حضرت خواجہ امام علی شاہ

حضرت خواجہ امام علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 

ولادت باسعادت:

آپ کی ولادت باسعادت ۱۲۱۲ھ میں ضلع گوردا سپور کے موضع رتڑ چھتر کے علاقہ مکان شریف میں ہوئی آپ کا تعلق خالصتاً دینی گھرانے سے تھا آپ کے والد محترم سید حیدر علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عابد و زاہد بزرگ تھے۔

تعلیم و تربیت:

حضرت خواجہ امام علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے والد محترم کے زیر سایہ ابتدائی تعلیم حاصل کی ابھی آپ کمسن ہی تھے کہ والد ماجد کا وصال ہوگیا اُس وقت تک آپ نے مولانا فقیر اللہ دین کوٹی سے بعض فارسی کی کتب پڑھ لی تھیں پھر آپ نے مزید تعلیم کے حصول کی غرض سے حافظ محمد رضا اور مولانا نور محمد کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور ان سے درسی کتب پڑھیں اور طب کی کتب سے بھی استفادہ کیا آپ کا ذہن تعلیم حاصل کرنے کے دوران خوب روشن تھا اس لیے سب طالب علموں سے زیادہ ذہین اور لائق سمجھے جاتے تھے ایک مرتبہ حضرت شاہ حسین بھورے والا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کے چہرۂ مبارک کی طرف غور سے توجہ فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے نورانی انوار اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے دریافت فرمایا کہ بیٹا! کون سی کتاب پڑھتے ہو؟ ابھی آپ جواب دینا ہی چاہتے تھے کہ ارشاد فرمایا مثنوی شریف پڑھا کرو کہ اس سے عمل و اعتقاد میں پختگی اور قلب کی صفائی اور روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے اس پر آپ نے مثنوی شریف کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اگلے روز حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کو بلایا اور مثنوی شریف کے تین اشعار کی شرح اس انداز سے فرمائی کہ آپ کے دل پر اس کا بہت اثر ہوا اور آپ نے پھر باقاعدہ طور پر حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مثنوی شریف کا درس لینا شروع کردیا۔

باطنی علوم کا حصول اور بیعت:

چونکہ آپ کی بیعت روحانیت کی طرف مائل تھی اس لیے باطنی علوم کے حصول کی شدید خواہش بھی رکھتے تھے اپنے استاد محترم حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہمراہ سفر بھی کرچکے تھے اور دوران سفر بہت سے عجائبات اور مکشوفات بھی ملاحظہ کیے تھے چنانچہ سولہ برس کی عمر میں حضرت شاہ حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوگئے اپنے مرشد کی تعلیمات و ارشادات پر عمل کرنے میں پیش پیش رہتے تھے مرشد نے آپ کو جو اوراد و وظائف بتائے اُس پر کار بندرہے اور جلد ہی سلوک وعرفان کی منازل طے کرلیں۔

عبادت و مجاہدہ:

عبادت و ریاضت میں آپ سکون محسوس کرتے تھے اور بڑی توجہ و یکسوئی سے اللہ رب العزت کی عبادت میں مشغول رہا کرتے اللہ رب العزت کا آپ پر خصوصی فضل و کرم تھا آپ کی نگاہ کاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاثیر رکھی تھی کہ بہت سے طالبان حق آپ کی ایک ہی توجہ سے اپنی مراد پالیتے تھے اور اُس مقام پر ان کی رسائی ہوجاتی تھی کہ جس کا حصول برسوں کے مجاہدے اور اللہ کریم کی  عنایت کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے آپ کا معمول تھا کہ آپ روزانہ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد مکان شریف سے باہر دو میل کے فاصلے پر واقع ایک تالاب کے کنارے پر تشریف لے جاتے یہ جگہ ڈھولی ڈھاب کے نام سے مشہور ہے اس جگہ پر آپ کو انتہائی اور یکسوئی میسر ہوتی تھی اور آپ فجر تک پانی کے کنارے مراقبہ کی حالت میں بیٹھے رہتے غرض یہ کہ آپ نے عبادت و ریاضت اور مجاہدے کرنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھا اور خلق خدا کی رہنمائی اور ہدایت بھی فرماتے رہے۔

کرامات:

آپ مستجاب الدعوات اور صاحب کرامت ولی اللہ تھے آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا آپ کی کرامات کی برکت سے بہت سے لوگوں کو فوائد حاصل ہوئے ذیل میں آپ کی چند کرامات کا بیان اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

اونٹ تندرست ہوگیا:

آپ کی ایک کرامت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا عبد الرحیم کلانوری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں ایک اونٹ والا حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرا اونٹ اچانک شدید بیمار ہوگیا ہے اور اس کی بیماری کسی طرح ٹھیک نہیں ہو رہی میں غریب آدمی ہوں اور یہ اونٹ میری روزی کا ذریعہ و وسیلہ ہے آپ نے اونٹ والے کی طرف دیکھا اور فرمایا، تیرا اونٹ تو بالکل ٹھیک ہے۔ اُس نے عرض کی حضور! اگر میرا اونٹ ٹھیک ہوتا تو مَیں کیوں آپ کو تکلیف دیتا آپ نے دوبارہ فرمایا کہ تیرا اُونٹ باکل تندرس ہے اُس شخص نے پھر عرض کیا کہ حضور! میرا اونٹ باہر کھڑا ہے اور شدید بیمار ہے آپ خود چل کریکھ لیں۔ اس دہلیز پر کھڑے ہوکر حاضرین جو وہاں پر موجود تھے ان سے فرمایا کہ جاکر دیکھو کیا اونٹ بیمار ہے؟ لوگوں نے اونٹ کی طرف دیکھا اور اونٹ والے نے بھی اونٹ کے پاس جاکر دیکھا کہ اونٹ بالکل تندرست حالت میں ہے اور اسے کوئی بیماری لاحق نہیں ہے یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔

سوزش اور جلن دور ہوگئی:

غیر مسلم بھی آپ کی کرامات کے قائل تھے چنانچہ بہت سے غیر مسلم بھی آپ کے درِ اقدس پر حاضر ہوکر اپنی پریشانی دورکرنے کی درخواست کرتے تھے ایک مرتبہ ایک ہندو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کے جسم پر برسوں سے جلن اور سوزش کا عارضہ تھا اور کسی بھی طرح اس کو افاقہ نہ ہوتا تھا جسم پر جلن ہوتے رہنے کی وجہ سے کافور ملتا رہتا تھا تاکہ اسے کچھ سکون مل جائے مگر پھر بھی اس کی بے چینی ختم نہ ہوتی تھی اُس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس کے بدن پر آگ لگی ہوئی ہو اپنی اس تکلیف کے ساتھ وہ ہندو آیا اور عرض کی کہ میں حضور کا نام سُن کر خدمت میں حاضر ہوا ہوں بہت مجبور اور پریشان حال ہوں تکلیف اتنی ہے کہ برداشت نہیں ہوتی آپ اُس وقت وضو فرما رہے تھے جب وضو سے فارغ ہوئے تو اپنا گیلا ہاتھ اس شخص کے جسم پر پھیر دیا ہاتھ مبارک کی برکت سے اُس کو لاحق عارضہ ختم ہوگیا اللہ رب العزت نے اس شخص کو شفا دے دی اور پھر کبھی اُس بیماری نے اس پر حملہ نہ کیا۔

بیماری سے شفا ہوگئی:

حضرت خواجہ امام علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک مرید بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اس قدر شدید بیمار ہوا کہ کسی بھی طرح بیماری میں افاقہ نہ ہوا۔ ضعف اور کمزوری اس حد تک واقع ہوگئی کہ میرے گھر والے اور میں زندگی سے مایوس ہوگئے روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہ دیتی تھی کہ مجھ پر کمزوری کے باعث غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اسی اثناء میں مَیں نے دیکھا حضور تشریف لائے ہیں اور آپ کا چہرہ انور اس قدر روشن تھا کہ جس کی چمک سے سارا گھر روشن ہوگیا آپ کی زیارت کی سعادت حاصل ہوتے ہی مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ میں گویا وجد میں آگیا اور مجھے ہوش نہ رہا مجھے جب کچھ ہوش آیا تو میں نے چاہا کہ میں اُٹھ کر آپ کی قدم بوسی کی سعادت بھی حاصل کروں تو آپ نے فرمایا کہ ابھی لیٹے رہو اور تسلی رکھو کہ اللہ رب العزت نے تیری بیماری کو ختم کردیا ہے جب میں خواب سے بیدار ہوا تو مجھے اپنے جسم میں طاقت و قوت محسوس ہوئی اور اسی دن سے بیماری بھی ختم ہوگئی اور میں شفا یاب ہوگیا۔

قتل ہونے سے بچالیا:

آپ کے ایک مرید حضرت میاں صاحب مظہر جمال بیان کرتے ہیں کہ میں فوج میں ملازمت کرتا تھا اور جس دِن حضرت شاہ بلاول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار مبارک کے متصل مقام پر شیر سنگھ کو قتل کیا گیا تو اتفاق سے وہاں پر میں اور میرا ایک ساتھی موجود تھے موقع و اردات پر ہم اس قدر ڈرے کہ خوفزدہ ہوکر زینہ کے راستے اوپر چڑھے گئے اچانک میں نے دیکھا کہ ہمارے تعاقب میں دو افراد برہنہ تلواریں لے کر دوڑتے ہوئے آرہے ہیں اب ہمارے لیے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا یقین ہوگیا کہ موت یقینی ہے اس حالت میں مجھ پر استغراق کی کیفیت طاری ہو گئی اور تلوار والا شخص تلوار اُٹھا کر مجھ پر وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ اسی اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ حضور قبلہ شریف لائے ہیں اور انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُوپر اُٹھالیا ہے جب کہ مجھے اپنے آپ میں کوئی حرکت محسوس نہیں ہوئی مگر ہوا یہ کہ ناگاہ کیا دیکھتا ہوں میں حضرت خواجہ سعید صاحب کے گنبد میں بیٹھا ہوا ہوں یہ دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا اور مجھے یہ یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ حضور قبلہ صاحب کے تصرف کی برکت سے ہوا ہے چنانچہ میں نے اسی روز سے ملازمت چھوڑ دی اور آپ کی خدمت میں عمر گزارنے کا ارادہ کرلیا۔

بیٹے کی ولادت کی خوشخبری:

ایک مرتبہ ایک زمیندار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی درد زہ میں مبتلا ہے اور تکلیف کی شدت سے قریب المرگ ہے جب کہ بچے کی ولادت نہیں ہو رہی۔ آپ نے فرمایا تمہیں مبارک ہو تمہارے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے وہ زمیندار خوش خوش واپس اپنے گھر گیا تو واقعی اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تھی اور اس کی بیوی خوش و خرم بیٹھی ہوئی تھی۔

نگاہ کامل کا اثر:

ایک مرتبہ ایک شخص نارائن سنگھ کو ستر برس کی عمر میں فالج کا عارضہ لاحق ہوگیا کافی دولت مند شخص تھا اس لیے ہر طرح علاج معالجہ کی کوشش کی مگر بیماری کا خاتمہ نہ ہوا اُس کے گھر والے اس کی چار پائی اُٹھا کر آپ کی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوئے نارائن سنگھ فالج کی بیماری کی وجہ سے حرکت نہ کرسکتا تھا اور کافی مدت سے چار پائی پر ہی پڑا ہوا تھا آپ نے اس کی طرف ایک ہی نگاہ ڈالی تھی کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور حرکت کرنے لگا سات دن تک آپ کی خدمت عالیہ میں مکان شریف میں رہا اور اسے مرض سے مکمل طور پر نجات حاصل ہوگئی آپ کی اس کرامت کا اس کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اس نے کلمہ شہادت پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور آپ کے حلقہ ارادت میں شمولیت اختیار کرلی کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگوں نے اسے سردی کے موسم میں دیکھا کہ شیرہ کاسنی میں شکنجبین ملا کر پی رہا تھا اس نے بتایا کہ جس دن سے حضور کی نگاہ کامل کا مجھ پر اثر ہوا ہے میری یہ حالت ہے کہ ٹھنڈی اشیاء کے استعمال کے بغیر سکون نہیں آتا اور پھر اس نے اپنے باطنی حالات کی جوکیفیت بیان کی اُس کو احاطہ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ بلاشبہ یہ آپ کی کرامت کی بدولت ہی تھا۔

ارشادات عالیہ:

حضرت خواجہ امام علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ارشادات عالیہ راہِ حق کی طرف رہنمائی کے لیے مشعل راہ ہیں اور زندگی گزارنے کا قرینہ سکھاتے ہیں دین و دنیا کامیابی کے لیے مددگار ہیں چنانچہ فرماتے ہیں۔

۱۔       مرید کو چاہیے کہ دین یا دنیا کا کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل مرشد سے اجازت ضروری حاصل کرے یہاں تک کہ کھانا پینا، سونا جاگنا، لباس پہننا اور چلنا پھرنا مرشد کے حکم مطابق ہو۔ علاوہ ازیں عبادات میں سے نفل نماز روزہ تلاوت قرآن حکیم مرشد کے حکم کے مطابق عمل میں لاوے۔ یہاں تک کہ اگر مرشد کامل مرید کو حکم دے کہ ذکر و شغل اور مراقبہ کے سوا صرف فرض نمازوں پر اختصار کرے تو واجب جانے۔

۲۔       فرماتے ہیں توبہ ہر شخص پر واجب ہے اور عوام کی توبہ ممنوعہ چیزوں سے باز رہنا اور گناہوں سے بچنا ہے جب کہ خواص کی توبہ اپنی حالت کی نگہداشت ہے۔

۳۔      توبہ اس طرح کی جائے کہ توبہ کے بعد گناہ کا خیال بھی دل میں نہ آئے توبہ کے بعد ایک صغیر گناہ کرنا توبہ کے پہلے ستر گناہوں سے بدتر ہے کیوں کہ بعد گناہ کرنا ایک توبہ کا توڑنا اور معاہدہ کی شکستگی ہے اور عہد کا توڑنا بلا کے نزول کا سبب اور مسخ ہونے کا باعث ہے۔ نقص توبہ سے بعض اوقات ایسی بلائیں اور آفات ظاہری و باطنی نازل ہوتی ہیں کہ معاذ اللہ ان سے خلاصی ہی مشکل ہوجاتی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُمتوں کے قصے مشہور ہیں اور قرآن حکیم میں بھی مذکور ہیں۔

۴۔      فرماتے ہیں کہ چونکہ اس امت میں جسم یا چہرے کا مسخ ہونا اللہ رب العزت نے روا نہیں رکھا اس لیے توبہ کے توڑنے سے اِن لوگوں کے دل مسخ ہوجاتے ہیں اور بار بار توبہ کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔

۵۔       تمام عبادات کا مغز اور مقصود اللہ رب العزت کا ذکر ہے پس مرید کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حالت میں ذکر سے غافل نہ رہے نماز دین کا ستون ہے اور مقصود اس سے بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

۶۔       مرید کو چاہیے کہ شیخ کی مجلس میں اگر کوئی تذکرہ یا کلام شروع ہوتو وہ شیخ کا کلام سُننے کے لیے دل و جان سے کان لگا کر متوجہ اور حاضر رہے اور جو کچھ شیخ ارشاد فرمائے اس سے استفادہ حاصل کرے شیخ کی مجلس میں کبھی بغیر امر کے سبقت کلام کی دلیری نہ کرے۔

۷۔      مرید وہ ہے کہ جس میں حسبِ ذیل اوصاف موجود ہوں محبت اور شوق کی آگ اس کی نفسانی خواہشات کو جلا دے اور محبت کا درد اس کے دل کو بے قرار رکھے جب صبح کو اُٹھے تو حسرت اور افسوس کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں ہمیشہ عاجزی اور ناکامی اس کا شعار اور عادت ہو، گزشتہ زمانہ کے اعمال سے ہمیشہ شرمندہ رہے اور آئیندہ سے ہمیشہ ڈرتا رہے نیک کاموں کے لیے تقسیم اوقات کی پابندی کرے جو مصیبتیں تکالیف اور سختیاں پہنچیں صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھے اپنے قصور کا اقرار کرتا رہے اور کوئی سانس ذکر الٰہی کے بغیر ضائع نہ ہو کیا خبر کہ وہی سانس آخری ہو اور جو سانس غفلت سے گزرے اُس کو مردہ شمار کرتے ہیں۔

۸۔      مرید کے لیے پیر کی صحبت اور حضوری تریاق اکسیر ہے ایک ساعت شیخ کامل کی صحبت میں حاضر رہنا ہزار سال کی خلوت و عزلت سے بہتر ہے کیونکہ مرید کو اللہ رب العزت کی بارگاہ اقدس سے اس لیے براہ راست فیض حاصل نہیں ہوتا کہ مرید میں اربعہ عناصر اور شہوات نفسانی مانع ہوتے ہیں اور شیخ ان منازل سےگزر کر واصل بحق ہوچکا ہوتا ہے اس کے وسیلہ سے فیض یاب ہونا یقینی ہوتا ہے اس لیے شیخ کی نسبت ہر دو طرف ہوتی ہے پس مرید کو چاہیے کہ اپنے مرشد کے ارشاد کی تعمیل کو دین و دنیا کی بہتری کا سبب جانے اگر حضوری میں ہو تو نسبت سے فیض یاب ہونا غنیمت جانے اور اگر صحبت سے دور ہو تو ارشاد کی تعمیل میں کوشش کرے اور ذکر و مراقبہ کی حالت میں تصور کے طریقہ سے صحبت حاصل کرے اور سوتے جاگتے کھاتے پیتے چلتے پھرتے حتی کہ کسی حالت میں ذکر سے غفلت نہ کرے۔

۹۔       ذکر الٰہی کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور ذاکر کا دل ذکر کی برکت اور نوارنیت کی وجہ سے ماسویٰ سے پاک ہوجاتا ہے جو عبادات کا اصل مقصود ہے اس لیے سوائے فرائض کے مرید کو چاہیے کہ باقی سب اوراد و اشغال پر ذکر کو ترجیح دے اور ہمیشہ ذکر میں مشغول رہے تاکہ اللہ رب العزت ذکر کی برکت سے دین و دنیا کے مقاصد میں کامیاب کرے۔

۱۰۔      مرید کو ہر حالت میں متوکل رہنا چاہیے کام کاج میں مشغول رہے بیکار نہ بیٹھے لیکن رازق پرور دگار کو سمجھے بلکہ یہ خیال رہے کہ اللہ رب العزت مقدر کا رزق ہر حالت میں پہنچاتا ہے روزی کے لیے فرمان باری تعالیٰ کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑٗے کیونکہ مقدر سے زیادہ رزق ملنا محال بلکہ ناممکن ہے اور نافرمانی کی وجہ سے دو جہان کی خرابی میں مبتلا ہونا یقینی ہے پس چاہیے کہ یقین کو چھوڑ کر موہوم کے لیے مصیبت میں مبتلا نہ ہوئے۔

۱۱۔      جس چیز کو پیر مکروہ جانتا ہے اور ہر اُس چیز سے کہ جس سے پیر کو نفرت ہو اُس سے پرہیز کرے اگرچہ وہ اُس کو محبوب ہی ہو چاہیے اس میں اپنا فائدہ دیکھے اور جن کاموں کو پیر کرتا ہے پیر کی اجازت کے بغیر مرید کو نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ مبتدی ہے اور شیخ منتہی ہے مبتدی بمنزلہ بیمار کے لیے اور منتہی بمنزلہ تندرست کے ہوتا ہے۔ تندرست جو چیز کھا سکتا ہے بیمار کو اکثر ان چیزوں سے پرہیز ہوتا ہے پیر کی مجلس میں کبھی اوراد و وظائف و نوافل کے ساتھ مشغول نہ ہونا چاہیے اور ہمہ تن پیر کے آداب اور نسبت کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کیونکہ بقول مولانا روم۔؎

یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء

۱۲۔      مرید کے دل میں اپنے شیخ کا ادب اس درجہ تک چاہیے کہ شیخ کی مجالس میں بغیر اجازت بات نہ کرے۔ شیخ کی طرف بے باکانہ نظر سے نہ دیکھے دنیا کی ہر چیز سے شیخ کی محبت اِس کے دل میں زیادہ ہو کیونکہ جس شخص کی زبان یا کسی اعضاء سے شیخ کے ادب کے خلاف کوئی فعل یا کلام سر زد ہو یا مرید کے دل میں شیخ کے اور آداب کے خلاف خیال بھی پیدا ہو تو وہ مرید منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔

۱۳۔     پیر کامل کی صحبت میں جب مرید پیر کی طرف متوجہ ہوکر ہر شغل سے فارغ ہوکر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیض اور انوار پیر پر نازل ہوتے ہیں وہی انوار مرید پر بھی چمکتے ہیں۔

۱۴۔     مرید کو چاہیے کہ جب بھی کبھی پیر کی خدمت میں کوئی عرض کرنے یا کسی دینوی یا دینی حاجت کے بیان کرنے کی ضرورت ہو تو وقت کا خیال رکھے اور جس وقت پیر کو فارغ معلوم کرے اور اپنی طرف متوجہ پائے تو پھر عرض کرے کیونکہ ایسے وقت میں عرض کرنے سے شیخ کی طبیعت زیادہ راغب ہوگی اور حصول مطلب میں جلد کامیابی نصیب ہوگی اور عرض کرنے سے قبل اللہ رب العزت کی بارگاہ اقدس میں ادب اور قبولیت کے لیے دُعا کرے اگر شیخ سے کوئی بات یا کام ایسا صادر ہو جس کی سمجھ نہ آئے تو اعتراض نہ کرے کیونکہ شیخ کامل سے اللہ تعالیٰ اور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کے خلاف کوئی امر صادر ہونا ممکن نہیں قرآن حکیم میں مذکور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ کو یاد کرے۔

۱۵۔      تصوف سارے کا سارا ادب ہی ہے جس مرید کے دل میں پیر کے خلاف خیال بھی پیدا ہو وہ گویا پیر سے دشمنی رکھتا ہے اور دشمن کبھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا چونکہ شیخ کامل مریدوں کے نہیں بلکہ تمام جہان کے اندیشوں سے واقف ہوتے ہیں اس لیے بے ادب مرید دین و دنیا کی نعمتوں سے محروم ہوتا ہے۔

خلفاء عظام:

حضرت خواجہ امام شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے درج ذیل خلفاء ہیں۔

۱۔       حضرت سید صادق علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ آپ کے صاحبزادے بھی ہیں۔

۲۔       حضرت سید لطف اللہ شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ قطب وقت اور آپ کے صاحبزادے ہیں۔

۳۔      حضرت بہادر شاہ طیب اللہ مشہدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۴۔      حضرت میاں خدا بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۵۔       حضرت مرزا سنگتین بیگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۶۔       حضرت مولانا محمد اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۷۔      حضرت محمد مسعود رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۸۔      حضرت میاں عطاء محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۹۔       حضرت مولانا نور احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۰۔      حضرت مولانا شیر محمد خان کابلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۱۔      حضرت مولانا محمد شریف بدخشانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۲۔      حضرت مولانا مولوی فتح محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۳۔     حضرت مولانا مولوی رسول بابا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۴۔     حضرت سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۵۔      حضرت میاں شاہ محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۶۔      حضرت منشی احمد جان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

وصال مبارک:

حضرت خواجہ امام علی شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال مبارک ۱۲ شوال المکرّم ۱۲۸۲ء میں ہوا آپ کا مزار مبارک مکان شریف میں مرجع خلائق ہر خاص و عام ہے۔

 (مشائخ نقشبند)


متعلقہ

تجویزوآراء