حضرت علامہ حافظ مفتی فضل الرحمن قادری مدنی

حضرت علامہ حافظ مفتی فضل الرحمن قادری مدنی علیہ الرحمۃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فضیلۃ الشیخ حضرت علامہ حافظ مفتی فضل الرحمٰن قادری مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ربیع الثانی ۱۳۴۴ھ / دسمبر ۱۹۲۵ء میں مدینہ منورہ کے محلہ باب السلام ، زقاق الزرندی میں صبح کی آذان کے وقت پیدا ہوئے ۔ فضل الرحمن مدنی( ’’رحمان‘‘ میم الف کے ساتھ) مادۂ تاریخ ولادت باسعادت نکلتا ہے۔شیخ العرب والعجم سیدی ضیاء الدین احمد قادری(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے آپ کا نام حضرت ’’شاہ فضل الرحمٰن ‘‘ محدث گنج مرادآبادی کے نام پر رکھا ۔

’’مدینہ شریف میں دو نعمتیں حاصل ہوتیں تھیں‘‘۔

ایک یہ کہ جب مدینہ طیبہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو چالیس دن پورے ہونے کے بعد ، نو مولود کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنا کر عطر لگاتے ، بخور کرتے اور حرم شریف میں لے جاتے ۔ حرم شریف میں جو اغوات ہوتے ان کے سپرد کر دیتے، آغا اس نومولود کو حجرہ مقدسہ کے اندر لے جاتا اور کچھ وقت تک حجرہ مبارکہ کے غلاف شریف کے نیچے لٹا دیتا ، اور حجرہ شریف کی غبار مبارک اس کے منہ پر مل کر کے واپس باہر لے آتا۔

اور دوسری نعمت جو تھی وہ یہ کہ مدینہ شریف میں مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کی میت کو حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کردیتے ۔ مواجھہ شریف میں اس کی چار پائی کو رکھ کر کے صلاۃ و سلام عرض کرتے۔ میت کے لئے اٹھا کر لے جاتے۔ ( الحمد اللہ یہ نعمت سیدی قطب مدینہ قدس سرہ العزیز کو بھی نصیب ہوئی)۔

الحمد اللہ فضل الرحمٰن ان خوش نصیبوں میں سے ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ نعمت عطا فرمائی ۔ یہ وہ آخری بچہ ہے جسے حجرہ مقدسہ میں داخل کیا گیا ۔ اس کے بعد نجدی حکومت نے اس نعمت سے محروم کردیا ۔ حکم ہوگیا کہ یہ بدعت ہے اس کو ختم کردو۔ دیکھو، اللہ تعالیٰ کب ان ظالموں پر زوال لاتا ہے۔ فقیر کو زندگی سے محبت نہیں ، مگر دل چایتا ہے کہ ایک دن نجدیوں کا زوال دیکھ کر مروں۔

حضرت سیدی فضل الرحمٰن مدنی مدظلہ کی دو بہنیں اور چار بھائی ، چھوٹی عمر ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ ان میں سے آپ کے ایک بھائی کا نام بشیر تھا اور دوسرے کا نام احمد اور تیسرے کا نام ابراھیم اور چوتھے کا نام قاسم تھا۔

حضرت سیدی قطب مدینہ قدس سرہ کی بیٹی سیدہ آمنہ مدظلہا کی پیدائش محلہ باب السلام زقاق صقیفۃ الرصاص میں ۱۳۵۷ھ میں ہوئی۔ او ر سب سے چھوٹی بیٹی فضیلۃجو کہ حضرت آمنہ مدظلہا سے ایک سال چھوٹی تھیں ۱۳۵۸ھ میں اسی مکان میں پیدا ہوئیں ۔ اور باب المجید ی والے مکان زقاق الضروان میں انتقال فرماگئیں۔ یہ مکان اب حرم بنوی شریف میں شامل ہوچکا ہے۔

حضرت علامہ فضل الرحمٰن قادری مد ظلہ قبلہ ے چار سال کی عمر میں اپنے والد ماجد سے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور سات برس کی عمر میں چوبیس پارے حفظ کرلئے پھر گلے کی بیماری کے سبب سلسلۂ تعلیم آگے نہ بڑھ سکا اور اپنے والد کریم کے ساتھ علاج کی غرض سے ۱۳۵۲ھ میں آٹھ سال کی عمر میں حیدرآباد دکن کا سفر کیا۔ شفایاب ہوکر لوٹے تو دوبارہ قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا، نو سا ل کی عمر میں باقی چھ پارے حفظ کر کے مکمل قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ ان ہی ایام میں حضرت سیدی قطب مدینہ سرہ العزیز سے شرف بیعت حاصل ہوا۔

اپنے والد کریم سے سلسلہ تعلیم شروع کیا اور مدرسہ سیدنا مالک بن سنان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں داخلہ لیا۔ آپ کے استاد شیخ محمد علی السمان جو کہ مدرسہ کے مدیر تھے، آپ پر بہت مہربان تھے، خصوصی توجہ سے نوازتے رہے۔ السید احمد الخیاری شیخ الرضہ و مدیر المدرسہ و مدرس مدرسۃ القرات ، خلیفۂ مجاز سیدی قطب مدینہ شیخ ضیاء الدین احمد قادری (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے عرصے دراز تک فیض حاصل کیا۔ استاتذہ آپ کی ذھانت کے بے حد معترف تھے۔ نیز الاستاذ مصطفیٰ الحمودی سے سلسلہ تعلیم رہا۔ شیخ القراء حسن شاعر رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس قرآن میں شامل رہے، القراء ت السبع کی سند امتیازی حیثیت سے حاصل کی۔ تمام امتحانات می ہمیشہ اول پزیشن حاصل کرتے رہے۔ قائد اہل سنت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی قبلہ قدس سرہ العزیز، سیدی فضل الرحمٰن مدظلہ کے ساتھ شیخ القراء کے حلقۂ درس میں شریک رہے۔

شیخ الاسلام سیدی ضیاء الدین احمد قادری سرہ العزیز اور مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خلیفہ مجاز حضرت مجدد اعظم اعلحضرت علامہ احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی سے علوم کی تکمیل کی۔ حضرت مبلغ اسلام سے خصوصی طور پر ’’ادب‘‘ کی کتب کا درس لیا۔ اور فقہ کی تعلیم حضرت علامہ شاہ محمد علی حسین مدنی قادری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ حاصل کی اور امتیازی درجہ کی سند عنایت ہوئی۔

چھوٹی عمر مییں والد کریم سے مجازوماذون ہوئے پھر تا جدار کچھوچھہ حضرت شاہ علی حسین اشرفی جب ۱۳۵۴ھ میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے، آپ کو گود میں لیتے ہوئے اپنے سر مبارک سے عمامہ مبارک (اشرفی تاج) اتار کر سیدی فضل الرحمٰن کے سر پر رکھتے ہوئے خلافت و اجازت سے نوازا اس وقت آپ کی عمر دس برس تھی۔

۱۳۲۴ءمیں شہزادہ اعلحضرت سیدی مفتی اعظم علامہ مصطفیٰ رضا خاں نور ی رحمۃاللہ علیہ کی قبل از حج مدینہ طیبہ میں حاضری ہوئی تو آپ کو سند حدیث و تمام سلال کی اجازت و خلافت سےسرفراز فرماتے ہوئےتمام اورادو وظائف کی خصوصی اجازت عطا فرمائی۔ اور پھر مکہ مکرمہ میں میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر خلافت و اجازت کے الفاظ کا اعادہ فرمایا۔

حضرت سیدی قطب مدینہ قدس سرہ العزیز نے فرمایا:

’’۷ ذوالحجہ بروز پیر ۱۳۶۴ھ / ۱۹۴۵ء کو جب ہلکی ہلکی بونداباندی ہورہی تھی۔ حضرت شہزادے میاں قبلہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علماء مشائخ کی موجودگی میں فضل لرحمٰن کو میزاب رحمت کے نیچے اپنے ساتھ کھڑا کرتے ہوئے خلافت و اجازت کے الفاظ کا اعادہ فرمایا۔ ایک سجادہ اور ایک صدی اور گیارہ ریال عنایت فرمائے۔ اس وقت علماء و مشائخ میں سے یہ حضرات بھی موجود تھے ۔ محدث اعظم حضرت مولانا سردار احمد صاحب ، حضرت علامہ سید علوی مالکی مکی۔ حضرت سید عمر رشید صاحب حضرت قبلہ مولانا عبدالعلیم صدیقی ۔ حضرت سید مصطفیٰ خلیل مکی، حضرت علامہ سیدی محمد عریس مدنی مالکی۔ حضرت مولانا سید ابوالحسنات قادری لاہوری ۔ حضرت علامہ سیدی محمد عریس مدنی مالکی ۔ حضرت مولانا سید ابوالحسنات قادری لاہوری۔ حضرت علامہ مفتی مظہر اللہ دھلوی۔ مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی۔رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین۔

حضرت! فضل الرحمٰن بڑا خوش بخت ہے ۔ اسد ہے،اسد۔‘‘

مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۶۵ھ میں جبکہ آپ کی عمر اکیس (۲۱) برس تھی۔۶۲؎ سند حدیث کے ساتھ جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت عنایت فرمائی تھی۔ اس دن آپ کے سب سے بڑے بیٹے حضرت حافظ حبیب الرحمٰن قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عقیقہ تھا۔

حضرت مولانا علامہ شاہ محمد حسین قادری مدنی قدس سرہ العزیز نے ۱۳۷۰ھ میں اپنے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔

حضرت ملک یوسف باشلی کبیررحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۷۵ھ میں اپنے جمیع سلاسل کی سند سے سرفراز فرماتے ہوئے شیخ الدلائل کا سجادہ آپ کے سپرد کیا۔

۱۳۸۰ھ میں حضرت محدث کبیر علامہ سید عباس مالکی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جمیع علوم و فنون اور سند حدیث کے ساتھ جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت کے نوازتے ہوئے اپنی خاص سبز رنگ والی چادر عنایت فرمائی۔

۱۳۹۰ھ میں قطب استنبول حضرت علامہ شیخ سامی افندی نے سند حدیث اور طریقہ قادریہ و شاذلہ و فاعیہ اور سلسلہ نقشبند یہ کی خلافت و اجازت سے مجاز و ماذون فرمایا۔

۱۳۹۱ھ حافظ الحدیث علامہ محمد حافظ بن عبدالطیف بن سالم التیجانی المصری نے سند حدیث عنایت فرمائی۔

۱۴۱۰ھ میں آپ بغداد شریف سیدنا غوث الثقلین قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت شیخ عبدالکریم مدرس و خطیب حضرہ جیلانیہ نے سند حدیث اور سلسلہ عالیہ قادریہ و نقشبندیہ میں مجاز و ماذون فرمایا۔

عقد ِ نکاح

۱۳۶۲ھ میں آپ کا نکاح سیدہ حفصہ ۶۳؎ بنت عبدالرحمٰن محمد ابوالطاہر رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا۔رسم نکاح شیخ القراء نے ہی پڑھا یا تھا) حاضرین میں چھوارے تقسیم کئے گئے اور معزز مہمانوں کو ایک ایک پاؤ مصری اور ایک ایک شیشی عطر عود کا ھدیہ پیش کیاگیا۔ جب احقر نے یہ پڑھ کر سنا یا تو سیدی قطب مدینہ کی صندوقچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اسے کھولو۔ کھولنے پر ایک تھیلی کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ لے آؤ۔ اس میں سے مصری کا ایک ٹکڑا اور عطر کی شیشی احقر کو عنایت فرمائی۔ فرمایا یہ انہی میں سے بچی ہوئی ہیں سیدی والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سنبھال رکھیں تھیں۔ احقر نے عرض کیا حضرت آپ کے نکاح کی محفل میں فقیر بھی شامل ہوگیا ۔ مسکراتے ہوئے دعا فرمائی ۔

اکابرین کی شرکت نےاس شادی کو تاریخی حیثیت دے دی ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔

حضرت علامہ محمد یوسف بن محمد تاج الدین و مشقی ، شیخ تقی الدین بن یوسف نبھالی ، حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری، حضرت علامہ شاہ علی حسین مدنی، سید مصطفی ٰ خلیل مکی ، عاشق النبی سید امین کتبی ، حضرت علامہ نورسیف مکی، محدث کبیر علامہ سید علوی عباس مالکی مکی، قطب جدہ سید عبدالقادر سقاف ، علامہ شیخ ابوبکر الاحساء ، شیخ الدلائل ملک یوسف باشلی ۔ سید یوسف عنیوسہ موذن الحرم النبوی الشریف ، سید احمد برزنجی، علامہ محمد عریس مدنی ، حضرت سید عمر رشید ، احمد یسین الخیاری شیخ الروضہ ، محمد بن عبداللہ سراج مکی ، سید احمد بن محمد بن عبداللہ رشید ی، عبدالوھاب الصلائی حلبونی ، السید ھاشم مدنی، بلبل مدینہ السید محمد عبدالرحمٰن نجار، جمال خان لودھی، حکیم سید امجد حسین حیدر آبادی۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اورتین بیٹیا ں عطا فرمائیں۔

۱) حبیب الرحمٰن ۱۳۶۵ھ

۲) رضوان قادری ۱۳۷۳ھ

۳) خلیل الرحمٰن ۱۳۷۷ھ

عادات و خصائل:

آپ نہایت پاکیزہ اوصاف اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ بے حد شفیق و ملنسار ، نہایت سخی و فراخ دل ، بامروت و بااخلاق ہیں ۔ مہمان نوازی و پردہ پوشی آپ کا شعار اور علماء و مشائخ کی تعظیم و توقیر آپ کا شیوہ ہے۔ مساکین کے لئےدروازے کھلے رکھتے ہیں اور سائل کی حاجت برائی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ’’الولد سرلابیہ‘‘ کی شان کا مظہر ہیں۔

آپ تاجر کتب ہیں سب سے پہلے آپ نے باب جبریل (علیہ السلام) حارۃ الاغوات میں ’’مکتبہ فضل الرحمٰن ‘‘ قائم کیا۔ پھر باب سید نا عمر (﷜) پر منتقل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطافرمائی ہوئی تھی کہ خریداروں کا ہمیشہ جھرمٹ رہتا تھا۔ پھر توسیع حرم کے سبب مکتبہ فندق الحرم کے نیچے منتقل کرنا پڑا ، مکتبہ کے نام میں ’’ابی حبیب‘‘ کا اضافہ کیا۔ تعلق دار علماء و مشائخ کو کتب قیمت خرید ہی فروخت کرتے۔ اگر آپ محسوس فرماتے کہ خرید ار عالی کی مالی حالت بہتر نہیں تو بہت کم قیمت وصول کرتے یا بطور ھدیہ پیش کردیتے ۔ مکتبہ کے دوسری طرف قالینوں کی تجارت شروع کی۔

عادت ِ مبارکہ یہ تھی کہ ہرآنے والے کو پہلے ناشتہ کرایا جاتا اور بعد میں بات چیت، صبح سے ظہر کی آذان تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔

جن دنوں آپ کا مکتبہ باب عمر پر تھا ایک یمنی نوجوان آپ کے پاس ملازم تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سولہ ہزار ریال کی گڑ بڑ کی احقر آگاہ ہوا۔ رات حضرت مولانا مدظلہ تواتیہ میں تشریف رکھتے تھے۔ فقیر حاضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کیا، آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو مجھے خبر نہیں؟ افسوس ہے کہ تم خدا کی مخلوق کے عیب تلاش کرتے ہو، یہ دیکھو میرے پاس بنک کی رسید کا عکس ہے جس کے ذریعہ اس نے یہ رقم یمن ارسال کی ہے، وہ ہمارے پاس کام کرتا ہے، ہمارے بچوں کی مانند ہے ۔ یہ جو اس سے خطا ہوگئی ہے اگر ہم اس پر ستر نہیں کریں گے تو دوسرا کون کرے گا۔ ہر انسان سے خطا ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ در گزر فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرمائے اچھا بچہ ہے، خطا ہوہی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ میری ، آپ کی اس کی اور ہم سب کی خطائیں معاف فرمائے ۔ یہ راز اب تمہارے پاس امانت ہے خبردار اس کو کسی پر ہر گز ہر گز ظاہر مت کرنا ۔مجھے بہت خفت اٹھا نی پڑی جو کہ میرے چہرے سے عیاں ہورہی تھی، آپ نے محسوس کرتے ہوئے فرمایا آپ میرے بھائی ہو، میرے لئے رضوان کی مانند ہو آپ کی آصلا ح میرے لئے واجب ہے۔ اگر میں ہی غافل رہوں تو کیا کوئی غیر یہ فریضہ انجام دے گا؟ پھر محبت بھرے انداز میں نصیحتیں فرماتے رہے اور مشروبات و فواکہ سے دلجوئی فرمائی۔

۱۹۷۴ء میں پاکستان تشریف لائے ، لاہور سے قصور جا رہے تھے ، حضرت پیر بہار الدین صاحب (مرید کے ) کی گاڑی تھی۔حضرت مولانا مدظلہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر تشریف رکھےہوئے تھے، حضرت پیر سید حیدر حسین شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علی پوری اور یہ فقیر پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈرائیور نے حضرت پیر بہار الدین صاحب کی تعریف کرتے ہوئے کہا ۔

’’ایک مرتبہ پیر صاحب نے آتھ سو روپے دے کر مجھے لاہور ٹریکٹر کے اسپیر پارٹس خریدنے کے لئے بھیجا۔ بس پر سوار ہوا ، کسی نے میری جیب تراش لی خالی ہاتھ مرید کے واپس ہوا،پیرصاحب کو بتایا آپ نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا مزید آٹھ سو روپے دئیے ، میں دوبارہ لاہور گیا اور اسپیر پارٹس خرید کر لے آیا ‘‘۔

حضرت سید فضل الرحمٰن نے فرمایا :

’’الحمداللہ ہماری تو کبھی چوری ہوئی ہی نہیں‘‘۔

حضرت پیر سید حیدر حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ نےکہا مولانا وہ جو ’’فیصل آباد‘‘ ابھی اتنا کہہ پائے تھے۔آپ نے کہا پیر صاحب کچھ نہیں بولنا ، آپ کو اللہ کی قسم ہے عارف کو نہ بتانا ۔ اور پھر ثوب (کرتا) تو میں نے اپنے ہاتھوں سے دیا تھا،اس نے چوری تو نہیں کیا تھا ، اور میں نے معاف بھی کردیا تھا ۔ پیر صاحب نے کیا مولانا آپ بھول گئے عارف تو اس وقت ہمارے ساتھ ہی تھا۔ اس بارے میں یہ تو سب کچھ پہلے ہی سے جانتا ہے۔حضرت نے احقر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔ بیٹا یہ کسی کو نہیں بتانا۔

واقعہ یوں ہوا کہ اس سے پہلے جب حضرت سیدی فضل الرحمٰن مدنی مدظلہ پاکستان آئے تو فیصل آباد بھی تشریف لے گئے، صاحب خانہ ہی کے ایک فرد نے آپ سے التجا کی کہ آپ کا کرتا میلا ہے مجھے عنایت فرمائیں میں دھو کر لے آتا ہوں ۔ آپ نے انکار کیا وہ شخص بضدرہا اور آپ کا کرتا لے گیا۔ جیبیں اچھی طرح صاف کریں اور کرتا باہر پھینک کر چلا گیا ۔ آپ بیٹھے انتظار کرتے رہے بہت دیر ہونے کے بعد تلاش کرنے پر باہر پھینک کر چلا گیا ۔ آپ بیٹھے انتظار کرتے رہے بہت دیر ہونے کے بعد تلاش کرنے پر باہر ثوب مل گیا ۔ چونکہ اب آپ کے پاس کچھ رقم نہ تھی، حضرت پیر حیدر حسین شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بطور قرض بیس ہزار روپے آپ کو دیئے۔

ایک مرتبہ ایک پیر صاحب جن کا تعلق ضلع ہزارہ سے تھا ، آپ کی گلی سے باہر نکل رہے تھے اور داخل ہورہے تھے۔ آمنا سامنا ہوا سید فضل الرحمٰن آگے برھے سلام کیا اور گفتگو کے دوران کہا کہ :

’’حضرت آپ اور آپ کے ساتھی کل ظہر کا کھا نا غریب خانہ پر ہمارے ساتھ تناول فرمائیں ہمیں بڑی مسرت ہوگی‘‘۔

پیر صاحب نے بڑی بےرخی کا مظاہر کرتے ہوئے انکار دیا۔ یہ اس لئے تھا کہ وہ پیر صاحب سیدہ کا نکاح غیر سید کے ساتھ ناجائز سمجھتے تھے۔ سیدی فضل الرحمٰن نے گھر پہنچنے پر سیدی قطب مدینہ سے گزارش کی۔

’’سیدی فلاں پیر صاحب سے ابھی گلی میں میری ملاقات ہوئی میں نے ان کو کل بعد ظہر کھانے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کرد یا‘‘۔

حضرت سیدی رحمۃ اللہ علیہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

’’ ان کی فقیر کے ساتھ نہیں بنتی‘‘۔

چند دنوں کے بعد وہ پیر صاحب حضرت ،مولانا کے مکتبہ کے سامنے سے گزرے آپ نے سلام مسنون پیش کیا،مصافہ کیا اورمکتبہ میں بیٹھا تے ہوئے مشروبات سے توضع فرمائی ۔ اس کے بعد بھی چند مرتبہ راہ چلتے آپ کی پیر صاحب سے ملاقات ہوئی، آپ سلام میں پہل کرتے اور بڑی محبت سے ملتے ۔

ایک مرتبہ احقر راقم الحروف نے آپ سے تر کی کی کی مطبوعہ دلائل الخیرات کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کہاں سے حاصل ہوسکتی ہے؟ اسی وقت تین چار جگہ پر رابطہ کیا معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں اس وقت مطلوبہ نسخہ کسی کے پاس موجود نہیں جدہ سے مل سکتا ہے۔ان دونوں حجاز مقدس میں شدید بارشیں ہورہی تھیں، سڑکیں ٹوٹ گئیں ، حاجیوں کی بسیں سیلاب میں بہہ گئیں ۔ راستے بند ہونے کی وجہ سے ہوائی جہاز میں بہت رش ہوگیامگر آپ نے کوشش کرکے دوسرے دن صبح۸ بجے کی فلائٹ میں سیٹ ریزرو کرالی اور دوسرے دن جدہ روانہ ہوگئے رات گئے واپسی ہوئی ۔ گلی میں آمنا سامنا ہوا سلام عرض کیا آپ کے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا فقیر نے اٹھا لیا اور تواتیہ میں چلے گئے ۔ چونکہ آپ تھکے ہوئے تھے لیٹ گئے، بنڈل کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کہا اسے کھولو ، بنڈل کھولا اس میں کتابیں تھیں، ایک کتاب فقیر کو عنایت فرمائی ، جب دیکھا تو حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ۔یہ تووہی دلائل خیرات تھی جو فقیر نے طلب کی تھی، بڑی خوشی سے کھول کر دیکھنا شروع کیا اس میں ایک ورق ٹیڑھا تھا میں بار بار اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔ حضرت سیدی نے فرمایا کیا بات ہے؟ عرض کیا حضور خیر ہے،پھر دو تین بار استفسار کرنے کے بعد فرمایا۔ مجھے دکھاؤ، دلائل شریف آپ کو تھمادی جب آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس میں ورق ٹیڑھا ہے تو فر مایا ۔ آپ نے کیوں نہیں بتایا؟ کیوں خاموش رہے؟ اور اس کے بدلے میں دوسری دلائل شریف عنایت فرمائی۔ اب میں بار بار بنڈل کی طرف دیکھ رہا تھا، فرمایا اور چاہیے، عرض کیا جی حضور فرمایا لے لو، دوسرا نسخہ لے لیا مگر نظریں بنڈل پرہی مرکوز رہیں۔ پھر پوچھا اور چاہتے ہو؟ نظریں نیچی کرتے ہوئے خاموش رہا، فرمایا جنتی چاہتے ہو لے لو، فقیر نے تیسری دلائل خیرات شریف لے لی، فرمایا اور لے سکتے ہو احقر نے شکریہ ادا کرتے ہوئےعرض کیا یا سیدی تین ہی میرے لئے کافی ہیں۔ ایام میں اس مطبوعہ دلائل الخیرات کی قیمت ایک سو بیس ریال تھی۔ ایک نسخہ جناب میا ں محمد فیاض قادری سجادہ نشین سیدنا علی دادا ہجویری (﷜) اور دوسرا نسخہ حکیم محمد موسیٰ صاحب امر تسری کو بطور ھدیہ پیش کر دیا۔

حافظ طاہر مداح النبی جو بینائی سے معذور تھے، اکثر مدینہ طیبہ حاضر ہوتے اور قطب مدنہ سیدی ضیاء الدین احمد قادری (﷜) کی مجلس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ، بڑے ذوق و شوق اور خوش الحانی سے نعت شریف ہڑھتے۔

اکوڑہ خٹک سے نسبت رکھنے والے ایک خان صاحب جو کہ مدینہ طیبہ میں مقیم تھے نے حافظ صاحب پر پندرہ ہزار ریال کا الزام لگایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی مرتبہ حافظ صاحب کو میں نے پندرہ ہزار ریال کی مالیت کا سونا دیا تھا کہ میرے گھر پہنچا دیں مگر انہوں نے نہیں پہنچایا۔ جبکہ حافظ صاحب کا بیان تھا کہ مذکورہ شخص نے مجھے ایک بیگ دیا کہ یہ میرا بیٹا آپ سےوصول کر لے گا۔ میں نابینا انسان ہوں مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس بیگ میں کیا تھا ان کا بیٹا میرے پاس آیا اور بیگ لے گیا۔

شخص مذکورہ نے حافظ صاحب کے مدینہ منورہ آنے سے پہلے ہی ، وارنٹ گرفتاری حاصل کر رکھے تھے۔ باب جبریل پر حافظ صاحب کی اور ان صاحب کی ملاقات ہوئی گلے ملے ، سلام و دعا کے بعد حافظ صاحب کا بیگ پہنچانے پر شکریہ ادا کرنے کے بعد اپنے کمرے میں لے گئے اور کہا حافظ صاحب آپ تشریف رکھیں میں آپ کے پینے کے لئے جوس لے کر آتا ہوں۔ دروازے کو قفل کرتے ہوئے چلے گئے ، تھوڑی دیر بعد پولیس کو لیتے ہوئے واپس آئے اور صاحب کو ان کے حوالے کر دیا۔

جب حضرت سیدی قطب مدینہ قدس سرہ العزیز تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا فضل الرحمٰن کو بلالاؤ، حضرت مولانا آہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا فضل! حافظ صاحب مداح النبی صلی اللہ علیہ وسلم ااور نابینا ہیں، حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے مہمان ہیں، اس کو تھانہ میں رات نہ گزارنی پڑے ، جیسے بھی ہوان کو لے آؤ، اللہ تبارک وتعالیٰ تم کو برکت دے گا، یہ بڑے اجر کا کام ہے۔

مذکورہ شخص کو بلایا ان سے بات چیت ہوئی مگر وہ رقم وصول کئے بغیر کسی بھی طرح حافظ صاحب کی خلاصی کرنے پر رضامند نہ ہوا۔ حضرت مولانا تھا نے گئے اور اپنی ضامانت پر حافظ صاحب کو لے آئے اور حضرت سیدی قطب مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے لا بٹھایا حضرت سیدی بہت خوش ہوئے اور آپ کو بہت دعا ؤں سے نوازا حافظ صاحب سے بڑی شفقت و محبت سے گفتگو فرماتے ہوئے ان کی دل جوئی کر تے رہے ۔

دوسری رات مدعی کو بلایا اور ان سے کچھ رقم کم کرنے کو کہا مگر وہ راضی نہ ہوئے ۔آپنے اپنی جیب سے پندرہ ہزار ریا ل نکال کر اسے دیتے ہوئے سند تحریر کرالی۔وہاں جوحضرات موجود تھے ان میں سے بعض حضرات نے بھی اس رقم میں کچھ حصہ شامل کیا ۔

عادت ِ کریمہ تھی کہ گودام سے کتب کے کارٹن مزدوروں سے اٹھواتے اگر ان میں کوئی عمر رسیدہ ہوتا تو اس سے وزن تو کم اٹھواتے مگر مزدوری زیادہ دیتے ۔ نو جوان مزدور کو بھی زیادہ وزن اٹھانے کی اجازت نہ ہوتی ، اگر کوئی مزدور زیادہ وزن اٹھانے کی کوشش کر تا تو اسے منع فرمادیتے کہتے اپنی قوت سے کم وزن اٹھاؤ تاکہ مسلسل کام کر سکو یہ تو نہیں کہ آج مشقت زیادہ اٹھاؤ اور دوسرے دن تھک کر آرام کرنے لگو۔ وزن اٹھانے کے لئے آپ نے تین پہیو ں والی سائکلیں بھی رکھی ہوئی تھیں ، جن کے آگے ٹرالی ہوتی ۔ جب کبھی احقر کو فرماتے گودام سے کتب اٹھوالاؤ ،فقیرسائیکل کی ٹرالی پر ایک دو کارٹن لا د کر لے آتا وزن تو کچھ زیادہ نہ ہوتا، مگر گرمی کی وجہ سے پسینہ خوب نکل آتا اگر آپ دکان پر تشریف رکھے ہوتے، تو دیکھتے ہی ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ تم کیوں اٹھا لائے ؟ مزدور سے کیوں نہیں اٹھوایا ؟ کس طرح پسینہ نکل رہا ہے! آئندہ تم گودام مت جانا،اپنے آپ کو تم بہت طاقتور خیا ل کرتے ہو، ہماری بات کی کوئی قدر نہیں ہے۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد پیار و محبت سے سمجھانا شروع کردیتے ۔

ایک مرتبہ آپ اپنے مکتبہ میں تشریف فرماتے۔ایک مغربی نثراد آئے ، آپ کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، یہ انگوٹھی مجھے دکھاؤ، سیدی نے انگوٹھی اتار کر دے دی۔ بغور ملاحظہ کرنے کے بعد بولے کیا فروخت کروگے؟آپ نے انکار کیا تو اس صاحب نے کہا ، اگر بیچو تو میں پندرہ سو ریال میں خرید تا ہوں۔سیدی نے فرمایا یہ انگوٹھی مجھے ھدیہ میں ملی ہے، اس لئے اس ک فروخت مناسب نہیں۔ تو انہوں نے دو ہزار کی پیشکش کی آہ کے انکار پر وہ صاحب تین ہزار ریال تک پہنچ گئے۔ آپ نے ان کو مکتبہ کے اند ر بلایا اور چائے سے ضیافت فرمائی ۔ کہا جو آپ سمجھ رہے ہیں، وہ یہ نہیں ۔انہوں نے کہا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ فرمایا آپ اسے زمرد سمجھ رہے ہومگر یہ تو عقیق ہے۔ شیخ صاحب کو یہ بات درست معلوم نہ ہوئی اس لئے ساڑھے تین ہزار قیمت لگا دی اور چل دیئے ابھی وہ چند قد م پر ہی تھے سیدی نے ان کو بلایا اور انگوٹھی ان کے سپرد کر دی ۔ شیخ صاحب نے ساڑھے تین ہزار ریال آپ کو پیش کئے۔ سیدی نے یہ کہتے ہوئے رقم واپس کر دی کہ یہ میری طرف سے ھدیہ ہے۔ شیخ صاحب کو آپ کی دیانت اور امانت پر بہت تعجب ہوا اور وہ آپ کے گرویدہ ہوگئے۔

سیدی قطب مدینہ (﷜) کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے آپ کے معمولات کو جاری رکھنے کی کوشش میں رہے ۔ روزانہ کی مجلسِ میلاد ، مہمانوں کی آمد ، مہمان نوازی اور لنگر کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ چونکہ محبت رسول (ﷺ) کا درس اپنی پوری تابانی سے چلرہا تھا ۔ دینِ جدید والوں کے سینے جل اٹھے ، آپ کو حضرت سیدی قطب مدینہ (﷜) کی وفات کے چند ماہ بعد ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء میں پابند سلاسل کردیا ، چارماہ اور دو دن زندان کی مصیبتیں برداشت کیں،اور آخری وقت تک صبر و شکر کے کلمات زبان سےجاری رہے۔

یہ آفتاب ولایت شبِ پیر شوال۱۴۲۳ء ، ۳۰ دسمبر ۲۰۰۲ء کو غروب ہوگیا لیکن آپ کا فیض تا قیامت جاری رہے گا ۔

کل من علیھا فان ہ ویبقی وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام ہ
انا للہ و انا الیہ راجعون


متعلقہ

تجویزوآراء