حضر ت شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد محمود الوری حیدر آباد
حضر ت شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد محمود الوری حیدر آباد علیہ الرحمۃ
فاضلِ یگانہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد محمود الوری بن حضرت مولانا رکن الدّین رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ ۵؍ ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ / ۴۔۱۹ جمعۃ المبارک کی شب کو اَلور (ہندوستان) کے مقام پر پیدا ہوئے۔
آپ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد ماجد اور جد امجد رحمہما اللہ ممتاز علماء تھے۔ [۱]
[۱۔ آپ کے والد ماجد مولانا رکن الدّین رحمہ اللہ فقہ کی مشہور کتاب ’’رکن الدین‘‘ (اُردو) کے مؤلف گزرے ہیں۔ (مرتب)]
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد ماجد اور جدِّ امجد سے حاصل کی فارسی میں گلستاں اور بوستاں اور عربی میں ہدایۃ النحوتک کتب پڑھنے کے بعد اجمیر شریف تشریف لے گئے۔ اجمیر شریف کے مدرسہ معینیہ عثمانیہ میں قطبی شرح جامی اور شافیہ وغیرہ کتب پڑھیں اور پھر دہلی کے مدرسہ عالیہ جامع مسجد فتح پور میں پہنچے۔ یہاں آپ نے مولانا علامہ برکات احمد ٹونکی کے تلمیذ رشید مولانا عبد الرحمان سے کتبِ منطق، قطبی تک اور فلسفہ میں ہدیۂ سعیدیہ کے علاوہ شرح وقایہ شرح جامی اور مختصر المعانی وغیرہ پڑھیں اور پھر بھوپال تشریف لے گئے۔ بھو پال کے مدرسہ احمدیہ میں آپ نے مولانا محمد حسن سے کتبِ احادیث مشکوٰۃ شریف، ترمذی شریف، بخاری شریف اور مسلم شریف کا درس لیا۔ اس کے بعد دوبارہ اجمیر شریف حاضر ہوئے اور مدرسہ معینیہ عثمانیہ میں داخل ہوکر اصولِ فقہ، علمِ کلام، ادب، تفسیر اور کتب احادیث دوبارہ پڑھیں۔ علاوہ ازیں منطق کی بعض کتب اور علمِ ریاضی میں اوقلیدس پڑھنے کے بعد یہاں سے بھی سندِ فراغت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں جلیل المقدر اکابر اہل سنّت کے نام آتے ہیں۔ مثلاً مولانا معین الدّین رحمہ اللہ، مولانا امجد علی رحمہ اللہ، مولانا حضرت شاہ محمد مسعود کے فرزند ارجمند و تلمیذ رشید مولانا عبد المجید اور حضرت مفتی اعظم محمد مظہر اللہ خطیب شاہی مسجد فتح پور دہلی۔ مؤخر الذکر سے آپ نے علم الفرائض میں سراجی پڑھی اور علم توقیت بھی حاصل کیا۔
آپ نے علومِ عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دہلی کے حکیم جمیل الدّین سے طب میں شرح مُوجز، کلّیاتِ نفیسی، شرح حمیّات القانون للشیخ الرئیس بو علی سینا وغیرہ پڑھیں اور سندِ طب حاصل کی۔ حکیم جمیل الدّین مشہور و معروف طبیب حکیم اجمل کے استاد اور بانی طبیہ کالج دہلی حکیم عبد المجید کے تلمیذ رشید تھے۔[۱]
[۱۔ آفتاب احمد قرشی، حکیم۔]
سندِ طب کے حصولِ کے بعد آپ نے حکیم عبدالمجید کے صاحبزادے اور حکیم اجمل خان کے جانشین حکیم محمد ظفر خان دہلوی کے مطب میں عملی تجربہ کیا اور سندِ تجربہ حاصل کی۔
حضرت مولانا مفتی محمد محمود الوری تکمیلِ علوم اور سندِ فراغ کے حصول کے بعد ۱۳۴۵ھ میں واپس اپنے وطن مالوف تشریف لائے اور جامع مسجد الور میں چھ سات سال میں قرآن کریم کی تفسیر کا درّس مکمل کیا۔ اس دوران آپ نے تفسیر کبیر علّامہ رازی کا بالا ستیغاب مطالعہ کیا۔
۱۹۷۷ء میں تقسیمِ ہند کے وقت راجپوتانہ میں زبردست فسادات پھوٹ پڑے تھے؟ چنانچہ آپ کو چار و ناچار الور چھوڑ کر دہلی آنا پڑا۔ آپ کا عظیم کتب خانہ جو علمی نوادرات سے معمور تھا، فسادات کی نذر ہوگیا۔ دہلی میں قیام کیے ہوئے کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ سر زمین بھی فسادات کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئی اور یہاں کی وسیع و عریض فضائیں مسلمانوں کے لیے تنگ ہوگئیں چنانچہ آپ نے یہاں سے بھی ہجرت کی اور حیدر آباد (پاکستان) میں مستقل قیام فرمایا۔
حیدر آباد کے محلہ ہیر آباد میں آپ کے مکان کے قریب آزاد میدان کے نام سے ایک وسیع و عریض قطعہ تھا۔ آپ نے بسم اللہ کہہ کر اس میدان میں نماز با جماعت ادا کی۔ ان سجدوں کا یہ اثر ہوا کہ کچھ عرصہ بعد یہاں عارضی مسجد بن گئی۔ پھر ایک نیک دل انسان حاجی محبوب الٰہی مرحوم نے زرِ کثیر صرف کر کے شاندار مسجد تعمیر کرادی، جو اب جامع مسجد آزاد میدان کے نام سے مشہور ہے آپ نے کچھ عرصہ حیدر آباد کی مرکزی مساجد، مسجد مائی خیری اور مدینہ مسجد میں بھی درسِ قرآن کریم دیا جس نے قبولِ عالم شرف حاصل کیا۔ جامع مسجد آزاد میدان میں آپ نے ایک دار العلوم رُکن الاسلام جامعہ مجدّدیہ کے نام سے قائم کیا، جہاں علوم عقلیہ و نقلیہ کے علاوہ فنِّ تجوید و قرأت کا بھی اہتمام ہے۔
آپ کا بیشتر وقت خدمتِ خلق میں گزرتا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ نے مندرجہ ذیل کتب تحریر فرمائی ہیں:
۱۔ مصباح السالکین فی احوال رُکن الملّت والدّین مطبوعہ
۲۔ رُکن دین حصّہ تیسرا کتاب الصیّام مطبوعہ
۳۔ رُکن دین حصّہ چوتھا کتاب الحج مطبوعہ
۴۔ رُکن دین حصّہ پانچواں کتاب الزکوٰۃ غیر مطبوعہ
۵۔ خلاصہ مثنوی غیر مطبوعہ
حضرت مفتی صاحب دورانِ تعلیم ہی اپنے والد ماجد قدس سرہ العزیز سے بیعت ہوگئے تھے، لیکن طلبِ علم اور شوقِ مطالعہ نے حضرت مرحوم کی روحانی مجالس میں شرکت کا موقع نہ دیا۔ تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد بھی یہی حال رہا چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مرحوم نے آپ سے فرمایا:
’’علم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ علمِ سفینہ اور علمِ سینہ۔ تم نے علمِ سفینہ (علم کتابی) تو حاصل کیا ہے، مگر یاد رکھو کہ علمِ سینہ کتابوں سے نہیں ملتا، محبت اہل اللہ سے حاصل ہوتا ہے‘‘
اس پُر تاثیر نصیحت کا حضرت مفتی صاحب پر پورا پورا اثر ہوا اور مجلس اقدس میں حاضر ہونے لگے۔ مکتوبات امامِ ربّانی حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھنا شروع کر دیے دس سال تک مجاہدات و ریاضت اور روحانی تربیّت کے بعد ۸؍ شوال المکرّم ۱۳۵۵ھ / ۱۹۳۶ء کو والد ماجد و مرشد گرامی نے ہرسہ سلاسل میں اجازت مرحمت فرمائی او رمسندِ خلافت و جانشینی سے سر فراز فرمایا۔
حضرت مفتی محمد محمود الوری نے اپنی زندگی بے نیازانہ گزاری ہے۔ مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اپنے علم و فضل، اپنی روحانیّت اور اپنے کمالِ طبات سے جس طرح بھی ممکن ہو، خلق خدا کی خدمت فرماتے ہیں۔
[۱۔ مولانا حافظ محمد اشرف مجددی، ناشر رکن الدّین حصّہ چہارم ص ۹، مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ اقبال روڈ سیالکوٹ۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)