پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت حضرت علامہ قاری مصلح الدین رضوی صدیقی
پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت حضرت علامہ قاری مصلح الدین رضوی صدیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت
حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین رضوی صدیقی علیہ الرحمہ ۱۱؍ ربیع الاول ۱۳۳۶ھ؍۱۹۱۷ء بروز پیر بوقت صبح صادق بمقام قندہا شریف ضلع قندہار شریف ضلع ناندیڑ ریاست حیدر آباد میں پیدا ہوئے حضرت قاری مصلح الدین رضوی کے والد ماجد کا نام مولانا غلام جیلانی ہے۔
خاندانی حالات
غلام جیلانی نے اپنے چچا غلام حامد عرف مدنیمیاں سے فارسی کی تعلیم حاصل کی فارسی میں گلستاں بوستاں وغیرہ یہ ساری کتابیں انہی سے پڑھیں۔ شاہان سلف کی دی ہوئی زمینداری قاری مصلح الدین کے آباد واجداد سے چلی آرہی ہے۔ قندہار شریف کے قلعہ کی مسجد میں مولان غلام جیلانی خدمت خطابت وامامت انجام دیتے رہے اور یہ سلسلہ تقریباً پچپن سال تک چلتا رہا۔ مولانا غلام جیلانی ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور یہیں ۲۵؍نومبر ۱۹۵۵ء میں اچانک انتقال ہوگیا۔
تعلیم وتربیت
حضرت قاری مصلح الدین نے نو سال کی عمر میں ناظرہ قرآن کریم ختم کیا۔ ۱۳۵۰ھ؍۱۹۳۱ء میں چودہ سال کی عمر میں حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ قاری مصلح الدین نے اپنے والد ماجد سے قرآن حفظ کیا۔ اور حافظ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی مبارکپوری علیہ الرحمہ نے تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر دستار بندی کی۔ ان دنوں حافظ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی علیہ الرحمۃ دارالعلوم عثمانیہ معینیہ اجمیر مقدس میں زیر تعلیم تھے۔ قاری مصلح الدین نے انگریزی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ۱۳۵۴ھ؍ ۱۹۳۵ء دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور ضلع اعطم گڑح میں داخلہ لیا اور وہاں آٹھ سال تک زیر تعلیم رہے۔
۱۹۴۳ء میں حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ مبارکپور سے جامعہ عربیہ ناگپور تشریف لے گئے تو قاری مصلح الدین بھی جامعہ عربیہ ناگپور میں منتقل ہوگئے۔ اس جامعہ عربیہ میں فراغت حاصل کی اور وہیں محدث اعظم مولاناسید محمد رضوی اشرفی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی موجودگی میں دستار بندی ہوئی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ صدر الشریعۃ حضرت مولانا محمد امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ
۲۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ
۳۔ محدث اعطم ہند حضرت مولانا سید محمد رضوی اشرفی کچھوچھوی علیہ الرحمہ
۴۔ حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی
۵۔ حضرت مولانا محمد سلیمان بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ
۶۔ حضرت مولانا ثناء اللہ رضوی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ
پاکستان میں آمد اور امامت وخطابت
تقسیم ملک قیام پاکستان کے بعد قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ ہجرت کر کے ۱۹۴۹ء میں کراچی تشریف لائے۔ ابتداءً کچھ عرصہ دارالعلوم امجدیہ آرام باغ گاڑی کھاتہ کراچی میں مقیم رہے ۱۹۵۰ء میں اخوند مسجد کھارادر کراچی میں امام وخطیب مقرر ہوئے۔ جہاں انیس سال خدمات سر انجام دیں۔ اسی دوران تقریباً ڈیڑھ سال قاری مصلح الدین مرکزی مسجد واہ کینٹ ضلع رالپنڈی میں فرائض امامت وخطابت انجام دیے۔ ۱۹۴۹ء میں قاری مصلح الدین سر انجام دیتے رہے، اس مسجد میں مشغول رہے۔
حضرت قاری مصلح الدین علیہ الرحمۃ امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ دارالعلوم ا مجدیہ کراچی میں تقریباً پندرہ برس تک بطور معلم و مدرس پوری لگن کے ساتھ تعلیم وتدریس کے فرائض انجام دیئے۔
عقد مسنون
قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ کی پہلی شادی ۱۳۶۰ھ؍۱۹۴۱ء میں ۲۴سال کی عمر میں ہوئی یہ شادی فاروقی خاندان کی لڑکی سے ہوئی۔ جن سے دو صاحبزادیاں ہیں۔ دوسر شادی تیس ۳۰ برس ک ی عمر میں ہوئی۔ ۲۰؍ذی الحجہ ۱۵؍نومبر ۱۳۶۵ھ؍۱۹۴۶ء کو جبلپور (ایم۔ پی) سید صوفی محمد حسین عباسی کی صاحبزادی سے ہوئی جن سے ایک صاحبزادی اور تین صاحبزادے تولد ہوئے۔ صاحبزادگان کے اسماء یہ ہیں:
۱۔محمد صلاح الدین صدیقی، متولد ۲۷؍ربیع الاول۷؍دسمبر(۱۳۷۱ھ؍ ۱۹۵۱ء)
۲۔ مصباح الدین صدیقی، متولد ۴؍ذیقعدہ ؍۳۰؍مارچ (۱۳۸۲ھ؍۱۹۶۲ء)
۳۔ محمد معین الدین صدیقی، متولد ۲؍صفر المظفر؍ ۱۸؍مارچ (۱۳۹۲ھ؍ ۱۹۷۲ء)
زیارت حرمین شریفین
حضرت قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ نے ۳۸سال کی عمر شریف میں ۱۳۷۴ھ؍ ۱۹۵۴ء کو پہلا حج کیا اس سفر میں عبدالشکور مرحوم بھی ہمراہ تھے۔ اس حج کے دوران جب قاری مصلح الدین مدینہ طیبہ پہنچے تو قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد مدنی رضوی علیہ الرحمہ سے پہلی ملاقات کی۔ مولانا ضیاء الدین احمد رضوی مدنی علیہ الرحمۃ قاری مصلح الدین سے مل کر بے حد مسرور ہوئے۔ اور قاری مصلح الدین کو ساتھ لے کر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس واطہر پر حاضری دی۔ بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ہدیہ صلوٰۃ وسلام عرض کرنے کے بعد سید نا امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضرت سیدنا امیر المومنین فاروق اعطم رضی اللہ تعالیی عنہٗ کے حضور نذرانہ عقیدت وسلامہ عرض کیا۔ قاری مصلح الدین اپنی حیات دنیوی میں بارہ مرتبہ زیارت حرمین سےمشرف ہوئے۔ اور ہر مرتبہ حج وزیارت کو روانہ ہونے سے قبل حضرت امام الاولیاء سید علی ہجویری داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر ضرور حاضر ہوتے تھے، اور فرماتے تھے کہ میرے حج کے لیے ویزا یہیں سے بنتا ہے۔
بغداد شریف
حضرت قاری مصلح الدین علیہ الرحمۃ نے ۱۹۷۰ء ؍۱۳۹۰ھ میں ۵۴ سال کی عمر شریف م یں سفر حج وزیارت کے دوران سرکار بغداد حضرت غوث الاعظم پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار انوار پر حاضری دی۔ اس سفر میں حاجی انور توکلی، مولانا عبدالعزیز عرفی بھی ہمراہ تھے۔
یادگاریں
حضرت قاری مصلح الدین علیہ الرحمۃ نے واہ کینٹ کی امامت وخطابت کے دوران کچھ فتاوے تحریر فرمائے۔ وہ فتاوے بعض رسالوں میں چھپے بھی۔ اور ترمذی شریف کا ترجمہ بھی شروع فرمایا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کا ترجمہ ہوگیا۔ مگر علالت کی وجہ سے یہ ترجمہ نا مکمل رہ گیا۔
بزم رضا عرس کمیٹی کا قیام ۲۸؍زی الحجہ ۱۳۹۲ھ؍۱۹۷۲ء میں قاری مصلح الدین کی کوشش سے عمل میں ایا اور ۸؍رجب المرجب ؍ ۲۳؍مئی ۱۹۸۰ء؍ ۱۴۰۰ھ میں مدرسہ انوار القران کا سنگ بنیاد رکھا۔ ۱۴۰۱ھ؍۱۹۸۱ء میں ضیاء ٹیب لائبریری کا قیام عمل میں آیا اور دارالکتب حنفیہ مصلح الدین گارڈن کراچی بھی قاری مصلح الدین کی یادگاروں میں ہے۔
ہندوستان کا سفر
حضرت قاری مصلح الدین نےپاکستا جانے کے بعد ہندوستان کا تین مرتبہ سفر کیا۔ پہلا سفر چالیس سال کی عمر میں ۱۳۷۶ھ؍ ۱۹۵۶ء کو کیا۔ دوسرا سفر ۶۴سال کی عمر میں ۱۴۰۰ھ؍۱۹۸۰ء کو کیا۔ تیسری مرتبہ صفر المظفر ۱۹۸۱ء؍ ۱۴۰۲ھ میں حضور مفتی اعظم قدس سرہ کے چہلم میں شرکت کے لیے ہندوستان تشریف لائے۔
بیعت وخلافت
مولانا قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ زمانۂ تعلیم دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں بعمر بائیس سال ۱۱؍شعبان المعظم ۱۳۵۸ھ؍۱۹۴۰ء کو صدر الشریعہ حضرت مولانا محمد امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمۃ کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل کیا۔ فراغت کے بعد ناگپور میں جب قاری مصلح الدین خطیب مقرر ہوئے تو جامعہ رضویہ کے سالانہ اجلاس میں حضرت صدر الشریعہ علیہ تشریف لائے۔ اجلاس سے فارغ ہوکر چھلواڑہ ایک مقام ہے۔ وہاں تشریف لے گئے تو قاری مصلح الدین کو بھی ہمراہ لے گئے وہاں پہنچنے کے بعد حاجی عبدالقادر کے مکان پر ایک نعت خوانی کی مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں مولانا اشرف علی قادری اور مولوی نثار احمد مبارکپوری بھی تھے۔ اور وہاں کے مقامی حضرات بھی تھے۔ قاری مصلح نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے درخواست کی کہ میں حضرت علامہ جامی قدس سرہٗ کے الفاظ میں حضور کی وساطت سے بارگاہ رسالت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ صدر الشریعہ نے فرمایا ضرور تو قاری مصلح الدین نے ایک نعت شریف پڑھی جسکا ایک شعر یہ ہے:۔
یا محمد بمنِ بے سروساماں مددِ
قبلۂ دین مدد کعبۂ ایماں مدد
حضرت قاری مصلح الدین نے جب یہ نعت شریف پڑھی تو سب پر رقت طاری ہوگئی۔ حضرت صدر الشریعہ بھی زارو قطار ہے تھے۔ ابھی پوری نعت نہ ہو پائی تھی کہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ اُٹھے اور فرمانے لگے بہت عرصے سے میں چاہتا تھا کہ تم کو خلافت دوں آج میں تم کو خلافت دیتا ہوں۔ یہ واقعہ ۱۳۶۵ھ؍ ۱۹۴۵ء کا ہے۔
قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ کو ۶۱ سال کی عمر میں ۲۰؍رجب المرجب ۱۳۹۷ھ؍۱۹۷۷ء کو قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد مدنی رضوی علیہ الرحمۃ نے خلافت سے نوازا۔
۱۳۷۶ھ میں مولانا مصلح الدین بریلی شریف تشریف لائے۔ تو حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے خلافت کی تمنا لے کر حاضر ہوئے۔ مگر وہ وقت حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے عرس شریف کا تھا۔ حضرت مفتی اعطم قدس سرہٗ کی مصروفیت کے سبب دیرینہ خواہش کی تکمیل نہ ہوسکی۔ پھر قاری مصلح الدین نے ایک خط بنام حضور مفتی اعطم قدس سرہٗ لکھا، جس میں اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا۔
اس دوران حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ کا قیام جبلپور میں تھا۔ جب قاری مصلح الدین کا خط پہنچا تو حضور مفتی اعظم نے برہان الملت حضرت مولانا برہان الحق رضوی جبلپوری رحمۃ اللہ علیہ سے خط لکھواکر مبارکپور بنام قاری مصلح الدین روانہ ک یا۔ اور اس میں لکھا تھا کہ میں آپ سے ملنے مبارکپور ہی آرہا ہوں۔ آپ میرا وہیں انتظار کریں۔ قاری مصلح الدین نےمناسب نہ سمجھا کہ حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ میری خاطر اتنا طویل سفر برداشت کریں۔ فوراً ٹیلی گرام دیا کہ جبل پور میں حاجر ہورہا ہوں، چنانچہ قاری مسلحالدین جبل پور پہنچے اور حجور مفتی اعطم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ نے قاری مصلح الدین کو اجازت وخلافت سے نوازا۔ یہ واقعہ ۱۳۷۶ھ کا ہے۔ اس وقت قاری صاحب کی عمر چالیس سال تھی۔
اوصاف
علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ بڑے نیک پارسا اور متقی تھے۔ پرہیز گاری کا یہ عالم تھا کہ کوئی سبق بغیر وضو کے نہ پڑھاتے تھے اور نہ بے وضو رہتے تھے۔ خالی پیریڈ میں دارالعلوم امجدیہ کراچی میں اشراق کی نماز کی ادائیگی قاری مسلح الدین کا معمول تھا۔ حلم و بردباری کے مالک تھے۔ گو کہ ظرافت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ بہت کم گوتھے۔ ان کے تمام معاملات میں سنجیدگی تھی۔
ورزش بھی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ آپکے ساتھ ایک حادثہ پیش آیات۔ جس میں آپ کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ قاری مصلح الدین نے اپنے اس حادچہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا۔ وزشی جسم ہونے کے بنا پر تھوڑی سی ٹوٹ کر رہ گئی ورنہ چور چور ہوجاتی۔ اس چوٹ کے بعد قاری مصلح الدین کو چلنے میں تکلیف ہوتی تھی۔ اس کے باوجود تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ امامت وخطابت اور بندگان خدا کی خدمت مسلسل انجام دیتے رہے۔
خلفاء وتلامذہ
مولانا قاری مصلح علیہ الرحمۃ نے درس وتدریس کا سلسلہ ۱۳۷۵ھ؍ ۱۹۵۵ء میں دارالعلوم مظہریہ آرام باغ کراچی سے شروع کیا۔ اور ۱۳۸۶ھ؍ ۱۹۶۶ء کو دارالعلوم امجدیہ کراچی میں مسند تدریس کو زینت بخشی ۔ اس دوران جن حضرات نے قاری مصلح الدین سے پڑھا ان کی فہرست طویل ہے مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری داماد و جانشین
۲۔ مولانا عبدالعظیم قادری
۳۔ مولانا سید یوسف بخاری
۴۔ مولانا عبدالعزیزی عرفی خلیفہ حضرت السید عبدالقادری الگیلانی
۵۔ مولانا جلال الدین احمد نوری
۶۔ مولانا محمد حسن حقانی دارالعلوم امجدیہ کراچی (متوفّٰی: رجب المرجب ۱۴۳۰ھ/۲۰۰۹ء)
۷۔ مولانا عبدالباری صدیقی لیکچر اراسلامیہ کالج کراچی
۸۔ مولانا احمد میاں برکاتی مہتمم دارالعلوم احسن البرکات حیدر آباد
۹۔ مولانا عبدالعزیز حنفی امام وخطیب مسجد فاروق اعظم
۱۰۔ مولانا حبیب احمد مدرس دارالعلوم امجدیہ ٹیچر
۱۱۔ قاری مقصود اسلام خطیب وارثی جامع مسجد حسرت موہانی کالونی کراچی
۱۲۔ مولانا شاہدین اشرفی۔ خطیب قوت الاسلام مسجد لیاقت آباد کراچی
۱۳۔ مولانا مختار احمد خطیب غوثیہ مسجد لیاقت آباد
۱۴۔ مولانا افتخار احمد مدرس دارالعلوم امجدیہ کراچی
۱۵۔ مولانا محمد فاروق القادری مدرس دارالعلوم امجدیہ کراچی
۱۶۔ مولانا محمد اسماعیل دارالعلوم امجدیہ کراچی
۱۷۔ مولانا حافظ احمد میاں دہلوی مرحوم
۱۸۔ مولانا عبدالستار مدرس و تنظم دارالعلوم امجدیہ کراچی
۱۹۔ مولانا محمد قاسم بریلوی مقیم حال بلوچستان
انتقال پر ملال
حضرت قاری مصلح الدین نے ۷؍جمادی الثانی؍۲۳؍مارچ (۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء) بروز بدھ بوقت ساڑھے چار بجے سہ پہر داعی اجل کو لبیک کہا۔ قاری مصلح الدین کا انتقال اچانک ہوا۔ منگل بدھ کی درمیانی شب میں بعد نماز عشاء عرس حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کی محفل میں شرکت فرمائی۔ یہ محفل میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں منعقد ہوئی تھی۔ قاری مصلح الدین کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے کم و بیش تیس ہزار فرزندان توحید مصلح الدین گارڈن میں جمع ہوئے۔ جمعرات کے روز تقریباً ساڑھے دس بجے صبح جانشین مفتی اعظم محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور م سجد سے ملحق مصلح الدین گارڈن میں سپرد خاک کردیا گیا۔
جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ ایصال ثواب کا بڑے پیماے پر اہتمام ہوا اس موقع پر حضرت جانشین مفتی اعظم دامت وبرکاتہم القدسیہ نے فاتحہ ودعاء سے فارغ ہوکر مولانا شاہ تراب الحق قادری رضوی کو حضرت قاری مصلح الدین کا جانشین مقرر فرمایا۔ اور اپنے دست مبارک سے ہزاروں کے اجتماع میں دستار بندی فرمائی۔
تاریخ وفات
از حضرت مفتی تقدس علی خاں رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
تودین کا مصلح تھا اے جامع عرفان
توزہد میں تقویٰ میں بے مثل تھا لاثانی
ہاتف نے کہا مجھ سے یہ سالِ وفات اسکا
بے شک و شنبہ کہدو تم ہے مغفرت ربانی [1]
۱۹۳۸ء
[1] ۔ مندرجہ بالا حالات عرفان منزل مصلح الدین نمبر مطبوعہ دارالکتب حنفیہ کراچی سے ماخوذ ہیں۔ مضامین از مولانا حکیم ابو الحسان۔ محمد رمضان علی قادری علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری رضوی، مولانا غلام محمد قادری۔ ۱۲،رضوی غفرلہٗ
--------------------------------
صدیقی
مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی کی ولادت ۱۱، ربیع الاول ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹۱۷ء بروز پیر بوقت صبح صادق بمقام قند ھار شریف ضلع نادیڑ ریاست حیدرآباد دکن ( انڈیا) میںہوئی ۔ آ پ کے والد ماجد کا نام مولانا غلام جیلانی ہے۔ جو بڑے عالم اور صوفی باصفا تھے ان کی تمام عمر خطابت و امامت میں بسر ہوئی ۔ آپ کے حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارکپوری ؒ سے بڑے اچھے اور گہرے تعلقات تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان تشریف لائے، جامع مسجد سید معصوم شاہ بخاری پولیس چوکی کھارادر میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیئے اور اکثر میمن برادری کے افراد کو صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پاک تجویذ سے پڑھا یا ، آ پ کا مزار شریف کراچی میں میں میوہ شاہ قبرستان میں ہے۔
قاری صاحب نے بعمر ۱۴سال ۱۳۵۰ھ میںاپنے والد ماجد سے قرآن مجید حفظ کیا اور آپ کے والد کے دوست حضرت مولانا عبدالعزیز مبارکپوریؒ نے تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر آ پ کی دستار بندی فرمائی ۔ ان دنوں مولانا عبدالعزیز مبارکپوری مدرسہ معینہ عثمانیہ اجمیر شریف میںزیر تعلیم تھے۔ قاری صاحب نے اسکول میں ساتویں جماعت پاس کرنے کے بعدمزید دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بعمر ۱۷سال ۱۳۵۴ھ بمطابق ۱۹۳۵ء میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ( یو۔ پی انڈیا ) میں داخلہ لیا اور وہاں آٹھ سال تک زیر تعلیم رہے۔
۱۹۴۳ء میں حافظ ملت مولانا عبدالعزیز محدث مبارکپوری ؒ قصبہ مبارکپور کے دارالعلوم اشرفیہ سے بعض اختلافات کی وجہ سے جامعہ عربیہ نا گپور تشریف لے گئے تو حضرت قاری صاحب بھی اپنے استاد محترم کے ساتھ جامعہ عربیہ ناگپور میں منتقل ہو گئے۔ اسی جامعہ میں فارغ التحصیل ہوئے اور وہیں علامہ سید محمد محدث کچھو چھوی ؒ کی موجودگی میں آپ کی دستار بندی ہوئی۔
قاری صاحب کے استاتذہ کرام کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
٭ حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارکپوری
٭ حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان بریلوی
٭ صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی
٭ مولانا محمد سلیمان بھا گلپوری
٭ مولانا ثناء اللہ اعظم گڑھی
٭ مولانا غلام جیلانی صدیقی ( والد صاحب)وغیر ہم
بیعت و خلافت:
کتب متدولہ کی تکمیل کے بعد آپ علوم باطنی کی تحصیل و تکمیل کی جانب متوجہ ہوئے اور آپ نے جامع شریعت و طریقت حضرت مفتی امجد علی اعظمی ؒ ( مصنف بہار شریعت ) سے بیعت کی اور تیزی کے ساتھ منازل سلوک طے کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں منزل تکمیل و کمال تک جا پہنچے ۔ چنانچہ ایک دن آپ اپنے پیر و مرشد کے ساتھ محفل نعت میں بیٹھے تھے کہ پیرو مرشد نے آپ سے نعت سنانے کی فرمائش کی آپ نے بڑے سوزو گداز کے ساتھ عارف باللہ مولانا جامی قدس سرہ کی فارسی نعت شریف پڑھی ۔ اور اس شان سے نعت سنائی کہ تمام حاضرین پر عالم سوزو گداز میں وجد کی حالت طاری ہو گئی۔ اس پر حضرت علامہ امجد علی اعظمی قادری رضوی نے اسی مجلس میں خلعت خلافت سے نواز کر اپنا خلیفہ بنا لیا۔
اس کے علاوہ آپ کو مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان بریلوی اور قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی قادری رضوی سے بھی خلافتیں عطا ہوئیں ۔
شادی خانہ آبادی :
آپ کی شادی خانہ آبادی ۲۴ سال کی عمر میں فاروقی قاضی خاندا ن میں انعقاد پذیر ہوئی ۔ جس سے آپ کی دو صاحبزادیاں ہیں دوسری شادی ۳۰ برس کی عمر میں بمقام جبل پور میں صوفی محمد حسین عباسی کی صاحبزادی سے منعقد ہوئی ۔ جس سے ایک صاحبزادی اور تین صاحبزادے ہیں ۔
۱۔ صلاح الدین صدیقی
۲۔ مصباح الدین صدیقی
۳۔ معین الدین صدیقی
تینوں صاحبزادے فی الحال سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں اور صاحب اولاد ہیں ۔
پاکستان میں تشریف آوری :
تقسیم ملک و قیام پاکستان کے بعد آپ ہجرت کر کے ۱۹۴۹ء میں کراچی تشریف لائے۔ ابتداء میں آپ کچھ عرصہ دارالعلوم امجد یہ آرام باغ گاڑی کھاتہ میں مقیم رہے۔ ۱۹۵۰ء میں آپ اخوند مسجد کھارادر میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ یہاں آپ نے ۱۹ سال خدمات سر انجام دیں ۔ اسی دوران تقریبا ڈیڑھ سال آپ نے مرکزی جامع مسجد واہ کینٹ ضلع راولپنڈی میں فرائض امامت و خطابت سر انجام دیئے ۔ ۱۹۶۹ء میں آپ میمن مسجد مصلح الدین ( کھوڑی) گارڈن میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ جہاں آپ نے چودہ سال خدمات سر انجام دیں۔
درس و تدریس :
آپ امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ دارالعلوم امجد یہ میں تقریبا پندرہ برس تک بطور مدرس بڑی مہارت کے ساتھ درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
مولانا محمد حسن حقانی رقمطراز ہیں :
امجد یہ کے ہر طالب علم نے درجہ ثانیہ اور ثالثہ کے بعدقاری صاحب سے ضرور پڑھا ہے ۔ ان میں سے چند نام درج ذیل ہیں :۔
پروفیسر ڈاکٹر مولانا عبدلباری صدیقی ملیر ؍ٹھٹھہ ۔
٭ مفتی احمد میاں برکاتی حید ر آباد ۔
٭ مفتی عبدالعزیز حنفی کراچی
٭ مولانا حبیب احمد مدرس دارالعلوم امجد یہ کراچی
٭ قاری مقصود الاسلام سابق خطیب وارثی جامع مسجد حسرت موہانی کالونی منگھوپیر روڈ کراچی
زیارت حرمین شریفین و ادائیگی حج :
آپ نے ۱۹۵۴ء میں پہلا حج ادا فرمایا۔ اس سفر حج میں عبدالشکور مرحوم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس حج کے دوران جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو مولانا ضیاء الدین مدنی ؒ سے پہلی مرتبہ آپ کی ملاقات ہوئی ۔ مولانا ضیاء الدین مدنی آپ سے مل کر بے حد مسرورہوئے اور قاری صاحب کو ساتھ لے کر سر کار دو عالم ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری دی ، بار گاہ رسالت میں ہدیہ صلوۃ سلام عرض کرنے کے بعد امیر الموٗمنین سید نا ابو بکر صدیق اور امیر المومنین سید نا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے حضور نذر انہ عقیدت و سلام عرض کیا ۔ قاری صاحب نے اپنی حیات دنیوی میں بارہ ( ۱۲) مرتبہ زیارت حرمین شریفین کے لئے سفر کیا، یعنی آپ نے کل بارہ حج کئے۔
ہر مرتبہ آپ حج کو روانہ ہونے سے قبل حضرت امام الاولیاء سید علی ہجویری غزنوی المعروف داتا گنج بخش قدس سرہ الاقدس کے مزار پر انوار پر لاہور ضرور ہوتے تھے اور فرماتے کہ میرے حج کے لئے ویزا یہیں سے لگتا ہے۔
بغداد شریف حاضری :
۱۹۷۰ء میں سفر حج کے دوران آپ نے سر کار غوث اعظم ، محبوب سبحانی ، قطب ربانی ، مرشد حقائی ، پیران پیر دستگیر حضرت سید عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی قدس اللہ باسرارہ کے مزار شریف پر حاضری دی اس سفر میں حاجی انور توکل اور جناب پیر عبدالعزیز عرفی ایڈوکیٹ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
ؒخلفاء :
آپ نے مسند رشد وار شاد پر فائز ہو کر سینکڑوں لوگوں کو فیضیا ب کیا اور اپنے مریدوں اور محبت یافتہ میں سے دو حضرات کو چن کر انہیں اپنی خلافت سے سر فراز کیا جو کہ آپ کے توسط سے مخلوق خدا کو سیراب کر رہے ہیں ۔ ان ے نام حسب ذیل ہیں :
۱۔ حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ ( خلیفہ ، جانشین اور داماد )
۲۔ مولانا عبدالعظیم صاحب قادری مدظلہ ( فاضل دارالعلوم امجد یہ ، کراچی ، حال مقیم بنگلہ دیش )
انہوں نے اپنی حیات دنیوی میں اپنی زندگی کو درس توحید و رسالت کے لئے وقف کر دیا تھا ۔ ہر لمحہ اشاعت دین میں مصروف رہے۔ بلا خوف لومۃ لائم اعلائے کلمۃ الحق کو اپنا نصب العین بنائے رکھا اور مذہب مہذب مسلک اہل سنت و جماعت کی تبلیغ اور فروغ کے سلسلہ میں کوئی وقیقیہ فرو گزاشت نہ کیا۔ آپ کی سیرت اور کردار سے صاف عیاں ہے کہ آپ کی نگاہ میں دنیا داروں کی کچھ بھی وقعت نہ تھی۔
آپ نے مال و زراور مفادات دنیاوی کے حصول کی طرف ہر گز توجہ نہ کی ۔ بلکہ ہر م رضائے خدا عزوجل و رضا ئے مصطفی ﷺ حاصل کرنے میں کوشاں رہے۔ المختصر آپ نے عملی طور پر موجودہ دور کے جاہ پرست و دنیا طلب علماء و مشائخ کو بھی دنیا میں رہتے ہوئے ترک دنیا کا درس دیا اور اپنے ہر قول وہر فعل کے ذریعہ
ولا تو طرز تعلق زمرغ آبی جو
اگر چہ عرق بہ دریاست خشک پر برخواست
کا مطلب سمجھانے کی جدوجہد کی۔ آپ مقبولیت و محبوبیت کا مقا م حاصل کرنے کا طریقہ سکھا گئے اور طلب الدنیا مونث و طالب العقبی مخنث و طالب المولیٰ مذکر، کی تشریح واضح کر گئے ۔
انتقال پر ملال :
۷، جمادی الآخر ۱۴۰۳ھ؍ بمطابق ۲۳، مارچ ۱۹۸۳ء بروز بدھ بوقت ساڑھے چار بجے سہہ پہر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا انتقال اچانک ہوا۔ منگل بدھ کی درمیانی شب بعد نماز عشاء آپ نے حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان ؒ کے عرس مبارک کی محفل میں شرکت فرمائی۔ یہ محفل میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں منعقد ہوئی تھی۔ اس محفل میں قاری صاحب کے علاوہ بریلی شریف سے حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان الازہری صاحب آئے ہوئے تھے اور علامہ شاہ تراب الحق قادری صاحب بھی شریک ہوئے۔
قاری صاحب نے خطاب فرمایا اور دیگر علماء کرام نے بھی تقاریر فرمائی ۔ موضوع تھا ’’روح اور موت ‘‘ اسی بدھ کے دن نماز ظہر کی امامت فرما کر اپنے دولت خانہ میں تشریف لے گئے اور کاٹھیا روار ہال آدم جی نگر میں محفل گیارہویں شریف میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک آپ پر دل کا دورہ پڑا۔ آپ کو بغرض علاج لے جایا جا رہا تھا کہ بوقت ساڑھے چا ر بجے سہہ پہرراستہ ہی میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کے انتقال کے سانحہ کی خبر سن کر سب حیران رہ گئے اور پریشانی واضطراب کے عالم میں آپ کے مکا ن پر جمع ہونے لگے ۔ بروز جمعرات آپ کی نماز جنازہ میں شریک کے لئے کم و بیش ۳۰ ہزار فرزندان اسلام مصلح الدین گار ڈن پہنچ گئے۔ تقریبا ساڑھے دس بجے صبح ، نماز جنازہ مفتی اختر رضا خان صاحب نے پڑھائی اور آپ کو مسجد سے ملحق مصلح الدین گارڈن میں سپرد خاک کیا گیا۔
(ماخوذ: عرفان منزل مطبوعہ کراچی ۱۹۸۵ء )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)