حضرت شیخ نور الدین عبدالرحمٰن اسفرانی سرقی
حضرت شیخ نور الدین عبدالرحمٰن اسفرانی سرقی رحمتہ اللہ
آپ شیخ جوزفانی کے مریدون میں سے ہیں۔طالبوں کو راہ سلوک طے مرانے اور مریدوں کی تربیت اور ان کے کشف وقائع میں بڑے مرتبہ پر تھے۔شیخ رکن الدین علاؤالدولہ فرماتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھ سے پوچھا ،کہ اس زمانہ میں کون کون اولیاء باقی رہے ہیں۔میں نے کہا،کہ ابن عجیل یمن میں شمس الدین ساوجی شتر میں،خواجہ حاجی ؒ ابہر میں،میں نے چند مشائخ کا نام جو کہ صراط مستقیم پر تھے گنا۔میرے باپ نے کہا ۔پھر کیا بات ہے کہ باوجود یکہ یہ سب بزرگ موجود ہیں۔تم نے شیخ نور الدین عبدالرحمٰن ہی سے کیوں ارادت و عقیدت رکھی۔اور دوسروں کی طرف توجہ نہ کی۔میں نے کہا،میرا ایک مطلب تھاکہ ان کےارشاد کے سوا درست نہیں ہوسکتا تھا۔اور مجھے اس سے مطلب نہ تھا کہ میں بزرگوں کو دیکھتا پھروں اور جس کو سب سے بڑھ کر پاؤں۔اس کی خدمت میں جاؤں۔کیونکہ اگر کسی کو لوہار سے مطلب ہو وہ سنار کی دکان پر چلا جائےتو اس پر عقل ہنسے گی۔شیخ رکن الدین علاؤالدولہ علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ اگر اس آخر زمانہ میں شیخ نور الدین عبدالرحمٰن علیہ الرحمۃکا وجود نہ ہوتا،تو سلوک بالکل مٹ گیا ہوتا۔اس کا نام و نشان ابقی نہ رہتا۔لیکن جب خدا تعالی کو اس طریق کا قیامت تک باقی رکھنا منظور تھا۔اس لیے ان کی وجہ سے اس کو نیا کر دیا۔وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں ایک دن جماعت خانہ میں غائب ہوگیا۔تو امام غزالی رحمتہ اللہ کو دیکھا،کہ زانو پر سر رکھ کر قلم دو انگلیوں میں پکڑے حیران بیٹھے ہیں۔میں نے پوچھا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟امام کس فکر میں ہیں؟کہا،میں کیونکر فکرنہ کروں کہ میں نے سیمرغ کی تیس صفتیں لکھی تھیں۔مگر اس وقت دیکھتا ہوں،تو سب غلط نکلیں۔میں نے یہ واقع شیخ نور الدین عبدالرحمٰن کی خدمت میں بیان کیا۔فرمایا عجب بات ہے ۔میں بھی جب موضع شقان میں تھا۔اس وقت مجھے معرفت کی باتین کرنے کی بڑی حرص تھی۔میں نے غیبت کی حالت میں کہ حق تعالی مجھے فرماتا ہے تم نہیں جانتے کہ امام غزالی کو تمام حسرتوں میں سے بڑھ کر ایک یہ حسرت رہی کہ سلوک پورا نہ کرکے ہمارے حضور میں آئے۔جب میں غیبت کی حالت سے باہر آیاتو اپنی زبان پر گرہ پائی اور خاموشی اختیار کی۔اپنے کام میں مشغول ہوا۔آپ کی ولادت شوال ۶۳۹ھ میں ہوئی اور بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔
(نفحاتُ الاُنس)