام اور سب موالی سے پہلے حضرت زَید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور  سب غلاموں سے پہلے حضرت بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ آپ پر ایمان لائے، پھر حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اہتمام سے حضرت عُثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ حضرت زُبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرّحمٰن بن عوْف رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ بن عُبَیْد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت سَعْد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے، اور یہی صاحبان سابق الاسلام کہے جاتے ہیں۔

تعذیبِ مسلمین

پہلے خفیہ آپ دعوتِ اسلام فرماتے تھے، لہذا کفّارِ قریش آپ سے معترض و  مزاحم نہیں ہوئے، مگر جب آیۂ کریمہ فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین (الحجر ع ۶) نازل ہوئی تو آپ نے بتوں کی مذمّت شروع کی، اور دعوت با علان فرمانے لگے، کفّارِ  قریش کی ایذا رسانی کی کوئی حد نہ رہی آپ کو اور سب مسلمانوں کو سخت  تکلیف دینے اور  طرح طرح کی ایذائیں پہنچانے لگے۔ (مسالک السّالکین)

ہجرتِ حبش

جب قریش کا ظلم و تعدّی بہت بڑھ گیا تو حضور نے جان نثارانِ اسلام کو فرمایا کہ حبش کو ہجرت کر جائیں، چنانچہ ماہِ رجب ۵ نبوی میں تراسی (۸۳) مسلمانوں نے ہجرت کی اور  چند روز نجاشی (شاہِ حبش) کے پاس آرام سے گذارے، یہاں تک کے غلط افواہ پھیلی کہ کفّارِ مکّہ نے اسلام قبول کر  لیا ہے، یہ سن کر اکثر صحابہ مکّہ میں واپس چلے آئے۔

شعبِ ابو طالب میں محصور ہونا

قریش نے جب دیکھا کہ اِسلام دن بدن وسیع ہوتا جاتا ہے اور ہم اپنی کوششوں میں نا کام ثابت ہو رہے ہیں، تو سب نے متّفق  ہوکر  ایک معاہدہ لکھا، کہ کوئی شخص بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت نہ کرے، اور نہ ہی ان سے میل جول رکھے، چنانچہ حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ مجبور ہوکر تمام خاندانِ ہاشم کے ساتھ شعبِ [۱] [۱۔ یہ پہاڑ کا ایک درہ تھا جو خاندانِ بنی ہاشم کا موروثی تھا۔ ۱۲ شرافت] ابو طالب میں پناہ گزین ہوئے، تین (۳) سال تک بنو ہاشم نے اِس حصار میں نہایت تنگی سے بسر کیے، آخر دشمنوں کو ہی رحم آیا اور انہوں نے اُس معاہدہ  کو توڑا۔ (سیرۃ النبی)

عام الحُزن

۱۰؍ نبوی میں حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے دنیا سے انتقال کیا، اور اُن سے چند ہی روز  بعد  رمضان ۱۰؍ نبوی میں حضرت خدیجۃ الکبرٰے رضی اللہ عنہا نے بھی وفات پائی، اب آپ کے دونو مددگار و غمگسار اُٹھ گئے، یہی اسلام کا سخت ترین زمانہ تھا خود حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام اِس سال کو عام الحزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے۔

معراج

مختصر کیفیت اِس کی یہ ہے کہ ستائیسویں (۲۷) رجب ۱۲؍ نبوی کو رات  کے وقت بامرِ الٰہی حضرت جبرائیل علیہ السّلام آئے اور آپ کا شقِّ صدر کر کے آپ کے دِل کو آبِ زم زم سے دھو کر حِکمت و ایمان سے پُر کیا تاکہ مشاہدہ ملکوت اور لقائے الوہیت  پر قوی ہوجائے اور کمال صفا و طہارت کے ساتھ عالمِ ملکوت کو تشریف لے جاویں، پھر آپ کو بُراق پر سوار کر کے مسجد اقصےٰ لے گئے، وہاں آپ نے امام ہوکر انبیاء علیہم السّلام اور ملائکہ مقربین کے ساتھ نماز  ادا کی، پھر بُراق پر سوار ہوکر  عالمِ بالا کو بجسدہ العنصری تشریف لے گئے، اور خدا  وند  تعالیٰ کے دیدار سے مشرّف ہوئے فاوحٰی الٰی عبدہٖ  ما اوحٰی۔ (النجم۔ ع ۱۰)

فرضیتِ نماز

نمازِ پنجگانہ اسی شبِ معراج ۱۲ نبوی کو فرض ہوئی۔

 

ہجرت

قریش نے جب دیکھا کہ مسلمان طاقت پکڑتے جاتے ہیں تو دار النّدوہ میں بیٹھ کر آپ کے قتل کا مشورہ کیا، جب رائے پاس ہوئی تو آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بستر پر حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کو اپنی چادر اوڑھ کر سُلا دیا، اور فرمایا کہ آج رات مجھے ہجرت کا حکم ہوچکا ہے، میں مدینہ جاؤں گا، چنانچہ چندے رات گذر گئی تو محاصرین بے خبر ہوگئے، آپ وہاں سے نکلے، اور حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر  جبلِ ثور کی غار میں جا کر پوشیدہ ہوئے۔ (سیرۃ النبی)

تاریخ ہجرت

اُس دن پنجشنبہ ستائیسویں (۲۷) صفر ۱۳؍ نبوی مطابق بارہ (۱۲) ستمبر ۶۲۲ء تھا، حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا کھانا پکا کر وہاں پہنچا آتیں، اسی طرح تین (۳) دن غار میں گذرے، چوتھے دن بروز دو  شنبہ یکم ربیع الاوّل ۱۳ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مطابق  سولہ (۱۶) ستمبر ۶۲۲ء کو غار سے روانہ ہوئے، اور منازلِ سفر خرّار، ثنیۃ المرۃ لقف، مدلجہ، مرحج، حدایٔد، اذاخر، رابغ، ذاسلم، عثانیہ،  فاختہ، عرج جدوات، رکوبۃ، عقیق، جثجاثہ، طے کرتے ہوئے بروزِ دو شنبہ ہشتم (۸) ربیع الاوّل کو مقامِ قبا میں پہنچے۔ (سیرۃ النبی)

سنہ ہجری اسی سال کے غزوہ محرم روز جمعہ سے شروع ہوتا ہے جو مطابق ہے انیسویں (۱۹) جولائی ۶۲۲ء کے۔

آپ چودہ (۱۴) روز تک قباء میں رہ کر مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے۔ اہلِ مدینہ نے آپ کا شاندار استقبال کیا، پردہ نشین خاتونیں چھتوں پر چڑھ آئیں اور گانے لگیں۔

طلع البدر علینا
وجب الشکر علینا
ایھا المبعوث فینا

 

من ثنیّات الوداعٖ
ما دعی اللہ داعٖ
جئت بالا مرالمطاعٖ

معصوم لڑکیاں دَف بجا بجا کر گاتی تھیں۔

نحن جوار من بنی النّجّار

 

یا حبّذا محمدًا من جار

آپ نے مدینہ شریف وارد ہوکر حضرت ابو ایّوب خالد انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر مقام کیا۔ (سیرۃ النبی)

۱ھ

سال اوّل ہجری کے وقایٔع سے پہلا واقعہ تاسیسِ مسجد قبا رہے جو عین بعد از قدوم شریف عمل میں آئی، جس میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بدستِ خاص اینٹیں ڈھوئیں اور پتھر رکھے، یہ پہلی مسجد ہے جو اسلام میں بنا ہوئی، آپ تا مدّتِ اقامت ہر شنبہ کو وہاں جاتے، اور اس میں دوگانہ ادا فرماتے تھے۔

اِسی سال میں مسجد نبوی کی تعمیر، اور ازواج مطہرات کے حجروں کی تعمیر، اور اذان کی ابتدا، اور  مہاجرین و  انصار میں مواخاۃ مقرّر ہوئی۔ اب تک نمازوں میں صرف دو ۰۲) رکعتیں تھیں، اب ظہر و عصر و عشاء میں چار (۴) ہوگئیں، لیکن سفر کے لیے پھر بھی وہی دو (۲) رکعتیں قایم رہیں۔

۲ھ

اِس سال میں بروزِ دو شنبہ پندرھویں (۱۵) رجب آپ بنی سلمہ کی مسجد میں ظہر کی نماز بیت المقدّس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے کہ حکم ہوا فولّ وجھک شطر المسجد الحرام نماز میں ہی آپ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ پھیر لیا، وہ مسجد ذو القبلتین مشہور ہوئی۔ (تفسیر حسینی)

اِسی سال آپ ماذون بامرِ جہاد ہوئے، اِسی سال غزوۂ بدر، غزوہ بنی قینُقاع، غزوۂ سویق پیش آیا، اسی سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، اسی سال صدقہ فطر کا حکم جاری ہوا، اور نمازِ عید جماعت سے پڑھی گئی۔

۳ھ

اِس سال میں غزوۂ اُحد پیش آیا جس میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے، وراثت کا قانون بھی اِسی سال جاری ہَوا۔

۴ھ

اِس سال میں یہود بنی نُضَیْر کو بسبب عہد شکنی کے مدینہ طیبہ سے جلا وطن کیا گیا۔ اسی سال میں سریہ ابن سلمہ، سریہ ابی انیس، سریہ بیر معونہ سریہ رجیع پیش آئے، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ (سیرۃ النبی)

۵ھ

اِس سال ماہِ شعبان میں غزوہ  مریسیع پیش آیا، اور ذی قعدہ میں غزوۂ احزاب (خندق) واقعہ ہوا، اسی سال یہودِ بنی قریظہ کا خاتمہ ہوا، اِسی سال واقعۂ افک وقوع میں آیا، اِسی سال عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا، اِسی سال زنا اور قذف کی حد جاری ہوئی، طلاق ظِہار کا غیر مؤثر ہونا اور اس  کے لیے کفّار بھی اِسی سال مقرّر ہوا، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمّم کا حکم اور نمازِ خوف  کا حکم بھی اِسی سال نازل ہوا۔ (سیرۃ النبی)

۶ھ

اِس سال ذیقعدہ کو واقعہ حُدیبیہ پیش آیا، کفّارِ مکہ نے آپ کے ساتھ صُلح کرلی، اِسی واقعہ میں بیعتِ رضوان بھی ہوئی، چودہ (۱۴) سو صحابۂ مخلصین نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور مصدوق رضائے الٰہی ہوئے اِسی سال میں حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ اور  حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ فاتحِ مصر اسلام لائے۔

۷ھ

اِس سال غزوۂ خبیر پیش آیا، اِسی سال میں پنجہ دار پرند، درندہ جانور گدھا، خچر، متعہ حرام ہوئے، اِسی سال صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے معہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کعبہ شریف کا عمرہ ادا کیا۔

۸ھ

اِس سال جمادی الاولٰے میں غزوۂ موتہ پیش آیا، جس میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور  حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، اِسی سال بیسویں (۲۰) رمضان کو  مطابق جنوری ۶۳۰ء میں مکہ معظمہ فتح ہوا، رؤساے قریش ابو سفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ اسلام لائے، کعبہ مکرمہ کو بتوں کے وجودسے پاک کیا گیا، فتح مکہ کے بعد ماہِ شوّال میں غزوۂ حنین و اوطاس و طایٔف پیش آئے۔

۹ھ

اِس سال میں واقعہ ایلاء و تخییر وقوع میں آیا، اِسی سال رجب کو مطابق نومبر ۶۳۰ء کو غزوۂ تبوک پیش آیا، اِسی سال زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا، اِسی سال غیر مسلموں سے جریہ کا حکم صادر ہوا، اِسی سال سُود کی حرمت نازل ہوئی، اِسی سال نجاشی اصحمہ شاہِ حبش نے وفات پائی، اور آپ نے اُس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔

۱۰ھ

آپ نے صرف تین (۳) حج اور چار (۴) عمرے ادا فرمائے ہیں، جس میں بعد فرض ہونے حج کے صرف ایک حج جس کو حجۃ الوداع کہتے ہیں معہ ایک عمرہ  کے بہ نیّت قِران ادا فرمایا، جو اِسی سال ذی الحجہ میں وقوع ہَوا، حج سے فارغ ہوکر آپ اہلِ مکہ اور دیگر اطراف و جوانب کے مسلمانوں سے رخصت بھی ہوئے اسی روز آیٔت شریف نازل ہوئی۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتے ورضیت لکم الاسلام دینًا (المائدہ۔ ع ۱) اِس کے بعد آپ اِکاسی (۸۱) روز دنیا میں رہے۔

۱۱ھ

اِس سال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا۔ جس کا واقعہ آیٔندہ درج ہوگا۔

 

اخلاق و عادات

اخلاق سیرتِ باطن کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ حضور کو صورتِ ظاہر میں بے مثل و یکتا پیدا کیا تھا، ویسا ہی سیرت باطن میں بھی آپ بے مثل و لا جواب تھے۔ یہاں تک کہ خود خلّاقِ عالم آپ کے خُلقِ اعظم کو عظیم فرماتا ہے انّک لعلٰی خُلقٍ عظیم (ن۔ ع ۱) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود  فرمایا ہے انّما بعثت لا تمّم مکارم الا خلاق حضرت عایشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور کے خلق کی نسبت پوچھا گیا تو  اُنہوں نے فرمایا کان خلقہ القراٰن یعنی جو کچھ قرآن مجید میں مکارم اخلاق اور محاسنِ افعال سے مذکور ہیں وہ سب حضور کی ذاتِ مجموعہ صفات میں جمع تھے، یا یہ کہ جیسے قرآنِ کریم کے معانی بیحد ہیں ویسے ہی حضور کے اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ پسندیدہ غیر متناہی تھے۔

جاننا چاہیے کہ اصل و منشاء اخلاق کا عقل ہے، پس اللہ تعالیٰ نے حضور کو اَیسی عقل دی تھی کہ سوا آپ کے اور  کسی انسان میں پائی نہیں جاتی، لکھا ہے کہ ابتدائے آفرنیشِ عالم سے اُس کی انتہا تک تمام انسانوں کو جو عقل ملی ہے وہ حضور کی عقل کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک ذرّہ تمام دنیا کے ریگستان سے، اور بعضے علماء قایٔل ہیں کہ عقل کے سو (۱۰۰) جزووں سے ننانوے (۹۹) جزو آپ کو اور صرف ایک جزو سارے جہان کو ملا ہے۔

آپ اکثر متفکر رہتے، ہنستے بہت کم تھے، زیادہ ہنسنا آپ کا مُسکرانا تھا، رونا آپ کا آواز سے نہ تھا بلکہ صرف آنسو بہتے تھے، قرآن مجید کی بہت تعظیم کرتے، اس  کے پڑھنے یا سننے سے رویا کرتے، ہمیشہ با وضو رہتے، مسواک کو دوست رکھتے، دوشنبہ اور  پنجشنبہ کو برابر روزہ رکھتے، ہر مہینے میں تین روزے اور روزہ عاشورہ، اور روزہ جمعہ بھی رکھتے۔

حضور خوش خُلق، نیک خو، نرم طبیعت  تھے، آپ کا غصہ اور خوشنودی بالکل وابستہ حُکم خدا تھی، جو شخص حاجت  لاتا اُس کو پورا فرماتے، تالیفِ قلوب ایسی تھی کہ کسی کو حضور سے وحشت  نہ ہوتی تھی، اپنے اصحاب کی نگرانی اور  دلجوئی ہمیشہ ملحوظِ خاطر تھی، صحابہ کے ساتھ نہایت احترام سے پیش آتے، اور اُن کا اکرام فرماتے، اگر ان کی مجلسوں میں جاتے تو پاؤں نہ پھیلاتے، اگر جگہ تنگ ہوتی تو خود  سمٹ کر جگہ فراخ کر دیتے، اور ہمنشین کے زانو سے اپنا زانو آگے نہ بڑھاتے، جب حضور کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ نہ اُٹھتا حضور  بھی نہ اُٹھتے، آپ کی مجلس حیا، علم، حلم، خیر، صبر، امانت کی مجلس تھی، آپ کی مجلس میں متقی اور بوڑھوں کی توقیر کی جاتی، چھوٹوں پر رحم ہوتا تھا، حاجت مندوں کی خاطر اور غریبوں و مسافروں کی حفاظت ہوتی تھی، سلام میں سبقت کرتے، فقیر، غنی، شریف، رذیل، بندہ آزاد، سب کی دعوت بلا عذر قبول کر لیتے، کسی کو حقیر نہیں سمجھتے تھے۔ مہمانوں اور ہمسایوں کو عزیز رکھتے۔ جو شخص حضور کو ہدیہ دیتا بلا تاتل لے لیتے، اور اُس کے مقابلہ میں مثل اُس کے یا اُس سے بہتر اُس کو دیتے صدقہ حضور نے کبھی نہیں لیا۔

خِرْقہَ فَقْر

کتاب راحۃ القلوب و سیر الاولیا و دیگر کتب اہلِ سلوک میں لکھا ہے کہ خرقہ درویشی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج میں حضرت ربّ العزت سے مرحمت ہوا تھا، اور وہ خرقہ گلیم سیاہ تھا۔ اسی واسطے حضور نے فقر کو اپنا افتخار  قرار دیا ہے کیونکہ وہ عطیہ الٰہی تھا۔

عبادت و  ریاضت

جب حضور نماز پڑھتے خصوصاً نمازِ شب میں کثرتِ خشوع و خضوع سے اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہوجاتی، اور آوازِ بکامثل جوشِ دَیگ اور گا ہے مثل آوازِ آسیا کے شکم مبارک سے آتی تھی، اور  اس کثرت سے نماز پڑھتے اور تہجد میں قیام فرماتے کہ اکثر پائے مبارک ورم کر جاتے تھے، لوگ کہتے کہ حضور کی اگلی پچھلی خطائیں تو اللہ تعالیٰ نے معاف کردی ہیں، حضور اس قدر محنتِ شاقہ کیوں فرماتے ہیں؟ فرمایا افلا اکون عبدًا شکوراً۔

حُلیہ اقدس

آپ میانہ قد اور موزون اندام تھے، رنگ سفید سُرخ تھا، پیشانی چوڑی اور ابر و پیوستہ تھے، بینی مبارک درازی مایٔل تھی، چہرہ ہلکا یعنی پُرگوشت نہ تھا، دہانہ کشادہ تھا، دندانِ مبارک بہت پیوستہ نہ تھے، گردن اونچی، سر بڑا اور سینہ کشادہ فراخ تھا، سر کے بال نہ بہت پیچدہ نہ بالکل سیدھے تھے، کبھی کانوں تک اور اکثر شانوں تک لٹکے رہتے تھے، فتح مکہ میں لوگوں نے دیکھا تو شانوں پر چار (۴) گیسو پڑے تھے، ریش مبارک گھنی اور بقدر ایک قبضہ کے تھی چہرہ کھڑ کھڑا تھا، آنکھیں سیاہ و سُرمگین اور پلکیں بڑی بڑی تھیں، شانے پر گوشت اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی تھیں سینہ مبارک میں ناف تک بالوں کی ہلکی تحریر تھی ہتھیلیاں پُر گوشت اور چوڑی، کلائیاں لمبی، اور پاؤں کی ایڑیاں نازک و ہلکی تھیں، پاؤں کے تلوے بیچ سے ذرا خالی تھے، نیچے سے پانی نکل جاتا تھا، دو شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر خاتمِ نبوّت تھی جو بظاہر ابھرا ہَوا گوشت سرخ رنگ معلوم ہوتا تھا، آپ کے پسینہ میں خوشبو تھی، چہرہ مبارک پر پسینہ کے قطرے موتی کی طرح ڈھلکتے تھے، جسم مبارک کی جلد نہایت نرم تھی، بالوں میں اکثر زیتون کا تیل لگاتے اور بیچ میں مانگ نکالتے تھے، رفتار بہت تیز تھی، چلتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ڈھلوان زمین پر اُتر رہے ہیں۔

لباس

آپ کا عام لباس چادر، قمیص، اور تہمد تھا، پاجامہ کبھی استعمال نہیں کیا، عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا تھا جس کے نیچے ٹوپی ہوتی، شملہ کبھی دوش مبارک پر کبھی دونو شانوں کے بیچ میں پڑا رہتا تھا، کبھی تحت الحنک کے طور پر لپیٹ لیتے تھے، یمن کی دھاری دار چادریں جن کو حبرہ کہتے ہیں آپ کو بہت پسند تھیں، شامی عباتنگ آستین والی اور نوشیروانی  قبا جس کی جیب اور آستینوں پر دیبا کی سنجاف تھی استعمال کی ہے، حلۂ حمرا بھی زیبِ تن فرمایا، مختلف روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے سیاہ، سُرخ، سبز، زعفرانی، زرد، ہر رنگ کے کپڑے پہنے ہیں، لیکن سفید رنگ بہت مرغوب تھا پاؤں میں چرمی موزے سیاہ رنگ استعمال فرمائے ہیں، نعلین مبارک چَپل تسموں والی ہوتی تھی۔

 

آپ کے فضائل شریف

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب کا شمار کرنا طاقت انسانی سے بعید بلکہ ابعد ہے، آپ کی ذاتِ اقدس باعثِ ظہورِ عالم و عالمیان ہے، آپ کے چند فضائل جو اہلِ عبادت کے طریقہ پر صاحبِ معارج النبوّۃ نے تحریر کیے ہیں لکھے جاتے ہیں۔

حضرت آدم علیہ السلام پر فضیلت

صاحب معارج النبوۃ نے بیس (۲۰) وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام پر آپ کی فضیلت بیان کی ہے، جن میں سے پانچ وجوہ لکھے جاتے ہیں۔

۱۔      حضرت آدم علیہ السلام کے بارہ میں حق تعالیٰ نے فرمایا ونفخت فیہ من روحی (الحجر ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں فرمایا وکذالک اوحینا الیک روحًا مِّن امرنا (شورٰے۔ ع ۵)

۲۔     حضرت آدم علیہ السلام کو تعلیم اسماء دی گئی وعلّم اٰدم الا سماء کلّھا (البقرۃ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیم حقائق و دقایٔق قرآن دی گئی الرّحمٰن علّم القراٰن (الرحمٰن۔ ع ۱)

۳۔     حضرت آدم علیہ السلام کو جنّت میں جگہ دی گئی یا اٰدم اسکن انت وزوجک الجنّۃ (البقرۃ۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مقامِ قُرب میں جگہ دی گئی دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)

۴۔     حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی تو اُس کا تذکرہ کیا گیا وعصیٰ اٰدم ربّہ فغوٰی (طٰہٰ۔ ع ۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر کسی لغزش و قصور کے مغفرت کا آوازہ اقطارِ عالم میں دیا گیا لیغفر لک اللہ ما تقدّم من ذنبک وما تا خّر (الفتح۔ ع ۱)

۵۔     حضرت آدم علیہ السلام کو لغزش کے باعث عتاب پہلے آیا اور عفو پیچھے۔ وعصیٰ اٰدم ربّہ فغوٰی ثم اجتبٰہ ربّہ فتاب علیہ وھدٰی (طٰہٰ۔ ع ۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عفو پہلے آیا اور نصیحت پیچھے عفا اللہ عنک لم اَذِنت لھم (توبہ۔ ع ۷)

حضرت ادریس علیہ السلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بوجوہِ ذیل حضرت ادریس علیہ السلام پر بھی فضیلت ہے۔

۱۔      حضرت ادریس علیہ السّلام کو چوتھے آسمان پر لے جا کر وہیں رہنے دیا، ورفعناہ مکانًا علیًّا (مریم۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں سے اوپر لے گئے قاب قوسَین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)

۲۔     حضرت ادریس علیہ السّلام بہشت میں پہنچے تو وہیں ٹھیر گئے ورفعناہ مکانًا علیًّا (مریم ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بہشت میں پہنچے تو گوش چشم سے بھی نظر نہ فرمائی مازاغ البصر وما طغٰی (النجم۔ ع ۱)

حضرت نوح علیہ السلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو حضرت نوح علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔

۱۔      حضرت نوح علیہ السّلام کو طوفانِ بلا میں کشتی حامل تھی بسم اللہ مجرٖھا ومرسٰھا (ہود۔ ع ۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفرِ معراج میں لطفِ الٰہی وفضلِ نا متناہی حامل تھا سبحٰن الّذی اسرٰی بعبدہٖ (بنی اسرائیل۔ ع ۱)

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔

۱۔      حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خلّت عطا ہوئی۔ واتّخذ اللہ ابرٰھیم خلیلاً (النّسا۔ ع ۱۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو محبوبیّت عطا ہوئی قل ان کنتم تحبّون اللہ فاتّبعونی یحببکم اللہ (آلِ عمران۔ ع ۴)

نکتہ یہ راز قابلِ قدر ہے کہ وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کو خُلّت عطا ہوئی، اور یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے امتیوں کو محبوبیت ملی جو آپ کے اتباع سے محبوب بنے۔

۲۔     حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا یا ابرٰھیم قد صدّقت الرّءیا (الصّافات۔ ع ۳) اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی رضا کے لیے کیا۔ دنیا میں فلنولّینّک قبلۃً ترضٰھا (البقرۃ۔ ع ۱۷) اور عقبےٰ میں ولسوف یعطیک ربّک فترضٰی (الضّحٰے)

۳۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی نظر ستارہ، چاند، آفتاب پر تھی فلما جَنَّ علیہ الّیل راٰکَوکبًا (الانعام۔ ع ۹) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرِ مبارک اُن سے بد رجہا ارفع و بلند تھی وھو بالافق الاعلٰے (النجم۔ ع ۱)

۴۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام واسطہ سے وست کو پہنچے وکذٰلک نری ابرٰھیم ملکوت السّمٰوٰت والارض (الانعام۔ ع ۹) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بیواسطہ دوست کو ملے دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)

۵۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دعا مانگی ولا تخزنی یومَ یبعثون (الشعرا۔ ع ۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا یوم لا یُخزی اللہ النّبیّ (التحریم۔ ع ۲)

۶۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام جب درماندہ ہوئے تو کہا حسبی اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب درماندہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا حَسْبُکَ اللہ (الانفال۔ ع ۸)

۷۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے پاس جا رہا ہوں اِنّیْ ذاھبٌ الٰی ربّی (الصّافات۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اِن کو لے جا رہا ہوں سبحٰن الّذی اسرٰی بعبدہٖ (بنی اسرائیل۔ ع ۱)

۸۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے لیے ہدایت طلب کی سیھدین (الصّافات۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر طلب کے ہدایت دی گئی ویھدیک صراطًا مستقیمًا (الفتح۔ ع ۱)

۹۔     حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دعا مانگی کہ اے خداوند! لوگوں کو کہدے کہ مجھے نیکی سے یاد کریں واجعل لّی لسان صدقٍ فی الاٰخرین (الشعرا۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود  اللہ تعالیٰ نے نیکی سے یاد فرمایا ورفعنا لک ذکرک (الانشراح)

۱۰۔    حضرت ابراہیم علیہ السّلام منادی حجِ کعبہ و بیابان تھے واذّن فی النّاس بالحجّ (الحج۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منادی ایمان و احسان و عرفان تھے ربّنا انّنا سمعنا منادیًایّنادی للایمان (آل عمران۔ ع ۳۰)

۱۱۔     حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایمان کے متعلق سوال کیا گیا اولم تؤمنً (البقرۃ۔ع ۳۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایمان کی خود شہادت دی گئی اٰمن الرّسول بما انزل الیہ من رّبّہ والمؤمنون (البقرۃ۔ ع۔ ۴)

حضرت یوسف علیہ السّلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت یوسف علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔

۱۔      حضرت یوسف علیہ السّلام کو تاویل احادیث و تعبیر خواب کا علم دیا گیا وکذٰلک یجتبیک ربّک ویعلّمک من نأویل الاحادیث (یوسف۔ ع ۱) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو تحصیلِ مواریث و تفسیر کتاب کا علم دیا گیا۔ ثمّ اورثنا الکتٰب الّذین اصطفینا من عبادنا (فاطر۔ ع ۴)

۲۔     حضرت یوسف علیہ السّلام کو تختِ مصر پر بٹھایا گیا وکذٰلک مکَنّا لیوسف فی الارض (یوسف۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو تختِ جنّت پر بٹھایا جائے گا واذا رایت ثَمّ رایت نعیمًا وّ ملکًا کبیرًا (الدّھر ع ۱)

۳۔     حضرت یوسف علیہ السّلام کو ایسا جمال دیا گیا کہ مصر کی عورتوں نے غلبۂ شوق سے اپنے ہاتھ کاٹ لیے، وقطّعن ایدیھن وقلن حاش لِلہ ما ھٰذا بشرًا (یوسف۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسا کمال دیا گیا کہ ہزاروں کفار نے غلبۂ اشتیاق سے اپنے زنّار کاٹ دے ورایت النّاس یدخلون فی دین اللہ افواجًا (النّصر)

۴۔     حضرت یوسف علیہ السّلام کو زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں اجعلنے علٰی خزائن الارض (یوسف۔ ع ۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت کے خزانوں کی چابیاں عنایت ہوئیں وما ارسلنٰک الّا رحمۃً لّلعٰلمین۔ (الانبیأ ع ۷)

۵۔     حضرت یوسف علیہ السّلام کے عہد مملکت میں ایک سنہری پیمانہ ابن یامین علیہ السلام کے متاع میں رکھا گیا قالو انفقد صواع الملک (یوسف۔ ع ۹) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ رسالت میں نورِ یقین مومنوں کے سینوں میں رکھا گیا افمن شرح اللہ صدرہٗ للاسلام فھو علٰی نور من رّبّہٖ (الزّمر۔ ع ۳)

حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔

۱۔      حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو کلیم بنایا گیا وکلّم اللہ موسیٰ تکلیماً (النساء ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرم راز میں ندیم بنایا گیا فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی (النجم۔ ع ۱)

۲۔     حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کا بقا حاصل کرنے کے لیے خود گئے ولمّا جاء موسیٰ لمیقاتنا (الاعراف۔ ع ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود حق تعالیٰ لے گیا سبحٰن الّذی اسرٰے بعبدہٖ لیلًا (بنی اسرائیل۔ ع ۱)

۳۔     حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو کوہٖ طور پر لے گئے اور صرف کلام کی وکلّم اللہ موسیٰ تکلیمًا (النساء۔ ع ۲۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو کُرسی نور پر لے گئے اور دیدار سے مشرّف کیا دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)

۴۔     حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے قُرب کا تذکرہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اُن کی ستایش کی ہے وقرّبْنٰہ نجیّا (مریم۔ ع ۴) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قُرب کا تذکرہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی ستایش کی ہے سبحٰن الّذی اسٰرے بعبدہٖ لیلًا (بنی اسرائیل۔ ع ۱)

اِس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اپنی صفات میں قائم تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذاتِ احدیّت میں فناے تام حاصل تھا۔

۵۔     حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو علامت کے نام سے یاد کیا گیا جاء موسیٰ (الاعراف۔ ع ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرامت کے نام سے یاد کیا گیا بعبدہٖ لیلًا (بنی اسرائیل۔ ع ۱)

۶۔     حضرت  موسیٰ علیہ السّلام نے دیدار الٰہی طلب کیا تو حکم ہوا لن ترٰنی (الاعراف۔ ع ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر طلب کے دیدار دیا گیا الم ترالیٰ ربّک (الفرقان۔ ع ۵)

۷۔     حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کے واسطے منّ اور سلوٰی اُتارا گیا وانزلنا علیکم المنّ والسّلوٰے (البقرۃ۔ ع ۶) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امّت کے واسطے ایمان و سکینہ اتارا گیا ھو الّذی انزل السّکینۃ فی قلوب المؤمنین (الفتح۔ ع ۱)

حضرت داؤد علیہ السلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت داؤد علیہ السّلام بھی فضیلت حاصل ہے۔

۱۔      حضرت داؤد علیہ السّلام کے ہاتھ میں لوہا نرم کیا گیا والنّالہ الحدید (السّبا۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہاتھو میں دل نرم کیے گئے جن کی سختی پتھروں سے بڑھ کر ہے فھی کالحجارۃ اواشدّ قسوۃً (البقرۃ ع ۹)

حضرت سلیمان علیہ السلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہٖ ذیل حضرت سلیمان علیہ السّلام پر بھی فضیلت ثابت ہے۔

۱۔      حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا مسخر کی گئی ولسلیمٰن الرّیح غدوّھا شھروّر واحھا شھر (السّبا۔ ع ۳) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے واسطے ملائکہ مسخر کیے گئے یمدد کم ربٓکم بخمسۃ اٰلافٍ مّن الملٰئکۃ مسوّمین (آل عمران ع ۱۳)

۲۔     حضرت سلیمان علیہ السّلام کا تخت ہوا کے ذریعے ایک دن میں دو (۲) مہینے کا سفر طے کرتا تھا غدوّھا شھر وّر واحھا شھر (السّباع۔ ع ۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا تخت ملائکہ کے ذریعے لمحۃ البصر میں عرش پر چلا گیا فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر فضیلت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوجوہِ ذیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی فضیلت حاصل ہے۔

۱۔      حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانِ چہارم (۴) پر لے گئے بل رّفعہ اللہ الیہ (النساء۔ ع ۲۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فوق العرش مقامِ قُرب پر پہنچایا گیا دنا فتدلٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی (النجم۔ ع ۱)

۲۔     حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا گیا ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل اٰدم (آلِ عمران۔ ع ۶) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نور مبارک بلا واسطہ نورِ احدیّت سے ظاہر کیا گیا قد جاء کم مّن اللہ نور (المائدہ۔ ع ۳)

۳۔     حضرت عیسیٰ علیہ السّلام مردہ تنوں کو زندہ کرتے تھے واحی الموتیٰ باذن اللہ (آل عمران۔ ع ۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مردہ دلوں کو زندہ فرماتے تھے اومن کان میتًا فاحیینٰہ (الانعام۔ ع ۱۵)

۴۔     حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مائدہ نازل ہوا جس میں گونا گون طعام تھے ربّنا انزل علینا مائدۃ من السّماء (المائدہ۔ ع ۱۵) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مائدہ قرآن نازل کیا گیا جس میں بے شمار علوم ہیں ولا رطبٍ ولَا یابسٍ الّا فی کتٰبٍ مٓبین (الانعام۔ ع ۷)

۵۔     حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا مائدہ آخر  قوم کے لیے عذاب کا باعث ہوا فانّی اعذّبہ عذابًا لّا اعذّبہ احدًا من العٰلمین (المائدہ۔ ع ۱۵)اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا مائدہ قوم کے واسطے رحمت کا باعث ہَوا وننزّل من القراٰن ما ھو شفاء ورحمۃ للمؤمنین (بنی اسرائیل۔ ع ۹)

 

آپ کے خصائٔص شریف

حافظ ابو سعید نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ نے شرف المصطفٰے میں آپ کے خصائص کے تعداد ساٹھ (۶۰) لکھی ہے، اور حافظ جلال الدّین سیّوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خصائص کبرٰے میں سینکڑوں کی تعداد میں خصائص بیان کیے ہیں۔ (سیرۃ النبی جلد سوم)

آپ کے چند خصائص کتاب معارج النبوۃ سے نقل کیے جاتے ہیں،

۱۔      آپ کی روح پر فتوح سب سے پہلے پیدا ہوئی، اور وجود  مبارک سب پیغمبروں سے بعد مبعوث ہوا چنانچہ فرمایا ہے نحن الاٰخرون السّابقون۔

۲۔     حق تعالیٰ نے تمام انبیائے علیہم السّلام سے عہد و میثاق لیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پائیں تو ان کی متابعت اور اعانت کریں واذ اخذ اللہ میثاق النّبیّین لما اٰتیتکم مّن کتٰبِ وّحکمۃٍ ثُمّ جاء کم رسول مّصدّق لّما معکم لتؤمننّ بہٖ ولتنصرنّہ (آل عمران ع ۹) اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوکان موسیٰ حیًّا لما وسعہٗ الّا اتّباعی۔

۳۔     حق تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو اُن کے ناموں سے یاد کیا ہے مثلاً یٰادم اسکن (البقرۃ۔ ع ۴) یٰنوح اھبط (ہود۔ ع ۴) یٰاِبرٰھیم اعرض (ہود۔ ع ۷) یٰموسیٰ انّی اصطفیتک (الاعراف۔ ع ۱۷) یٰداوٗد انّا جعلنٰک (ص۔ ع ۲) یٰزکریّا اِنَّا نبشّرک (مریم۔ ع ۱) یٰحیٰی خذ الکتٰب (مریم۔ ع ۱) یٰعیسی ابن مریم اذکر نعمتے (المائدہ۔ ع ۱۵) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو لقب و تعریف سے یاد فرمایا یٰا یّھا النّبیّ جاھد الکفّار (التحریم۔ ع ۲) یٰایّھا الرّسول بلّغ ما انزل الیک (المائدہ۔ ع ۱۰) اور  اگر کہیں حضور کو نام سے یاد کیا ہے تو ساتھ ہی صفتِ رسالت کو ضم کیا ہے۔ مثلاً محمّد رّسول اللہ (الفتح۔ ع ۴) وما محمدّ الّا رسولٌ (آل عمران۔ ع ۱۵)

منقول ہے کہ قیامت کے دن تمام امتوں کو ان کے پیغمبروں کے ناموں سے یاد کریں گے۔  مثلاً یا امّت نوح۔ یا امّت ابرٰھیم۔ لیکن امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یا اولیائی کے خطاب سے یاد فرما دیں گے۔

۴۔     پہلی امّتوں کو جائز تھا کہ اپنے پیغمبروں کو نام لے کر بُلاویں مثلاً یا موسیٰ یا نوح وغیرہ۔ لیکن اس اُمت کو جائز نہیں کہ آپ کو نام لے کر بُلاویں، کیونکہ اوائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کو یا محمّد۔ یا ابو القاسم کہ کر بُلاتے تھے تو حُکم نازل ہوا لا تجعلوا دعاء الرّسول بینکم کدعاء بعضکم بعضًا (النّور۔ ع ۹)

۵۔     آپ کو جوامع الکلم عظا کیا گیا، فرماتے ہیں اوتیت جوامع الکلم یعنی کلام قلیل اللّفظ کثیر المعنےٰ۔

۶۔     آپ کو نصرت با رعب عطا کی گئی کہ ایک مہینے کے راستے سے دشمن آپ کے رعب سے ڈر کے مارے کانپتے تھے۔ فرمایا ہے نصرت بالرّعب مسیرۃ شھر اور حق تعالیٰ کا ارشاد ہے وقذف فی قلوبہم الرّعب (الحشر۔ ع ۱)

۷۔     مالِ غنیمت آپ پر حلال کیا گیا، فرمایا ہے احلّت لی الغنائم پہلے انبیاء علیہ السلام کے وقت مالِ غنیمت کو آسمان سے آگ آکر جلا جاتی تھی۔

۸۔     آپ کے لیے تمام زمین کو مسجد بنایا گیا جہاں چاہیں عبادت کریں فاینما تولّوا فثم وجہ اللہ (البقرۃ۔ ع ۱۴) فرمایا ہے جعلت لی الارض وترابھا طھورًا۔ اور آپ کو تیمّم کی رخصت دی گئی۔

۹۔     آپ کو تمام مخلوق جنّ و انس کی طرف مبعوث کیا گیا تبٰرک الّذی نزّل الفرقان علٰی عبدہٖ لیکون للعٰلمین نذیرًا۔ (الفرقان۔ ع ۱) آپ نے بصیغہٗ تعمیم فرمایا ہے بعثت الی الخلق کافّۃً۔

۱۰۔    آپ کے وجود مبارک پر سلسلۂ نبوّت و رسالت ختم کیا گیا ولکن رّسول اللہ وخاتم النّبیّین۔ (الاحزاب۔ ع ۵)

۱۱۔     آپ کو تمام عالمیان جنّ، انس، ملائکہ، شیاطین، داب وغیرہ کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا وما ار سلنٰک الّا رحمۃ لّلعٰلمین (الانبیاء۔ ع ۷)

 

معجزات

حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ پاک سراپا اعجاز تھی، آپ سے اِس قدر معجزات صادِر ہوئے ہیں جن کا احصار کسی طرح ممکن نہیں، چند ایک معجزوں کا بیان کیا جاتا ہے۔

معجزہ قرآن مجید

یہ قرآن مجید آپ کے اعظم و اعلٰے و اشہر و اظہر معجزات سے ہے جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔

قاضی عیاض رضی اللہ عنہ شفاء میں لکھتے ہیں کہ با عتبار بلاغت کے قرآن مجید میں سات ہزار سے اوپر معجزات ہیں،  اور بڑا معجزہ اِس کا یہ ہے کہ مشتمل ہے اوپر اخبار آیندہ یعنی پیشینگویوں اور اوپر قصص انبیائے پیشیں، اور امم سابقین کے، اور لحوقِ خوف و رعب قلبِ سامعین، و حصولِ ذوق و شوقِ قاری  وسامِع اور اجتماعِ حقائق و معارف و دلائل و براہین و احکام و شرائع و خیرات و حسنات کے، اور کُل باتیں جو ازل سے ابد تک ہوئیں یا ہوں گی سب اِس میں موجود  ہیں فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ولا رطبٍ ولا یا بسٍ الّا فی کتّبٍ مّبین (الانعام۔ ع ۷) قرآن مجید خود اپنے وجوہِ اعجاز بیان کرتا ہے۔ مثلاً فصاحت و بلاغت کے متعلّق فرماتا ہے قراٰنًا عربیًّا غیرذی عِوَجٍ (الزمر۔ ع ۳) یکسانی و عدم اختلاف کے بارہ میں فرماتا ہے افلا یتدبّرون القراٰن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا (النّساء۔ ع ۱۱) قوّتِ تاثیر کے متعلق فرماتا ہے ولقد جاءھم من الانباء ما فیہ مزدجرٌ حکمۃ بالغۃ فما تغن النّذر (القمر۔ ع ۱) تعلیم و ہدایت کے متعلق فرماتا ہے انّ ھٰذا القراٰن یھدی للّتی ھی اقوم (بنی اسرائیل۔ ع ۱) لا جواب و بے مثل ہونے کے بارہ میں فرماتا ہے قل لّئن اجتمعت الانس والجنّ علٰی ان یّا توا بمثل ھٰذا القراٰن لا یأتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعضٍ ظہیراً (بنی اسرائیل۔ ع ۱۰) حفظ و بقا کے متعلق فرماتا ہے انّا نحن نزّلنا الذّکر وانّا لہٗ لحٰفظون (الحجر۔ ع ۱) قوّتِ دلائل کے متعلق فرماتا ہے قل فللہ الحجّۃ اٰلبالغۃ (الانعام۔ ع ۱۸)

حضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن مجید کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور پھر اُس کے باطن کے بھی باطن ہیں یہاں تک کہ سات (۷) باطن ہیں یعنی معانی در معانی، پَس اُن میں تین (۳) معنی تک خلق کو رسائی ہے، اور چار (۴) معنی سوائے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوئی جان نہیں سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں مگر معانی و مطالب اُس کے ختم نہ ہوئے اور نہ ختم ہوں گے۔

عبا راتنا شتّےٰ وحسنک واحد

 

وکلّ الٰی ذاک الجمال یشیر

معجزہ معراج شریف

معراج کے مشاہدات میں شیون و صفات کی جلوہ انگیزی اور آیات اللہ کی نیرنگی جو کچھ آپ نے دیکھی وہ بیان سے باہر ہے، اور وہ کب تحریر میں سما سکتی ہے جبکہ دیدارِ الٰہی کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے علّمہ شدید القوٰی ذو مِرّۃ فاستوٰی وھو بالافق الا علٰے ثُمّ دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی ما کذب الفؤاد ما راٰی افتمٰرونہ علٰی ما یرٰی ولقد راٰہ نزلۃً اخرٰی عند سدرۃ المنتھٰی عندھا جنّۃ المأوٰی اذیغشے السّدرۃ ما یغشٰے ما زاغ البصر و ما طغٰی لقد راٰی مِن اٰیٰت ربّہ الکبرٰی (النجم۔ ع ۱)

صحیح بخاری کتاب التوحید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو روایت ہے اُس کے آخر میں ہے حتی جاء سدرۃ المنتھی ودنا الجبّار ربّ العزّۃ فتدلّٰی حتّٰی کان منہ قاب قوسین او ادنٰی۔

معجزہ شقّ القمر

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشارہ سے چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا قرآن مجید میں مذکور ہے اقتربت السّاعۃ وانشقّ القمر (القمر۔ ع ۱) شقِّ قمر کا واقعہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، مسند احمد حنبل، مسند طیالسی، مستدرک حاکم، دلائل بیہقی، دلائل ابو نعیم میں تبصریح تمام مذکور ہے صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ، وغیرہ نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔ اِن میں سب سے صحیح اور مستند تر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو صحیح بخاری و مسلم و ترمذی وغیرہ میں مروی ہے، وہ اِس واقعہ کے وقت موقع پر موجود  تھے، اور اس معجزہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں انشقّ القمر ونحن مع النّبیّ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بمنٰے فقال اشہدوا وذھبت فرقۃ نحو الجبل (بخاری و ترمذی تفسیر سورۂ القمر صحیح مسلم)

عام معجزات

آپ کا امّی ہونا یعنی ظاہری تعلیم اور نوشت و خواند کے داغ سے پاک ہونا،[۱] [۱۔ العنکبوت۔ ع ۵] اور آپ کا بغیر کسی پہرہ دار کے مکائدِ اعدا سے محفوظ رہنا،[۲] [۲۔ المائدہ۔ ع ۱۰] اور جنّات کا آپ کے پاس آکر اسلام قبول کرنا،[۳] [۳۔ الاحقاف۔ ع ۴] آپ کا شق صدر ہونا،[۴] [۴۔ صحیح مسلم باب الاسرار] آپ کا مبارک قدم ہونا،[۵] [۵۔ مستدرک جلد دوم] ستونِ حنانہ کا آپ کے فراق میں رونا،[۶] [۶۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام] تاثیر وعظ سے منبر کا ہلنا،[۷] [۷۔ صحیح مسلم باب ابتداء الخلق ۱۲ شرافت] چٹان کا پارہ پارہ ہوجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری (غزوۂ خندق)] درختوں اور پہاڑوں سے سلام کی آواز آنا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی باب معجزات ۱۲] آپ کے جلال سے کوہ اُحد کا ہلنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری مناقبِ ابی بکر ۱۲] آپ کے اشارہ سے بتوں کا گرجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب فتحِ مکہ ۱۲] کھانوں سے تسبیح کی آواز آنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] درختوں کا چلنا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم حدیث جابر الطویل ۱۲] آپ کے بلانے سے خوشہ خُرما کا چلا آنا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی باب معجزات ۱۲] بے دودھ بکری کا شیر دار ہوجانا،[۱] [۱۔ مسند احمد جلد اوّل ۱۲] سست گھوڑے کا تیز رفتار ہوجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الجہاد ۱۲] اندھیرے میں روشنی ہونا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] جانوروں کا آپ کو سجدہ کرنا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] بیماروں کا شفا پا جانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری غزوۂ خیبر ۱۲] اندھے کا بینا ہوجانا،[۱] [۱۔ مسند احمد جلد چہارم ۱۲] گونگے کا بولنا،[۱] [۱۔ سنن ابن ماجہ باب النشرہ ۱۲] ایک جلے ہوئے بچے کا اچھا ہونا،[۱] [۱۔ خصائص کبرٰے جلد دوم بحوالہ تاریخ بخاری ۱۲] جنون کا دور ہونا،[۱] [۱۔ سنن ابن ماجہ باب الفزع والارق ۱۲] دعاوں کا قبول ہونا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] تھوڑے طعام سے جماعتِ کثیر کا سیر ہوجانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] چھوہارے کے ڈھیر کا بڑھ جانا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] انگلیوں سے پانی جاری ہونا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب معجزات ۱۲] اور غیبی خبروں پر اطلاع پانا،[۱] [۱۔ الجن۔ ع ۳ / التگویر ۱۲] اور ایسی پیشینگویاں کرنا جو بالکل سچی ہوئیں مثلاً آغازِ اسلام میں فتوحاتِ عظیمہ کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] قیصر و کسرٰے کی بربادی کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] ابو صفوان کے قتل کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب المغازی ۱۲] مقتولین بدر کی نام بنام خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم غزوۂ بدر ۱۲] فاتح خیبر کی تعیین کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری فتح خیبر ۱۲] حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی وفات کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم باب الفضائل ۱۲] اپنی وفات کے متعلق بہت پہلے اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری مناقب ابی بکر ۱۲] فتحِ یمن کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الحّج ۱۲] فتحِ شام کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الحج ۱۲] فتحِ عراق کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الحج ۱۲] خوز ستان اور کرمان کی فتوحات اور ترکوں سے جنگ کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] فتحِ مصر کی بشارت دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم باب الوصیّۃباہل مصر ۱۲] غزوۂ ہند کی خبر دینا،[۱] [۱۔ سنن نسائی کتاب الجہاد ۱۲] بحر روم کی لڑایوں کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب الرّؤیا فی الہنار ۱۲] فتحِ بیت المقدس کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب الجزیہ ۱۲] فتح قسطنطنیہ کی بشارت دینا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی کتاب الفتن ۱۲] فتحِ روم کا اشارہ کرنا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲]  فاتحِ عجم کا اشارہ کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب الہجرۃ ۱۲] مرتدّین کی اطلاع کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری حدیث حوض کوثر ۱۲]  حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات  کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم فضائل زینب ۱۲] اُمَ ورقہ کو شہادت کی خوشخبری دینا،[۱] [۱۔ سنن ابی داؤد باب الاماتہ ۱۲]  بارہ (۱۲) خلیفوں کے ہونے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الامارۃ ۱۲] خلافتِ راشدہ کی مدت بیان کرنا،[۱] [۱۔ جامع ترمذی کتاب الفتن ۱۲] شیخین کی خلافت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب المناقب ۱۲]  مسلمانوں کو دولت کی کثرت اور فتنوں کے ظہور  سے آگاہ کرنا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الفتن ۱۲ شرافت]  فتنے مشرق کی جانب سے اُٹھنے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الفتن ۱۲] حضرت عمر رضی اللہ عنہ و حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ ۱۲] حضرت علی المرتضیٰ کی مشکلات اور شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ مستدرک ۱۲] جنگِ جمل کی خبر دینا،[۱] [۱۔ مسند احمد ۱۲] جنگِ صفین، کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲]  حضرت عمار کی شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق خبر دینا کہ مسلمانوں کے دو (۲) گروہوں میں مصالحت کر وائے گا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲[۱۔  یزید کی تخت نشینی کی بلا کے اسلام پر وارد ہونے کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ خصائص کبرٰے جلد دوم بحوالہ مسند  احمد و حاکم بیہقی ۱۲] حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دینا،[۱] [۱۔ مستدرک ۱۲] خوارج کے ہونے کی اطلاع  دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری باب علامات النبوۃ فی الاسلام ۱۲] حجاز میں ایک آگ کے ظاہر ہونے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] چار (۴) دوروں کے بعد انقلاب آنے کی خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم باب فضل صحابہ ۱۲] جھوٹھے مدّعیانِ نبوّت کے متعلق خبر دینا،[۱] [۱۔ صحیح مسلم کتاب الفتن ۱۲] منکرین حدیث کے بارہ میں خبر دینا،[۱] [۱۔ سنن ابی داؤد باب لزدم السنۃ ۱۲] علاقہ نجد میں شیطان کا سینگ پیدا ہونے کی اطلاع دینا،[۱] [۱۔ صحیح بخاری کتاب الفتن ۱۲ شرافت ۱۲] غرضیکہ آپ کے معجزات کا شار کرنا حیطۂ امکان سے باہر ہے۔

 

عملیّات

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملیات کتبِ حدیث میں مذکور ہیں چند ایک لکھے جاتے ہیں۔

برائے دفعیہ کَرب

صحیح بخاری میں ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کہ جب کسی کو کوئی مصیبت یا کرب پیش آئے تو یہ دعا پڑھے لا الٰہ الآ اللہ الحلیم الکریم ربّ السّماوات السّبع وربّ العرش العظیم الحمد للہ ربّ العالمین اللّٰہمّ انّی اعوذبک من شرّ عبادک حسبنا اللہ ونعم الوکیل (الّداء والدواء)

برائے رفعِ ھم و غم

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی غم یا فکر یا رنج ہوتا تو یہ پڑھا کرتے یا حیّ یا قیّوم برحمتک استغیث (الداء والدّواء بحوالہ ترمذی و نسائی)

حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ بدر کے دن کچھ دیر قتال کر کے میں آیا کہ دیکھوں حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کیا کرتے ہیں؟ دیکھا تو آپ سجدہ میں پڑے ہوئے یا حیّ یا قیّوم کہہ رہے تھے، میں چلا گیا، پھر دوبارہ آیا تو یہی پڑھ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دی۔ (سنن نسائی)

صاحبِ الدّاء والدّواء نے لکھا ہے کہ میں نے اِس کا تجربہ کیا ور صحیح پایا یہ کلمہ اسمِ اعظم ہے، بلکہ فقیر شرافت عفٰی عنہ خود بھی اس اسمِ اعظم کے کمالات سے مستفیض ہے۔

برائے دفعیّہ فزع

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو واسطے دفع کرنے گھبراہٹ کے یہ کلمات سکھاتے تھے اعوذ بکلمات اللہ التّامّات من غضبہٖ وعقابہٖ وشرّ عبادہٖ ومن ھمزات الشّیاطین وان یحضرون۔ (سنن ابی داؤو، جامع ترمذی)

برائے ادائیگی قرض

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر ایک یہودی کا ایک اوقیہ سونا قرض تھا، اس نے ان کو حبس کر رکھا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ اگر تجھ پر مثل کوہِ ثبیر کے قرض ہو تو اللہ تعالیٰ ادا کر دے، اے معاذ اللہ سے یہ دعا کر اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآ بِیَدِكَ الْخَیْرُ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ رحمٰن الدّنیا والاٰخرۃ ورحیمھما تعطی من تشاء منھما وتمنع من تشاء ارحمنی رحمۃ تغنینی بھا عن رحمۃ من سواک (الدّاء والدّواء بحوالہ طبرانی)

برائے نظربد

سہل بن ضیف رضی اللہ عنہ کو عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی نظر غسل کی حالت میں لگ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہل رضی للہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے پر ہاتھ مار کے پڑھا بسم اللہ اللّٰھم اذھب حرّھا وبرد ھا و وصبھا پھر فرمایا کہ قُم باذن اللہ چنانچہ وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔

برائے محروق

محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیگ اٹھائی، میرا ہاتھ جل گیا، میری والدہ مجھ کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس  لے گئی آپ نے کچھ پڑھ کر دم کر  دیا، جس کو میں نے نہ سمجھا، میں اپنی والدہ سے پوچھا کہ آپ کیا پڑھتے تھے؟ کہا اذھب الباس ربّ النّاس  اشف انت الشّافی لا شافی الّا انت (الدّاء والدّواء بحوالہ نسائی و احمد)

برائے قضائے حاجات

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مچھلی کے پیٹ میں ذوالنّون علیہ السلام کی یہ دعا کی تھی لٓا الٰہ الّآ انت سبحٰنک انّی کنتُ من الظّٰلمین (الانبیاء ع ۶) کوئی مسلمان کسی شے میں کبھی یہ دعا نہیں کرتا مگر کہ اللہ تعالیٰ اس  کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ (ہذا لفظ الترمذی قال الحاکم صحیح الاسناد)

دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ دعا حضرت یونس علیہ السّلام کے ساتھ خاص ہے یا مومنین کے واسطے عام ہے؟ تو فرمایا کہ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کی بات نہیں سنی ونجیّنٰہ من الغمّ وکذٰلک ننجی المؤمنین (الانبیاء۔ ع ۶) (الدّاء والدّواء بحوالہ مسند احمد و مسند ابو یعلٰے) حضرت شاہ اہل اللہ قدّس سرہ نے چار باب میں فرمایا ہے کہ جو عمل کہ حصولِ ھر مطلب میں جلالی ہو یا جمالی حکم میں کبریت احمر کے ہے اور اس کو اسم اعظم شمار کیا ہے وہ یہ آیت ہے لٓا الٰہ الّآ انت سبحٰنک انّی کنتُ من الظّٰلمین حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دعا ذوالنّون علیہ السلام کی ہے، کہ مچھلی کے پیٹ میں فرمائی جو مسلمان جس مطلب کے واسطے اِس آیت سے دعا کرے گا، قبول ہوگی، اور حق یہ ہے کہ یہ دعا نہایت مجرّب التّاثیر اور کمال سریع الاثر ہے، جس امر میں چاہے اِس آیت سے دعا کرے، اور مشائخ رضی اللہ عنہم اس کی سرعتِ تاثیر اور عدم تخلف پر اجماع اور اتفاق رکھتے ہیں، اور طریقہ دعار کا انہوں نے باقسامِ متعدّدہ ذکر کیا ہے، آسان تر دو  (۲) طریقے ہیں، ایک یہ کہ بارہ (۱۲) دن تک بہ نیّتِ حصولِ مطلب بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) بار پڑھے، اور اگر نہ ہوسکے تو بارہ سو (۱۲۰۰) بار پڑھے، اوّل و آخر چند بار درود شریف پڑھ لے، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک لاکھ پچیس ہزار (۱۲۵۰۰۰) بار پڑھے، خلاصہ یہ کہ اس کی قوّتِ تاثیر میں کچھ شک نہیں، اِس واسطے کہ ایسا کوئی عمل نہیں کہ جس کی صحت قرآن مجید سے بھی ہو اور صحیح حدیث سے بھی، اور مشائخ رحمہم اللہ کے اقوال سے بھی سوائے اِس کے، قرآن کریم میں اس کی شان میں وارد ہے فاستجبنالہٗ (شفاء العلیل فصل ہشتم ۸)

 

مُکتوبات

آپ نے مختلف ملوک و سلاطین و مشاہیر رؤسائے وقت کو ۸ھ میں تبلیغی خطوط روانہ فرمائے، بعض نے اسلام قبول کیا اور بعض نے نہ کیا، یہاں آپ کے بعض مکتوب درج کیے جاتے ہیں۔

مکتوب شاہِ روم کے نام

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم من محمّد رّسول اللہ الٰی ھر قل عظیم الرّوم سلامٌ علٰی من اتّبع الھدٰی امّا بعد فانی اد عوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم یؤتک اللہ اجرک مرّتین فان تولّیت فانّ علیک اثم الاریسین ویا اھل الکتٰب تعالوا الٰی کلمۃٍ سواءٍ بیننا وبینکم الّا نعبد الّا اللہ ولا نشرک بہٖ شیئًا وّ لا یتَّخذ بضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولو افقولو اشھدوا بانّا مسلمون (صحیح بخاری) یعنی محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہر قل شاہِ روم کے نام، جو ہدایت کا پیر و ہو اُس پر سلام ہو، اس کے بعد میں تم کو اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ مسلمان ہوجاؤ تاکہ تم سلامت رہو، تم کو اللہ تعالیٰ دو (۲) اجر دیوے گا، اور اگر تم نے نہ مانا تو تمام دیہاتی زمینداروں یعنی رعیّت کا گناہ تمہاری گردن پر ہوگا، اور اے اہل کتاب آؤ ہم تم ایک ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے کہ خدا تعالیٰ کے بغیر کسی دوسرے کو پرستش نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی دوسری طاقت کو شریک نہ بنائیں، اور اس کے علاوہ کسی دوسرے کو مربّی نہ ٹھیرائیں، اگر اِس بات کو بھی تم نہ مانو پس کہ دو کہ شاہد رہو کہ ہم تو مسلمان ہو چکے ہیں۔

مکتوب شاہِ حبش کے نام

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم من محمد رّسول اللہ الے النجاشی ملک الحبش امّا بعد فانّی احمد الیک اللہ الّذی لَآ الٰہ الا ھو الملک القدّوس السّلام المؤمن المھیمن واشھد انّ عیسے بن مریم روح اللہ وکلمۃ القاھا الٰی مریم البتول الطّیّبۃ الحصینۃ محملت بعیسٰی فخلقہٗ من رّوحہٖ ونفخہ کما خلق اٰدم بیدہٖ وانّی ادعوک الی اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ والموالات علٰی طاعتہٖ وان تتبعنی وتؤمن بالّذی جاء نی فانّی رسول اللہ وانّی ادعوک وجنودک الی اللہ تعالٰی وقد بلغت نصیحتے وقد بعثت الیکم ابن عمّی جعفر او معہ نفر من المسلمین والسّلام علٰی من اتّبع الھدٰے۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف سے نجاشی شاہِ حبش کے نام، اس کے بعد میں تمہارے رو برو خدا کی تعریف کرتا ہوں جِس کے بغیر اور کوئی معبود نہیں، وہ مالک پاک بہتر امان دینے والا اور پناہ میں لینے والا ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ بن مریم روح اللہ اور کلمہ اللہ ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے مریم بتول پاکباز اور عفیفہ کی طرف ڈالا، پس اُس سے مریم حاملہ ہوئی، اور خدا تعالیٰ نے اس کو اپنی روح اور نفخ سے پیدا کیا، جس طرح کہ آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے، اور کہ میں تم کو خدائے واحد لا شریک کی طرف بلاتا ہوں اور اس کی طاعت کی محبّت کی طرف، اور یہ کہ تو میری تا بعداری کرے، اور جو کچھ میں لایا ہوں اُس پر ایمان لاوے، کیونکہ میں یقینًا خدا کا فرستادہ ہوں، اور میں میں تجھے اور تیرے تمام لشکر کو اسی خدا کی طرف بلاتا ہوں میں نے تم کو تمام پیغام حق پہنچادیا،  اور حق نصیحت ادا کردیا، تو میری نصیحت قبول کر، میں نے تمہارے پاس اپنے چچیرے بھائی جعفر اور چند دوسرے مسلمانوں کو بھیجا ہے، جو ہدایت کا تابعدار ہو اُس پر  سلام ہو۔

یہ خط  عمرو بن امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا گیا، اور وہ  دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبش کو روانہ ہوگئے اور نجاشی مسلمان ہوا۔

مکتوب شاہِ اسکندریہ و مصر کے نام

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔ من محمّد عبد اللہ ورسولہٖ الی الموقس عظیم القبط سلامٌ علٰی من اتّبع الھدٰی امّا بعد فانّی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسنلم یؤتک اللہ اجرک مرّتین فان تولّیت فعلیک اثم القبط و یا اھل الکتٰب بعالوا الٰی کلمۃٍ سواءٍ بیننا وبینکم الّا نعبد الّا اللہ ولَا نشرک بہٖ شیئًا وّلا یتّخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولّوا فقولوا شھدو بانّا  مسلمون

 مہر (محمد رسول اللہِ)

یہ خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا۔

مقوقس نے اِس خط کو پڑھ کر ڈبہ میں ڈال کر اپنی لونڈی کے حوالہ کیا کہ محفوظ رکھو صاحبِ ناسخِ التّواریخ لکھتا ہے کہ یہ خط مصر سے بسبب اس مذہبی تعلق کے جو مصریوں کو بسبب فاطمی ہونے کے ایرانیوں سے تھا، ایران میں آیا، اور وہاں سے اہلِ ایران نے خلیفۃ المسلمین شاہِ روم کو تحفۃ بھیجا، اور وہ اب تک قسطنطنیہ کے شاہی خزانہ میں محفوظ ہے۔

اس کا عکس بھی شائع ہوچکا ہے اور دفتر بیت العلوم لاہور سے مل سکتا ہے (مکتوبات نبوی) آج کل جو اِس مکتوب شریف کا عکس شائع ہوا ہے اس پر اس  کی سند اس طرح پر تحریر ہے کہ

’’یہ خط جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۷ھ میں حاطب بن ابی بلتعہ عمرو بن عُمیر بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ مُہر لگا کر عظیم القبط (مصر کے بادشاہ) مقوقس کے پاس ارسال فرمایا تھا، یہ مبارک خط ایک فرانسیسی سیّاح نے سفرِ قبط کے سلسلے میں ۱۲۷۴ھ میں مصر کے شہروں میں سے احمیم کے گرجا میں ایک قبطی راہب کے پاس سے دو ہزار روپیہ کو ہدیہ لیا تھا، اور سلطان عبد الحمید خاں والی دولتِ عثمانیہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، اور ہدیہ پیش کیا، سلطان نے اُسے نہایت حفاظت سے دیگر تبرکاتِ نبویہ کے ساتھ قسطنطنیہ میں رہنے کا حکم صادر فرمایا اور بعد اس کے عربوں کی درخواست کرنے پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ مدینہ شریف بھیج دیا، اور مدینہ شریف سے حاجی فضل کریم صاحب اس کا چربہ لے کر ہندوستان میں آئے۔ فقیر شرافت عفا اللہ عنہ کے پاس کتاب قطعات العربیّہ میں مکتوب شریف نبوی کا عکس موجود ہے۔

 

معاہدات

مواہب اللّدنیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ معاہدات بھی تحریر ہیں، جو آپ نے وقتًا فوقتًا لوگوں کو لکھ کر دے۔

امن نامہ

یوحنّا بن روبہ حاکمِ ایلہ تین سو (۳۰۰) آدمیوں کو ساتھ لیے تبوک میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر کے صلح کا پیغام پیش کیا، چنانچہ حضور علیہ الصّلوۃ والسّلام نے یہ امن نامہ لکھ کر اُس کو عنایت فرمایا۔

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذہ امنۃ من اللہ ومحمد النّبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیوحنّا بن روبہ واھل ایلہ اساقفتھم سائرھم فی البرّو البحر لھم ذمّۃ اللہ و ذمّۃ النّبّی ومن کان معہٗ من اھل الشّام واھل الیمن واھل البحر فمن احدث منھم حدثا فانّہ لَا یحول مالہ دون نفسہ وانّہ طیب لمن اخذہ من النّاس وانّہ لا یحل ان یمنعوا ماء یریدونہ ولا طریقًا یریدونہ من برّاوجر۔ انتہیٰ۔ یعنی یہ امن نامہ ہے اللہ تعالیٰ اور اُس  کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے یوحنّا بن روبہ اور  ساکنانِ ایلہ کے پادریوں اور باقی لوگوں کے لیے جو خشکی اور  تری میں ہوں وہ اللہ اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امان میں ہیں، اس عہد نامہ کے بعد اگر کوئی شخص نئی بات کا مرتکب ہوگا یعنی عہد کو توڑے گا، تو اس کے مال و جان خطرہ میں پڑ جائیں گے، کیونکہ انہوں نے عہد شکنی کی، اور ان کا مال مسلمانوں کےلیے حلال طیّب ہوگا، اور یہ کہ ان کو کسی پانی کے چشمے سے جس پر وہ وارد ہوں یا کسی  راستہ خشکی و تری سے جس پر وہ چلنا چاہیں روک ٹوک نہ ہوگی،

یہ عہد نامہ جہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ اور شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے تحریر کر کے روبہ والوں کے حوالے کیا۔

عہد نامہ

اہل جربا [۱] [۱۔ جربا و اذرح دو گاؤں تھے جو علاقہ شام فلسطین یا اس کے قرب و جوار میں واقع تھے۔ ۱۲ شرافت] اور اذرح وفد کی صورت میں بمقام تبوک حاضر خدمت ہوئے، اور صلح و مصالحت کا پیغام دیا، اور جزیہ کی رقم پیش کی، چنانچہ حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے یہ عہد نامہ ان کو لکھ دیا۔

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا کتاب من محمّد النّبیّ رسول اللہ لا ھل اذرح وج یا انّھم اٰمنون با مان اللہ وامان محمّد وانّ علیھم مائۃ دینار فی کلّ رجّب وافیۃ طیّبۃ واللہ کفیل علیھم بالنّصح والا حسان الی المسلمین ومن لجأ الیھم من المسلمین فی المخافۃ والتعذیر۔یعنی یہ تحریر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہے جو اللہ کے نبی اور رسول ہیں اہل اذرح و جربا کے نام کہ وُہ اللہ اور اس کے رسول کی پناہ میں آئے، اور سال کے بعد ہر ایک ماہِ رجّب میں وہ ایک سو (۱۰۰) اشرفی پوری جو مسلمانوں کے لیے حلال طیّب ہے ادا کیا کریں گے، اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے احسان اور ہمدردی کا اظہار کریں گے، اور اگر کوئی مسلمان کسی خوف اور گھبراہٹ کے وقت ان کے پاس پناہ لے گا تو اس  کی مدد کریں گے۔

 

ہدایات

اب دو (۲) مکتوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے لکھے جاتے ہیں جن میں اسلامی ہدایات ہیں جن کو طبری اور ابن ہشام نے نقل کیا ہے۔

ہدایت نامہ

عبد اللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب بنی حارث کا وفد حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی خدمت سے واپس چلا گیا، تو آپ نے عمرو بن حزم الانصاری اور ایک شخص بنی نجّار میں سے ان کے پاس بغرض تعلیم دین اور سنن سیّد المرسلین اور وصولی صدقات مامور کیا، اور ان کو یہ ہدایت نامہ لکھوا کر دیا۔ بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا بیان من اللہ ورسولہٖ یا ایّھا الّذین اٰمنوا اوفوا بالعقود عقد من محمد النّبی لعمر وبن حزم حین بعثہ الی الیمن امرہٗ بتقوی اللہِ فی امرہ کلّہٖ فانّ اللہ مع الّذین اتّقوا والّذین ھم محسنون وأمرہ ان یا خذ بالحق کما امربہ اللہ وان یّبشر النّاس بالخیر ویأمر ھم بہٖ ویعلّم الناس القراٰن ویفقَھم فی الدّین وینھی النّاس ولَایمس احد القراٰن الّا وھو طاھر ویخبر الناس بالّذی لھم وبا لّذی علیھم ویلین النّاس فی الحقّ ولا یشتد علیھم فی الظّلم فانّ اللہ عزّوجلّ کرہ الظّلم ونھی عنہ وقال الا لعنۃ اللہ علی الظّالمین ولیبشّر النّاس بالجنّۃ وبعملھا وینذر النّار وبعملھا ویستألف النّاس حتّٰی یتفقّھوا فی الدّین ویعلّم النّاس معالم الحجّ وسنّۃ وفریضۃ وما امر اللہ بہٖ فی الحجّ الا کبر والحجّ الاصغر وھو العمرۃ وینھی النّاس ان یصلّے احد فی ثوبٍ واحدٍ صغیر الّا ان یکون ثوبًا واحدًا یثنٰی طرفہ علٰی عاتقہٖ وینھی ان یحتبے احدٌ فی ثوبٍ واحدٍ ویغضی بفرجہ الی السّماء وینھی ان لا یعقص احد شعر راسہ اذا عفا فی قفاہ وینھی اذا کان بین النّاس ھیّج عن الدّعاء الی القبائل والعشائر ولٰکن دعاؤھم الی اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ فمن لم  یدع اِلی اللہ ودعا الی القبائل والعشائر فلیقطعوا بالسّیف حتّی یکون دعاؤھم الی اللہ وحدہ لا شریک لہٗ ویأمر النّاس باسباغ الوضوء وجوھہم وایدیہم الی المرافق وارجلھم الی الکعبین ویمسحون برءوسھم کما امر اللہ عزّوجلّ وامر للصّلوۃ لوقتھا واتمام الرّکوع والخشوع ویغلّس بالفجر ویھجر بالھاجرۃ حین یمیل الشّمس وصلوٰۃ العصر والشمّس فی الارض مدبرۃ والمغرب حین یقبل اللّیل لا تؤخر حتّٰی تبدؤ النّجوم فی السّماء والعشاء اُوّل اللّیل فیامر بالسٓعی الی الجمعۃ اذا نودی لھا والغسل عند الرّواح الیھا وأمرہٗ ان یأخذ من المغانم خمس اللہ وما کتب اللہ علی المؤمنین صدقۃ من العقار عشر ماسقی البعل وما سقت السّماء وما سقی الغرب نصف العشر وفی کلّ عشر من الا بل شاتان وفی کلّ عشرین من الا بل اربع شاۃ وفی کلّ اربعین من البقر بقرۃ وفی کل ثلاثین من البقر تبیع جذع اوجذعۃ وفی کلّ اربعین من الغنم سائمۃ شاۃ فانّھا فریضۃ اللہ الّتی افترض اللہ عزّوجلّ علی المؤمنین فی الصِّدقۃ فمن زاد خیرًا فھو خیر لہٗ وانّہ من اسلم من یھودے او نصرانی اسلامًا خالصًا من نفسہٖ ودان دین الاسلام فانّہ من المؤمنین لہٗ مثل ما لھم وعلیہ مثل ما علیھم ومن کان علٰی نصرانیّۃ ویھودیّۃ فانّہ لا یفتن عنہا وعلٰی کُلّ حالم ذکرا وانثٰی حرّا وعبد دینارٍ وافٍ او عرضہ ثیابًا فمن ادی ذٰلک فانّ لہ ذمّۃ اللہ وذمّۃ اللہ وذمّۃ رسولہ ومن منع ذالک فانّہٗ عدوّللہ ولرسولہٖ وللمؤمنین جمیعًا (تاریخ کبیر) یعنی یہ بیان اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے ہے، اے ایمان والو اپنے عہد کو پورا کرو، یہ عہد نامہ حضرت محمد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عمر و بن خرم کے نام سے جبکہ اس کو یمن کی طرف بھیجا گیا، میں اس کو ہر معاملہ میں خدا سے ڈرنے کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ خدا تعالیٰ انہیں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقوٰی اختیار کریں، اور احسان کریں، اور میں اس کو حکم دیتا ہوں کہ وہ حق بات کو جس کا خدا تعالیٰ نے امر  کیا ہے ہر حالت میں اختیار کرے، اور لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی خوشخبری سناے اور اسی  کا ان کو حکم دے، لوگوں کو قرآن شریف پڑھائے اور دین میں واقفیّت بہم پہنچائے اور پاکیزگی میں لوگوں کو قرآن شریف چھونے کی اجازت  دے اور لوگوں کو مفید چیزوں کو ترغیب دے، اور مضرّات سے بچائے، اور حق بتلانے میں نرمی اختیار کرے، اور لوگوں پر بیجا ظلم نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ظلم کو بُرا سمجھتا اور روکتا ہے، جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہو، اور لوگوں کو جنّت اور اس کے اعمال کی بشارت دے، اور دوزخ اور اس کے اعمال سے ڈرائے، اور لوگوں سے اُنس و محبت سے پیش آئے، تاکہ لوگ دین سے واقفیّت حاصل کرلیں، اور لوگوں کو حج کے احکام سکھائے، اور سنن و فرائض جو کچھ حج اور عمرہ کی نسبت ہیں کھول کر بیان کرے، اور لوگوں  کو ایک کپڑے میں نماز سے روکے، ہاں اگر چادر دونو مونڈھوں پر ڈالی جائے اور شرمگاہ ننگی نہ ہونے پائے تو کوئی خوف نہیں، اور بالوں میں جو پیچھے چھوڑے ہوئے ہوں جُوڑا کرنے سے روک دے، اور جب لوگوں میں دنیاوی قبائل و عشائر کی طرف رغبت دیکھے تو ان کو اللہ واحد لا شریک کی طرف  دعوت دے، اور  جو لوگ خدا کو چھوڑ کر رسومِ  بد  کا پیچھا  کریں، ان کو تلوار سے سیدھا کرے، تاکہ وہ دنیا پر دین کو مقدّم کرلیں، اور لوگوں کو وضو میں خاص کوشش سے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھونے کی اور سر کے مسح کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہدایت کرے، اور وقت پر نماز ادا کرنے اور رکوع اور خشوع میں تاکید رکھے، صبح کی نماز منہ اندھیرے اور دوپہر کی نماز اور دوپہر کی نماز جب سورج ڈھلے، اور عصر کی نماز جب سورج زمین کی طرف رخ کرے، اور مغرب کی نماز جب رات شروع ہوجائے، قبل اس کے کہ ستارے نمودار ہوں، اور عشا اول حصہ رات میں ادا کی جائے، اور جب جمعہ کی اذان ہوجائے لوگوں کو جلدی آنے کا، اور قبل از روانگی غسل کا حکم دے، اور میں اس کو حکم دیتا ہوں کہ غنیمت کے مال سے خُمس اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر فرض کیا ہے، زمین زرعی کا دسواں (۱۰) حصّہ جو نہری یا بارانی ہو وصول کرے، اور جو چاہی ہو اس سے بیسواں (۲۰) حصّہ لے، ہر دس (۱۰) اونٹ میں دو  (۲) بکریاں، اور ہر بیس میں چار(۴)، اور ہر چالیس (۴۰) گائے میں سے ایک گائے، اور تیس (۳۰) گائے میں سے ایک بچھڑی یا بچھڑا دو (۲) سالہ، اور ہر چالیس چرنے والی بکریوں میں سے ایک بکری، یہ وہ فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کےلیے مقرر کیا ہے، اور جو اس سے زیادہ  کرے اس کے لیے بہتر ہے، اور جو نصرانی یا یہودی سچے دل سے مسلمان ہو، اور اسلامی ارکان بجالائے اُس کو مسلمان سمجھا جائے، اور اس کے تمام حقوق مسلمانوں کے سے ہوں گے، اور جو اپنے مذہب نصرانیّت یا یہودیّت پر قائم رہے، اس پر کسی طرح کی جبر و تعدّی نہ کی جائے کہ وہ اس کو چھوڑدے، اور ایسے لوگوں سے خواہ اصیل ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، ایک اشرفی سالانہ لی جائے، یا اس کی ہم قیمت اور کوئی سامان کپڑا وغیرہ قبول کر لیا جائے، پس جب یہ دے دیوے تب وہ خدا اور اس کے رسول کی پناہ میں ہے، اور جو نہ ادا کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے۔

ہدایت نامہ

یہ ہدایت نامہ قوم نصّارٰے کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تمام امت کو فرمایا ہے۔

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم ھٰذا کتاب کتبہٗ محمّد بن عبد اللہ الی النّاس اجمعین رسولہ مبشّرًا ونذیرًا ومؤتمنًا علٰی ودیعۃ اللہ فی خلقہٖ لئلّا یکون للنّاس حجّۃ بعد الرّسول وکان اللہ عزیزًا حکیمًا۔ کتبہ لا ھل ملّۃ النّصارے ولمن ینحل دین النّصرانیّۃ من مشارق الارض ومغاربھا قریبھا وبعیدھا فصیحہا واعجمھا معر وفھا ومجہولھا جعل لھم عہدًا فمن نّکث العہد الّذی فیہ وخالفہ الٰی غیرہٖ وتعدی ما أمرہ کان لعہد اللہ ناکثًا ولمیثاقہٖ نا قضًا وبدینہٖ مستھزیًا وللّعنۃ مستوجبًا سلطانًا کان ام غیرہ من المسلمین وان احتمی راھب اوسائح فی جبلٍ او وادٍ او مغارۃٍ اوعمرانٍ اوسھلٍ اورملٍ او بیعہ فانا اکون من ورائھم اذبّ عنھم من کلّ غیرۃ لھم بنفسی واعوانی واھلی وملّتی واتباعی لانّھم رعیّیّی واھل ذمّتی وانا اعزل عنھم الاذی فی المئون الّتی یحمل اھل العہد (کذا) من القیام بالخراج الّا ما طابت لہٗ نفوسھم ولیس علیھم جبر ولا اکراہ علٰی شئی من ذالک ولا یغیّرا سقف من اسقفینۃ ولا راھب من رھبا نیّۃ ولاجیس من صومعتہٖ ولا سائح من سیاحتہٖ ولا یھدم بیت من بیوت کنائسھم وبیعہم ولا یدخل شئی من مال کنائسھم فی بناء مساجد المسلمین ولا فی بناء منازلھم فمن فعل شیئا من ذالک فقد نکث عہد اللہ وعھد رسولہٖ ولا یحمل علی الرّھبان والا ساقفۃ ولا من یتعبد جزیۃ ولا غرامۃ وانا احفظ ذمّتہم اینما کانوا من برٍّا وبحرٍ فی المشرق والمغرب والجنوب والشّمال وھم فی ذمّیّ ومیثاقی وامانی من کلّ مکروہ وکذالک من یتفرد بالعبادۃ فی الجبال والمواضع المبارکۃ لا یلزمھم ممّا یزرعونہ لا خراج ولا عُشر ولا یشاطرون لکونہٖ برسم ولا یعاونون عند ادراک الغلّۃ ولَا یلزمون بخروج فی حرب وقیام بجبریۃ ولا من اصحاب الخروج وذوی الا موالہ والعقارات والتجارات ممّا ھوا کثر من اثنی عشرد رھمًا بالجملۃ فی کلّ عام ولا یکلّف احد منھم شططا ویجادلون الٓا بالّتی ھی احسن ویحفظونھم تحت جناح الرّحمۃ یکفّ عنھم اذیّۃ المکروہ حیث ما کانوا وحیث ما حلوا و ان صارت النّصرانیّۃ عند المسلمین فعلیہ برضاھا ویمکنہا من الصّلٰوۃ فی بیعہا ولا یحال بینھا وبین ھوی دینھا ومن خان عہد اللہ واعتمد بالضّدّ من ذالک فقد عصی میثاقہ ورسولہ ویعا ونوا علٰی مرمّۃ بیعھم ومواضعہم وتکون تلک مقبولۃ لھم علٰی دینھم وفعالھم بالعھد ولا یلزم احد منھم بنقل سلاح بل المسلمون یذبون عنھم ولا یخالف ھٰذا العہد ابدًا الٰی حین تقوم السّاعۃ وتنقضی الدّنیا۔ انتھٰے۔ یعنی یہ وہ عہد نامہ ہے جس کو حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول مبشر و نذیر اور اس کے امین نے تمام لوگوں کےلیے لکھا ہے تاکہ اس کے بعد لوگوں کا کوئی عذر بہانہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے، اِس عہد نامہ کو میں نے مشرق و مغرب، نزدیک و دور، عرب اور  غیر عرب، اور معروف و غیر معروف نصارٰے کے واسطے لکھا ہے، مسلمانوں سے جس نے اِس عہد کو توڑا، او اس سے تجاوز کیا، وہ خدا کا وعدہ شکن ٹھیرے گا، اور اس کے میثاق کا ناقضِ ہوگا، اور اس  کے دین کے ساتھ ہنسی کرنے والا ہوگا، اور خدا کی لعنت کا سزاوار ہوگا، خواہ بادشاہ ہو یا رعیّت،  میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی راہب یا سیّاح پہاڑ یا جنگل یا صحرا یا آبادی یا ریگستان یا عبادت گاہ میں جمایت کا خواستگار ہوگا تو میں اپنی جان، اپنے اعوان و اہل بیت و امت و تابعداروں سے ان کی حمایت کے لیے ان کے دشمنوں کو ہٹاؤں گا، اور مدافعت کروں گا، کیونکہ وہ میری رعیّت اور اہل ذمّہ ہیں، یعنی میرے وعدہ پر ہیں، اور میں دشمنوں کی ایذا اور حذر اور تکلیف معاہدہ والوں سے اس  مالیّت کے بدلے رفع کروں گا، جس کی ادائیگی کا انہوں نے وعدہ کیا ہے، اگر ان کی مرضی ہو کہ وہ اپنے وجود و اموال کی خود حفاظت و نگہبانی کریں تو ان پر اس امر میں کوئی جبر و اکراہ نہ کیا جاوے کسی بشپ کو اس کے عہدہ سے، اور کسی راہب کو رہبانیّت سے، اور کسی عابد کو اس کی عبادت گاہ سے، اور کسی سیّاح کو اس کی سیاحت سے روکا نہ جائے، ان کا کوئی گِرجا و عبادت گاہ ویران و منہدم نہ کیا جائے، اور ان کے گرجوں کے بال میں سے کوئی چیز مسلمانوں کی مسجدوں اور گھروں کے بنانے میں خرچ نہ کی جائے، جس نے ایسا کام کیا، اس نے خدا و رسول کی وعدہ شکنی کی، اور  راہبوں و بشپوں و عابدوں پر کوئی جزیہ اور تاوان نہ رکھا جائے، اور وہ جنگل میں ہوں یا دریا میں، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، جنوب میں ہوں یا شمال میں، میں ان کے لیے اس عہد کا ذمہ دار ہوں، اور وہ میرے ذمّہ و عہد پر ہیں، اور سارے مکروہات سے میری امان میں ہیں، اور جو انسان پہاڑوں اور امکنہ متبرکہ میں عبادت کے لیے گوشہ گزین ہوں جو کچھ بوتے ہیں اس کان سے خراج اور عُشر نہ لیا جائے اور غلہ کی کمی پر ان کی اعانت کا ذمّہ نہیں ہے، جنگ میں نکلنے کی تکلیف ان پر لازم نہ کی جائے، اور نہ ان سے جزیہ لیا جائے، خراجی اور دولت مند صاحب اموال اور زمیندار اور سودا گر سے بارہ (۱۲) درہم سالانہ سے زائد نہ لیا جائے، اور کسی کو جور و ستم سے حصولِ مال گذاری پر متکلّف نہ کیا جائے، کوئی مذہبی مباحثہ و مجادلہ پیش آئے تو اسے بحسن اخلاق و تہذیب کلام پیش آنا چاہیے، اور وہ جہاں ہوں ان پر رحمت کا بازو مبسوط رہے اور وہ جس جگہ ہوں تکالیف ان سے دور کی جائیں، اور ان کو عبادت خانوں میں نماز پڑھنے سے نہ منع کیا جائے اور ان کے دین میں کوئی دخل نہ دیا جائے، اور جس نے خدا کے وعدہ میں خیانت کی، اور اس کی ضدّ پر کھڑا ہوا، اس نے خدا اور رسول کی وعدہ شکنی کی، ان کے عبادت خانے اور مکانات کی مرمّت کرنے میں ان کی امداد کی جائے، اور یہ بات (یعنی مدد لینا دینا) ان کے دین میں جائز ہے، اور ان میں سے کسی پر آلاتِ حرب کا رکھنا لازمی نہوگا، بلکہ مسلمان ان کی حفاظت کریں گے اور اس عہد نامہ کے قیامت تک خلاف عملدر آمد نہ کیا جائے (مکتوبات نبوی)

نقشِ نگین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاندی کی انگشتری نبوائی ہوئی تھی جس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا، جب کوئی تحریر کرواتے تو اُس پر مُہر لگاتے۔

 

خطبات

آپ کی تقریر نہایت درجہ کی فصیح و بلیغ ہوتی تھی، آپ نے فرمایا ہے انا افصح العرب بعثت بجوامع الکلم یعنی میں فصیح ترین عرب ہوں، میں کلماتِ جامعہ لے کر مبعوث ہوا ہوں۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)

طرز بیان

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت سادہ طریقہ پر خطبہ دیتے تھے ہاتھ میں صرف ایک عصا یا کمان ہوتی جس پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے، [۱] [۱۔ سنن ابی داؤد جلد اوّل کتاب الصّلوٰۃ ابواب الجمعہ والخطبہ علی القَوس ۱۲ شرافت] اگرچہ ضرورت کے وقت کبھی کبھی آپ نے طویل خطبے بھی دیے ہیں، لیکن عموماً آپ کے خطبے مختصر ہوتے تھے۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)

احادیث کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبات اور ان کے جستہ جستہ فقرے بغیر کسی خاص ترتیب کے جمع کر دئیے گئے ہیں، لیکن حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی مختلف حیثیتیں تھیں، اور ان کا اثر آپ کے طرز بیان  پر پڑتا تھا، آپ داعی مذہب تھے، فاتح تھے، واعظ تھے، امیر ابحیش تھے، قاضی تھے،  پیغمبر تھے، اِس اختلافِ حیثیت نے آپ کے خطابت اور زورِ بیان میں نہایت اختلاف پیدا کر دیا ہے، اور بلاغت کا اقتضا بھی یہی ہے۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریر تاثیر اور رقّت انگیزی میں معجزہ الٰہی تھی، پتھر سے پتھر دل بھی سُن کر موم ہوجاتے تھے۔

خطبہ

ایک بار  مدینہ طیّبہ میں حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے یہ خطبہ دیا۔

الحمد للہ احمدہٗ واستعینہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیّئات اعمالنا من یھد اللہ فلا مضلّ لہٗ ومن یّضلل فلا ھادی لہٗ واشھد ان لّا الٰہ الّا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ انّ احسن الحدیث کتاب اللہ قد افلح من زیّنہ اللہ فی قلبہٖ وادخلہ فی الاسلام بعد الکفر فاختارہ علٰی ما سواہ من احادیث الناس انّہ احسن الحدیث وابلغہ احبّوا ما احبّ اللہ احبّو اللہ من کُلّ قلوبکم ولا تملّوا کلام اللہ وذکرہ ولا تقس عنہ قلوبکم فاعبدو اللہ ولا تشرکوا بہٖ شیئًا واتّقوہ حقّ تقاتہٖ وصدقوا اللہ صالح ما تقولون بافواھکم وتحابّوا بزوح اللہ بینکم انّ اللہ یغضب ان ینکث عہدہٗ والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ

یعنی خدا کی حمد ہو، میں اس کی حمد کرتا ہوں، اور اس سے مدد مانگتا ہوں، اور اس کے دامن میں اپنے نفس کی برایوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ چاہتے ہیں، جس کو خدا ہدایت دے اُس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جس کو وہ ہدایت نہ کرے، اُس کی کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا اور  کوئی معبود نہیں، وہی تنہا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، بہترین کلام خدا کی کتاب ہے، کامیاب ہَوا وہ جس کے دل کو خدا نے اس سے آراستہ کیا اور اس کو کفر کے بعد اسلام میں داخل کیا، انسانوں کی باتوں کو چھوڑ کر خدا کے کلام کو پسند کیا، کیونکہ خدا کا کلام سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ پُر اثر ہے جس کو خدا دوست رکھتا ہے تم بھی دوست رکھو، اور خدا کو دل سے پیار کرو، اور اس کے کلام اور ذکر سے کبھی نہ تھکو، اور تمہارے دل اس کی طرف سے سخت نہوں، پس خدا ہی کو پوجو، اور کسی کو اس کا ساجھی نہ بناؤ، اور اس سے ڈرؤ جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے، اور خدا سے سچی بات کہو، اور آپس میں ایک دوسرے کو ذاتِ الٰہی کے واسطے سے پیار کرو، خدا اس سے ناراض ہوتا ہے کہ کوئی اپنے عہد کو پورا نہ کرے، تم پر خدا کی سلامتی اور  رحمت اور برکتیں نازل  ہوں۔ (سیرۃ النبی جلد دوم)

 

کلماتِ طیّبات

آپ کے ارشادات و نصالح سے حدیث کے دفتر بھرے پڑے ہیں، یہاں تبرگًا چہل (۴۰) حدیث مرویہ عمدۃ المحدثین حکیم الامۃ حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی قدس سرہٗ نقل کی جاتی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے من حفظ علٰی امّتی اربعین حدیثا فی امر  دینھا بعثہ اللہ تعالٰی فقیھًا وکنتٰ لہٗ یوم القیامۃ شافعًا وشھیدًا۔

سند شریف

قال الشاہ ولی اللہ الدّھلویّ شافھنی ابو الطّاھر المدنیّ عزابیہ الشیخ ابراھیم الکُردی عن زین العابدین عن ابیہ عبد القادر عن جدّہٖ یحییٰ عن جدّہ المحبّ ع عمّ ابیہ ابی الیمن عن ابیہ شہاب احمد عن ابیہ رضی الدّین عن ابی القاسم عن السّیّد ابی محمّد عن والدہٖ ابی الحسن عن والدہٖ ابیطالب عن ابی علی عن والدہٖ محمد زاھد عن والدہٖ ابی علی عن ابی القاسم عن والدہٖ ابی محمّد عن والدہ الحسین عن والدہٖ جعفر عن ابیہ عبد اللہ عن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الامام الحسین عن ابیہ علی ابن ابیطالب رضی اللہ عنہم قال قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم

چہل احادیث

۱۔      لیس الخبر کالمعاینۃ۔

ترجمہ:  خبر دیکھنے کے برابر نہیں۔

۲۔     الحرب خُدعۃ۔

ترجمہ:  لڑائی دھوکے کا نام ہے۔

۳۔     المسلم مرأۃ المسلم۔

ترجمہ:  ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے۔

۴۔     المستشار مؤتمن۔

ترجمہ:  جس سے مشورہ لیا جائے اُسے امانتداری لازم ہے۔

۵۔     الدّال علی الخیر کفاعلہٖ۔

ترجمہ:  نیک کام بتانے والا کرنے والے کے برابر ہے۔

۶۔     استعینوا علٰی الحوائج بالکتمان۔

ترجمہ:  مدد چاہو کاموں میں چھپا کر۔

۷۔     اتّقوا النٓار ولو بشق تمرۃٍ۔

ترجمہ:  دوزخ سے بچو خواہ آدھا چھوہارا دے کر۔

۸۔     الدّنیا سجن لّلمؤمن وجنّۃ لّکافر۔

ترجمہ:  دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور  کافر کے لیے بہشت ہے۔

۹۔     الحیاء خیر کلہٗ۔

ترجمہ:  حیا سرا سر بہتر ہے۔

۱۰۔    عدّۃ المؤمن کاخذ الکفّ۔

ترجمہ:  ایماندار کا وعدہ کرنا ہاتھ پکڑنے کی طرح ہے۔

۱۱۔     لا یحل لمؤمن ان یھجر اخاہ فوق ثلٰثۃ ایٓامٍ۔

ترجمہ:  مومن کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین روز سے اوپر چھوڑے ۔

۱۲۔    لیس منّا مَن غشّنا۔

ترجمہ:  جو خیانت کرے وہ ہم سے نہیں۔

۱۳۔    مافلّ وکفٰی خیر ممّا کثر واَلْھٰی۔

ترجمہ:  جو تھوڑی چیز کفایت کرے وہ بہتر ہےاُس سے جو بہت ہو، اور غافل کرّے۔

۱۴۔    الرّاجع فی ھِبَتہٖ کالرّاجع فی قَیثہٖ۔

ترجمہ:  ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہے جیسا قَے کھانے والا۔

۱۵۔    البلاء مؤکل بالمنطق۔

ترجمہ:  بلا بولنے پر مقررّ ہے۔

۱۶۔    النّاس کاسنان المشط۔

ترجمہ:  آدمی ایسے ہیں جیسے کنگھی کے داندنے۔

۱۷۔    الغنٰی غنی النّفس۔

ترجمہ:  دولت مندی وہ ہے جو دل کی ہو۔

۱۸۔    السّعید من وعِظ بغیرہٖ۔

ترجمہ:  نیک بخت وہ ہے جو دوسرے کا حال دیکھ کر نصیحت پکڑے۔

۱۹۔    انّ من الشعّر لحکمۃ وانّ من البیان لسحرًا۔

ترجمہ:  البتہ بعضے شعر حکمت اور بعضی تقریر جادو ہوتی ہے۔

۲۰۔    عفو الملوک ابقاء للملک۔

ترجمہ:  بادشاہوں کا معاف کرنا ملک کے باقی رکھنے کا سبب ہے۔

۲۱۔    المرء مع من احبّ۔

ترجمہ:  آدمی اُس کے ساتھ ہوگا جس سے محبّت رکھتا ہے۔

۲۲۔    ماھلک امرء عرف قدرہٗ۔

ترجمہ:  وہ آدمی نہ برباد ہَوا جس نے اپنی حقیقت پہچانی۔

۲۳۔    الولد للفراش واللعاھر الحجر۔

ترجمہ:  لڑکا عورت کا ہے اور مرد حرامکار کو پتھر۔

۲۴۔    الیدا لعلیا خیر من الیدا لسّفلٰے۔

ترجمہ:  اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔

۲۵۔    لا یشکر اللہ من لّا یشکر النّاس۔

ترجمہ:  جو بندے کا مشکور نہو وہ خدا کا مشکور نہ ہوگا۔

۲۶۔    حبّک الشّیٔی یعمی ویصمّ۔

ترجمہ:  محبت کسی چیز کی  تجھ کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔

۲۷۔    جبلت القلوب علٰی حبّ من احسن الیھا وبغض من اساء الیھا۔

ترجمہ:  احسان کرنے والے کی محبّت پر دل مجبور ہیں اور برائی کرنے والے کی عداوت پر۔

۲۸۔    مالتّائب من الذّنب کمن لّا ذنب لہٗ۔

ترجمہ:  گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے برابر ہے۔

۲۹۔    الشّاھد یرٰی مالا یراہ الغائب۔

ترجمہ:  حاضر اس چیز کو دیکھتا ہے جس کو غائب نہیں دیکھتا۔

۳۰۔    اذا جاءکم کریم قوم فاکرموہ۔

ترجمہ:  جب کسی قوم کا سر دار تمہارے پاس آوے تو اس کی تعظیم کرو۔

۳۱۔    الیمین الفاجرۃ تدع الدّیا ربلاقّع۔

ترجمہ:  جھوٹھی قسم ملکوں کو اجاڑ دیتی ہے۔

۳۲۔    من قتل دون مالہ فھو شہید۔

ترجمہ:  جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔۔

۳۳۔   الاعمال بالنّیّۃ۔

ترجمہ:  کاموں کا اعتبار نیّت پر ہے۔

۳۴۔   سیّد القوم خادمہم۔

ترجمہ:  قوم کا سردار ان کا خدمت گار ہے۔

۳۵۔    خیر الا مورا وسطہا۔

ترجمہ:  سب کاموں میں میانہ روی بہتر ہے۔

۳۶۔    اللّٰھمّ بارک فی امّتی فی بکورھا یوم الخمیس۔

ترجمہ:  الٰہی برکت دے میری امّت کے اوّل روز کے جانے میں روز پنجشنبہ کے۔

۳۷۔   کاد الفقران یکون کفرًا۔

ترجمہ:  ہوسکتا ہے کہ محتاجی کفر ہوجاوے۔

۳۸۔   السّفر قطعۃ من العذاب۔

ترجمہ:  سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔

۳۹۔    المجالس بالا مانۃ۔

ترجمہ:  مجلسیں امانت کے ساتھ ہوتی ہیں۔

۴۰۔    خیر الزّاد التّقوٰے۔

ترجمہ:  سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے۔

 

ازواجِ مطہرات

آپ کے گیارہ (۱۱) حرمِ محرّم تھے، جن کے حالات کتبِ تاریخ میں اکثر ملتے ہیں۔

۱۔    حضرت خدیجۃ الکبرٰے رضی اللہ عنہا۔

کنیت ان کی اُم ہِند، اور ایّام جاہلیت میں لقب طَاہرہ تھا، والد کا نام خُوَیُلَدْ بن اَسد بن عبد العُزےٰ بن قُصَیّ بن کِلاب تھا، اور والدہ ماجدہ فاطمہ بنت زائدہ قبیلہ بنی عامر لوی سے تھیں، اِن کا پہلا نکاح ابو ہالہ بناش بن زرارہ تمیمی سے ہوا اُس سے دو لڑکے ہِند اور حارِث نام پیدا ہوئے، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد عتیق بن عایذ مخزومی کے نکاح میں آئیں، اُس سے ایک لڑکی ہِند نام پیدا  ہوئی، عتیق کی وفات کے بعد ان کا نکاح بعمر چالیس (۴۰) سال حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا، تمام عورتوں میں سے اوّل اسلام لائیں، سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام اولاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی انہیں کے بطن سے ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے زندہ رہنے تک کسی دوسری عورت سے نکاح نہ کیا، [۱] [۱۔ سیرۃ النبی جلد دوم بحوالہ طبقات ابن سعد  کتاب النساء ذکر خدیجہ ۱۲ شرافت] اِن کی وفات شبِ دہم (۱۰) رمضان ۱۰ نبوی میں بعمر  پینسٹھ (۶۵) برس ہوئی، مکہ معظمہ کے مقبرہ حجون میں دفن ہوئیں۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلدِ اوّل ۱۲]

(شریف التواریخ)

سیّد الانس و الجان

خیال رہے کہ مقصد صرف دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات کو قلمبند کرنا تھا کیونکہ عام طور پر طلبائے کرام اور عوام الناس قصص الانبیاء نامی کتب کا مطالعہ  کرتے ہیں جس میں کئی ضعیف واقعات انبیائے کرام کی طرف منسوب کر دئیے گئے ہیں جو انبیائے کرام کی شان میں باعث تنقیص بھی ہیں  اور ان کے پڑھنے سے ایمان میں تزلزل بھی آتا ہے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مختصر تذکرہ صرف تبرک کے پیش نظر کرنا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے بغیر کتاب کسی طرح بھی مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے واقعات اور آپ کے اوصاف کا علم حاصل کرنے کے لیے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی مدارج النبوۃ کا مطالعہ کیا جائے جو دو ضخیم جلدوں پر  مشتمل ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے بہت سے واقعات کا علم حاصل ہوگا اور سکون قلب ہوگا۔

نیز قرآن، مفکر  اسلام حضرت پیر محمد کرم شاہ بھیروی قدس سرہ کی ’’ضیاء النبی‘‘ کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ طیبہ کی ضیاء سے آپ کے دلوں میں نور معرفت حاصل ہوگا۔ ایمان میں پختگی حاصل ہوگی۔

خیال رہے کہ کچھ لوگوں نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو کم کرنے کی نا پاک جسارت کی ہے ان کی کتابوں کو  پڑھ کر اپنے ایمان کو ضائع نہ کریں۔

’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے لکھی ہوئی کتابوں کو بھی دیکھیں اور ان کے مقابل مدارج النبوۃ اور ’’ضیاء النبی‘‘ کو بھی پڑھیں خود بخود نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کن حضرات نے عشقِ رسول، محبت رسول میں ڈوب کر علم و عرفان کے سمندر سے موتی نکال کر پیش کیے اور کن لوگوں نے زہر پر مٹھائی چڑھا کر لوگوں کے ایمان کو قتل کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔

بات صرف قسمت کی ہے کسی کی قسمتیں رب تعالیٰ نے یہ عظمت عطا فرمائی ہے کہ وہ دن رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کو تلاش کرتا رہتا ہے اسی میں اس کی عمر بیت جاتی ہے۔ اور کچھ کم بختوں کی عمر اس میں گزرجاتی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں۔ فضائل پر مشتمل احادیث اور اقوال علماء و صلحاء ان کی عقلوں میں انہیں ضعیف نظر آتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو عجز و انکساری پر مشتمل ہیں وہ انہیں حقیقت نظر آتے ہیں۔ سیدھے سادے لوگوں کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں کہ:

’’ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ واقعہ درست نہیں‘‘ اس طرح کے گمراہ کن ہتھکنڈے ان کا وطیرہ ہے۔ الا مان والحفیظ

تخلیق اول نورِ محمدی:

’’وروی عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللہ قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذالک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ ولم یکن فی ذالک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا منٰک ولا سماء ولا ارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی ولا انس‘‘ (زرقانی ج ۱ ص ۴۹، الانوار المحمدیۃ ص ۱۳، موھب)

عبد الرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سند سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے یہ خبر دیجیے کہ تمام چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر وہ نور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جہاں بھی اسے منظور تھا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم اور نہ جنت اور نہ دوزخ اور نہ فرشتے اور نہ آسمان اور نہ زمین اور نہ سورج اور نہ چاند اور نہ جن اور نہ انسان تھے۔

خیال رہے کہ یہ حدیث مولوی اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی نے اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں بھی نقل کی ہے۔

’’عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللہ ﷺ انہ قال انی عند اللہ مکتوب خاتم النبین وان آدم لمنجدل فی طینتہ‘‘ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، مواھب مع زرقانی ص ۳۹)

حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی تک اپنے خمیر میں تھے۔

مولوی اشرف تھانوی صاحب دیوبندی اپنی کتاب نشر الطیب میں بیان کرتے ہیں کہ اسے احمد، بیہقی اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور مشکوۃ میں یہ حدیث شرح السنہ سے مذکور ہے۔

اس حدیث پاک کی وضاحت میں استاذ المکّرم حضرت علامہ ابوالحسنات محمد اشرف سیالوی صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں:

’’اس حدیث پاک سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحقیقاً آدم علیہ السلام سے قبل نبی ہونا بھی ثابت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہونا بھی ثابت موجود ہونا بھی ثابت اور آپ کی حقیقت کا نور ہونا بھی ثابت کیونکہ بشروں کا باپ بعد میں پیدا کیا جارہا ہے اور آپ کی حقیقت پہلے ہی موجود متحقق تھی اور ان صفات کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی‘‘۔

اس مقام پر مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کے بیان کردہ نکتہ اور ایک تو ہم کا ازالہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں:

’’اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ شائد مراد یہ ہے کہ میرا خاتم النبیین ہونا مقدر ہوچکا تھا۔ سو اس لیے آپ کے وجود کا تقدم آدم علیہ السلام پر ثابت نہ ہوا۔ جواب یہ ہے اگر یہ مراد ہوتی تو آپ کی کیا تخصیص تقدیر تمام اشیاء مخلوقہ کی ان کے وجود سے مقدم ہے پس یہ تخصیص خود دلیل ہے اس کی کہ مقدر ہونا مراد نہیں بلکہ اس صفت کا ثبوت مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کسی صفت کا ثبوت فرع ہے مثبت لہ کے ثبوت کی پس اس سے آپ کے وجود کا تقدم ثابت ہوگیا اور چونکہ مرتبہ بدن متحقق نہیں ہوتا اس لیے نور اور روح کا مرتبہ متعین ہو گیا‘‘۔

اس سوال و جواب نے واضح کردیا کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت محض علم الٰہی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ خارج اور واقع میں آپ کا نور انور اور روح اقدس اور حقیقت محمدیہ اس کمال کے ساتھ موصوف و متصف تھی اور یہی ہمارا نظریہ و عقیدہ ہے کہ بشریت کے لحاظ سے اولاد آدم بھی ہیں مگر حقیقت کے لحاظ سے اصل موجودات ہیں اور آدم علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اس لحاظ سے آپ بنیاد ہیں۔

یہی تھانوی صاحب ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں سوال یہ ہے جب انبیاء موجود ہوتے تو ان کے خاتم کا موجود ہونا بھی متصور ہوسکتا تھا جب ان کا بلکہ ان کے والد اور معدن واصل کا وجود نہیں تھا تو آپ خاتم النبیین کس طرح ہوگئے تھانوی صاحب کی زبانی سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں۔

’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس برس کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب نبیوں کے بعد مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا یہ وصف تو خود تاخیر کو مقتضی ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ تاخیر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ نبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے تو تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھی بھیجے کے بعد‘‘۔

یعنی جس طرح اس تحصیلدار کے منصب کا لوگوں کو  علم اس وقت ہوگا جب وہ تحصیل میں جاکر چارج سنبھالے گا اس وقت معلوم کریں گے کہ یہ ہمارے تحصیلدار صاحب ہیں حالانکہ سرکار کے نزدیک وہ اس وقت سے تحصیلدار ہے جب سے اسے نامزد کیا گیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین کے مرتبہ پر اس وقت فائز ہوچکے تھے جب آدم علیہ السلام ہنوز عالم آب وگل میں تھے اگرچہ لوگوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپ کا ظہور ہوا، الغرض ظہور اگرچہ بعد میں ہوا لیکن وجود پہلے تھا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ حقیقت نوریہ کے لحاظ سے آپ اصل موجودات اور بنیاد آدم علیہ السلام ہیں اگرچہ ظہور اور نشاۃ دینویہ کے لحاظ سے اولاد آدم ہیں۔ (تنویر الابصارص ۱۹)

عن ابی ھریرہ قال قالوا یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال و آدم بین الروح والجسد (ترمذی، مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳، زرقانی ج ۱ ص ۳۴)

فضائل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہوچکی تھی آپ نے فرمایا جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی ان کے جسم میں جب جان بھی نہیں آئی تھی میں اس وقت سے نبی ہوں۔

اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ایسے ہی الفاظ سے میسرہ ضبی کی روایت ہے امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تاریخ اور ابو نعیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حلیہ میں اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو تصریح کی ہے۔

صحابہ کرام کے پوچھنے اور سوال کرنے سے کہ آپ کب سے نبی بنے ہیں۔ پتہ چل گیا کہ جن کے گھر آپ پیدا ہوئے اور عمر شریف کے چالیس سال گزارے تھے اور اس قدر طویل عرصہ گزار نے کے بعد نبوت کا اعلان فرمایا جب وہ اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کب سے نبی ہیں؟ معلوم ہوا ان کے ایمان نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ نبوت کا اعلان اور اظہار چالیس سال کے بعد کیا لیکن آپ نبی بنے ہوئے پہلے کے تھے انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اعلان نبوت و رسالت کب فرمایا؟ بلکہ پوچھا ہے .....

’’متی وجبت لک النبوۃ یا رسول اللہ‘‘

آپ کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کس وقت سے ثابت ہے؟

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب کہ میں اس وقت سے نبی ہوں جب تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی روح ابھی ان کے جسم میں پھونکی نہیں گئی تھی صحابہ کرام کے اس نظریہ و عقیدہ پر مہر تصدیق ہے کہ تم نے درست سمجھا واقعی میں عمر شریف کے چالیس سال گزار کر نبی نہیں بنا بلکہ اس وقت سے یہ منصب اور اعزاز مجھے حاصل ہے جب کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے تن بدن میں جان نہیں آئی تھی۔

اس روایت کو ترمذی شریف میں نقل کیا گیا ہے اور ترمذی شریف حدیث کی وہ کتاب ہے کہ جس کے متعلق محدثین نے فرمایا جس کے گھر میں یہ کتاب موجود ہو وہ یوں سمجھے کہ رب تعالیٰ کا رسول میرے گھر میں موجود اور تشریف فرما ہے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت بھی نہیں کہا اور ضعیف بھی نہیں کہا بلکہ انہوں نے اس کو حسن کہا ہے اصول حدیث میں یہ واضح ہے کہ حسن حدیث حجت و دلیل اور سند ہوسکتی ہے۔

اور پھر اشرف علی تھانوی صاحب نے تصریح کردی ہے کہ میسرہ ضبی کی روایت میں بھی اسی طرح کے الفاظ آتے ہیں گویا یہ روایت دو صحابیوں سے مروی ہوئی اس طرح کل چار صحابیوں (حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری، حضرت عرباض بن ساریہ، حضرت ابوھریرہ اور حضرت میسرہ ضبی رضی اللہ عنہم) کی شہادت اور گواہی اب تک آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق و ایجاد سے پہلے نبوت و رسالت اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہوچکے تھے۔

علاوہ ازیں اس کو امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے جو اہل سنت کے چوتھے امام ہیں اور امام ابو حنیفہ، امام ابو مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا درجہ ہے۔

پھر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی تاریخ میں اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے استاد ابو نعیم نے اس کو حلیہ میں نقل کیا ہے اور حاکم جیسے محدث نے اس کی تصحیح کی ہے۔ حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ وہ محدث ہیں جس نے بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ و مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ سے رہ جانے والی صحیح احادیث کو جمع کیا ہے اور اس کتاب کا نام مستدرک رکھا ہے۔ (تنویر الابصار ص ۲۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور و بشر ہونا:

قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالیٰ اسی مسئلہ پر دلیل قائم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر بشری ہے اور باطن نوری ہے۔

’’کما قال ﷺ تنام عینی ولا ینام قلبی یعنی فیما یدل علی ان باطنہ ملکی وظاھرہ بشری‘‘

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔

آپ کا ارشاد گرامی اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آپ کا باطن ملکی (فرشتوں کی طرح نورانی) ہے اور آپ کا ظاہر بشری ہے قاضی شہاب خفاجی فرماتے ہیں:

’’وکذالک سائر الانبیاء تنام اعینھم دون قلوبھم کما ورد مصر حابہ فی حدیث البخاری‘‘

اسی طرح دوسرے تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتے ہیں۔ جس طرح بخاری کی حدیث میں صراحتاً ذکر ہے۔

یعنی تمام انبیائے کرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا ظاہر بشر اور باطن نور ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نور من نور اللہ ہے اور تمام کائنات کے لیے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے یعنی آپ کا نور تمام انبیائے کرام کی نورانیت کا بھی اصل ہے۔

’’وھذا دلیل علی ان ظاھرہ ﷺ بشری وباطنہ ملکی ولذا قالوا ان نومہ لا ینقض الوضوء کما صرحوا بہ ولا یقاس علیہ غیرہ من الامۃ کما توھم ونوضأ بعد نومہ استحبابا او تعلیما لغیرہ اولعروض ما یقتضیہ‘‘ (نسیم الریاض ج ۳ ص ۵۴۵)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی: کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل بیدار ہوتا ہے یہ دلیل ہے اس پر کہ آپ کا ظاہر بشری ہے اور باطن ملکی نورانی ہے اسی وجہ سے محدثین کرام فقہاء عظام نے اتفاقی طور پر ارشاد فرمایا کہ بے شک آپ کی نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند پر آپ کے کسی امتی کی نیند کو قیاس نہیں کیا جاسکتا یعنی صحابہ کرام اولیائے کرام اور امت کے کسی فرد کو بھی یہ مقام حاصل نہیں اگر کسی صحابی یا ولی کے متعلق کوئی یہ کہے کہ اس کی نیند سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا یہ اس کا وہم ہوگا غلط سوچ ہو گی اس شخص کی بات کو تسلیم نہ کیا جائے۔

خیال رہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی نیند سے ان کے وضو نہیں ٹوٹتے تھے میں نور الایضاح کے عربی حاشیہ ذیعۃ النجاح میں بفضلہٖ تعالیٰ اسے ذکر کیا ہے جبکہ ہدایہ تک تمام فقہی کتب کے محشی حضرات اسے ذکر نہ کرسکے یا دیدہ دانستہ ذکر نہیں کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگنے کے بعد وضو کرتے تھے آپ کا یہ وضو کرنا وجوبی طور پر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ مستحب سمجھ کر آپ وضو کرتے یا تعلیم امت کے لیے یا آپ کو چونکہ معلوم ہوتا تھا کہ سوتے ہوئے کوئی چیز وضو کے خلاف سرزد ہوئی ہے اس لیے آپ کبھی کبھی اپنے علم کے مطابق وضو ٹوٹنے کی وجہ سے وضو کرتے ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت کا ثبوت قرآن پاک سے:

قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌo (پ ۶ سورۃ المائدۃ آیت ۱۵)

بے شک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تین قول ملتے ہیں ایک عام مفسرین کا جنہوں نے نور سے مراد نبی کریم اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا ہے دوسرا قول معتزلہ کا ہے جنہوں نے نور اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک لیا تیسرا قول محققین کا ہے جیسے علامہ آلوسی اورملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ انہوں نے نور اور کتاب مبین دونوں سے ہی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں۔

علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’قد جاء کم من اللہ نور عظیم وھو نور الانوار والنبی المختارﷺ‘‘

نور سے مراد نور عظیم ہے جو سب نوروں کا نور ہے۔ یعنی تمام نوروں کا اصل ہے اور وہ نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

’’والی ھذا ذھب قتادہ و اختارہ الزجاج‘‘

یہی قول قتادہ کا ہے اور ز جاج نے بھی اسی قول کو مختار قرار دیا ہے۔

’’وقال ابو علی الجبائی عنی بالنور القرآن لکشفہ واظھارہ طرق الھدی والیقین واقتصر علی ذالک زمحشری وعلیہ فالعطف فی قولہ تعالیٰ وکتاب مبین لتنزیل المغایرۃ بالعنوان منزلۃ المغایرۃ بالذات‘‘

ابو علی جبائی نے کہا ہے نور سے مراد بھی قرآن ہے کیونکہ قرآن ہدایت و یقین کے راستوں کو ظاہر کرنے والا ہے اور منکشف کرنے والا ہے اس لیے اسے نور کہا گیا ہے زمحشری نے بھی اسی قول پر اقتصار کیا ہے اس قول پر بظاہر ایک اعتراض تھا کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے جب معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد قرآن پاک ہے لیکن دو نام علیحدہ علیحدہ ذکر کیے گئے ہیں علیحدہ علیحدہ عنوان کی وجہ سے جو مغائرت پائی گئی ہے وہ مغائرت ذاتی کے درجے میں ہے۔

’’واما علی الاول فھو ظاھر‘‘

پہلا قول زیادہ ظاہر ہے جس میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مرد قرآن پاک ہے۔

’’وقال الطیبی انہ اوفق لتکریر قولہ سبحانہ قد جاء کم بغیر عطف فعلق بہ اولا وصف الرسول والثانی وصف الکتاب‘‘

علامہ طیّبی رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ پہلے ’’قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور پھر بغیر حرف عطف کے’’ قَدْ جَاءَ کُمْ مِنَ اللہِ نُوْرٌ‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہے اس لیے حرف عطف ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ مغائرت پر دلالت کرتا ہے۔

علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ولا یبعد عندی ان یراد بالنور والکتاب المبین النبی ﷺ والعطف علیہ کالعطف علی ماقالہ الجبائی ولا شک فی صحۃ اطلاق کل علیہ علیہ الصلوۃ والسلام‘‘

میرے نزدیک یہ کوئی بعید بات نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عطف مغائرت کے لیے آتا ہے معطوف اور معطوف علیہ دونوں سے مراد ایک ذات کیسے؟ تو اس کا ہم بھی وہی جواب دیں گے جو جبائی نے دیا ہے کہ عنوان کی مغائرت کو مغائرت کے درجے میں رکھ کر عطف کو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نور اور کتاب مبین دونوں کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔(از روح المعانی پ ۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دونوں کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟ اس کا جواب ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے آپ فرماتے ہیں:

’’ای مانع من ان یجعل النعتان للرسول ﷺ فانہ نور عظیم لکمال ظھورہ بین الانوار وکتاب مبین حیث انہ جامع لجمیع الاسرار ومظھر للاحکام والا حوال والا خبار‘‘ (شرح شفا ج ۱ ص ۴۲)

نور اور کتاب مبین دونوں صفتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنانے میں کون سا مانع موجود ہے؟ یعنی کوئی مانع نہیں؛ کیونکہ آپ نور عظیم ہیں اس لیے کہ سب نوروں سے آپ کا نور زیادہ ظاہر ہے۔ اور آپ کتاب مبین (روشن کتاب) ہیں کیونکہ آپ تمام اسرار کے جامع ہونے کی وجہ سے کتاب ہیں اور تمام احکام احوال اور اخبار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے ’’مبین‘‘ ہیں۔

تنبیہ:

مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ آیت کریمہ میں نور سے مراد قرآن پاک جبائی اور زمحشری نے لیا ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں کہ یہ معتزلہ کے رئیس ہیں عام اہل علم کا قول یہ ہے کہ نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن پاک اور محققین حضرات نے دونوں سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیا ہے۔

اعتراض:

سب سے پہلے تخلیق قلم کی ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی کیونکہ قلم کے اول المخلوقات ہونے والی حدیث صحیح ہے۔

’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق سب سے پہلے ہونے کی روایت ضعیف ہے صحیح کے مقابل ضعیف کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟

جواب:        سب سے پہلے تو ہم یہ ضابطہ ہی تسلیم نہیں کرتے کہ ضعیف کو مطلقاً چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ قانون یہ ہے کہ دلیل قطعی اور ظنی کا جب تعارض آجائے تو ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی جائے اگر ان میں تطبیق ثابت ہوجائے تو بہتر ورنہ ظنی کو چھوڑ دیا جائے قرآن پاک میں:

فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُo (پ ۲۹ سورۃ المزمل آیت ۲۰)

قرآن پاک جہاں سے بھی آسان ہو پڑھو۔

اس آیت سے نماز میں قرآن پاک کا مطلقاً (کسی سورت سے بھی ہو جہاں سے بھی انسان پڑھنا چاہے پڑھ لے) پڑھنا فرض ثابت ہو رہا ہے لیکن حدیث پاک میں ہے:

’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘

جس کا ظاہری معنی ہے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔

قرآن پاک کی آیت قطعی الدلالۃ ہے اور حدیث پاک جو خبر واحد ہے ظنی الدلالۃ ہے لیکن حدیث پاک کو مطلقاً چھوڑ دینے کا قول باطل ہوگا بلکہ اہل علم نے ان میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ قرآن پاک کی آیت کریمہ سے نماز میں قرات کی فرضیت ثابت ہو رہی ہے اور حدیث پاک سے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ثابت ہو رہا ہے اب حدیث پاک ’’لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ کا صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز کامل نہیں نفی کمال کی ہوگی مطلقاً وجود کی نہیں جیسے ’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘ کا ترجمہ بھی یہی ہوگا کہ جو شخص امانت کا پاس نہیں کرتا اس کا ایمان کامل نہیں۔

اس تمہید کے بعد جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قلم کی تخلیق کی اولیت اضافی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی تخلیق میں اولیت حقیقی ہے۔

یہی قول اہل علم، محققین، متقین اور کامل ایمان والوں کا ہے ہاں البتہ جن کا ایمان ضعیف ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر دلالت کرنے والی احادیث کو ضعیف کر کے رد کرتے ہی رہتے ہیں۔

مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗo (پ ۹ سورۃ الاعراف آیت ۱۸۶)

جن کے دلوں پر مہر لگا کر گمراہی کا طوق ان کے گلے میں رب تعالیٰ ڈال دے پھر انہیں ہدایت دینے کی کسے مجال ہوسکتی ہے آئیے اہل علم کے ارشادات دیکھیے۔

’’قال رسول اللہ ﷺ کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم، مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر)

سر ور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی مقادیر لکھوادی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔

اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ عرش پہلے موجود تھا علاوہ ازیں قلم کو پیدا کر کے یہ حکم دیا گیا تھا ’’اکتب‘‘ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اکتب القدر‘‘ تقدیر خدا وندی کو لکھ۔

’’فکتب ماکان وماھو کالن الی الابد‘‘

تو اس نے جو کچھ ہوچکا تھا وہ بھی لکھ دیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، وہ بھی لکھ دیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ قلم سے پہلے مخلوقات تھی، جس کو ماکان سے تعبیر کیا گیا، جب یہاں اولیت ہی اضافی ہے تو اس حدیث کی آڑ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اقدس کی اوَلیت سے انکار کرنے کا کیا معنی؟

علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول ص ۱۶۶ پر فرماتے ہیں:

’’فی الازھار اول ما خلق اللہ القلم یعنی بعد العرش والماء والماء والریح لقولہ علیہ السلام کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارضین بخمسین الف سنۃ وکان عرشہ علی الماء‘‘ (رواہ مسلم)

’’وعن ابن عباس رضی اللہ عنھما عن قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء علی ای شیء کان الماء قال علی متن الریح‘‘ (رواہ البیہقی و ذکرہ الابھری)

از ہار میں ہے کہ قلم کے اول المخلوقات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش پانی اور ہوا کے بعد یہ پہلی مخلوق ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مقادیر خلائق کو لکھوادیا تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔

اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے دریافت کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا عرش پانی پر تھا تو یہ فرمائیے کہ پانی کس پر تھا؟ انہوں نے فرمایا ہوا کی پشت پر۔

’’فالا ولیۃ اضافیۃ‘‘ اس سے واضح ہوا کہ ’’اول ما خلق اللہ القلم‘‘ میں اولیت حقیقی نہیں بلکہ اضافہ ہے تو اس صورت میں حدیث نور میں اولیت حقیقی ہونے سے یہ حدیث کیونکر مانع ہوسکتی ہے اور یہی تحقیق علماء اعلام اور مقتدایان نے ذکر کی ہے۔

علامہ علی قاری نے فرمایا:

’’فالاولیۃ اضافیۃ والاول الحقیقی فھو النور المحمدی علی ما بینتہ فی المورد للمولد‘‘

نور محمدی اول تخلیق حقیقی ہے جس طرح کہ میں نے رسالہ المورد للمولد میں اس کی تحقیق بیان کی ہے اور قلم میں اولیت اضافی ہے۔

نیز علامہ علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ مرقاۃ میں علامہ ابن حجر ھیتمی مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’قال ابن حجر اختلفت الروایات فی اول المخلوقات وحاصلھا کما بینتھا فی شرح شمائل الترمذی ان اول النور الذی خلق منہ علیہ الصلوۃ والسلام ثم الماء ثم العرش اول المخلوقات‘‘ (مرقاۃ جلد اول ص ۱۴۶)

ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اول المخلوقات کون سی شے ہے؟ اس میں روایات مختلف ہیں مگر ان میں تطبیق کی صورت وہ ہے جو میں نے شمائل ترمذی میں ذکر کی ہے کہ سب سے اول نور وہ ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا اس کے بعد پانی اور اس کے بعد عرش۔

علامہ قسطلانی نے اس مسئلہ یعنی قلم کے اول مخلوق ہونے کی بحث کرتے ہوئے فرمایا:

’’اولیۃ القلم بالنسبۃ الی ماعدا النور المحمدی والماء والعرش وقیل الاولیۃ فی کل بالاضافۃ الی جنسہ ای اول ما خلق اللہ من الانوار نوری وکذا فی باقیھا‘‘ (مواھب لدنیہ مع زرقانی ج ۱ ص ۴۷ ۔ ۴۸)

اولیت کے بیان میں روایات مختلف ہیں ان تمام میں تطبیق اور موافقت اس طرح ہے کہ قلم کا اول الخلق ہونا نور محمدی پانی اور عرش کے ماسوا کے اعتبار سے ہے اور یہ توجیہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہر شے کی اولیت اپنی اپنی جنس کے لحاظ سے ہے یعنی انوار میں سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا گیا اور اقلام میں سے اس قلم کو جس نے تقدیریں لکھیں اور جن اشیاء پر عرش کا لفظ بولا جاتا ہے ان میں سے عرش اعظم کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔

تنبیہ:

نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت کے بیان والی حدیث کو صرف ضعیف ایمان والوں نے ضعیف کھا ہے ورنہ امام قسطلانی علامہ ابن حجر ہیتمی ملا علی قاری، علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا۔ (ماخوذ از تنویر الابصار ص ۹۸)

عوام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بشر نہ کہیں:

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری طور پر بشر ہیں اور باطنی طور پر نور ہیں لیکن عوام جو بشر کے معنی کمال سے بے خبر ہیں وہ لفظ بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ملائیں جو تعظیم پر دلالت کریں اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اس میں شک نہیں کہ اہل ایمان کے لیے ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطریق تکریم و تعظیم واجب اور ضروری ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ لفظ بشر کے معنی میں بحسب لغت عربیہ عظمت و کمال پایا جاتا ہے یا حقارت میری ناقص رائے میں لفظ بشر مفہوماً و مصداقاً متضمن بہ کمال ہے مگر چونکہ اس کمال تک ہر کس و ناکس سوائے اہل تحقیق و عرفان کے رسائی نہیں رکھتا لہذا اطلاق لفظ بشر میں خواص بلکہ اخص الخواص کا حکم عوام سے علیحدہ ہے، خواص کے لیے جائز اور عوام کے لیے بغیر زیادت لفظ دال بر تعظیم نا جائز‘‘۔

توضیح:

آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو بشر کس واسطے کہا گیا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو شرف مباشرت بالیدین عطا فرمایا گیا ہے۔

مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّo (پ ۲۳ سورۃ ص آیت ۷۵)

کس چیز نے تجھے اس (آدم) کو سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

چونکہ ملائکہ کمال آدم علیہ السلام سے بے خبر تھے ایسا ہی ابلیس ’’فقالوا ما قالوا‘‘ (انہوں نے وہ کہا جو کہا) فرق اتنا ہے کہ ملائکہ جتلانے کے بعد سمجھ گئے اور معترفِ بالتصور ہوئے۔

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاo (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۳۲)

فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے عطا کیا ہے۔

اور ابلیس کو علاوہ قصور جہل کے غرور بھی تھا لہذا وہ

’’اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ‘‘ شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا ..... کا مصداق بنا۔

بشر ہی کو کمال استجلاء کے لیے مظہر بنایا گیا ہے اور ملائکہ بوجہ نقص مظہریت اس کمال سے محروم ٹھہرے اور مظاہر اور مرایا کمالات استجلائیہ سے از گروہ انبیاء علیہم السلام سیدنا ابو القاسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصالۃ و ازجماعت اولیائے کرام وارث مصرع

’’وانی علی قدم النبی بدر الکمال‘‘ اور میں نبی بدر کمال کے نقش قدم پر ہوں۔ (قصیدہ غوثیہ)

سیدنا عبدالقادر وامثالہ رضی اللہ عنہم وراثتاً مظہر اکمل وا اتم لاسمہ الا عظم ٹھہرے، بشر ہی کے لیے تنزل اخیر ہونے کے باعث اس قدر اہتمام ہوا کہ ہئیت اجتماعیہ و ترکیبات اسمائیہ واتصالات و اوضاع ’’انی خمرت طینۃ آدم‘‘ سے لے کر تا ظہور جسد عنصری صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ من الاکمل کو متوجہ کیا گیا ہے اور خدام بنائے گئے تاکہ:

’’من رأنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدائے تعالیٰ کا دیدار کیا (الحدیث)

کا آئینہ و چہرہ علی وجہ الکمال اور پورا حق نما ہو۔ قصہ مختصر بشر ہی ہے کہ جس کو .....

گر خواھی خدا بینی در چھرہ من بنگر
من آئینہ اویم او نیست جدا از من

(گر تو خدا کو دیکھنا چاہتا ہے تو میرے چہرہ کو دیکھ میں اس کا آئینہ ہوں وہ مجھ سے جدا نہیں ہے۔)

..... ہونے اور کہنے کا استحاق حاصل ہے۔

اس تقریر سے ثابت ہوا کہ عارف کو بشر کہنا از قبیل ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالا سماء المعظمہ ہوا بخلاف غیر عارف کے اس کے لیے بغیر انضمام کلمات تعظیم صرف لفظ بشر ذکر کرنا جائز نہیں چنانچہ آیت کریمہ میں بشر کے بعد

’’یُوْحٰی اِلَّی‘‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔

اور تشہد میں عہدہ کے بعد و رسولہ کا ذکر ہے اور کلام اہل عرفان میں ہے۔

فمبلغ العلم فیہ انہ بشر
وانہ خیر خلق اللہ کلھم

(قصیدہ بردہ)

ہمارا نہایت علم یہ ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ (فتاوٰی مھریہ ص ۴)

خلاصہ کلام:

حضرت کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اہل علم جو بشر کا معنی اور اس میں جو کمالات پائے جاتے ہیں انہیں جانتے ہیں وہ تو بشر کہہ سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کو بشر کے ساتھ اور الفاظ بھی ذکر کرنے چاہئیں تاکہ انہیں بھی آپ کی عظمت کا پتہ ہو مثلا سید الکائنات افضل الانبیاء حبیب خدا وغیرہ الفاظ ساتھ ملائے جائیں۔

حقیقت میں بشر میں وہ کمال ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہوا کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی ذات صفات اور اسماء کا مظہر صرف بشر کو ہی بنایا ہے اس کمال سے فرشتے محروم ہیں پھر یہ وصف کمال تمام انبیائے کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی واسطہ کے عطا ہوا لیکن اولیائے کرام کو آپ کے واسطہ سے یہ کمال عطا کیا گیا پھر اولیائے کرام میں جلیل القدر ہستیوں یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی اور اس قسم کے اولیائے کرام کو بالواسطہ یہ کمال اعلی درجہ کا حاصل ہوا دوسرے حضرات کو کچھ کم انبیائے کرام کو بعض بعض صفات اور بعض بعض اسماء گرامی کا مظہر بنایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ کی آٹھ صفات مختصہ کے بغیر تمام صفات کے مظہر ہیں۔

جب یہ بات کسی کی سمجھ میں آجائے کہ بشر اس شان والے عظیم شخص کو کہا جاتا ہے اور اس کمال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے کہ بشر آپ کا عظیم وصف ہے لیکن عام انسان تو بشر کا معنی یہی سمجھے گا کہ معاذ اللہ آپ بھی ہماری طرح تھے ایسا سمجھنا ہی دین سے دور ہونے کا نام ہے اور ایسے شخص کو صرف لفظ بشر کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

امتناعِ نظیر:

امتناع نظیر کا یہ مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل پیدا کرنا رب تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہے۔ جو چیزیں محال بالذات ممتنع بالذات ہیں وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہوں تو رب تعالیٰ کی شان اور قدرت میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ وہ اشیاء اس قابل نہیں کہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں۔ اس مسئلہ کو سید الاولیاء حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

مقدمات:

۱۔      ممتنعات ذاتیہ کا احاطہ قدرت سبحانہ سے خروج کمال ذاتی باری پر دھبہ نہیں لگاتا بلکہ یہ قصور راجع بجانب قابل ہے کہ ممتنع ذاتی قبولیت کا صالح نہیں۔

۲۔     انقلاب حقائق واقعہ کا خواہ معدودات سے ہوں مثل انسان، فرس، بقر، غنم، کے یا مراتب عددیہ سے ہوں مثل ایک دو تین چار یا مختلط یعنی معدود بحیثیت عروض مرتبہ عددی مثلاً زید جو اول مولود ہے بہ نسبت باقی اولاد عمر و کے ممتنع بالذات ہیں۔

۳۔     کسی چیز کی نظیر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ علاوہ مشارکت نوعی کے اوصاف ممّیزہ کاملہ میں اس چیز کی ہم پلہ ہو۔

۴۔     آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحسب الحقیقۃ الروحانیۃ النوریۃ اول مخلوق ہیں:

’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ اور ’’اول ما خلق اللہ العفل‘‘

تصریحات محققین ازاہل کشف و شمود اس پر شاہد ہیں:

’’کما قال الشیخ الاکبر قدس اللہ سرہ الاطھر قلم یکن اقرب الیہ قبولا فی ذالک الھباء الا حقیقۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم المسماۃ بالعقل فکان مبدأ العالم باسرہ و اول ظاھر فی الوجود فکان وجود ہ من ذالک النور الالھی‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا کیا ہے یا یہ ارشاد کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا ہے ان دونوں کا مطلب ہے شیخ اکبر قدس سرہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ وہی نور جس کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور حقیقت محمدیہ کہلایا اسی کا نام عقل بھی ہے جو تمام عالم کا مبدا ہے تمام جہان سے پہلے اسی نور کا وجود ہے اور وہ نور نور الٰہی سے معروض وجود میں آیا ہے۔

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولیت کی صفت سے متصف ہیں اسی طرح آخریت کی صفت سے بھی متصف ہیں کہ آپ آخر الانبیاء ہیں:

ارشاد خدا وندی: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَo (پ ۲۲ سورۃ الاحزاب آیت ۴۰)

لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔

اہل بصیرت کو ان مقدمات مذکورہ پر گہری نظر ڈالنے سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ممتنع بالذات بایں معنی ہے کہ خالق سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو ایسا بنایا ہے کہ اور ایسے کاملہ ممیّزہ مختصہ صفات کے ساتھ سنوارا ہے کہ جس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ در صورت وجود نظریر انقلاب حقیقت لازم آتا ہے کیونکہ فرض نظیر کا وجود آپ کے بعد ہی ہوگا تو لامحالہ ایسا معدوم ہوگا جس کو مرتبہ ثانیہ عددی عارض ہو اور نظیر کہلانے کا مستحق جب ہی ہوسکتا ہے کہ وصف ممیّز کامل یعنی اول مخلوقیت و ختم نبوت میں مشارک ہو تو معروض مرتبہ ثانیہ کا معروض مرتبہ اولیٰ کا ہو۔ (یہ ممتنع بالذات ہے، ایسا ہو نہیں سکتا)۔

ایسا ہی بلحاظ ختمیت فرض کیا کہ آپ مثلاً چھٹے مرتبہ میں تو نظیر آپ کی معروض ساتویں مرتبہ کی مثل ہوکر معروض مرتبہ سادسہ کی ہوگی ’’وھو خلف‘‘ (یہی حقیقت کے خلاف ہے)۔

ہاں اس میں شک نہیں کہ ممتنعات ذاتیہ میں سے دو قسم اولین اور قسم ثالث میں فرق ظاہر ہے کیونکہ قسم ثالث کا امتناع اوصاف عارضہ کے لحاظ سے ہے اس لیے کہ محل بحث امتناع یا امکان نظیر ہے نہ امتناع یا امکان مثل خلاصہ یہ کہ آئینہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم میں خالق عز مجدہ نے جداگانہ کمال دکھایا یعنی ایسا بنایا کہ نظیرش امکان ندا رد (جس کی نظیر ممکن نہیں)۔

’’فھذا الکمال راجع الیہ سبحانہ کما ان الجمال مختص بہ من منع اللہ فسبحان من خلقہ واحسنہ واجملہ واکملہ‘‘ (فتاوی مھریہ ص ۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شان سے پیدا کرنا در حقیقت رب تعالیٰ کا ہی کمال ہے جس طرح یہ شان اور جمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختص ہے وہ بھی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آپ کو اس جداگانہ شان سے بنایا اور آپ کو سب زیادہ حسین اور سب سے زیادہ جمیل اور سب سے زیادہ با کمال بنایا۔

خلاصہ کلام:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رب تعالیٰ سب کائنات سے اول معرض وجود میں لایا اور آپ کو خاتم الانبیاء بنایا اگر آپ کی نظیر کوئی اور بھی بن سکے تو اسے بھی یہ دونوں وصف حاصل ہوں گے حالانکہ اول تو ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد آنے والے تو دوسرے درجہ میں ہوجاتے ہیں اور اسی طرح خاتم بھی ایک ہی ہوتا ہے اس کے بعد اس کی نظیر کو اگر خاتم کہا جائے گا تو پہلی ذات کا خاتم ہونا باطل ہوگا یہ دونوں صورتیں ممتنع بالذات ہیں ممتنع بالذات قدرت باری سے خارج ہیں ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ یہ رب تعالیٰ کی قدرت میں آسکیں رب تعالیٰ کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

حقیقت محمدیہ موجودات عالم میں جاری و ساری ہے:

مولنا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ شرح و قایہ کی شرح سعایہ میں فرماتے ہیں

’’السر فی خطاب التشھد ان الحقیقۃ المحمدیۃ کانھا ساریۃ فی کل وجود وحاضرۃ فی باطن کل عبد وانکشاف ھذہ الحالۃ علی الوجہ الاتم فی حالۃ الصلوۃ فحصل محل الخطاب وقال بعض اھل المعروفۃ ان العبد لماتشرف بشاء اللہ فکانہ فی حریم الحرام الالھی ونور البصیرہ و وجد الحبیب حاضرا فی حرم الحبیب فاقبل علیہ وقال السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘۔

تشہد میں خطاب یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ میں راز یہ ہے کہ حقیقت محمد یہ ہر وجود میں جاری و ساری ہے اور ہر بندے کے باطن میں موجود ہے نماز کی حالت میں اس حالت کا کامل انکشاف ہوتا ہے پس محل خطاب حاصل ہوجاتا ہے بعض اہل معرفت نے کہا ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی ثناء سے مشرف ہوتا ہے تو گویا اس کو حرم حریم الٰہی میں جگہ مل گئی اور نور بصیرت اس کو حاصل ہوا۔

حبیب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کو دربار حبیب (اللہ تعالیٰ) میں موجود پایا تو فورا آپ کی طرف متوجہ ہوکر صیغہ خطاب سے کہا: السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکات ہوں۔

اشعۃ اللمعات میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’نیز آنحضرت ھمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابداں است در جمیع احوال و اوقات خصوصا در حالت عبادت و  آخر آں کہ وجود نورانیت و انکشاف دریں احوال بیشتر و قوی تراست و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجھت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات پس آنحضرت درذات مصلیان موجود و حاضر است پس مصلی راباید کہ ازیں بآگاہ باشد وازیں شھود غافل نہ بو دتا بانوار قرب و اسرار معرفت منتورو فائز گرد‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کا نصب العین اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھندک ہیں جمیع احول اوقات میں خصوصاً حالت عبادت میں اور اس کے آخر میں نورانیت کا وجود اور انکشاف ان احوال میں زیادہ اور بہت قوی ہوتا ہے بعض عرفاء نے کہا ہے تشہد میں خطاب اسی وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے تمام ذرات اور ممکنات کے تمام افراد میں جاری و ساری ہے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں موجود ہوتے ہیں لہذا نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے غافل نہ رہے تاکہ انوار قرب اور اسرار معرفت سے منور اور فیضیاب ہو۔

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ویحتمل ان یقال علی طریق اھل العرفان ان المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات اذن لھم بالد خول فی حریم الخی الذی لا یموت فقرت اعینھم بالمناجات فنبھوا علی نوالک بواسطۃ نبی الرحمۃ و برکۃ متابعۃ فالتفتوا فاذا الحبیب فی حرم الحبیب حاضر فاقبلوا علیہ قائلین السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ (فتح الباری شرح بخاری ج ۲ ص ۲۵۰  (مطبوعہ مصر ))

اہل معرفت کے طریقہ پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیشک نمازی جب التحیات کے ذریعے ملکوت کا دروازہ کھلوا لیتے ہیں ان کو حی لا یموت کی بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے مناجات سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے ان کو اس پر متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں نبی رحمت اور ان کی تابعداری کی برکت کے وسیلہ سے حاصل ہے وہ فوراً توجہ کرتے ہیں تو حبیب کو حرم حبیب میں موجود پاتے ہیں یعنی بارگاہ ذوالجلال میں حبیب پاک کو جلوہ گر پاتے ہیں تو خطاب کے صیغے سے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہتے ہیں۔

حقیقت محمدیہ کیا ہے؟

جب یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حقیقت محمدیہ جمیع موجودات عالم میں جاری و ساری ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت محمدیہ کیا ہے؟ اس  پر علامہ جلال الدین محقق دوانی رحمہ  اللہ کا قول ان کی مشہور کتاب اخلاق جلالی کے ص ۲۵۶ میں ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں:

’’تحقیق کلام دریں مقام آں است کہ با طباق اصحاب نظر و برھان و اتفاق ارباب شھود و عیاں تخستیں گوھر یکہ بامر کن فیکون بوسیلہ قدرت و ارادہ ہے چوں از دریائے غیب مکنون بساحل شھادت آمد جوھر بسیط نورانی بود کہ بعرف حکماء آنرا عقل اول خوانند و در بعضے اخبار تعبیر ازاں بقلم اعلی رفتہ واکابر ائمہ وکشف  و تحقیق آں را حقیقت محمدیہ خوالند‘‘

اس مقام میں کلام کی تحقیق یہ ہے کہ اصحاب نظر و برھان اور ارباب شہود و عیاں کا اس پر اتفاق ہے کہ بے مثل ذات (اللہ تعالیٰ) کی قدرت اور اس کے ارادہ کے وسیلہ سے سب سے پہلے جوہر بسیط کن فیکون کے امر سے دریائے غیب مکنون  سے ظہور کے ساحل پر  آیا (معرض و جود میں آیا وہ جوہر بسیط نورانی تھا) جس کو  حکماء کے عرف میں عقل اول کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں اس کو قلم اعلی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کو اکابرائمہ کرام اور اصحاب کشف  و تحقیق نے حقیقت محمدیہ کہا ہے۔

جناب سید اولالیاء پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ مسئلہ حاضر و ناظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمد یہ عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ  ذرہ میں عندالمحققین من الصوفیہ ثابت ہے اس کو حقیقۃ الحائق کہتے ہیں اور لکھتے ہیں:

’’فھو نور محمدﷺ‘‘ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔

اولا جو بصورت تقی نقی اور جسد شریف عنصری کے ظاہر ہوا ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بصورت مثالیہ شریفہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام ہر مکان و زمان میں احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جس کا اقرار واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اور اس کا انکار آپ کا  انکار مانا گیا ہے:

’’کما فی حدیث البخاری فی کتاب الایمان‘‘

اس سے مراد وہ حدیث ہے جونکیرین کے سوال  سے متعلق وارد ہوئی  ہرمیت سے سوال کرتے ہیں۔

’’ماکنت تقول فی حق ھذا الرجال لمحمد‘‘

تم اس شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہتے تھے۔

چونکہ اس حدیث میں لفظ ’’ھذا‘‘ استعمال ہوا ہے جو محسوس مبصر پر دلالت کرتا ہے جبکہ ایک وقت میں کئی حضرات کو دفن کیا جاتا ہے تو اس طرح آپ کو بصورت مثالیہ کئی جگہ پر  تشریف فرما ہونا یقینی ہے اسی کو ماننا ایمان ہے اور اسی کا انکار کفر ہے۔

اہل تجربہ کو ظہور  کذائی مثالی کا کراتا مراتاً (بار بار) اتفاق ہوتا رہتا ہے البتہ ظہور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بجسدہ العنصری العینی کا پتہ بعض اہل مشاہد  کے ہاں سے ملتا ہے اور بلحاظ واقعہ معراج شریف و خصائص والوازم مختصہ جسد شریف علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے مستبعد (بعید) نہیں۔

’’ھذا ما عندی والعلم ما عند اللہ‘‘۔ (فتاوی مھریہ ص ۵)

’’انہ لما تعلقت ارادۃ الحق بایجاد خلقہ و تقدیر رزقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ (مواھب لدنیۃ)

اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو موجود کرنے اور اس کے رزق کی تقدیر کا ارادہ فرمایا تو  سب سے پہلے حقیقت محمدیہ کو ظاہر فرمایا۔

زرقانی میں اس عبارت کی جو شرح بیان کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ:

صاحب مواھب کے قول ’’ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات کو بمع صفت اول کے سب سے پہلے ظاہر فرمایا جیسے تو قیف میں ذکر کیا گیا ہے اور لطائف کاشی میں اس طرح مذکور ہے کہ محقیقن حضرات حقیقت محمدیہ سے مراد وہ حقیقت لیتے ہیں کہ جس کو حقیقت الحقائق کہتے ہیں یہ حقیقت تمام حقائق میں اسی طرح جاری و ساری جیسے کلی اپنی جزئیات میں جاری و ساری ہوتی ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت محمدیہ  یہ حقیقۃ الحقائق کی صورت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان بر زخ و واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس وقت اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم و وصف غالب نہیں تھا یہی وہ واسطہ یعنی حقیقت محمدیہ ہی نور احمدی ہے جس کی طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی اشارہ کررہا ہے وہ یہ کہ:

’’اول ما خلق اللہ نوری ای قدر علی اصل الوضع اللغوی وبھذا الا عتبار سمی المصطفی ﷺ بنور الا نوار وبابی الا رواح‘‘

سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو  پیدا کیا اسی وجہ سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور الانوار اور ابوالا رواح رکھا گیا ہے۔ (زرقانی ص ۲۷)

مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ  وسلم کے نور کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے تمام مخلوق کو  آپ کے نور سے پیدا کیا کیا تمام انبیائے کرام اپنی اپنی نبوتوں میں اصل نبی ہونے کے باوجود آپ کے تابع ہیں حقیقت محمدیہ تمام کائنات میں جاری و ساری ہے حقیقت محمدیہ کو  عقل اول قلم اعلی جوہر بسیط نورانی نور الا نوار ابو الارواح یعنی روح الارواح کہا گیا ہے زیادہ وضاحت کے لیے میرے رسالہ عقیدہ حاضر و ناظر کا مطالعہ کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاک نسلوں سے تشریف لائے:

علامہ امام ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت کو نقل کیا ہے کہ:

’’لما اراد اللہ عزوجل ان یخلق محمدا ﷺ امر جبرائیل علیہ السلام فاتاہ بالقبضۃ البیضاء التی ھی موضع قبر رسول اللہ ﷺ فعجنت بماء التسنیم فغمست فی انھار الجنۃ وطیفھا فی السموات فعرفت الملائکۃ محمدا ﷺ قبل ان یعرف آدم ثم کان نور محمد یری فی غرۃ جبھۃ آدم و قیل لہ یادم ھذا سید ولدک من المرسلین فلما حملت حواء بشیث انتقل النور من آدم الی حواء و کانت تلد فی کان بطن ولدین ولدین الاشیئا فانہ ولدتہ وجدہ کرامۃ لمحمدﷺ ثم لم یزل ینتقل من طاھر الی طاھر الی ان ولدتہ آمنۃ من عبد اللہ ابن عبد المطلب‘‘ (مرقاۃ ج ۱۱ ص ۴۴ باب فضائل سید المرسلین)

جب اللہ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنے کا  ارادہ فرمایا تو جبرائیل کو حکم دیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی جگہ سے سفید مٹی کی ایک مٹھی لی پھر اسے ماء تسنیم (جنت کی نہر  تسنیم کے پانی) سے گوندھا گیا پھر اسے جنت کی نہروں میں ڈبویا گیا اور آسمانوں میں اسے پھرایا گیا پس فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو پہچاننے سے پہلے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا پھر نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام کی پیشانی میں رکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی پیشانی جگماتی تھی اور آپ کو بتایا گیا اے آدم یہ تمہاری اولاد سے ہوں گے اور تمام رسولوں کے سردار ہوں گے پس جب حضرت حوا کے پیٹ میں شیث آئے تو وہ نور آدم علیہ السلام کی پیشانی سے منتقل ہوکر حوا کے پاس آگیا حالانکہ حضرت حوا کے بطن مبارک سے دو دو بچے ہر حمل سے پیدا ہو رہے تھے لیکن (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو منقسم ہونے سے بچانے کے لیے) صرف شیث علیہ السلام ہی اکیلے پیدا ہوئے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کو مد نظر رکھا گیا پھر آپ کا نور ہمیشہ سے پاک ہستی سے پاک ہستی کی طرف منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپ کی والدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عبد اللہ بن عبد المطلب سے جنا۔

خیال رہے کہ پاک نسلوں سے منتقل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد بدکاری اور کفر سے پاک تھے طہارت کو صرف بدکاری کی نجاست سے پاک ہونے کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے بلکہ زیادہ مقصود ہی کفر سے پاک ہونا ہے یہ تفصیل حضرت ابراہیم کے حالات میں دیکھی جائے وہاں میں نے وضاحت سے بیان کردیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری:

’’والا کثرون انہ ولد عام الفیل وانہ بعد الفیل بخمسین یوما وانہ فی شھرربیع الاول یوم الاثنین لثنتی عشرۃ خلت من عند طلوع الفجر‘‘ (مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷)

اکثر اہل علم کا قول یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سال دنیا میں تشریف لائے جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں پر سوار ہوکر کعبہ شریف کو شہید کرنے کی مذموم (حرکت) کی اور وہ تباہ و برباد ہوا اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں یعنی آپ اس واقعہ کے پچاس دن بعد تشریف لائے یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور اس کی بارہ تاریخ تھی پیر کا دن تھا صبح صادق کا وقت تھا۔

پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق:

آپ کی پیدائش پیر کے دن آپ کی نبوت عطا ہوئی پیر کے دن مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پیر کے دن کی مدینہ طیبہ میں پہنچے پیر کے دن قریش کے نزاع کو مٹانے کے لیے حجر اسود کو اپنی چادر مبارک میں رکھ کر سب قبائل کے سرداروں کو اٹھانے کے متعلق ارشاد فرمایا اور خود حجر اسود کو اٹھاکر کعبہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا یہ بھی پیر کا دن تھا مکہ شریف فتح فرمایا پیر کے دن سورہ مائدہ کا آپ پر نزول پیر کے دن ہوا تھا۔(مواھب، انوار محمدیہ ص ۲۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور منتقل ہونے کے بعد بھی اثر انداز رہا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پچاس دن پہلے ابرہہ کا واقعہ درپیش آیا اس وقت وہ نور حضرت عبد المطلب سے منتقل ہوکر حضرت عبد اللہ کی والدہ کے پاس اور ان سے حضرت عبد اللہ کے پاس اور ان سے حضرت آمنہ کے پاس آچکا تھا لیکن پھر بھی اس کے اثرات حضرت عبد المطلب کی پیشانی میں موجود تھے

’’فرکب عبد المطلب فی قریش حتی طلع جبل ثبیر فاستدار ت دارۃ غرۃ رسول اللہ علی جبھتہ کالھلال واشتد شعاعھا علی البیت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب الی ذالک قال یا معشر قریش ارجعوا فقد کفیتم ھذا الامر فو اللہ ما استدار ھذا النور منی الا ان یکون الظفر لنا۔ (مواھب لدنیہ ج ۱ ص ۸۵)

حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر (ابرھہ کے لشکر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے) شبیر پہاڑ پر چڑھے تو آپ کی پیشانی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور گول چاند کی طرح ظاہر ہوا اور اس کی شعاعیں چراغ کی طرح کعبہ شریف پر پڑیں۔ جب عبد المطلب نے یہ حال دیکھا تو آپ نے کہا: اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی یہ نور میری پیشانی میں جو چمکا ہے یہ ہماری کامیابی کی دلیل ہے۔

آپ کے نور سے شام کے محلات روشن ہوگئے:

حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ و ساخبر کم باول امری دعوۃ ابراھیم و بشارۃ عیسی و رویا امی التی رات حین وضعتنی وقد خرج لھا نور اضاء لھا منہ قصور الشام‘‘ (شرح السنۃ، مسند احمد از ساخبر کم تا اخیر، مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین ص ۵۱۳)

میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا کہ جب آدم علیہ السلام کیچڑ میں تھے یعنی آپ کا خمیر تیار کیا جا رہا تھا تمہیں اپنے اول امور کی خبر دے رہا ہوں کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کی رویا ہوں جو آپ نے اس وقت دیکھا جب مجھے جنا کہ آپ سے ایک نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔

دعوۃ ابراھیم سے اشارہ اس طرف تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی:

’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۹)

کہ اے ہمارے رب تعالیٰ ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہی ہو۔

’’بشارۃ عیسیٰ‘‘ سے مراد جو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

’’وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ‘‘ (پ ۲۸ سورۃ الصف آیت ۶)

آپ نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول تشریف لائیں گے جن کا نام احمد ہوگا۔

رؤیا:

کیا رویا سے مراد خواب ہے یا ظاہر طور پر دیکھنا مراد ہے اس پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں:

’’ظاھر ھذا الکلام ان رویۃ نور اضاء بہ قصور الشام کانت فی المنام وقد جاءت الاخبار انھا کانت فی الیقظۃ واما الذی فی المنام فھو انھا رأت انہ اتاھا آت فقال لھا شعرت انک قد حملت بسید ھذہ الامۃ ونبیھا فینبغی ان یحمل الرؤیا علی الرؤیۃ بالعین واللہ اعلم‘‘ (لمعات)

اگرچہ ظاہر طور پر تو یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ کا نور دیکھنا جس سے شام کے محلات روشن ہوئے خواب کا واقعہ ہو لیکن احادیث میں یہی واقعہ جاگتے ہوئے بھی درپیش آنے کا ذکر ہے خواب کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر مجھے کہہ رہا ہے کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس امت کے سردار اور نبی سے حاملہ ہوچکی ہو، مناسب یہی ہے کہ اس حدیث میں رویا سے آنکھ سے جاگتے ہوئے دیکھنا مراد لیا جائے۔

راقم کے نزدیک اس حدیث میں خواب کا معنی لینا ہی حقیقت سے دوری کی علامت ہے اس لیے کہ ’’حین وضعتنی‘‘ ظرف ہے ’’رأت‘‘ کی (جس وقت میری والدہ نے مجھے جنا اس وقت دیکھا)۔ پیدائش کے وقت خواب کا دیکھنا ناممکن ہے اس حدیث میں ظاہری طور پر دیکھنا مراد لیا جائے تو یہ معنی ظاہری ترکیب کے بالکل مطابق ہے خواب والا معنی لینا تکلفات اور تاویلات سے خالی نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر اور ربیع الاول کو پیدائش میں حکمت:

اگرچہ بظاہر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت رمضان المبارک میں ہوتی کیونکہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا اور اس میں لیلۃ القدر بھی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا، ان چار مہینوں میں آپ کی پیدائش نہیں ہوئی جنہیں عزت والے مہینے کہا گیا ہے۔ شعبان کی پندرہویں رات کو آپ کی پیدائش نہیں ہوئی، جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو آپ کی پیدائش نہیں ہوئی، اس میں کیا حکمت ہے؟

اس میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے اس زمانے کو مشرف فرمایا جس میں آپ پیدا ہوئے یعنی ربیع الاول اور پیر کو آپ سے باکمال بنایا گیا اگر دوسرے با برکت اوقات میں آپ کی پیدائش ہوتی تو وہم ہوتا کہ آپ کو شاید کسی مہینہ یا کسی دن یا کسی وقت سے کمال ملا ہے۔

اور وجہ یہ ہے کہ ربیع موسم بہار کو کہتے ہیں جو تمام موسموں سے اعدل (معتدل) ہے اور احسن ہے آپ کو ربیع الاول میں پیدا فرما کر اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوں سے معتدل ہے نہ اس میں افراط ہے اور نہ تفریط یعنی بہت سختیاں بھی نہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں تھیں اور بہت نرمیاں بھی نہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں تھیں۔

پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کو تمام درخت پیدا کیے گویا کہ انسانوں کا رزق پھل سبزیاں وغیرہ جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے وہ پیر کو پیدا ہوئے تو آپ کو بھی اس دن پیدا کر کے اشارہ فرمادیا کہ آپ کی ذات بھی انسانوں کی روحوں کو زندگی بخشنے کا ذریعہ ہے جس طرح رزق کے بغیر انسان کا زندہ رہنا محال ہے اسی طرح آپ کے بغیر ارواح کی بقا نہیں۔ (از حاوی للفتاویٰ ج ۱ ص ۱۹۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اظہار:

علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک اصل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا جو طریقہ رائج ہے وہ جائز ہے کیونکہ جو لوگ جمع ہوتے ہیں قرآن پاک پڑھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت کے واقعات بیان کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور آمد باسعادت پر دلالت کرنے والی آیات بیان کرتے ہیں پھر دستر خوان بچھاتے ہیں اور سب لوگ مل کر کھانا کھاتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کر چلے جاتے ہیں کوئی ناجائز کام نہیں کرتے یہ تمام کام بدعات حسنہ ہیں۔

’’التی یشاب علیھا صاحبھا لما فیہ من تعظیم قدر النبی ﷺ واظھار الفرح والا ستبشار بمولدہ الشریف‘‘ (الحاوی للفتاویٰ ج ۱ ص ۱۸۹)

جن کے کرنے پر انسان کو ثواب حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت کی تعظیم پائی جاتی ہے اور خوشی کا اظہار ہے اور آپ کی آمد باسعادت پر بشارت کا حصول ہے۔

محافل میلاد میں علماء و صلحاء کی شرکت:

ملک مظفر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی ہر سال قائم کی گئی محافل میں تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا اس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر اور دس ہزار مرغیاں ایک لاکھ مکھن کی ٹکیاں اور تین ہزار طشت مٹھائیوں کے رکھے جاتے۔

’’وکانک یحضر عندہ فی المولدا عیان العلماء والصوفیۃ‘‘

اس کے پاس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل میں علمائے کرام اور صوفیہ عظام حاضر ہوا کرتے تھے یہ بھی خیال رہے کہ ملک مظفر الدین بن زین الدین ایک نیک عادل شخص تھا سلطان صلاح الدین بن ایوب کا بہنوئی تھا ایک دن صلاح الدین ایوبی کی بہن اور اس کی زوجہ نے ان کو کہا تم لباس قیمتی کیوں نہیں پہنچتے یہ پانچ درہم کے کھدر کے کپڑے پہن لیتے ہو یہ سن کر ملک مظفر نے جواب دیا:

’’لیسی ثوبا بخمسۃ والتصدق بالباقی خیر من ان البس ثوبا مثمنا وادع الفقیر والمسکین‘‘

میرے لیے پانچ درہم کالباس پہننا او رباقی صدقہ کردینا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ میں قیمتی لباس پہنوں او رفقیروں مسکینوں کا خیال رکھنا چھوڑدوں۔

حافظ ابو الخطاب بن وحیہ جو مشہور علماء اور عظیم فضلاء سے تھے نے ایک کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر میں لکھی جس کا نام تھا ’’کتاب التنویر فی مولد الھشیر النذیر‘‘ اس میں ملک مظفر الدین نے انہیں ایک ہزار دینار انعام دیا ۶۲۵ھ میں بادشاہ کے پاس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ مجلسوں میں اس کتاب کو پڑھا گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ولادت کاتذکرہ کیا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ ربیع الاول میں نسبت دوسرے مہینوں کے زیادہ عبادت نہیں کی لیکن اس کی وجہ یہ تھی:

’’وما ذاک الا لرحمتہ ﷺ بامتہ ورفقہ بھم لانہ علیہ الصلوۃ والسلام کان یترک العمل خشیۃ ان یفرض علی امتہ رحمۃ منہ بھم لکن اشار علیہ السلام الی فضیلۃ ھذا الشھر العظیم یقولہ للسائل الذی سالہ عن صوم یوم الاثنین ذاک یوم ولدت فیہ‘‘

کہ آپ نے اپنی امت پر رحمت و شفقت فرماتے ہوئے زیادہ عبادات اس مہینہ میں نہیں کیں کہ میری امت پر کہیں یہ فرض نہ کردی جائیں آپ اسی ڈر کی وجہ سے کئی عمل ہمیشہ نہیں فرماتے تھے لیکن اس مہینہ کی فضلیت کی طرف آپ نے اشارہ کردیا کیونکہ جب آپ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ میری پیدائش کا دن ہے۔

اس دن کی فضیلت کی وجہ سے سارا مہینہ ہی فضیلت والا ہے:

’’فینبغی ان نحترمہ حق الا احترام ونفضلہ بما فضل اللہ بہ الاشھر الفاضلۃ‘‘

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ کا ایسا احترام کریں جیسا اس کا حق ہے اور ایسے ہی اس ماہ کو افضل سمجھیں جیسے دوسرے مہینے جن کی افضیلت کا ذکر رب تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

’’انا سید ولد آدم ولا فخرو آدم فمن دونہ تحت لوائی‘‘

میں اولاد آدم کا سردار ہوں مجھے اس پر کوئی فخر نہیں اور فرمایا آدم علیہ السلام اور ان کے ماسوا میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔

کسی زمان یا مکان کو ذاتی طور پر کوئی فضیلت حاصل نہیں بلکہ جن عبادات اور فضیلت والے اسباب سے ان کا تعلق ہوتا ہے ان کی وجہ سے وہ زمان و مکان بھی افضل ہوجاتے ہیں جس مہینہ ااور دن میں سید الکائنات تشریف لائے یقیناً اسے بھی فضیلت حاصل ہے۔

’’الا تری ان صوم ھذا الیوم فیہ فضل عظیم لانہ ﷺ ولد فیہ‘‘

کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس دن (پیر کے دن) روزہ رکھنا بہت عظیم ہے کیونکہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔

’’اخرج البیھقی عن انس ان النبی ﷺ عق عن نفسہ بعد النبوۃ‘‘

بیہقی نے حضرت انس سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔

حالانکہ آپ کے دادا عبد المطلب آپ کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرچکے تھے اور عقیقہ دوبارہ لوٹایا بھی نہیں جاتا تو کیا وجہ تھی کہ آپ نے اپنا عقیقہ پھر کیا؟

’’ان الذی فعلہ النبی ﷺ اظھارا اللشکر علی ایجاد اللہ ایاہ رحمۃ اللعالمین وتشریح لامنہ کما کان یصلی علی نفسہ‘‘

آپ نے اپنا عقیقہ اس لیے کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنایا تو آپ نے اس سے شکریہ کا اظہار فرمایا اور اس لیے بھی کہ آپ کی امت کے لیے بھی آپ کی ولادت کی خوشی منانا مشروع ہو جائے جیسا کہ آپ پر کوئی ضروری نہیں تھا کہ اپنے آپ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم درود پڑھیں لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر اسی وجہ سے درود پڑھتے تھے کہ آپ کی امت کے لیے سنت بھی بن جائے۔

اعتراض:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو علم تقویم کے حساب سے درست نہیں بنتی کیونکہ آپ کی پیدائش ۱۲۲؍اپریل ۵۷۱ء کو ہوئی اس کا حساب کیا جائے تو نو (۹) ربیع الاول بنتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر بارہ ربیع الاول پیدائش کا دن ثابت ہوجائے تو وہی وفات کا دن بھی ہے تو پھر اس دن خوشی کا اظہار کرنا کیسے ممکن ہوگا وہ دن تو غمی کا بھی ہے؟

جواب:

اعتراض کی پہلی صورت کا جواب تو یہ ہے کہ جناب محمد عرفان رضوی سابق ڈائریکڑ ایجوکیشن راولپنڈی نے اپنی ایک کتاب میں تقویم کی رو سے ہی بارہ ربیع الاول تاریخ کو دست ثابت کردیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اسلامی مہینوں کا کیلنڈر مستقل نہیں تھا بلکہ کفار اپنی مرضی سے اس میں تبدیلی کرتے تھے۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَo (پ ۱۰ سورۃ التوبۃ آیت ۳۶)

بیشک مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے کتاب الہی میں جس روز سے اس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار عزت والے ہیں یہی دین قیم ہے پس نہ ظلم کرو ان مہینوں میں اپنے پر اور جنگ کرو تمام مشرکوں سے جس طرح وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔

بارہ قمری مہینوں میں سال کی تقسیم کسی انسان کا فعل نہیں کہ اس میں ردو بدل کی گنجائش ہو بلکہ خالق ارض و سما نے یہ محکم نظام روز اول سے قائم فرمایا ہے اس میں کوئی اپنی خواہش اور مصلحت کے پیش نظر تبدیلی نہیں کرسکتا بارہ مہینوں سے چار ماہ جب ذیقعد، ذی الحج اور محرم حرمت والے مہینے ہیں ان میں ہر طرح فتنہ و فساد اور جنگ و قتال قطعا ممنوع ہے زمانہ جاہلیت میں بھی اہل عرب ان مہینوں کا بڑا احترام کیا کرتے تھے اور اگر اپنے باپ کا قاتل بھی انہیں مل جاتا تو اسے بھی کچھ نہ کہتے کتاب اللہ سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے یا قرآن حکیم۔

’’ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہی محکم شریعت ہے یا سال کی تقسیم کا یہی حساب ہے اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام کی بجا آوری میں انہیں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا قیم اصل میں قیوم تھا پھر سید کی طرح اس میں بھی تعلیل ہوئی احکام الہی سے سر تابی ہر وقت بری ہے، لیکن ان حرمت والے مہینوں میں نافرمانی بہت ہی قبیح ہے اس لیے خصوصی طور پر ان مہینوں میں باز رہنے کی تاکید فرمائی۔ نیز جس طرح مقدس اور مبارک اوقات میں نیکی کا زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس کی برکات کا نزول دل پر زیادہ ہوتا ہے اسی طرح ان مقامات اور اوقات میں نافرمانی کی سزا بھی زیادہ ہوتی ہے اور طبیعت انسانی پر اس کی نحوست کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔

’’ان وقوع الطاعۃ فی ھذہ الاوقات اکثر تاثیرا فی طھارۃ النفس و وقوع المعاصی فیھا اقوی تاثیرا فی خبث النفس‘‘ (از کبیر)

اگر مشرک ان مہینوں کے احترام کو پس پشت ڈال دیں اور تم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو تم بھی متفق اور متحد ہوکر ان کے سامنے صف بستہ ہوجاؤ۔ کافۃ۔ کف کا مصدر ہے اور یہاں حال واقع ہوا ہے واحد تثنیہ اور جمع مذکر و مونث سب کے لیے یہی آتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے سال کے یہ چار مہینے حرمت اور عزت والے شمار ہوتے تھے اور ان میں لڑائی کرنے کی سخت ممانعت کردی گئی تھی نیز فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ماہ ذوالحج کی تاریخیں مقرر تھیں کچھ عرصہ بعد اہل عرب پر اس حکم کی پابندی گراں گزرنے لگی ان کا پیشہ قزاقی رہزنی اور مار دھاڑ بن کر رہ گیا تھا تین ماہ تک متواتر (ذیقعد، ذی الحج، محرم) ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنا ان کے لیے ناقابل برداشت تھا اس لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کرلیا کہ ان مہینوں میں سے جس کو چاہا حلال کرلیا اور اس میں جی بھر کر قتل و غارت گری کی اور اس کی جگہ سال کے کسی دوسرے مہینے کو حرام کردیا حرمت والے مہینوں کی تعداد بھی چار ہی رہی۔ اور ان کا کام بھی بن گیا۔ نیز ’’حج‘‘ ایک عبادت کے ہونے کے علاوہ ان کے لیے ایک بہت بڑا تجارتی میلہ بھی تھا، دور و دراز سے تجارتی قافلے بھی آتے جس سے انہیں بہت نفع ہوتا لیکن حج کا فریضہ چونکہ قمری سال کے ذی الحجہ کے مہینہ میں ادا کیا جاتا تھا اس لیے یہ ایسی موسم میں بھی آجاتا جب کہ سخت سردی یا گرمی ہوتی اور موسم کی اس نا سازگاری کی وجہ سے ان کا کاروبار ماند پڑجاتا اور انہیں دل خواہ نفع نہ ہوتا اس مشکل کا حل انہوں نے یہ تجویز کیا کہ حج ہمیشہ معتدل موسم میں ادا کیا جائے اس کے لیے انہوں نے حج کی مقررہ تاریخوں کو بدل دیا اور قمری سال کے بارہ مہینوں میں کبیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیا اس طرح تینیس سال کے بعد صرف ایک بار حج اپنی صحیح تاریخوں نو ذی الحجہ کو ادا کیا جاتا، ان دونوں صورتوں میں چونکہ صرف اپنی ذاتی سہولتوں اور مالی منفعتوں کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے اٹل اور محکم احکام میں رد و بدل کرلیا کرتے تھے اس لیے ان کے اس فعل کو ’’زیادۃ فی الکفر‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا:

۱۰ھ میں جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو اس سال ان کے دستور کے مطابق بھی نو اور دس ذی الحجہ کو ادا ہونا قرار پایا تھا۔

اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ان الزمان قد استدار کھیئۃ یوم خلق اللہ السموات والارض‘‘

یعنی اس سال بھی حج انہی تاریخوں میں ادا کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی میں اس کے لیے مقرر فرمائی تھیں اس میں مسلمانوں کے لیے بھی عبرت کا درس ہے کہ وہ اپنی ذاتی مصلحتوں اور دوسرے وجوہ کے لیے احکام الہی میں رد بدل نہ کریں۔

نساء کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو اپنے وقت سے موخر کردینا۔

’’قال الجوھری النسی فعیل بمعنی مفعول من قولک نسات الشئی فھو منسو اذا اخرتہ‘‘ (قرطبی، ضیاء القرآن)

میرا مقصد تو صرف اتنا ہی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سال کے مہینوں میں تبدیلی کی جاتی تھی اس پر دلیل کے لیے میں نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کو پیش کیا عوام الناس کے فائدہ کے لیے آیت کریمہ کی پوری تفسیر نقل کردی صحیح بات تو یہ ہے کہ مفکر اسلام مفسر قرآن حضرت پیر کرم شاہ صاحب  قدس سرہ کی تفسیر ضیاء القرآن علمائے کرام، طلبائے عظام، وکلاء دانشوروں اور عوام الناس کے لیے یکساں مفید ہے۔ میں اپنی کتاب میں اس کے اقتباسات پیش ہی اس لیے کرتا ہوں کہ کسی کی نظر میں میری کتاب آجائے اور ابھی تک اس نے ضیاء القرآن کا مطالعہ نہ کیا ہو تو وہ ضرور مطالعہ کرے اللہ تعالیٰ اسے نور معرفت عطا فرمائے گا۔

حساب دان حضرت ان چیزوں کو مد نظر رکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف تریسٹھ برس ہے آپ کا وصال بارہ ربیع الاول میں ہوا بلکہ بزرگان دین دو ربیع الاول کی روایت پر زیادہ عمل کرتے ہیں حجۃ الوداع آپ کے وصال سے تین ماہ قبل ہوا اس حجۃ الوداع سے تینتیس سال پہلے حج اپنی خاص تاریخوں پر آیا تھا۔

بہر حال جمہور علمائے کرام کا اجماع اسی پر ہے کہ آپ کی ولادت بارہ ربیع الاول کو ہی ہے بارہ پر اعتراض کرنے والے نو ربیع الاول کو ہی خوشی کا اظہار کردیں تو ہمیں ان پر کیا اعتراض ہے لیکن ان کے گھر تو اس دن بھی صف ماتم ہی بچھی رہتی ہے۔

اعتراض کی دوسری صورت یہ تھی کہ ایک تاریخ کو ہی اگر پیدائش بھی ہو اور وصال بھی ہو تو غم کیوں نہیں کیا جاتا صرف خوشی کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے اس کے جواب میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہمارے لیے عظیم نعمت ہے اور آپ کی وفات عظیم مصیبت ہے لیکن شریعت نے نعمتوں کے شکر کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ اور مصیبتوں کے وقت صبر و سکون اور ان کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا۔ کیونکہ شریعت نے بچے کی ولادت پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے عقیقہ کا حکم دیا لیکن وفات پر جانوروں کے ذبح کا حکم نہیں دیا اور  نہ ہی اور ایسے کاموں کا حکم ہے جو خوشی کے موقع پر کیے جاتے ہیں بلکہ نوحہ سے بھی منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ بے صبری کی علامت ہے۔

’’فدلت قواعد الشریعۃ علی انہ یحسن فی ھذا الشھر اظھار الفرح بو لادتہ ﷺ دون اظھار الحزن فیہ بوفاتہ‘‘

قوانین شریعت اس پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی وجہ سے اس مہینہ میں خوشی کا اظہار کرنا اچھا ہے لیکن آپ کی وفات پر غم کا اظہار کرنا اچھا نہیں ہے۔

ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اللطائف میں رافضیوں کے یوم عاشوراء کو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ماتم کرنے پر مذمت کرتے ہوئے بیان کیا:

’’لم یامر اللہ ولا رسولہ باتحاذ ایام مصائب الانبیاء وموتھم ماتما فکیف ممن ھو دونھم‘‘

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام پر مصائب کے دنوں اور ان کے وصال کے دنوں کو ماتم کرنے کا حکم نہیں دیا تو ان سے کم درجہ والوں پر ماتم کیوں کر کیا جائے۔ (الحاوی اللفتاویٰ ج ۱ ص ۱۹۳)

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برزخ میں دنیا کی زندگی سے اعلی زندگی گزار رہے ہیں جب آپ زندہ ہیں تو غم کرنے کا مقصد ہی کیا ہے علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

’’اخرج ابویعلی فی مسندہ والبیھقی فی کتاب حیاۃ الانبیاء عن انس ان النبی ﷺ قال والانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون‘‘ (الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۲۶۴)

مسند ابی یعلی اور بیہقی  میں مذکور ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں وہ نماز ادا کرتے ہیں۔

علامہ سیوطی رحمہ اللہ اس قسم کی کئی روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’فحصل من مجموع ھذہ النقول والا حادیث ان النبی ﷺ حی بجسدہ و روحہ وانہ یتصرف ویسیر حیث شاء فی اقطار الارض وفی الملکوت وھو بھیئۃ التی کان علیھا قبل وفاتہ لم یتبدل منہ شیء وانہ مغیب عن الابصار کم غیبت الملائکۃ مع کونھم احیاء باجسادھم فاذا اراد اللہ رفع الحجاب عمن اراد اکرامہ برویتہ راہ علی ھیئۃ التی ھو علیھا لا مانع من ذالک ولا داعی الی التخصیص بروئیۃ المثال‘‘ (الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۲۶۵)

ان تمام روایات و احادیث سے واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روح و جسم کے ساتھ زندہ ہیں زمین کے اطراف اور ملکوت میں جہاں چاہیں سیر کریں اور تصرف کریں آپ کو وصال سے پہلے جو ہیئت حاصل تھی وہی اب بھی حاصل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی صرف آپ نظروں سے غائب ہوئے ہیں جیسے فرشتے نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں آپ اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہیں اللہ تعالیٰ جس کو آپ کے دیدار سے مشرف کرنا چاہتا ہے آپ سے حجاب اٹھا دیتا ہے وہ آپ کو اسی حال میں دیکھتا ہے جیسے آپ ظاہری حیات میں تھے اس میں بھی کوئی امر مانع نہیں اور یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ آپ کے جسم کو کئی مثالیں عطا کر دیتا ہے اور آدمی آپ کی مثالوں کو دیکھتا ہے بلکہ آپ کو ظاہری طور پر دیکھا جاتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف:

آپ کا نسب مواہب لدنیہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:

محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی (بضم قاف و فتح صاد و تشدید یاء) بن کلاب (بکسر کاف) بن مرہ (بضم میم و تشدید راء) بن کعب (بفتح کاف و سکون عین) بن لوی (بضم لام و فتح ھمزہ و تشدید یاء) بن غالب بن فہر (بکسر فاء و سکون ھاء) بن مالک بن نضر (بفتح نون و سکون ضاد) بن کنانہ (بکسر کاف دو نون کے ساتھ) بن خزیمہ (بخاء معجمہ و زاء مصغر) بن مدرکہ (بضم میم و سکون دال و کسر راء) بن الیاس (بکسر ہمزہ ایک قول کے مطابق اور دوسرے قول کے مطابق بفتح ھمزہ بمعنی یا س جو رجاء (امید) کی ضد ہے اور ہمزہ وصل کے لیے صاحب مواہب کہتے ہیں کہ یہ اقوال اصح ہے) بن مضر (بضم میم و فتح ضاد) بن نزار (بکسر نون و بزاء) بن معد ( بضم میم و فتح عین اور بعض کے نزدیک بفتح میم و سکون عین، اسے صحیح کہتے ہیں) بن عدنان (بفتح عین و سکون دال)۔

یہاں تک سلسلہ نسب میں ارباب سیر اور اصحاب علم انساب سب کا اتفاق ہے اس سے اوپر میں کچھ اختلاف ہے اس میں اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام آپ کے اجداد میں ہیں۔ (معارج النبوۃ ج ۲)

والدہ کا نسب:

آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہما ہے ان کا نسب بھی پانچویں درجہ پر آپ کے والد گرامی کے نسب سے مل جاتا ہے آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر۔

خیال رہے کہ آپ کی والدہ کا اپنی والدہ کی جانب سے بھی نسب آپ کے والد کے نسب سے مل جاتا ہے۔

آمنہ بنت برۃ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی) بنت عبد العزی بن عثمان بن عبد الدار بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر۔

آپ کی والدہ کی نانی کا نسب بھی آپ کے والد کے نسب سے ملتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی برہ کی والدہ ام حبیب کا نسب یہ ہے ام حبیب بنت اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی کا نام برہ اور برہ کی نانی کا نام بھی برہ تھا آمنہ بنت برہ بنت ام حبیب بنت برہ ام حبیب کی والدہ کا نسب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نسب سے ملتا ہے وہ اس طرح ہے۔

برہ بنت عوف بن عبد عویج بن کعب بن لوی بن غالب وغیرہ۔

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب والد اور والدہ دونوں جانب سے بہتر تھا اور عزت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر تھا۔ (تاریخ ابن ھشام)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکلوتے تھے:

آپ کا کوئی بھائی بہن نہیں تھے بلکہ اپنے والدین کریمین کے اکلوتے بیٹے تھے نہ ہی آپ کے باپ حضرت عبد اللہ کی کوئی اور اولاد تھی اور نہ ہی آپ کی والدہ حضرت آمنہ کی کوئی اور اولاد تھی یعنی ان دونوں کا یہ ایک ہی نکاح تھا حضرت عبد اللہ نے بھی کوئی اور شادی نہیں کی اور حضرت آمنہ نے بھی۔

آپ کے والدین کی ایک جگہ قبریں:

آپ کے والد حضرت عبد اللہ آپ کے پیدائش سے پہلے ہی وفات پاگئے حضرت عبد اللہ بسلسلہ تجارت مدینہ طیبہ گئے ہوئے تھے وہاں ہی راستہ میں بیمار ہوگئے اور بنی نجار کے پاس ٹھہر گئے اور آپ کی وہاں ہی وفات ہوگئی اور مقام ابواء میں مدفون ہوئے ابواء مدینہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔ (از مدارج النبوۃ ص ۲۲ ج ۲)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر بنی عدی بن النجار کے قبیلہ میں آئیں غرض یہ تھی کہ آپ کی ملاقات آپ کے ماموؤں سے کرائیں تو وہاں سے واپسی پر مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ابواء میں انتقال فرما گئیں۔

اسی طرح ایک مشہور قول کے مطابق آپ کے والد گرامی اور والدہ ماجدہ دونوں مقام ابواء میں مدفون ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ مدینہ طیبہ میں مقام نابغہ میں مدفون ہوئے (واللہ اعلم بالصواب) لیکن غالب خیال کچھ ایسے آتا ہے کہ کئی سال پہلے اخبار میں ذکر تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی کا جسم اطہر مقام ابواء میں صحیح سلامت ہے کسی کھدائی کے دوران یہ پتہ چلا۔

خیال رہے کہ ابن ہشام نے کہا عبد المطلب بن ہاشم کی والدہ سلمی عمر و نجار قبیلہ سے تھیں اس لیے اصل میں بنی نجار حضرت عبد اللہ کے نانھال تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نا نھال بھی کہہ دئیے جاتے ہیں ورنہ حضرت آمنہ نجاریہ نہیں تھیں۔(اللہ اعلم بالصواب) (از ابن ھشام ج ۱ ص ۱۸۹)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا:

آپ کے بارہ چچا تھے اور تیرھویں ان کے بھائی آپ کے والد حضرت عبد اللہ تھے حضرت عبد المطلب کے تیرہ بیٹوں کے نام یہ ہیں:

عبد اللہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی)، حارث، ابو طالب ان کا نام عبد مناف، زبیر اس کی کنیت ابو الحارث، حمزہ ان کی کنیت ابو عمارہ اور ابویعلی ابولہب اس کا نام عبد العزی، غیداق، مقوم، ضرار، عباس قثم، عبد الکعبہ، حجل اس کا نام مغیرہ۔

صرف دو چچا نے اسلام کو قبول کیا:

حضرت حمزہ جن کی کنیت ابوعمار اور ابو یعلی ہے انہوں نے اسلام قبول کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’خیر اعمامی حمزہ‘‘ میرے چچاؤں میں سے بہتر حمزہ ہیں۔

بدر میں بھی شریک تھے اور احد میں بھی احد میں ہی وحشی نے آپ کو شہید کردیا تھا آپ کی عمر انسٹھ سال تھی۔

حضرت عباس کی کنیت ابو الفضل تھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دو یا تین سال بڑے تھے قریش کے رئیس شمار ہوتے تھے انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کے اسلام لانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بہت تعظیم فرماتے تھے آپ کا ارشاد گرامی ہے:

’’العباس عمی وصنو ابی من اذاہ اذانی‘‘

عباس میرے چچا ہیں میری باپ کی مثل ہیں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی۔

تینتیس ہجری میں حضرت عثمان کی خلافت کے دوران اٹھاسی سال کی عمر میں وصال ہوا بقیع میں دفن ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے چھوٹے چچا یہی تھے سب سے بڑا حارث تھا۔ (انوار محمدیہ ص ۱۵۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیاں:

آپ کی چھ پھوپھیاں تھیں عاتکہ، امیمہ، بیضاء، ان کی کنیت ام حکیم، برہ، صفیہ، اروی

صفیہ جو زبیر کی والدہ ہیں ان کا اسلام لانا بالا اتفاق ثابت ہے یہ غزوہ خندق میں شریک تھیں انہوں نے ایک یہودی کو بھی قتل کردیا تھا بیس ہجری میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں تہتر سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور بقیع میں دفن ہوئیں عاتکہ اور اروی کے اسلام میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک انہوں نے اسلام قبول کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دادیاں:

حضرت عبد اللہ کی والدہ فاطمہ بنت عمر و مخزومیہ اور حضرت عبد المطلب کی والدہ سلمی بنت عمر و نجاریہ حضرت ہاشم کی والدہ عاتکہ بنت مرہ سلیمیہ، عبد مناف کی والدہ عاتکہ بنت فالج سلیمیہ قصی کی والدہ فاطمہ بنت سعد ازدیہ کلاب کی والدہ، نعم بنت سریر کنانیہ مرہ کی والدہ خشیہ بنت شیبان فہمیہ کعب کی والدہ سلمی بنت محارب فہمیہ، لوی کی والدہ و خشیہ بنت مدلج کنانیہ غالب کی والدہ سلمی بنت سعد ہزلیہ فہر کی والدہ جندلۃ بنت حارث جرھمیہ مالک کی والدہ ھندبنت عدوان قیسیہ نضر کی  والدہ برہ بنت مرہ مریۃ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نانیاں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ بنت وہب زھریہ رضی اللہ عنہا آمنہ رضی اللہ عنہا کی والدہ برہ بنت عبد العزی رضی اللہ عنہا حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے باپ وہب کی والدہ عاتکہ بنت اوقص سلیمیہ رضی اللہ عنہا حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی والدہ برہ کی والدہ ام حبیبہ یا ام حبیب بنت اسدام جیبہ رضی اللہ عنہا کی والدہ برہ بنت عوف رضی اللہ عنہا یہ تینوں قریشیہ ہیں اس  برہ یعنی ام حبیب کی والدہ کی والدہ قلابہ بنت الحارث ھزلیہ قلابہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ھند بنت یربوع ثقنیہ رضی اللہ عنہا۔(انوار محمدیہ ص ۱۶۱)

رضاعی والدہ:

آپ کو حضرت حلیمہ بنت ابی ذؤیب سعدیہ ھواز نیہ نے دودھ پلایا اور جب رضاعت یعنی دودھ پلانے کی مدت ختم ہوئی تو آپ کو واپس اپنے والدہ کے پاس لایا گیا۔

حنین کے دن جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔

’’فقام الیھا وبسط رداء ہ لھا فجلست علیہ‘‘

تو آپ ان کے لیے کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر بچھادی جس پر یہ بیٹھیں۔

ثویبہ (ثاء پر پیش، واؤ پر زبر) جو ابو لھب کی غلامہ تھیں نے بھی آپ کو دودھ پلایا وہی ثوبیہ ہے جس نے ابو لھب کو اشارہ سے جاکر بتایا کہ تمہارے بھائی عبد اللہ کا بیٹا پیدا ہوا  تو اس نے خوشی سے اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ جا تو آزاد ہے اور میرے بھتیجے کو دودھ پلا ابو لھب کو موت کے بعد خواب میں دیکھا گیا اس کا حال پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ سخت عذاب میں مبتلا ہوں البتہ پیر کے دن عذاب سے راحت ہوتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر ثویبہ  کو آزاد کیا تھا۔

سبحان اللہ کافر کو عذاب سے تحفیف حاصل ہو جبکہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر صرف بھتیجا سمجھ کر خوشی کا اظہار کیا ہو تو یقیناً مسلمان کو بلند مقام حاصل ہوگا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر سید الکائنات افضل الانبیاء سمجھ کر خوشی کا اظہار کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ سے بھی ثویبہ کی طرف  کپڑے بھیجا  کرتے تھے۔ (انوار محمدیہ ص ۱۶۳، الحاوی للفتاوی ج ۱ ص ۱۹۱)

پرورش کرنے والی:

ام ایمن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی آپ فرمایا کرتے تھے ’’ام ایمن امی بعد امی‘‘ میری ماں بعد میری ماں ام ایمن ہے شیماء بنت حلیمہ سعدیہ نے بھی اپنی ماں کے ساتھ مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی۔

آپ کے رضاعی بہن بھائی:

حضرت حمزہ (جو آپ کے چچا ہیں) اور ابو سلمہ بن عبد الاسد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ہیں ان کو بھی ثویبہ نے دودھ پلایا ہے ان دونوں کو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے اپنے بیٹے مروح کے ساتھ دودھ پلایا ہے ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب جو آپ کے چچا زاد بھی ہیں اور رضاعی بھائی بھی کیونکہ ان کو بھی حضرت حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا ہے۔

عبد اللہ بھی آپ کے رضاعی بھائی ہیں کیونکہ یہ حلیمہ سعدیہ کے بیٹے ہیں۔

آسیہ اور حذافہ آپ کی رضاعی بہنیں ہیں کیونکہ یہ حلیمہ سعدیہ کی بیٹیاں ہیں خیال رہے کہ حذافہ کا مشہور اور عرفی نام شیماء تھا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے بنی ھوازن پر حملہ کیا تو قیدیوں میں یہ شیماء بھی آگئیں انہوں نے صحابہ کرام کو بتایا کہ میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (رضاعی) بہن ہوں صحابہ کرام کو آپ کے پاس لائے تو انہوں نے کہا:

’’یا محمد انا اختک‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تمہاری بہن ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مرحبا کہا اور ان کے لیے ایک چادر بچھائی اور انہیں چادر کے اوپر بٹھایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے آپ نے فرمایا اگر تم میرے پاس رہنا چاہتی ہو تو تمہیں عزت و تکریم سے رکھا جائے گا اور اگر تم اپنی قوم کی طرف واپس لوٹنا چاہتی ہو تو تمہیں وہاں پہنچادیا جائیے گا انہوں نے کہا میں اپنی قوم کے پاس لوٹنا چاہتی ہوں انہوں نے اسی وقت اسلام قبول کیا ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایا عطا فرماکر عزت و تکریم سے ان کی قوم کی طرف واپس لوٹادیا۔ (از انوار محمدیہ ص ۱۶۲)

فائدہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی جبکہ ان کی عمر چالیس سال تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اور دس سال مدینہ طیبہ میں گزارے اور تریسٹھ سال کی عمر میں وصال فرمایا۔

آپ کی ازواج مطہرات:

حضرت خدیجتہ الکبری بنت خویلد، عائشہ بنت ابی بکر، حفصہ بنت عمر فاروق، ام حبیبہ بنت ابی سفیان (امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن)، ام سلمۃ بنت ابی امیہ اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہن یہ چھ ازواج مطہرات تمام قریشیہ ہیں۔

زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا جو اسد بن خزیمہ کے قبیلہ سے تھیں، میمونہ بنت الحارث ھلالیہ رضی اللہ عنہا، زینب بنت خزیمہ ھلالیہ رضی اللہ عنہا جن کا لقب ام المساکین تھا، جویریہ بنت حارث مصطلقیہ رضی عنہا یہ تمام عربیہ ہیں اور ایک زوجہ مطہرہ غیر عربیہ ہیں جو نبی نضیر کے سردار حیی کی بیٹی ہیں یہ قبیلہ نبی اسرائیل سے ہیں جن کا نام صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہے۔

ان تمام ازواج مطہرات سے دو کا وصال آپ کی ظاہری حیات میں ہوگیا تھا ایک خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا اور دوسری زینب رضی اللہ عنہا جن کا لقب ام لمساکین ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت نو ازواج مطہرات ظاہری حیات میں موجود تھیں ازواج مطہرات کے مختصر حالات میں اپنی کتاب اسلام میں عورت کا مقام تحریر کیے ہیں وہاں دیکھے جائیں یا مدارج النبوۃ میں دیکھے جائیں جو شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے۔

آپ کی اولاد مطہرہ:

آپ کی چار بیٹیاں ہیں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن۔ میں نے اپنی کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ میں چار بیٹیوں کا ثبوت شیعہ کی کتب سے پیش کیا ہے اور تمام کے مختصر حالات بھی تحریر کیے ہیں۔

آپ کے تین بیٹے تھے قاسم، ابراہیم اور عبد اللہ خیال رہے کہ طیب، مطیب، طاہر اور مطہر انہی کے القاب تھے یہ کوئی علیحدہ بیٹے نہیں تھے۔ قاسم کی ولادت اعلان نبوت سے پہلے ہے یہ کوئی دو سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے کہ فوت ہوگئے اور ان کے نام سے ہی آپ کی کنبت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا آپ کی بڑی بیٹی ہیں ان کی ولادت جب ہوئی اس وقت آپ کی عمر شریف تیس سال تھی ان کا نکاح ان کی خالہ کے بیٹے ابوالعاص لقیط بن ربیع سے ہوا انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ہجرت کے آٹھویں سال ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام علی تھا وہ بچپن میں فوت ہوگیا تھا یہ بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک اونٹنی پر سوار تھا اس سے گر کر فوت ہوگیا۔

ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام امامہ تھا یہ حضرت فاطمۃ الزہراء کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی جب ولادت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اس وقت تینتیس سال تھی یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں انہوں نے دو ہجرتیں کیں یعنی پہلے حبشہ اور پھر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر میں تھے تو ان کا وصال ہوگیا۔

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا میں تمہاری بہتر راہنمائی نہ کروں؟ یعنی تم اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح میرے ساتھ کرلو اور میں اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عثمان سے کردیتا ہوں۔

اس طرح حضرت حفصہ بنت عمر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوگیا اور ام کلثوم بنت النبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آگئیں ان کا نکاح ۳ھ میں ہوا اور وفات ۹ھ میں ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور شدت غم کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

حضرت فاطمۃ الزہراء کی ولادت ہوئی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس تھی، آپ کا لقب بتول ہے۔ ان کا نکاح اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر پندرہ سال ساڑھے پانچ ماہ تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر اکیس سال پانچ ماہ تھی۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تین بیٹے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم ہوئے۔ محسن بچپن میں فوت ہوگئے۔ آپ کی دو بیٹیاں تھیں زینب اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کا سلسلہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہی چل رہا ہے یعنی امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما دونوں سے سلسلہ اولاد قائم ہے کیونکہ باقی کسی بیٹی کی اولاد کا سلسلہ آگے نہیں چل سکا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد کا ذکر ہوچکا ہے اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی یا بعض روایات کے مطابق دو بچے پیدا ہوئے لیکن بچپن میں فوت ہوگئے اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا ایک حمل ساقط ہوگیا تھا اور ایک بچہ پیدا ہوا لیکن وہ بھی دو سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ (از انوار محمدیہ ص ۱۴۵، مدارج النبوۃ ج۲ ص ۷۸۶)

حضرت عبد اللہ ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ میں ہی فوت ہوگئے ان کی پیدائش اعلان نبوت سے پہلے ہوئی یا بعد میں اس میں مختلف اقوال ہیں ان کے ہی طیب و طاہر لقب ہیں۔

تنبیہ:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہے کسی اور زوجہ مطہرہ سے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہے حضرت ابراہیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی غلام (لونڈی) ماریہ قبطیہ سے ہیں ان کی پیدائش ذی الحجہ ۸ھ میں ہوئی، آپ کی پیدائش کے ساتویں دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنبے بطور عقیقہ ذبح فرمائے۔ ابوھند نے آپ رضی اللہ عنہ کے بال تراشے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن آپ کا نام اپنے دادا کے نام پر ابراہیم رکھا اور بالوں کی مقدار چاندی صدقہ کی بال زمین میں دفن کر دئیے۔ ابراہیم مدینہ طیبہ کے اطراف میں ایک لوہار کی زوجہ کے زیر پرورش تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹے کو ملنے کے لیے جاتے تھے ساتھ بعض صحابہ کرام بھی موجود ہوتے۔ آپ بچہ سے پیار و محبت کر کے واپس آجاتے۔ ستر یا اس سے کچھ زائد دن زندہ رہنے کے بعد فوت ہوگئے۔ بقیع میں دفن ہوئے، ان کی قبر پر پانی چھڑکا گیا اور ایک پتھر بطور نشان لگایا گیا آپ کی وفات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:

’’انا بک یا ابراہیم لمحزونون نبکی العین و یحزن القلب‘‘

اے ابراہیم ہم تمہاری موت پر غمزدہ ہیں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں رو روہی ہیں اور دل غمناک ہے۔ (از انوار محمدیہ ص ۱۴۷)

محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام سے افضل:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍo (پ ۳ سورۃ البقرۃ آیت ۲۵۳)

یہ رسو ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں سے کسی سے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ بعض انبیاء بعض پر افضل ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام پر افضل ہیں آپ کی افضلیت کئی وجوہ سے ثابت ہے۔

۱۔      اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمایا:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَo (پ ۱۷ سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۷)

اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

’’فلما کان رحمۃ لکل العالمین لزم ان یکون افضل من کل العالمین‘‘

جب آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں تو یقینی طور پر آپ تمام جہانوں سے افضل ہیں۔

یعنی آپ افضل المخلوقات ہیں:

؎        بعد از خذا بزرگ توئی قصہ مختصر

خدا کے بعد آپ کا ہی مقام بلند و بالا ہے، مختصر یہی بات ہے۔

۲۔     رب تعالیٰ نے فرمایا:

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَo (پ ۳۰ سورۃ الانشراح آیت ۴)

اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا۔

مالک الملک نے اپنے ذکر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو متصل کیا کلمہ شہادت میں، اذان میں اور تشہد وغیرہ میں:

’’ولم یکن ذکر سائر الانبیاء کذالک‘‘

اور باقی تمام انبیائے کرام کا ذکر اس اس طرح نہیں لہذا اس سے ثابت ہوا کہ آپ افضل الانبیاء ہیں۔

۳۔     اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ ملایا اور فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَo (پ ۵ سورۃ النساء آیت ۸۰)

جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم مانا۔

آپ کی بیعت کو رب تعالیٰ نے اپنی بیعت قرار دیا اور فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْo (پ ۲۶ سورۃ الفتح آیت ۱۰)

بیشک وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے۔

اور آپ کی عزت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کے ساتھ ذکر فرمایا:

وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَo (پ ۲۸ سورۃ المنٰفقون آیت ۸)

اور عزت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے۔

اور آپ کی رضا کو رب قدوس نے اپنی رضا کے ساتھ ذکر فرمایا:

وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُo (پ ۱۰ سورۃ التوبۃ آیت ۶۲)

اور اللہ اور اس کے رسول کا حق زائد ہے کہ انہیں راضی کریں۔

رب تعالیٰ نے آپ کے بلانے پر حاضر ہونے کو اپنے بلانے پر حاضر ہونے کے ساتھ ذکر فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِo (پ ۹ سورۃ الانفال آیت ۲۴)

اے ایمان والو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔

یہ عظمت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے دوسرے انبیائے کرام کو حاصل نہیں۔

۴۔     اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ قرآن پاک کی سورۃ سے چیلنج کریں، کون شخص ہے جو قرآن پاک کی سورۃ جیسی سورۃ بنا کر لائے ’’فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ‘‘ تو اس جیسی ایک سورۃ تو لے آؤ۔ سب سے چھوٹی سورۃ کوثر ہے جس میں تین آیتیں ہیں تو گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے ہر تین آیتوں سے چیلنج کیا لیکن وہ لوگ مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے تو جب قرآن پاک میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں تو ہر تین تین آیتیں جب معجزہ ہیں تو صرف قرآن پاک ہی دو ہزار بائیس معجزات پر مشتمل ہے باقی معجزات علیحدہ ہیں اور جب موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نو معجزات عطا کیے ہیں تو وہ واضح ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کثیر معجزات کی وجہ سے تمام انبیائے کرام پر افضلیت حاصل ہے۔

۵۔     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ یعنی قرآن پاک تمام انبیائے کرام کے معجزات سے افضل ہے لہذا ہمارے رسول پاک کا تمام انبیائے کرام سے افضل ہونا بھی ثابت ہےچونکہ قرآن پاک کو تمام کلاموں میں اولیت حاصل ہے جیسے آدم علیہ السلام کو تمام انسانوں پر اولیت حاصل ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ لباس اعلیٰ ہو تو لباس والے کو شان حاصل ہوتی ہے تو ایسا کیوں نہ ہو کہ معجزہ اعلی ہو تو صاحب معجزہ بھی اعلی ہے۔

۶۔     باقی تمام انبیائے کرام کے معجزات فانی تھے انبیائے کرام علیہم السلام جب دنیا سے تشریف لے گئے تو ان کے معجزات بھی ساتھ ہی ختم ہوگئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن پاک ہمیشہ کے لیے باقی ہے۔ یقینی بات ہے کہ باقی رہنے والی چیز اعلی ہے فنا ہونے والی سے لہذا جس کو وہ معجزہ ملا جو باقی رہنے والا ہے تو اس ذات کو بھی بلند مرتبہ ماننا ضروری ہے۔

۷۔     تمام انبیائے کرام کو جو کمالات انفرادی طور پر حاصل تھے وہ تمام کے تمام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے اس لیے آپ تمام انبیائے کرام سے افضل ہیں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے احوال ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْo (پ ۷ سورۃ الانعام آیت ۹۰)

یہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تو تم ان کی راہ پر چلو۔

اس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے انبیائے کرام کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ پہلے انبیائے کرام کی اصول دین میں اقتداء کریں تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ تقلید ہے اور اصول دین میں تقلید نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو پہلے انبیائے کرام کی فروغ دین میں اقتداء کا حکم دیا گیا ہے تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ آپ کی شریعت پہلی شریعتوں کی ناسخ ہے تو اقتداء کا اور کوئی مطلب نہیں سوائے اس کے ’’فلم یبق الا ان یکون المراد محاسن الاخلاق‘‘ کہ اس سے مراد اچھے اخلاق اور کمالات ہوں۔ گویا کہ رب تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہم آپ کو انبیائے کرام علیہم السلام کے احوال و عادات پر مطلع کرتے ہیں آپ ان کے اچھے اور احسن  اخلاق و عادات کو اپنے لیے پسند فرمالیں اور ان کی ان عادات میں اقتداء کریں۔

’’وھذہ یقتضی انہ اجتمع فیہ من الخصال المرضیۃ ما کان متفرقا فیھم فوجب ان یکون افضل منھم‘‘

اس بحث سے واضح ہوا کہ تمام اچھی عادات جو تمام انبیائے کرام کو متفرق طور پر حاصل تھیں وہ آپ کو اجتماعی طور پر حاصل ہوئیں لہذا آپ تمام انبیائے کرام سے افضل ہیں۔

۸۔     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا رب تعالیٰ نے فرمایا:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاo (پ ۲۲ سورۃ السبا آیت ۲۸)

اور اے محبوب ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا رسول بنا کر۔

جتنے زیادہ امتی ہوں اتنی ہی نبی پر مشقت زیادہ ہوتی ہے نیکوں کے کاموں میں جتنی مشقت زیادہ برداشت کی جائے اسی قدر مراتب بلند ہوتے ہیں اور خصوصاً جب انسان کو مال حاصل نہ ہو دوست یار مددگار نہ ہوں اور پھر تمام لوگوں کو کہے:

یٰٓاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَo (پ ۳۰ سورۃ الکافروں آیت ۱)

اے کافرو! یہ سن کر لوگ دشمن بن جائیں تو یہ کتنا ہی خوف کا مقام ہے جو بہت بڑی مشقت کا ذریعہ ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جب نبوت عطا کرکے بھیجا گیا تو آپ کے دشمن صرف فرعون اور فرعون کی قوم کے لوگ تھے بنی اسرائیل آپ کا ساتھ دینے والے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام لوگ ابتدائی طور پر مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام پر فضیلت دی۔

اور خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنی ساری عمر رات کے طویل اوقات میں انسانوں اور جنوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچائیں اور خصوصاً ایسے حالات میں ان کی عادت کے مطابق حالات بالکل واضح تھے کہ یہ تو آپ سے دشمنی کریں گے آپ کو تکالیف پہنچائیں گے معاذ اللہ آپ کو حقیر سمجھیں گے ان حالات کے ہوتے ہوئے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے میں کوئی تاخیر نہیں کی بلکہ جلدی ہی اللہ تعالیٰ کے احکام آپ نے پہنچائے اور عظیم مشقتیں آپ نے برداشت کیں، عظیم مشقت برداشت کرنا افضلیت کا سبب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ کرام کی بعد والون سے  افضلیت بیان کی اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے تکالیف برداشت کیں اس وجہ سے وہ افضل ہیں۔

ارشاد باری ہے:

لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَo (پ ۲۷ سورۃ الحدید آیت ۱۰)

تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا۔

صحابہ کرام جنہوں نے زیادہ مشقتیں برداشت کیں جب وہ دوسروں سے زیادہ افضل ہیں تو یقیناً وہ نبی جنہوں نے سب انبیائے کرام سے زیادہ تکالیف اٹھائیں سب انبیائے کرام سے زیادہ فضیلت کے مالک ہیں۔

۹۔     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام دینوں سے افضل ہے تو آپ کا سب انبیاء سے افضل ہونا بھی ضروری ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کےدین کو دوسرے تمام دینوں کے لیے منسوخ کرنے والا بنایا تو یہ بات ظاہر ہے کہ جو دین دوسرے دینوں کو منسوخ کردے وہ افضل دین ہے اور آپ کے دین کی افضلیت آپ کے اس قول سے بھی ثابت ہے:

’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھا الی یوم القیمۃ‘‘

جس شخص نے اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس ایجاد پر اجر حاصل ہوگا اور قیامت تک جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے ان کے اعمال کے مطابق اجر بھی اسے ملے گا۔

جب آپ کے دین میں اجر و ثواب زیادہ ہے اور خصوصاً ’’کان واضعہ اکثر ثوابا من واضعی سائر الادیان‘‘ آپ کے دین میں اچھا طریقہ ایجاد کرنے والے کو زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے جو دوسرے دینوں میں اس طرح نہیں ’’فیلذم ان یکون محمد ﷺ افضل من سائر النبیاء‘‘ تو اس سے ضروری ہی ہوگیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام پر افضلیت حاصل ہو۔

۱۰۔    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمام امتوں سے افضل ہے تو یقیناً آپ کو بھی سب انبیائے کرام پر افضلیت حاصل ہے آپ کی امت کی شان کو رب تعالیٰ نے ان الفاظ مبارکہ سے بیان فرمایا:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِo (پ ۴ سورۃ آل عمران ۱۱۰)

تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں۔

آپ کی امت کو بہتری اور فضیلت کیوں حاصل ہے؟ اس لیے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہیں اور آپ کی توبعداری کی وجہ سے ہی دوسری امتوں سے افضل اور اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے۔

رب تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُo (پ ۲ سورۃ البقرۃ آیت ۳۱)

اے محبوب تم فرماؤ کہ لوگوں اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست رکھے گا۔

جب آپ کی امت کو آپ کی تابعداری کی وجہ سے افضلیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور دوستی حاصل ہوگئی تو آپ کی ذات کا بھی سب انبیائے کرام سے افضل ہونا ثابت ہوگیا۔

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جنوں اور انسانوں کے نبی بن کر تشریف لائے تو آپ کو اجر و ثواب زیادہ حاصل ہوا انسان کے مدارج کی بلندی اجر و ثواب کی زیادتی پر ہے کیونکہ جتنے لوگ آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے زیادہ ہوں گے اسی قدر آپ کے مراتب بلند ہوں گے یہ شان دوسرے انبیائے کرام کو حاصل نہیں۔

فائدہ:

’’عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ ﷺ اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثرھم علی صلوۃ‘‘ (ترمذی، مشکوۃ باب صلوۃ النبی)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں سے قیامت کے دن میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو مجھ پر زیادہ درود شریف پڑھنے ولا ہوگا۔

اس حدیث کی شرح میں ملا علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’اولی الناس ای اقربھم بی اواحقھم بشفاعتی یوم القیامۃ اکثرھم علی صلوۃ لان کثرۃ الصلوۃ منبئۃ عن التعظیم المقتضی للمتابعۃ الناشئۃ عن المحبۃ الکاملۃ المرتبۃ علیھا محبۃ اللہ تعالیٰ قال تعالیٰ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنو بکم‘‘ (مرقاۃ ج ۲ ص ۳۴۰)

’’اولی‘‘ کا معنی ہے اقرب ایک تو اس کا ظاہری معنی ہے کہ آپ پر زیادہ درود پڑھنے والے کو بنسبت دوسرے لوگوں کے جنت میں قریب مقام حاصل ہوگا اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ شخص میری خصوصی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ درود پاک وہی شخص پڑھے گا جس کے دل میں آپ کی تعظیم پائی جائے گی اور جس شخص کو آپ کی عظمت کا خیال ہوگا وہ آپ کی تابعداری بھی کرے گا آپ کی تابعداری وہی شخص کامل طور پر کرتا ہے جسے محبت کاملہ حاصل ہوتی ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل محبت ہوتی ہے وہی درحقیقت اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے رب تعالیٰ نے فرمایا اے محبوب آپ فرمادیں کہ لوگو اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔

سبحان اللہ نتیجہ کتنا واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر رب تعالیٰ سے محبت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی رب تعالیٰ کو اس سے محبت ہوگی صرف نام سے توحیدی کہلانے سے کچھ نہیں بنتا اگر تونے اپنی عاقبت سنوارنی ہے توآ! سید الانبیاء کا غلام بن جا۔ تو یہ بھی کہتا رہے کہ نبی کریم کو علم غیب نہیں تھا وہ دیوار کے پیچھے کا علم نہیں رکھتے تھے ان کا مرتبہ ہمارے بڑے بھائی جیسا تھا وہ کسی اختیار کے مالک نہیں تھے وہ تو ہم جیسے بشر تھے اس قسم کے لغویات بیہودہ زبان سے نکالتا رہے اور پھر یہ بھی کہے کہ ہمیں بھی نبی کریم سے محبت ہے تیری اس بات پر کون اعتبار کرے۔

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

۱۱۔     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں جب آپ کے ذریعے سلسلہ نبوت ختم ہوگیا یعنی آپ کی آمد سے انبیائے کرام کی تشریف آوری منسوخ ہوگئی تو یقینی بات ہے کہ وہ دوسروں کی آمد کا ناسخ بن سکتا ہے جو سب سے افضل ہو یہ عقل کے خلاف ہے کہ کم مرتبہ والا اعلی کی آمد کو منسوخ کردے۔

۱۲۔    بعض انبیائے کرام کو بعض پر معجزات کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے کثرت معجزات ان کی صداقت اور بزرگی پر دلالت کرتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام سے زیادہ معجزات حاصل ہیں تو آپ کو فضیلت بھی سب سے زیادہ حاصل ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بظاہر ایک معجزہ قرآن پاک ہی تین ہزار سے زائد معجزات پر مشتمل ہے۔

’’ومنھا ما یتعلق بالقدرۃ‘‘ پھر بعض معجزات آپ کو وہ حاصل ہیں جو آپ کی قدرت پر دلالت کرتے ہیں جیسے تھوڑے طعام سے کثیر مخلوق کو سیر کردیا اور تھوڑے پانی سے کثیر لوگوں کو سیراب کردیا۔

’’ومنھا ما یتعلق بالعلوم کالاخبار عن الغیوب‘‘

اور بعض معجزات آپ کے علوم سے متعلق ہیں جیسے کہ غیبی خبریں۔

کاش کہ میری برادری کے میرے پیارے جہال کو بھی یہ سمجھ آجاتا کہ غیبی خبریں دینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے آپ کے معجزات کا انکار تو کافر بھی نہیں کرسکتے تھے۔

’’ومنھا اختصاصہ فی ذاتہ بالفضائل‘‘

آپ کے بعض معجزات وہ ہیں جو آپ کی ذات سے متعلق ہیں تمام اشراف عرب سے آپ اعلی حسب و نسب کے مالک ہیں شجاعت، اخلاق، کریمہ، وعدہ کی وفا، فصاحت و بلاغت اور سخاوت ان تمام اوصاف  میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔

۱۳۔    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انا سید ولد آدم ولا فخر‘‘

میں اولاد آدم کا سردار ہوں مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ارشاد گرامی ہے:

’’لا ید خل الجنۃ احد من النبیین حتی ادخلھا اناولا ید خلھا احد من الامم حتی تد خلھا امتی‘‘

انبیائے کرام میں سے کوئی ایک بھی جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوگا جب تک میں نہیں داخل ہوں گا اور تمام امتوں میں سے کوئی ایک بھی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک میری امت داخل نہیں ہوگی۔

۱۴۔    حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’انا اول الناس خروجا اذا بعثوا وانا خطیبھم اذا وفدوا وانا مبشرھم اذا ایسو الواء الحمد بیدی وانا اکرم ولد آدم علی ربی ولا فخر‘‘

جب لوگوں کو(قیامت کے دن) اٹھایا جائے گا سب سے پہلے میں ہی قبر سے باہر آؤں گا جب سب لوگ آئیں گے تو میں ہی ان سے خطاب کروں گا جب لوگ نا امید ہوجائیں گے تو میں ہی ان کو بشارت دوں گا لواء الحمد(خصوصی عظمت والے جھنڈے کا نام ) میرے ہاتھ میں ہوگا تمام اولاد آدم پر رب تعالیٰ کے ہاں میں ہی مکرم ہوں گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ بیٹھ کر تذکرہ کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کلام سنا بعض نے تعجب کرتے ہوئے کہا ’’ان اللہ اتخذ ابراھیم خلیلا‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا۔ اور بعض نے کہا ’’ماذا باعجب من کلام موسی کلمہ تکلیما‘‘۔ موسیٰ علیہ السلام کے کلام پر اور زیادہ تعجب ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کلیم بنایا۔ کچھ اور نے کہا۔ ’’فعیسی کلمۃ اللہ وروحہ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں بعض اور حضرات نے کہا: ’’آدم اصطفاہ اللہ‘‘ آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا میں نے تمہارا کلام سنا اور تمہارے دلائل سنے بیشک یہ حقیقت ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ ہیں موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں واقعی ایسا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں یقیناً ایسا ہے آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں ہاں یہی بات ہے۔

’’الا وانا حبیب اللہ ولا فخر وانا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول شافع وانا اول مشفع یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول من یحرک حلقۃ الجنۃ فیفتح لی فادخلھا ومعی الفقراء المومنین ولا فخر وانا اکرم الاولین والآخرین ولا فخر‘‘

خبردار میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن لواء الحمد میں ہی اٹھانے والا ہوں گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے میں ہی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت کو قبول کیا جائے گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، اور قیامت کے دن سب سے پہلے جنت کے دروازے کو میں ہی کھٹکھٹاؤں گا اور میرے لیے دروازہ کھولا جائے گا میں اس میں داخل ہوں گا اور میرے ساتھ غریب مسلمان ہوں گے مجھے اس پر کوئی فخر نہیں، تمام پہلے اور پچھلے لوگوں سے میں سے زیادہ ہی مکرم ہوں گا مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔

یہ تمام احادیث جن کو ذکر کیا گیا ہے روز روشن کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت پر دلالت کر رہی ہیں۔

۱۵۔    بیہقی نے فضائل صحابہ کی بحث میں ذکر کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دور سے نظر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ھذا سید العرب‘‘ یہ شخص عریبوں کا سردار ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی ’’الست انت سید العراب‘‘ کیا آپ عربیوں کے سردار نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:

’’وانا سید العالمین وھو سید العرب‘‘ می

سیّدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم

 

حضور پر نور خاتم الانبیاء، باعثِ تخلیقِ کائنات، فخرِ موجودات، رحمۃ اللعالمین، شفیع المذنبین محبوبِ کبریا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور پھر اس نور کے وسیلے سے تمام جہانوں کو تخلیق کیا۔ عالمِ ارواح ہی میں آپ کے نور کو خلعتِ نبوت سے سرفراز فرماکر جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی روحوں سے یہ عہد لیا گیا کہ اگر وہ حجور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کو پائیں تو اُن پر ایمان لائیں اور اُن کی مدد کریں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ  قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ (پارہ ۳ سورۂ آل عمران رکوع۹)

ترجمہ: ’’اور یاد کرو جب لیا اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے پختہ وعدہ کہ قسم ہے تمہیں  اُس کی جودوں میں تم کو کتاب اور حکمت سے پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول جو تصدیق کرنے والا ہو ان (کتابوں) کی جو تمہارے پاس ہیں تو تم ضرور ضرور ایمان لانا اس پر اور ضرور ضرور مدد کرنا اس کی (اس کے بعد) فرمایا کیا تم نے اقرار کرلیا اور اٹھالیا تم نے اس پر میرا بھاری ذمہ؟ سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا۔ (اللہ نے) فرمایا تو گواہ رہنا اور میں (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘

خداوندِ قدوس کے اسی ارشاد عالیہ کے مطابق تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دیتے رہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ پاک کو اُن کی پشت مبارک میں بطور امانت رکھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے وہ نور حضرت حواء کے رحم پاک میں منتقل ہوا۔ پھر حضرت حواء سے حضرت شیث علیہ السلام کی پشت میں منتقل ہوا، پھر اسی طرح یہ  نورِ مقدس پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشتِ مبارک میں منتقل ہوا اور اُن سے حضرت آمنہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوا۔

اِسی نور کی برکت سے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور اسی نور کے وسیلہ سے اُن کی توبہ قبول ہوئی، اسی نور کی برکت سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی غرق  ہونے سے بچی، اسی نور کی برکت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتشِ نمرود گلزار ہوگئی، اسی نور کی برکت سے حضرت ایوب علیہ السلام کی مصیبت دور ہوئی اور اسینور کی برکت سے تمام انبیائے سابقین پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار عنایات و نوازشات ہوئیں، مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:

وصلی اللہ علی نور کز و شد نورہا پیدا
محمد احمد  ومحمود و لے را خالقش بستود
اگر نامِ محمد رانیا وروے شفیع آدم

 

زمیں از حب اوساکن فلک  در عشق او شیدا
کز و شد بود ہر موجود زو شد دید ہا بینا
نہ آدم یافتے توبہ، نہ نوح از غرق نجینا

نہ ایوب از بلا راحت، نہ یوسف حشمت وجاہت
نہ عیسیٰ آں مسیحا دم نہ موسیٰ آں یدِ بیضا

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک میں ہی تھے کہ آپ کے والد ماجد حضرت عبداللہ نے مدینہ میں رحلت فرمائی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ۱۲ ربیع الاول ۱ھ عام الفیل (واقعہ عام الفیل سے ۵۵ دن بعد) مطابق ۲۱؍اپریل ۵۷۱ء مطابق ۴ جیٹھ سمت ۶۲۸ بکرمی کو مکہ مکرمہ  میں بعد از صبح صادق پیر کے دن ہوئی۔ ولادت شریف کے وقت آپ کے ساتھ ایسا نور نکلا کہ مکہ شریف کے رہنے والوں کو ملکِ شام کے قیصری محل (بادشاہی محلات) نظر آنے لگے، ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر پڑے فارس کا آتش کدہ بجھ گیا، دریائے سادہ خشک ہوگیا اور وادیٔ سماوہ کی ندی کناروں تک بہنے لگی، غرض ایسے بے شمار واقعات ظاہر ہوئے۔

سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے کئی دن دودھ پلایا، پھر آپ نے چند روز ابولہب کی آزاد کردہ لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا، اس کے بعد حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قبیلہ میں لے گئیں جہاں پہلی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شقِ صدر ہوا، دوسری دفعہ دس برس کی عمر میں، تیسری بار غارِ حرا میں، اور چوتھی مرتبہ شبِ معراج میں ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف چھ برس کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ انتقال فرماگئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش اپنے ذمے لے لی، جب آٹھ سال کے ہوئے تو دادا جان بھی رحلت فرماگئے، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ پرورش کرنے لگے، بارہ سال کی عمر مبارک میں آپ حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملک شام کو بغرض تجارت تشریف لے گئے، اس سفر میں بحیرا راہب نے آپ کو دیکھ کر کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں، چودہ سال کی عمر شریف میں آپ نے اپنے چچاؤں کے ساتھ حربِ فجار میں شرکت فرمائی۔ پچیس سال کی عمر مبارک میں حضرت خدیجہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسلسلہ تجارت شام کو تشریف لے گئے، اس سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوگیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اقدس پچیس برس کی ہوئی تو قریش نے عمارتِ کعبہ کو از سرِ نو تعمیر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پیارے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے مبارک کندھوں پر پتھر اُٹھاکر لاتے رہے۔

[۱۔ بعض محققین کے نزدیک آپ کی پرورش زبیر بن عبدالمطلب نے کی تھی، واللہ اعلم ورسولہ (قصوری)]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف چالیس برس کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے منصبِ نبوت سے سرفراز فرمایا چنانچہ خفیہ طور پر بعض لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہے ہوئے بہت سے مرد اور عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، لڑکوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، آزاد کیے ہوئے غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔

خفیہ دعوت کے تین سال بعد دعوتِ اعلانیہ کا حکم آیا تو سردارانِ قریش بہت سٹ پٹائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اذیت دینے لگے، نبوت کے پانچویں سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایاکہ تم میں سے جو چاہیں ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں، چنانچہ پہلی دفعہ گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی، نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ مشرف بہ اسلام ہوئے اورا ُن کے تین دن بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  بھی ایمان لے آئے، اب اسلام کی روز افزوں ترقی کو دیکھ کر قریش کی نیندیں حرام ہوگئیں اور وہ مسلمانوں کو شدت کے ساتھ ایذائیں دینے لگے، اس لیے ۸۳ مرد اور ۱۸ عورتوں  نے دوسری بار حبشہ کی طرف ہجرت کی، ریش نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس اپنے سفیربھیجے کہ مہاجرین کو واپس کردو مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سفیر خاسر و نامراد واپس لوٹے، اب قریش نے جھنجھلا کر بہ اتفاق رائے یہ قرار داد پاس کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ قتل کردیا جائے، بنوہاشم و بنو مطلب سے قطع تعلقی کرلی تاکہ وہ ہراساں و پریشاں ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حوالہ کردیں اور اس بارے میں ایک تحریری معاہدہ خانہ کعبہ کی چھت پر آویزاں کردیا، قریش نے نہایت سختی سے اس معاہدہ پر عملدرآمد کیا، تین سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر ارشاد فرمائی کہ اس معاہدہ کو دیمک چاٹ گئی ہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے نام پاک کے باقی کچھ نہیں رہا، جب معاہدہ کو دیکھا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک صحیح نکلا مگر مخالفین بجائے نادم و شرمسار ہونے کے مزید درپئے آزار ہوگئے اور طرح طرح سے زیادتیاں کرنے لگے۔ ماہ رمضان ۱۰ نبوت میں حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا اور اس کے تین  دن بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے بھی انتقال فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کی حالت میں طائف کا سفر اختیار فرمایا مگر اشرافِ ثقیف نے آپ کی دعوت کا بری طرح سے جواب دیا اور آپ پر اس قدر سنگ باری کی کہ نعلین شریفین خون آلودہ ہوگئیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی کہ ہر سال حج کے موسم میں تمام قبائلِ عرب کو جو مکہ اور اُس کے ارد گرد موجود ہوتے دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور میلوں میں بھی اسی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ نبوت کے گیارہویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ عادت منیٰ میں قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کو دعوتِ اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے مدینہ طیبہ میں اپنے بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی جس کے طفیل آئندہ سال بارہ مرد ایام حج میں مکہ آئے اور حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت سے مشرف ہوئے، مشہور قول کے مطابق اسی سال ماہ رجب کی ستائیسویں رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ بیداری میں جسدِ اطہر کے ساتھ معراج مبارک ہوا اور پانچ نمازیں فرض ہوئیِ نبوت کے تیرھویں سال انصار میں سے ۷۳ مرد اور دو عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور یوں کاروانِ اسلام روز بروز شاہراہِ ترقی پر گامزن ہونے لگا۔

اسلام کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے قریش کی ایذا رسانی بھی شدید ہوتی جا رہی تھی جس کی وجہ سے اب مسلمانوں کا مکہ میں رہنا دشوار ہوگیا،  لہٰذا حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازتِ مبارکہ سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم متفرق طور پر چوری چھپے، ہجرت کرکے مدینہ شریف پہنچ گئے اور مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور چند علیل و ناتواں رہ گئے۔

قریش نے جب دکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار و مددگار مکہ کے علاوہ مدینہ میں بھی کافی تعداد میں ہوگئے ہیں تو اُن کی نیندیں حرام ہوگئیں کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ میں نہ چلے جائیں اور وہاں سے اپنے حامیوں کی فوج ظفر موج کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوں، لہٰذا انہوں نے دار الندوہ ہیں جمع ہوکر شیخ نجدی کے مشورہ سے یہ قرار دیا کہ آج رات ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے اس مذموم فیصلے کی خبر کردی۔ کفار نے قرارداد کے مطابق رات ہوتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدہ کو گھیرے میں لے لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر پر چھوڑا اور مٹھی بھر خاک لے کر سوۂ یٰسین شریف کی شروع کی آیات پڑھ کر کفار پر پھینک دی جس کی وجہ سے کفار کو کچھ نظر نہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکل کر حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر عازمِ مدینہ ہوگئے، تین راتیں غارِ ثور میں گزاریں، راستہ میں سراقہ بن جعشم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اُس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا اور وہ معافی مانگ کر واپس چلا آیا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲؍ربیع الاول دو شنبہ (پیر) کے دن قباء میں پہنچے۔ یہی تاریخ اسلامی سال (سن ہجری) کی ابتدا ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں مسجد قباء کی بنیاد ڈالی جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے یہاں سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف جلوہ افروز ہوئے تو مسلمانوں میں مسرّت کی جو لہر دوڑی اُسے احاطۂ تحریر  میں نہیں لایا جاسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پر قیام فرمایا۔ اس سال مسجد نبوی، ازواج مطہرات کے لیے حجرے اور مہاجرین کے لیے مکانات تعمیر کیے گئے، اذان شروع کی گئی اور صحابہ کرام میں بھائی چارہ پیدا فرمایا۔

ہجرت کے دوسرے سال بیت المقدس  کے بجائے کعبہ شریف قبلۂ نماز ٹھہرا۔ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے اور غزوات و سرایا  کا آغاز ہوا۔ غزوات تعداد میں ۲۷ ہیں اور سرایا ۴۷ بڑے بڑے غزوات جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے سات ہیں۔ بدر، احد، خندق، خیبر، فتح مکہ، حنین، تبوک۔ جن غزوات میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال فرمایا وہ یہ ہیں: بدر، احد، خندق، مصطلق، خیبر، فتح مکہ، حنین، طائف۔ سب سے آخری غزوۂ تبوک ماہ رجب۹ھ میں وقوع پذیر ہوا۔

ہجرت کے ساتویں سال کے آغاز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے والیانِ ملک (قیصر و کسریٰ اور نجاشی وغیرہ) کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط ارسال فرمائے اور ۹ھ میں غزوہ تبوک سے واپسی  پر آپ نے منافقین کی مسجد ضرار (جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے بنائی گئی تھی) کو جلادینے کا حکم دیا، اسی سال عربوں کے کثیر التعداد وفد بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  میں حاضر ہوئے جس کی وجہ سے اسے سالِ وفود بھی  کہا جاتا ہے۔ یہ وفود عام طور پر دولتِ ایمان سے مالا مال ہوکر واپس گئے۔ ۱۰ھ میں بھی وفود حاضر خدمت ہوکر نورِ ایمان سے مشرف ہوتے رہے۔ اسی سال اہلِ یمن و ملوکِ حمیرا ایمان لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔

حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت پوری دنیا بالخصوص ملک عرب میں جہالت و گمراہی کا دور دورہ تھا، عربوں کی مذہبی وار اخلاقی پستی آخری حدوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ موافق و مخالف، دوست اور دشمن اپنے اور بے گانے سب کو یہ معلوم ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اُمی تھے امیوں ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرورش پائی۔ کسی کے سامنے زانوے تلمذ تہہ نہ کیا اور نہ لکھنا پڑھنا سیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلمیذ الرحمٰن ہونے کی حیثیت سے اپنے اصحاب کرام کو وہ روحانی تعلیم دی کہ وہ معارف ربانی کے عارف اور اسرارِ فرقانی کے ماہر بن گئے۔ جس کسی نے بھی دولتِ ایمان سے سرفراز ہوکر کچھ وقت بھی آپ کے قدموں میں گزارا وہ عالمِ ربانی اور عارف یزدانی بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے صحابہ کرام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نسبت خاصہ اور قوت قدسیہ عطا ہوگئی۔ القصہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم سب کو اسلام و ایمان اور احسان سے مالا مال کرکے اور سچے دین کے ظاہر و باطنی علوم سکھاکر بارہ ربیع الاوّل ۱۱ھ کو دو شنبہ (پیروار) کے دن الرفیق الاعلیٰ پکارے ہوئے عالمِ فانی سے عالم باقی کی طرف تشریف لے گئے۔ مگر حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین اور حیات النبی ہیں، قیامت تک حضور کی امت مرحومہ کو حضور سے وہی فیضان بواسطہ خواصِ امّت علمائے کرام و صوفیائے عظام پہنچتا رہے گا جو حضور کی ظاہری زندگی میں پہنچتا تھا۔ حضور کی امت میں وقتاً فوقتاً اولیاء و صلحاء پیدا ہوتے رہیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ظاہری و باطنی علوم کے فیضان سے مالا مال کرتے رہیں گے اور ان اولیاء کرام کے ذریعے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق ہوتی رہے گی۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الآرا کتاب کشف المحجوب میں یوں فرماتے ہیں:

’’خداوند تعالیٰ برہانِ نبوی راتا امروز باقی گردایندہ است و اولیاء را سبب اظہارِ آں کردہ۔ تاپیوستہ آیاتِ حق و حجتِ صدق سیّدنا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہر می باسشند و مر ایشاں را والیانِ عالم گردایندہ تا محرم وے گشتہ اند وراہِ متابعتِ نفس رادر نوشتہ، از آسمان باراں برکت اقدامِ ایشاں آید۔ واز زمین نباتات ببرکات صفائی احوال ایشاں رؤید۔‘‘

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے برہانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو آج تک کے لیے باقی رکھا ہے اور اولیاء کرو اس کے اظہار کا سبب بنایا ہے تاکہ آیاتِ حق اور حجتِ صدقِ سیدنا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ ظاہر ہوتی رہیں اور اُن کو دنیا کے والی گردانا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کے محرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے متابعتِ نفس کو اپنا رستہ بنایا ہے آسمان سے بارش اُن کے قدموں کی برکت سے آتی ہے اور زمین سے نباتات اُن کے صفائے احوال کی بدولت اُگتے ہیں۔‘‘

حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی رحمۃ اللہ علیہ یوں ارشاد فرماتے ہیں:

’’حقیقتِ محمدیہ کا تعلق جس طرح ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حیات میں تھا  بعینہٖ وہی تعلق اب بعد وصال بھی بدن مبارک کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو کوئی نہیں بدل سکتا اور جس طرح حضور  پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ کے تصرفات جاری تھے ویسے ہی اب بھی جاری ہیں۔ یہی معنی ہیں حیات النبی ہونے کے اور اسی وجہ سے قطب، غوث، ابدال، اوتاد وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہوتے رہیں گے۔‘‘ (ذکرِ خیر)

بطور تبرک حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے چند بڑے بڑے واقعات کی نہایت مختصر سی فہرست پیش کردی گئی ہے۔ ان واقعات کی تفصیل اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم، حلیہ شریف و معجزات و مناقب و خصائص اور اُمت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق وغیرہ کے بیان کے لیے حضرت مولانا نور بخش توکلی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سیرتِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت شیخ  عبدالحق محث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مدارج النبوت اور سیرت کی دیگر کتابوں کا مطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

ارشاداتِ قدسیہ:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ قدسیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ نہ پائے جاتے ہوں۔

۱۔       رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ قیامت کے دن خدا کے نزدیک بندوں میں سے کون سا بندہ زیادہ فضیلت والا اور زیادہ بلند مرتبہ والا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ مرد اور وہ عورت جو ذکرِ خدا زیادہ کرتے ہیں، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا خدا کا ذکر زیادہ کرنے والے راہِ خدا میں جہاد کرنے والے سے زیادہ فضیلت والے اور زیادہ بلند مرتبے والے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غازی اگر اپنی تلوار سے کافروں اور مشرکوں کو قتل کرے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے اور وہ خون آلود ہوجائے، خدا کا ذکر کرنے والا درجہ میں اُس سے بڑھ کر ہوگا۔ (امام احمد و ترمذی)

۲۔       جب تم بہشت کی چراگاہوں میں گزرو، تو چرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ بہشت کی چراگاہیں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذکر کے حلقے۔ (ترمذی)

۳۔      اللہ تعالیٰ کے ایسے فرشتے ہیں جو گلی کوچوں میں پھرتے  ہوئے اہل ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب وہ کسی جماعت کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو یوں پکارتے ہیں ’’اپنے مقصود کی طرف آؤ‘‘ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے اہلِ ذکر کو اپنے بازوؤں سے پہلے آسمان تک گھیر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن فرشتوں سے پوچھتا ہے (حالانکہ وہ  اُن کا حال زیادہ جانتا ہے) کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ تیرے بندے تجھے پاکی، بزرگی اور ثنا اور عظمت سے یاد کرتے ہیں۔ پھر اللہ پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں، اللہ کی قسم انہوں نے تجھے نہیں دیکھا، پھر خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا حال کیسا ہوتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو وہ تیری عبادت میں اور تیری تعظیم کرنے میں سخت تر ہوتے اور تیری تسبیح زیادہ کرتے پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے بہشت مانگتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے بہشت کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں، اللہ کی قسم اے پروردگار انہوں نے بہشت کو نہیں دیکھا پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اگر وہ بہشت کو دیکھ لیتے تو ان کا حال کیسا ہوتا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ بہشت کو دیکھ لیتے تو اُس کی حرص اور طلب میں سخت تر ہوے اور اس کی رغبت زیادہ کرتے، پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں ، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ دوزخ کی آگ سے پھر حق تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے دوزخ کی آگ کو دیکھا ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں اللہ قسم  اے پروردگار، انہوں نے نہیں دیکھا پھر حق تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اگر وہ اُسے دیکھ لیتے تو ان کا حال کیسا ہوتا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ دوزخ کی آگ کو دیکھ لیتے تو اس سے بھاگنے اور ڈرنے میں سخت تر ہوتے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اُن کو بخش دیا۔‘‘ اس پر اُن فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ انمیں سے فلاں شخص ذکر کرنے والوں میں سے نہیں وہ تو کسی کام کے لیے آیا تھا، حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ جماعت ہے کہ اُن کا ہمنشیں محروم نہیں رہتا۔ (امام بخاری)

۴۔      اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوں وہ جو میری نسبت رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے اگر وہ مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگروہ مجھے آدمیوں کی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اُسے اس جماعت سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔ (بخاری و مسلم)

۵۔       قیامت برپا نہ ہوگی یہاں تک کہ زمین میں کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا ۔ (مسلم)

۶۔       افضل ذکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہے اور افضل دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہے۔ (ترمذی و ابن ماجہ)

۷۔      جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔ (مسلم)

۸۔      جب تو نماز مغرب سے لوٹے (یعنی سلام پھیرے) تو کسی سے کلام کرنے سے پہلے  سات بار کہہ لیا کرو اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ (خدایا مجھے دوزخ کی آگ سے پناہ دے) کیونکہ اگرتو یہ کہے اور پھر اُسی رات مرجائے تو تیرے لیے دوزخ کی آگ سے رہائی لکھی جاتی ہے اور جب تو نمازِ صبح ادا کرے تو ان ہی کلمات کو سات مرتبہ کہہ لیا کر، اگر تو اُسی دن مرجائے تو تیرے لیے دوزخ کی آگ سے ربائی لکھی جاتی ہے۔ (ابوداؤد)

۹۔       دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر آسان اور میزانِ اعمال میں بھاری اور خدا کے نزدیک محبوب ہیں یعنی سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔ (بخاری و مسلم)

۱۰۔      یہ کہنا سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ، میرے نزدیک محبوب تر ہے ہر چیز سے جس پر سورج طلوع ہوا ہے۔ (امام مسلم)

۱۱۔       کسی نے کبھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے ۔ (امام بخاری)

۱۲۔      جو شخص صبح کے وقت یوں کہے: اَللّٰھُمَّ مَا اَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃٍ اَوْبَاَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ فَمِنْکَ وَحْدَکَ فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُکْرُ۔ (ترجمہ: یا اللہ! صبح کو میرے پاس یا تیری خلق میں سے کسی کے پاس جو نعمت ہے وہ تجھ تنہا کی طرف سے ہے پس تیرے لیے حمد ہے اور تیرے لیے شکر ہے) اُس نے اُس دن کا شکر ادا کردیا اور جو شخص اسی طرح شام کے وقت کہے: اَللّٰھُمَّ مَا اَمْسِیْ بِیْ مِنْ نِّعْمَۃِ اس نے رات کا شکر ادا کردیا۔ (ابوداؤد)

۱۳۔     جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے لگے تو اس کو چاہیے کہ اپنے بستر کو اپنے تہ بند کے اندرونی حاشیہ کے ساتھ جھاڑے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے بعد کون سی چیز بستر پر پڑی ہے پھر یہ دعا پڑھے: بِاسْمِکَ رَبّیْ وَصَنْعَتُ جَنَبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہٗ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَالحَمْتَھَا وَاِنْ اَرْسَلْتَھَا فَاحْفَطَھَا بِمَا تَحْفَظَ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ (ترجمہ: اے میرے پروردگار! میں نے تیرے نام سے اپنا پہلو (بستر پر) رکھا ہے اور تیرے نام سے اُسے اٹھاؤں گا، اگر تو میری روح کو قبض کرلے تو اس پر رحم کرنا اور اگر تو اُس کو چھوڑ دے تو اُسے نگاہ رکھنا جیسا کہ تو اپنے نیک بندوں کو نگاہ رکھتا ہے) اور ایک روایت میں ہے کہ بستر کو جھاڑ کر اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جائے بعد ازاں یہ دعا آخر تک پڑھے۔ (بخاری و مسلم)

۱۴۔     جو شخص اپنے بستر پر لیٹتے وقت تین بار کہے (اَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ خدا تعالیٰ اُس کے گناہ بخش دیتا ہے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کی مانند ہوں یا صحرا کی ریت کے ذروں کے برابر یا درختوں کے پتوں کے برابر یا دنیا کے دنوں کے برابر۔ (ترمذی)

۱۵۔      حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں غلام اور لونڈیاں آئے ہیں ۔ وہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئیں تاکہ چکی پیسنے کی مشقت سے اپنے ہاتھوں کی تکلیف کا ذکر کرکے ایک لونڈی طلب کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت گھر پر جلوہ افروز نہ تھے، چنانچہ انہوں نے اپنا حال ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف فرما ہوئے، اس وقت ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے حضور اقدس کے قدم مبارک کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیامیں تم  کو اس سے بہتر نہ دوں جس کا تم نے سوال کیا ہے جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو ۳۳ بار سُبْحَانَ اللہ ۳۳ بار اَلْحَمْدُ للہ اور ۳۴ بار اَللہُ اَکْبَر پڑھ لیا کرو یہ تمہارے واسطے لونڈی سے بہتر ہے۔ (بخاری و مسلم)

۱۶۔      اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُلَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ افضل استغفار مندرجہ بالا دعا ہے۔ جو شخص ان کلمات کو دن کے کسی حصہ میں پڑھے اور ان پر یقین کامل رکھے تو اگر وہ اسی شام سے پہلے مر جائے تو وہ اہلِ بہشت میں سے ہوگا۔ اگر رات کے کسی حصے میں پڑھے اور مکمل یقین و اعتقاد رکھتا ہو اور ہو صبح سے پہلے مر جائے تو وہ اہلِ بہشت میں سے ہے۔(امام بخاری)

۱۷۔     جب رات کا آخیر تنہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ’’ ہے کوئی جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں ہے کوئی جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں اور ہے کوئی جو مجھ سے بخشش طلب کرے تاکہ میں اُسے بخش دوں۔ (بخاری و مسلم)

۱۸۔     خوشی ہو اس شخص کو جس نے اپنے نامۂ اعمال میں کثرت سے استغفار پائی۔ (ابن ماجہ و نسائی)

۱۹۔      جس شخص نے کھانا کھانے کے بعد یوں کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنِیْ ھَذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ۔ (ترجمہ: سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر کسی حیلہ وقوت کے یہ کھانا مجھے دیا۔) اُس کے پچھلے اور اگلے صغیرہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور جس شخص نے کپڑا پہن کر کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھَذَا التَّوْبَ وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ۔ اس کے اگلے پچھلے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

۲۰۔     جو شخص ہر روز سو بار پڑھے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ اُس کو دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اور اُس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور سو برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور اُس شام تک اُسے شیطان سے پناہ مل جاتی ہے اس سے بڑھ کر کسی شخص کا افضل عمل نہیں ہے مگر جو اس سے زیادہ عمل کرے۔ (بخاری)

۲۱۔      آدمی زاد کو اِن چیزوں کے سوا اور کسی چیز میں حق نہیں (یعنی قیامت کے دن ان چیزوں کا حساب نہ ہوگا۔) مکان رہنے کے لیے، کپڑا ستر عورت کے لیے، روٹی کا ٹکڑا  اور پانی۔ (ترمذی)

۲۲۔     ہر ایک آدمی کو قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں کھڑا رکھا جائے گا یہاں تک کہ اُس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ پوچھ لیا جائے۔ اُس کی عمر کی بابت کہ کس کام میں بسر کی۔ اس کی جوانی کی بابت کہ کس کام میں بوسیدہ کی۔ اس کے مال کی بابت کہ کہاں سے کمایا اور کس چیز پر اُسے خرچ کیا، اور اپنے علم پر کیا عمل کیا۔ (ترمذی)

۲۳۔     تو دنیا میں اس طرح زندگی گزار کہ گویا مسافر ہے یا راہ گیر۔ (بخاری)

۲۴۔     خدا نے اس مرد کا عذر زائل کردیا جس کی عمر لمبی کردی یہاں تک کہ اُسے ساٹھ سال تک پہنچادیا۔ (بخاری)

۲۵۔     ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس مرد کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں جس نے ایک گروہ کو دوست رکھا اور وہ اُن سے ملا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر انسان قیامت کے دن اُس کے ساتھ اُٹھے گا جس کو اُس نے دوست رکھا ہے (بخاری و مسلم)

۲۶۔     اگر دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے بازو کے برابر وقعت رکھتی تو وہ کسی کافر کو اس کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔ (احمد و ترمذی و ابن ماجہ)

۲۷۔     حلال اور حرام دونوں ظاہر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، جس شخص نے مشتبہات سے پرہیز کیا اس نے اپنا دین اور اپنی آبرو بچالیا ور جو شخص شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا اس چرواہے کی طرح جو اپنے جانور چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے نزدیک ہے کہ وہ چراگاہ کے اندر چرائے، آگاہ  رہو کہ ہر ایک بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے اور آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کے محارم میں ہے، آگاہ رہو کہ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوجاتا ہے تو تمام جسم درست ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو تمام جسم بگڑ جاتا ہے  آگاہ رہو کہ وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری و مسلم)

۲۸۔     مومن کی فراست سے ڈر کیونکہ وہ اللہ کے دیے ہوئے نور سے دیکھتا ہے۔ (ترمذی)

۲۹۔     جب انسان مرجاتا ہے تو اُسے سے اُس کے عمل کا فائدہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا فائدہ منقطع نہیں ہوتا،صدقہ جاریہ، علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے اور نیک فرزند جو  اس کے لیے دعاکرے۔ (مسلم)

۳۰۔     اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرتا ہے اُس کے لیے دس گناہ ثواب ہے اور میں اُس سے زیادہ بھی دیتا ہوں اور جو شخص بدی کرتا ہے اس کا بدلہ ویسی ہی بدی ہے یا میں معاف کردیتا ہوں اور جو شخص مجھ سے ایک بالشت پر نزدیکی ڈھونڈتا ہے میں اُس سے ایک ہاتھ بھر نزدیکی ڈھونڈتا ہوں اور جو شخص میرے پاس چل کر آتا ہے میں اُس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں اور جو شخص بمقدار زمین گناہ لے کر مجھ سے ملتا ہے میں اُس کی مثل مغفرت کے ساتھ اُس سے ملتا ہوں۔ (مسلم)

۳۱۔     اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے میں اُسے لڑائی کی  خبر دیتا ہوں (یعنی وہ شخص مجھے لڑائی کا چیلنج دیتا ہے) اور میرے جس بندے نے میرے نزدیک ہونے کے لیے فرائض سے زیادہ کسی اور چیز کو محبوب نہیں رکھا اور نوافل کی ادائیگی کے ساتھ میری نزدیکی کو تلاش کیا ہے میں اُس کو دوست رکھتا ہوں اور جب میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا (سوال پورا) کردیتا ہوں  اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں اور میں کسی چیز یا کام جس کو میں کرنے والا ہوں ایسا تردد و توقف نہیں کرتا جیسا کہ مومن کی جان قبض کرنے میں توقف کرتا ہوں جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے غمناک کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ (بخاری)

۳۲۔     جو شخص کسی کو مصیبت میں گرفتار دیکھے اور کہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا وہ مصیبت اُس کو نہ پہنچے گی خواہ وہ کوئی مصیبت ہو (ترمذی)

۳۳۔     کلمہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے جن میں سب سےآسان غم ہے ۔ (بیہقی در دعوت کبیر)

۳۴۔     میں نے بہشت کو غور سے دیکھا تو اس کے اہل میں سے بیشتر فقیروں کو دیکھا اور دوزخ کی آگ کو غور سے دیکھا تو اُس کے اہل میں سے اکثر عورتیں دیکھیں۔ (بخاری و مسلم)

۳۵۔     تم میری رضا اُن ضعیفوں اور فقیروں کی رضا میں ڈھونڈو جو تم میں ہیں، کیونکہ تم کو صرف ان ضعیفوں کی برکت سے رزق یا مدد ملتی ہے۔ (ابوداؤد)

۳۶۔     فقراء تونگروں (امیروں) سے پانچ سو سال پہلے بہشت میں داخل ہوں گے (ترمذی)

۳۷۔     جس دن اللہ تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا سات شخص ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے سایہ میں رکھے گا۔ امام عادل، جوان جس نے اپنے پروردگار کی عبادت میں نشوونما پائی۔ وہ مرد جس کا دل مسجدوں سے معلق ہے (یعنی جس کا دل مسجد میں ہی لگتا ہے) وہ مرد جن کی آپس میں محبت صرف اللہ کے  واسطے ہے وہ تمام زندگی اُسی پر اکٹھے رہے اور اُسی پر ہی جدا (فوت) ہوئے۔ وہ مرد جسے ایک خاندانی اور خوبصورت عورت نے دعوتِ گناہ دی مگر اس نے کہا کہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں وہ مرد جس نے چھپا کر صدقہ دیا یہاں تک کہ اس کا بایاں ہاتھ نہیں  جانتا کہ دایاں کیا خرچ کر رہا ہے، وہ مرد جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھوں  سے آنسو زار زار ٹپکنے لگیں (بخاری)

۳۸۔     اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے فلاں بندے کو دوست رکھتا ہے تو بھی اس کو دوست رکھ، بس جبرئیل اس کو دوست رکھتے ہیں پھر جبرائیل آسمان میں پکارتے ہیں کہ اللہ نے فلاں بندے کو دوست رکھا ہے تم بھی اُس کو دوست رکھو، پس آسمان والے اُس کو دوست رکھتے ہیں اور زمین والوں میں بھی اس کی قبولیت پیدا ہوجاتی ہے۔ (بخاری)

۳۹۔     ایک غلام مکاتب (وہ غلام جس سے کچھ معاوضہ لے کر آزاد  کیا جائے) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا کہنے لگا کہ میں اپنے زرِ کتابت سے عاجز ہوں آپ میری مدد فرمائیں، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد کیا کہ میں تجھے وہ کلمات نہ سکھاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائے اگر تجھ پر پہاڑ  جتنا بھی قرض ہو، اللہ تعالیٰ اُسے تجھ سے ادا کردے گا تو یہ پڑھا کر: اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ  وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاک۔ (ترمذی و بیہقی)

۴۰۔     پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، زندگی کو موت سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، فراغتِ وقت کو مشاغلِ دنیا میں مبتلا ہونے سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور تونگری (امیری) کو فقر (غربت) سے پہلے۔ (حاکم و بیہقی)

 

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِ سَیّدنَا وَّمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَھْلِ بَیْتِ سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدِ وَّاَزْوَاجِ سَیّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّذُرِیَّۃ سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاتَباعِ سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ.

 

 (تاریخِ مشائخ نقشبند)

 

سیّدنا ومولانا محمد مصطفےٰ ﷺ

 

حضور امام امام الاولیاء،سرور انبیاء، باعثِ ایجاد عالم، فخر موجودات، محبوب رب العالمین، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، منبع فیض انبیاء ومرسلین، معدن علوم اولین و آخرین، واسطہ ہر فضل و کمال، مظہر ہر حسن و جمال اور خلیفہ مطلق و نائب کل حضرت باری تعالیٰ عز اسمہٗ کے ہیں۔

اول تخلیق:

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کے نور کو پیدا کیا۔ پھر اسی نور کو واسطہ خلق عالم ٹھہرایا۔ عالم ارواح ہی میں اس نور کو خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اسی عالم میں دیگر انبیائے کرام علیہم السلام  کی روحوں سے عہد لیا گیا کہ اگر وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو پائیں تو ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ جیسا کہ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِینَ الآیہ میں مذکورہ ہے۔ اسی واسطے تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دیتے رہے ہیں۔

نور کی منتقلی:

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اپنے حبیب پاک ﷺکا نور ان کی پشت مبارک میں بطور ودیعت رکھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے وہ نور حضرت حواء کے رحم پاک میں منتقل ہوا۔ پھر حضرت حواء سے حضرت شیث علیہ السلام کی پشت میں منتقل ہوا۔ اس طرح یہ نور انور پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل ہوتا ہوا حضور کے والد ماجد حضرت عبداللہ کی پشت مبارک میں منتقل ہوا۔ اور حضرت عبداللہ سے حضرت آمنہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوا۔

نور کی برکت:

اسی نور کی برکت سے حضرت آدم علیہ السلام مسجودِ ملائک بنے۔ ۔ اور اسی نور کے وسیلہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی نور کی برکت سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی غرق ہونے سے بچی۔ اسی نور کی برکت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتشِ نمرود گلزار ہوگئی۔ اسی نور کی برکت سے حضرت ایوب علیہ السلام کی مصیبت دور ہوگئی۔ اور اسی نور کی برکت سے حضرات انبیائے سابقین علیہم السلام پر اللہ تعالیٰ کی عنایات بغایت ہوئیں۔ حضور اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک میں ہی تھے کہ آپ کے والد حضرت عبداللہ نے انتقال فرمایا۔

ولادت نبوی:

آپﷺ کا تولّد شریف سالِ فیل میں ۵۷۱ء میں ہوا۔ اصحاب فیل کا قصہ بقول جمہور نصف ماہ محرم میں تولد شریف سے ۵۵ روز پہلے وقوع میں آیا۔ تولّد شریف کے وقت آپﷺ کے ساتھ ایسا نور نکلا کہ مکّہ مشرّفہ کے رہنے والوں کو ملک شام کے قیصری محل نظر آگئے۔ اور دیگر خوارق مثلاً ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگروں کا گر پڑنا۔ آتش ِفارس کا بجھ جانا۔ بحیر ہ ساوہ کا خشک ہوجانا اور وادی سما وہ کی ندی کا لبالب بہنا وغیرہ وقوع میں آئے۔

بچپن کے واقعات:

سب سے پہلے آپ ﷺکو آپ کی والدہ ماجدہ نے کئی دن دودھ پلایا۔ پھر آپ نے چند روز ابولہب کی آزاد کی ہوئی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا۔ بعد ازاں حلیمہ سعدیہ آپ کو اپنے قبیلے میں لے گئیں۔ وہیں پہلی بار حضور کا شق صدر ہوا۔ دوسرا شق صدر دس برس کی عمر شریف میں اور تیسرا غارِ حراء میں بعثت کے وقت اور چوتھا شب معراج میں ہوا۔ جب آپ ﷺکی عمر شریف چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ انتقال فرماگئیں۔ اور آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی پرورش کے کفیل ہوئے۔ جب آٹھ سال کے ہوئے تو عبدالمطلب  نے بھی وفات پائی۔ پھر حضور اپنے چچا ابوطالب کے ہاں پرورش پاتے رہے۔ بارہ سال کی عمر   شریف میں آپ ابوطالب کے ساتھ ملک شام کو تشریف لے گئے۔ اس سفر میں بحیرہ راہب نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ یہ رسول رب العالمین ہیں۔ چودہ سال کی عمر میں آپ ﷺنے اپنے چچاؤں کے ساتھ حربِِ فجّار میں شرکت فرمائی۔ پچیس سال کی عمر شریف میں آپﷺ حضرت خدیجہ کی طرف سے بغرض تجارت شام کو تشریف لے گئے۔ اس سفر میں نسطور راہپ نے آپ کی نسبت کہا کہ یہ آخر الانبیاء ہیں۔ اس سفر سے واپسی کے قریباً تین ماہ بعد حضورﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوگیا۔ جب آپ کی عمر مبارک ۳۵ سال کی ہوئی تو قریش نے عمارت کعبہ کو ازسرِ نو بنایا۔ اس تعمیر میں حضور ﷺبھی شریک تھے۔ اور اپنے چچا حضرت عباس کے ساتھ کندھے پر پتھر اٹھاکر لا رہے تھے۔

خفیہ دعوت اسلام:

جب عمر مبارک چالیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اعلان نبوت کا دیا۔ چنانچہ آپ ﷺخفیہ طور پر چند لوگوں کو دعوت اسلام دینے لگے۔ اس دعوت پر کئی مرد و زن آپ پر ایمان لائے۔ چنانچہ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ۔ لڑکوں میں حضرت علیؓ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا۔ آزاد کیے ہوئے غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ ؓاور غلاموں میں حضرت بلال ؓہیں۔

اعلان نبوت:

خفیہ دعوت کے تین سال بعد اعلانیہ دعوت کا حکم آیا۔ تبلیغ علی الاعلان پر قریش برا فروختہ ہوگئے اور آپﷺ کو اور آپ کے اصحاب کو اذیت دیتے رہے۔ نبوت کے پانچویں سال حضور ﷺنے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے جو چاہیں ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں۔ چنانچہ پہلے پہل گیارہ مردوں اور چار عورتوں نے ہجرت کی ۔ نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ ؓایمان لائے اور ان کےتین دن بعد حضرت عمر فاروق ؓبھی مشرف باسلام ہوئے۔ اسلام کی ترقی پر قریش مسلمانوں کو اور ایذا دینے لگے۔ اس لیے ۸۳ مرد اور ۱۸ عورتوں نے دوسری بار حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ قریش نے نجاشی کے پاس اپنی سفارت بھیجی کہ مہاجرین کو واپس کردو۔ مگر وہ سفارت بے نیل مرام واپس آئی۔ اس لیے قریش نے اب بالاتفاق یہ قرار دیا کہ (حضرت) محمد ﷺکو اعلانیہ قتل کردیا جائے۔ بنو ہاشم و بنو مطلب حضور ﷺ کو بغرض حفاظت شعب ابی طالب میں لے گئے۔ اس پر قریش نے بنو ہاشم و بنو مطلب سے مقاطعہ کردیا تاکہ تنگ آکر حضورﷺ کو ان کے حوالہ کردیں۔ اور اس بارے میں ایک تحریری معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ کی چھت میں لٹکادیا۔ قریش نے نہایت سختی سےا س معاہدہ کی پابندی کی۔ تین سال کے بعد حضور ﷺنے خبر دی کہ اس معاہدہ کو دیمک چاٹ گئی ہے اور سوائے اللہ کے نام کے کچھ نہیں چھوڑا۔ جب معاہدہ کو دیکھا گیا تو حضور کا ارشاد صحیح نکلا۔ مگر مخالفین بجائے روبراہ ہونے کے اور درپے ایذا ہوگئے۔ ماہ رمضان ۱۰ نبوت میں ابو طالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے تین دن بعد خدیجۃ الکبریٰ نے بھی انتقال فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پریشانی کی حالت میں طائف کا سفر کیا۔ مگر اشراف ثقیف نے آپ کی دعوت کا بری طرح سے جواب دیا۔ اور واپسی پر اس قدر پتھر برسائے کہ نعلین شریفین خون آلودہ ہوگئیں۔

واقعہ معراج:

آپ کی عادت شریفہ تھی کہ ہر سال موسم حج میں تمام قبائل عرب کو جو مکہ اور نواح مکہ میں موجود ہوتےدعوت اسلام دیا کرتے تھے اور میلوں میں بھی اسی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ نبوت کے گیارہویں سال آپ نے حسبِ عادت منیٰ میں عقبہ کے نزدیک جہاں اب مسجد عقبہ ہے۔ قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کو دعوت اسلام دی۔ وہ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے مدینہ میں اپنے بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس لیے آئندہ سال بارہ مرد ایام حج میں مکہ میں آئے اور حضور ﷺکے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ بقول مشہور اسی سال ماہ رجب کی ستائیسویں رات حضور کو حالت بیداری میں جسد شریف کے ساتھ معراج ہوا اور پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ نبوت کے تیرہویں سال انصار میں سے ۷۳ مرد اور عورتوں نے حضور ﷺکی بیعت کی۔

ہجرت مدینہ:

قریش کی ایذاء رسانی سے اب مسلمانوں کا قیام مکہ میں دشوار ہوگیا۔ اس لیے حضور ﷺکی اجازت سے صحابہ کرام متفرق طور پر رفتہ رفتہ چوری چھپے ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ اور مکہ میں حضورﷺ کے علاوہ حضرات ابوبکر ؓو علی ؓاور کچھ بیمار و دعا      رہ گئے۔

قریش نے جب دیکھا کہ آنحضرت ﷺکے مددگار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہوگئے ہیں۔ تو وہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی وہاں چلے جائیں اور اپنے مددگاروں کو ساتھ لے کر مکہ پر حملہ آور ہوں۔ اس لیے انہوں نے دارالندوہ میں جمع ہوکر شیخ نجدی کے مشورہ سے یہ قرار دیا کہ رات کو حضور ﷺ کو قتل کردیا جائے۔ حضور کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ کفار نے حسب قرار داد رات ہوتے ہی حضورﷺ کے دولتخانہ کو گھیرلیا۔ آپ نے حضرت علی ؓکو ا پنے بستر پر چھوڑا اور ایک مشت خاک لے کر سورہ یٰسین شریف کی شروع کی آیات پڑھ کر کفار پر پھینک دی۔ کفار کو کچھ نظرنہ آیا اور آپ وہاں سے نکل کر حضرت صدیق اکبر ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ تین رات غار ثور میں رہے۔ قدید کے قریب سراقہ بن مالک  آپ کے تعاقب میں آیا۔ آپ کی دعاء سے اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا۔ اور وہ معافی مانگ کر واپس چلا آیا۔ قدید ہی میں حضور ﷺ کا گزر امِّ مَعبد کے خیمہ پر ہوا۔

مسجد قباء کی بنیاد:

رسول اللہ ﷺقباء میں ۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے دن پہنچے۔ یہی تاریخ اسلامی کی ابتداء ہے۔ آپ نے قبا میں مسجد قباء کی بنیاد ڈالی۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ مدینہ میں آپﷺ  کی تشریف آوری سے مسلمانوں کو جو خوشی ہوئی وہ بیان نہیں ہوسکتی۔ آپ ﷺ نے حضرت ابوایوب انصاری ؓکے مکان پر قیام فرمایا۔ اسی سال مسجد نبوی۔ ازواج مطہرات کے لیے حجرے اور مہاجرین کے لیے مکانات بن کر تیار ہوگئے۔ اذان مشروع ہوگئی۔ حضور ﷺنے اپنے اصحاب کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔

غزوات کا آغاز:

ہجرت کے دوسرے سال قبلۂ  نماز  بجائے بیت المقدس کے کعبہ شریف ہوگیا۔ رمضان شریف کے روزے فرض ہوگئے۔ اور غزوات و سرایا کا آغاز ہوا۔ غزوات تعداد میں ۲۷ ہیں اور سرایا ۴۷۔ بڑے بڑے غزوات جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے سات ہیں۔ بدر، احد، خندق، خیبر، فتح مکہ، حنین، تبوک۔ جن غزوات میں حضور  اقدس ﷺ  نے قتال فرمایا وہ یہ ہیں۔ بدر ، احد، خندق، مصطلق، خیبر، فتح مکہ، حنین، طائف۔  غزوات میں سب سے اخیر غزوہ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں تھا۔

حکمرانوں کے نام خطوط:

ہجرت کے ساتویں سال کے شروع میں آنحضرت ﷺنے والیان ملک (قیصر و کسریٰ و نجاشی وغیرہ) کے نام دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے۔ اور ۹ھ میں غزوہ تبوک سے واپسی پر مسجد ضرار جو منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی تھی آپ کے حکم سے جلادی گئی۔

سالِ وفود:

اسی سال وفود ِعرب ،د ربارِرسالت میں اس کثرت سے حاضر ہوئے کہ اسے سالِ وفود کہا جاتا ہے۔یہ وفود بالعموم نعمت ایمان سےمالا مال ہوکر واپس گئے۔ ۱۰ھ میں بھی وفود عرب خدمت اقدس میں حاضر ہوتے رہے۔ اہل یمن و ملوک حمیرا ایمان لائے۔ اور رسول اللہ ﷺنے آخری حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔

وصال مبارک:

آنحضرت ﷺکی بعثت کے وقت تمام دنیا بالخصوص عرب پر حد سے زیادہ جہالت و گمراہی چھائی ہوئی تھی۔ ان کی اخلاقی و مذہبی پستی حد غایت کو پہنچی ہوئی تھی۔ موافق و مخالف سب کو معلوم ہے کہ حضور ﷺامی تھے۔ امیوں میں آپ ﷺنے پرورش پائی۔ کسی سے تعلّم و تلمّذ نہ کیا اور نہ لکھنا پڑھنا سیکھا۔ مگر آپ ﷺنے بتعلیم الٰہی اپنے اصحاب کرام کو وہ تعلیم روحانی دی کہ وہ معارف ربانی کے عارف اور اسرار فرقانی کے ماہر بن گئے۔ جس کسی نے دولت ایمان سے سرفراز ہوکر کچھ وقت بھی شرف ملازمت حاصل کرلیا۔ وہی عالم ربانی، اور عارف ِیزدانی بن گیا۔ آپ کی صحبت میں صحابہ کرام میں سے ہر ایک کو نسبت خاصہ اور قوت قدسیہ مبدأ فیاض سے عطا ہوگئی۔ قصہ کوتاہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام کو اسلام و ایمان اور احسان سے مالا مال کرکے اور سچے دین  کے ظاہری و باطنی علوم سکھاکر ماہ ربیع الاول ۱۱ھ میں دو شنبہ کے دن الرفیق الاعلیٰ پکارتے ہوئے اعلیٰ  علیین قرب العالمین میں تشریف لے گئے۔ علیہ وعلیٰ الہ واصحابہ افضل الصلوات واکمل التحیات۔ مگر حضور سراپا نور رحمۃ للعالمین ﷺحیات  ہیں۔ قیامت تک حضورﷺ  کی امت مرحومہ کو حضور سے وہی فیضان بواسطہ خواص امت علمائے کرام و صوفیہ عظام پہنچتا رہے گا جو حضورﷺ کی ظاہری زندگی میں  پہنچتا تھا۔ حضور ﷺکی امت میں وقتاً فوقتاً اولیاء، و صلحاء پیدا ہوتے رہیں گے۔ اور ان اولیائے کرام کے ذریعے حضور ختم المرسلین رحمۃ اللعالمین ﷺ کی نبوت کی تصدیق ہوتی رہے گی۔ چنانچہ حضرت امام وقت سیدنا مخدوم علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں یوں فرماتےہیں:

‘‘خداوند تعالیٰ برہان نبوی را تا امروز باقی گردانیدہ است و اولیاء را سبب اظہار آں کردہ۔ تاپیوستہ آیاتِ حق و حجت صدق  سیدنا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر مے باشند۔ ومرایشاں راوالیان عالم گردانیدہ تا محرم وے گشتہ اندو راہ متابعت نفس رادر نوشتہ از آسمان باراں برکت اقدام ایساں آید۔ واز زمین نباتات ببر کات صفائی احوال ایشاں روید’’۔

میرے پیر دستگیر حضرت خواجہ انبالوی روحی و قلبی فداہ فرماتے ہیں:

حقیقت محمدیہ کا تعلق جس طرح ذات رسول اللہﷺ کے ساتھ حیات میں تھا بعینہ  وہی تعلق اب بعد وصال بھی بدن مبارک کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دین کو کئی نہیں بدل سکتا۔ اور جس طرح حضور پر نور کی حیات میں آپ کے تصرفات جاری تھے ویسے ہی اب بھی جاری ہیں۔ یہی معنی ہیں حیات النبی ﷺہونے کے اور اسی وجہ سے قطب ،و غوث ،ابدال ،اوتاد وغیرہ رسول اللہ ﷺکی امت میں ہوتے رہیں گے۔‘‘ (ذکر خیر)۔

فقیر توکلی نے یہاں بطور تبرک حضور اقدس ﷺکے عہد مبارک کے چند بڑے بڑے واقعات کی نہایت مختصر سی فہرست پیش  کردی ہے۔ ان واقعات کی تفصیل اور حضور انورﷺکے خلقِ عظیم ،و حلیہ شریف، و معجزات ،و مناقب، و خصائص  ،اور امت پر حضورﷺ  کے حقوق وغیرہ کے بیان کے لیے ایک علیحدہ کتاب موسوم بہ ’’سیرتِ رسولِ عربی‘‘ﷺ لکھی ہے۔ جو چھپ چکی ہے۔ اس کا مطالعہ مسلمانوں کے ہر طبقہ کے لیے ضروریات سے ہے۔

ارشاداتِ عالیہ:

حضور اقدس ﷺکے ارشادات قدسیہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق آپ کے ارشادات قدسیہ نہ پائے جاتے ہوں۔ نظر برمضمون کتاب بغرض ترغیب اربعین صوفیہ اس کتاب کے اخیر میں درج ہیں۔  اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی اٰل سیدنا ومولانا محمد واصحاب سیدنا ومولانا محمد اھل بیت سیدنا ومولانا محمدوازواج سیدنا ومولانا محمد وذریۃ سیدنا ومولانا محمد واتباع سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم۔

(مشائخِ نقشبند)


متعلقہ

تجویزوآراء