حضرت شیخ نظام الدین اورنگ آبادی
حضرت شیخ نظام الدین اورنگ آبادی علیہ الرحمۃ
آپ متاخرین مشائخ چشت میں بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔ اور جنوبی ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ کسی دوسرے چشتی بزرگ کے لیے اپنے بزرگان دین کی فتوحات و برکات کے دروازے نہیں کھلے تھے۔ آپ کے آبائے کرام سلسلہ سہروردیہ کے پیر و کار تھے جن کی نسبت شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی سے ملتی ہے آپ حضرت شاہ کلیم اللہ جہانبادی کے مرید خاص اور خلیفۂ اکمل تھے۔ آپ کے مریدوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی ان میں اکثر صاحب قال و حال تھے۔ ان میں ظاہری و باطنی حسن و جمال کی دولت تھی آپ کی کرامات اور خوارق کا ایک زمانہ معترف ہے کئی بار مردے زندہ کرنے کا واقعہ بھی آیا آپ کا اصلی وطن مشرقی ہندوستان کے قصبہ قصبات پورہ ہے آپ وہاں سے تحصیل علوم ظاہری کے لیے دہلی آئے لوگوں کی زبان سے شیخ کلیم اللہ جہاں آباد ی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف سُنی تو آپ کے ہی درس میں داخلہ لے لیا۔
مناقب فخریہ کے مولّف لکھتے ہیں کہ پہلے دن شیخ اورنگ آبادی حضرت شاہ کلیم اللہ کی خدمت میں حاضری کےلیے گئے تو مجلس سماع برپا تھی حضرت پر حالت وجد طاری تھی اغیار کے لیے یہ دروازہ بند تھا۔ شیخ اورنگ آبادی بھی حضرت کے دروازے پر جاکر کھڑے ہوگئے آپ نے دستک دی حضرت نے اندر سے کسی خادم کو حکم دیا دیکھو کون ہے؟ مرید نے دروازے سے دیکھ کر واپس آکر عرض کیا حضور کوئی اجنبی آدمی ہے اپنا نام نظام الدین بتاتا ہے فقیرانہ لباس ہے اور عامیانہ چہرہ ہے آپ نے فرمایا اسے اندر لے آؤ حاضرین مجلس نے عرض کی حضور اس بیگانے شخص کے آنے سے مجلس سماع کا لطف جاتا رہے گا ایسے حالات میں جب صوفیاء ایک خاص مجلس میں محو وجد و رقص ہوں بیگانے لوگوں کا آنا مجلس کو مکدر کر دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ یارو! مجھے اس نام سے محبت ہے اور یہ شخص بیگانہ نہیں لگتا اس سے اپنائیت کی خوشبو آرہی ہے اسے اندر لے آؤ۔ آپ کو اندر لایا گیا حضور نے اپنے پاس بٹھا کر احوال پوچھا تو اسی دن سے نظام الدین کو مجلس خاص کا جلیس اور سماع و وجد کا انیس بنالیا۔ وہ صبح و شام آپ کی مجلس میں رہنے لگے کبھی کبھی کتابیں بھی پڑھ لیتے مگر زیادہ تر سلوک چشتیہ کی منازل طے کرتے نظر آتے حضرت شیخ نظام الدین ابتدائے کار میں حضرت حکیم اللہ کے مریدوں میں ذوق شوق آہ و زاری سکر و شورش وجد و بے قراری کی کیفیات دیکھتے تو بڑے حیران ہوتے اور دل میں کہتے کہ ان لوگوں کو کس چیز نے اس طرح بنا رکھا ہے کون سی چیز انہیں مدہوش و بے خود بنا دیتی ہے ایک روز حضرت حکیم اللہ کی خدمت میں مدینہ پاک سے ایک ایسا شخص آیا جو حضرت یحییٰ مدنی (جو آپ کے پیر و مرشد تھے) کا مرید تھا۔ اس کی نگاہیں حضرت کے چہرے پر پڑی ہی تھیں کہ بے خود و بے ہوش ہوگیا حضرت نظام الدین یہ دیکھ کر بڑے حیران ہوئے حاضرین سے پوچھنے لگے یہ کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے تفصیلی طور پر آپ کو ان ہستیوں سے آگاہ کیا تو آپ کے دل میں بھی آگ سُلکنے لگی۔ اس دن سے آپ کی عقیدت و ارادت میں اضافہ ہوگیا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت شاہ حکیم الدین مجلس سے اُٹھ کر گھر جانے لگے۔ تو نظام الدین اورنگ آبادی اٹھے اور آپ کے جوتے لے کر دروازے کے پاس کھڑے ہوگئے اور آپ کے پاؤں کے سامنے رکھ دیے آپ نے نہایت محبت کی نگاہ سے آپ کو دیکھا اور فرمایا نظام الدین ہمارے پاس علوم ظاہری حاصل کرنے آئے ہو یا باطنی نظام الدین نے کچھ کہنے کی بجائے سعدی شیرازی کا یہ شعر پڑھا۔
سپردم تبو مایۂ خویش را
تو دانی حایم کم و بیش را
(میں نے اپنا سب کچھ آپ کے سُپرد کر دیا ہے۔ آپ ہمارے کم و بیش کے حالات کو جانتے ہیں) چونکہ حضرت شیخ یحییٰ مدنی قدس سرہ نے حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کو مدینہ پاک ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے سلسلہ میں ایک شخص نظام الدین داخل ہوگا۔ اور اسے بڑا فروغ دے گا۔ اور یہ شعر پڑھے گا۔ حضرت کلیم اللہ نے شعر سنتے ہی اپنے پیر کا فرمان سامنے رکھا اور اٹھا کر گلے لگا لیا اور دوسرے روز بیعت کرلیا شب و روز روحانی تربیت دی تکمیل تک پہنچا دیا آپ خرقۂ خلافت دے کر ملک دکن کی طرف بھیج دیا جہاں آپ کو بڑی قبولیت ملی جوق در جوق طالبانِ حق پہنچنا شروع ہوگئے اور بے پناہ مخلوق آپ کے حلقۂ ارادت میں آئی نواب نظام الملک آصف جاۂ جو نواب غازی الدین مصنف مناقب فخریہ کے دادا تھے سب سے پہلے آپ کے مرید ہوئے۔ اور انہوں نے المہرالمساکین کے نام سے کتاب لکھی۔ اس میں شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کے تفصیلی حالات تھے۔
آپ ۱۱۴۲ ہجری میں فوت ہوئے۔
چو از دنیا بفردوس برین رفت
نظام الدین ولی پاک محبوب
وصالش طرفہ شیخ العالمین است
دیگر فرما نظام الدین مطلوب
۱۱۴۲ھ
حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی (رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی مصدرجودیزدانی ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کی نسبت نسبی بواسطہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کئی واسطوں سےامیرالمومنین حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے،حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں نےسلسلہ حدیث میں اپنے آپ کوصدیقی لکھاہے۔۱؎
آپ کاوطن مالوف قصبہ نگراؤں(کاکوری)ہے،آپ کےخاندان کےبزرگ باہرسےتشریف لا کر وہاں سکونت پذیرہوئے۔
ولادت باسعادت:
آپ نے۱۰۶۰ھ میں اس عالم کو زینت بخشی۔
نام:
آپ کانام نظام الدین ہے۔
تعلیم وتربیت:
آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے وطن میں ہوئی۔
دہلی میں آمد:
دہلی کے اہل کمال کاشہرہ سن کرآپ بقصد انصرام بقیہ تحصیل علم دہلی تشریف لائے۔
دربارکلیمی میں باریابی:
دہلی میں آپ نےحضرت شیخ جہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ کا شہرہ فضل و کمال سنا،آپ نےچاہاکہ
حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہان آبادی کی خدمت فیض درجات میں حاضرہوں اوران سےفیوض وبرکات حاصل کریں،ایک دن آپ حضرت شیخ کی خانقاہ میں حاضرہوئے۔دروازہ پردستک دی، اس وقت مجلس گرم تھی۔دروازہ بندتھا۔حضرت کایہ دستورتھاکہ اجنبی شخص کومجلس سماع میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
دستک کی آوازسن کرحضرت شیخ نےحاضرین میں سے ایک کو حکم دیاکہ دروازہ پرجاکردیکھےکہ کون ہے،اس شخص نےآپ کانام نامی واحوال گرامی معلوم کرکےحضرت شیخ سے جاکرعرض کیا، حضرت نےآپ کواندرآنےکی اجازت مرحمت فرمائی۔۲؎حاضرین کوتعجب ہوا،انہوں نے حضرت شیخ سے عرض کیا۔۳؎
"دخل اجنبی درمجلس سماع دستورحضور نیست"۔
(اجنبی کومجلس سماع میں داخل کرناحضورکادستورنہیں ہے)۔
"ایں مردعزیزاست اجنبی نیست"۔
(یہ شخص عزیز(آشنا)ہےغیرنہیں ہے)۔
آپ جب حضرت شیخ کی خدمت میں حاضرہوئے،آداب بجالائے،حضرت شیخ نےآپ کےسلام کا جواب دیااورآپ سے آنےکی وجہ دریافت فرمائی،آپ نےعرض کیاکہ"تحصیل علم کی خواہش حضور کےقدموں میں لائی ہے"حضرت شیخ نےآپ کی درخواست منظورفرمائی اورآپ کو خدمت عالی میں رہنےکی اجازت دی۔
بیعت وخلافت:
آپ حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہان آبادی کی خدمت میں رہ کرمستفیدہوتےرہے۔اکثرآپ حضرت شیخ کے مریدوں کاذوق و شوق،شغف و سکروشورش دیکھتےتوآپ کوبڑاتعجب ہوتا،ایک روزکاواقعہ ہے کہ حضرت شیخ یحییٰ مدنی رحمتہ اللہ علیہ کاایک مریدمدینہ منورہ سےآیااورحضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی کی خدمت میں جب حاضرہواتوحضرت شیخ کودیکھتے ہی اس پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی اوروہ بےہوش ہوگیا۔
آپ کواس کےاس حال سےحیرت ہوئی۔آپ نےمعلوم کیاکہ کیابات تھی کہ جو وہ شخص اس طرح مست و بےخود ہوا۔جب آپ کواس کی تفصیل اورمضمرات سےآگاہ کیاگیاتوآپ کےدل میں بھی اس راستےپرچلنےکاشوق موجزن ہوا۔۴؎آپ کےافکاروخیالات میں تبدیلی پیداہوئی،جس کا لازمی نتیجہ اعتقاد،اطوارارادت اور آئین خدمت گزاری تھا۔
ایک دن حضرت شیخ جب مکان جانےکےلئے اٹھےتوآپ نےحضرت شیخ کےجوتےاٹھاکران کے سامنےرکھے،حضرت آپ کی اس بات سے خوش ہوئےاورآپ سےمخاطب ہوکرفرمایاکہ:۵؎
"توجہ بکسب علوم باطنی اولیٰ واحسن است"۔
(علوم باطنی حاصل کرنےکی طرف توجہ کرنااعلیٰ اوربہترہے)۔
آپ نےحضرت شیخ سے عرض کیا کہ:۶؎
سپردم بتومایہ خویش را |
تودانی حساب کم وبیش را |
حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ نےجب یہ شعرسناتوآپ کواپنےدست حق پرست پر بیعت کیا۔اس کی خاس وجہ یہ تھی کہ حضرت شیخ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ جب اپنے پیرومرشدحضرت شیخ یحییٰ مدنی رحمتہ اللہ علیہ سےبیعت وخلافت واجازت سےسرفرازہوکرمدینہ منورہ سےروانہ ہوئےتوحضرت شیخ یحییٰ مدنی رحمتہ اللہ علیہ نےحضرت شیخ سے فرمایاتھاکہ اس شکل و شباہت وصورت کاایک شخص ان کے(حضرت شیخ)کےپاس آئےگا،اس کا نام نظام الدین ہوگااور وہ عین دعوت الی اللہ کےوقت مندرجہ بالاشعرپڑھےگااورہماری "نسبت "کا مالک ہے۔۷؎
آپ کی حضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ سےبیعت ہونےکی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ایک روزآپ قطب حضرت شاہجہاں آبادی کی خدمت میں حاضرتھےاورایک کتاب جو اصول پرتھی،پڑھ رہےتھے۔ایک شخص جوحضرت شیخ یحییٰ مدنی رحمتہ اللہ علیہ کےمریدوں میں سے تھا،حضرت شیخ یحییٰ مدنی کےوصال کےبعدمدینہ سےآیااورحضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ کودیکھتےہی وہ شخص بےہوش ہوگیا۔تھوڑی دیرکےبعداس شخص کوہوش آیا۔آپ حیران تھےکہ یہ کیاہوا،آپ نےحضرت شیخ سے اس کےمتعلق عرض کیا۔
حضرت شیخ نےفرمایا۔
"یہ بھی ایک علم ہے اوریہ علم تم کوبھی تعلیم کیاجائےگا"۔
آپ کواس علم کےحاصل کرنےکاشوق ہوااورحضرت شیخ سے اس علم کے حاصل کرنےکااشتیاق ظاہرکیا۔آخرکارذوق و شوق نےاپناکام کیا۔آپ نےاس علم کاپڑھناشروع کیا،نہایت خلوص و صدق دل سے حضرت شیخ کےدست حق پربیعت ہوئے۔۸؎حضرت شیخ نےآپ کو خرقہ خلافت سے سرفرازفرمایا۔
فرمان مرشد:
آپ کچھ عرصہ تک حضرت شیخ شاہجہاں آبادی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں رہ کر علوم ظاہری سے فارغ ہوئے۔پھرریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوئےاوربہت جلددرجہ کمال کوپہنچے۔آپ کےپیرو مرشدحضرت شیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی نےدکن کی ولایت آپ کے سپرد فرمائی اورہدایت فرمائی کہ اورنگ آبادمیں جاکرمستقل سکونت اختیارکریں۔
اورنگ آباد میں قیام:
آپ اورنگ آباد میں تشریف لائےاورذکروفکرومراقبہ میں مشغول رہے،تادم واپسیں رشدو ہدایت کرتے رہے۔
شادی اوراولاد:
آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سید محمد بندہ نوازگیسودرازکےخاندان سے تھیں۔آپ کے ایک لڑکی اور پانچ لڑکےتھے۔آپ کے صاحب زادوں کےنام حسب ذیل ہیں۔۹؎
محمد اسماعیل،غلام معین الدین،غلام بہاؤالدین،غلام کلیم اللہ،حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں۔
وفات:
آپ ۱۲ذیقعدہ۱۲۴۲ھ کونمازعشاءکےبعدجواررحمت میں داخل ہوئے۔۱۰؎بوقت وفات آپ کی عمربیاسی سال کی تھی۔مزاراقدس اورنگ آباد میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔
خلفاء:
آپ کےایک لاکھ سےزیادہ مریدتھے۔
آپ کےصاحب زادے حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں آپ کےسجادہ نشین ہیں۔
آپ کےچندمشہورخلفاءحسب ذیل ہیں۔
حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں،خواجہ کامگار خاں،سیدشاہ شریف،شاہ عشق اللہ، شاہ محمد علی ، خواجہ نورالدین،غلام قادرخاں،محمدیاربیگ،محمدجعفر،شیرمحمد،کرم علی شاہ۔
سیرت ِپاک:
آپ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے۔سنت رسول کےسخت پابندتھے۔ریاضت،مجاہدہ اورمراقبہ میں مشغول رہتےتھے۔جب آپ استغراق میں ہوتےتھےتوکسی بھی بےشغل شخص کوچاہےوہ آپ کا مریدہی کیوں نہ ہو،نہیں پہچانتےتھے۔ہرایک کےساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ہرآنے والےکی کھڑے ہوکرتعظیم کرتے تھے۔
پوشاک آپ کی معمولی ہوتی تھی۔قیمتی کپڑازیب تن نہیں فرماتے تھے۔اکثر کپڑوں میں پیوندلگے ہوتے تھے۔خوراک بہت کم تھی۔معمولی غذاپراکتفاکرتےتھے۔ہرشخص کی جہاں تک ممکن ہوتا، حاجت پوری کرتےتھے۔چلتےوقت ہرشخص کوکچھ نہ کچھ دیتے،جمعہ کےعلاوہ جونذرانہ آتا،وہ آپ محتاجوں کودےدیتےتھے۔
علمی ذوق:
آپ نےبہت سی کتابیں لکھی ہیں۔"نظام القلوب"آپ کی مشہورتصنیف ہے۔
سجع مہر:
آپ کےایک نگیں پریہ عبارت کنداں تھی۔۱۱؎
ذکرمولیٰ ازہمہ اولیٰ
دوسرےنگیں پرحسب ذیل عبارت تھی۔
دررعایت دلہابکوش |
نظام دیں بدنیامفروش |
تعلیمات:
آپ کی کتاب "نظام القلوب"اذکارواشغال کےمتعلق ہے۔
ذکرجہر:
آپ فرماتےہیں۔۱۲؎
"ذکرجہرکسی وقت بھی منع نہیں ہے،بلکہ ہروقت ماموروماجورہے"۔
کمال عشق:
آپ فرماتےہیں کہ:
"اےعزیز!کمال عشق چاہیے،تاکہ اس مقام پر پہنچے،کیوں کہ یہ مقام عاشقوں کاہے کہ بغیرکمال عشق کےہرگزحاصل نہ ہوگا۔
اقوال:
۔ جوفائدہ میں نےذکرجہرمیں دیکھاہے،کسی چیزمیں نہیں پایا۔
۔ ذکریعنی پاس انفاس سےکسی وقت بھی غافل نہ رہناچاہیے،تاکہ غیرکادل میں شائبہ نہ گزرے۔
۔ ذکرخلومعدہ کےوقت کرناچاہیے،خصوصاًمبتدی کواس کالحاظ رکھناضروری ہے۔
۔ جب پیرکلاہ مرید کوعطاکرے،اس راہ میں صادق وہ ہےکہ جوتاقہ کی قدرجانے۔
اورادووظائف:
آپ پاس انفاس کی بہت تاکید فرماتےہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ سوتےوقت سومرتبہ تہلیل پڑھےاوراپنےاہل شجرہ کی ارواح پاک کوفاتحہ کا تحفہ پیش کرناچاہیے۔
کشف وکرامات:
ایک روزآپ کی خانقاہ میں عرس ہورہےتھے،قوال عربی کےاشعارگارہےتھے،اتنےمیں ایک اجنبی شخص آیااورآکرپاس بیٹھ گیا،اس نےایک شعرپربحث ومباحثہ کرناشروع کیا،دوایک جواب دے کرآپ نےاس شخص سے فرمایاکہ وقت بحث کانہیں ہے،سماع سننےکاہے،جب آپ نے اس کا نام دریافت فرمایاتواس شخص نےاپنانام عبدالغنی بتایا۔
یہ سن کرآپ نےفرمایاکہ فقیروں سےجھوٹ بولنااچھی بات نہیں،دوبارہ اس نےاپنانام "عبداللہ" بتایا۔
تھوڑی دیربیٹھ کروہ شخص چلاگیا،کچھ دنوں کےبعدوہ شخص پھرآیا،آپ نےاس سےفرمایاکہ پچھلی مرتبہ جب وہ آیاتوسماع ہورہاتھااوراس وجہ سے اس کی تسلی و تشفی نہ ہوسکی،اب جوکچھ اس کے شک وشبہات ہوں،بیان کرے۔
اس شخص نےعرض کیاکہ اس کی تسلی اسی دن ہوگئی تھی اوراب تومعافی مانگنےکےلئےآیاہے۔
آپ مسکرائےاورفرمایاکہ" نہ تمہارانام عبداللہ ہےاورنہ عبدالغنی"پھرآپنےاس کااصلی نام اوراس کی جائے رہائش اوراس کی تعلیم کےمتعلق جوفرمایاتووہ شخص شرمندہ اورحیران ہوااورآپ کا معتقد و منقاد ہوا۔
نواب نظام الملک آصف جاہ کودکن پہنچےزیادہ عرصہ نہ ہواتھاکہ مبازرخان نےبغاوت کردی اورشکر کھیڑہ پرفوج لےکرمقابلہ کےواسطےگیا۔نواب آصف جاہ آپ کےپاس آئےاوردعاکے طالب ہوئے،آپ نےنواب آصف جاہ کومژدہ فتح کامرانی سنایا،لیکن نواب آصف جاہ کی تسکین نہیں ہوئی۔
انہوں نےآپ سے عرض کیاکہ اگرکوئی علامت بتائیں تواطمینان وتشفی ہو،آپ نےکچھ دیرمراقبہ کیااورفرمایاکل صبح بروزپنجشنبہ ان کےڈیروں پرصندل کانشان ظاہرہوگا،یہ اشارہ ان کے لئے کافی ہے، یہ فتح کی علامت ہے۔
ایساہی ہوااورنواب آصف جاہ فتح وکامرانی سےہم کنار ہوئے۔
آپ کےایک مریدسعیدبیگ ایک جوگن پرشفتہ وفریفتہ ہوئے۔آپ کےپاس بھی آناجاناکم کردیا۔ کئی روزکےبعدجوخدمت اقدس میں حاضرہوئےتوآپ نےغیرحاضری کی وجہ دریافت فرمائی، سعید بیگ نےساراحال گوش گزارکیاکہ:
"حضور!ہنگام دستگیری وقت عنایت ست"۔
حضرت کےمریدوں نےآپس میں یہ مشورہ کیاکہ کسی بہانےسےآپ کووہاں لےجائیں،جہاں جوگن مقیم ہے،چنانچہ ایساہی کیاگیا۔وہ جوگن آپ کےسامنےپیش کی گئی۔
آپ نےوہاں سے واپس آکرسعیدبیگ کودوسرےدن اس جوگن کےپاس جانےکاحکم دیااورفرمایا کہ مقصدحاصل ہوگا۔سعید بیگ دوسرےروزحسب الحکم اس جوگن کےپاس گئے،جوگن ان کے نزدیک آئی اوران سے کہاکہ وہ حضرت کی خانقاہ جاناچاہتی ہے۔سعیدبیگ اس کو اپنےہمراہ لےکرآپ کی خدمت میں حاضرہوئے۔وہ جوگن آپ سے بیعت ہوئی اوراس کی خواہش کے مطابق اس کانکاح سعید بیگ سےکردیا۔
حواشی
۱؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۹۴
۲؎مناقب فخریہ(فارسی)ص۴
۳؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۹۵
۴؎مناقب فخریہ(فارسی)ص ۴
۵؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۹۵
۶؎مناقب فخریہ(فارسی)ص۴
۷؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۹۵
۸؎خلاصتہ الفوائد
۹؎مناقب فخریہ(فارسی)ص۵
۱۰؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۰۶
۱۱؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۰۴
۱۲؎تکملہ سیرالاولیاء(فارسی)ص۹۶
۱۳؎نظام القلوب
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)