حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی
آپ شیخ جلال الدین پانی پتی کے مرید اور صاحب کرامات بزرگ تھے، تمام زندگی تجرد میں گزار دی، ردولی میں پیدا ہوئے اور وہیں آپ کا مزار ہے۔
مَحَبتِ مادری: آپ کی عمر جب سات برس کی تھی تو اس وقت آپ کی والدہ محترمہ تہجد کی نماز کے لیے اُٹھا کرتی تھیں آپ بھی ان کے ساتھ اُٹھتے اور تہجد پڑھتے مگر والدہ کو خبر نہ ہونے دیتے، آخر یہ بات کب تک صیغۂ راز میں رہتی، بالاخر والدہ کو اس کی خبر ہوگئی تو انہوں نے مَحَبتِ مادری کے پیش نظر آپ کو اتنا سویرے اٹھنے سے روکا آپ پر چونکہ اللہ عَزَّوجل کی محبت کا غلبہ تھا اس لیے اپنی امی سے کہنے لگے کہ امی! تم راہزن ہو کیونکہ مجھے اللہ کی عبادت سے روکتی ہو، اس کے بعد راہ حق کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑے ہوئے، اس وقت آپ کی عمر بارہ برس کی تھی، آپ اپنے بھائی تقی الدین کے پاس دہلی پہنچے، شیخ تقی الدین عالم تھے، اس لیے چاہتے تھے کہ یہ بھی پڑھ جائیں مگر انہوں نے صاف صاف کہ دیا کہ مجھے آپ کے ظاہری علم سے کوئی تعلق و علاقہ نہیں مجھے تو اللہ کی معرفت کا علم درکار ہے، بالاخر آپ کےبھائی تقی الدین آپ کو شہر کے دوسرے علما کے پاس لے گئے اور ان سے کہا کہ اس کو میں جو پڑھانا چاہتا ہوں یہ نہیں پڑھتا اور مجھے پریشان کر رکھا ہے آپ حضرات اس کو کوئی نصیحت کریں تاکہ اثر پذیر ہو، چنانچہ ان علماء کرام نے آپ کو ابتداً صرف کتابیں پڑھانا چاہا مگر انہوں نے کہا مجھے ان کتابوں سے کوئی سروکار نہیں مجھے تو اللہ کی معرفت کا علم سکھائیے کیونکہ مجھے اسی سے مَحَبت ہے تمام دہلی کے علماء کو آپ نے ایک ایک کر کے اسی طرح پریشان کیا، اس کے بعد اپنے بھائی کی مصاحبت کو بھی ترک کردیا اور اپنے کام میں لگ گئے۔
آپ کے بھائی شیخ تقی الدین نے ایک مرتبہ آپ کی کہیں نسبت ٹھہرائی جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ لڑکی والوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میں نامرد ہوں براہ کرم اپنی لڑکی کی شادی میرے ساتھ نہ کیجیے۔
ایک مرتبہ شیخ جلال الدین پانی پتی کی کسی مرید نے دعوت کی اور اس میں شیخ احمد عبدالحق کو بھی مدعو کیا، اس مجلس میں کچھ باتیں شریعت کے خلاف بھی تھیں جب آپ نے ان چیزوں کو ملاحظہ کیا تو اسی وقت شیخ جلال الدین کا خلعت نامہ واپس کیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کرکے مجلس سے اُٹھ کر جنگل کی طرف چلے گئے اور ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے، ابھی درخت بیٹھے ہی تھے کہ دو آدمیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ان سے راستہ دریافت کیا، ان دونوں نے کہا کہ تم شیخ جلال الدین کا راستہ ترک کرچکے ہو، آپ نے کہا، کہ ہاں بات تو ایسی ہی ہے، تو انہوں نے کہا پھر راستہ کا ملنا دشوار ہے جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ دونوں اللہ عَزَوَّجَل کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں تو اپنے پیرومرشد کی خانقاہ کی جانب واپس ہوئے اور پیرومرشد کی خدمت میں حاضری دے کر اپنے اعتراضات سے توبہ کی اور دوبارہ بیعت ہوئے۔
آپ ایک مرتبہ ایک سفر کے دوران جمعرات کو ایک مسجد میں تشریف لے گئے وہاں کے لوگ اپنے رسم ورواج کے موافق جمعرات کو سات اذانیں دیا کرتے تھے ان لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ بھی اذان دیں، آپ نے دریافت فرمایا کہ آپ سات اذانیں کس وجہ سے دیا کرتے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے سن رکھا ہے کہ اگر جمعرات کو سات اذانیں دی جائیں تو دوسری جمعرات تک کوئی مصیبت اس شہر میں نہیں آتی، آپ کا اس کے متعلق کیا نظریہ ہے، آپ نے فرمایا کہ میرا فعل تمہاری اس نیت کو پورا نہیں کرسکتا، اس لیے کہ جو بندہ اللہ کی عبادت کرے اور پھر اس کی بلاؤں سے بھاگے تو وہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ اپنا بندہ ہے۔
بابا عزت دار ہے: آپ تلاش حق کے سلسلہ میں شیخ نور قطب عالم کی خدمت میں بھی گئے بوقت ملاقات جیسا کہ رواج ہے کہ بزرگوں کے پاس تحائف لے جاتے ہیں آپ کے دل میں بھی خیال آیا کہ شیخ کی خدمت میں کوئی تحفہ لے جائیں، مگر آپ کے پاس فقرو غربت کی وجہ سے کچھ تھا ہی نہیں کہ اسے بطور تحفہ پیش کرتے، اس لیے آپ نے ایک ہراپتہ لیا اور بوقت ملاقات وہ پتہ پیش کرکے عرض کیا باباصاف ہے، شیخ نور نے فرمایا کہ بابا عزت دار ہے، تھوڑی دیر تک وہاں خاموش بیٹھے رہے اور پھر چپکے سے اٹھ کر چلے گئے۔
دو دیوانے: شیخ عبدالقدوس ’’انوارالعیون‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ درویش جب کسی چیز کو پاک و صاف دیکھتا ہے تو اس میں اللہ کی قدرت کے انوار پاتا ہے، چنانچہ شیخ احمد نے شیخ نور سے اس قسم کی صفائی کا مطالبہ کیا، شیخ نور نے ان کو جواب میں عزت دار فرمایا حالانکہ عزت دار کا مرتبہ اس مرتبہ سے گراہوا ہے، اس جواب سے شیخ احمد کو اپنا مطلب حل ہوتا نظر نہ آیا، اس لیے واپس لوٹ گئے، اس کے بعد آپ بہار چلے گئےوہاں دو دیوانے رہتے تھے، ایک کو شیخ علاؤالدین کہتے تھے اور دوسرے کا نام معلوم نہیں البتہ وہ ننگے رہا کرتے تھے، صرف معمولی سی ایک لنگوٹی باندھا کرتے تھے، چنانچہ آپ نے بہار پہنچ کر ان دونوں دیوانوں سے فیض حاصل کیا اور آپ پر جو افسردگی تھی وہ بشاشت اور خوشی سے تبدیل ہوگئی، اس کے بعد وہاں سے اودھ شیخ فتح اللہ اودھی کے پاس آئے شیخ فتح اللہ بہت متشرع اور متدین بزرگ تھے، زہدو تقویٰ ان کا شعار تھا، عشق ومَحَبت ان کا مشغلہ تھا ان سے ملاقات کی اور اپنے نفس کو خطاب کیا کہ اسے احمد! تو نے کچھ نہیں پایا ابھی اور بزرگوں کی صحبت اختیار کر، چنانچہ کئی برس تک اودھ میں یا ہادی یا ہادی کے نعرے لگاتے پھرتے رہے، پھر خود اپنے ہاتھ سے اپنی قبر کھودی اور کہا اے احمد! اب تو مرنا بہتر ہے اور چھ ماہ تک اسی قبر میں بیٹھ کر اللہ کی یاد کرتے رہے۔
آپ کے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عزیز رکھا گیا، پیدائش کے وقت ہی سے اس بچہ کی زبان سے حق حق کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، اس کے بعد اس بچہ کی بہت سی کرامت کا ظہور ہوا جس کی وجہ سے لوگوں میں اس کی بڑی شہرت ہوگئی، ایک مرتبہ آپ نے لوگوں کا یہ شور وغیرہ سنا تو فرمایا کہ ہمارے گھر کے متعلق لوگوں کا ایسی ایسی باتیں کرنا مجھے پسند نہیں اس کے بعد گھر نے نکل کر قبرستان میں گئے اور ایک جگہ پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ عزیز کی قبر یہاں ہوگی چنانچہ اس کے دوتین روز بعدہی آپ کے لڑکے کی وفات ہوگئی۔
آپ بسااوقات یہ فرمایا کرتے تھےکہ منصور لڑکا تھا ضبط نہ کرسکا اور اللہ کے اَسرار کو فاش کر بیٹھا، بعض لوگ اس وقت ایسے بھی موجود ہیں جو سمندر پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے، نیز فرمایا کرتے تھے کہ نظامی ایک ناقص شاعر تھا جس نے یوں کہ دیا ؎
صحبت نیکاں زجہاں دورگشت
خوان غسل خانہ زنبور گشت
اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت جیسے صحابہ کرام کو حاصل تھی اب بھی اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو ویسی ہی صحبت نصیب ہے۔
آپ مسجد میں اول وقت جاتے اور اپنے ہاتھ سے مسجد میں جھاڑو دیتے، چالیس برس تک آپ نے جامع مسجد میں جھاڑودی مگر مسجد کا راستہ پہچان نہ سکے مسجد جاتے وقت آپ کے ساتھ مریدوں کا ہجوم ہوتا تھا اور حق حق کہتے جاتے اور جدھر وہ چلتے آپ بھی ان کے ہمرا چلتے رہتے اس لیے کہ عِشق الٰہی کی مستی میں آپ کی آنکھیں ہر وقت بندرہتی تھیں، آپ اور آپ کے مرید ’’حق‘‘ کا ذکر کیا کرتے تھے، آپ کے سلسلہ سے منسلک تمام لوگ السلام علیکم کی بجائے حق حق کہا کرتے تھے، اسی طرح چھینکنے والے کے جواب میں بھی حق حق کہتے تھے اور خط و کتابت کرتے وقت خط کے اوپر تین بار لفظ حق لکھتے تھے اسی طرح دنیا کے تمام امور انجام دیتے وقت اور نماز وغیرہ سے فراغت کے بعد بھی تین بار حق کہتے، شاید اس بات سے کسی کو یہ خلجان واقع ہو کہ یہ بات تو سُنت کے خلاف ہے تو اس کے بارے میں فرمایاکہ اب اس رسم کو سُنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے چھوڑ دو، البتہ خطوط کے سرنامہ پر لفظ حق لکھنے میں کوئی حرج نہیں، آپ کی وفات سلطان ابراہیم مشرقی کے دور میں 15؍جمادی الثانی 837ھ کو ہوئی۔ واللہ اعلم
آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی ذات پاک اور بلانام ونشان ہے، اگراس ذات کو کوئی اسم مقرر کیا جاسکتا ہے تو حق سے بڑھ کر اور کوئی نام بہتر نہیں اس لیے کہ حق کے معنی وہ ذات ہے جس کے اندر تمام کما لات پائے جاتے ہیں اور وہ ذات ثابت بالذات ہو اس اعتبار سے اسم حق کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر بطریق کمال ہوگا۔
شیخ عبدالقدوس نے اپنی کتاب ’’انوارالعیون‘‘ میں اسم حق کی توجیہ میں بعض باتیں آپ کی اصطلاح کے موافق تحریر فرمائی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کے اکثر مریدوں کی انتقال کے وقت یہ حالت ہوتی تھی کہ ان کی زَبان پر لفظ حق جاری ہوتا تھا، اسی طرح آپ کی خانقاہ میں غیب سے لوگوں نے لفظ حق کی آواز کو سنا۔
آپ نے ایک روز اپنے دوستوں سے فرمایا کہ شہر گازردن میں خواجہ اسحاق گازردنی کا چراغ جل رہا ہے جو قیامت تک جلتا رہے گا، میں نے بھی ایک دیگ کھانے کی پکائی دنیا بھر کے لوگوں نے اس میں سے کھایا اور اس میں سے ذرا سا بھی کم نہ ہوا پھر میں ایک اور دیگ لایا اور اس کو چولھے پر رکھ دیا اور اس کے نیچے خوب آگ تیز کی جب کھانا خوب پک گیا تو اس دیگ کو میں نے سر راہ رکھ دیا تاکہ تمام آنے جانے والے لوگ اس سے کھاتے رہیں، لیکن وہ دیگ ویسی کی ویسی بھری رہی، پھر تین دن کے بعد فرمایا اے عبدالحق! شہرت ایک مصیبت ہے اور رزاق مطلق کو اللہ ہی کی ذات ہے وہی دینے والا اور اپنے بندوں کو جاننے والا ہے تو اب اس معاملے کو ختم کر اور دیگ کو دیگ دان سے اتار لے اور تو فقرکے طالبوں کے لیے ’’حق‘‘ کے نعرے کا اضافہ کردے اور دیگ کو زمین پر پھینک دے۔
اخبار الاخیار
آپ کے فرزند حضرت شیخ عارف احمد عبدالحق اور آپ کے پوتے حضرت شیخ محمد عارف احمد عبد الحق رحمہم الہ
حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ
آن صاحب جذبات ونفحات جمال، غواص بحر معانی خورشید ولایت، غرق شہودِ ذات مطلق قطب ابدال مخدوم شیخ احمد عبدالحق قدس سرہے سر حلقۂ درد کشان بادہ توحید تھے۔ آپ شانِ عظیم، حال قوی، ہمت بلند اور نفس قاطع رکھتے تھے۔ قہر سے ہو یا لطف سے آپکے خیال میں جو کچھ گذرتا تھا فوراً ہوجاتا تھا۔ آپ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کے محبوب ترین مرید وخلیفہ تھے۔ آپ نے اس قدر سخت ریاضات و مجاہدات کیے اور تجرید و تفرید میں ایسا مضبوط قدم رکھا کہ طبقۂ صوفیاء میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ حتیٰ کہ آپ چھ ماہ قبر میں بند رہ کر شغل حقِ میں مشغول رہے۔ اور حق تعالیٰ کی طرف سے خطاب عبدالحق سنکر دوبارہ زندگی میں آئے۔ اور براہِ راست بطریق الہام ہدایت خلق پر مامور ہوئے۔ اسکے بعد آپ ہر وقت مشاہدۂ جمال میں مستغرق اور محفوظ رہتے تھے۔ اور مراقبہ سے سر نہیں اٹھاتے تھے۔ سوائے پنجگانہ نماز، تہجد وغیرہ کے یا تربیت مریدین اور مخلص دوستوں کی ملاقات کے وقت۔ آپ کے ہواں دستور یہ تھا کہ جب نماز کا وقت آتا یا کوئی دوست ملنے کیلئے آتا تو خادم تین مرتبہ اسم حق حق حق بآواز بلند کہتے تھے۔ اس پر آپ آنکھ کھول کر وجہ دریافت فرماتے تھے۔ کہتے ہیں پہلی دفوہ حق کی آواز سن کر آپ عالم لاہور سے عالمِ جبروت میں آتے، دوسری آواز سنکر عالمِ جبروت سے عالمِ ملکوت میں آتے اور تیسری آواز سنکر آپ عالم ملکوت سے عالمِ ناموت (دنیا) کی طرف آتے تھے۔ بعد فراغت آپ پھر فنائے احدیت میں مستغرق ہوجاتے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ بار بار آوازِ حق کی وجہ سے عالمِ لاہوت سے عالم ناسوت آنے میں یہ راز ہے کہ حضرت اقدس کا مرتبی اور مبدا الفت اسم اعظم ‘‘حق’’ تھا۔ اور آپکو تجلی ذات اسیاسم پاک کی صورت میں حاصل ہوئی تھی۔ لہذا جب اس اسم کی آواز جسم ناسوتی سے سنتے تنزیہہ مطلق سے نکل کر درجہ مظاہر تشبیہ کی تفصیل میں نزول فرماتے تھے۔اسی طرح آپ نوبت بہ نوبت یا ایک دم نزول سے عروج کی طرف چلے جاتے تھے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کا مرتبہ ہے۔ جو حضرت شیخ عبدالحق جیسے اکابر اولیاء کرام کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ غرضیکہ حضرت اقدس کو ذاتِ مطلق میں اس قدر استغراق حاصل تھا کہ جب آپ نماز جمعہ یا دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوتے تھے تو خادم آگے چلتے ہوئے حق حق حق کی آواز دیتا تھا۔ اور آپ اسکے پیچھے چلتے جاتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے خادم خاموش ہوجاتا تو آپ متحیر ہوکر کھڑے ہوجاتے اور دائیں بائیں آگے پیچھے کی خبر نہ ہوتی تھی۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
وجودِ سے محض مطلق رابہر جاہرزماں دیدم
بہر کوئے بہرلوئے، بہر مظہر، عیاں دیدم
( میں نے وجودِ مطلق کا ہر جگہ اور ہر وقت میں مشاہدہ کیا اور ہر کوچہ و بازار اور ہر چیز میں اسے ظاہر دیکھا)
شروع میں یہ دائرہ حقی نوری اندر باہر، دائیں بائیں، اوپر نیچے ہر جگہ مشہود ہوتا ہے آدمی اسی دائرہ کو حق سمجھتا ہے۔ لیکن یہ دائرہ حق نہیں بلکہ ظہور حق ہے نوری لباس میں۔
شغل دائرہ حقی کا طریقہ
اس شغل کا طریقہ یہ ہے کہ خلوقت میں جہاں کوئی آواز نہ آئے بیٹھ کر اسمِ ح ق کو گول دائرہ کی شکل میں برنگ زریا نقرہ یا نیلگوں اپنے دل کے اندر تصور کیرے۔ اس پر اس قدر مداومت کرے کہ حق ظاہر ہو جائے اور خلق مخفی۔
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ سلسلۂ پاک خواجگان چشت میں حضرت خواجہ ابو محمد چشتی اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کے بعد اس قسم کا دائمی استغراق اور دائرہ وجود مطلق اور نقطۂ ذات کا مشاہدۂ دائمی جو حضرت شیخ احمد عبدالحق کو حاصل تھا اس سے زیادہ کسی بزرگ کو حاصل نہیں ہوا۔
لطائف اشرفی[1] میں حضرت خواجہ گنجشکر سے رویات درج ہے کہ تمام انبیاء اور اخص اولیاء مقام تحیر میں تھے اس لیے آنحضرتﷺ نے اس دعا کا ورد رکھا اَللّٰھُمَّ زِدْنِیْ تحیّراً (یااللہ میری ح یرت میں اضافہ فرما)۔ چنانچہ یہ مرتبۂ خاص صاحب قابَ قوسین کا اَْ ادنیٰ کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسالت پناہﷺ نے فرمایا لِیْ مَعَ اللہِ وَقتٌ لَا یَسْعَنی فِیْہِ ملک مقرب ولا نبی مرسل (مجھے حق تعالیٰ کے ساتھ ایسا مقام قرب حاصل ہوتا ہے کہ جہاں نہ کسی ملک مقرب اور نہ کسی نبی مرسل کی رسائی ہوتی ہے)
معلوم رہے کہ حدیث العلماء ورثہ الانبیاء سے یہی مقام مُراد ہے۔ جسے اکثر صوفیاء کرام مقام نہیں بلکہ احوال کے نام سے موسوم کرتے ہیں یہ چیز وہی ہے نہ کسی (یعنی کوشش سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔) کیونکہ صاحب کشف المحجوب اور دیگر صوفیاء اہل صفا کے نزدیک جو کچھ کوشش سے حاصل ہو اُسے مقامات کہتے ہیں اور جو چیز وہبی یعنی فیض باری تعالیٰ ہو اُسے احوال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس لیے لازماً حضرت کاتم الانبیاء صلواۃ اللہ علیہ کی وراثت جو عالم کثرت میں مشاہدہ احدیت سے عبارت ہے عین مواہب ہے نہ کہ مکاسب۔
سلسلۂ نسب
حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق کا سلسلۂ نسب چند واسطوں سے امیر االمومنین حضرت عمر پر منتہیٰ ہوتا ہے۔ حضرت اقدس کے دادا شیخ داؤد قدس سرہٗ ہلا کو خان کے حادثہ کے دوران خاندان کے چند افراد کے ساتھ بچ کر بلخ پہنچے اور بلخ سے ہندوستان آئے۔ یہ سلطان علاؤ الدین خلجی کا زمانہ تھا۔ اس نے انکی وجہ معاش کیلئے حکومت صوبہ اودھ میں تنخواہ مقرر کردی۔ چنانچہ آپ نے اودھ کے قریب قصبہ ردولی میں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت شیخ داؤد بڑے عظیم القدر انسان تھے اور حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کے مرید تھے۔ آپکی روحانی تربیت بھی حضرت چراغ دہلوی نے فرمائی۔ لیکن آپ اپنےجمال ولایت کو ظاہری شان و شوکت میں پوشیدہ رکھتے تھے۔ آپکا مزار مبارک قصبہ ردولی کے جنوب کی طرف نہایت غریبانہ انداز میں واقع ہے اور اب تک ظاہر نہیں ہوا۔ رحمۃ اللہ علی۔
حضرت شیخ داؤد کے ایک فرزند جنکا نام اسم گرامی عمر تھا۔ آپ بڑے بابرکت اور مشائخ سیرت صورت انسان تھے جو بڑے متقی و پرہیزگار تھے۔ آپکا مزار اپنے والد کے مزار کے قریب ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت شیخ عمر کے دو فرزند تھے۔ ایک شیخ تقی الدین جو بڑے عالم فاضل تھے اور ردولی سے ترک سکونت کر کے دہلی میں مقیم ہوگئے تھے۔ دوسرے قطب ولایت معدن صدق و ہدایت حضرت شیخ احمد عبدالحق ہیں جنکے کمالات کی شہرت مشرق سے مغرب تک پہنچ گئی اور آپکا مرتبہ عرش عظیم سے بڑھ کر فنائے احدیت پر جا پہنچا۔ مَنْ سَعَدَ سَعَدَ فِیْ بطن اُمِّہٖ (جو سعید ہوا وہ ماں کے پیٹ میں سعید ہوا) سے یہی مراد ہے۔ وَ اِنَّ اَوْلیاء اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُون (اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جنکو نہ کوئی خوف ہے نہ غم) سے حضرت اقدس کی ذاتِ بابرکات مُراد ہے۔
والدہ کی محبت پر حق کو ترجیح
حضرت قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگنوہی اپنی کتاب انوار العیون میں فرماتےہیں کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ سات سال کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ ایک دن والدہ صاحب نے شفقت مادری کی وجہ سے فرمایا کہ بابا احمد تمہارے والد بھی ولی اللہ تھے۔ لیکن ابھی تک خدا تعالیٰ کے فرائض بھی تم پر لازم نہیں ہوئے اور تم نے بلوغ سے پہلے نوافل میں اتنی محنت شروع کردیہے۔ چونکہ آپ محبت الٰہی میں بے اختیار تھے اور اسم الٰہی الباری جو انبیاء اور اولیاء کے قلوب کی زینت ہے آپ کا معمول تھا۔ والدہ کی اس بات کو امر باطن کے خلاف سمجھ کر جواب دیا کہ یہ ماں نہیں ہے راہِ زنہے جو اپنا کام تو کر رہی ہے لیکن مجھے کارِ حق سے باز رکھنےکی کوشش کر رہی ہے۔ پس غایت شوق واشتیاق میں مست ہوکر آپ گھر سے باہر نکلے اور سفر پر روانہ ہوگئے۔ اسکے بعد حدیث پاک بی یَسْمَعُ وَبیِ یُبْصِرُ وَبِیْ ینطق کے مطابق ذکر حق آپ کی زبان پر جاری ہوگیا اور ہر جگ طلب صادق کی اہنمائی م یں چشم باطن سے جمال حق کا مشاہدہ ہونے لگا۔ اور ہر چیز سے جاھد وافی سبیل اللہ[2] کے نغمات آپ کو گوش دل میں سنائی دینے لگے۔
دہلی میں غلط تعلیم پر آپکو وحشت
پس آپ توکل وتجرید کی بدولت طویل سفر طے کر کے اپنے بھائی شیخ تقی الدین کے پاس دہلی پہنچ گئے۔ شیخ تقی الدین ایک دانشور تھے۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کا خیال تھا کہ شاید بھائی علم معرفت کی تعلیم دلائینگے لیکن معاملہ اسکے برعکس نکلا۔ انہوں نے آپکے لیے ظاہری تعلیم کا انتظام کردیا۔ لیکن آپکو باطنی تعلیم کا شوق دامنگیر تھا۔ اس وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان صحبت راست نہ آئی۔ ایک دن شیخ تقی الدین پریشان ہوکر آپکو علمائے دہلی کے پاس لے گئے اس خیال سے کہ آپکو راہِ راست پر لائیں۔ علماء نے اپنی سمجھ کے مطابق آپکو کتاب پیش کی تعلیم شروع کردی۔ جب استاد نے علم صرف کی تعلیم کےوقت آپ کو ضَرَبَ ضَرَبَا کی تعلیم دی تو آپ نے فرمایا کہ طلب حق کا ضرب ضربا (یعنی مرنے اور مارے جانے) کا کیا تعلق ہے۔ مجھےتو آپ ایسا علم بتائیں کہ جس سے ذاتِ حق کی معرفت حاصل ہو کیونکہ مجھے اسکے سوا اور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ اس سےعلماء حیران ہوئے اور آپ کی طلب صادق پر رقت کا اظہار کرتے ہوئے اور اسے بہانہ بناکر آپ کو رخصت کردیا۔نیز انہوں نے شیخ تقی الدین کو مشورہ دیا کہ چونکہ بچے کا معاملہ کچھاور ہے اسے اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ہم اور آپ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتے۔
ایک شاہزادہ سے عشق
اس کتاب میں یہ بھی لکھاہے کہ دہلی میں قیام کے دوران آپ کو شاہزادہ سے عشق ہوگیا اور محرمانہ صحبتیں ہونے لگیں اور آپ جمال مطلق کا مشاہدہ صورت مقید میں کرنے لگے۔ اس وجہ سے کہ المجاز قنطرۃ الحقیقۃ (مجاززینہ ہے حقیقت کا) لیکن بمصداق ‘‘السکون علی قلب الاولیاء حرام’’ (اولیاء کے قلب پر سکون حرام ہے) آپ چند یوم اس حالت میں بسر کر کے دہلی سے چلے گئے اور جس جگہ کسی عارف کا نام سنتے وہاں جاکر درد دل کی دو اطلب کرتے رہے۔ لیکن آپکے مطلوب حقیقی کا پتہ کوئی نہ بتاسکا۔ آخر پھرتے پھراتے آپ پانی پت پہنچے اور قطب العارفین حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوکر نعمت دو جہاں حاصل کی اور خرقۂ خلافت مشائخ چشت سے مشرف ہوئے۔ چنانچہ اسکا ذکر پہلےہوچکا ہے۔
بنگال کا سفر اور حضرت شیخ نور قطب عالم سے ملاقات
غرضیکہ حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ نے آپکو اپنا خلیفۂ جانشین مقرر فرمایر اپنے فرزندان کی تربیت بھی آپ کے سپرد فرمائی اور راہی ملک بقا ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد حضرت شیخ احمد عبد الحق ولایت بنگال کی طرف تشریف لے گئے۔ جہاں شیخ نور قطب عالم مسند ارشاد پر بمقام پنڈ وہ متمکن تھے۔ جب آپ قصبۂ مذکور پہنچے تو اپنے آپ کو چھپانے کے خاطر کو توال کےمکان پر قیام فرمایا۔ ایک دن نہر کے کنارے خوش کھڑے تھے کہ دل میں حضرت شیخ نور قطب عالم کےملنے کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن چونکہ مشائخ کی خدمت میں خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں آپ نے نہر کے کنارے سے کچھ سبزہ توڑا اور حضرت شیخ نور قطب عالم کی خدمت میں پیش کیا اور فرمایا کہ‘‘مابا صفا است’’ حضرت شیخ نے بھی جواب دیا کہ ‘‘مابا عران است’’۔ اسکےبعد دونوں بزرگوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی اور ایک ساعت خاموش بیٹھے رہے۔ اس سے حضرت شیخ عبد الحق قدرے افسردہ خاطر ہوکر باہر چلے گئے۔ اور غایت سوزو درد اور عشق و محبت اور طلب حق میں بے قرار ہوکر اپنے آپ کو کہنے لگے کہ اے احمد تونے ساری عمر برباد کردی ہے۔ تونے سارے جہان میں سفر کیا ہے اور طلب حق میں جگہ جگہ کی خاک چھانی ہے لیکن پھر بھی مقصود نہیں پہنچے اورمحبان حق میں سےکوئی شخص ایسا نہیں ملا جو محبوب حقیقی کا پتہ بتائے۔ تونے بے جاوقت صرف کیا ہے۔ اور نفس پروری کرتے رہے ہو۔ اب اپنے وطن واپس جاؤ اور اس بات سے فارغ ہوکر بیٹھ جاؤ۔ سبحان اللہ! کس قدر بلند ہمتی ہے کہ باوجود یکہ اپنے شیخ حضرت شیخ جلال الدین پانی پت قدس سرہٗ سے دولت فیض بخش حاصل کر کے بادۂ توحید نوش کر چکےہیں اور سلوک کے تمام منازل و مقامات طے کر چکےہیں لیکن پھر بھی حوصلہ اس قدر بلند ہے اور طلب اس قدر تیز ہے کہ ہر لحظ ھل من مزید کےن عرے مار رہے ہیں اور کسی مقام پر اکتفا نہیں کرتے کسی نے خوب کہا ہے؎
قدح چہ سیر آتش بلند مرا |
|
سبو سبو خم خم دہ دل لوند مرا[3] |
(پیالوں سے میری آتش عشق کہاں ٹھنڈی ہوتی ہے مجھے تو صراحی اور خم بھر بھر کر پلاؤ تاکہ دل کی آگ بجھے)
ردولی شریف میں ورود
آخر وہاں سے روانہ ہوکر آپ اپنے وطن ردولی شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ جب راستے مین شہر بہار میں پہنچے تو وہاں دو مجذوبان صاحب ولایت سے ملاقات ہوئی۔ ایک کو سلطان علاؤ الدین کہتے تھے اور وہ برہنہ رہتے تھے اور دوسرے لنگوٹی باندھتے تھے۔ پہلے سلطان علاؤ الدین سے ملاقات ہوئی۔ انکے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ سامنے آتے ہی وہ حضرت اقدس سے بغلگیر ہوئے اور کہنے لگے ک ہ بابا احمد معلوم نہیں لوگ دیگ پکا کر کھانےکے وقت اُسے کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مجذوب نے بھی آپ سے بغلگیر ہوکر یہی بات کہی۔ یہ سنکر آپکو خیال آیا کہ مردان حق تو مجھے بشار دے رہے ہیں کہ مقصود مطلق کو پہنچ جاؤگے۔ اس سے آپ کی آتش عشق میں اضافہ ہوا اور وہاں سے روانہ ہوکر شہر اودھ میں پہنچے اور دل میں کہنے لگے کہ اے احمد تجھے بزرگان وقت سے مطلوب مطلق کا نشان نہیں مِلا۔ شاید اہل قبور کی طرف سے کوئی آگاہی مل جائے۔ چنانچہ آپ کئی سال شہر شہر اور دشت و بیا بان کی سیر کرتے رہے اور بیقراری کی حالت میں آہ و نالہ کرتے ہوئے یا ہادی کا مسلسل ورد کرتے رہے۔
آپکا زندہ درگور ہونا
کچھ عرصے کے بعد جب آپکو اہل قبور سے نسبت پیدا ہوگئی اور مراد حاصل ہوئی تو دل میں کہنے لگے کہ احمد اہل قبور کی صحبت کیلئے ہم جنس ہونا ضروری ہے اس لیے تو بھی مرجا اور مردوں کی طرح قبر میں دفن ہوجا۔ چنانچہ غایت شوق میں آپ نے اپنے ہاتھ سے قبر تیار کی اور اسکے اندر جاکر خادموں سے فرمایا کہ اے بند کردو۔ چنانچہ آپ قبر میں دفن ہوکر تمام علائق سے فارغ ہوئے۔ حق کے ساتھ مشغول ہوگئے۔ آپ چھ ماہ تک قبر میں بند رہے اور عالم ِ باطن سے آپ پر جس قدر واردت اور تجلیات کا نزول ہوتا تھا آپ اسکی طرف التفات نہیں فرماتے تھے۔ اس خیال سے کہ اس قسم کی واردات قابل پر ستیدن نہیں احمد بگذار۔ آخر رفتہ آپ ایک سمندر کے کنارے پہنچے جو کیفیت اور کمیت سے پاک تھا۔ آواز آئی کہ فاعلم انہ لا الہ الا انا یعنی اچھی طرح سمجھ لو کہ میری وہ شان ہے کہ میرے سوا کوئی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک مژدۂ جانفزا تھا جو آپ نے بے حرف، بے صورت اور بےزبان سنا اور ظاہری موت سے آپ کو مطلوب مطلق تک رسائی حاصل ہوگئی یہ وہ راز ہے جو قلم سے بیان نہیں ہوسکتا۔ فھم من فھم۔
چھ ماہ بعد قبر کا خود بخود کھُلنا
چھ ماہ کے بعد قبر خود بخود کھل گئی اور جس قدر جان کہ بچ چکی تھی خادموں نےلحاف میں لیکر باہر نکالا۔ اس سے سارے جہاں میں شور برپا ہوا اور چاروں طرف سے لوگ کھچ کھچ کر شرف نیاز مندی حاصل کرنے لگے۔ اسکے بعد آپ مسندِ رشد اورشاد پر متمکن ہوکر تربیت مریدین میں مشغول ہوگئے۔ اور گم گستگان بادیۂ خلافت کو راہِ ہدایت دکھانے لگے۔ چنانچہ آپ کے حسن تربیت سے بہت لوگ درجہ کمال کو پہنچے۔ ان میں سے ایک آپ کے فرزند شیخ احمد عارف تھے۔ جنکا ذکر اسکے بعد آرہا ہے۔ آپکے دوسرے خلفاء شیخ مخلص اور شیخ بختیار تھے جناک قصہ تو بہت طویل ہے لیکن مختصراً یہاں بیان کیا جاتا ہے۔
شیخ بختیار
آپ کے مریدن اور خادمان خاص میں سے ایک شیخ بختیار تھے جو آپ کے محرم رازِ اور واقف احوال تھے اور سفر وحضر میں آپ سے جدا نہیں ہوتے تھے اور آپکے مقرب اور نعمت پر وردہ تھے۔ شروع میں وہ ایک سود اگر کے غلام تھے۔ جو اہرات کی تجارت کرتا تھا۔ ایک دفوہ وہ سود اگر کے ساتھ تجارت کی غرج سے قصبۂ ردولی آئے۔ جب انکی نظر حضرت شیخ کے جمال پر پڑی تو معتقد ہوگئے اور صبح وشام حاضر خدمت ہوکر سامنے کھڑے رہتے تھے۔ چھ ماہ تک یہی حالت رہی۔ لیکن حضرت شیخ نے انکی طرف ذرہ بھر التفات نہ فرمایا اور یہ بھی نہ پوچھا کہ کون ہو، اور کہاں سے آئے ہو اور کس کام کیلئے آئے ہو۔ ایک دن شیخ بختیار کے دل میں خیال آیا کہ آپ ہیں تو درویش کامل اور واصل بحق لیکن بے نیاز بہت ہیں۔ ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا۔ شیخ بختیار کے دل کے خیال سے آگاہ ہوکر آپ نے فوراً فرمایا کہ تم کون ہو۔ یہ سنتے ہی شیخ بختیار ایکد ریائے بے کنار میں جاپڑے اور اپنے آپ سے بے خبر ہوگئے۔ آپکینگاہ زمین وآسمان کو پار کر گئی اور مدہوشی کےعالم میں باہر چلے گئے۔ اور اپنے آپ کو بہار کے جنگل میں پایا۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو ایک لکڑی ہاتھ میں لیکر حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شراب وحدت کی مستی میں گستاخ ہوکر کہا کہ اے احمد اس قدر دولت کے مالک ہو لیکن بندگانِ خدا کو محروم کر رکھا ہے۔ حضرت اقدس نے انکو بہت سمجھایا اور فرمایا کہ ہوش کرو لیکن ان پر محویت اور استغراق اس قدر غالب تھا کہ کوئی بات نہیں سنتےتھے۔ اور گستاخانہ کلام سے باز نہیں آتے تھے یہ دیکھ کر حضرت شیخ نے ان کو کچھ پانی پلایا جس سے وہ عالمِ ہوشیاری میں آگئے۔ اسکے بعد حضرت اقدس نے فرمایا کہ بختیار اپنے آقا کے پاس جاؤ اسکی رضا طلب کرو اور اسی کے کام میں لگ جاؤ۔ بختیار نے سر زمین پر رکھا اور جونپور چلے گئے جہاں انکا آقا رہتا تھا۔ جب آقا نے آپکا یہ حال دیکھا تو فوراً آزاد کردیا۔ جب سے حضرت شیخ کی ایک نظر شیخ بختیار پر پڑی تھی انکے دل میں آتش عشق کے شعلے بلند ہوگئے تھے اور نار اللہ الموقدۃ کی آگ دل میں موجزن ہوگئی تھی۔ یہ دیکھ کر انکے دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ آگ مجھے جلاکر خاک کردیگی انکو یہ معلوم نہ تھا کہ یہی جل کر فنا ہوجانا مطلوب اصلی ہے۔ غرضیکہ جب آتش عشق کے شعلے بلند ہوتے تھے تو آپ اپنے شیخ حضرت احمد عبدالحق کا نام لے لیتے تھے۔ جس سے افاقہ محسوس ہوتا تھا۔ اور تمکین حاصل ہوتی تھی۔ کچھ دیر کے بعد آتش عشق کا پھر سے غلبہ ہوتا اور وہ اپنے شیخ کا نام لیکر سکون حاصل کرتے۔ غرضیکہ بہت دیر تک آپ کی یہی حالت رہی۔ جب انکو یقین ہوگیا کہ یہ آگ میرا جسم جلاکر خاک کردیگی گو کہتے ہیں کہ حضرت شیخ شرف الدین پانی پتی رحمہ اللہ علیہ کی روحانیت نے حضرت شیخ احمد عبدالحق کی خدمت میں شیخ بختیار کی سفارش فرمائی اور کہا کہ اے شیخ احمد آپکا جو مقام ہے اُسے کوئیش خص نہیں پہچان سکتا لیکن بیچارہ بختیار جو آپ کی محبت میں بے اختیار ہے آپ کے مقام جلال کی تاب نہیں لاسکتا۔ اگر آپ نے اسکی خبر گیری نہ فرمائی تو اس آگ میں جو آپکو اور دیگر اولیاء کرام کو حضرت رسالت مآب ﷺ کے سینۂ بے کینہ سے وراثتاً ملی ہے بیچاہ بختیار جل کر اس جہان فانی سے رخصت ہوجائیگا۔ بہتر یہ ے کہ اب آپ تجلی جمال سے اسکی تربیت فرمائیں جو اسکی استعداد کے مطابق ہے۔ چنانچہ حضرت مخدوم احمد عبد الحق نے جس طرح ایک نظر سے انکو نورِ ذات لا تعین سے روشناس کرایا تھا ایک نظر سے انکو نورِ صفات کا مشاہدہ کرایا اور جلال ذات جو انکی طاقت سے باہر تھا سے نکالکر انکو جمال انوار صفات میں لے آئے جس سے انکو تسکین ہوئی اور جب اپنی ہستی کا احسان ہونے لگا تو گھر بار سے دل برداشتہ ہوکر حضرت شیخ کی خدمت میں ردولی شریف پہنچ گئے۔ انکو دیکھتے ہی حضرت شیخ نے فرمایا کہ اگر ہمارے پاس رہنا چاہتے ہو تو تجھے بیوی کو ترک کرنا پڑیگا۔ شیخ بختیار نے فوراً عرض کیا کہ مجھے منظور ہے۔ جب حضرت شیخ نے دیکھا کہ شیخ بختیار نے نقوش کثرت کو دل سے نکال دیا ہے اور اپنے آپکو دریائے فنا میں پھینک دیا ہے اور میدان ارادت میں مستحکم ہوگئے ہیں تو فوراً اپنا اصلی جمال اور اپنی صورت احمدی کا انکو دکھایا جس سے شیخ بختیار سوجان سے آپ پر فریقہ ہوگئے اور جان لیا کہ آیۂ کریمہ فاتبعونی یحبکم اللہ کے بمصداق قابلِ تقلید حضرت شیخ کی ذات پاک ہے۔ اور رسول اور خدا بھی وہی ہے اور غیر کا وجود تک نہیں ہے۔ جب شیخ بختیار کے قلب میں یہ حالت پیدا ہوئی تو مقصود حقیقی تک رسائی ہوگئی اور عالم کامل اور واصل بن گئے۔
ایک دن حضرت شیخ احمد عبد الحق قدس سرہٗ نے فرمایا کہ بختیار میں چاہتا ہوں کہ خانقاہ کے صحن میں ایک کنواں تیار کیا جائے۔ یہ سنتے ہی شیخ بختیار نے پھاوڑہ اٹھایا اور کھودنا شروع کردیا۔ جب پانی نکل آیا تو حضرت شیخ نے فرمایا کہ بختیا باہر سے مٹی لاکر اس کنویں کو بھردو اور کنویں کی مٹی سے ایک چبوترہ تیار کرلو۔ شیخ بختیار نے باہر سے مٹی لاکر اس کونیں کو پر کردیا اور کنویں کی مٹی سے چبوترہ بنادیا اور یہ بھی نہ پوچھا کہ حضور کنواں کس لیے کھدوایا تھا اور کس لیے بند کرایا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
[1] ۔ لطائف اشرفی حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔
[2] ۔ یہاں آیۂ پاک وَالَّذِیْنَ جَاھد وفینَا لَنَھِدَ ینَھُمْ سُبُلَنَا (جولوگ ہماری طلب میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم انکو اپنی ذات کی طرف راہیں دکھاتے ہیں) کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہے کہ جب آپ طلب حق میں گھر بار، خویش اقارب چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تو حسب وعدہ حق تعالیٰ کی طرف سے قرب حق کی راہیں آپ کے لیے کشادہ ہوگئیں۔ یہاں لفظ فِیْنَا سے صوفیاء کرام ن ے پرواز فی ذاتِ حق مراد لی ہے۔ یعنی فنافی اللہ میں ترقی۔
[3] ۔ اس کیفیت کے مناسب حال یہ شعر بہت موزوں ہے؎
ہمہ عمر باتو زدیم و نرفت رنج خمار،
چہ قیامتے کہ نمے رسمی نہ کنار مابکنارِ ما
(اے دوست ہم نےساری عمر تیرے شراب عشق کے پیالے نوش کیے ہیں لیکن پھر بھی شوق پورا نہیں ہوا۔ کیا غضب ہے کہ تو میری بغل میں ہے اور پھر بھی میری آتش عشق ٹھنڈی نہیں ہوتی) اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے حضرت خواجہ غلام فرید فرماتے ہیں؎
توڑیں جو دریا نوش ہن |
|
پر جوش تھی خاموش ہن |
اسرار دے سر پوش ہن |
|
صامت رہن مارن نہ بک |
(اگر عشق الٰہی کے پیالے نہیں، صراحی نہیں، خمن ہیں، ندی نالے نہیں دریا کے دریا نوش کر رہے ہیں لیکن کمال ضبط، وسعت ظرف کا یہ عالم ہے کہ قلب کے ازر عشق موجیں ماررہا ہے اور بظاہر یہ حضرات خاموش ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں۔
(اقتباس الانوار)