قطب مدینہ ضیاء المشائخ حضرت علامہ شیخ ضیاءالدین احمد مدنی

قطب مدینہ ضیاء المشائخ حضرت علامہ شیخ  ضیاءالدین احمد مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ولادتِ باسعادت:
قطبِ مدینہ ضیاء المشائخ حضرت علامہ شیخ ضیاء الدین احمد قادری مہاجر مدنی قدس سرہٗ، کلاس والا، ضلع سیالکوٹ، پاکستان میں، ۱۲۹۴ھ/ ۱۸۷۷ء میں، شیخ عبدالعظیم کے ہاں تولد ہوئے۔ ’’یاغفور‘‘ سےآپ کا سنِّ پیدائش نکلتا ہے۔

نسب شریف:
سیّدی قطبِ مدینہ کا سلسلۂ نسب حضرت سیّدنا عبدالرحمٰن بن حضرت سیّدنا ابوبکر صدّیق﷜ سے ملتا ہے۔ گھرانے کے جدِّ اعلیٰ شیخ قطب الدین قادری﷫ تھے، آپ کے اجداد میں حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی بہت مشہور عالم گزرے ہیں۔

تعلیم:
ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد حسین نقشبندی پسروری﷫ بمقام سیالکوٹ حاصل کی، پھر بوجوہ گھر سے نکلنا پڑا اور لاہور آگئے، یہاں حضرت مولانا غلام قادر بھیروی﷫(خطیب بیگم شاہی مسجد) سے ڈیڑھ سال تک علوم اخذ کیے اور پھر لاہور سے دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی میں تقریباً ۴ سال قیام کے بعد آپ پیلی بھیت میں حضرت مولانا قبلہ وصی احمد محدث سورتی سے حصولِ علمِ حدیث کے لیے حاضر ہوئے اور تقریباً ۴ سال حضرت محدث سورتی کی خدمت میں رہ کر تمام علومِ دینیہ کی تکمیل کی اور دورۂ حدیث کے بعد سندِ فراغت حاصل کی،محسنِ ملّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی قدس سرہٗ متوفّٰی ۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء نے اپنے دستِ مبارک سے دستار بندی کی۔

دورانِ تعلیم پیلی بھیت میں آپ کے ہم سبق طلبا میں:
امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ محدّث علی پوری متوفّٰی ۱۳۷۰ھ/ ۱۹۵۱ء کے صاحبزادے مولانا سیّد خادم حسین محدث علی پوریپروفیسر سیّد سلیمان اشرف بہاری صدر شعبۂ علومِ اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور مولانا فضل حق رحمانی بھی شامل تھے۔

قطبِ مدینہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں:
پیلی بھیت میں قیام کے دوران آپ ہر جمعرات کو مولانا وصی احمد محدّث سورتی﷫ اور مولانا عبدالرحمٰن اعظم گڑھی کے ہمراہ بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ رات اعلیٰ حضرت کے ہاں قیام ہوتا، دوسرے دن جمعۃ المبارک کی نماز ادا کرکے واپس پیلی بھیت آجاتے۔ ساڑھے تین برس یہ ہی معمول رہا اور اسی طرح آپ اعلیٰ حضرت کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ اسی دوران سلسلۂ ارادت میں داخل ہوئے۔

۱۳۱۵ھ/ ۱۸۹۷ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ نے حضرت قطبِ مدینہ کو سلسلۂ عالیہ قادریہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی، اس وقت آپ کی عمر اکیس (۲۱) سال تھی۔

سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ:
حضرت قطبِ مدینہ قدّس سرہ کو سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بھی حضرت مولانا وصی احمد سورتی﷫ سے اجازت و خلافت حاصل تھی، حضرت محدّث سورتی کو حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی سے خلافت حاصل تھی۔ حضرت محدّث سورتی کے ایک شاگرد مولانا قاری غلام محی الدین پیلی بھیتی جو کہ ہلدوانی ضلع نینی تال (بھارت) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، فرماتے ہیں کہ حضرت محدّث سورتی﷫ نے آخری اور پہلی مرتبہ اپنے تلامذہ میں سے صرف مولانا ضیاء الدین مدنی﷫ کو بیعت کیا، حضرت محدث سورتی فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات ایک مریدِ صادق بھی پیر کی شفاعت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔

سفرِ بغداد و حجاز:
۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء میں تقریباً چوبیس سال کی عمر میں آپ اپنے شیخِ طریقت امامِ اہلسنت اعلیٰ حضرت﷜ سے رخصت ہوکر کراچی آئے اور کراچی میں مختصر قیام کے بعد بغداد زیارت کی غرض سے بصرہ (عراق) کے لیے روانہ ہوگئے، وہاں چار سال تک شدّت استغراق کے سبب آپ پر مجذوبی کیفیت طاری رہی، ایک کرد ستانی بزرگ جن کا اسم گرامی حضرت شیخ سید حسین الحسنی الکردی تھا، حضرت مدنی پر بہت مہربانی فرماتے تھے۔ جب انھوں نے حضرت مدنی کے جذبہ کی یہ کیفیت دیکھی تو آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو بستی چرچہ قلعہ کردستان لے گئے، حمام لے جاکر حجامت بنوائی، غسل کرایا اور خصوصی توجّہ سے نوازا۔

حضرت مدنی فرماتے ہیں کہ بس ایک گرہ تھی جو کھل گئی اور پھر اللہ کریم نے حال اچھا کردیا۔ یہاں آپ نے حضرت سید حسین قدس سرہ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ سال تک قیام کیا۔

بغداد شریف میں آپ کی بہت سے بزرگوں سے ملاقات ہوئی، حضرت شیخ مصطفیٰ القادری قدس سرہ اور ان کے صاحبزادے حضرت شیخ شرف الدین﷫ (کلید بردار خانقاہ حضور غوث الثقلین﷜) سے بھی ملاقات ہوئی اور ان بزرگوں سے سلسلۂ طریقت قادریہ میں اجازت بھی ہوئی۔ بغداد شریف میں نو برس کچھ ماہ قیام رہا۔

۱۳۲۳ھ/ ۱۹۰۶ء میں جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہٗ دوسرے حج پر تشریف لے گئے تو ان دنوں حضرت مدنی﷫ بغداد شریف میں قیام پذیر تھے، اعلیٰ حضرت قبلہ قدس سرہٗ نے اپنی کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ علما کی تقاریظ کے لیے حضرت مدنی﷫ کو بغداد شریف بھیجی تھی۔

حضور قطبِ مد ینہ﷫ کو وہیں یہ اشتیاق ہوا کہ دیارِ رسولِ مقبول ﷺ جاؤں۔ آپ نے اس شوق کا اظہار حضرت سیّد حسین الحسنی قدّس سرّہٗ کے سامنے کیا تو انہوں نے رختِ سفر تیار کردیا، آپ نے ان سے اجازت حاصل کی اور حجازِ مقدّس روانہ ہوئے۔

قطبِ مدینہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جب میں بغداد شریف سے مدینۂ منورہ آنے لگا تو بغداد شریف کے ایک نیم مجذوب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت ! میرا ارادہ مدینۂ منورہ جانے کا ہے۔ آپ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ وہ بزرگ فرمانے لگے کہ لوگ نصیحت کے لیے کہتے ہیں، مگر نصیحت پر عمل نہیں کرتے ، اس لیے نصیحت کرنے کا کیا فائدہ ؟ میں نے عرض کیا کہ ’’ان شاء اللہ‘‘ میں عمل کروں گا۔ انہوں نے فرمایا کہ جب تم وہاں پہنچو تو مسجدِ نبوی شریف میں پہلی صف میں نماز نہ پڑھنا، دوسری بات یہ کہ اس مسجد میں خیرات نہ دینا اور تیسری بات یہ کہ اہلِ مدینہ سے زیادہ میل جول نہ رکھنا۔

پہلی صف کی فضیلت مجھے معلوم تھی اور وہ بزرگ پہلی صف میں نماز پڑھنے سے منع فرما رہے تھے، اس لیے عرض کیا کہ حضرت اگر اجازت ہو تو پوچھوں کہ پہلی صف میں نماز نہ پڑھنے کے حکم میں کیا مصلحت ہے؟

فرمانے لگے کہ پہلے تو لوگ نصیحت کو کہتے ہیں کہ نصیحت کرو پھر اس کی وضاحت طلب کرتے ہیں، پھر خود ہی فرمانے لگے کہ پہلی صف پر جاہلوں کا قبضہ ہے، اس لیے تم ان میں نہ گھسوپھر مسجد میں خیرات کے لیے فرمایا کہ مسجد میں مانگنا اور دینا دونوں منع ہیں۔ اس دربارِ اقدس میں تو سب فقیر ہیں تم وہاں خیرات کرکے اپنی غنا کیا بتاؤگے۔

تیسری بات کے متعلق ارشاد فرمایا کہ حضور نبی کریمﷺ نے اہلِ مدینہ کی تکریم کا حکم دیا ہے؛ اگر تم ان سے گھل مل جاؤگے تو ممکن ہے کہ بعض ایسی باتیں سامنے آجائیں جس سے اس تعظیم کو دھچکا لگے۔ اس لیے تم ان سے زیادہ ملو جلو نہیں۔ بس دور سے تعظیم و تکریم کا معاملہ رکھو۔ حضرت مدنی﷫ نے ایک محفل میں فرمایا کہ الحمد للہ میں نے ان تینوں نصیحتوں پر عمل کیا۔

۱۳۲۷ ھ/۱۹۱۰ء میں آپ بغداد شریف سے براستہ دمشق (شام) بذریعہ ریل گاڑی مدینۂ منورہ پہنچے۔ اس وقت وہاں ترک حکومت تھی، ترکوں کے عہد میں اسلامی تہوار بڑے تزک و احتشام اور شان و شوکت سے منائے جاتے تھے، حکومت خود بڑی عقیدت مندی سے انتظام کرتی تھی۔ اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھا جاتا تھا۔ بڑے امن و سکون کی زندگی تھی، ترک حکومت بزرگوں کے آثار کو باقی رکھنے کی جدّوجہد کرتی تھی، لیکن انگریزوں کی فریب کاری نے شریفِ مکہ کو ابھارا اور اس نے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کردی، انگریزوں کی مدد سے جنگ ہوئی۔ ترک حرمین شریفین میں خوں ریزی سے بچنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے مزاحمت نہ کی، پھر بھی بہت سے مسلمانوں کا خون بہا۔

حضرت مدنی﷫ فرماتے ہیں کہ اس وقت ترک یہاں کے دین دار لوگوں کو ان کی جانوں کی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ لے گئے، اس طرح مجھے بھی یہاں سے جانا پڑا، پھر جب ۱۳۳۴ ھ میں شریفِ مکہ محافظِ حرمین شریفین ہوا تو میں پھر مدینۂ منورہ حاضر ہوگیا۔

گیارہ بارہ سال تک شریف مکہ کی حکومت رہی ، اس کے زمانے میں بھی امن اور چین رہا۔ وہ حرمین شریفین کی خدمت کو اپنا فرض تسلیم کرتا تھا، عقائد کے جھگڑے بھی اتنے کھڑے نہیں ہوئے تھے۔

قطبِ مدینہ کی اکابرین سے ملاقات و اجازت:
حضرت مدنی﷫ جن دنوں مدینۂ منورہ میں حاضر ہوئے اس وقت ایک بہت بڑے بزرگ عارف باللہ حضرت سیّدی شیخ احمد الشمس المالکی القادری المراکشی قدس سرہ العزیز مدینۂ منورہ میں موجود تھے۔ حضرت مدنی ﷫ نے ان کی صحبت میں کافی وقت گزارا۔

ان کے علاوہ شبیہِ غوث الاعظم حضرت سیّد علی حسین اشرف میاں قدس سرہ سجادہ نشیں کچھوچھہ شریف (ضلع فیض آباد،یوپی)، حضرت شیخ محمود المغربی قدس سرہ العزیز (مدینۂ منورہ) حضرت مولانا شیخ عبد الباقی فرنگی محلی قدس سرہ (مدینۂمنورہ) حضرت سیّدی عبد الرحمٰن سراج مکی مفتی حنفیہ قدس سرہ (مکۂ مکرمہ) حضرت شیخ احمد الشریف السنوسی طرابلسی قدس سرہٗ (لیبیا) سے طریقۂ سنوسیہ میں اجازت و خلافت، حضرت علامہ شیخ محمد ہاشمی﷫ حضرت علامہ شیخ محدّث بدرالدین حسنی شامی ﷫، حضرت شیخ ابوالخیر﷫، حضرت شیخ سیّد احمد الحریری﷫، شیخ الدلائل حضرت علامہ عبدالحق الٰہ آبادی مہاجر مکی﷫، عاشقِ رسول علامہ شیخ امین قطبی﷫، حضرت شیخ نور سیف، حضرت شیخ علوی﷫، حضرت شیخ الصباغی ﷫ اور لبنان و فلسطین کے مشہور شیخ علامہ یوسف بن اسمٰعیل نبہانی سے علمی اور روحانی استفادہ کیا۔

مناقبِ سیّدالشہدا﷜:
حضرت سیّدی مدنی قبلہ قدس سرہٗ نے ایک مرتبہ شیخِ طریقت مولانا غلام قادر اشرفی (لالہ موسی ، گجرات پنجاب) سے فرمایا کہ جب میں شروع میں مدینۂ منورہ آیا تو ان دنوں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مجھے سات دن تک فاقہ رہا، یہاں تک کہ میرے پاس پانی خریدنے کے لیے بھی کوئی پیسہ نہ تھا، آخر فاقے کی شدّت سے نڈھال ہوگیا، ساتویں روز ایک پر ہیبت بزرگ آئے ان کے پاس تین مشکیزے تھے؛ ایک مشکیزے میں گھی، دوسرے میں شہد اور تیسرے میں آٹا تھا۔ انہوں نے سامان رکھا اور یہ کہہ کر بازار چلے گئے کہ میں کچھ مزید سامان لے آؤں، کچھ دیر بعد وہ چائےکا ڈبہ اور چینی وغیرہ لے کر واپس آئےاور کہا کہ یہ سب تمہارے لیے ہے، پکاؤ اور کھاؤ، یہ کہہ کر واپس چلے گئے، میں نے دل میں خیال کیا کہ ان بزرگ کو باہر دیکھوں اور کچھ تفصیل معلوم کروں ۔ میں نے فوراً دروازے سے باہر آکر دیکھا تو وہ غائب تھے۔ مولانا غلام قادر اشرفی﷫ نے حضرت مدنی قدس سرّہٗ سے دریافت کیا کہ حضرت آپ کے خیال میں وہ کون تھے؟ آپ نے فرمایا: میرے خیال میں وہ شاہِ دو جہاں حضور نبیِّ کریمﷺ کے پیارے چچا سیّد الشہدا حضرت حمزہ﷜ تھے، کیوں کہ مدینۂ منورہ کی ولایت انہی کے سپرد ہے۔

(تجلیاتِ قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

وصالِ مبارک:
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت کے مریدِ رشید و سعید اور خلیفۂ اجل قطبِ مدینہ، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا الحاج شاہ ضیاء الدین احمد قادری رضوی قَدَّسَ اللہُ سِرَّہُمَا الْعَزِیْز نے خاص مدینۃ النبی میں ۴؍ذی الحجہ کو جمعہ کے دن عین اذان کے وقت کلمۂ حی علی الفلاح پر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔

حضرت شیخ کی متوکّلانہ زندگی، زہد و تقویٰ، علم و فضل، ولولۂ تبلیغ و ارشاد، امّت کا درد، دینی اخلاص، ریاضت و مجاہدہ، بارگاہِ رسالت میں تقربِ خاص اور باطنی کمالات کی بنیادوں پر دنیائے اسلام کے علمائے مشاہیر اور مشائخِ کبار انہیں ’’قطبِ مدینہ‘‘ کہتے تھے۔ اب وصال شریف کے موقع پر جن عجیب و غریب واقعات کا ظہور ہوا ہے، ان سے اس عقیدے کو مزید تقویت حاصل ہوگئی ہے۔

وصال شریف کے وقت کے عینی شاہد اور حضرت شیخ کے خادمِ خاص جناب ابوالقاسم صاحب قادری ضیائی نے اپنے خط میں جو واقعات تحریر فرمائے ہیں وہ انتہائی پراسرار، ایمان افروز اور رقّت انگیز ہیں۔

راوی کا بیان ہے کہ وصال شریف کے ایک ہفتے قبل ہی سے حضرت پر استغراقی کیفیت طاری رہنے لگی تھی، لیکن اس حالت میں بھی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔ جمعرات کا دن گزار کر شب میں عجیب و غریب واقعات کا ظہور ہوا۔ رات ڈھل جانے کے بعد حضرت اپنے اردگرد بیٹھنے والوں کی طرف متوجّہ ہوئے اور ان سے ارشاد فرمایا:

’’ہمارے مشائخ کرام تشریف لا رہے ہیں۔‘‘

پھر تھوڑی دیر کے بعد زبان کھلی اور حکم ہوا:

’’مؤدّب ہوجاؤ کہ سرکار غوث الوریٰ جلوہ فرما ہونے والے ہیں..... حضور تشریف لائیے..... اپنے غلام کی دست گیری فرمائیے۔‘‘

پھر کچھ دیر کے بعد متوجّہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:

’’حضرت خضر﷤ کے لیے جگہ خالی کرو..... وہ ایک مسکین بندے کو عرفان و اتقان کے جلووں سے سرفراز کرنے آ رہے ہیں۔‘‘

پھر کچھ ہی وقفہ گزرا تھا کہ ایک نہایت رقّت انگیز اور دھیمی آواز کان میں آئی جب کہ آنکھیں اشک بار تھیں اور چہرے پر مسرت کی روشنی چمک رہی تھی۔

’’حضور! نقاہت کی وجہ سے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے، ورنہ کھڑے ہوکر تعظیم بجالاتا..... اے خوشا نصیب کہ جلووں میں نہلا دیا گیا..... الصلٰوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ۔‘‘

راوی کا بیان ہے کہ جمعہ کی رات اسی عالمِ کیف و نور میں گزری۔ صبح کے وقت طبیعت نہایت ہشاش بشاش تھی۔ ۱۲ بجے دن کے وقت میں نے دودھ کا ایک گلاس پیش کیا۔ پہلے تو حضرت نے انکار فرمایا، لیکن جب میں نے شہد لاکر اہلِ مدینہ کا یہ محاورہ عرض کیا..... صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب وَاشْرِبُوا الْحَلِیْب یعنی حبیب پر درود بھیجیے اور دودھ نوش فرمائیے، تو اس جملے پر دیر تک ہونٹ جنبش کرتے رہے۔ اس کے بعد تھوڑا سا دودھ نوش فرمایا۔ اس کے چند ہی منٹ کے بعد دست گیرِ انس و جاں سرکار غوث جیلانی رضی اللہ عنہ کے حلقۂ جیلانیہ کے خطیب صاحب الفضیلۃ حضرت شیخ صبیح دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْقُدْسِیَّۃ تشریف لائے اور آپ سے ملاقات کی۔

یہ آخری شخص تھے، جن سے حضرت شیخ نے ملاقات فرمائی۔ اس کے بعد وہ کسی سے نہیں ملے۔ بارگاہِ غوثیت سے حضرت شیخ کو جو عظیم نسبت حاصل تھی، یہ اسی کی برکت تھی کہ عین دمِ واپسیں کے وقت حلقۂ قادریہ کے ایک شیخِ کامل نے انہیں رخصت کیا۔

ابھی وہ جلوہ فرما ہی تھے کہ چند منٹ کے بعد حضرت شیخ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا..... لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی ایک دھیمی آواز کان میں آئی اور ہمیشہ کے لیے وہ زبان خاموش ہوگئی، جس کے الفاظ چمن چمن میں بکھرے ہوئے ہیں۔

حضرت شیخ کے وصال کی خبر سارے مدینے میں بجلی کی لہر کی طرح دوڑ گئی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد علما و مشائخ اور ساداتِ کرام سے سارا گھر بھر گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے والوں کے ہجوم سے گلی میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔

عصر کے وقت حضرت کو غسل دیا گیا۔ غسل دینے والوں میں حضرت شیخ کے جانشین و جگر گوشۂ مظہرِ ضیا حضرت مولانا الحاج فضل الرحمٰن صدّیقی، نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضرت مولانا ریحان رضا خاں عرف رحمانی میاں، حضرت مولانا قاری مصلح الدین صدّیقی، حضرت مولانا مفتی نور اللہ صاحب محدّث بصیرپوری، یونان میں حضرت شیخ کے خلیفۂ راشدمولانا اشرف القادری اور حضرت کے خادمِ خاص مولانا ابوالقاسم ضیائی کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

غسل دیتے وقت حضرت کے جسم کے اس حصّے سے جہاں بحالتِ مرض انجکشن دیا گیا تھا، جلد کھل جانے کی وجہ سے تازہ خون بہنے لگا، جسے بڑی مشکل سے بند کیا گیا۔ حضرت کی یہ زندہ کرامت دیکھ کر لوگ ششدر رہ گئے اور دلوں میں یہ اعتقاد راسخ ہوگیا کہ اللہ والے مرکر بھی زندہ رہتے ہیں۔

غسل کے بعد حلقۂ قادریہ مدینہ طیبہ شاخ کے احباب اور حضرت شیخ کے متوسلین و اقارب نے حضرت کو کفن پہنایا..... سرِمبارک کے نیچے روضۂ پاک کے حجرۂ شریف کی خاک اور روضۂ پاک کا غلاف رکھا گیا..... کفن پر گنبدِ خضریٰ کا غُسالہ اور عطر چھڑکا گیا..... اور خوشبودار پھول ڈالے گئے۔

بعد نمازِ عصر مسجدِ نبوی شریف کے ریاضِ جنّت میں شام کے تاج المشائخ عارف باللہ حضرت شیخ محمد علی مراد کی اقتدا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں انڈونیشیا، الجزائر، ترکی ،مصر، شام، حجازِ مقدّس، جزائرِ عرب، ہندوپاک اور عرب و عجم کے بہت سارے بلاد و امصار کے علما، مشائخ اور عام مسلمانوں نے شرکت کی۔

نمازِ جنازہ کے بعد ہزاروں مجمع عشّاق کے ساتھ جنازۂ مبارکہ کا جلوس تہلیل و تکبیر کے ساتھ مدینے کے قبرستان ’’جنّت البقیع‘‘ کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں اہلِ بیتِ اطہار کے مزاراتِ طیبات کے پہلو میں حضرت کی لحد پہلے سے تیار تھی۔

حضرت شیخ کو ان کے جگر گوشہ او رجانشیں حضرت مولانا فضل الرحمٰن صدّیقی نے خلفا، اعزّہ اور ممتاز علما و مشائخ کے تعاون سے لحد میں اتارا۔

عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب حضرت شیخ کے چہرے سے کفن ہٹایا گیا تو دیکھنے والوں پر ایک حیرت کا عالم طاری ہوگیا، اتنا حسین، پرنور اور شگفتہ چہرہ زندگی میں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بے ساختہ لوگوں کی زبانوں سے تسبیح و تہلیل کی آواز بلند ہوگئی۔ بلاشبہ چہرے پر انوار کی مچلتی ہوئی تجلّی ایک پیکرِ عشق و وفا کی سچائی، حق پرستی اور محبوبیت کی کھلی ہوئی دلیل تھی۔

ٹھیک اس وقت جب کہ مدینے کے افق پر آفتاب کی زرد ٹکیہ ڈوب رہی تھی، دنیائے اسلام و سنّیت کا مہرِ تاباں لحد کی آغوش میں غروب ہوگیا۔

مسندِ گل منزلِ شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا

(قطبِ مدینہ کا سفرِ آخرت)


متعلقہ

تجویزوآراء